اختلافی مسائل

حضرت مرزا صاحبؑ بھلا کیسے مثیلِ مسیح ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی والدہ اور حضرت مسیحؑ کی والدہ کے نام مختلف ہیں؟

(ابن قدسی)

بانیٔ جماعتِ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو مثیلِ مسیح قرار دے دیا۔ جبکہ دونوں مختلف وجود ہیں اور دونوں کی مائیں الگ الگ نام رکھتی ہیں تو یہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے!

قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سےمشابہت دی جبکہ یہ دونوں وجود بھی الگ الگ ہیں اور دونوں کی مائیں بھی جدا جدا ہیں۔حدیث ملاحظہ فرمائیں:

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:

’’إِنَّ فِیکَ مِنْ عِیسٰی مَثَلًا، أَبْغَضَتْہُ یَہُودُ حَتَّی بَہَتُوا أُمَّہُ، وَأَحَبَّتْہُ النَّصَارٰی حَتّٰی أَنْزَلُوہُ بِالْمَنْزِلِ الَّذِی لَیْسَ بِہِ۔‘‘ اَلَا وَإِنَّہُ یَہْلِکُ فِیَّ اثْنَانِ مُحِبٌّ یُقَرِّظُنِی بِمَا لَیْسَ فِیَّ، وَمُبْغِضٌ یَحْمِلُہُ شَنَآنِی عَلٰی أَنْ یَبْہَتَنِی، أَلَا إِنِّی لَسْتُ بِنَبِیٍّ وَلَا یُوحٰی إِلَیَّ وَلٰکِنِّی أَعْمَلُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اسْتَطَعْتُ، فَمَا أَمَرْتُکُمْ مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ فَحَقٌّ عَلَیْکُمْ طَاعَتِی فِیمَا أَحْبَبْتُمْ وَکَرِہْتُمْ۔

(مسند احمد ،حدیث نمبر 12325، کتاب:کتاب الفضائل،باب:فصل ہفتم: شیعہ لوگوں کاسیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے محبت کرنا اور خارجی لوگوں کا ان سے بغض رکھنا)

حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا :تمہارے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ایک مشابہت پائی جاتی ہے کہ ان سے یہود نے بغض رکھا حتی کہ ان کی والدہ پر (بدکاری کی )تہمت لگائی۔اور نصاریٰ نے ان سے انتہائی محبت کی ،حتی کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام نہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے بارے میں بھی دو افراد ہلاک ہوںگے۔ایک میری محبت میں افراط کرنے والا کہ مجھ میں وہ اوصاف گنوائے جو مجھ میں نہیں اور ایک مجھ سے بغض رکھنے والا کہ وہ میری دشمنی میں یہاں تک بڑھ جائے کہ مجھ پر بہتان لگائے۔ خبردار! میں نہ نبی ہوں اور نہ میری طرف وحی آتی ہے،میں تو حسبِ استطاعت صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ پر عمل پیرا ہوں ، اس لیے اللہ کی اطاعت کے حوالے سے میں تمہیں جو حکم دوں خواہ وہ تمہیں اچھا لگے یا برااس میں تم پر میری اطاعت کرنا میرا حق بنتا ہے۔

محدثین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت میں حد سے بڑھنے والوں سے سبائی لوگ وغیرہ اور بغض رکھنے والوں سے مراد خارجی لیتے رہے ہیں۔کوئی بنو امیہ کو شمار کرتا ہے۔ کئی علماء موجودہ زمانے میں ان دو گروہوں سے مراد رافضی اور ناصبی لیتے ہیں۔رافضی سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلند مقام دینے کے لیے پہلے تینوں خلفاء کی خلافت کا انکار کر دیا اور ناصبی وہ جو اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں۔بہرحال گذشتہ پندرہ صدیوں میں رسول کریمﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے حوالے سے یہ دو گروہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔

مذکورہ بالا حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے مشہور غیر احمدی مسلمان عالم ڈاکٹر اسرار احمد نے ایک پوری کتاب بعنوان ’’مثیل عیسیٰ۔علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ‘‘لکھی جس میں یہ بیان کیا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کس طرح مثیل عیسیٰ ؑہیں۔ تفصیل میں سبائیوں اور خوارج کا ذکر کیا۔اس حدیث کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس حدیث کو امام احمد بن حنبل ؒاپنی مسند میں لائے ہیں۔اس کے علاوہ مستدرک حاکم اور کامل ابن عدی میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔اور صاحبِ مشکوٰۃ نے بھی اسے نقل کیا ہے۔خود اہل تشیع کی مستند کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول قریباً انہی الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔گویا اس حدیث کی صحت پر اہل سنت اور اہل تشیع وونوں متفق ہیں‘‘

(مثیل عیسیٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ از ڈاکٹر اسرار احمد صفحہ نمبر 12تنظیم اسلامی پاکستان مرکزی دفتر 67۔اے علامہ اقبال گڑھی شاہو لاہور )

رسول کریمﷺ نے تو دو باتوں یعنی محبت اور نفرت میں غلو کرنے والوں کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت دی تو علماء نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مثیل عیسیٰ مان لیا۔جبکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے آنحضرتﷺ کی بیان فرمودہ کئی ایک مشابہتوں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ الہامات کی روشنی میں مثیل مسیح ہونے ؑکا اعلان فرمایا تو اعتراض کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مثیل کیسے ہوسکتے ہیںکیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام حضرت مریم اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی والدہ کا نام حضرت چراغ بی بی ہے۔ حالانکہ احادیث میں خود رسول کریمﷺ نے پیشگوئی کے رنگ میں امت میں آنے والے کا نام عیسیٰ اور مسیح رکھا نیز حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ پر نازل ہونے والے الہامات میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کا نام مسیح اور عیسیٰ رکھا۔پھر بھی یہ علماء قبول نہ کرنے کا عذر تراش لیتے ہیں۔

ایک اور روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک لفظ کے استعمال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت اختیار کی۔پہلے اس روایت کو دیکھتے ہیں۔

’’حضرت عبدا للہ بن سبع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہم کو خطبہ دیا فرمایا :وہ ذات جس نے دانہ کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا ،ضرور بضرور یہ داڑھی اور سر خون سے رنگا جائے گا۔ایک آدمی نے کہا :اللہ کی قسم! ایسا کوئی نہیں کرے گا ،ہم اپنی اولاد کو سمجھائیں گے۔آپ نے فرمایا میں اللہ کو یاد کرتا ہوں یا میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ مجھے قتل ہی کیا جائے گا۔ایک آدمی نے عرض کی اے امیر المومنین! کیا آپ خلیفہ نہیں مقررکریں گے؟ آپ نے فرمایا: نہیں! لیکن میں تم کو ویسے ہی چھوڑوں گا جس طرح حضورﷺ نے چھوڑا ہے۔انہوں نے آپ سے عرض کی :آپ اللہ کے حضور کیا کہیں گے جب اس سے ملیں گے ؟آپ نے فرمایا : میں عرض کروں گا کہ اے اللہ!تو نے مجھے ان میں چھوڑے رکھا سامنے ہے جو تیرے لیے واضح ہوا(ثُمَّ تَوَفَّیتَنِی) پھر مجھے موت دی اور میں نے ان میں تجھے چھوڑا اگر تو چاہے تو ان کی اصلاح فرما اور اگر چاہے تو ان کو تباہ کر۔‘‘

(مسند ابو یعلیٰ الموصلی ،جلد نمبر اوّل ،مسندعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ صفحہ نمبر 373،372،ترجمہ غلام دستگیر چشتی سیالکوٹی مدرس جامعہ رسولیہ شیرازیہ بلال گنج لاہور پروگریسو بکس یوسف مارکیٹ اردو بازار لاہور )

حدیث کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مثیل عیسیٰ ہیں تو کیا غیر احمدی علماء حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی زندہ جسم سمیت آسمان پر تسلیم کرتے ہیں؟کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کو بیان کرنے کے لیے وہی لفظ یعنی (تَوَفَّیتَنِی)استعمال فرمایا ہے جو قرآن کریم میں سورۃ المائدہ آیت نمبر118میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے (تَوَفَّیتَنِی) اپنے لیے استعمال کیا ہے۔غیر احمدی علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے استعمال ہونے والے لفظ( تَوَفَّیتَنِی) سے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانا مراد لیتے ہیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اسی لفظ کا ترجمہ موت کرتے ہیں۔اس بات میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اورعراق میں آپ کا روضۂ مبارک موجود ہے۔اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تَوَفِّی ہو تو آپ کی تدفین زمین پر ہو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تَوَفِّی ہو تو وہ زندہ جسم سمیت آسمان پر پہنچ جائیں۔

اللہ تعالیٰ مخالفینِ احمدیت کو حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(مرسلہ:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button