یادِ رفتگاں

شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

(م۔ الف۔ اشرف)

محترم چودھری حمید اللہ صاحب بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ عالم ثانی میں بھی آپ کے درجات بلند فرما ئے۔ وہ اس عالم سفلی میں بھی ایک بڑے انسان تھے۔ ہمہ وقت خدمت سلسلہ کے لیے وقف، ایک عبادت گزار اورنافع النا س وجود تھے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے طویل عمر پائی مگر پھر بھی ان کی وفات ایک غم کی خبر تھی۔ ایسے وجود کا دنیا سے اٹھ جا نا ایک بڑا نقصان ہے۔

ہم نے چھوٹی عمر سے ہی انہیں خدمت کے بڑے مناصب پر فائز دیکھا۔ ان کو پہلی مرتبہ دیکھنے والے شخص کو ان کی شخصیت کا جو پہلو نمایاں نظر آتا تھا وہ ان کا وقار اورسنجیدگی تھی۔ آپ غیرضروری گفتگو نہیں کر تے تھے۔زیادہ وقت دوسروں کی بات سنتے تھے۔ غور و فکر کے عادی تھے۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور تجزیہ ٹھوس اور رائے بڑی صائب ہو تی تھی۔ گفتگو کرتے تو ہر بات سے ان کا علم جھلکتا تھا۔ چودھری صاحب ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ عمدہ خطابت عمدہ ابلاغ کا نام ہے۔ محض لفاظی اور جوش و خروش سے آسمان سر پر اٹھا لینے والا اچھا مقرر نہیں ہو تا۔ کسی تقریر کاکوئی عنوان ہو یا گفتگو کا کوئی موضوع ہو چودھری صاحب اس کی پوری تیاری کرتے تھے۔ان کی تقریر کا انداز بھی منفرد تھا۔ بہت دھیمے لہجے میں اور سمجھانے کے رنگ میں خطاب فرما تے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کو جب با قاعدہ مو ضوع دے کر مدعو کیا جا تا تھا تو وہ ہمیشہ لکھی ہو ئی بلکہ ٹائپ کی ہو ئی تقریر پڑھتے تھے۔ لکھی ہو ئی تقریر اگر ایک عام آدمی پڑھے تو سامعین کو دیر تک توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو تا ہے۔ کیونکہ اس کے پڑھنے کی رفتارعموما ًسامعین کے سمجھنے کی رفتا ر سے زیادہ ہو تی ہے۔لیکن چودھری صاحب کی تقریر کے وقت با وجود اس کے کہ وہ پڑھ کر سنا رہے ہو تے تھے سامعین ہمہ تن گوش ہوتے۔ مجھے یا د ہے کہ جامعہ کے کم عمر طلباء بھی ان کی تقریر کو پوری توجہ سے سنتے تھے۔اور دوران تقریر اساتذہ کو انہیں ڈسپلن کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو تی تھی۔ جب کہ کبھی کبھی ا یسے مقرر بھی آجاتے تھے جن کی تقریر کے دوران ایک دو اساتذہ کو پیچھے نگرانی کے لیے کھڑا کرنا پڑتا تھا تاکہ طلبا ءمتوجہ رہیں۔ چودھری صاحب کا معاملہ مختلف تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی تقریر میں رسمی باتیں نہیں ہو تی تھیں۔ تکلف نہیں پا یا جا تا تھا۔ علمی و فکری گہرائی کے با وجود انداز تکلم بالکل سادہ تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی رنگ میں اپنی ذات کا اظہار ان کا مقصود نہیں ہو تا تھا۔یہاں تک کہ آواز کے کوئی خاص زیر و بم بھی نہیں ہو تے تھے۔ کسی قسم کی شعلہ بیانی کا توشائبہ بھی نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ایک اچھے مقرر تھے کیونکہ بات ٹھوس اور وزنی ہو تی تھی۔ دیکھا جائے تو یہ انداز کلام سیدنا حضرت مسیح مو عود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا ہے۔ ان کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت کے اکثر مقررین کا یہی انداز ہے۔

چودھری صاحب کے انداز بیان کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ بالعموم اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس لیے بظاہر وہ بڑے غیر جذباتی سے انسان نظر آتے تھے۔ لیکن درحقیقت وہ لطیف جذبات کے مالک اور نازک خیال کے حامل ایک حساس دل انسان تھے۔ تکلف سے ایسے جذبات کا اظہار کرنا جو دل کے کسی گوشے میں مو جود ہی نہ ہو ں حقیقی اخلا ق نہیں ہیں۔ چودھری صاحب اپنے حقیقی جذبات کو بھی چھپاتے تھے۔ میں نے کبھی ان کو پُرجوش رنگ میں تقریر کرتے بلکہ بات کرتے ہو ئے بھی نہیں سنا۔ ان کے نزدیک واقعات و حقائق کا درست بیان،کلام کا منطقی ربط اور مدلل استنباط جوشِ خطابت سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ مدلل بات کی اہمیت اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم فرما تا ہے کہ جو دلیل کے ساتھ زندہ ہے وہی زندہ ہے۔ بارہا میں نے دیکھا کہ اگر چودھری صاحب کے سامنے کوئی بے ربط اور غیر منطقی بات کی جاتی تو وہ اسی وقت روک کر فرماتے ٹھہرو ٹھہرو۔اور اس بات کو سمجھنے کے لیے بلکہ خود متکلم پر واضح کر نے کے لیے اس سے وضاحت طلب کرتے۔جب یہ منطقی مغالطہ دور ہوجاتا تب اسے آگے بات کرنے کےلیے کہتے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ چودھری صاحب جذبات کے معاملے میں اخفا سے کام لیتے تھے۔ البتہ زندگی کے آخری چند سالوں میں تقریر کرتے ہوئے بعض مقامات پر آپ کی آواز گلو گیر ہو جا تی تھی۔ یہ رقت بے ساختہ ہو تی تھی اور اس کو بھی آپ حتی الامکان چھپانےکی کوشش کر تے تھے۔ مگر آنکھوں کی نمی اور آوازکی لرزش ان کے دل کا حال کھول دیتی تھی۔ شا ید ان کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ اب زندگی کی شام ملگجی ہو رہی ہے اور کام بہت باقی ہیں۔

یہ سب کچھ تو ان کے متعلق پہلا تاثر تھا۔ ان کو قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک نرم دل اور خا کسار اور بےنفس انسان ہیں۔ عموماً لو گ سمجھتے ہیں کہ جا بجا جھک جھک کر ملنے والا اور ہر وقت مسکرانے والا انسان ہی منکسر المزاج ہو تا ہے۔ حالانکہ عاجز اور بے نفس انسان تو وہ ہے جو آسانی سے اطاعت کر سکتا ہے۔ اطاعت بہت بڑا عجز ہے۔ اور یہی عجز انسان کو کار آمد بناتا ہے۔ یہ ایک دینی ہی نہیں بلکہ سائنسی اصول بھی ہے۔ کوئی بھی طاقت ہو وہ جوتنے یعنی نظم و ضبط میں لا نے سے ہی کسی کام میں آسکتی ہے۔ چودھری صاحب اپنی قابلیت، بےنفسی اور اطاعت کی وجہ سے ایک بڑے انسان تھے۔یہ مرتبہ علم و عرفان کے بغیر حاصل نہیں ہو تا۔ وہ جا نتے تھے کہ خا ک میں مل کر ہی وہ آشنا ملتا ہے۔ اسی دلبر کی خاطر انہوں نے ایک منادی کی آواز پر لبیک کہا۔ایک عہد وفا باندھا اور پھر ساری زندگی اتنی محبت و محنت کے ساتھ اسے نبھایا کہ آج ان کا وجود ایک روشن چراغ کی مانند نظر آتا ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا کہ وہ سیدنا حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی روحانی اولاد میں سے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی سیرت واقفین زندگی کی راہوں میں روشنی کا ایک سامان ہے۔ محترم چودھری صاحب نے جس عاجزی، اطاعت، قربانی اور محنت شاقہ کے ساتھ اپنا وقف تادم آخر نبھایا وہ بلاشبہ خدا تعالیٰ کا بڑا فضل تھا۔معاہدہ وقف زندگی فارم کاپہلافقرہ یہ ہے کہ میں محض اللہ تعا لیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنی ساری زندگی وقف کرتا ہوں۔تمام واقفین زندگی یہی عہد کرتے ہیں۔مگر جو اپنے عہد کو جتنے حسن و خوبی کے ساتھ نبھاتا ہے اتنا ہی وہ قابل رشک ہے۔ محترم چودھری صاحب کے اعلیٰ درجہ کے عہد وقف کے متعلق سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ’’آپ کا اٹھنا بیٹھنا کھڑے ہو نا چلنا بولنا اور خا موش رہنا خلیفہ وقت کے ماتحت تھا‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 5؍مارچ 2021ء)

خلیفہ وقت کا یہ اظہار خوشنودی بلا شبہ آپ کی بڑی خوش نصیبی ہے۔ مکرم چودھری صاحب اطاعت اور اس کی برکات کو واضح کرنے کے لیے ایک واقعہ سنا یا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کے سٹیج سے واپس تشریف لے جا تے ہو ئے چودھری صاحب سے یہ مختصر سا فقرہ فرما یاکہ لنگر خا نوں کی فکر کریں۔چودھری صاحب نے اسی وقت رپورٹ لی تو معلوم ہو ا کہ گیس کا پریشر اچانک اتنا کم ہو گیا ہے کہ کھانا پکوائی کا کام نہیں ہو سکتا۔فوراًسوئی گیس والوں سے رابطہ کیا گیا۔ ان کا عملہ سرگودھا روڈ کے بالکل ساتھ واقع کنٹرول سنٹر میں آیا مگر مسئلہ حل نہ کر سکا کیونکہ ان کے پاس ضروری آلات نہیں تھے۔ یہ ساز و سامان فیصل آباد یا سرگودھا سے ہی منگوایا جا سکتا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس پر اتنا وقت ضرورخرچ ہو نا تھا کہ لنگر خانوں میں اگلے ایک وقت کا کھا نا نہیں پک سکتا تھا۔ ابھی سوئی گیس والوں کا عملہ وہیں کھڑا تھا کہ ایک عجیب اتفاق ہواکہ عین اسی وقت سوئی گیس والوں کی ایک گاڑی سرگودھا روڈ سے گزر رہی تھی۔وہ ان کو دیکھ کر رک گئے اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ ان کے پا س خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری آلا ت مو جود تھے۔ چنانچہ انہوں نے وہ مسئلہ حل کر دیا۔چودھری صاحب فرما یا کرتے تھے کہ اگر ہم حضور کے حکم کی فوری اطاعت کر کے ضروری کارروائی شروع نہ کرتے تو گیس کے کم پریشر کی وجہ سے کم از کم ایک وقت کا کھانا جلسہ کے مہمانوں کو نہ ملتا۔

آپ نے چارخلفاء کے زیر سایہ خدمات سلسلہ کی سعادت پائی۔ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبتوں سے براہ راست فیض پایا۔خلافت ثانیہ کے عظیم الشان موعود زمانہ میں خدمات بجا لا نے والے چند وجود ہی اب باقی ہیں جن میں سے ایک آپ بھی تھے۔ آپ کا دنیا سے چلے جا نا اس پس منظرمیں بھی ایک افسوس کی خبر ہے۔آپ کے ذکر خیر کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ آپ ایک ایسے نورانی سلسلے کے امین تھے جس کی روشنی نے کل عالم کا احاطہ کرنا ہے۔بس جیسے بھی بن پڑے ان چراغوں کی روشنی کو لفظوں میں سمیٹنا اور پھر سینوں میں محفوظ کرنا ایک اہم ضرورت ہے۔ان لفظوں اورحروف کو پڑھنے والے کچھ ایسے اہل ایمان ہو سکتے ہیں جو دیکھنے والوں سے آگے نکل جا ئیں۔اور آنے والے زمانوں میں بہت سے ایسے ہو ںگے جو اِن راہوں پر چلتے ہو ئے اُن موعودمنزلوں کو پا لیں گے جن کے خواب آنکھوں میں بسائے بہت سارےبزرگ دنیا سے گزر گئے۔

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

خدا ان بزرگوں کی قبروں پر اپنے فضلوں کی بارشیں برساتا رہے۔ کام بہت مشکل اور راستہ بہت کٹھن ہے۔یہ بزرگ بھی جو کچھ کر سکے یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہی تھا۔ اور اس فضل کو جذب کر نے کے لیے یہ لوگ دن رات اس کے حضور جھکے رہتے تھے۔ محنت شاقہ اور مسلسل کام کرتے ہو ئے بادی النظر میں انہوں نے ایک بہت سادہ بلکہ خشک سی زندگی گزاردی۔ اس کا ایک راز وہ لذت تھی جو یہ لوگ عبادت سے حاصل کرتے تھے۔آنحضرت ﷺ نے فرما یا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ ہم میں سے بہتوں کے لیے نماز پڑھنا دوبھر ہو تا ہے کجا یہ کہ انہیں کوئی لذت حاصل ہو۔میرا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دن رات محنت کرنے والا انسان ہی اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اپنی فرحت کا سامان نماز میں پاتا ہے۔ایک فارغ انسان کے لیے تو صبح سے شام کرنا ہی جوئے شیر لا نا بن جا تا ہے۔تو نماز پڑھنا تو بہرحال اسے ایک مشکل کام محسوس ہو گا جس کا قیام شعوری محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔مکرم چودھری صاحب نمازبا جماعت کے ایسے عادی تھے کہ نوجوانوں اور بوڑھوں دونوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ تھے۔ عمر کے آخری سالوںمیں آپ مسجدتشریف لا تے تو دیکھنے والے کو خدشہ ہو تا تھا کہ آپ کہیں گر نہ جائیں۔ ایک خادم ہمراہ ہو تا تھا۔ جو ضرورت کے وقت آپ کو سہارا دیتا تھا۔اور کبھی ایسا ہوا کہ خادم چند منٹ لیٹ ہو گیا تو چودھری صاحب اکیلے ہی نماز کے لیے آجا تے۔ایسے موقع پر کوئی اور دوست کوشش کرتے کہ وہ ان کو سہارا دیں یا ان کی کرسی صحیح جگہ پر رکھ دیں۔مصروفیت، بیماری، بڑھاپا، کمزوری کے با وجود نہ صرف آپ ہر نماز کے لیے مسجد میں آتے تھے بلکہ ہمیشہ تکبیر تحریمہ سے چند منٹ پہلے آکر نماز با جماعت کا انتظار کیا کرتے تھے۔ مجھے سات سال کے عرصے میں ایک دو دفعہ سے زیادہ یا د نہیں ہے کہ آپ تکبیر تحریمہ کے بعد مسجد میں داخل ہوئے ہوں۔نماز کا انتظار نماز کا حصہ ہو تا ہے۔چودھری صاحب کا عملی نمونہ اس کی ایک تشریح تھا۔آپ نمازکا انتظار مکمل خاموشی سے کرتے تھے۔ کوئی بات کرنا تو کجا وہ ادھر ادھر دیکھتے بھی نہیں تھے۔ادھر ادھر دیکھنے کے اکثر صورتوں میں معنی یہ ہو تے ہیں کہ ذہن کسی ایک جہت میں سوچ نہیں رہا۔بلکہ درحقیقت سوچ ہی نہیں رہا۔کیونکہ کسی جہت کے بغیر سوچ بے کا ر چیز ہے۔آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔یعنی عمل نیت سے ہی ہو تا ہے۔ نیت وہ جہت اور سمت ہے جس میں ذہن کا م کر تا ہے۔ چودھری صاحب کو توجہ ایک نکتے پر مرکوز کرنا خوب آتا تھا۔اور ظا ہر ہے کہ یہ شعوری کو شش سے ہی ممکن ہو تا ہے۔مسجد میں آپ مکمل خا موش ہوتے تھے۔اور بظاہر آپ کی خاموشی ہی ذکر الٰہی تھی۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ذکر کر تے ہو ئے آپ کے ہو نٹ بھی ہل رہے ہو ں۔ یہ بھی خا موشی اور اخفا کا ایک پہلو تھا۔ بعض اوقات آپ کی آنکھیں بھی بند ہوتی تھیں مگر اس میں کسی قسم کی اُونگھ یا غنودگی کا شائبہ بھی نہیں ہو تا تھا۔ آپ ذہنی طور پر ہر وقت بیدار اور چوکس ہو تے تھے اور آپ کی توجہ کسی امر پر مرتکز ہوتی تھی خواہ آنکھیں خوابیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔نماز مغرب ہر جمعرات کو نفلی روزے کی افطاری کی وجہ سے مقررہ وقت سے پانچ منٹ لیٹ ہو تی تھی۔کئی بار ہمیں بلکہ امام الصلوٰۃ کو بھی یہ بات بھول جا تی تھی۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ چودھری صاحب کو ہمیشہ یہ یاد ہو تا تھا۔وہ جمعرات کو بھی نمازمغرب کے لیے اتنے ہی منٹ پہلے آتے جو ان کا معمول تھا۔

چودھری صاحب جماعتی تاریخ کے ایک عالم ہی نہیں بلکہ خودسلسلہ کے پرانے بزرگوں کا ایک تسلسل تھے اور ان کے جانشین تھے۔وہ بزرگ جن کا تذکرہ لوگ کتابوں میں پڑھتے ہیں چودھری صاحب ان بزرگوں کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے۔اگر یہ طے کر لیا جا ئے کہ بنیاد پرست اورقدامت پسند سے مراد وہ شخص ہے جو آنحضرت ﷺ کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے تو بلا جھجک کہا جا سکتا ہے کہ چودھری صاحب ایک قدامت پسند انسان تھے۔ حضرت مصلح مو عودؓ کا ایک واقعہ آپ نے بار ہا بیان فرما یا کہ لا ہور میں کسی تقریب میں حضور مدعو تھے اور وہاں سرکاری افسران نے مع اپنی بیگمات کے بھی آنا تھا۔ حضور ؓنے ہدایت فرما دی تھی کہ مہمانوں کو یہ بتا دیا جا ئےکہ میں خواتین سے مصافحہ نہیں کرتا۔ حضور ؓتشریف لا ئے تو آپ نے اپنے معمول یعنی آنحضرت ﷺ کے مبارک دستور کے مطابق خواتین سے ہا تھ نہ ملا یا۔بعد میں ایک افسر نے حضورؓ سے شکوہ کے رنگ میں کہا کہ میں تو سمجھا تھا کہ آپ اور آپ کی جماعت بڑی ماڈرن ہے۔اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم تو دنیا کو آنحضرت ﷺ کے زمانے کی طرف واپس لے کر جا نا چاہتے ہیں۔ مکرم چودھری صاحب یہ واقعہ سنا یا ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ کے اُسوہ حسنہ کو ہر رنگ میں عصر حاضر میں زندہ کرنا آپ کی منزل تھی۔ تحریک جدید کا مقصد تھا۔ احمدیت کی غرض و غایت تھی۔

مہد سے لحد تک علم حاصل کرنے کی کو شش کرنا فرض ہے۔ میں نے دیکھا کہ دفتر میں چند منٹ بھی مل جا تے تو چودھری صاحب مطالعہ کے لیے کوئی نہ کوئی کتاب اٹھا لیتے تھے۔ علم باریک بین بنا تا ہے جس سے مراد یہی ہے کہ انسان کئی جہات میں سو چ سکتا ہے اور کئی زا ویوں سے دیکھ سکتا ہے۔چودھری صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس باریک بینی کی صفت سے نوازا تھا۔آپ نے عمر بھر اس صلا حیت کو جماعتی انتظامی معاملا ت کو احسن رنگ میں چلانے کے لیے بھر پور استعمال کیا۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اورکوئی بھی منصوبہ بناتے ہو ئے آپ اس کی جزئیات اور تفاصیل میں جا تے اور اس کے تمام مضمرات کو جانچنے کی پوری کو شش فرما تے۔ آپ سے دفتری ملا قات کو ئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لیے پوری تیاری ہو نی لازمی تھی۔ ہر ممکنہ سوال کا جواب آنا ضروری تھا۔ زیر نظر معاملے پر حا وی ہو نا چاہیے تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرما یا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔اور میرا خیال ہے کہ احباب مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ان معنوں میں چودھری صاحب کے ماتحت سب کا رکن ان سے کچھ نہ کچھ ضرور ڈرتے تھے۔ ایمانی فراست کے ساتھ ساتھ ان کی باریک بینی بھی کمال کی تھی اور آ پ کے اس مزاج کو ریاضی نے بھی بہت صیقل کردیا تھا۔ ریاضی آپ کا مضمون تھا۔ سالہا سال آپ ریاضی پڑھاتے رہے۔ ایک مرتبہ خود مجھ سے فرما یا کہ میرا ذہن mathematical ہے۔ ریاضی کا مضمون اس اعتبار سے بڑا اہم ہے کہ اس میں غلطی کی کو ئی گنجائش نہیں ہو تی۔ یعنی ایک معمولی سی غلطی بھی آخری مقصد میں لازماًناکام کر دیتی ہے۔ اس لیے باریک سے باریک غلطی کے بھی آپ متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاضی پڑھنے سے انسان باریک بین ہو جا تا ہے اور اسے محنت کی عادت بھی ہو جا تی ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ باریک بینی کا منفی اثر بھی ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک باریک بین انسان فیصلہ کرنے میں تاخیر کر سکتاہے۔ لطف یہ ہے کہ چودھری صاحب فوری فیصلہ کرنے میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی قوتِ فیصلہ کو بار ہا مربیان کے انٹرویوز اور دیگر معاملا ت میں دیکھا۔ چند سوالا ت کے بعد ہی انہیں کسی شخص کی افتاد طبع اور صلا حیتوں کا اندازہ ہو جا تا تھا۔ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ جیسے پھل جتنی جلدی فروخت ہو جا ئے اتنا ہی اچھا ہو تا ہے اسی طرح نئے آنے والے مربیان کے متعلق جلدی فیصلہ ہو نا چاہیے کہ انہوں نے کہاں اور کیا خدمت بجا لا نی ہے۔ چودھری صاحب کی فوری فیصلہ کرنے کی صلا حیت کے متعلق ایک ذاتی واقعہ یا د آرہا ہے۔2014ء میں خاکسار کو جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کی سعادت حاصل ہو ئی۔چودھری صاحب نے میری ڈیوٹی یہ لگائی تھی کہ ربوہ سے جا تے ہو ئے تم نے چودھری محمد علی صاحب کو ساتھ لے کر جا نا ہے اور ان کا پورا خیال رکھنا ہے۔اور اس سلسلے میں تفصیل سے ہدایات دی تھیں۔ چودھری محمد علی صاحب کی رہائش ان دنوں احاطہ دفاتر تحریک جدید کے اندر ہی تھی۔ربوہ سے روانگی کے دن میں نماز فجر سے کافی پہلے ان کو لینے کے لیے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ان کی طبیعت بہت نا ساز ہے۔ طبعاً مجھے گھبراہٹ ہو ئی اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جا ئے۔ میں نے چودھری صاحب کے ساتھ رہنے والے خادم کی مدد سے ان کو بحال کرنے کی کوشش کی مگر مقصد حاصل نہ ہوا۔ اس صورت حال میں مجھے راہنمائی کی ضرورت تھی۔ تب میں نے چودھری حمید اللہ صاحب سے رابطہ کرنے کا سوچا۔انٹر کام کیا تو رات کے اس آخری پہر میں انہوں نے خود سنا۔میں نے چودھری صاحب کی طبیعت کے متعلق انہیں بتا یا تو انہوں نے ایک دو باتیں مجھ سے پوچھیں۔ پھر بلا توقف فرما یا کہ انہیں ہسپتال بھجوا دو اور تم اکیلے لا ہور چلے جاؤ اور بروقت ایئرپورٹ پر پہنچو۔ چودھری محمد علی صاحب کا پاسپورٹ بھی میرے پاس تھا اس کے متعلق بھی مجھے میرے پوچھے بغیر کوئی ہدایت دی۔ میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے میری بات سن کر تیس چالیس سیکنڈ میں یہ سب فیصلے کر کے میری راہ نمائی فرمائی اور اس گھبراہٹ کو دور کر دیا۔بعد میں چودھری محمد علی صاحب کی صحت کے متعلق جو معلومات ملیں ان سے ثابت ہو گیا کہ ان کے سفر کی منسوخی اور ہسپتال منتقلی کا فیصلہ درست، ضروری بلکہ ناگزیر تھا۔

میں نے چودھری حمید اللہ صاحب کی باریک بینی کے تذکرہ میں ان کے مضمون ریاضی کا ذکرچھیڑ دیا تھا۔ریاضی تو خیر ضمنی بات ہے اصل بات یہ ہے کہ ہم جس دروازے میں سے گزرنے کے لیے بلا ئے گئے ہیں وہ ایک تنگ دروازہ ہے۔ان کی سادہ زندگی کو دیکھ کر اور ہروقت کمال سنجیدگی سے کام میں منہمک رہنے کی عادت کو دیکھ کر اندازہ ہو جا تا تھا کہ انہوں نے زندگی کے آرام و آسائش سے بہت کم حصہ لیا۔ صبح معمول کے دفتری اوقات کے علاوہ وہ ہمیشہ نماز مغرب کے بعد بھی دفتر تشریف لا تے سوائے اس کے کہ بیمار ہو ں یا سفر پر ہوں۔ایک لا ئق اور محنتی انسان کا نفس اگر کچھ فربہی کا شکار ہو جائے تو یہ ایک قابل فہم بات ہے۔ مگر جو شخص ہر تعریف کا حقدار خدا کو کہتا ہے وہ تکبر سے دور ہو تا ہے۔میں نے دیکھا کہ ایک مرتبہ ایک شخص جو چودھری صاحب سے عمر میں بہت چھوٹا تھا غصہ سے ان سے مخاطب تھا۔یہ ایک بدتمیزی بلکہ گستاخی تھی مگر چودھری صاحب نے کوئی لفظ تو کیا بولنا تھا ان کے ماتھے پر کوئی بل تک نہ آیا اور نہ ہی ان کی نظروں میں غصے کے کوئی آثار پیدا ہو ئے۔ان کے اندر جھوٹی انا نہیں تھی۔مَیں نے بار ہا دیکھا کہ چودھری صاحب کے نزدیک سلسلہ کا اچھا کارکن ہو نے کے لیے ایک بڑی شرط جھوٹی انا سے پا ک ہونا تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ کا رکن کو جانچتے ہو ئے غالباً سب سے زیادہ یہ دیکھتے تھے کہ اس میں کہیں انانیت تو نہیں پائی جا تی ہے۔ دنیا کے اکثر فساد وں کی بنیاد چند انسانوں کی غلط انانیت ہی ہے۔ احمدیت کی غرض و غایت بحر و بر کے سب فساد وں کو امن میں بدلنا ہے۔پس جس دروازے کی طرف ہم بلائے گئے ہیں اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔

تیرے کوچے میں فقط اس کو ہی آنے کی اجازت ہو گی

جس کے اندر نہ انا ہو گی نہ کینہ ہو گا

بے نفس انسان صاحب بصیرت ہو تا ہے۔بات یہ ہے کہ جو شخص اپنی ذاتی پسند و نا پسند سے بلند ہو سکتا ہے اس میں حقائق کو صحیح سیاق و سباق دیکھنے اور ان کو سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔ہماری نگاہوں پر بہت سے دبیز پردے پڑے ہوتے ہیں۔کا نوں میں ایک بہرہ پن ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بسااوقات دیکھتے ہو ئے بھی نہیں دیکھتے اور سنتے ہو ئے بھی نہیں سنتے۔یہ قرآن کریم کا بیان ہے۔اور ظاہر ہے کہ جب دیکھنے اور سننے میں رکاوٹیں حائل ہیں اور صحیح معلومات پہنچ ہی نہ رہی ہوں اور دل و دماغ پہلے ہی تعصبات کا شکا ر ہیں تو موصو لہ معلومات بہرحال غلط پراسس ہوں گی۔ یہ بہت عام پائی جانے والی ایک نفسیاتی حالت ہے۔ماہرین نفسیات نے اس کو سائنسی زبان میں بیان کیا ہے۔اور قرآن کریم نے باربار واضح الفاظ اور مختلف رنگ میں اس نفسیاتی حقیقت کو آشکار فرمایا ہے۔یہاں تک فرمایا ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو تیں بلکہ سینوں میں موجود دل اندھے ہو تے ہیں۔ جتنا جتنا کو ئی انسان بے نفس ہو تا جاتا ہے اسی قدر دل و نظر سے یہ پردے اٹھتے چلے جا تے ہیں۔ مکرم چودھری صاحب کا مشاہدہ بہت گہرا اور بہت خالص ہو تا تھا۔ ان کو خدا نے ایک ایسی نظر اور ایک ایسا دل عطا کر رکھا تھا کہ وہ دوسروں کی نسبت جلد اور آسانی سے صحیح نتا ئج اخذ کر لیتے تھے۔ان کے قریب رہنے والے بہت سے لوگ جتنا اپنے آپ کو جانتے تھے چودھری صاحب ان سے زیادہ ان کو جانتے تھے۔انسان پہلے اپنی ذات کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ اس کے اسرار ورموز سے آگا ہ ہو تا ہے۔ تب اس میں دوسروں کو بھی پہچاننے کی صلا حیت پیدا ہو جا تی ہے۔ کیونکہ تمام نفوسِ انسانی اپنی ماہیت کے اعتبار سے تو ایک جیسے ہیں۔پس جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا وہ انسانی نفس کے اسرارو رموز سے آگاہ ہو گیا۔ اور ایسے لو گ درحقیقت بہت کم ہو تے ہیں۔اکثر لو گ دنیا سے سرسری ہی گزر جاتے ہیں۔ انہیں دوسروں کو تو کیا خود اپنے آپ کو بھی پہچاننے کی نہ فرصت ملتی ہے نہ دماغ میسر آتاہے۔ مگر جو اپنے نفس سے بلند ہو تا ہے وہ بالکل ویسے ہی وسیع نظر ہو جا تا ہے جیسے کوئی شخص پہاڑ پر چڑھ کر ایک سارے شہر کو بخوبی دیکھ سکتا ہے اور اس کے راستوں کو سمجھ لیتا ہے۔اسے ایک نظر عطا ہو تی ہے۔اور وہ صاحب عرفان ہو جا تا ہے۔ شا ید تیس سال یا اس سے بھی زیادہ پرانی با ت ہے مجھے ایک مرتبہ بلا یا اور فرما یا کہ Bertrand Russellکی A History of Western Philosophyکا خلا صہ نکال نکال کر مجھے دکھاتے رہو۔ یہ سلسلہ کچھ دیر تک چلتا رہا۔ میں تین چار دنوں کے بعد مقررہ صفحات کا خلاصہ نکال کر ان کے پا س لے جا تا تھا۔وہ اس کو بغور پڑھتے تھے اور بعض باتوں کی نشان دہی فرما دیا کرتے تھے۔ عرض یہ کر رہا ہو ں کہ چودھری صاحب نو جوانوں پر نظر رکھتے تھے اور ان کے رجحانات کو ان سے بہتر سمجھتے ہو ئے ان کو نصائح فرما تے تھے۔ان سے کام لیتے تھے تاکہ وہ جماعت کے لیے زیادہ کارآمد وجود بن سکیں۔یہ تو اس وقت کی بات ہے جب میں نے جامعہ میں پڑھانا شروع کیا تھا۔ تب تو ان کے ساتھ ایک دفتری تعلق بھی تھا۔ وہ بہرحال ہمارے افسر تھے۔ اس سے بھی بہت پہلے ایک مرتبہ جب میں ہا ئی سکول کا طالب علم تھا۔ اور جمعرات کی دوپہر کو بالعموم ہماری محلے کی طرف سے دارالضیافت میں بیرون ربوہ سے تشریف لائے ہو ئے مہمانوں کو کھانا کھلانے کی ڈیوٹی ہو تی تھی۔ایک روز میں اس ڈیوٹی پر متعین تھا اور ڈائننگ ہال کے ہیچ(Hatch) کے پیچھے کھڑا ہو کر پلیٹوں میں سالن ڈال کر دے رہا تھاتو اچانک میرے بالکل ساتھ پیچھے سے میرا نام لے کر مجھے کسی نے پکارا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو چودھری صاحب کھڑے تھے اور شاید کچھ دیر سے کھڑے تھے۔ تب انہوں نے مجھے تقسیم سالن کے سلسلے میں کچھ ہدایات دیں۔اس وقت تو مجھے خوشی یہ ہوئی تھی کہ چودھری صاحب میرا نام جانتے ہیں۔ آج میں اس بات کو یاد کرتا ہو ں تو مجھے چودھری صاحب کا احساس ذمہ داری سمجھ میں آتا ہے۔چودھری صاحب دارالضیافت کے انچارج مقرر ہو ئے تو دارالضیافت کی عمارت اگرچہ پختہ اینٹوں کی تھی مگر ان پر پلستر تو کیا ٹیپ تک نہیں ہوئی تھی۔پھر چند سالوں میں دارالضیافت نے بہت ترقی کی اور عمارت کی شکل وصورت سنورتی گئی۔اور نظام بہت بہتر ہو تا گیا۔ دارالضیافت میں چودھری صاحب اتنی تفصیل سے نگرانی فرما تے تھے کہ آج اس کو سوچ کر حیرت ہو تی ہے۔ بہت پرانی بات ہے ایک جنازہ وین پر دارالضیافت میں پہنچا جس کے ہمراہ آٹھ دس افراد تھے۔ رات کاکوئی پہر تھا۔ میں اس وقت ایک لڑکا تھا اور وہاں موجود تھا۔ مجھے چودھری صاحب نے فرما یا کہ لواحقین کو چائے کا پوچھ لو۔میں نے جا کر ان سے پوچھا کہ کیا آپ چائے پیئیں گے۔ انہوں نے جواب دیا نہیں جزاکم اللہ۔ میں نے مناسب سمجھا کہ فوراً چودھری صاحب کو اپنی ’کار کردگی‘ کی رپورٹ دے دوں، جا کر انہیں بتا یا کہ مہمان کہہ رہے ہیں کہ وہ چائے نہیں پینا چاہتے۔ اس پر چودھری صاحب نے فرما یا کہ یہ کوئی منطق کا سوال تو نہیں تھا۔پھر لفظ پلواؤپر زور دیتے ہو ئے فرما یا انہیں چائے پلواؤ۔

یہ تو بچپن کی بہت پرانی باتیں ہیں جو ان کی وفات کے بعد یا د آرہی ہیں اور اب بہت حسین لگ رہی ہیں۔ چودھری صاحب کا ذکر خیر کرنا میں اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں اور اس کا محرک یہی ہے کہ وہ ایک بہت خیر خواہ انسان تھے۔ان چند بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے مجھے ہمیشہ بہت فصیح و بلیغ اور بروقت نصائح فرما ئیں۔میں اگر ان میں سے بعض پر عمل نہ کر سکا تو یہ میرا قصور تھا۔ میرے وقف زندگی کے بعد تو ان سے بار ہا رابطہ ہوتا رہا۔ وہ ہمیشہ راہ نمائی فرماتے تھے۔اور اتنی سوچی سمجھی اور گہری بات کرتے تھے کہ میں حیرت سے اس میں ڈوب جا تاتھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ دوسروں کے متعلق سوچنے میں گزارتےتھے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان نصیحت تو کر سکتا ہے مگر دلکش اور موثر نصیحت نہیں کر سکتا۔ چودھری صاحب جو اپنے لیے پسند کرتے تھے وہ اپنے مومن بھا ئیوں کے لیے بھی پسند فرماتے تھے۔بہت ذاتی نوعیت کی باتیں بیان کرنے سے دوسروں کو زیادہ فائدہ نہیں ہو سکتا اس لیے ان کو حذف کر تے ہو ئے صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی بہترین جزا دے۔ یہ نصیحت وہ عموماً فرما یا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کو خط لکھتے ہو ئے دو باتو ں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک تو یہ کہ خط مختصر ہو اور دوسرے یہ کہ خوشخط ہو۔ دفتری میٹنگز ہوں، تقاریب ہوں یا انفرادی ملاقاتیں،چودھری صاحب ہمیشہ اپنے مخصوص انداز میں مختصر، جامع اور گہری بات کرتے۔ جب سات سال قبل خا کسار کو وکالت تعلیم میں خدمات سپرد ہوئیں تب وہ بکثرت براہ راست راہ نمائی فرماتے تھے۔یہ میری خوش نصیبی تھی کہ ان کے نزدیک رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔مجھے ایک دفعہ فرما یا کہ جماعت کے اکثر کام غیر رسمی انداز میں ہوتے ہیں۔ اس لیے حکم دے کر کام کروانے کی بجائے قائل کر کے کام کروانا چاہیے۔ خرچ کے معاملے میں ان کی احتیاط کا ذکر ان کے متعلق شائع ہو نے والے مضامین میں آچکا ہے۔بلا شبہ یہ ان کی ایک اہم صفت تھی۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے دفتر کی سال بھر کی ضرورت سے دگنے کا غذ خرید لیے۔دفتری معاملات کی تفاصیل سے وہ اتنے باخبر رہتے تھے کہ تین چار ہفتوں کے بعد ہی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ زائد کا غذ کیوں لیے گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اگلے سال ان کے مہنگے ہونے کا امکان ہے،بچت کے خیال سے اگلے سال کے بھی ابھی خرید لیے ہیں۔ فرما یا کہ پھر ٹھیک ہے۔ بہرحال مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ وہ تمام دفاتر کے اخراجات کا اتنی تفصیل سے اتنا فوری جا ئزہ لیتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے ہمارے سال بھر کے خرچ کے متعلق اپنا ایک مختصر تجزیہ اعداد و شمار کے ساتھ بھجوایا جس سے بڑی راہ نمائی ملی اور بعض ایسے حقا ئق سامنے آئے جو میری نظروں سے اوجھل تھے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید اپنے محدود وسائل کے ساتھ جماعتی کا موں میں مسلسل بہتری کی طرف بڑھتی رہی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ اس کے پس منظر میں چودھری صاحب کا خرچ کرنے کا یہ سلیقہ بھی کار فرما تھا جس کا خاکسار ذکر کر رہاہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ تحریری طور پر یہ ہدایت فرما ئی کہ خط لکھتے ہوئے A4کاغذ کی بجائے A5یعنی اس کا نصف کاغذ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور بارہا دیکھا کہ بسا اوقات وہ خود A5کا بھی نصف کاغذ استعمال کیا کرتے تھے۔خرچ کے متعلق قرآن کریم نے جو ہدایات دی ہیں ان میں سے ایک اہم ہدایت یہ ہے کہ نہ اس میں اسراف ہو اور نہ خساست ہو بلکہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کا راستہ اختیار کیا جائے۔ خساست بعض او قات انسان کی سوچ کو محدود کر کے اس کو بدذوق بنا دیتی ہے۔چودھری صاحب ہر وہ خرچ فراخدلی سے کرتے جس کے متعلق انہیں یقین ہو تا کہ یہ جماعت کے لیے فائدہ مند ہو گا۔اس سلسلے میں دفاتر، گیسٹ ہا ؤس اور جامعہ کی عمارات وغیرہ کی اعلیٰ معیار کی تعمیر ان کی یادگار اور ان کے بلند ذوق کی آئینہ دار ہیں۔

محترم چودھری صاحب کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ وہ جاتے جاتے بھی مجھ پر ایک احسان کر گئے۔2؍جنوری 2021ءکو لا ہور میں خا کسار کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔خا کسار نے اپنی اہلیہ کی پُر زور خواہش پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ اس تقریب میں کسی کو بطور نمائندہ شرکت کا ارشاد فرما دیں تو بڑی نوازش ہو گی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت مکرم چودھری صاحب کو شرکت کی ہدایت فرمائی۔مجھے طبعاً اس کی بہت خوشی ہوئی۔ تاہم شدید سردی کے دن تھے۔ربوہ سے پنڈی بھٹیاں تک ٹوٹی سڑک کے باعث راستہ بھی دشوار تھا۔ محترم چودھری صاحب کی پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ شاید ان کے لیے شرکت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس پر خا کسار نے فون پر ان کے اسسٹنٹ سے کہا کہ ان سے پوچھ لیں کہ کیا وہ تشریف لا سکیں گے۔ ان کا جواب تھا کہ جب حکم آگیا ہے تو پھر تو لازماً شریک ہو ں گا۔چنانچہ وہ اس روز ولیمے کے و قت سے کافی پہلے دوپہر کے قریب لاہور تشریف لے آئے۔ خا کسار نے احتیاطاً فون پر یہ بھی عرض کی کہ ولیمہ آؤٹ ڈور میں ہو رہا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے یکم جنوری کی رات مقام تقریب کوجا کر دیکھا تھا تو انتہائی شدید سردی تھی اور ہوا چل رہی تھی۔ اسی لیے میں نے چودھری صاحب کو مطلع کرنا ضروری سمجھا تھا کہ تقریب باہر ہو نے کی وجہ سے سردی ہو گی۔ وہ بروقت تشریف لا ئے اور آتے ہی میری پریشانی کو بھانپ کر فرما یا کہ تم نے تو کہا تھا کہ آؤٹ ڈور میں تقریب ہو گی۔ یہ تو مارکی کے اندر ہے۔بالکل ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل یہ ہوا کہ 2؍ جنوری کی رات کو ہوا بالکل بند تھی اورسردی اتنی کم ہو گئی کہ مارکی کے اندر لگے ہو ئے ہیٹرز بھی غیر ضروری محسوس ہونے لگے۔یہ سب حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے نمائندے کی آمد سے وابستہ برکات میں سے ایک برکت تھی جو سب نے مشاہدہ کی۔الحمد للہ۔ چودھری صاحب ہمارے پاس اتنی دیر تک بیٹھے کہ امیر صاحب ضلع لا ہور نے ان کے آرام کی خاطر مجھے بلا کر فرما یا کہ چودھری صاحب کو جا نے کی یا د دہا نی کروا دیں۔ مجھے یہ کہنے کی ہمت نہ پڑی نہ میرا دل کرتا تھا۔لہٰذا وہ کھانے کے بعد بھی قریباًچالیس منٹ ہمارے ساتھ ہماری خوشی میں شریک رہے۔ عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے تقریب میں شرکت کو سرسری نہیں لیا اورصرف حاضری لگا نا کافی نہیں سمجھا۔ بلکہ بھر پور شرکت فرمائی۔یہ ان کی والہانہ اطاعت کی ایک مثال تھی جس سے ان کی ساری زندگی عبارت تھی۔ والہانہ اطاعت والہانہ محبت کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے ؟ میں چند روز قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ چودھری صاحب کی ایک تصویر دیکھ رہا تھا۔ خلفاء سے ان کی یہ والہانہ محبت ان کی نظروں سے بھی عیاں ہے۔ قرب کے ان لمحات کی مسرت ان کی آنکھوں سے چھلک رہی ہے۔ عموماً ان کی آنکھوں سے ان کے جذبات ظاہر نہیں ہوا کرتے تھے۔ مگر اس تصویر میں حضور ؒکو دیکھتے ہوئے ان کی نگاہوں کا منظر ہی بدلا ہوا نظر آتا ہے۔وہ جس تمنا سے اور جس محبت سے حضور ؒکو دیکھ رہے ہیں وہ بذات خود ایک قابل دید نظارہ ہے۔

محترم چودھری صاحب ایک عالم تھے۔ اور عالِم کی موت کو ایک عالَم کی موت کہا گیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ فقرہ کسی زوال پذیر قوم کے لیے کہا گیا ہو گا۔ایک زندہ قوم کے لیے تو عربی کا یہ قول زیادہ مناسب ہے کہ

اِذَا سَیِّدٌ مِّنَّا خَلَا قَامَ سَیِّدٌ

کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں کہ جب ہم میں سے ایک سردار دنیا سے گزر جا تا ہے تو دوسرا سردار اس کی جگہ لینے کے لیے کھڑا ہو جا تا ہے۔ کوئی انسان کتنا ہی بڑاکیوں نہ ہو وہ دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ہاں خدا تعالیٰ چاہے تو اس کی نیکی اور خیر کو زندہ رکھ سکتاہے۔ وہ قادر مطلق ہر خیر کا سرچشمہ ہے۔ ان سے بڑھ کر صفات حسنہ کے حامل لوگ پیدا کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ خیر کو زندہ رکھنے اور جاری رکھنے کے لیے آنحضرت ﷺ نے فرما یا اذْکُرُوْا مْوَتیٰ کُمْ بِالْخَیْرِ۔ مقصود یہ ہے کہ خیر زندہ رہے۔ محترم چودھری حمید اللہ صاحب کے ذکر خیرسے بھی یہی مدعا ہے کہ انہوں نے عمر بھر جو اکتساب نور کیا وہ نور جگمگاتا رہے۔

اللہ تعالیٰ مکرم چودھری صاحب کو ان کے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے وہ بہت سی صفات حسنہ کے حامل ایک وجود تھے۔ ان کے ذکر خیرکو تحریری شکل دیتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ وہ تو اتنے ہمہ جہت انسان تھے کہ بجائے اس کے کہ میں یہ سوچوں کہ ان میں کیا کیا صفات پائی جا تی تھیں ایک طریق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسانی صفات کی ایک فہرست بنا لی جائے اور پھر یہ دیکھا جا ئے کہ کون کون سی صفت ان میں پائی جاتی تھی۔ چنانچہ معمولی غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کے اندر محنت، سنجیدگی، تدبر، وفا،وسعت نظر، تحمل مزاجی، وسعت علمی، بے نفسی، ذہانت، باریک بینی، دُور بینی، ہمدردی، قوت عملیہ، حکمت عملی، قوتِ حافظہ، منصوبہ بندی کی صلا حیت، تجزیہ کر نے کی غیر معمولی استعداد، گہرا مشاہدہ، وقت کی پابندی، اطاعت کی طاقت، مطالعہ کی عادت، دانائی، کام میں انہماک اور پوری توجہ مرکوز کر نے کی صلاحیت، دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی صلاحیت غرضیکہ یہ ایک طویل فہرست ہے۔ اور سب سے بڑھ کربات یہ ہے کہ وہ اپنی سب خدا داد خوبیاں عمر بھر سلسلے کی خدمت میں صرف کرتے رہے۔

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button