متفرق مضامین

عائلی زندگی

(محمد مقصود احمد منیب)

اۤنحضرت ﷺنے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہیے اگر اس کی ایک بات ناپسند ہے تو دوسری بات اسے پسندیدہ ہو سکتی ہے

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا۔

(النساء:2)

اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔

وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ۔

(البقرۃ:229)

اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا (مَردوں کا) اُن پر ہے۔ حالانکہ مَردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے۔ اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

یہ دونوں اۤیات قراۤنیہ انسان کی عائلی زندگی پر روشنی ڈالتی اور بتاتی ہیں کہ انسان کی عائلی زندگی کن دو چیزوں سے عبارت ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد اور ایک معاشرتی اور معاشی اور سماجی فضا۔

دراصل جب ہم عائلی زندگی کا نام لیتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف اپنا گھر ہوتا ہے اور اسی جذبے کے تحت ہم خود کو صرف اور صرف اپنے گھر کا ذمہ دار خیال کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم ذرا سا غور کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ عائلی زندگی سے مراد صرف ایک گھر نہیں نہ ایک خاندان ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان تعلقات کی ہر سطح پر ایک خاندان کی تشکیل کر رہا ہوتا ہے۔ گھر میں ماں باپ اور بیوی، بچے نیز دیگر رشتہ دار اس عائلی ذمہ داری کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں، سکولوں میں بچوں اور بچیوں کا ایک خاندان تشکیل پاتا ہے اور دفاتر میں یا کہیںبھی کوئی کام کاج پر جاتا ہے تو وہاں اس کا ایک خاندان تشکیل پاتا ہے۔ پس اس مضمون کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ گھر کی اکائی ایک اینٹ ہے جس سے گھر بنتا ہے، کچھ گھر مل کر ایک گلی کو تشکیل دیتے ہیں، کچھ گلیاں مل کر ایک محلہ تخلیق کرتی ہیں، کچھ محلے مل کر ایک گاؤں، قصبہ یا شہر کی بنیاد رکھتے ہیں اور کچھ گاؤں، قصبے اور شہر مل کر ایک ملک یا ریاست کی تشکیل کرتے ہیں۔ اب دیکھا جائے تو ایک ملک کا رہن سہن، بودوباش اور طرز زندگی اس ملک کے تمام باسیوں کے کردار، رہن سہن، بودوباش اور اخلاق کی اۤئینہ دار ہوتی ہے۔ ایک گھر کے مکین جو رویے اور طرزعمل اپناتے ہیں وہ پورے ملک یا ریاست کی غمازی کر رہا ہوتا ہے۔ اس بات کو اگر مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک حسین معاشرے کی تکمیل کےلیے ہر انسان کا اۤنحضرت ؐ کی سنت کے مطابق ایک معاشرتی اور عائلی زندگی کے دائرے میں داخل ہونا ایک لازمی اور لابدی امر ہے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ نَفَرًا مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَعْضُہُمْ: لَا اَتَزَوَّجُ وَ قَالَ بَعْضُہُمْ: اُصَلِّیْ وَلَا اَنَامُ وَ قَالَ بَعْضُہُمْ: اَصُوْمُ وَلَا اُفْطِرُ۔ فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا بَالُ اَقْوَامٍ قَالُوْا کَذَا وَ کَذَا! لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَ اُفْطِرُ وَ اُصَلِّیْ وَ اَنَامُ وَ اَتَزَوَّجُ النِّسَاۤءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّیْ۔

(بخاری کتاب النکاح باب ترغیب فی النکاح)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے ترک دنیا کا عہد کر لیا کسی نے کہاکہ میں ساری عمر شادی نہ کروں گا تو کوئی کہنے لگا کہ میں مسلسل نمازیں ہی پڑھتا رہوں گا یعنی عبادت کی حالت میں ہی رہوں گا اور سونا بالکل چھوڑ دوں گا۔ کسی نے عہد کیا کہ میں مسلسل روزے رکھوں گا اور ایک دن بھی ناغہ نہیں کروں گا۔ جب یہ خبریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچیں تو اۤپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو اس طرح کہتے ہیں؟ مَیں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اورناغہ بھی کرتا ہوں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور دیکھو میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ پس یہی میری سنت ہے اور جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ میرا نہیں ہے یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

پھر اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے شخص کی زندگی کو جائز قرار نہیں دی اور فرمایا کہ

اصَرُوْرَۃَ فِیْ الْاِسْلَامِ۔

(ابو داؤد کتاب المناسک باب لا صرورۃ فی الاسلام)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام تجرد کی زندگی کو پسند نہیں کرتا۔

پھر کئی ایک فلاسفر اور دانشوروں نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ انگریزی میں مثل مشہور ہے کہ Man is a social animalکہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے خمیر میں مل جل کر رہنے اور ایک معاشرے کی صورت میں زندگی گزارنے کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا مادہ اور پیاس رکھی ہوئی ہے۔

اور بہترین عائلی زندگی کےلیے اپنا جوڑا چننے میں اللہ تعالیٰ انسان کی راہ نمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ

اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۔

(النور: 27)

نا پاک عورتیں نا پاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے ہیں۔ اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ یہ لوگ اُس سے بری الذمہ ہیں جو وہ کہتے ہیں۔ اِنہی کے لئے مغفرت ہے اور عزت والا رزق ہے۔

حدیث نبوی ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: تُنْکِحُ الْمَرْاَۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِہَا وَ لِحُسْنِہَا وَ لِجَمَالِہَا وَ لِدِیْنِہَا، فَاظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ۔

(بخاری کتاب النکاح باب الاکفائِ فی الدین)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بھی عورت سے تم نکاح کرتے وقت چار باتیں مد نظر رکھتے ہو: یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یا اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور یا پھر اس کی دین داری کی وجہ سے۔ لیکن تو دین دار عورت کو ترجیح دے، اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دین دار عورت نصیب ہو۔

پس قراۤن کریم اور احادیث نبویہ ؐکی روشنی میں ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک دین دار مرد جب نکاح کرنے کے بارے میں اپنا گھر بسانے کے بارے میں اور اپنا اہل چننے کے بارے میں فیصلہ کرے گا تو وہ نہ تو عورت کے ظاہری حسن و جمال کو مدنظر رکھے گا کہ یہ ایک ڈھلتی چھاؤں ہے ، نہ ہی اس کی کمینی اور بے غیرت نظریں اس کے مال و متاع پر ہوں گی اور نہ ہی اس کے دماغ میں یہ خناس ہو گا کہ اس عورت کا خاندان بڑا اعلیٰ ہے بلکہ وہ یہ سوچے گا کہ میں طیب و طاہر ہوں ایک پاکیزہ اور پرہیزگار انسان ہوں تو مجھے میرے جیسی بیوی چاہیے جس کے ساتھ مل کر میں ایک حسین اور خوبصورت معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال سکوں گا۔ وہ مجھ سے خوش ہو گی اور میں اس سے خوش ہوں گا، وہ مجھ سے مطمئن ہو گی اور میںاس سے، وہ مجھ سے تسکین حاصل کرے گی اور میں اس سے۔ چنانچہ جب یہ سوچ لے کر دونوں چلیں گے اور اپنی عائلی زندگی کی ابتدا کریں گے تو دونوں ایک دوسرے پر حسن و احسان کا سلوک کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے لباس بن جائیں گے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن کر ایک دوسرے کی کمزوریوں کو دور کر رہے ہوں گے اور نیکی کا ایک ایسا رستہ تعمیر کر رہے ہوں گے جس پر اۤگے ان کی نسلیں بھی چلیں گی اور ان کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائیں گی۔

حدیث میں اۤتا ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَکْمَلُ الْمُوئْمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا وَ خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَاۤءِکُمْ۔

(ترمذی ابواب النکاح باب حق المراۃ علیٰ زوجھا)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنوں میں سے ایمان کے اعتبار سے کامل ترین مومن وہ ہےجس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اور تم میں سے خلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے۔

اس کے بالمقابل عورتوں کے بارے میں اۤتا ہے:

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیُّ النِّسَاۤءِ خَیْرٌ؟ قَالَ: اَلَّتِیْ تَسُرُّہُ اِذَا نَظَرَ وَ تُطِیْعُہ، اِذَا اَمَرَ وَلَا تُخَالِفُہ، فِیْ نَفْسِھَا وَلَا مَالِھَا بِمَا یَکْرَہُ۔

(نسائی بیہقی فی شعب الایمان۔ مشکٰوۃ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیاکہ کون سی عورت بطور رفیقۂ حیات بہتر ہے؟ اۤپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو، مرد جس کام کےلیے کہے اسے بجا لائے اور جس بات کو اس کا خاوند ناپسند کرے اس سے بچے۔

عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَیُّمَا امْرَاَۃً مَاتَتْ وَ زَوْجُھَا رَاضٍ عَنْہَا دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ۔

( ابن ماجہ کتاب النکاح باب حق الزوج علی المراَۃِ)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی۔

پھر ایک اور روایت ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ کُنْتُ اٰمِرًا اَحَدًا اَنْ یَّسْجُدَ لِاَحَدٍ لَاَمَرْتُ الْمَراَۃَ اَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا۔

(ترمذی ابواب الرضاع باب ما جاء فی حق الزوج علٰی المراۃ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم دے سکتا کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

میاں بیوی دونوں کو نصیحت کرنے والی یہ روایت دیکھیے

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ لَا یَفْرَکْ مُوئْمِنٌ مُوئْمِنَۃً اِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا اٰخَرَ۔

(مسلم کتاب النکاح باب الوصیۃ بالنساۤءِ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہیے اگر اس کی ایک بات ناپسند ہے تو دوسری بات اسے پسندیدہ ہو سکتی ہے۔

ان اۤیات اور احادیث میں عورت کے حقوق اور فرائض پہ وقت کی مناسبت کے اعتبار سے کماحقہ، روشنی پڑتی ہے ۔ اگر ہم ان باتوں کو بھی مدنظر رکھ لیں اور اپنے جائز حقوق لیں اور اپنے فرائض ادا کریں تو ممکن نہیں کہ ہمارے گھر جنت نظیر نہ بن جائیں اور ان جنت نظیر گھروں سے تشکیل پانے والا معاشرہ بھی جنت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے والا نہ ہو لیکن اس کےلیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہو گی اور قدم سے قدم ملا کر صبر و تحمل اور بردباری نیز وسعت حوصلہ اور نرم زبان کے استعمال سے اس معاشرہ کو تعمیر کرنا ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دین کے دو ہی کامل حصے ہیں: ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع انسان سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا۔‘‘

(نسیم دعوت،روحانی خزائن جلد 19صفحہ464)

پس یہ حکم تو عام بنی نوع انسان کےلیے ہے تو پھر اپنے گھر کےلیے کیا احکام ہوں گے؟اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں۔ ایک حقوق اللہ ہیں اور ایک حقوق العباد۔ پھر اس کے دو حصے کئے ہیں یعنی اول تو ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور پھر دوسری مخلوق الٰہی کی بہبودی کا خیال اور اسی طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ خاوند اور ساس سسر کی خدمت اور اطاعت۔ پس کیا بدقسمت ہے جو ان لوگوں کی خدمت نہ کر کے حقوق عباد اور حقوق اللہ دونوں کی بجا اۤوری سے منہ موڑتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 180،ایڈیشن1988ء)

پھر جہاں یہ حکم ہے اور بیوی چاہتی ہے کہ اس کا خاوند اس کے ماں باپ بہن بھائیوں کی عزت کرے اور ان کی خدمت کرے وہاں بیوی کےلیے بھی لازم ہے کہ وہ بھی خاوند کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی عزت قائم کرے اور انہیں ہی اپنے حقیقی عزیز سمجھ کر ان سے حسن سلوک کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’جو شخص اپنےماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قراۤن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تَعَہُّدِخدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 19)

پس اللہ تعالیٰ نے قراۤن کریم میںمومن مردوں اور عورتوں کو جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں ایک دعا یہ بھی ہے کہ

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّجَعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔

(الفرقان:75)

اے ہمارے رب ہمیں ہمارے ازواج اور اولاد کی طرف سے اۤنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔

یعنی جب مومن مرد یہ دعا کرتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہماری بیویوں اور بچوں سے اۤنکھوںکی ٹھنڈک عطا فرمائے اور جب مومن عورت یہ دعا کر رہی ہوتی ہے تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ ہمیں ہمارے خاوندوں اور بچوں کی طرف سے اۤنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے اور یہ ٹھنڈک تبھی میسر اۤسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ رحمان خدا کے بندے بن کر زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور اۤگے کھول کر یہ بتا بھی دیا کہ اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو ان کے ماں باپ ان کے امام ہی تو ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ قراۤن کریم میں فرماتا ہے:

اُحِلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمۡ ؕ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ

(البقرۃ:188)

تمہارے لئے (ماہِ) صیام کی راتوں میں بیویوں سے تعلقات جائز قرار دیے گئے ہیں۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔

عائلی تعلقات میں بہتری صرف اور صرف اسی صورت میں اۤسکتی ہے کہ ہم سب مل کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے ارشادات کو غور سے سنیں اور ان پر عمل کریں خود بھی اور اپنے اہل و عیال کو بھی اچھے اور عمدہ رنگ میں توجہ دلاتے رہیں۔ توجہ دلانے کا مضمون اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نصیحت کا رنگ ایسا ہو جس میں نہ تو تکبر جھلکتا ہو اور نہ ہی فخر کا کوئی پہلو بلکہ بڑی عاجزی اور انکسار کے ساتھ خود بھی ان نصائح پر عمل پیرا ہوں اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس راہ پر لگانے والے ہوں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم صلح جو ہوجائیں اور ہمارے اندر کسی کےلیے بھی کینہ، بغض اور دشمنی کا شائبہ تک نہ ہو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے سینے میں کینہ اور حسد اور بغض ہے تو تمہاری دعائیں قبول نہیں ہو سکتیں۔پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں بارگاہ رب العزت میں قبولیت کا درجہ پائیں تو ہمیں ہر حال میں اپنے سینے کو،اپنے دل کو ہر قسم کے بغض، کینے اور حسد سے پاک کرنا ہو گا تبھی ہم صحیح معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کہلانے کے حق دار بن سکتے ہیں ورنہ ہم نہ تو حقیقی مومن بن سکتے ہیں اور نہ ہی حقیقی معنوں میں سچے احمدی کہلانے کے حق دار بن سکتے ہیں۔

لباس کا معنی یہی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے رازدار ہیں اور ایک دوسرے کا پردہ ہیں لہٰذا ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنا اور کمزوریوں کو دور کرنے میں خاموشی اور اخلاص کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرنا یہی ہم سب کا فرض ہونا چاہیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادۂ مستقیم سے بہک گئے ہیں۔ قراۤن شریف میں لکھا ہے :

عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔

مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے۔

دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خَلِیْعُ الرَّسَنْکر دیا ہے۔ دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتااور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے پوچھتا نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 44،ایڈیشن1984ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’خاوند عورت کےلئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں اۤیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ پس مرد میں جلالی اور جمالی رنگ دونوں ہونے چاہئیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 148،ایڈیشن1984ء)

’’درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قراۤن شریف میں فرماتا ہے:

عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔

یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو ۔‘‘

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 75 حاشیہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے:

وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ۔

کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں…..چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 417تا418،ایڈیشن1984ء)

پھر فرمایا:’’اگرچہ اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتا مگر تاہم اۤپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں۔ جھاڑو بھی دے لیا کرتی تھیں اور ساتھ اس کے عبادت بھی کرتی تھیں۔ چنانچہ ایک بیوی نے اپنی حفاظت کے واسطے ایک رسہ لٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اُونگھ نہ اۤئے ۔عورتوں کے لئے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا کا شکر بجا لانا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6صفحہ 53،ایڈیشن1984ء)

اۤج کل جو عائلی جھگڑے بڑھ ہیں ان میں دلوں کی کدورت اور کینہ اور بغض بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میںفرماتے ہیں:’’وہ کام جس کیلئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ180)

پھر فرمایا:’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں۔ انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اس کو ملیں جن کے رُو سے یقین اۤجائے کہ خدا ہے‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ143)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اسلام نے ہمیں اپنے گھریلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء)

تقویٰ اختیار کرنے کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کااحترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تاکہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے۔ اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر 2006ء)

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ج فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْءًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا۔(النساء:20)

کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کر یں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پا سکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس اۤیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ مجھے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں ہے بلکہ بڑی بدخلقی سے پیش اۤتا ہے۔ ایک دن وہ مجھے رستے میں مل گیا میں نے اس کو اس اۤیت کی روشنی میں سمجھایا۔ وہ سیدھا اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں نے تمہارے سے بڑا دشمنوں والا سلوک کیا ہے لیکن اۤج حضرت مولانا نور الدین صاحب نے میری اۤنکھیں کھول دی ہیں۔ میں اب تم سے حسن سلوک کروں گا۔ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اس کو انعامات سے نوازا اور اس کے ہاں چار پڑے خوبصورت بیٹے پیدا ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھر وں میں ہر وقت لڑائیاں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے۔ لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اکٹھے رہ کر اگر مزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء)

فیصلہ کن انداز میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پس اصل چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے اور ظلم جس طرف سے بھی ہو رہا ہوختم کرنا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ بعض مرداس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں، طاقت زیادہ ہے، باہر پھرنا زیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں۔ پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑیں۔ …

پس جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو پیش نظر رکھیں، تقویٰ سے کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی۔ آپ جو ناجائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے ناجائز فیصلہ کروا لیتے ہو تو اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو۔ تو تقویٰ سے دورہوں گے تو پھر یقیناً شرک کی جھولی میں جا گریں گے۔ پس استغفار کرتے ہوئے اللہ سے اس کی مغفرت اور رحم مانگیں، ہمیشہ خدا کا خوف پیش نظر رکھیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء)

حسین معاشرہ کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے اس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتاہے۔ عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض عائد ہوتے ہیں مثلاً خاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرہے۔ ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہے۔ اور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍دسمبر2003ء)

ایک نیک عورت کی خواہش کیا ہونی چاہیے اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ایک نیک عورت کی سب سے پہلے یہی خواہش ہونی چاہئے کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو۔ پھر خاوند راضی ہو ، اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرے اور خلافت سے وفا کا تعلق باندھے۔ جس گھر میں یہ چیز پیدا ہو جائے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ اۤسٹریلیا فرمودہ 15؍اپریل 2006ء)

بعض خواتین عبادات میں ایسی منہمک ہو جاتی ہیں یا خدمت خلق کے نام پر گھروں سے نکلتی ہیں اور پھر یہ بھول جاتی ہیں کہ پیچھے گھر میں ایک خاوند ہے، بوڑھے ماں باپ یا ساس سسر ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ایسی خواتین کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:’’بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ شکوہ تھا کہ ان کی عورتیں زیادہ عبادت کرنے والی ہیں، راتوں کو بھی عبادت کرتی ہیں اور دن روزے سے گزارتی ہیں۔ اس طرح خاوند کے حقوق میں کمی اۤتی ہے۔ تو اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ شکایات اۤتی تھیں کہ ان کو زیادہ عبادت سے روکیں کہ خاوند کے حقوق ادا کریں۔اس پر اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو فرمایا کہ عبادت کو کم کریں اور اپنے خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ کینیڈافرمودہ25؍جون 2005ء)

میاں بیوی کو قناعت کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’پھر میاں بیوی کے جھگڑے ہیں یہ بھی توکّل میں کمی کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں ۔اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں قناعت کا مادہ کم ہوتاہے۔بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاوند کی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولے،اپنے دوستوں ، سہیلیوں یاہمسایوں کی طر ف دیکھتی ہیں جن کے حالات ان سے بہتر ہوتے ہیں ۔اور پھر خرچ کرلیتی ہیں ، پھر خاوندوں سے مطالبہ ہوتاہے کہ ا ور دو۔ پھر آہستہ آہستہ یہ حالت مزید بگڑتی ہے اوراس قدر بے صبری کی حالت اختیار کر لیتی ہے کہ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دودو تین تین بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس بے صبری کی قناعت کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل نہ ہونے کی وجہ سے۔کیونکہ ایسے لوگ صرف دنیا داری کے خیالات سے ہی اپنے دماغوں کو بھرے رکھتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ پر اس وجہ سے یقین بھی کم ہو جاتاہے۔اور اگر خداتعالیٰ پر یقین نہ ہو تو پھر اس کے سامنے جھکتے بھی نہیں ،اس سے دعا بھی نہیں کرتے۔ تو یہ ایک سلسلہ جب چلتاہے تو پھر دوسرا سلسلہ چلتا چلا جاتاہے۔اور پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے نہ ہوں ان پر توکل کیسے رہ سکتاہے۔ تو ایسی عورتیں پھر اپنے گھروں کو برباد کردیتی ہیں۔خاوندوں سے علیحدہ ہونے کے مطالبے شروع ہوجاتے ہیں ۔اور پھر جیساکہ مَیں نے کہا کہ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍اگست 2003ء)

’’بعض عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ حالات خراب ہو جاتے ہیں، مرد کی ملازمت نہیںرہی یا کاروبار میں نقصان ہوا وہ حالات نہیں رہے، کشائش نہیں رہی تو ایک شور برپا کر دیتی ہیں کہ حالات کا رونا، خاوندوں سے لڑائی جھگڑے، انہیں برا بھلا کہنا، مطالبے کرنا۔ تو اس قسم کی حرکتوں کا نتیجہ پھر اچھا نہیںنکلتا۔ خاوند اگر ذرا سابھی کمزور طبیعت کا مالک ہے تو فوراً قرض لے لیتا ہے کہ بیوی کے شوق کسی طرح پورے ہو جائیں اور پھر قرض کی دَل دَل ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں پھر انسان دھنستا چلا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کامل وفا کے ساتھ خاوند کا مددگار ہونا چاہئے، گزارا کرنا چاہئے۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ جرمنی فرمودہ 23؍اگست2003ء)

بیویوں کے ناجائز مطالبات کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’مومن کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے۔ بعض گھروں میں ہر وقت لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ بعض عورتیں ناجائز مطالبات کرتی ہیں جن کو پورا کرنا خاوند کی طاقت میں نہیں ہوتا اس صورت میں جھگڑا بڑھتا ہے اور یا تو خاوند بیوی پر ظلم کرتے ہیں یا پھر مطالبات پورے کرنے کےلئے قرض لینا شروع کر دیتے ہیںاور بعد میں قرض ادا نہیں کر سکتے۔ اس طرح ایک شیطانی چکر چل جاتا ہے جو بعض ناجائز مطالبات کرنے کی وجہ سے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گھروں میں ان حالات کی وجہ سے بچے باہر سکون تلاش کرتے ہیں اور اولادیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ جب ماں باپ کو ہوش اۤتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔‘‘

(خطاب مستورات بر موقع جلسہ سالانہ سوئٹزر لینڈ فرمودہ 4؍ ستمبر 2004ء)

ایک حدیث کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ایک حدیث میں بھی اۤتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔ اب گھریلو اخراجات کو ہی لے لیں۔ گھر کے اخراجات کا عموماً ہر عورت کو پتہ ہوتا ہے۔ اب اگر عورت گھر کا خرچ سگھڑاپے سے نہ چلا رہی ہو تو بلاوجہ زائد اخراجات ہو جاتے ہیں۔ بعض فضول خرچیاں ہو رہی ہوتی ہیں یا بہانہ بنا کر خاوند سے زائد رقم وصول کر رہی ہوتی ہیں کہ اخراجات زیادہ ہو گئے ہیں تو یہ بھی حقیقی فرمانبرداری اور نیک نیتی نہیں ہے اور نہ ہی یہ گھر کی ذمہ داری مکمل طور پر ادا کرنے والی بات ہے۔‘‘

(خطاب مستورات برموقع جلسہ سالانہ بیلجیم 11؍ستمبر2004ء)

پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قراۤن کریم، اۤنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے راشدین کے احکام کو سمجھنے ، ان پر عمل کرنے اور اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو صحیح رنگ میں احمدیت کے نور سے منور فرمائے، ایک دوسرے پر رحم کرتے ہوئے، ایک دوسرے پر احسان کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے باہمی الفت اور وحدت و یگانگت کی لڑی میں پروئے رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا فضل اور رحم فرمائے۔ اۤمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button