ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر83)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

فرمایا’’ بات یہ ہےکہ بہت سی باتیں پیشگوئیوں کے طور پر نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچتی ہیں اور جب تک وہ اپنے وقت پر ظاہر نہ ہوںان کی بابت کوئی یقینی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ لیکن جب ان کا ظہور ہوتا ہے اور حقیقت کھلتی ہے تو معلوم ہوجاتاہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مفہوم اور منشا تھا ۔ اور جو شخص اس کا مصداق ہو یا جس کے حق میں ہو اس کو اس کا علم دیا جاتاہے جیسے فقیہ اور فریسی برابر ایلیا کے دوبارہ آنے کا قصہ پڑھتے رہتے تھے اور وہ نہایت شوق کے ساتھ اس کا انتظار کرتے رہے لیکن اس کی حقیقت اور اصلیت کا علم ان کو اس وقت عطا نہ ہوا جب تک کہ خود آنے والا مسیح ؑ جس کے آنے کا وہ نشان تھا، نہ آگیا ۔پس یہ علم مسیح ؑ کوملا اور اس نے آ کر فیصلہ کیا کہ ایلیا کی آمد سے یہ مراد ہے ۔

اسی طرح پر حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں چالیس سال تک روتے رہے ۔آخر جا کر آپ کو خبر ملی تو کہا ۔

اِنِّی لَاَجِدُرِیْحَ یُوْسُفَ۔

ورنہ اس سے پہلے آپ کا یہ حال ہواکہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے۔

وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ۔

تک نوبت پہنچی۔اسی کے متعلق کیا اچھا کہا ہے ؂

کسے پرسید زاں گم کردہ فرزند

کہ اے روشن گہر پیرخرد مند

زمصرش بوئے پیراہن شمیدی

چرادر چاہ کنعانش نہ دیدی‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 29،28)

اس حصہ ملفوظات میں درج ذیل فارسی اشعارآئے ہیں۔

کَسِے پُرْسِیْد زَاںْ گُمْ کَرْدِہْ فَرْزَنْد

کِہْ اَے رَوْشَنْ گُہَرْ پِیْرِ خِرَدْ مَنْد

ترجمہ:کسی نے اس (یعقوب )سے جس کا بیٹا گم ہوگیا تھا پوچھاکہ اے روشن ضمیر دانا بزرگ۔

زِمِصْرَشْ بُوْئے پِیْرَاہَنْ شَمِیْدِی

چِرَا دَرْچَاہِ کَنْعَانَشْ نَدِیْدِیْ؟

ترجمہ:تو نے ملک مصر سے تو کرتہ کی بو سونگھ لی لیکن یہیں کنعان کے کنویں میں اسے کیوں نہ دیکھا۔

تفصیل: گلستان سعدی کے دوسرے باب میں ’’اخلاق درویشان‘‘ کے عنوان سے ایک حکایت ہے جس کے یہ دواشعار ہیں ۔حکایت میں موجود اشعار کے چند ایک الفاظ درج بالا اشعار سے مختلف ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےبعض مقامات پراپنے کلام میں درج ذیل مکمل حکایت کو بھی درج فرمایا ہے ۔گلستان کی مکمل حکایت مع اردو ترجمہ۔

یِکِیْ پُرْسِیْد اَزْآنْ گُمْ کَرْدِہْ فَرْزَنْد

کِہْ اَیْ رَوْشَنْ گُہَرْپِیْرِخِرَدْمَنْد

ترجمہ:کسی نے اس (یعقوب )سے جس کا بیٹا گم ہوگیا تھا پوچھاکہ اے روشن ضمیر دانا بزرگ!

زِمِصْرَشْ بُوْیِ پِیْرَاھَنْ شَنِیْدِیْ

چِرَادَرْچَاہِ کَنْعَانَشْ نَہْ دِیْدِیْ

ترجمہ:۔ تو نے ملک مصر سے تو کرتہ کی بو کے بارہ میں سن لیا لیکن یہیں کنعان کے کنویں میں اسے کیوں نہ دیکھا

بِگُفْت اَحْوَالِ مَابَرْقِ جَھَانْ اَسْت

دَمِیْ پَیْدَاوَدِیْگَرْدَمْ نِھَانْ اَسْت

ترجمہ:۔ اس نے کہا کہ ہما را حال بجلی کی طرح ہے ایک لمحہ دکھائی دیتی ہے اور دوسرے لمحہ غائب ہو جاتی ہے۔

گَہِیْ بَرْطَارَمِ اَعْلیٰ نِشِیْنِیْم

گَہِیْ بَرْپُشْتِ پَایِ خُوْد نَہْ بِیْنِیْم

ترجمہ:۔ کبھی تو ہم ایک بلند مقام پر بیٹھےہوتے ہیں اور کبھی اپنے پاؤں کی پشت پر بھی نہیں دیکھ سکتے۔

اَگَرْ دَرْوِیْش دَرْحَالِیْ بِمَانْدِیْ

سَرِدَسْت اَزْ دُوْ عَالَمْ بَرْفِشَانْدِی

اگر کسی درویش کی حالت ہمیشہ ایک جیسی رہے تو وہ دونوں جہانوں سے ہاتھ جھاڑ اٹھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button