الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ضلع سانگھڑکے تین شہداء

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’جو شخص ا س کی راہ میں مرتا ہے وہی اس سے زندگی پاتا ہے اور جو اس کے لئے سب کچھ کھوتا ہے اسی کو آسمانی انعام ملتا ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍مئی 2013ء میں مکرم محمد داؤد بھٹی صاحب مربی سلسلہ یوگنڈا نے اپنے ایک مختصر مضمون میں ضلع سانگھڑ کے تین شہداء کا ذکرخیر کیا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ خاکسار کو سات سال تک (1997ء تا2003ء) ضلع سانگھڑ میں بطور مربی ضلع خدمت بجالانے کی توفیق ملی۔ کئی سال بعد یوگنڈا میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کی برکت سے سانگھڑ کے چند دوستوں کی شہادت کا وقتاً فوقتاً علم ہوا۔ تو اس روحانی تعلق کی وجہ سے جو دعائیں کرنی تھیں وہ کیں لیکن تسکین دل کے لیے ان بھائیوں کا ذکر خیر کرنا چاہتا ہوںکیونکہ خدا تعالیٰ کا انتخاب واقعی پُرحکمت ہوتا ہے۔

مکرم ڈاکٹر مجیب الرحمان صاحب شہید نہایت نفیس پُروقار شخصیت کے مالک، عاجزی اور انکساری نمایاں اور خدمات دین میں بھر پور کوشش کرنے والے ، اپنے والد صاحب کی ہمیشہ خدمت پر مامور اورپوشیدہ طور پر غرباء کی خدمت کرنے والے تھے۔گفتگو نہایت سلیقے سے کرتے ۔اگر کوئی ان سے ناراض ہوتا تو تحمل سے اس کی سنتے، کبھی درشتگی نہ کی۔ شب بیداری کرنے والے وجود تھے۔لیکن ان کی خوبیوں سے کم لوگ ہی واقف تھے۔

مکرم محمد سلیم رانا صاحب شہید عجیب نفیس و پُروقار شخصیت، عاجزی و انکساری سے پُر، جماعتی علم سے بھرپور واقف اور خدمت دین کے لیے انتہائی جوش جذبہ رکھنے والے، صرف کسی عہدے دار کی طرف سے یا مرکزکی طرف سے اِذن ہو، ہر دم تیار رہنے والی شخصیت، غرباء کی خدمت مخفی طور پر کرنے والے، مرکزی نمائندوں اور عہدے داروں کا ادب احترام کرنے اور جماعت کے قواعد کی ہمیشہ پاسداری کرنے والے تھے۔والدین اور عزیز واقرباءکی بہت خدمت کرنے والے اور بہترین منتظم تھے۔چھوٹے بڑے کو ادب واحترام کے ساتھ ملتے۔ہر وقت جماعت کو مقدّم رکھتے۔ کوشش کرکے مسجد میں ادائیگی نماز کے لیے آتے۔تیزرفتاری سے ہر کام کیا کہ جیسے منزل مقصود تک جلد پہنچنا ہو۔ہر بات کو وقار سے سنتے اور اپنے جذبات پر پورا کنٹرول رکھتے۔فن خطابت کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ہر موضوع کو باحسن بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ عہدیداران سے بہت محبت کرتے اور ان کی خدمت کرکے فرحت محسوس کرتے۔بہترین داعی الی اللہ، نڈر بے خوف انسان تھے۔شب بیداری کرنے والے اور خدا کی عبادت کرنے میں سکون اور راحت محسوس کرنے والے انسان تھے۔

مکرم سمیع اللہ صاحب شہید کی طبیعت میں حلیمی اور انکساری نمایاں تھی۔ جماعتی کام اور خدمت میں ہمیشہ اپنے آپ کو پیش پیش رکھتے، اپنے دوستوں اور ماتحتوں کا بہت خیال رکھتے۔ جماعتی پروگرام کے لیے اپنے گھر اور تمام خرچ کی قربانی کرتے۔ دعوت الی اللہ کا خاص جوش و جذبہ تھا۔نڈر، بےخوف اور بہادر انسان تھے۔تمام عہدیداروں کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے۔گفتگو دھیمے انداز اور سلیقے سے کرتے، حوصلہ اور صبر کے اوصاف نمایاں تھے۔

………٭………٭………٭………

محترم چودھری محفوظ الرحمٰن صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 10؍اپریل 2013ء کی اشاعت میں معروف خادم سلسلہ محترم چودھری محفوظ الرحمٰن صاحب سابق لائبریرین تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے۔ آپ 6؍ا پریل 2013ء کو وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔

محترم چودھری صاحب جنوری 1920ء میں حضرت چودھری عنایت اللہ صاحبؓ آف بہلول پور ضلع نارووال کے ہاں پیدا ہوئے۔ ایف اے گورنمنٹ کالج پسرور اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ آپ کوالیفائیڈ لائبریرین تھے۔ جب آپ دہلی میں ملازمت کررہے تھے تو حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے نوجوانوں کو زندگی وقف کرنے کی تحریک کی گئی جس پر آپ ملازمت چھوڑ کر قادیان آ گئے اور اپنی زندگی وقف کر دی۔ قادیان میں آپ کو بطور انسپکٹر مال خدمت کی توفیق ملی۔ ہجرت کے بعد آپ کو تعلیم الاسلام کالج لاہور میںبطور اکائونٹنٹ، پھر کالج ربوہ منتقل ہونے کے بعد یہاں بطور D.P اور لائبریرین لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ کچھ عرصہ خلافت لائبریری ربوہ کے نائب انچارج بھی رہے۔ اور نصرت جہاں اکیڈمی میں بھی بطور D.Pاور لائبریرین بھی خدمت کی توفیق پائی۔ نیز دیگر حیثیتوں سے بھی جماعتی خدمات کی بھرپور توفیق ملتی رہی۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مہتمم صحت جسمانی رہے۔ 1944ء میں دہلی میں منعقد ہونے والے جلسہ مصلح موعود کے دوران خواتین کے پنڈال کی حفاظت کے لیے آپ نے بھی حضورؓ کی آواز پر لبّیک کہا۔ نیز تقسیم ہند کے موقع پر قادیان میں حفاظتِ مرکز کے لیے بھی ڈیوٹی دی۔ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر بھجوائے جانے والے پہلے قافلے میں آپ بھی شامل تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓکی حفاظتی ڈیو ٹی دینے کا موقع اکثر ملتا رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ جب کوئٹہ دورہ پر تشریف لے گئے اور وہاں اچانک فسادات شروع ہوگئے تو جن افراد کو فوری طور پر وہاں ڈیوٹی کے لیے بھجوایا گیا ان میں بھی آپ شامل تھے۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے (جبکہ اصل مضمون میں سہواً 1953ء لکھا گیا ہے۔)

محترم چودھری صاحب نہایت شریف النفس، ہمدرد، غریب مزاج، باجماعت نماز کے پابند، تہجد گزار اور قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے تھے۔ آخری عمر تک نماز مسجد میں ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بچوں کی تربیت پربھی خاص توجہ دی اور دینی خدمات کی تلقین کرتے رہتے۔ آپ فٹ بال اور والی بال کے اچھے کھلاڑی تھے۔

آپ نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ نصرت صاحبہ بنت محترم چودھری علی اکبر صاحب گھڑیال کلاں ضلع شیخوپورہ کے علاوہ دو بیٹے مکرم چودھری وسیم احمد صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ یو کے اور مکرم چودھری رفیع احمد طاہر صاحب کارکن دفتر وصیت ربوہ نیز ایک پوتا، چھ پوتیاں اور متعدد پڑپوتے پڑپوتیاں یادگار چھوڑے ہیں۔

………٭………٭………٭………

مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب نمبردار

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 6؍مئی 2013ء میں مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب نمبر دار چک نمبر 38جنوبی ضلع سرگودھا کا ذکرخیر مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب نے قریباً95سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ غوث گڑھ ریاست پٹیالہ کے حضرت چودھری نور محمد صاحب نمبردارؓ کے بیٹے اور مکرم چودھری بشیراحمد صاحب سفید پوش کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ بہت بہادر اور دلیر انسان تھے۔ 1938ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے غوث گڑھ تشریف لے جاکر تین نوجوانوں کو فرقان فورس میں بھرتی کے لیے منتخب کیا تھا جن میں بیس سالہ عبدالقدیر صاحب بھی شامل تھے۔

غوث گڑھ کی جماعت حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ کے ذریعے قائم ہوئی تھی اور یہاں اکثریت احمدیوں کی تھی۔ قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو وہاں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ہندوستان کی ریاستوں کا بٹوارہ نہیں ہوگا۔ غوث گڑھ چونکہ ریاست پٹیالہ میں واقع تھا اس لیے افواہ سُن کر قریبی علاقوں کے لوگ بھی غوث گڑھ میں جمع ہونے لگے۔ تاہم صورتحال واضح نہیں تھی چنانچہ مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر غوث گڑھ کے قریبی گاؤں سیریاں چلے گئے۔ وہاں علم ہوا کہ پٹیالہ کے سکھ اہلکار اگلے ہی روز غوث گڑھ پر حملہ کرنے والے تھے اور اُن کا ارادہ تھا کہ وہاں پر کسی مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے۔ سیریاں میں آپ کو سکھوں نے پکڑ کر مارنا شروع کیا۔ کسی نے ان کے پیٹ میں برچھا مارا تو خون کا ایک فوارہ نکلا مگر آپ نے اپنے اوسان خطا نہیں کیے۔اپنا کپڑا کَس کے زخم پر باندھا اور اپنے گاؤں کی طرف دوڑ لگا دی۔تقریباً2میل کا فاصلہ طے کرکے آپ غوث گڑھ کے چوک میں پہنچ کر گرگئے لیکن وہاں موجود لوگوں کو اطلاع کردی کہ گاؤں خالی کرکے بیس میل کے فاصلے پر قائم لودھیانہ کیمپ میں چلے جائیں۔ آپ کا زخم بہت گہرا تھا اور علاج کی صورت نہ تھی لیکن اس دوران حضرت حکیم عبدالرحمان شاہ صاحبؓ نے غوث گڑھ میں واقع اپنے مطب سے 2جوانوں کو بھیج کر مطلوبہ دوائیں منگوائیں اور دعا کے ساتھ علاج شروع کردیا۔ سفر کے تکلیف دہ حالات اور دواؤں کی عدم دستیابی کے باوجود خدا کا فضل ہوا اور چند دنوںمیں عبدالقدیر صاحب کو مکمل شفا ہوگئی۔

پھر معجزہ یہ ظاہر ہوا کہ اسی رات کو گاؤں میں موجود سارے مسلمان کیمپ کی طرف روانہ تو ہوگئے لیکن برسات کا موسم، کچے راستے اور رات کے اندھیرے میں گاؤں سے صرف 2میل کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوگئے تاکہ دن کی روشنی میں آگے روانہ ہوجائیں۔ لیکن سورج نکلتے ہی سکھوں کی گارد اسلحہ سے لیس ہو کر غوث گڑھ پہنچ گئی اور گاؤں کو خالی دیکھ کر وہاں کے چماروں سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرف گئے ہیں؟ مگر کسی نے ان کو نہیں بتایا۔ اس پر انہوں نے ایک چمار بنام آتمارام پر دباؤ ڈالا تو اُس نے کہا کہ ہم نے ساری عمر اُن کے گھروں کا نمک کھایا ہے ہم بےوفائی نہیں کرسکتے۔ اس پر اُسے بہت زدوکوب کیا گیا۔ اس پر ایک اَور چمار نے کمال ہوشیاری سے اُن کو مخالف سمت میں ڈال دیا۔ چنانچہ کافی وقت ضائع کرنے کے بعد جب ان کو صحیح صورت حال کا علم ہواتو قافلہ ان کی دست بُرد سے باہر ہوگیا تھا۔ خداتعالیٰ نے تمام احمدیوں کی غیرمعمولی حفاظت کی۔

مجھے غوث گڑھ میں اپنا بچپن یاد ہے جب حضرت حکیم عبدالرحمان شاہ صاحب کی اقتدا میں مسجد میں نہایت گریہ و زاری سے نمازیں ادا کی جاتیں اور دعائیں ہوتیں۔ ان دعاؤں کی قبولیت ہی کا نتیجہ تھا جو دشمن کے نہایت خطرناک عزائم کے باوجود وہاں کے کسی فرد کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ ہجرت کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعودؓکی شفقت تھی کہ ہماری جماعت کے لاہور پہنچنے پر حضورؓ نے ہمیں احمدنگر ضلع جھنگ میں آباد ہونے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ ہم اکتوبر 1947ء کو احمدنگر میں آباد ہوئے جبکہ ربوہ کی بنیاد 20ستمبر 1948ء کو رکھی گئی۔ اس طرح محض حضور کی شفقت کی وجہ سے ہمیں خلافت اور مرکز احمدیت کا قرب نصیب ہوا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button