خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ستمبر2021ء

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اہم ترین جنگ میں عظیم الشان فتح سے ہمکنار کیا۔

جنگِ یرموک کے عظیم الشان معرکے کا ایمان افروز تفصیلی بیان

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ستمبر2021ء بمطابق 17؍تبوک1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے واقعات کا ذکر چل رہا تھا۔ آج

جنگِ یرموک

کے بارے میں بیان کروں گا۔ جنگِ یرموک کی تاریخ کے متعلق روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک روایت تو یہی ہے کہ یہ جنگ پندرہ ہجری کولڑی گئی۔ بعض کے نزدیک یہ تیرہ ہجری میں فتح دمشق سے پہلے لڑی گئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کو سب سے پہلے جس جنگ میں فتح کی خوشخبری پہنچی وہ جنگِ یرموک ہی تھی۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ کی وفات کو بیس دن گزر چکے تھے۔ بعض کے نزدیک فتحِ دمشق کی خوشخبری سب سے پہلے ملی تھی۔

(تاریخ دمشق الکبیرلابن عساکر جزء2صفحہ 141-143 دار الفکر بیروت 1995ء)

لیکن بہرحال دمشق کی فتح کی خوشخبری والی بات زیادہ صحیح لگتی ہے جو پہلے ہوئی۔ شواہد تو یہی بتاتے ہیں کہ جنگِ یرموک حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہی لڑی گئی تھی۔ رومی جب شکست کھا کھا کر دِمَشْق اورحِمْص وغیرہ سے نکلے تھے تو اَنْطَاکیہ پہنچے۔ انطاکیہ شام کا سرحدی شہر ہے۔ اور ہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامال کر دیا ہے۔ ہرقل نے اس میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ عرب تم سے زور میں، جمعیت میں، سازوسامان میں کم ہیں پھر تم ان کا مقابلہ کیوں نہیں کر سکتے؟ کیوں نہیں مقابلے میں ٹھہر سکتے؟ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے ہیں۔ دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ آپس میں ایک دوسرے سے برابری کے ساتھ ملتے ہیں۔ اور ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں۔ بدکاریاں کرتے ہیں۔ اقرار کی پابندی نہیں کرتے۔ اَوروں پر ظلم کرتے ہیں اور اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں تو جوش ہے اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے۔

قیصر درحقیقت شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے۔ قیصر کو سخت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ اپنی شہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کر دیا جائے۔ روم، قُسْطَنْطِیْنِیَّہ، جزیرہ آرمینیا، ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں اَنطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں۔ تمام اضلاع کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو سکیں روانہ کیے جائیں۔ ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امڈ آیا۔ انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھی فوجوں کا ٹڈی دَل پھیلا ہوا تھا۔ بےشمار فوج تھی۔

حضرت ابوعُبَیْدہؓ نے جو مقامات فتح کر لیے تھے وہاں کے امراء اور رئیس ان کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ باوجود مخالفتِ مذہب کے انہوں نے خود اپنی طرف سے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ ان کے ذریعہ سے حضرت ابوعُبَیْدہؓ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی۔ انہوں نے تمام افسروں کو جمع کیا اور کھڑے ہو کر

ایک پُراثر تقریر

کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانو! خدا نے تم کو بار بار جانچا اور تم اس کی جانچ پہ پورے اترے۔ چنانچہ اس کے صلہ میں خدا نے ہمیشہ تم کو مظفر و منصور رکھا، ہمیشہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اب تمہارا دشمن اس سازو سامان سے تمہارے مقابلے کے لیے چلا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے۔ اب بتاؤ کیا صلاح ہے؟ یزید بن ابی سفیان امیر معاویہ کے بھائی تھے وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میری رائے ہے کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں رہنے دیں اور ہم خود شہر کے باہر لشکر آرا ہوں۔ اس کے ساتھ خالد اور عمرو بن عاص کو خط لکھا جائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں۔ یہاں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دمشق کی فتح پہلے تھی۔ شُرَحْبِیل بن حَسَنَہ نے کہا کہ اس موقع پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینی چاہیے۔ یزید نے جو رائے دی بلا شبہ خیر خواہی سے دی ہے لیکن میں اس کا مخالف ہوں۔ شہر والے تمام عیسائی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ تعصّب سے ہمارے اہل و عیال کو پکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں یا خود مار ڈالیں۔ خود ہی ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ حضرت ابوعُبَیْدہؓ نے کہا کہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیں تو ہمارے بیوی بچے محفوظ ہو جائیں گے۔ شُرَحْبِیل نے اٹھ کر کہا کہ اے امیر! تجھ کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ہم نے ان عیسائیوں کو اس شرط پر امن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں اس لیے نقض عہد کیونکر ہو سکتا ہے؟ ہم ایک عہد کر چکے ہیں ۔کس طرح اس عہد کو توڑیں کہ ان کو شہر سے نکال دیں۔ حضرت ابوعُبَیْدہؓ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہیں ہوئی کہ آخر کیا کیا جائے۔ عام حاضرین نے رائے دی کہ حِمْص میں ٹھہر کے فوجی امداد کا انتظار کیا جائے۔ ابوعُبَیْدہؓ نے کہا کہ اتنا وقت کہاں ہے؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حِمْص کو چھوڑ کر دِمَشْق روانہ ہوں، وہاں خالد موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے۔ یہ ارادہ مصمم ہو چکا تو حضرت ابوعُبَیْدہؓ نے حبیب بن مَسْلَمَہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج لیا جاتا ہے، جو بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے۔ یہ تو اس لیے تھا کہ ان کی بہتری کے لیے ان کی حفاظت کے لیے کام ہو گا لیکن وہ ہم کر نہیں سکتے۔ اس لیے جو کچھ ان سے وصول ہوا ہے سب ان کو واپس دے دو اور ان سے کہہ دو کہ ہم کو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ہم ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لیے

جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔

چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کُل واپس کر دی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ تورات کی قَسم! جب تک ہم زندہ ہیں قَیصر حِمْص پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ ابوعُبَیْدہؓ نے صرف حِمْص والوں کے ساتھ یہ برتاؤ نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جائے۔ غرض ابوعُبَیدہ دمشق کو روانہ ہوئے اور ان تمام حالات سے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی۔

حضرت عمرؓ یہ سن کر کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حِمْص چلے آئے ہیں نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ کُل فوج اور افسران فوج نے یہی فیصلہ کیا ہے تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ خدا نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا۔ یہ بھی حوالے ملتے ہیں کہ پہلے حضرت عمر ؓسے پوچھا گیا تھا اور حضرت عمر ؓنے ہی فرمایا تھا کہ اگر تم حفاظت نہیں کر سکتے تو ان کا سب کچھ، جو کچھ بھی جزیہ وغیرہ لیا ہے واپس کرو۔ ابوعُبَیْدہؓ کو حضرت عمر ؓنے جواب لکھا کہ میں مدد کے لیے سعید بن عامرکو بھیجتا ہوں لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں ہوا کرتی۔ ابوعُبَیْدہؓ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشاورت کی۔ یزید بن ابی سُفیان، شُرَحْبِیل بن حَسَنَہ ،مُعَاذ بن جبل سب نے مختلف رائیں دیں۔ اسی اثنا میں عمرو بن عاص کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضمون تھا کہ اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے اور رومیوں کی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حِمْص کو چھوڑ کر چلے آنا نہایت بے رعبی کا سبب ہوا ہے۔ ابوعُبَیْدہؓ نے جواب میں لکھا کہ حِمْص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جو جا بجا پھیلی ہوئی ہیں یکجا ہو جائیں اور خط میں یہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو۔ میں وہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۔ دوسرے دن ابوعُبَیْدہؓ دمشق سے روانہ ہو گئے اور اردن کی حدود میں یرموک پہنچ کر قیام کیا۔ یرموک شام کے نواح میں نشیبی وادی تھی جہاں دریائے اردن بہتا تھا۔ عمرو بن عاص بھی یہیں آکر ملے۔ یہ موقع جنگ کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کی سرحد بہ نسبت اَور تمام مقامات کے یہاں سے قریب تھی اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں پیچھے ہٹتے جائیں۔

حضرت عمرؓ نے سعید بن عامر کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی وہ ابھی نہیں پہنچی تھی۔ ادھر رومیوں کی آمد اور ان کے سامان کا حال سن کر مسلمان گھبرائے جاتے تھے۔ ابوعُبَیْدہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس ایک اَور قاصد دوڑایا اور لکھا کہ رومی بحر و بر سے اُبل پڑے ہیں اور جو ش کا یہ حال ہے کہ فوج جس راہ سے گزرتی ہے راہب اور خانقاہ نشین جنہوں نے کبھی خلوت سے قدم باہر نہیں نکالا وہ بھی نکل نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں۔ جب یہ خط پہنچا تو حضرت عمرؓ نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور خط پڑھ کر سنایا۔ تمام صحابہ بے اختیار رو پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا کہ امیر المومنین! خدا کے لیے ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر نثار ہو جائیں۔ خدانخواستہ ان کا بال بھی بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے۔ مہاجرین و انصار کا جوش بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ امیر المومنین !آپؓ خود سپہ سالار بنیں اور ہمیں ساتھ لے کر چلیں لیکن اَور صحابہ نے اس رائے سے اختلاف کیا اور رائے یہ ٹھہری کہ اَور امدادی فوجیں بھیجی جائیں۔ حضرت عمر ؓنے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ یرموک سے تین چار منزل کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نہایت غمزدہ ہوئے اور فرمایا کہ افسوس اب کیا ہو سکتا ہے۔ اتنے عرصہ میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے؟ ابوعُبَیْدہؓ کے نام نہایت پُرتاثیر الفاظ میں ایک خط لکھا اور قاصد سے کہا کہ خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنانا اور زبانی کہنا کہ عمر تم لوگوں کو سلام کہتا ہے اور کہتے ہیں کہ

اے اہل اسلام! بے جگری سے لڑو

اور اپنے دشمنوں پر شیروں کی طرح جھپٹو اور تلواروں سے ان کی کھوپڑیوں کو کاٹ ڈالو اور چاہیے کہ وہ لوگ تمہارے نزدیک چیونٹیوں سے بھی حقیر ہوں۔ ان کی کثرت تم لوگوں کو خوفزدہ نہ کرے اور تم میں سے جو ابھی تم سے نہیں ملے ان کی وجہ سے پریشان نہ ہونا۔ یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ جس دن قاصد ابوعُبَیْدہ کے پاس آیا اسی دن سعید بن عامر بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو نہایت تقویت ہوئی اور انہوں نے نہایت استقلال کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔

معاذ بن جبلؓ کو جو بڑے رتبے کے صحابی تھے مَیْمَنَہ پر مقرر کیا۔ قُبَاثْ بن اَشْیَمْ کو مَیْسَرَہ اور ہاشم بن عُتْبہ کو پیدل فوج کی افسری دی۔ اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کیے۔ ایک کو اپنی رکاب میں رکھا باقی پر قَیس بن ھُبَیْرَہ، مَیْسَرَہ بن مَسْرُوق، عَمرو بن طُفَیل کو مقرر کیا۔ یہ تینوں بہادر تمام عرب میں انتخاب تھے یعنی بہت بہادر کہلائے جاتے تھے اور اس وجہ سے ’فارس العرب‘ کہلاتے تھے۔ رومی بھی بڑے سروسامان سے نکلے تھے۔ دو لاکھ سے زیادہ جمعیت تھی اور چوبیس صفیں تھیں جن کے آگے آگے ان کے مذہبی پیشوا ہاتھوں میں صلیبیں لیے جوش دلاتے جاتے تھے۔

فوجیں بالمقابل آ گئیں تو ایک بِطْرِیق صف چیر کر نکلا اور کہا کہ میں تنہا لڑنا چاہتا ہوں۔ بِطْرِیق عیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں کو کہتے ہیں۔مَیْسَرَہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر چونکہ حریف نہایت تنومند اور جوان تھا۔ خالد نے روکا اور قیس بن ھُبَیْرَہکی طرف دیکھا۔ وہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بِطْرِیق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا اور ان کا وار چل گیا۔ تلوار سر پر پڑی اور خود کو کاٹتی ہوئی گردن تک اتر گئی۔ بِطْرِیق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا۔ ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ بلند کیا۔ خالد نے کہا شگون اچھا ہے اور اب خدا نے چاہا تو آگے فتح ہماری ہے۔ عیسائیوں نے خالد کے ہمرکاب افسروں کے مقابلے میں جدا جدا فوجیں متعین کیں لیکن سب نے شکست کھائی اور اس دن یہیں تک نوبت پہنچی کہ لڑائی ملتوی ہوگئی۔ رومیوں نے جب دیکھا کہ ہم تو شکست کھا رہے ہیں تو رات کو رومیوں کے سپہ سالار باہان نے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ چکا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مال و زَر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالا جائے بجائے جنگ کرنے کے۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ دوسرے دن

ابوعُبَیْدہؓ کے پاس قاصد

بھیجا کہ کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو۔ ہم اس سے صلح کے متعلق گفتگو کرنی چاہتے ہیں۔ ابوعُبَیْدہؓ نے خالد کا انتخاب کیا ۔ قاصد جو پیغام لے کر آیا اس کا نام جارج تھا۔ اردو سیرت نگاروں نے جارج لکھا ہے لیکن عرب دانوں کے لیے میں بتا دوں کہ عربی کتب میں اس کا نام جَرْجَة بیان ہوا ہے۔ بہرحال جس وقت وہ پہنچا اس وقت شام ہو چکی تھی۔ ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی۔ مسلمان جس ذوق و شوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس محویت اور سکون اور وقار اور ادب و خضوع سے انہوں نے نماز ادا کی۔ قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ جب نماز ہو چکی تو اس نے ابوعُبَیْدہؓ سے چند سوالات کیے جن میں ایک یہ تھا کہ تم عیسیٰ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو۔ ابوعُبَیْدہؓ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں کہ

اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ(آل عمران :60)یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ۫ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ۟ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ ؕ اِنۡتَہُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ سُبۡحٰنَہٗۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗ وَلَدٌ ۘ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا۔ لَنۡ یَّسۡتَنۡکِفَ الۡمَسِیۡحُ اَنۡ یَّکُوۡنَ عَبۡدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ۔ (النساء:172-173)

کہ (یاد رکھو) عیسیٰ کا حال اللہ کے نزدیک یقیناً آدم کے حال کی طرح ہے۔ اسے یعنی آدم کو اس نے خشک مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اس کے متعلق کہا کہ تُو وجود میں آجا تو وہ وجود میں آنے لگا۔ اے اہل کتاب! تو اپنے دین کے معاملے میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے متعلق سچی بات کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کا صرف ایک رسول اور اس کی ایک بشارت تھا جو اس نے مریم پر نازل کی تھی اور اس کی طرف سے ایک رحمت تھا۔ اس لیے تم اللہ پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ اور یوں نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔ اس امر سے باز آ جاؤ۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا۔ اللہ ہی اکیلا معبود ہے۔ وہ اس بات سے پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اللہ کی حفاظت کے بعد اور کسی کی حفاظت کی ضرورت نہیں۔ مسیح ہرگز اس امر کو برا نہیں منائے گا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ متصور ہو اور نہ ہی مقرب فرشتے اسے برا منائیں گے۔

بہرحال ترجمہ کرنے والے نے ان آیات کا ترجمہ کیا تو جارج جو قاصد تھا بے اختیار پکار اٹھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسیٰ کے یہی اوصاف ہیں اور

میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہارا پیغمبر سچا ہے۔

یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا اور وہ اپنی قوم کے پاس واپس نہیں جانا چاہتا تھا لیکن حضرت ابوعُبَیدہؓ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بدعہدی کا گمان نہ ہو اُسے مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے ہمارا جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ واپس چلے آنا، ابھی تم واپس جاؤ۔ دوسرے دن حضرت خالدؓ رومیوں کی لشکر گاہ میں گئے۔ رومیوں نے اپنی شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے ہی انتظام کر رکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب دور تک سواروں کی صفیں قائم تھیں جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھے لیکن حضرت خالد ؓنے اس بے پرواہی اور تحقیر کی نگاہ سے ان پر نظر ڈالی اور اس طرح نظر ڈالتے جاتے تھے جس طرح شیر بکریوں کے ریوڑ کو چیرتا چلا جاتا ہے۔

بَاہَان کے خیمے کے پاس پہنچے تو اس نے نہایت احترام کے ساتھ استقبال کیا اور لا کر اپنے پاس اپنے برابر بٹھایا۔ مترجم کے ذریعہ سے گفتگو شروع ہوئی۔ بَاہَان نے معمولی بات چیت کے بعد لیکچر کے طریقے پر تقریر شروع کی۔ حضرت عیسیٰ کی تعریف کے بعد قیصر کا نام لیا اور فخر سے کہا کہ ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ مترجم نے ان الفاظ کا ابھی پورا ترجمہ نہیں کیا تھا کہ خالد نے بَاہَان کو روک دیا اور کہا کہ تمہارا بادشاہ ایسا ہی ہو گا لیکن

ہم نے جس کو سردار بنایا ہے اس کو ایک لمحے کے لیے بھی اگر بادشاہی کا خیال آئے تو ہم فوراً اس کو معزول کر دیں۔

بَاہَان نے پھر تقریر شروع کی اور اپنی جاہ و دولت کا فخر بیان کر کے کہا۔ اہل عرب! تمہاری قوم کے لوگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کیے۔ ہمارا خیال تھا کہ ان مراعات کا تمام عرب ممنون ہو گا لیکن خلافِ توقع تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے اور چاہتے ہو کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ بہت سی قوموں نے بارہا ایسے ارادے کیے لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔ اب تم جو ہو تمام دنیا میں تم سے زیادہ کوئی قوم جاہل نہیں ہے۔ وحشی اور بے سازو سامان نہیں ہے، تمہیں یہ حوصلہ ہوا ہے کہ ہمارے پہ چڑھائی کر دو لیکن ہم اس پر بھی درگزر کرتے ہیں بلکہ اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دلا دیے جائیں گے۔ حالانکہ ایک بہت بڑی فوج تو خود انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جمع کی تھی کہ مسلمانوں کو ختم کیا جائے لیکن جب دیکھا کہ جنگ جیتنا آسان نہیں تو پھر یہ شرطیں لگائیں۔ بہرحال بَاہَان اپنی تقریر ختم کر چکا تو حضرت خالدؓ اٹھے اور حمد و نعت کے بعد کہا کہ بے شبہ تم دولت مند ہو، مالدار ہو، صاحبِ حکومت ہو۔ تم نے اپنے ہمسایہ عربوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی ہمیں معلوم ہے لیکن یہ تمہارا کچھ احسان نہ تھا بلکہ اشاعتِ مذہب کی ایک تدبیر تھی۔ تم اپنا مذہب پھیلانا چاہتے تھے جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ عرب عیسائی ہو گئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہو کر ہم سے لڑ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نہایت محتاج ، تنگ دست اور خانہ بدوش تھے۔ ہمارے ظلم و جہالت کا یہ حال تھا کہ قوی جو مضبوط آدمی تھا وہ کمزور کو پیس ڈالتا تھا۔ قبائل آپس میں لڑ لڑ کر برباد ہوتے جاتے تھے لیکن

خدا نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبر بھیجا

جو خود ہماری قوم سے تھا اور ہم میں سب سے زیادہ شریف، زیادہ فیاض، زیادہ پاک خُو تھا۔ اس نے ہمیں توحید سکھائی اور بتلا دیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ وہ بیوی اولاد نہیں رکھتا، وہ بالکل یکتا و یگانہ ہے۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو تمام دنیا کے سامنے پیش کریں جس نے ان کو مانا وہ مسلمان ہے اور ہمارا بھائی ہے۔ جس نے نہ مانا لیکن جزیہ دینا قبول کرتا ہے اس کے ہم حامی اور محافظ ہیں۔ جس کو دونوں سے انکار ہے اس کے لیے تلوار ہے۔ جو نہیں مانتے اور پھر لڑائی کرنے کو بھی تیار ہیں تو پھر ہم بھی تیار ہیں۔ بَاہَان نے جزیہ کا نام سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے لشکر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ مر کر بھی جزیہ نہ دیں گے۔ ہم جزیہ لیتے ہیں دیتے نہیں۔ غرض کوئی معاملہ طے نہیں ہوا اور خالد اٹھ کر چلے آئے۔ اب اس آخری لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ اس کے بعد رومی پھر کبھی سنبھل نہ سکے۔ حضرت خالدؓ کے چلے آنے کے بعد باہان نے سرداروں کو جمع کیا اور کہا کہ تم نے سنا، اہل عرب کا دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ ان کے حملے سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تمہیں ان کی غلامی منظور ہے؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا کہ ہم مر جائیں گے مگر یہ ذلت گوارا نہیں ہو سکتی۔

صبح ہوئی تو رومی اس جوش اور سرو سامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو بھی حیرت ہو گئی۔ حضرت خالدؓ نے یہ دیکھ کر عرب کے عام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آرائی کی۔ جب حضر ت خالدؓ نے دیکھا کہ رومی اس جوش اور سروسامان سے نکلے ہیں تو انہوں نے عرب کا جو عام قاعدہ تھا لڑائی کرنے کا اس کے خلاف، اس کے الٹ ایک نئے طریقے سے فوج کو سامنے کھڑا کیا۔ اور فوج جو تیس پینتیس ہزار تھی اس کے چھتیس حصے کیے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اس قدر صفیں قائم کیں۔ قلب ابوعُبَیْدہ کو دیا، مَیْمَنہ پر عَمرو بن عاص اور شُرَحْبِیل مامور ہوئے، مَیْسَرہ یزید بن ابوسفیان کی کمان میں تھا۔ ان کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کیے تو چن کر ان لوگوں کو کیا جو بہادری اور فنونِ جنگ میں شہرت عام رکھتے تھے۔ خطباء جو اپنے زور کلام سے لوگوں میں ہلچل ڈال دیتے تھے، ایسے خطیب تھے جو لوگوں میں جوش پیدا کرنے والے تھے اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پُرجوش تقریروں سے فوج کو جوش دلائیں۔ انہی میں ابوسفیان بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے تھے کہ

اللہ! اللہ!تم لوگ عرب کے محافظ اور اسلام کے مددگار ہو

اور وہ لوگ روم کے محافظ اور شرک کے مددگار ہیں۔ اے اللہ! یہ دن تیرے ایام میں سے ہے۔ اے اللہ! اپنے بندوں پر اپنی مددنازل فرما۔ عمرو بن عاص کہتے پھرتے تھے کہ اے لوگو! اپنی آنکھیں نیچی رکھو اور گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ اور اپنے نیزوں کو تان لو اور اپنی جگہ اور اپنی صفوں میں جم جاؤ۔ جب تمہارا دشمن تم پر حملہ آور ہو تو انہیں مہلت دو یہاں تک کہ جب وہ نیزوں کی انیوں کی زد میں آ جائے تو ان پر شیروں کی طرح جھپٹ پڑو۔ اس خدا کی قسم! جو راستی پر خوش ہوتا ہے اور اس پر ثواب دیتا ہے اور جو جھوٹ سے ناراض ہوتا ہے اور اس پر سزا دیتا ہے اور احسان کی جزا دیتا ہے، یقینا ًمجھے یہ خبر ملی ہے کہ مسلمان بستی کے بعد بستی اور محل کے بعد محل کو فتح کرتے ہوئے اس ملک پر فتح حاصل کریں گے۔ پس ان لوگوں کی جمعیت اور ان کی تعداد تمہیں خوف زدہ نہ کرے۔ اگر تم لوگوں نے ثابت قدمی سے لڑائی کی تو یہ لوگ حَجَلْ یعنی تیتر جو ایک پرندہ ہے اس کے بچوں کی طرح خوف زدہ ہو کر منتشر ہو جائیں گے۔

مسلمان فوج کی تعداد اگرچہ کم تھی یعنی تیس پینتیس ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے لیکن تمام عرب میں منتخب تھے۔ ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا تھا ایک ہزار تھے۔ سو بزرگ وہ تھے جو جنگِ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ عرب کے مشہور قبائل میں سے دس ہزار سے زیادہ صرف اَزْد کے قبیلے کے لوگ تھے۔ حِمْیَرْ کی ایک بڑی تعداد، جماعت تھی۔ ہَمْدَان، خَوْلَان ، لَحْم ، جُزَام وغیرہ کے مشہور بہادر تھے۔ اس معرکے کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ عورتیں بھی اس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں۔ امیر معاویہ کی ماں، ابو سفیان کی بیوی ہند، حضرت ہندؓ جو بعد میں اسلام لے آئی تھیں حملہ کرتی ہوئی بڑھتی تھیں تو پکارتی تھیں کہ تم ان نامختونوں یعنی ان کافروں کو اپنی تلواروں سے کاٹ کر رکھ دو۔ اسی طرح ابوسفیان کی بیٹی اور امیر معاویہ کی بہن جُوَیْرِیَہ نے ایک جماعت کے ساتھ نکل کر، اپنے شوہر کے ساتھ مل کر رومی فوج کا مقابلہ کیا اور ایک شدید لڑائی میں شہید ہو گئیں۔ مِقْدَاد جو نہایت خوش آواز تھے فوج کے آگے آگے سورہ اَنْفَال جس میں جہاد کی ترغیب ہے تلاوت کرتے جاتے تھے۔

ادھر رومیوں کے جوش کا یہ عالَم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ آئے اور اپنے پاؤں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا۔

جنگ کی ابتدا رومیوں کی طرف سے ہوئی۔

دو لاکھ کا ٹڈی دل لشکر ایک ساتھ بڑھا۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لیے آگے بڑھے اور حضرت عیسیٰ کی جےَ پکارتے آتے تھے۔ یہ سازو سامان دیکھ کر ایک شخص کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ اللہ اکبر!کس قدر بے انتہا فوج ہے۔ حضرت خالدؓ نے جوش سے کہا چپ رہ۔ خدا کی قسم! میرے گھوڑے کے سُم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا کہ عیسائی اتنی ہی فوج اَور بڑھا لیں۔ غرض عیسائیوں نے نہایت زور شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ اس زور کا تھا کہ مسلمانوں کا مَیْمَنہ ٹوٹ کر فوج سے الگ ہو گیا اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا۔ ہزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے عورتوں کے خیمہ گاہ تک پہنچ گئے۔ عورتوں کو مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا اور خیمہ کی لکڑیاں اکھاڑ لیں اور پکاریں کہ نامرادو! اِدھر آئے تو لکڑیوں سے تمہارے سر توڑ دیں گی۔ ہند ابوسفیان کی بیوی ہاتھوں میں لاٹھی لے کر آگے بڑھی۔ دیگر خواتین بھی ان کے پیچھے پیچھے آگے بڑھیں۔ ہند نے ابوسفیان کو بھاگتے دیکھا تو ان کے گھوڑے کے منہ پر میخ مارتے ہوئے کہا کہ کدھر جا رہے ہو؟ واپس آؤ اور جنگ کے میدان میں جاؤ۔

اسی طرح ایک اَور روایت ہے اس کے مطابق ہند لکڑی اٹھا کر ابوسفیان کی طرف لپکیں اور کہا کہ خدا کی قسم !تم دین ِحق کی مخالفت کرنے اور خدا کے سچے رسولؐ کو جھٹلانے میں بہت سخت تھے۔ آج موقع ہے کہ میدانِ جنگ میں دینِ حق کی سربلندی اور رسولِ خداؐ کی خوشنودی کے لیے اپنی جان قربان کر دو اور

خدا کے سامنے سرخرو ہو جاؤ۔

ابوسفیان کو سخت غیرت آئی اور پلٹ کر شمشیر بدست دشمن کے ٹڈی دل لشکر میں گھس گیا۔

ایک اَور بہادر مسلمان عورت جن کا نام خولہ تھا وہ یہ شعر پڑھ کر لوگوں کو غیرت دلاتی تھیں کہ

يَا هَارِبًا عَنْ نِسْوَةٍ تَقِيَّاتٖ

فَعَنْ قَلِيْلٍ مَا تَرٰى سَبِيَّاتٖ

وَلَا حَظِيَّاتٍ وَلَا رَضِيَّاتٖ

کہ اے تقویٰ شعار عورتوں سے بھاگنے والے!عنقریب تُو انہیں قیدی دیکھے گا۔ نہ وہ بلند مرتبہ پر ہوں گے اور نہ ہی وہ پسندیدہ ہوں گے۔ یہ حالت دیکھ کر مُعَاذ بن جَبلؓ جو مَیمنہ کے ایک حصہ کے سپہ سالار تھے، گھوڑے سے کود پڑے اور کہا کہ مَیں تو پیدل لڑتا ہوں لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے۔ ان کے بیٹے نے کہا کہ ہاں یہ حق مَیں ادا کروں گا کیونکہ مَیں سوار ہوکر اچھا لڑ سکتا ہوں۔ غرض دونوں باپ بیٹے فوج میں گھس گئے اور دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں سنبھل گئے۔ ساتھ ہی حَجَّاجْجو قبیلہ زبیدہ کے سردار تھے، پانچ سو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کو جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آتے تھے روک لیا۔ مَیْمَنہ میں قبیلہ اَزْد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا۔ عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زور ان پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ جنگ میں یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف سر، ہاتھ، بازو کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پایہ ثبات کو لغزش نہیں آتی تھی۔ عَمرو بن طُفَیل جو قبیلہ کے سردار تھے تلوار مارتے جاتے تھے اور للکارتے جاتے تھے کہ اَزْدیو! دیکھنا مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے۔ نو بڑے بڑے بہادر ان کے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود بھی وہ شہید ہوئے۔حضرت خالدؓ نے اپنی فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا۔ دفعةً صف چیر کر نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں پلٹ دیں۔ عکرمہ نے جو ابوجہل کے فرزند تھے گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا عیسائیو! میں کسی زمانے میں کفر کی حالت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑ چکا ہوں۔ کیا آج تمہارے مقابلے میں میرا پاؤں پیچھے پڑ سکتا ہے۔ یہ کہہ کر فوج کی طرف دیکھا اور کہا

مرنے پر کون بیعت کرتا ہے!

چار سو شخصوں نے جن میں ضرار بن اَزْد بھی تھے مرنے پر بیعت کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے۔ عکرمہ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی۔ کچھ کچھ دم باقی تھا۔ خالدؓ نے اپنی رانوں پر ان کا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا خدا کی قسم! عمرؓ کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے۔ غرض عکرمہؓ اور ان کے ساتھی گو خود ہلاک ہو گئے لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر دیے۔

خالدؓ کے حملوں نے اَور بھی ان کی طاقت توڑ دی یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور خالدؓ ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار دُرُنْجَارْ تک پہنچ گئے۔ دُرُنْجَاراور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لیے کہ اگر یہ آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں۔ عین اسی وقت جب ادھر مَیْمَنَہ میں بازارِ قتال گرم تھا تو اِبنِ قَنَاطِیْر، جو رومیوں کے مَیْمَنَہ کا سردار تھا، نے مَیْسَرَہ پر حملہ کیا۔ بدقسمتی سے اس حصہ میں اکثر لَحْم وغَسَّانْ کے قبیلے کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بودوباش رکھتے تھے اور ایک مدت سے روم کے باج گزار تھے۔ رومیوں کو ٹیکس دیا کرتے تھے تو رومیوں کا جو رعب ان کے دلوں میں سمایا ہوا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ مسلمان ہونے کے باوجود بھی وہ پرانا رعب چل رہا تھا اس سے خوفزدہ ہو گئے، پاؤں اکھڑ گئے لیکن بہرحال افسروں نے بھی جرأت دکھائی۔ اگر افسروں نے بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھاگتے ہوؤں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے۔ عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سےقبُاَثْ بن اَشْیَم، سعید بن زید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن عاص، شُرَحْبِیل بن حسنہ دادِ شجاعت دے رہے تھے۔ قُبَاث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے مگر ان کے تیور پر بل نہ آتا تھا۔ نیزہ ٹوٹ کر گرتا تو کہتے کوئی ہے جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے خدا سے اقرار کیاہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا۔ لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے اور پھر وہ شیر کی طرح جھپٹ کر دشمن پر جا پڑتے۔ اَبُوالْاعْوَر گھوڑے سے کود پڑے اور اپنی رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبیٰ میں رحمت۔ دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ سعید بن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمے کے افسر کو مار کر گرا دیا۔ یزید بن ابوسفیان معاویہ کے بھائی بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے۔ اتفاق سے ان کے باپ ابوسفیان جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے ان کی طرف آ نکلے اور بیٹے کو دیکھ کر کہا کہ اے میرے بیٹے! اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے۔ تُو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا حق زیادہ ہے۔ تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لیے شرم کی جگہ ہے۔ شُرَحْبِیل کا یہ حال تھا کہ رومیوں کا چاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ بیچ میں پہاڑ کی طرح کھڑے تھے اور قرآن کی یہ آیت پڑھتے تھے کہ

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ (التوبۃ:111)

کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس وعدے کے ساتھ خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی کیونکہ وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس یا تو وہ اپنے دشمنوں کو مار لیتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں اور

نعرہ مارتے تھے کہ خدا کے ساتھ سودا کرنے والے اور خدا کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں؟

یہ آواز جس کے کان میں پڑی، بےاختیار لَوٹ پڑا یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج پھر سنبھل گئی اور شُرَحْبِیل نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو لڑتے چلے آتے تھے بڑھنے سے رک گئے۔ ادھر عورتیں خیموں سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں اور چِلّا کر کہتی تھیں کہ میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا۔ لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا جو دفعةً قَیس بن ھُبَیْرَہ جن کو خالدؓ نے فوج کا ایک حصہ دے کر مَیْسَرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا عقب سے نکلے اور اس طرح ٹوٹ کر حملہ کیا کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سنبھل نہ سکی۔ تمام صفیں ابتر ہو گئیں اور گھبرا کر پیچھے ہٹیں۔ ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کیا۔ رومی دور تک ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آ گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا اور میدان خالی ہو گیا۔ یوں

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اہم ترین جنگ میں عظیم الشان فتح سے ہمکنار کیا۔

اس لڑائی کا یہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی حَبَاسْ بن قَیس جو ایک بہادر سپاہی تھے بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ اسی اثنامیں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا۔ حَبَاسْ کو خبر تک نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ میرے پاؤں کا کیا ہوا؟ جب پاؤں کی طرف دیکھا تو خیال آیا کہ پاؤں دیکھوں کہاں ہےتو پھر پتہ لگا کہ پاؤں غائب ہے۔ ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ پر ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے۔

رومیوں کے کس قدر آدمی مارے گئے

ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ طبری اور اَزْدی نے لاکھ سے زیادہ بیان کیا ہے۔ بلاذری نے ستر ہزار لکھا ہے۔ مسلمانوں کی طر ف سے تین ہزار کا نقصان ہوا جن میں عکرمہ، ضِرَار بن اَزْوَر، ہِشَام بن عَاصِی، اَبَان بن سعید وغیرہ تھے۔ قیصر اَنطاکیہ میں تھا کہ اس کو شکست کی خبر پہنچی۔ اسی وقت اس نے قسطنطنیہ کی تیاری کی اور چلتے وقت شام کی طرف رُخ کر کے کہا کہ ’’الوداع اے شام!‘‘ ابوعُبَیْدہ نے حضرت عمرؓ کو فتح کی خوشخبری کا خط لکھا اور ایک مختصر سی سفارت بھیجی جن میں حُذَیفہ بن یَمان بھی تھے۔ حضرت عمرؓ یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن سے سوئے نہیں تھے۔ فتح کی خبر پہنچی تو دفعةً سجدے میں گرے اور خدا کا شکر ادا کیا۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 119تا 130 دار الاشاعت کراچی 1991ء)
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہﷺ والثلاثۃ الخلفاء جزء2 صفحہ271۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1420ھ)
(فتوح الشام ازواقدی جزء 1صفحہ 242 المکتبة التوفیقیہ مصر2008ء)
(تاریخ الطبری لابن جریر الجز ثانی صفحہ 338 دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
(تاریخ اسلام کی بہادر خواتین صفحہ 116 از مولانا ثناء اللہ سعد شجاع آبادی۔ مکتبہ عمر فاروق کراچی 2011ء)
(البدایۃ والنہایۃ جلد9 صفحہ560 دار ھجر 1998ء)

یرموک کے لیے حِمْص سے اسلامی فوج کو عارضی طور پر جانا پڑا تھا اس پر ان لوگوں سے لیا گیا جزیہ انہیں واپس کر دیا گیا تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ ’’صحابہؓ نے جس وقت رومی حکومت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بڑھتے بڑھتے یروشلم پر جو عیسائیوں کی مذہبی جگہ ہے قابض ہو گئے اور پھر اس سے بھی آگے بڑھنا شروع ہوئے تو عیسائیوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا مذہبی مرکز مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا ہے ان کو وہاں سے نکالنے کے لئے آخری جدوجہد کا ارادہ کیا اور چاروں طرف مذہبی جہاد کا اعلان کر کے عیسائیوں میں ایک جوش پیدا کر دیا گیا۔ اور بڑی بھاری فوجیں جمع کر کے اسلامی لشکر پر حملہ کی تیاری کی۔ ان کے اس شدید حملہ کو دیکھ کرمسلمانوں نے جو اُن کے مقابلہ میں نہایت قلیل تعداد میں تھے عارضی طور پر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور اسلامی سپہ سالار نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ دشمن اتنی کثیر تعداد میں ہے اور ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا اس لشکر کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے آپ اگر اجازت دیں تو جنگی صف بندی کو سیدھا کرنے اور محاذ جنگ کو چھوٹا کرنے کے لیے اسلامی لشکر پیچھے ہٹ جائے تا تمام جمعیت کو یکجا کر کے مقابلہ کیا جا سکے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ہم نے ان علاقوں سے جو فتح کر رکھے ہیں لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کیا ہوا ہے۔ اگر آپ ان علاقوں کو چھوڑنے کی اجازت دیں تو یہ بتائیں کہ اس ٹیکس کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ محاذ کو چھوٹا کرنے اور اسلامی طاقت کو یکجا کرنے کے لئے پیچھے ہٹنا اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں لیکن یہ یاد رکھو کہ ان علاقوں کے لوگوں سے ٹیکس اس شرط پر وصول کیا گیا تھا کہ اسلامی لشکر ان کی حفاظت کرے گا اور جب اسلامی لشکر پیچھے ہٹے گا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ ان علاقوں کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس سے جو کچھ وصول کیا گیا ہے وہ اسے واپس کر دیا جائے۔ جب حضرت عمرؓ کا یہ حکم پہنچا تو اسلامی سپہ سالار نے ان علاقوں کے زمینداروں اور تاجروں اور دوسرے لوگوں کو بلا بلا کر ان سے وصول شدہ رقوم واپس کر دیں اور ان سے کہا کہ آپ لوگوں سے یہ رقوم اس شرط پر وصول کی گئی تھیں کہ اسلامی لشکر آپ لوگوں کی حفاظت کرے گا مگر اب جبکہ ہم دشمن کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے عارضی طور پر پیچھے ہٹ رہے ہیں اور اس وجہ سے آپ لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ ان رقوم کو اپنے پاس رکھنا درست نہیں۔

یہ ایسا نمونہ تھا کہ جودنیا کی تاریخ میں اور کسی بادشاہت نے نہیں دکھایا۔

بادشاہ جب کسی علاقے سے ہٹتے ہیں تو بجائے وصول کردہ ٹیکس وغیرہ واپس کرنے کے ان علاقوں کو اَور بھی لوٹتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب تویہ علاقے دوسرے کے ہاتھ میں جانے والے ہیں ہم یہاں سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں۔ پھر چونکہ انہوں نے وہاں رہنا نہیں ہوتا اس لیے بدنامی کا بھی کوئی خوف ان کو نہیں ہوتا اور اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی منظم حکومت ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ خاموشی سے فوجوں کو پیچھے ہٹا دیتی ہے اور زیادہ لُوٹ مار نہیں کرنے دیتی لیکن اسلامی لشکر نے جو نمونہ دکھایا جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صرف حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہی نظر آتا ہے۔ بلکہ افسوس ہے کہ بعد کے زمانہ کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو اس کی کوئی اَور مثال دنیا میں نہیں ملتی کہ کسی فاتح نے کوئی علاقہ چھوڑا ہو تو اس علاقہ کے لوگوں سے وصول کردہ ٹیکس اور جزیے اور مالیے واپس کر دئیے ہوں۔ اس کا عیسائیوں پر اتنا اثر ہوا کہ باوجودیکہ ان کی ہم مذہب فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں، حملہ آور ان کی اپنی قوم کے جرنیلوں، کرنیلوں اور افسروں پر مشتمل تھے اور سپاہی ان کے بھائی بند تھے اور باوجود اس کے کہ اس جنگ کو عیسائیوں کے لیے مذہبی جنگ بنا دیا گیا تھا اور باوجود اس کے کہ عیسائیوں کا مذہبی مرکز جو ان کے قبضہ سے نکل کر مسلمانوں کے ہاتھ میں جا چکا تھا اب اس کی آزادی کے خواب دیکھے جا رہے تھے۔ عیسائی مرد اور عورتیں گھروں سے باہر نکل نکل کر روتے اور دعائیں کرتے تھے کہ مسلمان پھر واپس آئیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد24 صفحہ15تا17)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تاریخ پر بڑا عبور تھا۔ ان کا یہی خیال ہے کہ حضرت عمرؓ سے پوچھ کے ہی واپسی ہوئی تھی اور پھر یہ ٹیکس وغیرہ جو تھا وہ واپس کیا گیا تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت عکرمہؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جنگ یرموک میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی جانیں خطرہ میں تھیں اور مسلمان کثرت سے مارے جا رہے تھے تو اسلامی کمانڈر انچیف حضرت ابوعُبَیْدہ بن الجَرَّاحؓ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ایسے بہادر نکل آئیں جو تعداد میں اگرچہ تھوڑے ہوں لیکن وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر رومی فوج پر رعب ڈال دیں۔ حضرت عکرمہؓ آگے نکلے اور انہوں نے حضرت ابو عُبَیْدہؓ سے درخواست کی کہ مجھے اپنی مرضی کے مطابق کچھ آدمی چن لینے دیں میں ان آدمیوں کو ساتھ لے کر دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کروں گا اور کوشش کروں گا کہ ان کے جرنیل کو مار دوں۔ اس وقت رومی لشکر کا جرنیل خوب زور سے لڑرہا تھا اور بادشاہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کر لے تو وہ اپنی لڑکی کی شادی اس سے کر دے گا اور اپنی آدھی مملکت اس کے سپرد کر دے گا۔ اس لالچ کی وجہ سے وہ بڑے جوش میں تھا اور اپنی ذاتی اور شاہی فوج لے کر میدان میں اترا ہوا تھا اور اس نے سپاہیوں سے بڑی رقوم کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ چنانچہ رومی سپاہی بھی جان توڑ کر لڑ رہے تھے۔ جب رومی لشکر نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو وہ جرنیل لشکر کے قلب میں کھڑا تھا۔

حضرت عکرمہؓ نے قریباًَ چار سو آدمیوں کو لے کر لشکر کے قلب پر حملہ کیا

اور ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اس جرنیل پر حملہ کر کے اسے نیچے گرا دیا۔ مقابلہ میں لاکھوں کا لشکر تھا اور یہ صرف چار سو مسلمان تھے۔ اس لیے مقابلہ آسان نہ تھا۔ اس جرنیل کو تو انہوں نے ماردیا اور اس کے مر جانے کی وجہ سے لشکر بھی تتر بتر ہو گیا مگر دشمن ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑا اور سوائے چند ایک کے سارے کے سارے شہید ہو گئے۔ ان آدمیوں میں سے بارہ شدید زخمی تھے۔ جب مسلمان لشکر کو فتح ہوئی تو ان لوگوں کی تلاش شروع ہوئی۔ ان بارہ زخمیوں میں حضرت عکرمہؓ بھی شامل تھے۔ ایک مسلمان سپاہی آپ کے پاس آیا۔ آپ کی حالت خراب تھی۔اس نے کہا عکرمہ میرے پاس پانی کی چھاگل ہے تم کچھ پانی پی لو ۔ آپ نے منہ پھیر کر دیکھا تو پاس ہی حضرت عباسؓ کے بیٹے فضلؓ پڑے ہوئے تھے۔ وہ بھی بہت زخمی تھے۔ عکرمہؓ کہنے لگے میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ جن لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت مدد کی جب میں آپ کا شدید مخالف تھا وہ اور ان کی اولاد تو پیاس کی وجہ سے مر جائے اور میں پانی پی کر زندہ رہوں۔ پہلے انہیں پانی پلاؤ۔ اگر کچھ بچ جائے تو پھر میرے پاس لے آنا۔ چنانچہ وہ مسلمان فضلؓ کے پاس گیا۔ انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا پہلے انہیں پلاؤ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔ وہ اس زخمی کے پاس گیا تو اس نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے، پہلے اسے پلاؤ۔ اس طرح وہ جس سپاہی کے پاس جاتا وہ اسے دوسرے کی طرف بھیج دیتا اور کوئی پانی نہ پیتا۔ جب وہ آخری زخمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہوچکا تھا۔ جب عکرمہؓ کی طرف لوٹا تو وہ بھی دم توڑ چکے تھے۔ اس طرح باقی زخمیوں کا حال ہوا۔ جس کے پاس بھی وہ گیا وہ فوت ہو چکا تھا۔‘‘

(ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے، انوار العلوم جلد 26 صفحہ 229-231)

تو یہ تھا اس جنگ کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح پھر فتح دی۔ بہرحال ابھی یہ ذکر چل رہا ہے۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ بیان ہو گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 8 ؍ اکتوبر 2021ء صفحہ 5تا9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button