سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

ہمارا یہ گاؤں جس کا نام قادیان ہے اور ہماری یہ مسجد جس کے قریب منارہ طیار ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہی واقع ہیں

اشتہار چندۂ مَنَارۃ المسیح (حصہ دوم)

(گزشتہ سے پیوستہ)غرض یہ گھنٹہ جو وقت شناسی کے لئے لگایا جائے گا مسیح کے وقت کیلئے یاد دہانی ہے اور خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور وہ یہ کہ احادیث نبویہ میں متواتر آ چکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المَنَارہ ہوگایعنی اُس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہا تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو۔ اوردین اسلام سب دینوں پر غالب آجائے گا اُسی کے مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند منار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آجاتی ہے۔ سو مقدّر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدٰى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ۔(الصّف:10)

یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجت کی وہ بلند آوازجس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لئے خاص کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر اَور کوئی عمارت اونچی نہیں۔ اِسی کی طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے جوکتاب مذکور کے صفحہ 522 میں درج ہے۔ اور وہ یہ ہے:- ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیان برمنار بلند تر محکم افتاد‘‘۔ ایسا ہی مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصیٰ ہے کیونکہ وہ صدر اسلام سے دُور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے۔ اور ایک روایت میں خدا تعالیٰ کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود کا نزول مسجد اقصیٰ کے شرقی منارہ کے قریب ہوگا۔(حاشیہ : بعض احادیث میں یہ پایا جاتا ہے کہ دمشق کے مشرقی طرف کوئی منارہ ہے جس کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔ سو یہ حدیث ہمارے مطلب سے کچھ منافی نہیں ہے کیونکہ ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ ہمارا یہ گاؤں جس کا نام قادیان ہے اور ہماری یہ مسجد جس کے قریب منارہ طیار ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہی واقع ہیں۔ حدیث میں اس بات کی تصریح نہیں کہ وہ منارہ دمشق سے ملحق اور اُس کی ایک جزو ہوگا بلکہ اس کے شرقی طرف واقع ہوگا۔ پھر دوسری حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسجد اقصیٰ کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ منارہ یہی مسجد اقصیٰ کا منارہ ہے اوردمشق کا ذکر اُس غرض کے لئے ہے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں۔ اور مسجد اقصیٰ سے مراد اس جگہ یروشلم کی مسجد نہیں ہے بلکہ مسیح موعود کی مسجد ہے جو باعتبار بُعد زمانہ کے خدا کے نزدیک مسجد اقصیٰ ہے۔ اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ جس مسجد کی مسیح موعود بنا کرے وہ اس لائق ہے کہ اس کو مسجد اقصیٰ کہا جائے جس کے معنے ہیں مسجد اَبْعد۔ کیونکہ جب کہ مسیح موعود کا وجود اسلام کے لئے ایک انتہائی دیوار ہے اورمقرر ہے کہ وہ آخری زمانہ میں اور بعید تر حصۂ دنیا میں آسمانی برکات کے ساتھ نازل ہوگا۔ اس لئے ہرایک مسلمان کو یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی مسجد مسجداقصٰی ہے کیونکہ اسلامی زمانہ کاخط ممتد جو ہے اس کے انتہائی نقطہ پر مسیح موعود کا وجود ہے لہٰذا مسیح موعود کی مسجد پہلے زمانہ سے جو صدر اسلام ہے بہت ہی بعید ہے۔ سو اس وجہ سے مسجد اقصٰی کہلانے کے لائق ہے اور اس مسجد اقصٰی کا منارہ اس لائق ہے کہ تمام میناروں سے اونچا ہو کیونکہ یہ منارہ مسیح موعود کے احقاق حق اورصَرفِ ہمت اور اتمامِ حجّت اور اعلاء ملّت کی جسمانی طور پر تصویرہے پس جیساکہ اسلامی سچائی مسیح موعودکے ہاتھ سے اعلیٰ درجہ کے ارتفاع تک پہنچ گئی ہے اور مسیح کی ہمت ثریّا سے ایمان گم گشتہ کو واپس لارہی ہے اسی کے مطابق یہ مینار بھی روحانی امور کی عظمت ظاہر کررہا ہے۔ وہ آواز جو دنیا کے ہر چہار گوشہ میں پہنچائی جائے گی وہ روحانی طور پربڑے اونچے مینار کوچاہتی ہے۔ قریباً بیس برس ہوئے کہ مَیں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ کلام جومیری زبان پر جاری کیا گیا لکھا تھا۔ یعنی یہ کہ

انا انزلناہ قریبًا من القادیان۔ وبالحق انزلناہ وبالحق نزل صدق اللّٰہ ورسولہ وکان امر اللّٰہ مفعولا۔

دیکھو براہین احمدیہ صفحہ498۔ یعنی ہم نے اس مسیح موعود کو قادیان میں اتارا ہے اور وہ ضرورتِ حقہ کے ساتھ اُتارا گیا اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا۔ خدا نے قرآن میں اور رسول نے حدیث میں جو کچھ فرمایاتھا وہ اُس کے آنے سے پورا ہوا۔ اس الہام کے وقت جیسا کہ مَیں کئی دفعہ لکھ چکا ہوں مجھے کشفی طور پر یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ یہ الہام قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اور اس وقت عالم کشف میں میرے دل میں اس بات کا یقین تھا کہ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے۔ یعنی مکّہ اورمدینہ اور قادیان کا۔ اس بات کو قریباً بیس برس ہوگئے جبکہ مَیں نے براہین احمدیہ میں لکھا تھااب اس رسالہ کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیان کے بارے میں کشفی طورپر مَیں نے لکھا یعنی یہ کہ اس کاذکر قرآن شریف میں موجود ہے درحقیقت یہ صحیح بات ہے کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیت کہ

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ (بنی اسرائیل:2)

معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو مسجدالحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت ﷺ کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جومسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا٭(شوکت اسلامی کا زمانہ جو آنحضرت ﷺ کا زمانہ تھا اس کا اثر غالب یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کی طرح مومنوں کو کفار کے حملہ سے نجات دی اس لئے بیت اللہ کا نام بھی بیت آمن رکھا گیا۔ لیکن زمانہ برکات کا جومسیح موعود کا زمانہ ہے اس کا یہ اثر ہے کہ ہر قسم کے آرام زمین میں پیدا ہو جائیں اور نہ صرف امن بلکہ عیش رغد بھی حاصل ہو۔ منہ)۔پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت ﷺ کا سیر کشفی ہے مسجد اقصٰی سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔

مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ۔

اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بارکنا حولہ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ۔(بنی اسرائیل:2)

اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے۔ مگر کچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت ﷺ کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہواور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا روپ ہے۔ اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آنحضرت ﷺمسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصیٰ یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے۔ یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرتﷺ کی طرف سے بطور موہبت ہیں اور جیساکہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اور حضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی یہ مسجد اقصیٰ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے روحانی کمالات کی تصویر ہے۔

پس اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی معراج میں زمانہ گذشتہ کی طرف صعود ہے اور زمانہ آئندہ کی طرف نزول ہے اور ماحصل اس معراج کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ خیرالاولین والآخرین ہیں۔ معراج جو مسجدالحرام سے شروع ہوا اِس میں یہ اشارہ ہے کہ صفی اللہ آدم کے تمام کمالات اور ابراہیم خلیل اللہ کے تمام کمالات آنحضرت ﷺمیں موجود تھے اور پھر اس جگہ سے قدم آنحضرت ﷺ مکانی سیرکے طور پر بیت المقدس کی طرف گیا اور اس میں یہ اشارہ تھا کہ آنحضرت ﷺ میں تمام اسرائیلی نبیوں کے کمالات بھی موجود ہیں۔ اور پھر اس جگہ سے قدم آنجناب علیہ السلام زمانی سیر کے طور پر اس مسجد اقصیٰ تک گیا جو مسیح موعود کی مسجد ہے یعنی کشفی نظر اس آخری زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ کہلاتا ہے پہنچ گئی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو کچھ مسیح موعود کو دیا گیا وہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں موجود ہے۔ اور پھر قدم آنحضرت ﷺآسمانی سیر کے طور پر اوپر کی طرف گیا اور مرتبہ قَابَ قَوْسَیْن کا پایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت ﷺ مظہر صفاتِ الٰہیہ اتم اور اکمل طور پر تھے۔ غرض آنحضرت ﷺ کا اس قسم کا معراج یعنی مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک جوزمانی مکانی دونوں رنگ کی سیر تھی اور نیز خداتعالیٰ کی طرف ایک سیرتھاجو مکان اور زمان دونوں سے پاک تھا۔ اس جدید طرز کی معراج سے غرض یہ تھی کہ آنحضرتﷺ خیرالاولین والآخرین ہیں اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف سیران کا اس نقطہ ارتفاع پر ہے کہ اِس سے بڑھ کر کسی انسان کوگنجائش نہیں۔ مگر اس حاشیہ میں ہماری صرف یہ غرض ہے کہ جیسا کہ آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں کشفی طور پر لکھا گیا تھا کہ قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے۔ یہ کشف نہایت صحیح اور درست تھا کیونکہ زمانی رنگ میں آنحضرت ﷺ کامعراج اور مسجد اقصٰے کی طرف سیرمسجد الحرام سے شروع ہو کر یہ کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ایسی مسجد تک آنحضرتﷺ کاسیرتسلیم نہ کیاجائےجوباعتباربُعدزمانہ کے مسجداقصیٰ ہو۔ اور ظاہرہے کہ مسیح موعود کاوہ زمانہ ہے جواسلامی سمندرکابمقابلہ زمانہ آنحضرت ﷺ کے دوسرا کنارہ ہے ابتدا سیر کا جو مسجد الحرام سے بیان کیا گیا اور انتہا سیر کا جو اس بہت دُور مسجد تک مقرر کیا گیا جس کے ارد گرد کو برکت دی گئی۔ یہ برکت دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شوکتِ اسلام ظاہر کی گئی اور حرام کیا گیا کہ کفار کا دست تعدّی اسلام کو مٹادے جیسا کہ آیت

وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا

سے ظاہر ہے۔لیکن زمانہ مسیح موعود میں جس کا دوسرا نام مہدی بھی ہے تمام قوموں پر اسلام کی برکتیں ثابت کی جائیں گی اور دکھلایا جائے گا کہ ایک اسلام ہی بابرکت مذہب ہے جیسا کہ بیان کیا گیا کہ وہ ایسا برکات کا زمانہ ہوگا کہ دنیا میں صلح کاری کی برکت پھیلے گی اور آسمان اپنے نشانوں کے ساتھ برکتیں دکھلائے گا اور زمین میں طرح طرح کے پھلوں کے دستیاب ہونے اور طرح طرح کے آراموں سے اس قدر برکتیں پھیل جائیں گی جو اس سے پہلے کبھی نہیں پھیلی ہوں گی۔ اسی وجہ سے مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کا نام احادیث میں زمان البرکات ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہزار ہا نئی ایجادوں نے کیسی زمین پر برکتیں اور آرام پھیلا دیئے ہیں کیونکہ ریل کے ذریعہ سے مشرق و مغرب کے میوے ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے ہیں اور تار کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں کی خبریں پہنچ جاتی ہیں۔ سفر کی وہ تمام مصیبتیں یکدفعہ دُور ہوگئیں جو پہلے زمانوں میں تھیں۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button