متفرق مضامین

جنّات کی حقیقت (قسط ششم)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

جنات سے متعلق متعدد ایسے بنیادی سوالات کا ذکر جن کا جواب گذشتہ 19اقتباسات میں نہیں تھا

(گذشتہ سے پیوستہ)مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے چودہ علماء و مفسّرین کے گذشتہ اقساط میں 19 مختلف اقتباسات اور تشریحات پر یکجائی نظر ڈالیں تو متعدد ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب کسی نے نہیں دیا۔

1۔قرآنی بیان اور علماء کے متفقہ عقیدے کے مطابق جِنّات ناری مخلوق ہے ، اور جزا و سزا کا عمل ان پر بھی لاگو ہوکا، مگر آگ کو آگ کیسے جلائے گی کسی مفسّر نے اس کی وضاحت نہیں کی۔

2۔جِنّات علم ِغیب نہیں رکھتے تو غیب کی خبریں کیسے دیتے ہیں۔

3۔یَخَافُوۡنَ رَبَّہُمۡ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ۔(النحل: 51)

وہ اپنے اوپر غالب ربّ سے ڈرتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

اس ارشادِ ربّانی کے مطابق فرشتے اپنے رب کے حکم سے سرِمُو انحراف نہیں کرتے ۔ مگر ابلیس ایک لاکھ سال تک فرشتہ رہنے ،باقی فرشتوں کو وعظ کرنے، آسمانِ دنیا کا رئیس ہونے، فرشتوں کا مرشد اوران سے زیادہ علم والا ہونے کے باوجود کیسے نافرمان ہو گیا۔

4۔کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ۔(الکہف:51)

وہ جِنّوں میں سے تھا پس وہ اپنے ربّ کے حکم سے رُوگردان ہوگیا۔

اس ارشادِقرآنی کے مطابق ابلیس تھا ہی جِنّوں میں سے، پھر وہ کب اور کیسے فرشتوں میں داخل ہوا۔

5۔جِنّات آسمانوں کا سفر کیسے کرتے تھے ،اور ان کے پاس کون سی سلطان تھی۔

6۔حضرت سلیمان علیہ السلام ایک سال تک عصا کے سہارے کھڑے رہے، جِنّات تو اپنے کام میں مشغول دور دور سے ہی ان کو دیکھتے رہے، مگر ان کے اہل و عیال اور دیگر خدمت گزاروں میں سے بھی کسی نے ان کی خبر گیری نہ کی اور قریب جاکر نہ دیکھا۔

7۔ قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ اَنۡتَ وَلِیُّنَا مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ بَلۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ (سباء :42)

کسی نے وضاحت نہیں کی کہ جِنّوں کی کون اور کیسے عبادت کرتا تھا۔

8۔قدرت کے عام جاری اصول کہ آگ جلاتی ہے اور پانی بجھاتا ہے کےبر عکس آگ سے بنے جِنّات پانی میں کیسے غوطے لگاتے تھے۔

9۔ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا (الاحزاب:63)

اور تُو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔ کا اصول ازل تا ابد جاری رہے گا۔ پھر بھی سلیمان کے زمانہ میں عوام الناس کو نظر آنے والے جِنّ بعد میں نظر آنا کیوں بند ہو گئے۔

10۔وَ اَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا (النساء : 80)

اور ہم نے تجھے سب انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ بطور گواہ کافی ہے۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ(الاعراف :159)

۔تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ۔(سبا :29)

اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ان محكم اور واضح آيات كے ہوتے ہوئے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جِنّات کے رسول کیسے ثابت ہوتے ہیں، اور جِنّ آپ کی امت کا حصہ کیسے بن گئے۔

11۔ھُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ(البقرۃ :26)۔

وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔اور

عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ (ہود :109) ۔

یہ ایک نہ کاٹی جانے والی جزا کے طور پر ہوگا۔جنّت کے متعلق بیان کردہ اس واضح قرآنی اصول کے برعکس جِنّات کچھ عرصہ کی جزا یا سزاکے بعد نابود کیوں کر دیے جائیں گے۔

12۔علماء و مفسرین کی متفقہ آرا کے مطابق جِنّات کی تسخیر کا عمل گناہِ کبیرہ ہے، اور ایسے لوگ جو ان کاموں میں ملوث ہوں ان کے پاس جانا اور سوالات کرناحرام ہیں، اور ایسا کرناانسان کو جہنمی بنا دیتاہے۔ پھر بھی گلی گلی شہر شہر یہ عمل کیسے جاری ہے۔

13۔حکمت و دانائی کے شہنشاہ صادق و مصدوق ﷺ کی زبان مبارک نے نکلی ہوئی جِنّات کی تین اقسام والی حدیث کئی مفسرین نے نقل کی ، مگر کسی نے تیسری قسم ’’جو خیمے لگاتے اور اکھاڑتے ہیں‘‘یا نقل مکانی کرتے رہتے ہیں والی قسم پر روشنی نہیں ڈالی کہ یہ جِنّات کون ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب سیرۃ الرسولﷺ کی جلد سوم کے آخر میں ’’مصطفوی تحریک میں جِنّات کا حصہ‘‘کے عنوان سے ایک باب لکھا ہے۔ موصوف بیان کرتے ہیں:’’طائف سے واپسی پر نخلہ میں قیام کے دوران قدرت نے ایسے اسباب پیدا فرمائے ، اور ایک ایسی مخلوق کو ادھر بھیج دیا جو نظر نہیں آتی تھی ۔یہ جِنّات کی ایک جماعت تھی جو ادھر سے گزر رہی تھی، حضور ﷺ کو دیکھا تو ٹھٹھک کر رہ گئی ، اس وقت رسول اکرم ﷺ نماز فجر میں تلاوت قرآن پاک فرمارہے تھے۔وہ کلام کی شیرینی میں کھو گئے۔ انہوں نے ایسا پر تاثیر کلام کبھی نہیں سنا تھا۔وجدو سرور نے سب کو بے خود بنا دیا، انہماک سے سننے اور سمجھنے کے لئے انہوں نے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔قرآن نے ان لمحات کی منظر کشی یوں کی ہے:

وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۔(سورۃ الاحقاف 46آیت 30)۔

اے ہمارے رسول! یاد کیجئےوہ وقت جب ہم نے جنّات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سن سکیں ، جب وہ وہاں پہنچے تو بولے :خاموش رہو، اور غور سے سنو!۔یہاں کے انسانوں نے اُسے سننے اور قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ، جب ایک نادیدہ مخلوق نے اسے سن کر دل و جان سے قبول کرنے کے لئے شوق کا اظہار کیا تو سرور کائنات ﷺ کی خوشی کی انتہا ءنہ رہی…حضرت عبداللہ بن عباس ؓ راوی ہیں کہ علاقہ نصیبین کے یہ سات یا نو جِن ّتھے جنہیں حضور ﷺ نے نمائندگی عطا کی ، اور حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی قوم میں جاکرتبلیغ اسلام کریں۔ علامہ عینی نے اسی مقام پر ان جِنّات کے اسمائے گرامی بھی درج کئے ہیں، وہ یہ ہیں: سامر، مامر، منسی ، احقب ، زوبعہ ، سرق اور عمر وبن جابر ۔قرآن پاک سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جِنّات بہترین مبلغ ثابت ہوئے ، انہوں نے اپنی قوم میں جاکر مصطفوی انقلاب کی دھوم مچا دی ، اور تبلیغ کا حق ادا کر دیا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک زور پکڑ گئی اور جب یہ لوگ دوبارہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو تین سو کے قریب تھے،اور اس کے بعد تو ان کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہو گئی ۔ ان کے اسلوب تبلیغ کو قرآن پاک نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

قَالُوۡا یٰقَوۡمَنَاۤ اِنَّا سَمِعۡنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ یَہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ وَ اِلٰی طَرِیۡقٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔ یٰقَوۡمَنَاۤ اَجِیۡبُوۡا دَاعِیَ اللّٰہِ وَ اٰمِنُوۡا بِہٖ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُجِرۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ۔وَ مَنۡ لَّا یُجِبۡ دَاعِیَ اللّٰہِ فَلَیۡسَ بِمُعۡجِزٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَیۡسَ لَہٗ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءُ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔(سورۃ الاحقاف 46آیات 31تا33)

جِنات نے کہا اے ہماری قوم!ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰؑ کے بعد نازل کی گئی ہے اور جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اس کی بھی مصدق ہے ، اور حق و صداقت اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے قوم اللہ کے داعی کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ، وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور عذاب الیم سے بچائے گا۔لیکن جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہیں کرے گا تو وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اس قماش کے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ جِنّات کو مصطفوی انقلاب کے لئے تبلیغ کی جو ذمہ داری سونپی گئی انہوں نے اسے صرف اپنی قوم اور علاقے تک محدود نہ رکھا ، بلکہ اُسے انسانی معاشروں تک وسیع کر دیا ۔ انسانی مبلغین جو فریضہ انجام نہیں دے سکتے تھے وہ انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا اور بطریق احسن انجام دیا۔ مصطفوی انقلاب کے لئے یہ ان کا وہ اقدام تھا جسے بارگاہِ نبوی میں بھی پذیرائی نصیب ہوئی ۔ آپ نے ان کے طرز عمل اور طریق کار کو خوب سراہا اور پسند کیا اور صحابہ کرام کو بھی ان کے کارناموں سے آگاہ فرمایا …اہل مکہ کے فاسد نظریات اور ضلالت و گمراہی کو تحفظ دینے کے لئے سرکش شیطانی قوتیں بھی میدان عمل میں آگئیں …کافر جِنّات اور شیطانوں نے بتوں میں گھس کر جگہ جگہ یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ اے لوگو تم اپنے آباؤ اجداد کے درست راستے پر ہو ، نئے دین نے بہت سے لوگوں کو پٹڑی سے اتار دیا ہے ، تم ان کے خلاف ڈٹ جاؤ جس طرح ہو سکے طاقت استعمال کرکے انہیں پیس ڈالو…بعض جِنّات نے ذبح شدہ جانوروں کے اندر بولنا شروع کر دیا ۔ کچھ سرکش جِنّات پہاڑوں پر چڑھ گئے اور انہوں نے اسی قسم کا ہیجان انگیز اعلان کیا جسے انسانوں نے سنا…بتوں اور ذبح شدہ جانوروں کے اندر سے آنے والی غیبی آوازوں سے پیدا شدہ صورتِ حال کا اُسی انداز سے مقابلہ کرناانسانوں کے بس کا کام نہ تھا ، یہ ایک ایسی مخلوق ہی انجام دے سکتی تھی جو انہی کی طرح ہو بلکہ قوت و طاقت میں ان پر فائق ہو۔ مصطفوی انقلاب کے اس نازک موڑ پر یہ فریضہ مسلمان جِنّات نے انجام دیا ۔ انہوں نے کافر جِنّات اور شیطان کا ہر مقام پر پیچھا کیا اور ہر محاذ پر بھر پور مقابلہ کیا اور ہر جگہ انہیں شکست فاش دی اور مسلمانوں کو ایسا تحفظ فراہم کیا جو انہی کا حصہ تھا…جعد بن قیس عرب کے معمر اور نامور شاعر تھے ،حج کے سفر کے دوران وادی یمن میں انہوں نے ایک غیبی آواز سنی کہ’’جب حطیم شریف اور زمزم کے پاس پہنچو تو حضور محمد مصطفیٰ ﷺ تک ہمارا سلام پہنچا دینا … ہم آپ کے دین کے مددگار ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیں اس بات کی وصیت کی ہوئی ہے‘‘۔ اسلوب کلام سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دوسرے جِنّات تھے ، اور وادی نصیبین کے جِنّات جنہوں نے وادیٔ نخلہ میں سرکار کی بیعت کی تھی وہ اور ہیں ، کیونکہ قرآن پاک میں ہے ، انہوں نے اپنے علاقہ میں جاکر یہ کہا تھا کہ ’’ہم نے ایک ایسی کتاب کی تلاوت سنی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل ہوئی ہے‘‘۔گویا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار تھے جو مسلمان ہو گئے ، اور یہ جن جو وادی یمن میں ان لوگوں سے ہمکلام ہوئے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کار تھے۔ اسی لئے انہوں نے خود کو ان کی طرف منسوب کیا اور بتایا وہ ان کی وصیت پر عمل کر رہے ہیں۔ شواہد و واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عیسائی جِنّات جو مسلمان ہو کر مصطفوی تحریک میں شامل ہو گئے تھے ۔ یہ حضور ﷺ کی بعثت کے وقت ہی انقلاب کا ہراول دستہ بن گئے تھے ، اور انہوں نے ذبیحہ جانوروں اور بتوں کے اندر بولنے والے کافر جِنّات کو ہلاک کرکے توحید و رسالت کی دعوت کا راستہ ہموار کرنا شروع کیا ہواتھا۔اس کے علاوہ جنگلوں اور بیابانوں میں قیام پذیر لوگوں تک بھی یہ پیغام حق پہنچاتے تھے۔ چنانچہ ان کی دعوت اور کوشش سے بہت سے لوگ راہِ راست پر آئے…پس مومن جِنّات سرگرمی کے ساتھ میدان عمل میں تھے … جس طرح بھی ان سے بَن پڑا اُنہوں نے اس پیغام کو عام کیا ، اور جو کام مسلمان انسان نہیں کر سکتے تھے وہ کام انہوں نے کیا اور روزِ اوّل سے ہی مصطفوی انقلاب کے لئے کوشاں رہے اور اسے سعادت سمجھ کر انجام دیتے رہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جِنّات مصطفوی انقلاب کی تحریک میں انسانوں سے پیچھے نہیں تھے ، بلکہ اپنی بساط و طاقت کے مطابق بھرپور کردار ادا کر رہے تھے ، اور تبلیغ دین میں زبردست حصہ لے رہے تھے ۔ اپنی قوم جِنّات کو بھی راہِ راست پہ لائے اور بہت سے انسانوں کے لئے بھی رشدو ہدایت کا ذریعہ بنے ۔‘‘

(سیرۃ الرّسول، جلد سوئم۔صفحہ 545تا555۔ایڈیشن مئی 2017ء۔ منہاج القرآن پبلی کیشنز لاہور)

عصر حاضر کےمفکّر ومحقق شیخ الاسلام کو حضرت بلال بن رباح ؓکی اَحَدْ اَحَدْ کی آواز سنائی نہیں دی ، آل یاسر کا صبر دکھائی نہیں دیا ۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ بِاَبِی الْحَکَمِ بْنِ ھِشامٍ اَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ۔

(اے اللہ تو عمر وبن ہشام اورعمر ابن الخطاب میں سے کوئی ایک ضرور اسلام کو عطا فرما)والی دعا کی طرف دھیان نہیں گیا، شعب ابی طالب میں محصور بھوکے پیاسے اور بلکتے بچوں کی آہ و زاری اُن کے کانوں تک نہیں پہنچی،انہیں نظر آئے تو ’’سامر، مامر‘‘۔ رب العرش کے وعدوں پر کامل بھروسہ اور یقین رکھنے والے عبدِکامل کی بدر کے میدان میں انتہائی کرب کے ساتھ کی جانے والی دعا:

اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھلِکْ ھَذِہِ الْعَصَا بَةَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ

پر غور کا موقع نہیں ملا کہ کون کس کو کیا واسطہ دے کر مانگ رہا ہے۔ محمد عربی ﷺ ان مٹھی بھر جاںنثاروں کی زندگی کےخواہاں تھے،تا توحید کے پرستار اور خدائے واحد و یگانہ کے حضور سر بسجود ہونے والے لوگ قائم رہیں ۔ کیا آپﷺ نہیں جانتے تھے کہ چند سال قبل جِنّات کی قوم آپ کی بیعت کر چکی ہے اوران کی تبلیغ کا دائرہ انسانی معاشروں تک وسیع ہو چکا ہے، وہ دن رات انقلاب کے لیے کوشاں ہیں اور ان کی بدولت اسلام قائم رہے گا۔

دکھوں ، آزمائشوں اور ابتلاؤں کی چکی میں پیسے جانے والے صحابہ بھی :

مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ

کی التجا لیے اللہ ہی کی مدد کے منتظر ومتلاشی تھے ۔جِنّات کی مددو نصرت انہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔

’’مصطفوی انقلاب‘‘ کیسے آیا ، اِس زمانے کے صاحب عرفان کی زبانی سنیے:’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گذرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے ۔ اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے ، اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے ۔ اور دُنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اُس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔ اور نہ کسی کان نے سُنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا ۔ اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلَّمْ وَبَارکْ عَلَیْه وَآلِه بِعَدَدِ ھَمِّه وَغَمِّه وَحُزنِه لِھٰذہ الُامَّةِ وَاُنْزِل عَلَیْه اَنْوَار رَحْمَتِکَ الی الاَبْد۔‘‘

(برکات الدعاء،روحانی خزائن جلد 6،صفحہ 10تا11)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button