کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

میرے لئے آسمان پر دو نشان ظاہر ہوئے تھے

……حکمتِ الٰہی نے تقاضا فرمایا کہ جو لوگ اُس کی طرف سے مخصوص ہو کر آتے ہیں اُن کے ساتھ کچھ نصرتِ الٰہی کے نشان بھی ہوں جو کبھی رحمت کے رنگ میں اور کبھی عذاب کے رنگ میں ظاہر ہوتے رہیں۔ اور وہ لوگ انہیں نشانوں کی وجہ سے خدا کی طرف سے بشیراور نذیرکہلاتے ہیں۔ مگر رحمت کے نشانوں سے وہ مومن حصہ لیتے ہیں جو خدا کے حکموں کے مقابل پر تکبّر نہیں کرتے اور خدا کے فرستادہ لوگوں کو تحقیر اور توہین سے نہیں دیکھتے اور اپنی فراست خدا دادسے اُن کو پہچان لیتے ہیں اور تقویٰ کی راہ کو محکم پکڑ کر بہت ضد نہیں کرتے اور نہ دنیا داری کے تکبر اور جھوٹی وجاہتوں کی وجہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ جب دیکھتے ہیں کہ سنتِ انبیاء کے موافق ایک شخص اپنے وقت پر اُٹھا ہے جو خدا کی طرف بلاتا ہے اور اُس کی باتیں ایسی ہیں کہ اُن کی صحت ماننے کے لئے ایک راہ موجود ہے اور اس میں نصرتِ الٰہی اور تقویٰ اور دیانت کے نشان پائے جاتے ہیں اور سُننِ انبیاء علیہم السلام کے پیمانہ کے رُو سے اُس کے قول یا فعل پر کوئی اعتراض نہیں آتا تو ایسے انسان کو قبول کر لیتے ہیں۔ بلکہ بعض سعید ایسے بھی ہیں کہ چہرہ دیکھ کر پہچان جاتے ہیں کہ یہ کذّاب اور مکّار کا چہرہ نہیں۔ پس ایسے لوگوں کے لئے رحمت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور وہ دمبدم ایک صادق کی صحبت سے ایمانی قوت پا کر اور پاک تبدیلیوں کا مشاہدہ کر کے تازہ بتازہ نشانوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور تمام حقائق اور معارف اور تمام نصرتیں اور تمام تائیدیں اور تمام قسم کے اعلام غیب اُن کے حق میں نشان ہی ہوتے ہیں اور وہ لطافتِ ذہن کی وجہ سے خداتعالیٰ کی دقیق در دقیق نصرتوں کو اُس فرستادہ کی نسبت محسوس کر کے باریک درباریک نشانوں پر بھی اطلاع پا لیتے ہیں۔ لیکن اُن کے مقابل پر وہ لوگ بھی ہیں جن کو رحمت کے نشانوں میں سے حصہ لینا نصیب نہیں۔جیسا کہ نوحؑ کی قوم نے بجز غرق کرنے کے معجزہ کے اور کسی نوع کے معجزہ سے حصہ نہ لیا اور لوطؑ کی قوم نے بجز اس معجزہ کے جو اُن کی زمین زیر و زبر کی گئی اور اُن پر پتھر برسائے گئے اور کسی معجزہ سے فائدہ نہ اُٹھایا۔ ایسا ہی اس زمانہ میں خدا نے مجھے مامور فرمایا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی طبیعتیں نوحؑ کی قوم سے ملتی ہیں۔ کئی سال گذرے کہ میرے لئے آسمان پر دو نشان ظاہر ہوئے تھے کہ جو خاندانِ نبوت کی روایت سے ایک پیشگوئی تھی اور وہ یہ کہ جب امام آخرالزمان دنیا میں ظاہر ہو گا تو اس کے لئے دو نشان ظاہر ہوں گے جو کبھی کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے یعنی یہ کہ آسمان پر رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن ہو گا اور وہ گرہن چاند گرہن کی معمولی راتوں میں سے پہلی رات میں ہو گا اور ان دنوں میں رمضان میں ہی سورج گرہن بھی ہوگا اور وہ گرہن سورج گرہن کے معمولی دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہو گا اور یہ پیشگوئی سُنیوں اور شیعوں میں متفق علیہ تھی اور لکھا تھا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی ایسا ظہور میں نہی آیا کہ مدعی امامت موجود ہو اور اس کے عہد میں یہ دونوں واقعہ انہیں تاریخوں میں ظہور پذیر ہوں۔ لیکن امام آخر الزمان کے عہد میں ایسا ہی ہو گا اور یہ نشان اسی سے خاص ہو گا اور یہ پیشگوئی ان کتابوں میں لکھی گئی تھی جو آج سے ہزار برس پہلے دنیا میں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن جب یہ پیشگوئی میرے دعویٰ امامت کے وقت میں ظاہر ہوئی تو کِسی نے اس کو قبول نہ کیا اور ایک شخص نے بھی اس عظیم الشان پیشگوئی کو دیکھ کر میری بیعت نہ کی بلکہ گالیاں دینے اور ٹھٹھا کرنے میں اور بھی بڑھ گئے۔ میرا نام دجّال اور کافر اور کذّاب وغیرہ رکھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ یہ پیشگوئی بطور عذاب نہ تھی بلکہ رحمتِ الٰہی نے قبل از وقت ایک نشان دیا تھا لیکن لوگوں نے اِس نشان سے کچھ بھی فائدہ نہ اُٹھایا اور کچھ بھی ان کے دلوں کو میری طرف توجہ نہ ہوئی گویا وہ نشان ہی نہیں تھا ایک لغو پیشگوئی تھی جو کی گئی۔ پھر بعد اس کے جب منکروں کی شوخی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے ایک عذاب کا نشان زمین پر دکھلایا۔جیسا کہ ابتدا سے نبیوں کی کتابوں میں لکھا گیا تھا۔اور وہ عذاب کا نشان طاعون ہے جو چند سال سے ا س ملک کوکھا رہی ہے اور کوئی انسانی تدبیر اس کے آگے چل نہیں سکتی۔

(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ238تا 240)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button