از مرکز

ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے پہلے شہید سید طالع احمد کو سپردِ خاک کر دیا گیا

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ایسے وفا شعار، خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے جماعت کو عطا فرماتا رہے۔‘‘ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ)

شہید نے 23 اور 24 اگست کی درمیانی شب فرائضِ منصبی کی انجام دہی کے دوران گھانا میں جامِ شہادت نوش کیا

(3؍ستمبر 2021ء، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) مورخہ 23؍ اور 24؍ اگست کی درمیانی شب گھانا میں اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیتے ہوئےجامِ شہادت نوش کرنے والے خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چشم و چراغ، ہونہار، ہردلعزیز، اورمثالی واقفِ زندگی سید طالع احمد شہید کو ایشنگ سمٹری گوڈالمنگ (Eashing Cemetry Godalming) میں واقع قطعۂ موصیان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج کچھ دیر قبل خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرِ خیر کرتے ہوئےبطور ایک واقفِ زندگی ان کی مثالی اور قابلِ تقلید خدمات پر اظہارِ خوشنودی فرمایا۔ یقیناً آج کا خطبہ جمعہ جملہ واقفینِ زندگی کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا:

ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ایسے وفا شعار، خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے جماعت کو عطا فرماتا رہے۔ لیکن اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ پیارا وجود وقف کی روح کو سمجھنے والا اور اس عہد کو حقیقی رنگ میں نبھانے والا تھا جو اس نے کیا تھا ۔ مجھے حیرت ہوتی تھی اسے دیکھ کر اور اب تک ہوتی ہے کہ کس طرح اس دنیاوی ماحول میں پلنے والے بچے نے اپنے وقف کو سمجھا اور پھر اسے نبھایا۔اور ایسا نبھایا کہ اس کے معیار کو انتہا تک پہنچا دیا ۔ وہ بزرگوں کے واقعات پڑھتا تھا اس لیے نہیں کہ تاریخ سے آگاہی حاصل کرے اور ان کی قربانیوں پر صرف حیرت کا اظہار کرے بلکہ اس لیے کہ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ خلافت سے وفا اور اخلاص کاایسا ادراک تھا کہ کم دیکھنے میں آتا ہے۔

سید طالع احمد شہید 9؍ فروری 1990ء کو سید ہاشم اکبر احمد صاحب ابن سیّد محمد احمد صاحب اور محترمہ امۃ الشکور طیبہ احمد صاحبہ کے ہاں لاہور (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ سید ہاشم اکبر احمد صاحب قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نواسے اور حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے ہیں جبکہ طیبہ احمد صاحبہ محترم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب اور محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ آف ہارٹلے پول کی بیٹی اور محترم بریگیڈیئر وقیع الزمان خان صاحب کی نواسی ہیں۔

سید طالع احمد کی پیدائش کے چند ماہ بعد آپ کے والد ملازمت کے سلسلے میں ابوظہبی تشریف لے گئے تو ان کے اہلِ خانہ بھی وہیں منتقل ہو گئے۔ آپ 1995ء یعنی ساڑھے پانچ سال کی عمر تک وہاں مقیم رہے اور نرسری، ریسپشن اور پہلی کلاس تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ ہارٹلے پول (برطانیہ) منتقل ہو گئے جہاں West Park Primary School میں چھٹی تک تعلیم حاصل کی۔ شہید مرحوم نے GCSE ہائی ٹنسٹل کالج آف سائنس (High Tunstall College of Science) سے کی جبکہ حسنِ اتفاق ہے کہ جس کالج سے آپ نے اپنا اے لیول کا کورس مکمل کیا اس کا نام English Martyrs School and Sixth Form College تھا۔ ان دونوں سکولوں میں آپ ہیڈبوائے کے طور پر بھی اپنی استعدادوں کے جوہر دکھاتے رہے۔ شہید مرحوم فٹبال اور کرکٹ کے بھی اچھے کھلاڑی تھے۔ آپ نے کوئین میری یونیورسٹی آف لندن سے بائیومیڈیکل سائنسز میں بی ایس سی کی جس کے بعد Sunderland University سے صحافت (Magazine Journalism) میں ایم اے کیا۔ حضور انور نے مرحوم کی تعلیم اور جماعتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

Medical Science میں ڈگری حاصل کی۔ پھر Journalism میں ماسٹرز کیا۔ 2013ء میں زندگی وقف کی۔ اور پھر مختلف دفتروں میں کام کرنے کے بعد آخر پریس اور میڈیا میں ان کی تقرری ہوئی۔ اس سے پہلے سیدطالع اپنی جماعت میں لوکل لیول پر بھی خدمات بجا لاتے رہےتھے۔ خدام الاحمدیہ Hartlepool میں تبلیغ، تعلیم، اشاعت اور اطفا ل کے شعبوں میں کام کیا۔ ان کی 2016ء میں MTA News میں تقرری ہوئی مکمل طور پر ۔ اور اس سے پہلے یہ Review of Religions میں Indexing اور Tagging کی ٹیم کے ہیڈ کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ انہوں نے MTA News کے لیے ڈاکیومینٹریز بنائیں۔ اور مزید تین یا چار ڈاکیومینٹریز پر کام کر رہے تھے۔ میری مصروفیات کا جو ہفتہ وار پروگرام This Week with Huzoor ہے اس کو بھی انہوں نے ہی شروع کیا تھا اور پھر آخر تک اس میں خاص دلچسپی سے اس کی editing وغیرہ اور سارا کام کرتے رہے۔ اور یہ پروگرام ایم ٹی اے دیکھنے والوں کے لیے بڑا مشہور تھا۔ ایڈیٹر طاہر میگزین کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ اشاعت میں بھی خدمت بجالاتے رہے۔ مختلف جماعتی رسائل مثلاً Review of Religions اور طاہر میگزین میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ اور پریس اینڈ میڈیا کے آفس کے تحت مختلف ممالک میں میرے ساتھ بھی اور ویسے بھی انہوں نے دورے بھی کیے۔

دسمبر 2011ء میں ان کی شادی صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب شہید کی صاحبزادی محترمہ صالحہ سطوت احمد صاحبہ سے ربوہ میں ہوئی۔

شہید مرحوم وقفِ نَو کی بابرکت تحریک میں شامل تھے۔ آپ نے دورانِ تعلیم اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کر دیا اور حسبِ ارشاد حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پڑھائی کی تکمیل کی اور وقف کے لیے حاضر ہو گئے۔

ستمبر 2013ء میں آپ کی تقرری شعبہ پریس اینڈ پبلیکیشنز (جو بعد میں مرکزی ’پریس اینڈ میڈیا آفس‘ کہلایا) اور شعبہ خبرنامہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل (MTA News) میں ہوئی۔ اور جیسا کہ حضورِ انور نے بیان فرمایا 2016ء میں باقاعدہ طور پر شعبہ نیوز میں تقرری سے قبل آپ ریویو آف ریلیجنز میں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بوقتِ شہادت آپ ایم ٹی اے نیوز میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

آپ کو ایم ٹی اے کے لیے بعض مقبول دستاویزی پروگرامز تیار کرنے کی توفیق ملی۔ پہلا دستاویزی پروگرام جسے آزمائشی کہا جا سکتا ہے فٹبال کے بارے میں تھا۔ اس میں بھی انہوں نے تربیتی پہلو کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد منظرِ عام پر آنے والی آپ کی کاوشوں میں درج ذیل پروگرام بھی شامل ہیں:

1۔ White Birds of Hartlepool

2۔ Four Days Without a Shepherd

3۔ Patience & Prayer – A story of our time

مذکورہ بالا تمام دستاویزی پروگرامز دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہید مرحوم کی تمام توجہات کا مرکز و محور خلافتِ احمدیہ ہی تھا۔

شہید مرحوم متعدد دستاویزی پروگرامز پر ساتھ ساتھ کام کر رہے تھے جن میں سے بعض پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں، بعض قریب الاختتام ہیں جبکہ بعض پر بہت حد تک کام ہو چکا ہے۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی روشنی میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم سے متعلق ایک دستاویزی پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں آپ گھانا میں موجود تھے کہ آپ کی شہادت ہو گئی۔ پروگرام کے مطابق آپ کو گھانا کے بعد سیرالیون اور پھر گیمبیا کا سفر بھی کرنا تھا۔

11؍ اگست سے 26؍ اگست تک آپ کا گھانا میں قیام تھا۔ چنانچہ 11؍ کی شام Brussels Air کے ذریعے آپ گھانا پہنچےاور خاطرخواہ آرام کیے بغیر مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ شہید مرحوم کے پاس اپنا پروگرام ایک فہرست کی صورت میں موجود تھا جس کے مطابق انتظامیہ نے ایک نقشہ انہیں مہیا کیاتاکہ متعلقہ جگہوں کی نشاندہی آسانی سے ہو جائے اور فاصلوں وغیرہ کا اندازہ رہے۔ اگلے روز یعنی 12؍ اگست سے آپ نے انٹرویوز کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ 15؍ اگست کو آپ بستانِ احمد تشریف لے گئے اور عبدالوہاب آدم سٹوڈیوز کا دورہ کیا۔ بعد ازاں گھانا کے سنٹرل ریجن میں واقع جامعۃ المبشرین کے گیسٹ ہاؤس میں دو دن کے لیے قیام کیا جہاں سے قریبی مقامات پر جاکر ریکارڈنگ وغیرہ کرتے رہے۔

مورخہ 20؍ اگست بروز جمعہ آپ ایم ٹی اے کی وین پر کماسی سے روانہ ہو کر تقریبا ًپونے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اگلے روز 21؍ اگست کی صبح ایک بجے کے قریب ٹمالے (Tamale)پہنچے۔ آپ کے ہمراہ محترم عمر فاروق صاحب (ایم ٹی اے وہاب آدم سٹوڈیوز گھانا) اور عبدالرحمٰن صاحب (ڈرائیور وہاب آدم سٹوڈیوز گھانا) تھے۔ کچھ دیر آرام کے بعد اسی روز انہوں نے بعض احباب کے انٹرویوز ریکارڈ کیے اور حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رہائش گاہ (جس میں حضوربطور انچارج احمدیہ ایگریکلچرل فارم ڈپالے قیام پذیر رہےتھے ) اور بعض دیگر مقامات کی ویڈیو گرافی وغیرہ کرتے رہے۔

اگلے روز 22؍ اگست بروز اتوار حضورِ انور کے ساتھ ڈپالے (Dapale) احمدیہ ایگریکلچرل فارم پر خدمات بجا لانے والے محترم محمد عبداللہ صاحب کے ہمراہ ڈپالے تشریف لے گئے جہاں یہ فارم واقع ہے اور ویڈیوگرافی کرتے رہے۔ یاد رہے کہ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی فارم میں قیام کے دوران گھانا کی سرزمین میں پہلی مرتبہ گندم اگانے کا کامیاب تجربہ فرمایا تھا۔ یہاں پر کچھ انٹرویوز وغیرہ کرنے کے بعد شام کو ٹمالے واپسی ہوئی۔

مورخہ 23؍ اگست کی صبح ایم ٹی اے کی ٹیم سلاگا (Salaga) کے لیے روانہ ہوئی۔ یہ وہ بابرکت مقام ہے جہاں ہمارے پیارے امام 1977ء سے 1979ء کے دوران بطور ہیڈ ماسٹر، احمدیہ سیکنڈری سکول سلاگا روحانی و مادی علم کی کرنیں بکھیرتے رہے۔ طالع شہید نے یہاں بھی بعض احباب کے انٹرویوز اور بعض مقامات کے نظارے ریکارڈ کیے۔ شام کو ٹمالے واپسی ہوئی جہاں مختصر قیام کے بعد چھ بجے کے قریب قافلہ واپس کماسی پہنچنے کے لیے روانہ ہوا۔ سید طالع احمد وین میں بیٹھ کر بھی اپنا کام کرتے رہے۔

ایم ٹی اے کی وین میں عمر فاروق صاحب اگلی سیٹ پر جبکہ سید طالع احمد صاحب پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ قریبا ًسوا گھنٹے بعد ٹمالے سے قریباً 80 کلومیٹر دورٹمالے ٹیچی مان روڈ پر Mpaha جنکشن کے قریب ایک سنسان جگہ پر راہزنوں کے ایک مسلح گروپ نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے گاڑی کے ناقابلِ استعمال ہو جانے کے ساتھ ساتھ دو ممبران ٹیم سید طالع احمد اور عمر فاروق زخمی ہو گئے۔ راہزنوں نے بہت سا قیمتی ساز و سامان لوٹ لیا جبکہ سید طالع احمد کا سامان اور قیمتی ریکارڈنگز وغیرہ معجزانہ طور پر محفوظ رہیں۔ کچھ دیر میں تینوں احباب نے طبی امداد کی تلاش میں کماسی کی جانب جانے والی ایک بس میں سوار ہو کر قریبی قصبے Buipe کی طرف سفر شروع کیا۔ بس میں پولیس کا ایک کارندہ موجود تھا جس نے وائرلیس کر کے پولیس پٹرول منگوائی جس کی مدد سے زخمیوں کو Buipe Polyclinic منتقل کر دیا گیا۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد محسوس ہوتا تھا کہ زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن کچھ دیر بعد سید طالع احمد کی حالت بگڑنے لگی جس پر انہیں ٹمالے ٹیچنگ ہسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن موصوف نے ٹمالے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی سکون کی وادیوں میں کھوتے ہوئے انتہائی پُرسکون انداز میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

شہید مرحوم کا جسدِ خاکی ضابطے کی کارروائی کے بعد منگل 31؍ اگست کو گھانا سے روانہ ہو کر اگلے روز بدھ کو اعزاز کے ساتھ برطانیہ لایا گیا۔ محترم الحاج حافظ محمد بن صالح امیر جماعت احمدیہ گھانا اور شہید مرحوم کے بہنوئی محترم صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب بھی ہمراہ تھے۔ امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے 3؍ ستمبر کو نمازِ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرِ خیر کیا اور نمازِ جنازہ حاضر پڑھائی۔ حضورِ انور نے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کے واقعہ شہادت کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد ان کی خلافت سے وفا کے تعلق کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:

اس نے خلافت سے وفا کی اور ایسی وفا کی کہ اپنے آخری الفاظ میں جبکہ وہ موت و حیات کی حالت میں تھا اسے خلیفۂ وقت سے پیار اور وفا کا ہی خیال تھا۔ اپنے بچوں اور اپنی فیملی کا سب کو خیال آتا ہے لیکن ہر دفعہ بار بار اپنے بچوں سے پہلے یا ساتھ خلیفۂ وقت سے پیار کے اظہار کا شاید ہی کسی کو خیال آتا ہو۔

حضور انور نے شہید مرحوم کی ایک انگریزی نظم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

اے پیارے طالع! میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارے ان آخری الفاظ سے پہلے بھی مجھے پتہ تھا کہ تمہیں خلافت سے پیار اور محبت کا تعلق تھا۔ ہر حرکت و سکون سے جب تمہارے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا تھا اور میں سامنے ہوتا تھا تب بھی اور جب تم کیمرے کے علاوہ ملتے تھے چاہے ذاتی ملاقات ہو یا دفتر کے کام سے تمہاری آنکھوں کی چمک سے اس محبت کا اظہار ہوتاتھا۔ تمہارے چہرے کی ایک عجیب قسم کی رونق سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کے علاوہ والدین، ایک بہن اور ایک بھائی سوگوار چھوڑے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم سید طالع احمد صاحب کے بارے میں بعض احباب کے تاثرات بیان فرمائے۔

مکرم عامر سفیر صاحب نے لکھا کہ مکرم طالع صاحب کا سب کچھ خلافت کے گرد گھومتا تھا۔

شہید مرحوم کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بہت پیار کرنے والا تھا، شفقت کا سلوک کرنے والا تھا، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو appreciateکرنے والا تھا۔رشتے کے بعد بہت خیال رکھا۔ بیٹے کو آنحضرت ﷺ کے بارے کہانیاں سناتا تھا اور اکثر آبدیدہ ہو جاتے۔ خلافت سے محبت اور غیرت تھی۔جب کبھی خیال ہوتا کہ خلیفہ وقت کسی بات پر ناراض ہیں تو تہجد میں رو روکر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے۔ دین کو دنیا سے پہلے رکھا۔ غیر مادیت پسند تھا۔ کسی بھی دنیا کی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔ اللہ کی دی ہوئی ہر چیز پر خوش ہوتا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مالی معاملات میں ان کی مثال بیان فرمائی کہ کس طرح ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے مالی لحاظ سے ان کی مدد فرمائی۔

حضورِ انور نے شہید مرحوم کے والد صاحب کی خواب کا تذکرہ فرمایا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔ جب طالع کو یہ خواب بتائی تو اُس نے بھی ایسی ہی خواب دیکھ رکھی تھی۔

ان کی والدہ کہتی ہیں کہ دین کے معاملات میں بہت ہوشیار تھا۔ 3سال کی عمر میں بعض سورتیں حفظ کر لیں۔ بیٹے کے انتقال کے بعد پہلے سےزیادہ احساس ہوا ہے کہ اس کو خلیفہ وقت کے ساتھ کس قدر محبت ہے۔

ان کی ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ دین کی مصروفیت کی وجہ سے اکثر رات لیٹ گھر آتے۔ چھٹی کے بعد بھی جماعتی کام کرتے۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے طالع شہید کی بعض خوابوں کا ذکر فرمایا جن میں ان کی شہادت کی طر ف اشارہ تھا۔

ان کی چھوٹی بہن کہتی ہیں کہ وہ میرے لیے Role Modelتھے۔

عابد وحید خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کا تعلق میرے لیے خاص تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے بے پناہ محبت تھی۔ شعبہ ایم ٹی اے نیوز کو پہلے ایم ٹی اے کا سب سے کمزور شعبہ سمجھا جا تا تھا لیکن مکرم طالع صاحب نے اس بات کا تہیہ کیا تھا کہ اس شعبہ کو بہترین شعبہ بنانا ہے جو ایم ٹی اے کے بہترین پروگرام بنائے۔

سید طالع احمد شہید

مکرم نسیم باجوہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بطور طفل نہایت ذہین اور جماعتی پروگراموں میں شوق سے شامل ہونے والے تھے۔

خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور انور نے شہید مرحوم کے بارے میں فرمایا:

آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی جسمانی اور روحانی آل ہونے کا حق ادا کیا۔ محرم کے مہینے میں اللہ نے اسے شہادت کے لیے چنا۔ایک ہیرا تھا۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے قدموں میں جگہ دی ہو گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کسی کی خواب بیان فرمائی جس میں ذکر تھا کہ جنت میں آنحضرتﷺ کھڑے ہیں اور مکرم طالع احمد آپؐ کے پاس دوڑ کر آتے ہیں اور آنحضرتﷺ فرماتے ہیں ’’آؤ میرے بیٹے، خوش آمدید۔‘‘

اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے پہلے شہید سید طالع احمد کے جسدِ خاکی کو نمازِ جنازہ کے بعد ایشنگ سمٹری گوڈالمنگ (Eashing Cemetry Godalming) میں لے جایا گیا جہاں واقع قطعۂ موصیان میں ان کی آخری آرام گاہ تیار تھی۔ سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگرانی میں شہید مرحوم کا جنازہ قبر تک لایا گیا، حضور نے قبر میں مٹی ڈالی، قبر کی تیاری کے بعد اپنے دستِ مبارک سے اس کا کتبہ نصب فرمایا اور چار بجکر 24 منٹ پر دعا کروائی۔

سید طالع احمد شہید

شہید مرحوم کی وفات کی خبر بی بی سی، دی گارڈین، دی ٹائمز، انڈیپنڈنٹ، ڈیلی میل سمیت متعدد ملکی و بین الاقوامی اخبارات نیز ٹی وی چینلز پر نشر کی گئی۔

ادارہ الفضل انٹرنیشنل اس سانحے پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور شہید مرحوم کے پسماندگان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہےاور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے اہلِ خانہ کا حافظ و ناصر ہو، ان کی نیکیاں اور قربانی کے فیوض و برکات قیامت تک ان کی نسلوں میں قائم رہیں، جماعتِ احمدیہ اور ان کے شعبہ جات کو ان کا نعم البدل نصیب ہو اور ان کے نامکمل کام بہترین انداز میں پایۂ تکمیل کوپہنچیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button