متفرق شعراء

غزل

(نجیب احمد فہیم)

پتھروں کے شہر میں بھی آئینہ محفوظ ہے

اس کے پیچھے بھی بڑا اِک سانحہ محفوظ ہے

قاتلانِ شہر یوں نغمہ سرا ہیں امن کے

دیکھ لو اس شہر کی ہر فاختہ محفوظ ہے

سو دلیلیں پیش کر دیں اس نے سب کے سامنے

کہہ رہا تھا راہزن یہ راستہ محفوظ ہے

حادثوں میں زندگی کا رہ گیا اتنا بھرم

جیسے سطحِ آب پر اِک بلبلہ محفوظ ہے

ہاتھ پاؤں کیسے بولیں گے یہ اب ثابت ہوا

جسم کے ہر بال میں بھی حافظہ محفوظ ہے

جانے کیوں تقدیر اس کو لے گئی ہے چھین کر

لوگ کہتے ہیں کہ جائے حادثہ محفوظ ہے

کوئی بے گور و کفن اس دارِ فانی سے گیا

اور کسی گمنام کا بھی مقبرہ محفوظ ہے

بھوک لے جاتی ہے جانیں روز و شب لیکن نجیبؔ

راہنما یہ کہہ رہے ہیں قافلہ محفوظ ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button