متفرق مضامین

مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اہمیت و برکات

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

’’جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔‘‘

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے اپنے برگزیدہ نبی بھیجتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک زندہ اور حقیقی تعلق قائم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

اسلام کے اس دَور آخرین میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مساجد ویران ہو گئیں اور ہدایت کے چراغ بجھ گئے ، علماء بگڑ گئے اور دجالی قوتوں نے دن رات اسلام اور بانی اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرنا شروع کر دیے اور قریب تھا کہ اسلام کا نام و نشان مٹ جائے ، خدائےاسلام کو اس امت پر رحم آ گیا اور اللہ تعالیٰ نے وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ کے مصداق ، حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کی گئی پیشگوئیوں کے مطابق سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو اس زمانے کے امام اور مہدی کے طور پر مبعوث فرمایا تا اس کی توحید کا دنیا میں بول بالا ہو اور ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور قرآن کریم کی صداقت دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے۔

آپ علیہ السلام نے غلبہ اسلام کے لیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے اور ان میں سے ایک تحریرو تقریر اور اشاعت کتب ہے۔آپ علیہ السلام نے پچاسی کے قریب کتب تصنیف فرمائیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پچاسی کے قریب کتب تمام علوم کی حامل ہیں۔ جو روحانی خزائن کی 23 جلدوں پر مشتمل ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو سلطان القلم کے خطاب سے نوازا اور آپ کو روحانی خزائن عطا کیے۔اس نے آپ کی تحریر میں وہ سحر رکھ دیا جس سے صدیوں کے مردے زندہ ہو گئے، اندھوں کو بینائی عطا ہوئی اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہو گئے۔انسانیت ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئی اور ایسی حیات سے آشنا ہوئی جو موت کے نام سے نا آشنا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیا سچ فرمایا تھا کہ’’جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا۔‘‘

(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 104)

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کی تلاش میں نکلے اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور فرشتے طالبعلم کے کام پر خوش ہو کر اپنے پر اس کے آگے بچھاتے ہیں اور عالم کے لیے زمین و آسمان میں رہنے والے بخشش مانگتے ہیں۔یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی اس کے حق میں دعا کرتی ہیں…علماء انبیاء کے وارث ہیں۔انبیاء روپیہ پیسہ ورثہ میں نہیں چھوڑ جاتے بلکہ ان کا ورثہ علم و عرفان ہے۔جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ بہت بڑا نصیبہ اور خیر کثیر حاصل کرتا ہے۔

( ترمذی کتاب العلم باب فی فضل الفقہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خدا تعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔بار ہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتاطبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ483،ایڈیشن1988ء)

اسلام کا دلکش اور خوبصورت چہرہ ظاہر کرنے کے لیے اور اس کے کمالات و محاسن کو منظر عام پر لانے کے لیے حضور علیہ السلام کے دل میں کس قدر درد تھا اس کا اندازہ لگانے کے لیے حضور علیہ السلام کے ان الفاظ پر غور کریں۔

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اسی میں میرا سرور اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جو کچھ علوم اور معارف سےمیرے دل میں ڈالا گیا ہے مَیں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈالوں۔ دُور رہنے والے کیا جانتے ہیں مگر جو ہمیشہ آتے جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کیونکر مَیں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدر میں اپنے وقت اور جان کے آرام کو اس راہ میں فدا کر رہا ہوں۔میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ161،ایڈیشن1989ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً یہ نوید عطا ہوئی کہ’’ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔ تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 105تا106)

فرمایا:’’میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 403)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘

(نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 403)

نیز فرمایا:’’سب دوستوں کے واسطےضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں ، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

( ملفوظات جلد 4 صفحہ 361،ایڈیشن1988ء)

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مسیح موعودؑکا دَور قلمی جہاد کا دَور ہونا چاہیے تھا۔ تذکرہ (مجموعہ الہامات و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) میں صفحہ 408 پر اخبار ’’الحکم‘‘مورخہ 17؍جون1901ء جلد 5، نمبر 22کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تحریر کیا گیا ہے کہ’’اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سُلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقارِ علی فرمایا‘‘۔

آج اگر ہم دعوت الیٰ اللہ کے میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دعا کے بعد سب سے اہم ہتھیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں ، جن کو پڑھ کر انسان تمام حقائق و معارف کو پا لیتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ان کو کیا معلوم ہے کہ جب میں عربی میں لکھتا ہوں تو کس طرح افواج کی طرح الفاظ اور فقرے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ300تا301،ایڈیشن1984ء)

ایک روایت میں تین مرتبہ مطالعہ کرنے کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ’’جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔‘‘

( سیرت المہدی جلد اوّل حصہ دوم صفحہ 365 روایت نمبر 410)

حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوریؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی ملاقات کے لیے 1887ء میں قادیان آئے ۔آپ حضور سے اپنی ملاقات کا ذ کر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:غرض میں مرزاصاحب ؑسے رخصت ہوا، چلتے وقت انہوں نے اس کمتر کو’’براہین احمدیہ‘‘اور’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کی ایک ایک جلد عنایت کی۔انہیں میں نے پڑھا ان کے پڑھنے سے مجھ کو معلوم ہوا کہ جناب حضرت مرزا صاحب ؑ بہت بڑے رتبے کے مصنف ہیں۔ خاص کر براہین احمدیہ میں سورۃفاتحہ کی تفسیر دیکھ کر مجھ کو کمال درجہ کی حیرت مرزاصاحبؑ کی ذہانت پر ہوئی۔اس کے بعد حضورؑ سے دوسری ملاقات کے لیےجب آپ 1894ء میں تشریف لائے تو بیعت کی توفیق ملی۔

(اصحاب احمد جلد 14 صفحہ 49 بابت مولوی حسن صاحبؓ)

حضرت حکیم محمد حسین ؓالمعروف مرہم عیسٰیؑ اپنے احمدی ہونے کا باعث یہ بیان کیا کر تے تھے کہ وہ سر سید احمد خان مرحوم کی کتابیں پڑھا کر تے تھے۔اس کے بعدحضرت صاحبؑ کا تذکرہ سنا اور کچھ اشتہارات بھی دیکھے۔برا ہین احمدیہ بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ اس سے آپ کے دل میں حضرتؑ کی محبت کا جوش پیدا ہوا اور آپ قادیان تشریف لے گئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وساطت سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔

(تا ریخ احمد یت لاہور)

ہر احمدی کے لیے تین نصائح

مونگھیرسے محمد رفیق صاحب بی اے اور محمد کریم صاحب تشریف لائے ہوئے تھے۔دونوں نے نماز فجر کے وقت حضرت اقدس سے بیعت کی ، بیعت کر چکے تو حضورؑ نے فرمایا کہ

’’ہماری کتابوں کو خوب پڑھتے رہو تاکہ واقفیت ہو اور کشتی نوح کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرتے رہا کرو اور ہمیشہ خط بھیجتے رہو۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 502،ایڈیشن1988ء)

تائیدِالٰہی

تصنیفات کا یہ عظیم کام اگر دنیاوی مقصد کے لیے ہوتا توبلامبالغہ، بیسیوں لوگوں کی مسلسل محنت درکار ہوتی۔چونکہ روحانی خزائن کا کام دنیاوی نہ تھا بلکہ یہ ایک خالصتاً للّٰہی کام تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پیارے مسیح کی بھرپور مدد فرمائی۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائید الٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی و الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں۔‘‘

(سرالخلافہ صفحہ 6 بحوالہ روزنامہ الفضل ،ربوہ، 25؍فروری2004ء)

تربیت

کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت تربیتی پہلو سے بھی بہت زیادہ ہے۔ان کتب کو پڑھ کر انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک معیت میں موجود ہے۔ اور یوں انسان کے اعمال بہتر سے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ اور انسانی کجیاں روز بروز دور ہوتی جاتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اگر آپ یہاں سے یہ عہد کرکے جائیں گے کہ ہم روزانہ پانچ صفحات حضرت مسیح موعوؑد کی کتب کے پڑھیں گے بلکہ میں پانچ کی شرط کو بھی چھوڑتا ہوں اگر آپ تین صفحات روزانہ پڑھنے کا بھی عہد کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تھوڑے عرصہ ہی میں آپ کے اندر ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں آپ پر نازل ہوں گی ۔ ‘‘

( مشعل راہ جلد دوم صفحہ 45، بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ3؍جون 2004ءصفحہ 2)

فصیح و بلیغ بے نظیر عربی تصنیفات،محیر العقول عظیم معجزہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تحریرات ایک بے نظیر اور محیر العقول معجزہ ہیں۔ آپ علیہ السلام نے کسی کالج یا مدرسہ سے عربی علم وادب کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ بعض غیر معروف اساتذہ سے عربی کی چند کتب پڑھی تھیں۔ آپ کے دعویٰ کے ابتدا میں آپ کے مخالفین نے لوگوں کو آپ سے بد ظن کرنے کے لیے مشہور کیا کہ آپ عربی زبان سے نا بلد ہیں اور ایک صیغہ تک نہیں لکھ سکتے۔ آپ خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور ’’جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے اس زبان میں کامل کر دے اور اس کی فصاحت اور بلاغت میں مجھے بے نظیر بنا دے۔‘‘

(نجم الہدی،روحانی خزائن جلد14صفحہ108)

خدائے سمیع و علیم نے آپ کی ان متضرعانہ دعاؤں کو سنا اور اپنی بارگاہ میں انہیں شرف قبولیت سے نوازا۔یہاں تک کہ ایک ہی رات میں آپ کو عربی زبان کےچالیس ہزار مادے سکھادیے۔ آپ کا عربی زبان کا علم وہبی تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ آپ کو عربی زبان کا لازوال علم عطا کیا تھا۔ آپ نے عربی زبان میں قریبا ًبیس سے زائد کتب اور رسالے تحریر فرمائے۔ ان کتب کی نظیر اور مثال لانے پر عرب و عجم کو للکارا، بیش بہا انعامات مقرر فرمائے، لیکن کوئی بھی ان فصیح و بلیغ کتب کا جواب لانے پر قادر نہ ہو سکا اور درحقیقت کوئی دنیا کا عالم مقابلہ بھی کس طرح کر سکتا تھا کیونکہ اس سلطان القلم کی کتب تو خارق عادت طور پر محض قدرت خداوندی کا محیرالعقول ثبوت تھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے تحصیل علم کے لیے عرب و عجم کے اساتذہ کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا تھا فرماتے ہیں:’’میں نے قرآن مجید کے لیے لاکھوں روپے کی کتابیں خریدیں، مکہ مدینہ میں بھی کئی برس اسی ذوق و شوق سے رہا کہ یہ معلوم کروں کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی مگر قرآن تو میں نے مرزا ہی سے سیکھا۔‘‘

( تاریخ احمدیت جلد 4)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے، کیونکہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور پڑھ کر ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔‘‘

( ملائکۃ اللہ صفحہ 108)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ہر گھرانہ میں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام موجود ہوں اور انہیں بچوں کو پڑھانے کا انتظام موجود ہو۔‘‘

( الفضل 29؍اکتوبر 1977ء)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’جماعت کی تربیت کے لیے آج کے زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات کے پڑھ کر سنانے سے بہتر اور کوئی طریق نہیں ہے اتنا گہرا اثر رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ اس طرح دل کی گہرائی سے نکل کر دل کی گہرائی تک ڈوبتے ہیں اور ایک ایسے صاحب تجربہ کا کلام ہے جس کی بات میں ادنیٰ بھی جھوٹ یاریاء کی ملونی نہیں ہے یہ بات جو کہتا ہے وہ سچی کہتا ہے اس سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی اور کیا بات ہوسکتی ہے۔‘‘

(الفضل 19؍اپریل 1998ءبحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 25؍فروری 2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں کہ’’اس زمانے میں … دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کے لیے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں ، چند ایک عربی میں بھی ہیں ۔‘‘

( خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 401)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کے نام مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے ایک خصوصی پیغام میں فرماتے ہیں:’’عزیزو!یہی وہ چشمۂ رواں ہے کہ جو اس سے پئے گا وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا اور ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی:

یُفِیْضُ الْمَالَ حَتّٰی لَا یَقْبَلُہُ اَحَدٌ( ابن ماجہ)

کے مطابق یہی وہ مہدی ہے جس نے حقائق و معارف کے ایسے خزانے لٹائے ہیں کہ انہیں پانے والا کبھی ناداری اور بے کسی کا منہ نہ دیکھے گا۔…

ہمیںچاہیے کہ ہم ان بابرکت تحریرات کا مطالعہ کریں تاکہ ہمارے دل اور ہمارے سینے اور ہمارے ذہن اس روشنی سے منور ہو جائیں کہ جس کے سامنے دجال کی تمام تاریکیاں کا فور ہو جائیں گی۔اللہ کرے کہ ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات کے ذریعہ سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معاشرہ میں امن و سلامتی کے دیے جلانے والے بن سکیں۔‘‘

(حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعہ کے متعلق حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا احباب جماعت کے نام پیغام،صفحہ5تا6)

اللہ کرے کہ ہم ان روحانی خزائن سے کما حقہ فائدہ حاصل کرنے والے بنیں نیز اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دُعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کم از کم تین بار پڑھنے ، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button