یادِ رفتگاں

میرے والد مکرم چودھری علی اکبر صاحب مرحوم

(چودھری عطاء الرحمٰن۔ امریکہ)

والد مرحوم اپنے گاؤں موضع گھڑیال کلاں میں 25؍ اکتوبر 1901ء کو پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق جاٹ قبیلہ بسرا سےتھا۔آپ نے اپنے شجرہ نسب کو اس طرح بیان کیا ہے۔چودھری امام بخش رئیس گھڑیال کلاں۔چودھری عبداللہ خان۔چودھری محمد بخش۔چودھری محمد حسین۔چودھری علی اکبر۔عمر کے آخری چند سال آپ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے اور اپنے چھوٹے بیٹے کرنل ڈاکٹر الطاف الرحمٰن صاحب کے پاس رہائش پذیر تھے۔ میری والدہ مرحومہ اورمکرمہ فرحت بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ کرنل صاحب نے اس معذوری میںآپ کا ساتھ دیا اور بہت خدمت کی۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی وفات کی خبر مل چکی تھی۔ کرنل ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ کی آواز بہت کم ہو چکی تھی ۔اپنی وفات سے دو ماہ قبل ایک دن آپ نے مجھے بلایا اور مجھےقریب کر کے مدھم آواز میںکہا کہ مہینہ کا شروع ہو گا، بکس بنوا لینا اور ٹرک کا انتظام کر لینا۔اسی طرح میری بھتیجی امۃ الواسع نےبیان کیا کہ والد صاحب جب آخری بیماری میں ہسپتال میں داخل تھے اور ہم سب آپ کی صحت کے لیے دعا کر رہے تھے کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ؑہمارے گھر تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں علی اکبر کو لینے آیا ہوں۔ چند دن کے بعد آپ فوت ہو گئے۔آپ نے 9؍رمضان المبارک بمطابق 4؍مارچ 1993ءکو اپنے چھوٹے بیٹے کرنل ڈاکٹر الطاف الرحمان صاحب کے پاس92 سال کی عمر میںوفات پائی۔آپ کی نماز جنازہ 5؍مارچ بروز جمعہ (10؍رمضان المبارک) مسجد اقصیٰ ربوہ میںبعد نماز جمعہ ادا کی گئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

میں اپنے والد مرحوم کی ڈائری سے،جو انہوں نےحضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی تحریک پر جو الفضل اخبار میں شائع ہوئی یکم رمضان المبارک بمطابق 17؍نومبر 1936ء سے تحریر کرنی شروع کی چند اقتباس پیش کرتا ہوں ۔

ابتدائی تعلیم اور قبول احمدیت

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول میں حاصل کی اور جماعت پنجم کا امتحان 1910ءمیں پاس کیااور اپریل 1910ء میں گورنمنٹ ہائی سکول پسرور کی جماعت چہارم میں داخل ہوئے۔آپ تحریرکرتے ہیں کہ میرے والد مرحوم چودھری محمد حسین صاحب مجھ سے بہت محبت رکھتے تھے۔ میرے ہمراہ پسرور تشریف لائے اور مجھے داخل کروا کر واپس تشریف لے گئے۔موضع پسرور ہمارے گاؤں سے تقریباً بیس میل کے فاصلے پر ہےاور مجھے اکثر پسرور سے گھر پیدل جانا پڑتا۔میں پسرور میں اگست 1915ء تک پڑھتارہا۔ میرے ماموں چودھری صادق علی صاحبؓ ان دنوں حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی میں داخل ہو چکے تھے انہوں نےمیرے والد صاحب کو احمدیت کی تحریک پہنچائی اور مشورہ دیا کہ مجھے بھی قادیان کے ہائی سکول میں داخل کیا جاوے تا کہ احمدیت کا رنگ مجھ پر بھی چڑھ جائے۔مکرم والد صاحب بھی احمدیت قبول کر چکے تھے اور اس مشورہ پر راضی تھے۔میں اس وقت عجیب رو میں بہ رہا تھا۔بچپن سے نماز اور تلاوت قرآن کریم کا شوق تھا چنانچہ 1910ء میں مولوی محمد حسین صاحب پسروری نےبیعت کر لی جو میرےعربی کے استاد بھی تھے۔پیروں کی مجالس اور عرس دیکھے۔ غرضیکہ توجہ ادھر ہونے کی وجہ سے احمدیت سے بھاگنے کی کوشش کرتا رہا اور قادیان جانےسے انکارکیا۔والد صاحب مرحوم آخر تھک کر چپ ہو گئے۔نمازوں کی پابندی اور قرآن کریم کی تلاوت جاری رہی۔ بالآخر یکایک طبیعت میں تبدیلی آئی اور خود بخود دل میں خیال موجزن ہوا کہ قادیان جا کر تعلیم حاصل کی جاوے۔ چنانچہ 1915ءکی رخصت گرما کے بعدمکرم والد صاحب میرے ہمراہ پسرور تشریف لائے اور ضروری حسابات بےباق کیے اور سرٹیفکیٹ لے کر واپس ہوئے۔چند دنوں کے بعدقادیان کی پاک سرزمین میں میرا داخلہ ہوا۔

پڑھائی کے تفاوت کی وجہ سے میری طبیعت میں فکر پیدا ہوا اور ممکن تھا طبیعت پلٹا کھا کر مجھے قادیان کے انوار سے محروم کر دیتی مگر قاضی عبدالحق صاحب مرحوم جو میرے استاد تھے انہوں نے مجھے سہارا دیا اور میں نے دلجمعی سے کام شروع کر دیا۔میرے احمدی دوست اور ہم سبق مجھے غیر احمدی دیکھ کر تڑپ اٹھے اور تبلیغ شروع کر دی جس کا سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا لیکن مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا اور میں ان سے لڑتا جھگڑتا رہا۔میں احمدیہ مسجد جاتا اور نماز الگ پڑھتا رہا۔بچے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے درس اور جمعہ کےلیےقطار میںجاتےاور میںآنکھ بچا کر اس مسجد میں جو آج کل احراریوں کا اڈا ہےآجاتا اور نماز جمعہ ادا کرتا۔میرے دوستوں نے تبلیغ میں کوئی کو تاہی نہ کی مگر میں نے نہ سمجھنا تھا نہ سمجھا۔میں جماعت میں کمزور تو تھا ہی اور یہ فروری 1916ء کا آخر تھا، خیال آیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کے لیےخدا تعالیٰ سے یہ شرط پیش کی جاوے کہ اگر میں جماعت نہم کے سالانہ امتحان میں پاس ہو گیا تو سمجھوںگا کہ مسیح موعودؑ سچے ہیں۔اس خیال کے بعد میں جب ہوسٹل آیا اور رات کو سویاتو میری طبیعت میں سخت اضطراب پیدا ہوا اور میں اس شرط پر سخت نادم ہوا۔بہر حال انہی خیالات میں دل نے فیصلہ کیا کہ یہ شرط لغو ہےاور حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔پھر کیا تھا اسی دن شام کو تن تنہا بغیر دوستوں کو خبر کیےمسجد مبارک پہنچا، حضرت خلیفہ ثانیؓ کے ساتھ نماز ادا کی اور بعد نماز بیعت کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ بیعت ہو گئی طبیعت نے ایک خاص خوشی محسوس کی۔میرے والد صاحب کی زندگی نے وفا نہ کی اور آپ فروری 1917ء میں فوت ہوگئے اور گاؤں میں ہی مدفون ہیں۔

اعلیٰ تعلیم اور ملازمت

1917ء میں آپ نے قادیان کے ہائی سکول سے میٹرک پاس کیا اور اسلامیہ کالج لاہور سے 1919ء میں ایف اے اور1921ء میں بی۔اے کیا۔ازاں بعد تین سال گاؤںمیں زمیندارہ کی نگرانی میں گزرے۔1925ء میں ٹیچر ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے اور S.A.V کا امتحان پاس کیا اور مڈل سکول مٹور تحصیل کہوٹہ راولپنڈی میں بطور ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔بھکر اور خوشاب ہا ئی سکول میں تعیناتی کے بعد مئی 1926ء کو اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر ضلع گجرات مقرر ہوۓ۔مختلف جگہوں پر تعیناتی کے بعد 15؍دسمبر 1950ء میں عارضی طور پر ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز ضلع شیخوپورہ کا چارج لیا۔بعد ازاں ان کا تبادلہ بطور ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول حسن ابدال ہوا جہاں انہوں نے 17؍فروری 1951ء کو چارج لیا۔6؍جنوری 1953ء کو ترقی پاکر ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس مظفر گڑھ مقرر ہوئے۔بعد ازاں گجرات میں تعیناتی کے بعد 24؍اکتوبر 1956ء کو 55سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوئے۔ دوران ملازمت آپ نے ایم۔اے عربی بھی کیا۔

بطور اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹرآپ کی قصبوں کے سکولوں کے معائنہ کی ذمہ داری تھی تا کہ اساتذہ کی کار کردگی معلوم رہے۔ اس زمانے میں ذرائع آمد و رفت محدود تھے اس لیےآپ کو بیشتر سفر سائیکل پر کرنے پڑتے اور ہر ماہ سینکڑوں میل کا سفر ہو جاتا۔آپ کے ساتھ ایک چپڑاسی ہوتا جو اپنے سائیکل کے پیچھے ایک صندوق میں کھانے کے انتظام کا سامان باندھے رکھتا۔آپ دوران دورہ اپنے کھانے کا انتظام خود کرتے اور کسی استاد پر بوجھ نہ بنتے۔

شادی اور اولاد

آپ کی شادی اپنے ماموں مکرم چودھری صادق علی صاحب تحصیلدار کی بڑی بیٹی آمنہ بیگم سے قرار پائی اور آپ کا نکاح دسمبر 1918ء میںصبح کی نماز کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مسجد مبارک میں پڑھا۔رخصتانہ 1919ء میں ہوا۔اس شادی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کوچار بیٹیاں اور دو بیٹے عطا کیےجن میں سے تین بیٹیاں بچپن میں فوت ہو گئیں۔میری والدہ پر9؍ اکتوبر 1936ء کو فالج کا حملہ ہوا اور وہ شدید بیمار ہو گئیںاور اپنی وفات سے پہلے خواب میں انہیںاپنی وفات کے متعلق اطلاع مل چکی تھی۔میرے والد صاحب اپنی بیوی سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کےعلاج کے لیے دربدر ڈاکٹروں اور حکماء کے لیےپھرتے رہے لیکن تمام علاج بیکار ہوئےاور وہ اپنے مولیٰ کو ملنے کے لیےتیاری کرنے لگیں۔میرے والد صاحب کو متعدد خوابوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ہماری والدہ فوت ہونے کو ہیں۔آن کی آن میں والد صاحب اپنی 20 سال کی رفاقت سے اور ہم اپنی ماں کی شفقت سے محروم ہو گئے۔حضرت خلیفۃ ا لمسیح ا لثانیؓ نے17؍جولائی 1937ء کو تین بجے آپ کاجنازہ پڑھا اور انہیںبہشتی مقبرہ قادیان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ان کاوصیت نمبر 3269 ہے۔آپ کےماموںاور سسر مکرم چودھری صادق علی صاحب 26؍نومبر 1938ءکو وفات پا گئےاور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔

ہم بہن بھائی بہت چھوٹے تھے۔ والد صاحب کو دوسری شادی جلدی کرنی پڑی جو13؍ستمبر 1937ء کو مبارکہ بیگم صاحبہ ولد مکرم حافط عبد العلی صاحب ؓ، جن کا شمار 313صحابہؓ میں تھا،کے ساتھ قرار پائی اور رخصتانہ 12؍ اکتوبر کو ہوا۔ اس شادی سےاللہ تعالیٰ نے آپ کوچھ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں جن میں سے ایک بیٹی اور ایک بیٹابچپن میں اور ایک بیٹا 18 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ آپ کے سسرمکرم حافظ عبد العلی صاحب ؓ مورخہ 18؍نومبر 1948ء کو وفات پا گئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

دینی اور جماعتی خدما ت

آپ کو کالج کے زمانے میں جماعت احرار کی شورش کے وقت حضرت مسیح مو عودؑ کے مزار کی حفاظت کی توفیق ملی۔حضرت خلیفۃ ا لمسیح الثانی ؓکی تحریک پر تین ماہ کی رخصت لےکر 6؍ستمبر 1935ءتا 5؍دسمبر 1935ء نارووال تحصیل میں تبلیغ کے کام میں بطور انچارج علا قہ رہے۔حضرت امیر المومنین کی تحریک وقف زندگی پر آپ نے اپنے آپ کو وقف کے لیےپیش کیا۔ حضورؓنے وقف زندگی کے سلسلہ میں انٹرویو کے لیےبلایا اور آپ حضور ؓکی خدمت میں 5؍مئی1946ء کو پیش ہوئے۔ حضورؓ نے چار ماہ کی رخصت لے کر قادیان حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا۔ آپ رخصت لےکرحاضرہوئے اور آپ کو بطور نائب ناظر بیت ا لمال مقرر کیا گیا اور آپ نے4؍اگست 1946ء سے کام شروع کیا۔چار ماہ کام کرنے کے بعد 30؍ نومبر 1946ء کو حضرت امیر ا لمومنین نے واپس ملازمت پر حاضر ہونے کی اجازت فرمائی۔ ریٹائرڈہونے کے بعد 20؍نومبر1956ء سے بطور نائب ناظر تعلیم اور مینیجر نصرت گرلز سکول 25سال سے زیادہ عرصہ تک نظارت تعلیم صدر انجمن میں خدمت کرتے رہے۔ 11؍نومبر 1963ءتا 30؍اپریل 1983ء بطور قاضی سلسلہ مقرر ہوئے۔آپ تین بار ربوہ کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔

قبولیت دعا

آپ بیان کرتے ہیں کہ 5،4؍اکتوبر 1937ءکو ڈسٹرکٹ انسپکٹر صاحب آف سکولز کے ساتھ دورے میںسنگوئی بنگلہ میں مقیم تھااو ر ان کا ارادہ وہاں 8؍اکتوبر تک رہنے کا تھا اور میری جلد واپسی ضروری تھی لیکن میں کہنے سے شرما تا تھا۔5؍اکتوبر کو نماز ادا کرتے خیال آیا کہ مولیٰ میرے کہےبغیر کوئی انتظام کر دے کہ کل واپسی ہو جائے۔یہ دعا بارگاہ ایزدی میں پہنچی اور شرف قبولیت حاصل کر گئی۔انسپکٹر صاحب کو ان کے بھتیجے کی بیماری کی اطلاع ملی دورہ مختصر ہوا اور جلد واپسی ممکن ہو گئی۔ملازمت کے دوران آپ کی تبدیلی پنڈی گھیب ہو گئی۔پنڈی گھیب کا علاقہ سخت ناقص اور غیر آباد تھا اور پانی کی بھی سخت قلت تھی، یہاں کے پانی میں مٹی کے تیل کی بو آتی تھی، میرے لیےجو پانی مہیا کیا گیا وہ بھی میلے رنگ کا تھا اور اس میں بھی تیل کی بو آتی تھی ۔میں نے ایک شخص کو ڈھلیاں کمپنی سے پانی لانے کےلیے بھیجا اور پیاسا پڑا رہا یہاں تک کہ شام ہو گئی۔مغرب کی نماز کے وقت دل میںخیال پیدا ہوا دعا کی کہ مولیٰ کریم ایسا علاقہ جہاں پانی میسر نہ ہوتیرے مومن بندوں کے لیےموزوں معلوم نہیں ہوتا میری یہاں تبدیلی میرے کسی گناہ کی پاداش میں ہے تو اپنے رحم سے مجھے معاف کر دے۔نماز کے بعد خدا کی قدرت سے شمال مغرب کی طرف سے آندھی اور بادل بننے لگا اور بارش شروع ہو گئی۔ اس سے قبل پانی لانے والا کسی اور چشمہ سے پانی لے آیا وہ بھی پیا اور خدا تعالیٰ کا خاص طور پر عطا کردہ پانی جو بارش کے زریعہ ملا وہ بھی پیا۔اسی طرح 6؍اگست 1938ء 9بجے صبح ڈھوک پٹھان سے پنڈی گھیب کی طرف سائیکل پر سفر شروع کیا اور آٹھویں میل کے قریب خوفناک سیاہ بادل اٹھتے نظر آئےجو لمحہ بہ لمحہ خوفناک صورت اختیار کرتے گئے۔اس وقت دعا کی کہ اے مولیٰ رستہ میں پناہ گاہ کی کوئی جگہ معلوم نہیں تو اپنے فضل سے اسےاس وقت تک روکے رکھ جب تک میں گھرنہ پہنچ جاؤں۔جونہی میں نے گھر میں قدم رکھا موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔25؍جون 1984ءکو میری دیرینہ خواہش تھی کہ میرے بیٹے عطاالرحمان کو اپنی زندگی میں چیف انجینئردیکھ لوں، مَیں اس سلسلے میںچند دن سے دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ترقی کے راستہ کی تمام روکیں دور کر دے۔ میری یہ خواہش 25؍جون 1985ءکو پوری ہو گئی۔

میرے والد متقی ، پرہیز گار، دعا گو اور صلہ رحمی کرنے والے اورجماعت سے محبت کرنے والےتھے۔آپ اپنے ننھیال اور آباء میں سب سے بڑے تھے ۔ سب آپ کی عزت کرتے تھےآپ تین بہن بھائی تھے۔بہن آپ سے بڑی تھی اور بھائی آپ سے چھوٹا تھا۔ بہن کی شادی بیداد پور گاؤں میں ہوئی لیکن وہ دو بچیوں کی پیدائش کے بعد بیوہ ہو گئیں اور خاوند کے رشتہ داروں نے ان کی جائیداد جو سات مربع زرعی زمین تھی پر قبضہ کر لیا۔وہ دو بچیوں کو لےکر اپنے بھائی کے پاس آگئیں۔میرے والد صاحب نے نہ صرف بچیوںکی پرورش کی بلکہ ان کی شادی کا انتظام کر کے انہیں عزت اور اکرام سے رخصت کیا۔میری پھوپھی میرے والد صاحب کے پاس رہیں اور 1947ء میں پارٹیشن کے وقت وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے پاس بہلول پور چلی گئیں۔آپ کو ذیابیطس کی تکلیف تھی جس کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔اس مرض سے آپ 13؍جون 1951ء شام چھ بجے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔آپ موصیہ تھیں لیکن بیٹی کے بہنوئی کے اسرار پر انہیں بیداد پور گاؤں میں دفن کر دیا گیا کیوں کہ وہ متوفی کی قبضہ شدہ زمین کو واگزار کروانا چاہتے تھے۔

والد صاحب تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں نہ صرف خود شامل تھے بلکہ انہوں نے اپنےمرحوم والدین، بیوی اور بچوں کو بھی اس میں شامل کیا۔علاوہ ازیں آپ نےرسول کریمﷺ حضرت مسیح مو عودؑ، اور خلفاء کو بھی اپنے چندہ تحریک جدید میں شامل رکھا۔آپ کی مالی قربانی سے آپ کی ڈائری کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔کوئی ایسی مالی تحریک نہیں جس میں آپ نے باوجود عیال دار ہونے کے حصہ نہ لیا ہو۔آپ نے اپریل 1930ء میں وصیت کی اور آپ کا وصیت نمبر3241 ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنا حصہ جائیداد ادا کر دیا۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ نے باب الابواب ربوہ میںرہائش اختیار کی۔ محلہ کی مسجد بنانے میںآپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔آپ نے اپنی ڈائری میں اپنی عبادت کو چھپائے رکھا اور اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لیکن میں نے انہیں ہمیشہ اشراق کی نمازپڑھتے دیکھا۔کئی سال معذوری کی زندگی میں مَیں نے ان کے منہ سے کبھی کوئی شکایت کا لفظ نہیںسنا۔بطور والد آپ کے بے مثال نمونہ کا اثر ہے کہ آپ کی تمام اولاد موصی ہے اور ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق خدمت دین میں مشغول ہیں جن میں سے میں دو کا ذکر بطور تحدیث نعمت کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ایک میرے بڑے بہنوئی مکرم چودھری محفوظ الرحمٰن صاحب واقف زندگی تھےجنہوں نے تمام زندگی نا مساعد حالات کے باوجود اپنے وقف کو احسن طریق سے نبھایا اور دوسرے میرے چھوٹے بہنوئی مکرم طاہرامتیاز مہدی صاحب مربی سلسلہ جنہیں اسیر راہ مولیٰ رہنےکا شرف حاصل ہے اور آج کل لندن میں بطور مینیجر الفضل انٹرنیشنل خدمت بجا لا رہے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ والد مرحوم کو جنت الفردوس میںاعلیٰ جگہ عطا فرماوے آمین۔اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button