سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

اس مینارکی اطلاع پندرہ سوسال قبل خداکے محبوب رسول حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کی زبان مبارک سے دی گئی تھی

منارۃ المسیح(حصہ دوم)

مینارتو بہت سے تعمیرہوئے اور ہورہے ہیں ۔بلندیوں میں بھی ایک دوسرے سے بلندترتعمیرہوئے اور اتنے اونچے بنائے گئے کہ بلندترین قراردیے گئے ۔لیکن جس ایک مینارکی بات ہم اب کرنے جارہے ہیں اس کی سب سے منفرداور نمایاں امتیازی شان جوتمام میناروں کی بلندیوں کواپنے پاؤں کے نیچے رکھے ہوئے ہے ۔اور وہ یہ کہ یہ مینارخداکے حکم اور منشائے مبارک سے تعمیرکیاگیا۔اور اس مینارکی اطلاع پندرہ سوسال قبل خداکے محبوب رسول حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کی زبان مبارک سے دی گئی تھی کہ میرابروزاورظل کامل جواپنے نام و مقام میں گویامیراہی ہم نام اور میری ہی بعثت اخریٰ کامصداق رسول ہو گا۔ جوامام مہدی اور مسیح محمدی اور ابن مریم ہوگا اس کاظہور ایک سفیدمنارہ کے پاس ہوگا۔ فرمایا:

بَعَثَ اللّٰهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ۔

( مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ حدیث نمبر 7373)

یعنی جب اللہ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا تو وہ ایک سفید منارہ کے پاس جوملک دمشق کے مشرقی جانب کسی جگہ ہوگا وہاں اترے گا ۔ اوریہاں اس تفصیل کاموقع نہیں کہ یہ ایک خوبصورت جامع تمثیلی کلام تھا کہ وہ آنے والاایسے روشن نشانات و تائیدات سماوی اپنے ساتھ لائے گا کہ جس کی روشنی اور شہرت دوردورتک پھیل جائے گی۔لیکن خداتعالیٰ کی خاص تائیداور منشاء سے1900ء میں حضرت بانئ سلسلہ احمدیہ نے آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے نکلنے والے ان الفاظ کوظاہری رنگ میں بھی پوراکرنے کے لیے ایک منارہ بنانے کی تجویزفرمائی تاکہ آنحضرت ﷺ کاارشاد مبارک ہر دو لحاظ سے پورا ہوجائے۔ اس منارہ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے اپناگھرپیش کردیاکہ اس جگہ اس کوبنالیاجائے۔ لیکن آپ ؑنے اس کی بنیاد کے لیے اپنے رہائشی مکانوں کے مغربی جانب مسجد اقصیٰ میں جگہ منتخب فرمائی ۔

ابتدائی تخمینہ اخراجات وغیرہ کالگایاگیاتو وہ دس ہزارروپےکااندازہ کیاگیا چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نےاپنےجاںنثاران فدائی عشاق جماعت کے سامنے مناربنائے جانے کی اس تجویزکی تفصیلات اور اخراجات کی سکیم رکھتے ہوئے ایک اشتہار دیا ۔یہ اشتہار 18مئی 1900ء کو ’’اشتہارچندہ منارۃ المسیح‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔جسے خطبہ الہامیہ کے شروع میں بھی شائع کیاگیا۔ جس کامتن ہدیۂ قارئین کیاجاتاہے :

اشتہار چندۂ مَنَارۃ المسیح

’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘‘

(یہ وہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے جس کو شائع ہوئے بیس برس گذر گئے)

’’خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے قادیان کی مسجد جو میرے والد صاحب مرحوم نے مختصر طور پر دو بازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی اب شوکتِ اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی اور بعض حصہ عمارات کے اَور بھی بنائے گئے ہیں لہٰذا اب یہ مسجد اور رنگ پکڑ گئی ہے۔ یعنی پہلے اس مسجد کی وسعت صرف اس قدر تھی کہ بمشکل دو سو آدمی اس میں نماز پڑھ سکتا تھا لیکن اب دوہزار کے قریب اس میں نماز پڑھ سکتا ہے اور غالباً آئندہ اور بھی یہ مسجد وسیع ہو جائے گی۔ میرے دعویٰ کی ابتدائی حالت میں اس مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے زیادہ سے زیادہ پندرہ یا بیس آدمی جمع ہوا کرتے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ تین سو یا چار سو نمازی ایک معمولی اندازہ ہے اور کبھی سات سو یا آٹھ سو تک بھی نمازیوں کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ لوگ دُور دُور سے نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔یہ عجیب خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں نے بہت زور مارا کہ ہمارا سلسلہ ٹوٹ جائے اور درہم برہم ہو جائے لیکن جوں جوں وہ بیخ کنی کے لئے کوشش کرتے گئے اَور بھی ترقی ہوتی گئی اور ایک خارق عادت طور پر یہ سلسلہ اس ملک میں پھیل گیا۔ سو یہ ایسا امر ہے کہ ان کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں ایک نشان ہے۔ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو ان مولویوں کی کوششوں سے کب کا نابود ہو جاتا۔ مگر چونکہ یہ خدا کا کاروبار اور اس کے ہاتھ سے تھا اس لئے انسانی مزاحمت اس کو روک نہیں سکی۔

اب اس مسجد کی تکمیل کے لئے ایک اَور تجویز قرار پائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی شرقی طرف جیسا کہ احادیث رسول اللہ ﷺکا منشاء ہے ایک نہایت اونچا منارہ بنایا جائے اور وہ منارہ تین کاموں کے لئے مخصوص ہو:

اوّل یہ کہ تامؤذن اس پر چڑھ کر پنج وقت بانگِ نماز دیا کرے اور تاخدا کے پاک نام کی اونچی آواز سے دن رات میں پانچ دفعہ تبلیغ ہو اور تا مختصر لفظوں میں پنج وقت ہماری طرف سے انسانوں کو یہ ندا کی جائے کہ وہ ازلی اور ابدی خدا جس کی تمام انسانوں کو پرستش کرنی چاہئے صرف وہی خدا ہے جس کی طرف اس کا برگزیدہ اور پاک رسول محمد مصطفی ﷺ رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے سوا نہ زمین میں نہ آسمان میں اَور کوئی خدا نہیں۔

دوسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی بہت اونچے حصے پر ایک بڑا لالٹین نصب کر دیا جائے گا جس کی قریباً ایک سو روپیہ یا کچھ زیادہ قیمت ہوگی۔ یہ روشنی انسانوں کی آنکھیں روشن کرنے کے لئے دُور دُور جائے گی۔

تیسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی اونچے حصے پر ایک بڑا گھنٹہ جو چار سو یا پانسو روپیہ کی قیمت کا ہوگا نصب کر دیا جائے گا تا انسان اپنے وقت کو پہچانیں اور انسانوں کووقت شناسی کی طرف توجہ ہو۔

یہ تینوں کام جو اس منارہ کے ذریعہ سے جاری ہوں گے ان کے اندر تین حقیقتیں مخفی ہیں۔ اوّل یہ کہ بانگ جو پانچ وقت اونچی آواز سے لوگوں کو پہنچائی جائے گی اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ اب واقعی طور پر وقت آگیا ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کی آواز ہر ایک کان تک پہنچے ۔ یعنی اب وقت خودبولتاہے کہ اس ازلی ابدی زندہ خداکے سوا جس کی طرف پاک رسول محمد ﷺنے رہنمائی کی ہے اور سب خدا جو بنائے گئے ہیں باطل ہیں۔ کیوں باطل ہیں؟ اس لئے کہ اُن کے ماننے والے کوئی برکت اُن سے پا نہیں سکتے۔کوئی نشان دکھا نہیں سکتے۔

دوسرے وہ لالٹین جو اس منارہ کی دیوار میں نصب کی جائے گی اس کے نیچے حقیقت یہ ہے کہ تا لو گ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آگیا اور جیسا کہ زمین نے اپنی ایجادوں میں قدم آگے بڑھایا ایسا ہی آسمان نے بھی چاہا کہ اپنے نوروں کو بہت صفائی سے ظاہر کرے تا حقیقت کے طالبوں کے لئے پھر تازگی کے دن آئیں اور ہر ایک آنکھ جو دیکھ سکتی ہے آسمانی روشنی کو دیکھے اوراُس روشنی کے ذریعہ سے غلطیوں سے بچ جائے۔

تیسرے وہ گھنٹہ جو اس منارہ کے کسی حصہ دیوار میں نصب کرایا جائے گا اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ تا لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آگیا۔ اب سے زمینی جہاد بند کئے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ صحیح بخاری کو کھولو اور اُس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنی یضع الحربجس کے یہ معنے ہیں کہ جب مسیح آئے گاتو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے۔

غرض حدیث نبوی میں جو مسیح موعود کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہوگا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اُس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہوگا کہ گویا یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے۔ یہ اشارہ ریل اور تار اور اگن بوٹ اور انتظام ڈاک کی طرف تھا جس نے تمام دنیا کو ایک شہر کی مانند کر دیا۔ غرض مسیح کے زمانہ کے لئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اُس کی روشنی اور آوا ز جلد تر دنیا میں پھیلے گی۔ اور یہ باتیں کسی اَور نبی کو میسّر نہیں آئیں۔ اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح کا آنا ایسے زمانہ میں ہوگا جیسا کہ بجلی آسمان کے ایک کنارہ میں چمک کر تمام کناروں کو ایک دم میں روشن کر دیتی ہے یہ بھی اِسی امر کی طرف اشارہ تھا یہی وجہ ہے کہ چونکہ مسیح تمام دنیا کو روشنی پہنچانے آیا ہے اس لئے اُس کو پہلے سے یہ سب سامان دیئے گئے۔ وہ خون بہانے کے لئے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے صلح کاری کا پیغام لایا ہے۔ اب کیوں انسانوں کے خون کئے جائیں۔ اگر کوئی سچ کا طالب ہے تو وہ خدا کے نشان دیکھے جو صدہا ظہور میں آئے اور آرہے ہیں۔ اور اگر خدا کا طالب نہیں تو اُس کو چھوڑ دو اور اس کے قتل کی فکر میں مت ہو کیونکہ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب وہ آخری دن نزدیک ہے جس سے تمام نبی جو دنیا میں آئے ڈراتے رہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button