یادِ رفتگاں

حضرت صوفی نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکے از 313 اصحاب احمد

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: اس سلسلہ میں داخل ہونےوالے محبت اور اخلاص کے رنگ سےایک عجیب طرز پر رنگین ہیں

سورۃ الجمعہ کی آیت4 میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر کیا گیاہے۔یہ بعثت ثانیہ اس جماعت میں مقدر تھی جو

لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ

یعنی صحابہ کی پہلی جماعت سےابھی نہیں ملے تھے۔اس کا تفصیلی ذکر صحیح بخاری میں موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و رحم کرتے ہوئےحضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو آنحضرتؐ کا کامل بروز بنا کر مبعوث فرمایا۔اور آپ کو مسیح موعود و مہدی موعود کے عالی مقام سے سرفراز فرمایا۔بلکہ ان سب سے بڑھ کر آپ کو آنحضرت ؐ کی کامل غلامی کے نتیجے میں ’’ظلی نبوت ‘‘کا مقام عطا فرمایا۔

آپؑ کے دعویٰ کے نتیجے میں نیک اور سعید روحوں کی اللہ تعالیٰ نےراہ نمائی فرمائی اور اُنہیں کشاں کشاں امام الزمان کے در پرپہنچا دیا۔انہی نیک، خوش نصیب اور سعید فطرت لوگوںمیںحضرت صوفی نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔آپؓ کوزمانے کےامام کو دیکھنے، اُن پر ایمان لانے اور آپ کی پاک صحبت سے مستفیض ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔آپؓ نے1891ء میںامام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔

اسی طرح آپؓ ابتدائی اصحاب احمد میں شامل تھے۔آپ کو یہ خوش نصیبی بھی حاصل ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم میںآنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے ضمن میں جب اپنے خاص 313 اصحاب کا ذکر فرمایا۔تواُن میں حضرت صوفی نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی 73ویں نمبر میں شامل فرمایا۔انہی خاص 313 اصحاب کے بارے میں ایک مقام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے خاص احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتےہیں:

’’…مَیں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر ادا کرنے کے بغیرنہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔میرےساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں اور اس سلسلہ میں داخل ہونےوالے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنےہاتھ سے قائم کیا ہےمحبت اور اخلاص کے رنگ سےایک عجیب طرز پر رنگین ہیں۔نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سےیہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35)

حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ نے27؍دسمبر 1891ء کو بیعت کی۔لیکن اس سے قبل ہی آپ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اور رابطہ پیدا ہو چکا تھا۔سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی مختلف کتابوں میں آپ کا نام نبی بخش صاحب۔میاںنبی بخش صاحب، منشی نبی بخش صاحب۔بابو نبی بخش صاحب بھی درج ہے۔آپ کو راولپنڈی، پاکستان کےپہلے احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے۔آپ نے اپنے حالات اور روایات اخبار الحکم14؍اپریل 1935ء میں درج کی ہیں۔اُن کی اور دیگر مواد کی روشنی میںآپ کی کچھ روایات درج کی جا رہی ہیں۔ان روایات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کے کئی گوشےہمارےسامنےعیاںہوتےہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان نیک نصائح پر عمل کرنےوالےہوں۔آمین۔

حضرت مسیح موعود ؑسےحضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ کی پہلی ملاقات

حضرت صوفی نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتےہیں کہ’’13 جون1886ء کا واقعہ ہے پنڈت لیکھرام پشاوری نےایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اشتہار کی مخالفت میں شائع کیا۔جس میں آنجناب نے ایک بشیر لڑکے کی پیدائش کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔

اس اشتہار میں پنڈٹ لیکھرام نے اپنی فطرت کے مطابق دشنام دہی اور سبّ و شم سے کام لیا۔اتفاقاً وہ اشتہار میری نظر سے بھی گذرا۔میں نے استفسار کے طور پر حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ لکھا لیکن بباعث عدم علم ایسےطرز سے لکھا گیا کہ حضور نے مجھے معاندین میںسے تصور کیا۔

الاعمال بالنیات خیریہ گذری کہ حضرت صاحب نے چند مخلص دوستوں سے بذریعہ خط وکتابت خاکسار کی نسبت دریافت فرمایا۔جنہوں نےازراہ کرم حضور کی تسلی کی اور لکھا کہ یہ شخص ہمیشہ سے مداح رہا ہے۔اس کے بعد آپ نے ایک اشتہار شائع کیا۔جس کےعنوان میں یہ شعر درج تھا۔

ہم نے الفت میں تری بار اُٹھایا کیا کیا

تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہی دکھایا کیا کیا

اس اشتہار کو پڑھنے اور براہین احمدیہ کے بار بار مطالعہ سے میرےدل میں ایک اُمنگ پیدا ہوئی کہ میں خود قادیان جا کر حضرت صاحب سے ملاقات کروں کیونکہ خدا تعالیٰ کےبرگزیدہ بندوں کا دیدار فیض آثار گناہوںکا کفارہ ہوتا ہے۔اس نیت سے اکتوبر 1886ء کو میں پہلی دفعہ حاضر خدمت ہوا اور مغرب کی نماز میں نے مسجد مبارک میں حضرت اقدس کی اقتداء میں پڑھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ وہیں بیٹھ گئےاور بطور نصیحت مختصر الفاظ میں تقریر فرمائی جس کالب لباب یہ تھا۔

مسلمان کادین سےغفلت کرنا ان کےزوال کا موجب ہوا ہے۔جب وہ دین کو مضبوط پکڑیں گے تو پھر خدا تعالیٰ اُن کو وہی عظمت اور شان و شوکت اور جلال اور حکومت عطا فرمائے گا۔جو اُن کو پہلےدی گئی تھی۔‘‘

(اخبار الحکم قادیان14؍اپریل 1935ء صفحہ5)

حضرت صوفی نبی بخش صاحب ؓ کی بیعت

حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ تحریر کرتےہیں کہ’’اپریل 1889ء سے اپریل 1892ء تک خاکسار انجمن حمایت اسلام کامہتمم کتب خانہ رہا۔اور حضور کا مضمون ’’ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب‘‘میرےہی اہتمام سے چھاپاگیا۔

ایک دفعہ حسب معمول انجمن کے کتب خانہ میں گیا۔ان دنوں رسالہ فتح اسلام چھپ چکا تھا۔اس کی ایک کاپی اس کے انجمن کے دفتر میں پہنچی۔بہت سے مولوی صاحبان جن میں اکثر اہل حدیث تھے اس کو پڑھتے اور نہایت تعجب سے کہتے کہ جو کچھ مرزا صاحب نے اس رسالہ میں لکھا ہے اس کوکوئی بھی نہیں مانے گا مگریہ رسالہ بھی لاجواب ہے اس کا بھی کوئی جواب نہیں۔اس کے بعد رسالہ توضیح المرام بھی میری نظر سے گذرا۔ان دونوں رسالوں کے شائع ہونے کے بعد ہندوستان میں ایک سخت طوفان بے تمیزی برپا ہوا۔اور ہر طرف سے مولوی صاحبان نے کفر کے فتوےتیار کئےیہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوقادیان میں ایک جلسہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔مجھے بھی ایک کارڈ پہنچا۔لیکن بعض ضروری خانگی امورات کی وجہ سے میں نے حاضر خدمت ہونے سےانکارکیا۔لیکن اسی ہفتہ میں پھر دوبارہ کارڈ پہنچا جس کے الفاظ یہ تھے۔

’’دسمبر کی تعطیلات میں آپ ضرور تشریف لائیں۔اور خدا تعالیٰ سےدعا کریں کہ وہ آپ کو اپنے جذب خاص سے اپنی طرف کھینچ لے۔‘‘

ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر میں نے اس خط کو پڑھا۔اور مجھ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ میں نے تمام ان خانگی امورات کو جن کی بنا پر قادیان آنے سے میں نے معذرت کی تھی خیر آباد کہی اور مصمم ارادہ کیا کہ قادیان جانا ضروری ہے۔

الغرض 27 دسمبر1891ء کے جلسے پر جس میں حاضرین کی تعداد اسی کے قریب تھی۔میں بھی حاضر خدمت ہوا۔اور دن کے دس بجے کے قریب چائےپینے کے بعد ارشاد ہوا کہ سب دوست بڑی مسجد میں جو اب مسجد اقصیٰ کےنام سے مشہور ہے تشریف لے جائیں۔

حسب الحکم سب کےساتھ میں بھی حاضر ہوا۔زہے قسمت کہ میرے لئے قسام ازل نےاس برگزیدہ بندہ کی جماعت میں داخل ہونے کے لئے یہی دن مقرر کر رکھا تھا۔اُس وقت مسجد اتنی وسیع نہ تھی جیسی آج نظر آتی ہے۔سب کے بعد حضرت خود تشریف لائے اور مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’ فیصلہ آسمانی‘‘ سنانے کے لئے مقرر ہوئے۔لیکن میرے لئے ایک حیرت کا مقام تھا کیونکہ جب میں نے حضرت اقدسؑ کے روئے مبارک اور لباس کی طرف دیکھا تو وہی حلیہ تھا اور وہی لباس زیب تن تھا جس کو ایام طالب علمی میں مَیں نے دیکھاتھا۔

حاضرین تو بڑی توجہ سے آسمانی فیصلہ سننے میںمشغول رہے۔اور میں اپنےدل کے خیالات میں مستغرق تھا اور فیصلہ کر رہا تھا کہ وہی نورانی صورت ہے جس کو طالب علمی کے زمانہ میں مَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔اس کےبعد جلسہ برخاست ہوا۔اور ہر ایک حضرت صاحبؑ سے مصافحہ کرتا اور رخصت ہوتا۔میںنے عمداً سب سےپیچھے مصافحہ کیا۔اور عرض کیا کہ میرے لئے کیاحکم ہے۔کیونکہ میں نے ایک شخص کی آگےبیعت کی ہوئی ہے۔آپ نےفرمایا۔

’’آپ کی بیعت نورٌ علی نور ہوگی بشرط یہ کہ وہ شخص نیک ہے۔ورنہ بیعت فسخ ہو جائے گی اور ہماری بیعت رہ جائےگی۔‘‘

(اخبار الحکم قادیان14؍اپریل 1935ء صفحہ6)

حضرت اقدسؑ کی استجابتِ دعا کا معجزہ

حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ تحریر کرتےہیں کہ بابو چندرابناش دفتر ایگزیمنر آفس ریلوےلاہور میں بڑے آفیسر تھے۔جنہوں نے ازخودمجھے ملازمت کے لیےشملہ بھجوایا تھا۔اس واقعہ کی تفصیل سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی قبولیت دعاکامعجزہ کاعلم ہوتاہے۔بابوابناش چندر نے قادیان میں مجھے ایک کارڈکے ذریعہ نوکری کی پیشکش کی۔

بابو چندر ابناش نے اپنے کارڈ میں لکھا۔اگر تم واقعی جوگی ہوگئے ہو اور ہمیشہ قادیان رہنا ہے تو خیر ورنہ اس کارڈ کو دیکھتے ہی لاہور چلے آؤ۔صوفی نبی بخشؓ لکھتے ہیں میں نے وہ کارڈ ظہر کی نماز کے بعد حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کیا۔آپؑ نے فرمایا:’’اسی وقت چلے جاؤ‘‘میں نے عرض کیا کہ وقت بہت تھوڑا ہے۔آپؑ نے فرمایا ’’جب ہم جوان تھے تو تیز تیز چلا کرتے تھے۔‘‘

صوفی صاحبؓ لکھتے ہیںمیں نے پھر خوف کے لہجہ میں عرض کیا کہ وقت بہت تھوڑا ہے۔پھر حضرت مسیح موعودؑ نے دوبارہ فرمایا۔

’’جب ہم جوان تھے تو بہت تیز چلا کرتے تھے‘‘

صوفی نبی بخشؓ لکھتے ہیں:

’’میں اسی وقت چل پڑا۔لیکن جب نہر سے پار ہوا۔تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا زمین پاؤں کے نیچے سے نکل رہی ہے ایسے وقت بٹالہ میں پہنچا جبکہ گاڑی سٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔بغیر گنتی کے میں نے پیسے ٹکٹ بابو کے آگے رکھ دئیے۔کلرک (ٹکٹ بابو) نے گنتی کئے بغیر پیسے رکھ لئے اور ٹکٹ دے دیا۔جب میں ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم کی طرف چلا تو خود بخود گیٹ کیپر نے جھٹ پٹ دروازہ کھول دیا۔میرا سامان ایک معمر معزز رئیس نے جو ملتان کے بلوچوں میں سے تھا،پکڑ لیا اور اندر جگہ دے دی۔جب میں گاڑی میں بیٹھ گیاتو گاڑی چل پڑی میں نے اس رئیس بلوچ سے پوچھا کہ گاڑی کیوں اتنی لیٹ آئی ہے۔اس رئیس بلوچ نے جواب دیا معلوم نہیں مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ نہ تو گارڈ کو پتہ ہے اور نہ ڈرائیورکو پتہ ہےاور نہ کسی بڑے افسر کو پتہ ہے لیکن اس سے پچھلے سٹیشن پر گاڑی 45 منٹ ٹھہری رہی۔گاڑی چل پڑی اور جب میں لاہور سٹیشن پر پہنچا تو مجھے الہام ہوا۔

اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْرَّزَاقُ ذُوْالقُوَّۃِ الْمَتِیْنِ

شام کو میں بابو ابناش چندر کی خدمت میں حاضر ہوا۔انہوں نے مجھے ایک چٹھی پنڈت گوپی ناتھ پانڈیہ کے نام لکھ دی اور میں کالکا شملہ ریلوے میں ملازم ہوگیا۔یہ بھی حضرت اقدسؑ کی استجابت دعا کا زبردست معجزہ ہے۔‘‘

جب خدا ہے تو سفارش کی کیا ضرورت ہے؟

حضرت صوفی نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتےہیں کہ

’’ایک دفعہ میں حاضر خدمت ہوا اور خلوت میں ملنے کاموقع ملا۔ایک ضرورت در پیش تھی۔میں نےعرض کیا کہ حضور مجھے میاں چراغ الدین صاحب کےنام سفارش لکھ دیں کہ میری اس کام میں مدد کریں۔آپ نے فرمایا۔

’’جب خدا ہے تو سفارش کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

خدا تعالیٰ کی قدرت وہ میرا کام بغیر سفارش کے ہو گیا۔

(اخبار الحکم قادیان14؍اپریل 1935ء صفحہ6)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجدکے بارے میں استفسار

1903ء میں لائل پور سے حضرت منشی نبی بخش صاحب رضی اللہ عنہ کے دامادحضرت شیخ اصغر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے سسر محترم کی وساطت سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک مسئلہ کے متعلق استفسار کیا جس کا ذکر اخبار بدر میں یوں درج ہے:

طریق تہجد کے بارے میں استفسار لائل پور سے

’’عبدالعزیز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز اس طرح سے جیسا کہ اب تعامل اہل اسلام ہے، بجا نہ لاتے بلکہ آپؐ صرف اٹھ کر قرآن پڑھ لیا کرتے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہے۔شیخ اصغر علی صاحب نے اپنے ایک خط میں جو انہوں نے منشی نبی بخش صاحب کے نام روانہ کیا تھااس مسئلہ کی نسبت دریافت کیاہے۔کہ آیا یہ مسئلہ اسی طرح پر ہے جیسا کہ عبدالعزیز صاحب بیان کر گئے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بوساطت منشی نبی بخش صاحب اور مولوی نور الدین صاحب یہ امر تحقیق کے لیے پیش کیا گیا جس پر حضرت امام الزمانؑ نے مفصلہ ذیل فتویٰ دیا کہ

’’میرا یہ ہرگز مذہب نہیں کہ آنحضرت ﷺ اُٹھ کر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے اور بس۔مَیں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کر سکے تو وہ اٹھ کر استغفار، دُرود شریف اور الحمد شریف ہی پڑھ لیا کرے۔آنحضرت ؐہمیشہ نوافل ادا کرتے۔آپؐ کثرت سے گیارہ رکعت پڑھتے، آٹھ نفل اور تین وتر۔‘‘

(بدر 16؍نومبر 1903ء صفحہ335کالم3)

تہجد پڑھنے کا طریق

حضرت صوفی نبی بخش صاحب ؓبیان کرتےہیں کہ

’’ایک دفعہ صبح نماز کے وقت حضور( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ناقل) تشریف لائے نماز کھڑی ہونے والی تھی۔آپ آتے ہی میرے پاس کھڑے ہو گئے۔حضور کا بایاں شانہ میرے دائیں شانہ سے ملحق تھا۔آپ نےفرمایا:

’’تہجد یوں بھی پڑھا کرتے ہیں کہ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ تین بار اور دوسری رکعت میں پانچ بار۔تیسری رکعت میں سات بار۔اتنے میں جماعت کھڑی ہو گئی اور سب لو گ نماز ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔‘‘

(اخبار الحکم قادیان21؍اپریل 1935ء صفحہ3)

حضرت صوفی صاحب ؓکا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ لاہور میںمعجزانہ طریق پر شامل ہونا

حضرت صوفی نبی بخش صاحب ؓ بیان کرتےہیں کہ

’’اب میں آپ کے وصال کے بیان کا واقعہ آپ صاحبان کے گوش گذار کرتا ہوں۔منگل کا دن تھا۔مئی 1908ء کی 26 تاریخ تھی۔میں ایک کام کے لئےمینیجر لاہور سے ملنے گیا۔واپسی احمدیہ بلڈنگ کے پاس سے گذرا۔شیخ نور احمد صاحب جو خواجہ کمال الدین صاحب کے منشی تھے۔اور میرے پرانےواقف تھے۔مجھے کہنے لگے کہ آج حضرت صاحب سخت بیمار ہیں۔چونکہ مجھے بہت بھوک لگی تھی اور تھکان بھی تھی۔میںنے کہا شیخ صاحب مدت سے تجربہ ہے کہ حضرت صاحب کی طبیعت ابھی علیل ہے اور دو گھنٹہ کے بعد آپ پھر تندرست ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ سخت بیماری کے بعد جب ذرا فرصت ہوتی تو کوئی نہ کوئی مضمون لکھ کر شائع کرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔مجھے چونکہ از حد بھوک لگی ہے اس لئے میں کھانا کھانے کے بعد آؤں گا یہ کہہ کر میں وہاں سے چلا گیا۔دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد استراحت کے طور پر ذرا لیٹ گیا۔لیکن تھوڑی سی دیر کے بعد میں خود بخود بیدار ہو گیا۔ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ہر چند کہ میری بیوی نے کہا کہ ابھی ظہر کی نماز کاوقت تنگ ہے۔گھر میں نماز پڑھ لو۔لیکن دل نے گواہی نہ دی۔آخر کار میں استفتائے قلب کے مطابق وہاں سے چل پڑا۔گھر سے نکلنے کے بعد ابھی میں چند قدم ہی چلا تھا کہ عجیب کیفیت میرے اوپر طاری ہو گئی۔میں نے دیکھا کہ ایک لطیف سی چیز ہے جوآسمان سے اتر رہی ہے۔اور غیب کا ایک ہاتھ ہے جومیری کمر کو تھامے ہےاس نے مجھےاٹھایا۔اور قریباً سو قدم کے لاڈالا۔پھر وہاں سے مجھےاٹھایا اور اسی فاصلہ کے قریب میں میر اپاؤں لگا۔غرض اس طرح سے بر گستزا ہوٹل کے قریب پہنچا جو لاہور اسٹیشن کے سامنے ایک مشہور انگریزی ہوٹل ہے۔جب میںوہاں پہنچا تو نہر جاری تھی مجھے الہام ہوا۔’’ غسل کر لو‘‘ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔کوئی آدمی نظر نہ آیا۔میں نےایک طرف کپڑےاتارے غسل کرنے کے بعد کپڑے پہن کر ابھی دو تین ہی قدم چلا ہوں گا کہ پھر الہام ہوا ’’تازہ وضو کر لو‘‘ میں پھر واپس نہر پر گیا اور تازہ وضو کیا۔جب میں اس سڑک پر پہنچا جو لاہور اسٹیشن سے احمدیہ بلڈنگس کی طرف جاتی ہے پھر وہی آسمانی نور نازل ہوا۔اور اسی طرح میری کمر میں کسی رجال غیب نے ہاتھ ڈالا۔اور دو تین منٹ میں احمدیہ بلڈنگ میں پہنچا دیا۔جب میں وہاں پہنچا تو عجیب طرح کا شور تھا۔لوگ ایک دوسرے کے کوزے چھیننے میں زبردستی کر رہے تھے۔لیکن میںاطمینان سے کھڑا نظارہ دیکھ رہا تھا۔اتنے میں کسی نےآواز دی کہ جنازہ تیار ہے۔میں نے حیرت سے پوچھا کہ کس کا جنازہ۔حاضرین میںسے کسی نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو گئےہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اس وقت جو مجھ پر حالت طاری ہوئی اس کے بیان کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں۔لیکن جب میں اس نظارہ پر غور کرتا ہوں جو مجھ پر گذرا تو اس میں ایک بین نشان پاتا ہوں کہ ان فرشتوںنے جو حضور کے کام میں لگے ہوئےہیں میرے ساتھ کیسی وفا کی۔یہ اُن کی وفا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفا ہےکہ کس طریقہ سے حضور نے اپنے جنازہ میں اپنے ایک پرانے خادم کو شریک کرایا۔یہ نشان آسمانی میں نے بچشم خود دیکھا ہے۔

وَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَھِیْدًا‘‘

(اخبار الحکم قادیان21؍اپریل 1935ء صفحہ5)

اللہ تعالیٰ حضرت صوفی نبی بخش صاحب ؓ اور اُن کے خاندان پر اپنی برکتیں نازل فرمائے۔اور ہمیںصحابہ کرامؓ کے مقدس نمونہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button