سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مسجد اقصیٰ سے مرادمسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خداتعالیٰ کا کلام یہ ہے

مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ

مسجداقصیٰ کونسی مسجدہے؟

(حصہ سوم)

اس مسجداقصیٰ سے مراد جس کوخدانے اپنے الہام میں مسجداقصیٰ قراردیاہے وہ یہ مسجدہے جومسیح موعودکی مسجد ہے۔اور ظاہرہے کہ بڑی مسجدمسیح موعودؑکے والدمحترم کی بنائی ہوئی مسجدتھی۔ لیکن اسی اقتباس سے آگے پڑھیں تو مزیدواضح ہوجاتاہے کہ الہام میں موجودمسجداقصیٰ سے مرادوہ مسجدہے جس کوخدانے مسجدمبارک کےنام سے بھی یادکیاہے۔

چنانچہ حضورؑانہی سطورسےمعاًآگے تحریر فرماتے ہیں:

’’معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جومسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت ﷺ کا سیر کشفی ہے مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔

مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔

اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بَارَکْنَا حَوْلَہٗ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ

اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے۔ مگرکچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت ﷺ کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہواور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا روپ ہے۔ اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آنحضرت ﷺ مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصیٰ یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے۔ یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور موہبت ہیں اور جیسا کہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اور حضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی یہ مسجد اقصیٰ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے روحانی کمالات کی تصویر ہے۔‘‘

(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ، ج-ح حاشیہ،روحانی خزائن جلد16صفحہ21-22حاشیہ)

اس اقتباس میں وہ فقرات جو خاکسار نے بولڈاور انڈر لائن کیے ہیں وہ صاف دلالت کررہے ہیں کہ اس الہامی مسجداقصیٰ سے مرادمسجدمبارک ہی ہے۔ واللہ اعلم

مسجداقصیٰ کے نام پرایک اعتراض اور اس نام کی اورمساجد

یہاں ضمناًایک امرکاذکردلچسپی سے خالی نہ ہوگااوروہ یہ کہ ایک زمانہ میں یہ اعتراض بھی اٹھایاگیا کہ مسجدکانام اقصیٰ نہیں رکھاجاسکتاکیونکہ قرآن کریم میں جس مسجد کومسجداقصیٰ کانام دیاگیاہے وہ شعائراللہ میں سے ہے اور اب کسی اور مسجدکواس نام سے پکاراجاناشعائراللہ کی توہین ہے۔اوریہ شوشہ اس وقت چھوڑاگیاجب ربوہ میں ایک جامع مسجدکی تعمیرشروع ہوئی جس کانام مسجداقصیٰ رکھاگیاتھا۔ ظاہرہے کہ یہ ایک بچگانہ سا اعتراض تھا جوبہت ہی کم فہمی اور کم علمی پردلالت کرتاتھا۔البتہ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ اعتراض غیرازجماعت مخالفین کی بجائے غیرمبائعین کی طرف سے اٹھایاگیاحالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قادیان میں اسی نام کی ایک جامع مسجدموجودہے جہاں ان کے اکابرین کی زندگیوں کاایک حصہ گزرچکاتھا۔بہرحال نوائے وقت میں ان احباب کی طرف سے یہ شوشہ چھوڑاگیااور غیرازجماعت علماء نے بھی مخالفت برائے مخالفت کے متعصبانہ رویے کی بنا پران کی تائیدکی اور اپنی علمی پردہ دری کرواکے ہی دم لیا۔کیونکہ اس کاعالمانہ اور محققانہ جواب ماہنامہ الفرقان میں بڑی تفصیل سے دیاگیا۔ جس میں فاضل مضمون نگار نے ثابت کیاکہ شعائراللہ کے نام پرتبرکاً نام رکھاجاتاہے ۔اوراس سے توہین کاقطعاً کوئی شائبہ تک نہیں پایاجاتا۔ اور ساتھ ہی کوئی دودرجن کے قریب دنیابھرکی مساجدکے نام اور ایڈریس اور بعض کی تصاویردے کرثابت کیا کہ ان کے نام مسجداقصیٰ رکھے گئے ہیںجو پاکستان، ہندوستان سمیت دنیابھرکے دوسرے ملکوں میں موجودہیں۔یہ تفصیلی مضمون ماہنامہ الفرقان جلد 18 شمارہ7 1968ء صفحہ 41تا 45 میں پڑھا جاسکتا ہے۔

ویسے خاکسارکی رائے میں قرآن مجید میں سورت بنی اسرائیل کی وہ آیت کہ جس میں مسجداقصیٰ کانام لے کرذکرکیاگیاہے اس کو ہی بغورپڑھ لیاجائے تومضمون بہت کھل کرسامنے آجاتاہے۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيَاتِنَا إِنَّهٗ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

اب جب کہ یہ آیات نازل ہوئی تھیں توتب مسجداقصیٰ نام کی کوئی مسجدروئے زمین پرموجودہی نہ تھی ۔توصاف سی بات ہے کہ یہ کوئی معنوی اورباطنی لطیف مضمون تھا جیساکہ یہ معراج ایک روحانی اور لطیف کشفی واقعہ تھاوہی لطافت اسی مسجداقصیٰ کے نام میں بھی موجودتھی اوروہ وہی مفہوم ومضمون تھا کہ جس کوحضرت اقدس علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ کے ابتدائی صفحات میں بیان فرمایاہے ۔جس کاکچھ ذکرابھی چندصفحات پہلے بیان ہوچکاہے۔

مسجداقصیٰ سے متعلق چندایک امورکامزیدبیان بھی قارئین کی دلچسپی کاباعث ہوگا جیسے اس مسجدکے ائمہ وخطیب، منارۃ المسیح،خطبہ الہامیہ، ڈپٹی شنکرداس کا مکان، مسجدکی دیوارپرلکھے ہوئے اشعار،اور پہلی بار لاؤڈسپیکرکی تنصیب!

مسجداقصیٰ کے ائمہ وخطیب

اس مسجدکی ایک اوراہمیت اورفضیلت یہ بھی ہے کہ یہاں اس بزرگ ہستی نے اذان دی ، امامت کروائی اور سالوں تک نمازیں اداکیں اور سینکڑوں تقریریں اور وعظ ونصائح کی مجالس منعقدہوئیں کہ جس کوخدانے اپنے رسول اور پیغمبرکے مقام پرفائزکیا۔

جب تک مسجدمبارک کی تعمیرنہیں ہوئی تب تک مسجداقصیٰ میں ہی حضرت اقدسؑ نمازیں پڑھتے رہے ۔اور مسجدمبارک کی تعمیرکے بعد آپؑ بالعموم پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ہی ادافرماتے۔البتہ ابتدا میں جمعہ مسجداقصیٰ میں ہوتا۔عیدین کی نمازیں بھی یہاں کبھی ہوجاتیں اوران سب میں شمولیت فرمانے کے لیے حضرت اقدسؑ مسجداقصیٰ میں ہی تشریف لاتے۔ سیرت المہدی کی ایک روایت پیش خدمت ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :

’’بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوریؓ نے کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو کروا دیا۔چنانچہ اپنی وفات تک جو 1905ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحبؓ ہی امام رہے۔حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہو تے تھے ۔مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نور الدین صاحبؓ امام ہوتے تھے ۔جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کو عمومًا لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ امام ہوتے تھے۔بعد میں جب حضرت کی طبیعت عموماً نا ساز رہتی تھی مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لیے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ جمعہ پڑھا تے تھے۔مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبار ک میں مولوی محمد احسن صاحبؓ اور ان کی غیر حاضر ی میں مولوی محمد سرور شاہ صاحبؓ امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ حضرت صاحبؑ کی وفات تک یہی طریق رہا ۔عید کی نماز میں عموماً مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ امام ہوتے تھے ۔جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعودؑ جب آپ شریک نماز ہوں خود پڑھایا کرتے تھے ۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر155)

مسجد اقصیٰ میں جمعہ اور عیدین کے موقع پر آپ صف اول میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button