ایشیا (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نو بنگلہ دیش کی (آن لائن) ملاقات

اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ میری نصرت فرماتا ہے اور کسی دوسرے میں میری مدد کرنے کی ہمت نہیں ہے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےساتھ 31؍جنوری 2021ء کو بنگلہ دیش کی 130 سے زائد واقفات نو کو آن لائن ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔

حضور انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ ممبرات واقفات نو بنگلہ دیش نے دارالتبلیغ مسجد (نیشنل ہیڈ کوارٹرز) ڈھاکہ سے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعد ایک نظم پڑھی گئی۔ پھر ایک حدیث نبوی ﷺ پیش کی گئی۔ بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات میں سے ایک اقتباس پڑھ کر سنایا گیا۔

55 منٹ پر مشتمل اس ملاقات میں، واقفات نو کو یہ موقع ملا کہ وہ حضورِا نور سے سوالات پوچھ سکیں۔

اِس سوال کے جواب میں کہ ایک خاتون کونسا روحانی درجہ حاصل کر سکتی ہے، حضورانور نے فرمایا کہ عورتیں روحانیت میں نبی کے علاوہ مقام حاصل کر سکتی ہیں۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ صدیق بھی ہو سکتی ہیں، شہید بھی ہو سکتی ہیں، صالحات بھی ہوسکتی ہیں۔ تو باقی جو روحانی مقام ہیں عورت کو وہ مل سکتے ہیں۔ اب ایک وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابیہ نے کہا کہ مرد تو شہادت کا درجہ بھی پا لیتے ہیں، جنگوں میں شامل ہوتے ہیں اور بہت ساری قربانیاں کر لیتے ہیں تو ہم جو گھر میں بیٹھی رہتی ہیں تو ہمارا کیا مقام ہے۔ تو اس پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دیکھو تم لوگ جو اپنے گھر کی نگرانی رکھتی ہو، اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتی ہو اور اگلی نسل کو سنبھالتی ہو اور گھروں کی حفاظت کرنے والیاں ہو اس پہ تمہیں وہی ثواب ملتا ہے جو مردوں کو مل رہا ہوتا ہے۔ تو نبی کے علاوہ باقی جو مقام ہیں وہ تو قانتات، صالحات سب کچھ ہو سکتی ہیں اور اس کے علاوہ اگر نیکیوں پہ قائم ہیں تو گھروں کی حفاظت کر کے وہ بہت بہتر مقام پا سکتی ہیں آخر انہی کی گود میں سے (ایک آدھ) نبی ہوتا ہے……ماں بھی تو وہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ تو یہ عورتیں جو ہیں ان کا مقام تو یہ ہے کہ وہ اگر صحیح تربیت کرتی ہیں تو لوگوں کے جنت میں جانے کا باعث بن رہی ہیں اس سے بڑی اور کیا بات ہے۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ جنت باپ کے قدموں کے نیچے ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ ماںکا بہت اونچا مقام ہے۔ عورت کا مقام بہت بلند ہے اس لیے اگر عورت صحیح طور پہ دین پہ قائم ہو اور اپنی اگلی نسل کو بھی سنبھالنے والی ہو اور گھروں کی حفاظت کرنے والی بھی ہو تو یہ مقام جو ہے ایسا ہے کہ پھر اس کا اور کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ ہمارے پڑوسی غیر احمدی ہیں جب ان کے گھر وفات ہوتی ہے تو وہ چالیسواں کی رسم کے تحت ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کیا ایسی دعوت ہم قبول کر سکتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں حضور انورنے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یہ رسمیں ہیں ناں ان کو avoid ہی کرنا چاہیے۔ اگر تو ویسے افسوس کرنے جانا ہے جوان کے پاس افسوس کرنے کے لیے جائیں لیکن تیسرے پہ، دسویں پہ، چالیسویں پہ اس قسم کی رسموںمیں نہیں پڑنا چاہیے۔ ہاں آگے پیچھے چلے جائیں۔ اگر تعلقات ٹھیک رکھنے کے لیے اسی دن افسوس کرنے کے لیے جانا بھی ہے تو چلے جائیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ کھانا کھانے کے لیے اس رسم پہ جائیں۔ اس سے پھر بدعات پھیلتی ہیں۔ یہاں تھوڑی سی جرأت دکھانی چاہیے۔ افسوس کرو، ان سے ہمدردی کرو، ان کے پاس، جاؤ عام دنوں میں بھی جاؤ لیکن کھانا کھانے کے لیے جانے کے لیے avoid کرو۔ یہ رسمیں نہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں نہ آپ کے صحابہ نے کیں۔ یہ بعد میں لوگوں نے بدعتیں پیدا کر لی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان بدعات کو ختم کرنے کے لیے آئے تھے جو پیدا ہو گئی ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ جس حد تک avoid کر سکتے ہیں کریں۔

ایک واقفہ نو نے حضور انور کی خدمت میں یہ سوال عرض کیا کہ خلافت کے انتخاب کے لیے جب آپ جانے والے تھے تو اس سے پہلے کیا آپ نے خلافت کے بارے میں کوئی خواب دیکھی تھی۔

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ نہیں میں نے کوئی خواب نہیں دیکھی تھی نہ پہلے نہ بعد میں۔ ہاں لوگوں نے دیکھی ہوئی تھیں۔ جنہوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا انہوں نے خوابیں دیکھی ہوئی تھیں یا بعضوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی ڈال دیا تھا، خواب نہیں دیکھی ہوئی تھی یا بعضوںکو اس موقع کے اوپر دل میں اللہ تعالیٰ نے ڈال دیا لیکن میں نے کوئی خواب نہیں دیکھی تھی۔ اور نہ ہی میں کبھی سوچ سکتا تھا اس مقام پہ پہنچنے کے لیے۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیاکہ وہ چھوٹی عمر سے ہی ایک اچھی واقفہ نو کیسے بن سکتی ہے؟

اس کے جواب میں حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچے تو پنجوقتہ نماز ادا کرے اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرے۔ پھر بچوں کو اپنے والدین کی بات ماننی چاہیے اور واقفات نو کا اچھا اخلاق باقی سب کے لیے ایک نمونہ ہونا چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا کہ ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ آپ ایک واقفہ نو ہیں۔ آپ کو اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ہمیشہ اپنی سہیلیوں سے اور ساتھ پڑھنے والیوں سے نرمی اور خوش اخلاقی سے بات کریں اور نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں تاکہ جو کوئی بھی آپ کو جانتا ہے وہ یہ گواہی دے سکے کہ آپ نہایت خوش اخلاق اور خوش کردار ہیں۔ پھر آپ انہیں بتائیں کہ میں ایک واقفہ نو ہوں اس لیے میں خوش اخلاق ہوں اور اچھے کام کرنے کی تلاش میں رہتی ہوں۔

ایک واقفہ نو نے پوچھا کہ ایک آدمی کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر سکتا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب الحمد للہ پڑھیں تو اس وقت جو اللہ تعالیٰ نے فضل آپ پہ کیے ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اور اگر کبھی تھوڑی سی مشکلات بھی پیدا ہو جائیں تو اس کو برداشت کرنے کی عادت ڈالیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اور بہت سارے فضل کیے ہوئے ہیں، ان فضلوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ کبھی اگر تھوڑی بہت تکلیف میں انسان پڑ جائے تو پھر اس کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے فضل بھی تو بہت سارے کیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا اس کے پاس کہیں سے کوئی خربوزے کی قسم کا پھل آیا۔ اس نے کاٹ کے اپنے ایک درباری کو دیا اور اس نے اس کو کھایا اور ماشاء اللہ ماشاء اللہ کر کے کھا گیا لیکن وہ بہت کڑوا پھل تھا۔ بادشاہ نے اس کو دیکھ کے کہ یہ تو بڑی تعریفیں کر رہا ہے۔ مَیں بھی کھا کے دیکھوں۔ جب اس نے ایک قاش کھا کے دیکھا تو کڑوی تھی۔ اس نے کہا تم کیا تعریفیں کر رہے ہو یہ تو بڑا سخت کڑوا اور بدمزہ چیز ہے تو اس نے کہا کہ اب تک آپ نے مجھے اچھی اچھی چیزیں دیں۔ بے شمار چیزیں دیں اور مجھ پر بڑے احسان کیے۔ اگر آج مجھے کوئی کڑوی چیز کھلا دی تو اس کا میں ناشکرگزار نہیں بننا چاہتا کہ ناشکرگزاری کروں اور اس کو کڑوا کڑوا کہہ کے تھو تھو کر دوں۔ جب آپ نے بہت سارے احسان مجھ پر پہلے کیے ہوئے ہیں تو آج اگر کوئی کڑوی چیز آپ نے دے دی اور آپ کو پتہ بھی نہیں تھا تو میرا حق نہیں بنتا کہ میں اس کا انکار کرتا یا اس پہ کوئی اعتراض کرتا اور تھوک دیتا اس کو۔ اس لیے میں نے خوشی سے کھا لیا کہ آپ کے جو احسانات ہیں اس کی شکرگزاری یہی ہے کہ آج مجھے کوئی کڑوی چیز بھی ملی ہے تو میں آرام سےکھا لوں۔ تو یہ سوچ ہونی چاہیے انسان کی شکرگزاری کی۔

حضورا نور نے مزید فرمایا کہ اسی لیے ایک حدیث میں آیا ہے کہ انسان کو جو دنیاوی معاملات ہیں اس میں ہمیشہ اپنے سے نیچے کو دیکھنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ آپ کے پاس اگر کوئی دنیاوی خواہش پوری نہیں ہوئی تو آپ یہ دیکھیں کہ دیکھو جی فلاں آدمی کے پاس بڑا پیسہ ہے اور وہ لڑکی یا عورت جاتی ہے بازار سے جو چاہتی ہے خرید لاتی ہے۔ زیور لے آتی ہے اور پسند کی چیزیں لے آتی ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور پھر اس کے اوپر کڑھنا اور جلنا اور تکلیف کا احساس کرنا شروع کر دو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ شکر گزاری یہ ہے کہ تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت سے لوگوں سے بہتر بنایا ہے، جو تمہارے سے نیچے لوگ ہیں غریب لوگ ہیں یا بہت سارے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جن کو کھانے کو کھانا نہیں ملتا، بعضوں کو ایک وقت بھی کھانا نہیں ملتا۔ یہاں یورپ میں بھی ایسے بہت سارے لوگ ہیں جن کو باوجود اس کے کہ بہت فراخی ہے یہاں، دولت ہے، پیسہ ہے، کھانا ہے، پھر بھی بھوکے مرتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی بہت سارے لوگ ہیںجو رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ کھانا کھاتے ہوئے شکر گزاری کریں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کھانا دیا۔ اسی طرح دنیاوی معاملات میں اپنے سے نیچے کو دیکھیںکہ میں ان سے بہتر ہوں اور پھر اللہ کی حمد کریں اور شکر کریں لیکن آپ نے فرمایا کہ جو دینی معاملات ہیں اس میں سے اپنے سے اوپر والے کو دیکھو۔ یہ دیکھو کہ دینی لحاظ سے، اللہ تعالیٰ کے تعلق کے لحاظ سے، نیکیاں کرنے کے لحاظ سے تمہارے سے بہتر کون ہے اور پھر کوشش کرو کہ تم بھی اس جیسے بنو یا اس سے بہتر بنو۔ پس دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو اور دنیاوی معاملات میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھو تب صحیح شکر گزاری کی عادت پڑے گی۔

ایک واقفہ نو نے حضور انور سےسوال کیا کہ آپ بچپن میں کیسے پڑھائی کرتے تھے اور تب آپ کا مقصد کیا تھا یعنی آپ بڑے ہو کر کیا بنناچاہتے تھے اور ہمارے لیے آپ کی ہدایت کیا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے لیے ہدایت یہ ہے کہ آپ اچھی اسٹوڈنٹ بنیں۔ آج کل پڑھائی کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا اور واقفہ نو ہیں، آپ لوگوں نے وقف کیا ہوا ہے اس لیے بچپن سے جماعت کا اچھا assetبننے کی، اچھا سرمایہ بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے پڑھائی کر کے، علم حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ اپنی زندگی کو بہتر کریں تا کہ پھر آگے اگلی نسلوں کی بھی صحیح طرح تربیت کر سکیں ا ور حفاظت کر سکیں۔

حضورِ انور نے مزید فرمایا کہ جب میں نوجوان تھا تو میرے بہت سے خواب تھے۔ کبھی میں کچھ بننا چاہتا تھا، کبھی کسی اَور چیز کی طرف توجہ چلی جاتی تھی۔ بالآخر کیونکہ میرا شوق زراعت کی طرف تھا تو اس میں ایک ڈگری حاصل کرلی اور پھر جماعت کی خاطراپنی زندگی وقف کر دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی۔ بہرحال یہ جو وقفِ زندگی کی خواہش تھی یہ بچپن سے میرے دل میں تھی جو اللہ کے فضل سے پوری ہوگئی۔

حضورِ انور نے مزید فرمایا کہ بچپن میں میرے بہت سے ارادے تھے، کبھی میں سوچتا کہ یہ بن جاؤں کبھی کسی اور چیز کے بارے میں سوچتا اور پھر بالآخر میں نے اپنی زندگی وقف کردی۔ میں (ان ارادوں کے مطابق) کچھ بھی نہیں بن سکا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور بالآخر اللہ تعالیٰ مجھے اس پوزیشن (مسند خلافت) تک لے آیا۔ بہر حال میری آپ سب کو یہی نصیحت ہے کہ چونکہ آپ سب نے زندگی وقف کی ہوئی ہے، آپ کو محنت سے کام کرنا چاہیے، خوب محنت سے پڑھائی کریں اور پڑھائی میں اونچے مقام کو حاصل کریں۔ گو بعد میں آپ کو ملازمت نہ کرنی ہو، آپ اپنی تعلیم سے فائدہ اٹھا ئیں گی اور آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اسے استعمال کریں گی۔

ایک واقفۂ نو ماں نے اپنے بچوں کی پرورش کے حوالہ سے مشکلات کا ذکر کیا کہ چھوٹا بچہ ہونے کی وجہ سے وہ اکثر تھک جاتی ہے اور غصہ میں آجاتی ہے اور اس حوالہ سے حضور انور سے راہنمائی طلب کی۔

حضور انور نے فرمایا کہ اگرچہ یہ آپ کو مشکل لگتا ہے، آپ کو اپنے بچے پر غصہ کا اظہار نہیں کر نا چاہیے اور نہ اس پر غصہ کرنا چاہیے۔ بلکہ آپ کو اس کو بتانا چاہیےکہ آپ تھک گئی ہیں اور کچھ آرام کرنا چاہتی ہیں اور یہ یقین دلانا چاہیے کہ آپ آرام کرنے کے بعد اس کے ساتھ کھیلیں گی۔ بچے بالعموم بہت ذہین ہوتے ہیں اور بہت جلد بات سمجھ جاتے ہیں۔ آپ کو اس بچی کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ آپ تھک گئی ہیں اور اسے آپ کی ٹانگیں دبانی چاہئیں یا سر دبانا چاہیے اور پھر بچی اس کام کو شوق سے کرنے میں مشغول ہو جائے گی۔ اس طرح آپ اپنی بچی کی راہنمائی کر سکتی ہیں اور اس کی تربیت بھی لیکن غصہ کا اظہار نہ کریں، چیخیں نہیں اور ان سے کوئی منفی بات نہ کریں۔

اسی والدہ نے حضور انور سے پوچھا کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے کونسی دعا پڑھا کرے تو حضور انور نے فرمایا کہ درود شریف پڑھا کریں۔

ایک اور سوال یہ ہوا کہ حضور انور کے دور خلافت میں جماعت پر ہونے والے ظلم و تعدی اور مشکلات کے دوران، خدا تعالیٰ کے علاوہ کیا کسی دوسرے نے بھی کبھی حضور انور کو emotional Support دی ہے یا اس کا ذریعہ بنا ہے۔

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ میری نصرت فرماتا ہے اور کسی دوسرے میں میری مدد کرنے کی ہمت نہیں ہے۔

اس ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ حافظ و ناصر ہو۔ آپ سب کو حفظ و امان میں رکھے اور واقفات نو جو ہیں یہ اپنا مقصد پورا کرنے والی ہوں، اپنے وقف کو نبھانے والی ہوں اور آئندہ نسل کو سنبھالنے والی ہوں اور ایک مخلص اور نیک نسل احمدیت کی ان کے ذریعہ سے دنیا میں پیدا ہو اور بنگلہ دیش میں احمدیت کی تبلیغ کرنے والے اور احمدیت کو پھیلانے والے بنیں اور مولویوں سے آپ لوگوں کا جلد چھٹکارا ہو جائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button