متفرق مضامین

جنّا ت کی حقیقت(قسط اوّل)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال
اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

قرآن مجید میں 30مقامات پر جِنّ و اِنْس کا ذکر ہے۔ دونوں کی طرف رسول آئے ، دونوں مکّلف بہ شریعہ بھی ہیں،اور اپنے کیے کا بدلہ بھی پائیں گے۔

قرآن مجیدوہ مقدس ومطہر،لاریب و بے عیب کتاب ہے جس کی ابتدا هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ سے ہوتی ہے۔یہ نوع انسان کے لیے ایک کامل ومکمل ضابطہ حیات ہے۔بعثتِ محمدیﷺ اور نزولِ قرآن کے ذریعہ انسانیت اوجِ ثریا تک پہنچی۔ فخر موجودات سید المرسلین ﷺکومالکِ کُل نےان گنت معجزات و کمالات سے نوازا، قرآن مجید بھی انتہائی جامع و مانع، زندہ جاوید اور قائم و دائم معجزہ ہے۔اور یہ کتاب تا ابد اپنے مقصدِنزول کا اعلان کرتی رہے گی:

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ۔

(ابراہیم:2)

یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری ہے تاکہ تُو لوگوں کو ان کے ربّ کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہوئے اس راستہ پر ڈال دے جو کامل غلبہ والے (اور) صاحبِ حمد کا راستہ ہے۔

یہ حقیقت روزِروشن کی طرح واضح ہے کہ قرآن فہمی اور تمسّک بالقرآن میں ہی انسانیت کی معراج ہے،اور اس سے گریز نَکبَت،اِدبار اور پستی کی طرف لے کر جاتا ہے۔خالقِ عالم کا یہ پاکیزہ کلام عربی زبان میں نازل ہوا ،جوفصاحت و بلاغت، قواعد و معانی اور علوم ومعارف کی زبان کہلاتی ہے۔اور اس کے ایک ایک لفظ میں معانی کا جہان آباد ہے:

وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ۔(النحل:90)

اور ہم نے تیری طرف کتاب اتاری ہے اس حال میں کہ وہ ہر بات کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے اور ہدایت اور رحمت کے طور پر ہے اور فرمانبرداروں کے لیے خوشخبری ہے۔

خالق وعلیم نے قرآن مجید کو تمام علمی محاسن اور عملی فضائل کا مجموعہ ،اور جملہ علوم و معارف الٰہیہ کا خزانہ بنایا ۔ اِس مجموعہ ہدایت کا اصل مقصد انسانیت کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا اور انسان کو بطور اشرف المخلوقات اُس مقام و مرتبہ پر فائز کرنا ہے جس کے لیے اُس کی تخلیق عمل میں لائی گئی تھی۔اس اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کا راستہ آیاتِ قرآنیہ پر گہرے غور و خوض ، تدبر و تفکر سے ہی نکلتا ہے۔گہری صداقتوں اور حقیقتوں کو بیان کرنے والی یہ کتاب بے شمار مضامین اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے، جنہیں مختلف سورتوں میں مختلف طریق اور الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حکیم کتاب پر غور کرنے اور اس کے مطالب و معانی بیان کرنے کے لیے قرونِ اُولیٰ کے مفسرین نے ایک مسلّمہ اصول وضع کیا کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے ہی کی جائے۔ علامہ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں:’’اِنَّ اَصَحّ الطّریْق فِی ذلک اَن یُفَسّر القرآنَ باالقرآن فَمَا اجمل فی مکان فانه قدبسط فی موضع آخرفان اعیاک ذلک فعلیک بالسّنة فانها شارحةللقرآن و موضحة له‘‘۔ یعنی تفسیر کا بہترین اور صحیح طریق یہ ہے کہ پہلے قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے، اس لیے کہ ایک چیز ایک جگہ مجمل و موجز ہے تو وہی چیز دوسری جگہ مفصل و مبسوط ذکر کر دی گئی ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو تفسیر بذریعہ حدیث کی جائے ، کیونکہ یہ قرآن مجید کی شرح اور توضیح کرتی ہے۔

( تفسیر ابن کثیر ، جلد اوّل صفحہ 17۔اردو ترجمہ از پیر کرم شاہ الازہری، ایڈیشن اپریل 2004ء۔ ضیاءالقرآن پبلی کیشنز لاہور )

’’قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ‘‘

کا پُر تاثیر اعلان کرنے والی اس کتاب میں خالق کائنات نے ناری اور طینی صفات رکھنے والی مخلوق جِنّ و انس کی پیدائش کا بار بار مختلف رنگ میں ذکر کیا ہے ۔ان کی فطرت،افعال ،اعمال اور کردار کا تذکرہ، اور موازنہ کیا ہے۔ مستقبل میں ان کی محیر العقول ترقیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سورت الرحمٰن میں یہ تقابل عظیم الشان شرح و بسط کے ساتھ موجود ہے۔

انسان اس کائنات کا ایک جان دار وجود ہے۔اس وجود کی تمدّنی لحاظ سے،مذہبی لحاظ سے اور کسی حد تک جسمانی ارتقاء کے لحاظ سے آگے دو اقسام ہیں،’’ جِنّ اور اِنس‘‘۔اِنْس جس میں اُنْس کا پہلو غالب ہے اور وہ طینی سرشت رکھتا ہے۔ اور ناری سرشت والی مخلوق جِن جس میں سرکشی کا پہلو غالب ہے۔ قرآن مجید میں 30مقامات پر جِنّ و اِنْس کا ذکر ہے۔ دونوں کی طرف رسول آئے ، دونوں مکّلف بہ شریعہ بھی ہیں،اور اپنے کیے کا بدلہ بھی پائیں گے۔مگر ظاہر پرست علماء،مفسرین اور ان کے پیرو کاروں نے ان گہری اور پُر حکمت آیات پر غوروخوض کی بجائے انہیں ظاہر پر محمول کرتے ہوئے جِنّات کو نہ صرف ایک خاص قسم کی علیحدہ مخلوق تسلیم کیا بلکہ اِسے مافوق الفطرت مخلوق قرار دیتے ہوئے طرح طرح کے عجائبات ان سے منسوب کر دیے۔یوں نور کی جگہ تاریکی اورروشن سنّت اور شریعت کی جگہ خود تراشیدہ عقائد اور خود تراشیدہ وظائف نے لے لی۔ گھر ،مکان، محل،حویلیاں، قبرستان اور پیڑ پودے آسیب زدہ اور بھاری قرار دیے گئے،اور انہیں جِنّ بھوت اور چڑیلوں کا مسکن قرار دے دیا گیا۔ عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو جِن چمٹنے لگے اور گلی گلی کالے اور سِفلی علم کے ماہر،اور وظائف و عملیات کے دعوےدار لوگ پیدا ہوگئے۔جِنّات کے کارناموں سے منسوب روایات وضع کی گئیں اور اس رطب و یابس کو اسلام کی پاک اور حقیقی تعلیم کے ساتھ خلط ملط کرنے کی جسارت کی گئی۔ آج برِصغیر پاک و ہند اور افریقہ کے تیسری دنیا کے زمرے میں شامل ملکوں کے ساتھ یورپ اور امریکہ کے ظاہری ترقی سے مالا مال ممالک کے باشندے بھی انہی توہمات سے آلودہ ہیں۔

ہندوستان میں شائع ہونے والی ایک کتاب جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں،اُس کی مصنفہ نے مسلمان معاشرے میں پائی جانے والی خامیوں اور بدعات کوبڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے:’’ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور اردو غزل‘‘ کی مصنفہ طاہرہ منظور رقمطراز ہے:’’دیکھا جائے تو اسلام کی حقیقی روح اور مشترکہ اسلامی جسم میں بہت فرق ہے۔ہندوستانی مسلم معاشرہ آج تک ان دونوں کی کشمکش کا سامنا کر رہا ہے۔ اسلام ایک عظیم تہذیب کا علمبردار ہے۔ جس نے ماضی، حال مستقبل کے علاوہ حیاتِ آخر کا بھی احاطہ کر رکھا ہے۔اس تہذیب کے اقدار اتنے بلند اور قابل عمل ہیں کہ جنہیں حیات انسانی کے مطابق بنایا گیا ہے۔زندگی کا ضابطہ حیات ہے جہاں سے روگردانی زوال، جہالت اور پستی کی طرف لے جاتی ہے۔جب ہم آج کی اسلامی تہذیب کی بات کرتے ہیں تو وہ خالص اسلامی نہیں ہوتا بلکہ ہزار ہا بدعات سے خلط ملط کرکے جو شکل بن گئی ہے اس سے مراد لی جاتی ہے۔تعزیہ ، علَم، شب برأت ، آتش بازی، کونڈے، نیاز، حلوہ، ملیدہ ، قوالی، سوانگ، ڈھولک، تاشے، عرس وغیرہ اسلام کے جزو نہیں،یہ اسلامی تہذیب نہیں اور نہ ہی خوش لباسی، سائنسی ایجادات و آسمانی وسعتوں پر پہنچنے کی کوشش سے انکار اسلامی تمدن ہے۔ خدا خود قرآن میں دعوت دیتا ہے کہ قوت حاصل کر لو تو چاند تک پہنچ سکتے ہو ۔ یہ قوت جسمانی نہیں بلکہ اشرف المخلوقات کی ذہنی قوت اور اس کے ذریعہ ترقیاں ہیں ۔ اعمال و معاملات میں کبر و نخوت اگر عجمی تہذیب کا نمایاں عنصر ہے تو مسیحی تہذیب و تمدن پر شرک کی پرت جمی ہوئی ہے۔صنم پرستی، چڑھاوے، نیاز کے ساتھ شادی بیاہ، پیدائش وموت سے متعلق رسمیں نہ صرف ہندوستانی بلکہ ہندوآنہ ہیں ، جنہیں ہم نے اپنا لیا ہے۔‘‘

(ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور اردو غزل۔از طاہرہ منظور، صفحہ30تا31۔ ایڈیشن2006ء۔ناشر، انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز نئی دہلی)

قرآن حکیم میں جنّات کا ذکر

قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مختلف طریق اور مختلف الفاظ میں جِنّات کا ذکر موجود ہے۔چند آیات درج ذیل ہیں:

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ۔

(سبا :13)

اور (ہم نے) سلیمان کے لیے ہَوا (کو مسخر کردیا)۔ اُس کا صبح کا سفر بھی مہینے (کی مسافت) کے برابر تھا اور شام کا سفر بھی مہینے (کی مسافت) کے برابر تھا۔ اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔ اور جنوں (یعنی جفاکش پہاڑی اقوام) میں سے بعض کو (مسخر کردیا) جو اس کے سامنے اُس کے ربّ کے حکم سے محنت کے کام کرتے تھے۔ اور جو بھی ان میں سے ہمارے حکم سے انحراف کرے گا اسے ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔

وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ۔

(النمل:18)

اور سلیمان کے لیے جن وانس اور پرندوں میں سے اس کے لشکر اکٹھے کئے گئے اور انہیں الگ الگ صفوں میں ترتیب دیا گیا۔

قَالَ عِفۡرِیۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ ۚ وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ۔

(النمل:40)

جِنّوں میں سے عِفریت نے کہا میں اسے تیرے پاس لے آؤں گا پیشتر اس سے کہ تُو اپنے مقام سے پڑاؤ اٹھا لے اور یقیناً میں اس (کام) پر بہت قوی (اور) قابل اعتماد ہوں۔

فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ۔

(سبا :15)

پس جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ صادر کردیا تو اس کی موت پر ایک زمینی کیڑے (یعنی اس کے ناخلف بیٹے) کے سوا کسی نے ان کو آگاہ نہ کیا جو اُس (کی حکومت) کا عصا کھا رہا تھا۔ پھر جب وہ (نظامِ حکومت) منہدم ہو گیا تب جنّ (یعنی پہاڑی اقوام) پر یہ بات کھل گئی کہ اگروہ غیب کا علم رکھتے تو اِس رُسوا کن عذاب میں نہ پڑے رہتے۔

قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ اَنۡتَ وَلِیُّنَا مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ بَلۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ ۚ اَکۡثَرُہُمۡ بِہِمۡ مُّؤۡمِنُوۡنَ۔

(سبا :42)

وہ کہیں گے پاک ہے تُو۔ اُن کی بجائے تُو ہمارا دوست ہے۔ بلکہ وہ تو جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے (اور) اِن میں سے اکثر اُنہی پر ایمان لانے والے تھے۔

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوۡنَ۔

(الانعام:101)

اور انہوں نے جنوں کو اللہ کے شریک بنالیا ہے جبکہ اُسی نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اور انہوں نے بغیر کسی علم کے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیے ہیں۔ پاک ہے وہ اور اس سے بہت بلند ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ۔

(الانعام:113)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جِنّ و اِنس کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا۔ ان میں سے بعض بعض کی طرف ملمّع کی ہوئی باتیں دھوکہ دیتے ہوئے وحی کرتے ہیں۔ اور اگر تیرا ربّ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس تُو ان کو چھوڑ دے اور اُسے بھی جو وہ اِفترا کرتے ہیں۔

وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ۔

(الاحقاف:30)

اور جب ہم نے جنوں میں سے ایک جماعت کا رُخ تیری طرف پھیر دیا جو قرآن سنا کرتے تھے۔ جب وہ اُس کے حضور حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا خاموش ہو جاؤ۔ پھر جب بات ختم ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف انذار کرتے ہوئے لَوٹ گئے۔

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ۔وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ۔

(الرحمٰن:15تا16)

اُس نے انسان کو مٹی کے پکائے ہوئے برتن کی طرح کی خشک کھنکتی ہوئی مٹی سے تخلیق کیا ،اور جِنّ کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا۔

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ۔

(الرحمٰن:34)

اے جِنّ و اِنس کے گروہ! اگر تم استطاعت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکو تو نکل جاؤ۔ تم نہیں نکل سکو گے مگر ایک غالب استدلال کے ذریعہ ۔

فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُسۡـَٔلُ عَنۡ ذَنۡۢبِہٖۤ اِنۡسٌ وَّ لَا جَآنٌّ۔

(الرحمٰن:40)

اُس دن جِنّ و اِنس میں سے کوئی اپنی لغزش کے بارہ میں پوچھا نہیں جائے گا ۔

فِیۡہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ ۙ لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ۔

(الرحمٰن:57)

ان میں نظریں جھکائے رکھنے والی دوشیزائیں ہیں جنہیں ان (جنتیوں) سے پہلے جِنّ و اِنس میں سے کسی نے مَس نہیں کیا۔

(ترجمہ آیات، بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ )

لفظ جِنّ کی لغوی بحث

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ’’مفردات القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’(ج ن ن) اَلْجَنَّ کے اصل معنی کسی چیز کو حواس سے پوشیدہ کرنے کے ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے جَنَّهُ الَّیْلُ وَاَجَنَّهُ اُسے رات نے چھپا لیا۔جُنَّ عَلَیْهِ: اسے جنون ہو گیا ۔پس جَنَّهُ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں،اور اَجَنَّهُ کے معنی چھپانے کے لیے کوئی چیز دینے کے ہیں ، جیسے:

قَبَرْتُهُ وَاَقْبَرْتُهُ وَسَقَیْتُهُ وَاَسْقَیْتُهُ جَنَّ عَلَیْهِ كَذَا۔

کسی چیز نے اُسے چھپا لیا۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا۔ پس جب رات اس پر چھا گئی اس نے ایک ستارے کو دیکھا ۔

اَلْجَنَانُ، دل: کیونکہ وہ حواس میں مستور ہوتا ہے۔

اَلْمِجَنُّ وَالْمِجَنَّةُ: ڈھال کیونکہ اس سے انسان اپنے آپ کو بچاتا اور چھپاتاہے۔قرآن مجید میں ہے :

اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّةً ۔(المجادلہ :17)

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے۔اور حدیث میں ہے : الصَّوْمُ جُنَّةٌ کہ روزہ ڈھال ہے۔

اَلْجَنَّةُ: ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کی وجہ سے نظر نہ آئے جنّت کہلاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے

’’ لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِہِمۡ اٰیَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ‘‘۔(سبا : 16)۔

اہل سباکے لیے بھی ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی۔ یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف ۔

اَلْجَنِیْنُ: بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں رہے اُسے جَنِیْنٌ کہا جاتا ہے، اس کی جمع اَجِنَّةٌ آتی ہے:

وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ۔(النجم :33)۔

اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں تھے۔ اور یہ یعنی جنین فعیل بمعنی مفعول سے ہے، یعنی چھپا ہوا۔ اَلْجَنِیْنُ قبر کو بھی کہتے ہیں ، فعیل بمعنی فاعل ہے،یعنی چھپانے والی۔

اَلْجِنُّ: جِن( اس کی جمع جِنَّةٌ آتی ہے ) اور اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔1۔انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جِنّ کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جِنّ کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے۔لہٰذا تمام فرشتے جِنّ ہیں ،لیکن تمام جِنّ فرشتے نہیں۔اسی بنا پر ابو صالح نے کہا ہے کہ تمام فرشتے جِنّ ہیں۔ 2۔بعض نے کہا ہے کہ نہیں ، بلکہ جِنّ روحانیوں کی ایک قِسم ہے، کیونکہ روحانیات تین قِسم کےہیں۔ (1) اَخْیَار (نیک) اور یہ فرشتے ہیں۔ (2) اَشْرَار(بد) اور یہ شیاطین ہیں۔(3) اَوْسَاط، جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں،اور یہ جِنّ ہیں۔ چنانچہ سورۃ جِنّ کی ابتدائی آیات :

قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا…وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ:

اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں اور بعض نافرمان گناہ گار ہیں ،اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جِنّوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں۔

اَلْجِنَّةُ: جنون دیوانگی، قرآن پاک میں ہے:

مَا بِصَاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ ، (7:185)

کہ ان کے رفیق (محمدﷺ) کو( کسی طرح کابھی ) جنون نہیں۔اور دیوانگی کو جنون اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہو جاتاہے ۔ جُنَّ فُلانٌ اُسے جِنّ لگ گیا۔ بعض نے کہا ہے جُنَّ فُلانٌ کے معنی ہیں اُس کے قلب کو عارضہ ہو گیا۔اور بعض نے کہا ہے دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپا لیا ، اور آیت کریمہ :

مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ: (44:15)

کے معنی ہیں اُسے وہ جِنّ چمٹا ہوا ہے جو اُسے تعلیم دیتا ہے ۔ اور یہی معنی آیت :

أَئِنَّا لَتَارِكُوْ آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُوْنٍ: (37:37)

کہ’’بھلا ایک دیوانے شاعرکے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ‘‘میں شاعر مجنون کے ہیں۔

جُنَّ التِّلاعُ وَاْلاٰفَاقُ: یعنی ٹیلوں اور ان کے گردونواح کو گھاس نے چھپا لیا ۔اور آیت کریمہ :

وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ : (15:28)

،اور جان کو اُس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا۔میں جَانَّ سے بھی جِنّوں کی ایک قِسم مراد ہے۔ لیکن آیت کریمہ :

كَأَنَّهَا جَانٌّ: (27:11)،

میں جَان سے ایک قِسم کا سانپ مراد ہے۔‘‘

(مفردات القرآن ،مصنفہ امام راغب اصفہانیؒ۔اردو ترجمہ محمد عبدہ فیروز پوری۔زیر لفظ ، ج ن ن)

قاموس الفاظِ القرآن الکریم میں لکھا ہے:’’اَلْجِنُّ: اسم۔ جنّ۔ جن ایک باشعور اور ذی عقل و فہم مخلوق ہے۔ان کا مادی جسم ہوتا ہے۔وہ بالعموم غیر مرئی ہوتے ہیں ۔ جس طرح انسانوں کی تخلیق مٹی سے ہوتی ہے ، اُسی طرح جِنّوں کی تخلیق بغیر دھوئیں والی آگ سے ہوتی ہے۔وہ اپنی خوراک کھاتے پیتے ہیں ۔ ان پر اسی طرح موت طاری ہوتی ہے جس طرح انسانوں پر۔اگرچہ یہ سب کچھ انسانی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔وہ اپنی مرضی سے انسانوں کے سامنے زیادہ تر حیوانوں کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ نوٹ: لفظ جِنّ اسم جمع ہے۔ جس کا اطلاق مخلوق کی ایک قسم پر ہوتا ہے ، جس طرح لفظ انسان کا اطلاق آدمیوں پر ہوتا ہے ، اس کا مفرد جِنّی ہے ، لیکن یہ لفظ بشکل مفرد قرآن میں وارد نہیں ہے۔‘‘

(قاموس الفاظ القرآن الکریم،زیر لفظ ج ن ن۔ مصَّنفہ ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی ۔ ناشرمکتبہ دارالاشاعت کراچی)

انٹر نیٹ پرمختلف زبانوں میں الفاظ کی لغوی بحث کی سہولت فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’’المعانی‘‘ میں جِنّ کے درج ذیل مطالب بیان کیے گئے ہیں:’’جَنَّ الشئَ وَعَلَيْهِ: (فعل) – ڈھانپنا ، چھپانا قران پاک میں ہے :

’’ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا ۔‘‘

جَنَّ الظَلامُ: (فعل) – اندھیرا سخت ہوجانا۔ جَنَّ الميِّتَ: (فعل) – کفن دینا ، قبر میں رکھنا۔

جُنَّ بِهِ وَمِنْهُ :( فعل) – انتہائی حیرت زدہ ہونا کہ پاگل ساہو جائے۔ جُنَّ جَنَّا وجنُونا وجِنَّةً ومَجَنَّةً : (فعل)۔ عقل زائل ہونا ، دیوانہ ہوجانا۔ جِنُّ : (اسم)۔ انسان کے بالمقابل پوشیدہ مخلوق۔

https://www.almaany.com/ur/dict/ar-ur/%D8%AC%D9%86/

اردو کی مشہور لغت فرہنگ آصفیہ میں لکھا ہے:جِنْ: اسمِ مذکر، دیو، بھوت پریت،ملائکہ کی وہ قسم جو آگ سے پیدا کی گئی۔غصہ، غضب، مضبوط آدمی ،سخت آدمی، کڑا اور پکا آدمی، مستقل مزاج آدمی ،ثابت قدم آدمی ۔

جِنْ اُتارنا: فعل متعدی ۔ بھوت کو قابو کرنا،پریت کسی کے اوپر سے دور کرنا ، آسیب کوبھگانا، کسی کے غُصّہ کو ٹھنڈا کرنا۔

جِنْ اُترنا: فعل ِلازم ۔ آسیب دور ہونا ، دیوانے یا سودائی کا ہوش میں آنا۔غصہ فرو ہونا، غصہ اُترنا۔ رسائی میں آنا، دھیما ہونا۔ جِنْ چڑھنا: فعلِ لازم۔ غُصّہ چڑھنا، طیش آنا،ضِد چڑھنا۔ آسیب کا اثر ہونا۔

(فرہنگِ آصفیّہ جلد دوم، زیر لفظ جِنْ)

اردو کی سب سےضخیم لغت میں لکھا ہے:’’جِنّ: 1. ( لفظاً ) پوشیدہ ، چھپا ہوا ، ( مجازاً ) ایک مخلوق انسانوں سے مختلف قرآن مجید میں اس کا ذکر سورۂ جن میں آیا ہے۔2. مستقل مزاج شخص، ایسا شخص جو کسی کام میں تن دہی سے جٹا رہے ، ثابت قدم ۔ 3.ضدی آدمی ، ہٹیلا یا سرکش آدمی۔4. ( مجازاً ) مضبوط یا زور آور شخص ،غصہ ، غضب۔‘‘

(اردو لغت تاریخی اصول پر: زیر لفظ جِنَّ۔ شائع کردہ ،اردو لغت بورڈ پاکستان)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button