تاریخ احمدیت

مولوی ثناء اللہ امرتسری (نمبر 9)

(عمانوایل حارث)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ اپنی صداقت کے ثبوت کے ذکر میں فرمایا کہ ’’دوسرا ثبوت نشانات ہیں جن سے بہت صفائی سے استنباط ہوتا ہے وہی ثبوت ہمارے ساتھ بھی ہیں اور جس قاعدہ سے خدا تعالیٰ نے یہ نشانات دکھلائے ہیں اگر اسی طرح شمار کریں تو یہ بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

اور

یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

کی تحت میں آکر ہر ایک شخص جو ہمارے پاس آتا ہے ہر ایک ہدیہ اور نذر جو پیش ہوتی ہے ایک ایک نشان الگ الگ ہے مگر ہم نے صرف ایک سو پچاس نشان نزول المسیح میں درج کئے ہیں۔جن کے ہزارہا گواہ موجود ہیں۔پھر دیکھو یہ کس وقت کی خبر ہے…اس وقت خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ لوگوں کو غلطیوں سے نکالے اور تقویٰ پر قائم کرے۔خدا تعالیٰ جس کو چاہے گا بلا تا جاوے گا۔یہ اس کی طرف سے ایک دعوت ہے جو بلایا جاتا ہے۔اسے فرشتے کھینچ کھینچ کر لے آتے ہیں۔‘‘

(بدر جلد دوم۔ نمبر 4صفحہ 26۔مورخہ 13؍فروری 1903ء)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان قادیان آنے والوں میں ہر نوع کے لوگ تھے۔ مخلص ارادت مند تھے، سیاح تھے، تحقیق حق کے خواہش مند تھے اور بعض اشد مخالفین بھی تھے۔ جیسا کہ مشہور اہل حدیث مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب جو مشہور اخبار اہل حدیث کے مالک و مدیر تھے۔آپ قادیان کی ہمسائیگی میں رہے،متعدد مرتبہ جماعت احمدیہ سے قریب کا واسطہ رہا، لیکن اپنی ازلی محرومی کے باعث نہ صرف قبول حق سے بے نصیب رہےبلکہ اشد معاند بن کر حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے کھڑا ہوااور آپؑ کی صداقت کا ایک نشان بنتے ہوئے ایک غیر معمولی لمبی زندگی پائی،تا ددنیا دیکھے کہ فتح نصیب جرنیل تو اپنا مشن مکمل کرکے اس دارفانی سے اوٹ کرگیا لیکن جھوٹ کے سہارے دشمنی اور عداوت پر کمربستہ انسان آسمانی لعنت کی زد میں آکر اپنی حسرت، ناکامی اور بےبسی کے بوجھ اٹھائے ایک مدت دراز تک زندہ رہا اور دشمنان سے الٰہی سلوک کی تصویر بن کر زمانے میں مسیح موعودؑکی صداقت کا اعلان کرتارہا۔مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے 1947ء میں تقسیم ملک کی تلخیاں جھیلیں، نہایت گہرے صدمے اٹھائے۔دراصل یہ معاند انسان اپنے جمع کردہ وسیع کتب کی بربادی اوراپنے ایک جوان بیٹے کی بذریعہ قتل ناگہانی موت سے بہت نڈھال ہوا اور ان صدموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ 13؍فروری 1948ء کو مولوی صاحب پر فالج کاحملہ ہوا اور اس کے بعد 15؍مارچ 1948ء کو صبح کے وقت سرگودھا کی سرزمین میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

اوّلاً حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی شہرت سن کر 1885ء میں مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان پہنچے۔ تب آپ کی عمر محض 17/18 سال تھی اور محض شوق زیارت سے بٹالہ سے پاپیادہ تنہا قادیان پہنچے۔اپنے اس سفر کا احوال مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی کتاب ’’تاریخ مرزا ‘‘میں ان الفاظ میں کیا ہے:’’جس طرح مرزا صاحب کی زندگی کے دو حصے ہیں (براہین احمدیہ تک اور اس سے بعد) اسی طرح مرزا صاحب سے میرے تعلق کے بھی دو حصے ہیں براہین احمدیہ تک اور براہین احمدیہ سے بعد۔ براہین تک میں مرزا صاحب سے حسن ظن رکھتا تھا ۔چنانچہ ایک دفعہ میری عمر کوئی 17-18سال کی تھی میں بشوقِ زیارت بٹالہ سے پا پیادہ تنہا قادیاں گیا۔ان دنوں مرزا صاحب ایک معمولی مصنف کی حیثیت میں تھے مگرباوجود شوق اور محبت کے مَیں نے وہاں دیکھا مجھے خوب یاد ہے کہ میرے دل میں جو اُن کی بابت خیالات تھے وہ پہلی ملاقات میں مبدّل ہو گئے جس کی صورت یہ ہوئی کہ مَیں اُن کے مکان پر دھوپ میں بیٹھا تھا وہ آئے اور آتے ہی بغیر اس کے کہ السلام علیکم کہیں یہ کہا تم کہاں سے آئےہو، کیا کام کرتے ہو۔ مَیں ایک طالب علم علماء کی صحبت یافتہ اتنا جانتا تھا کہ آتے ہوئےالسلام علیکم کہنا سنت ہے فوراً میرے دل میں آیا کہ انہوں نے مسنون طریق کی پرواہ نہیں کی کیا وجہ ہے مگر چونکہ حُسنِ ظن غالب تھا اس لئے یہ وسوسہ دب کر رہ گیا ۔‘‘

(تاریخ مرزا، صفحہ 59۔ مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ۔ شیش محل روڈ لاہور)

مولوی ثناء اللہ صاحب کی اس قادیان آمد کی تفصیلات کاجماعتی ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں ملا، اس لیے وثوق سے کہا نہیں جاسکتا کہ جس طرح کی منظر کشی مولوی صاحب نے کی ہے ویسا ہی وقوع پذیر ہواتھا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کو تو خلوص دل پسند ہے کیونکہ اس کی نگاہ دلوں پر ہوتی ہے اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

باراں کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست

در باغ لالہ روید دوشورہ بوم خس

بارش جس کے پاکیزہ ہونے میں کوئی شک نہیں جب وہ باغ میں برستی ہے تو لالہ اگاتی ہےاور جب شوریلی زمین پر برستی ہے تو اس میں جھاڑیاں اگاتی ہے۔

اس کے بعد مولوی صاحب مورخہ 10؍جنوری1903ءکو قادیان آئے۔ ملفوظات کی جلد دوم میں ’’مولوی ثناء اﷲ صاحب کا قادیان آنا‘‘ کے عنوان کے تحت اس سفر کے موقع پر پیش آمدہ واقعات درج ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

’’عصر کے وقت خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر ہوئی کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری قادیان آئے ہوئے ہیں مگر آپ نے اس کے متعلق صرف یہی فرمایا کہ

ہزاروں لوگ راہرو آتے ہیں ہمیں اس سے کیا؟

مغرب کی نماز باجماعت ادا کر کے جب حضرت اقدس دولت سرا کو تشریف لے چلے تو ایک شخص نے ہاتھ میں قلم دوات لئے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں کچھ کاغذات پیش کئے۔اس قلم دوات سے اس کی یہ غرض تھی کہ حضرت سے رقعہ کی رسید لے مگر حضرت نے توجہ نہ کی اور اس کے وہ کاغذات لے کر تشریف لے گئے اور جب عشاء کی نماز کے واسطے تشریف لائے تو فرمایا کہ

ایک ہی مضمون کے دو رقعے مولوی ثناء اﷲ صاحب کی طرف سے پہنچے ہیں۔نہ معلوم دو رقعوں کی کیا غرض تھی۔اس وقت یہ عقدہ حل ہوا کہ غالباً دوسرا رقعہ دستخط یعنی رسید رقعہ لینے کی غرض سے تھا۔مگر قاصد کو رسید مانگنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ رقعہ اس وقت سید سرور شاہ صاحب کے حوالہ کیا گیا۔کہ وہ اسے پڑھ کر اہل مجلس کو سنا دیویں۔

اس کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا:

’’ہم تیار ہیں۔ وہ ہفتہ عشرہ آرام سے سب باتیں سنے اور اگر اس کا منشاء مباحثہ کا ہو تو یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ اب مدت ہوئی کہ ہم مباحثات کو بند کر چکے ہیں۔اگر اس کو طلب حق کی ضرورت ہے تو وہ رفق اور آہستگی سے اپنی غلطی دور کروائے۔طالب حق کے لئے ہمارا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ہاں جو شخص ایک منٹ رہ کر چلا جانا چاہتا ہے اور اسے فتح اور شکست اور ہار اور جیت کا خیال ہے وہ مستفید نہیں ہو سکتا۔بجز ایسے شخص کے جو نیک نیت بن کر آوے ہم تو دوسرے کے ساتھ کلام کرنا بھی تضیع اوقات خیال کرتے ہیں۔ہمیں تعجب ہے کہ وہ کیوں گھمار کے ہاں جا کر اترے۔چاہئے تھا کہ مستفیدوں کی طرح آتا اور ہمارے مہمان خانہ میں اترتا۔پھر فرمایا۔ہم اس رقعہ کا صبح کو جواب دیں گے۔

اس کے بعد حضرت اقدس نماز سے فارغ ہو کر تشریف لے چلے تو ثناء اﷲ صاحب کے قاصد نے آوازدی کہ حضرت جی۔مولوی ثناء اﷲ صاحب کے رقعہ کا کیا جواب ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ صبح کو دیا جائے گا۔قاصد نے کہا کہ میں آکر جواب لے جاؤں یا آپ بذریعہ ڈاک روانہ کریں گے۔حضرت اقدس نے فرمایا۔خواہ تم آکر لے جاؤ خواہ ثناء اﷲ آکر لے جاوے۔پھر آپ نے قاصد کا نام پوچھا ۔اس کہا محمد صدیق۔

مورخہ 11؍جنوری 1903ء بروز یکشنبہ کی ڈائری کے حوالہ سے درج ہے کہ فجر کی نماز کو جب حضرت اقدس تشریف لائے تو قبل از نماز آپ نے وہ رقعہ جو مولوی ثناء اﷲ صاحب کے رقعہ کے جواب میں تحریر فرمایاتھا۔احباب کو سنایا۔وہ رقعہ یہ تھا:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسو لہ الکریم

از طرف عایذ باﷲ الصمد غلام احمد عافاہ اﷲ واید

بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب۔

آپ کا رقعہ پہنچا۔اگر آپ لوگوں کی صدق دل سے یہ نیت ہوکہ اپنے شکوک و شبہات پیشگوئیوں کی نسبت یا ان کے ساتھ اور امور کی نسبت بھی جو دعویٰ سے تعلق رکھتے ہوں، رفع کروائیں تو یہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی اور اگر چہ میں کئی سال ہوئے کہ اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوںکہ میں اس گروہ مخالف سے ہرگز مباحثات نہ کروں گا کیونکہ اس کا نتیجہ بجز گندی گالیوں اور اوباشانہ کلمات سننے کے اور کچھ نہیں ہوا مگر میں ہمیشہ طالب حق کے شبہات دور کرنے کے لئے تیار ہوں۔اگر چہ آپ نے اس رقعہ میں دعویٰ تو کر دیا ہے کہ طالب حق ہوں مگر مجھے تامل ہے کہ اس دعویٰ پر آپ قائم رہ سکیں۔کیونکہ آپ لوگوں کی عادت ہے کہ ایک بات کو کشاں کشاں بے ہودہ اور مباحثات کی طرف لے آتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے مباحثات ہرگز نہیں کروں گا۔سو وہ طریق جو مباحثات سے بہت دور ہے کہ آپ اس مرحلہ کو صاف کرنے کے لئے اول یہ اقرار کریں کہ آپ منہاج نبوت سے باہر نہیں جائیں گے۔اور وہی اعتراض کریں گے جو آنحضرت ﷺ پر یا حضرت عیسیٰؑ پر یا حضرت موسیٰ ؑپر یا حضرت یو نسؑ پر عائد نہ ہوتا ہو اور حدیث اور قرآن شریف کی پیشگوئیوں پر زد نہ ہو۔دوسری شرط یہ ہوگی کہ آپ زبانی بولنے کے مجاز نہ ہوں گے۔صرف آپ مختصر ایک سطر یا دوسطر تحریر دے دیں گے کہ میرا یہ اعتراض ہے۔پھر آپ کو عین مجلس میں مفصل جواب سنایا جائے گا۔اعتراض کے لئے لمبا لکھنے کی ضرورت نہیں ایک سطر یا دو سطر کافی ہیں۔تیسری یہ شرط ہوگی کہ ایک دن میں صرف ایک ہی آپ اعتراض پیش کریں گے کیونکہ آپ اطلاع دے کر نہیں آئے۔چوروں کی طرح آگئے ۔اور ہم ان دنوں بباعث کم فرصتی اور کام طبع کتاب کے تین گھنٹہ سے زیادہ صرف نہیں کرسکتے۔یاد رہے کہ یہ ہرگز نہ ہوگا کہ عوام کا لانعام کے روبرو آپ واعظ کی طرح ہم سے گفتگو شروع کر دیں بلکہ آپ نے بالکل منہ بند رکھنا ہوگا۔جیسے صُمٌّۢ بُکۡمٌ۔ یہ اس لئے کہ تا گفتگو مباحثہ کے رنگ میں نہ ہو جاوے۔اور صرف ایک پیشگوئی کی نسبت سوال کریں۔میں تین گھنٹہ تک اس کا جواب دے سکتا ہوں اور ایک ایک گھنٹہ کے بعد آپ کو متنبہ کیا جاوے گاکہ اگر ابھی تسلی نہیں ہوئی تو اور لکھ کر پیش کرو۔آپ کا کام نہیں ہوگا کہ اس کو سناویں ہم خود پڑھ لیں گے۔مگر چاہئے کہ دو تین سطر سے زیادہ نہ ہو۔اس طرز میں آپ کا کچھ حرج نہیں ہے کیونکہ آپ تو شبہات دور کرانے آئے ہیں۔یہ طریق شبہات دور کرانے کا بہت عمدہ ہے۔میں بآواز بلند لوگوں کو سنادوں گا کہ اس پیشگوئی کی نسبت مولوی ثناء اﷲ صاحب کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا ہے اور اس کا یہ جواب ہے۔اس طرح تمام وساوس دور کر دیئے جائیں گے۔لیکن اگر چاہو کہ بحث کے رنگ میں آپ کو بات کا موقعہ دیا جاوے تو ہر گز نہ ہوگا۔14؍جنوری 1903ء تک میں اس جگہ ہوں۔بعد میں 15؍جنوری کو ایک مقدمہ پر جہلم جاؤں گا۔سو اگر چہ بہت کم فرصتی ہے۔لیکن14؍جنوری تک آپ کے لئے تین گھنٹے تک خرچ کر سکتا ہوں۔اگر آپ لوگ کچھ نیک نیتی سے کام لیویں تو یہ ایسا طریق ہے کہ اس سے آپ کو فائدہ ہوگا۔ورنہ ہمارا اورآپ لوگوں کا آسمان پر مقدمہ ہے خود خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا۔

والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔

سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بہتر ہوگا کہ آپ بذریعہ تحریر جو سطر دو سطر سے زیادہ نہ ہوایک ایک گھنٹہ کے بعد اپنا شبہ پیش کرتے جاویں گے اور میں وہ وسوسہ دور کرتا جاؤں گا۔ایسے ہی صدہا آدمی آتے ہیں اور وسوسہ دور کرا لیتے ہیں۔ایک بھلا مانس شریف آدمی ضرور اس بات کو پسند کرے گا۔اس کو وساوس دور کرانے ہیں اور کچھ غرض نہیں۔لیکن وہ لوگ جو خدا سے نہیں ڈرتے ان کی تو نیتیں ہی اَور ہوتی ہیں۔

میرزا غلام احمد(مہر)

اور فرمایا کہ یہ طریق بہت امن کا ہے۔اگر یہ نہ کیا جاوے تو بدامنی اور بد نتیجہ کا اندیشہ ہے۔

پھر فرمایا کہ ابھی فجر کو میں نے ایک خواب دیکھاکہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔اس کے ایک طرف کچھ اشتہار ہے اور دوسری طرف ہماری طرف سے کچھ لکھا ہوا ہے جس کا عنوان یہ ہے:

بقیۃ الطاعون

اس کے بعد فجر کی نماز ہوئی تو حضرت اقدسؑ نے قلم دوات طلب فرمائی اور فرمایا کہ تھوڑا سا اَور اس رقعہ پر لکھنا ہے۔

اتنے میں مولوی ثناء اﷲ صاحب کے قاصد پھرآموجود ہوئے اور جواب طلب کیا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابھی لکھ کر دیا جاتا ہے۔پھر بقیہ حصہ آپ نے لکھ کر اپنے خدام کے حوالہ کیا کہ اس کی نقل کر کے روانہ کردو۔وہ حصہ رقعہ کا یہ ہے۔

’’بالآخر اس غرض کے لئے اب آپ اگر شرافت اور ایمان رکھتے ہیں تو قادیان سے بغیر تصفیہ کے خالی نہ جاویں۔

دو قسموں کا ذکر ہوتا ہے (۱) اول چونکہ میں انجام آتھم میں خد اسے قطعی عہد کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے قطعی بحث نہیں کروں گا۔اس وقت پھر اسی عہد کے مطابق قسم کھاتا ہوں کہ میں زبانی آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گا۔صرف آپ کو یہ موقعہ دیا جاوے گا کہ آپ اول ایک اعتراض جو آپ کے نزدیک سب سے بڑا عتراض کسی پیشگوئی پر ہوایک سطر یا دو سطر یا حد تین سطر تک لکھ کر پیش کریں جس کا یہ مطلب ہو کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی اور منہاج نبوت کی رو سے قابل اعتراض ہے اور پھر چپ رہیں اور میں مجمع عام میں اس کا جواب دوں گا جیسا کہ مفصل لکھ چکا ہوں۔پھر دوسرے دن دوسری پیشگوئی اسی طرح لکھ کر پیش کریں۔یہ تو میری طرف سے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس سے باہر نہیں جائوں گا اور کوئی زبانی بات نہیں سنوں گا اور آپ کی مجال نہیں ہوگی کہ کوئی کلمہ بھی زبانی بول سکیں اور آپ کو بھی خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر آپ سچے دل سے آئے ہیں تو اس کے پابند ہو جاویں اور ناحق فتنہ و فساد میں عمر بسر نہ کریں۔اب ہم دونوں میں سے ان دونوں قسموں میں سے جو شخص اعراض کرے گا اس پر خدا کی لعنت ہو اور خدا کرے کہ وہ اس لعنت کا پھل بھی اپنی زندگی میں دیکھ لے۔آمین۔سو میں دیکھوں گا کہ آیا سنت نبویہ کے موافق اس قسم کو پورا کرتے ہیں یا قادیان سے نکلتے ہوئے اس لعنت کو ساتھ لے جاتے ہیں چاہئے کہ اول آپ اس عہد موکد قسم کے آج ہی ایک اعتراض دو تین سطر کا لکھ کر بھیج دیں اور پھر وقت مقرر کر کے مسجد میں مجمع کیا جائے گااور آپ کو بتلایا جاوے گا اور عام مجمع میں آپ کے شیطانی وساوس دور کر دئے جائیں گے۔‘‘

رقعہ دے کر آپ تشریف لے گئے اور اندر سے حضور نے کہلا بھیجا کہ رقعہ وہاں ان کو جا کر سنا دیا جاوے اور پھر ان کے حوالے کیا جاوے۔

چنانچہ یہ رقعہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کو پہنچا دیا گیا۔تھوڑے عرصہ کے بعد پھر مولوی ثناء اﷲ صاحب کی طرف سے جواب الجواب آیا۔

یہ نا معقول اور اصل بحث سے بالکل دور جواب سن کر حضرت اقدسؑ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ہم نے جو اسے خدا کی قسم دی تھی اس سے فائدہ اٹھاتا یہ نظر نہیں آتا۔اب خد اکی لعنت لے کر واپس جانا چاہتا ہے۔جس بات کو ہم بار بار لکھتے ہیں کہ ہم مباحثہ نہیں کرتے جیسا کہ ہم انجام آتھم میں اپنا عہد دنیا میں شائع کر چکے ہیں۔تو اب اس کا منشا ہے کہ ہم خدا کے اس عہد کو توڑدیں۔یہ ہرگز نہ ہوگا۔اور پھر اس رقعہ میں کس قدر افتراع سے کام لیا گیا ہے کیونکہ جب ہم اسے اجازت دیتے ہیں کہ ہر ایک گھنٹہ کے بعد وہ دو تین سطریں ہماری تقریر پر اپنے شبہات کی لکھ دیوے تو اس طرح سے خواہ اس کی دن میں تیس سطور ہو جاویں ہم کب گریز کرتے ہیں اور خواہ ایک ہی پیشگوئی پر وہ ہم سے دس دن تک سنتا رہتا اور اپنے وساوس اس طرز سے پیش کرتا رہتا۔اسے اختیار تھا۔پھر ایک دوسرا جھوٹ یہ بولا ہےکہ لکھتا ہے کہ آپ مجمع پسند نہیں کرتے۔بھلا ہم نے کب لکھا ہے کہ ہم مجمع پسند نہیں کرتے بلکہ ہم تو عام جلسہ چاہتے ہیںکہ تمام قادیان کے لوگ اور دوسرے بھی جس قدر ہوں جمع ہوں تا کہ ان لوگوں کی بے ایمانی کھلے کہ کس طرح یہ لوگوں کو فریب دے رہے ہیں۔اگر اسے حق کی طلب ہوتی تو اسے ہمارے شرائط ماننے میں کیا عذر تھا مگر یہ بدنصیب واپس جاتا نظر آتا ہے۔

پھر مولوی محمد احسن صاحب کو حضورؑ نے فرمایا کہ آپ اس کا جواب لکھ دیں مجھے فرصت نہیں۔میں کتاب لکھ رہا ہوں۔یہ کہہ کر حضور تشریف لے گئے اور مولوی محمد احسن صاحب نے رقعہ کا جواب تحریر فرمایا اس کے بعد کوئی جواب مولوی ثناء اﷲ صاحب کی طرف سے نہ آیا۔اور وہ قادیان سے چلے گئے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 683تا 688)

مولوی ثناء اللہ نے اپنی کتاب ’’تاریخ مرزا ‘‘میں اپنے 10؍جنوری 1903ء والے اس سفر قادیان اور وہاں ہونے والی خط و کتابت کا ریکارڈ بھی جمع کیا ہے۔اور اس سفر کی تمہید کے طور پر لکھا کہ ’’جن دنوں آپ(حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ) نے مسیحیت موعودہ کا دعویٰ کیا۔ میں ابھی تحصیل علم سے فارغ نہیں ہوا تھا۔ آخر بعد فراغت میں آیا تو مرزا صاحب کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ دل میں تڑپ تھی استخارے کئے۔ دعائیں مانگیں۔ خواب دیکھے…‘‘ لیکن ان سب معلومات سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ہدایت نصیب ہونا بھی فضل خداوندی پر موقوف ہے۔ ورنہ لوگ چشمہ فیض پر پہنچ کر بھی بے نصیب اور عمر بھر کے لیے پیاسے ہی لَوٹ سکتے ہیں۔ جیسا کہ یہ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button