حضور انور کے ساتھ ملاقاتیورپ (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ ڈنمارک کی (آن لائن) ملاقات

جنگ صرف اس وقت ہے جب فتنہ اور فساد ہو اس کو ختم کرنا ہو اس لیے قرآن شریف میں سورۂ حجرات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہاگر دو ملک جنگ لڑیں تو ان میں امن قائم کرنے کی کوشش کرو۔ جب وہ جنگ سے باز آ جائیں تو پھر ان سے انصاف کرو۔

14؍اگست 2021ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ممبران مجلس خدام الاحمدیہ ڈنمارک سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ ممبران مجلس خدام الاحمدیہ نے اس آن لائن ملاقات میں مسجد نصرت جہاں کمپلیکس Copenhagen سے شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ممبران مجلس خدام الاحمدیہ کو حضورِ انور سے اپنے عقائد اور عصر حاضر کے مسائل کی بابت سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک خادم نے حضورِ انور سے سوال پوچھا کہ ایک ایسے معاشرے میں جو غیر اسلامی ہو، اپنے بچوں کی تربیت کا بہترین طریقہ کیا ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ایک تو یہ ہے کہ بچوں سے دوستی پیدا کریں کہ یہاں باہر جا کر جو بھی باتیں وہ سیکھتے ہیں، جو بھی کرتے ہیں، جو بھی باتیں سکول میں ہوتی ہیں۔ کھلی کھلی باتیں ہوتی ہیں سکولوں میں۔ ٹیچر بھی بتاتے ہیں تو اس کی وجہ سے پھر ان سے آپ کو دوستی لگانی پڑے گی تا کہ بچے ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کریں۔ جب وہ شیئر کریں گے تو آپ ان کو شرمانے کے بجائے جواب دیں۔ بعض ایسے جواب ہوں گے جو پاکستانی معاشرے میں آپ کو دیتے ہوئے شرم آتی ہو گی۔ ان کو اسلامی نقطہ نظر سے جواب دیں۔ بعض باتیں ایسی ہوں گی جو آپ بچوں کو کہیں گے کہ گو یہ باتیں تمہیں سکول میں بتا دی ہیں لیکن تمہاری عمر ابھی اس قابل نہیں ہے کہ ان باتوں کو دیکھو، سنو۔ جب تم بڑے ہو گے تمہیں مزید پتہ لگ جائے گا۔یہ نہیں کہنا تم نے غلط کیا۔ کہنا ٹھیک ہے ٹیچر کہتا ہے لیکن تمہیں ان باتوں کا خود ہی جواب مل جائے گا جب تم تھوڑے سے بڑے ہوگے، اتنی عمر میں پہنچو گے تو تمہیں جواب مل جائیں گے۔ تو بچوں میں ایک تو یہ عادت ڈالیں کہ وہ ہر بات آپ سے شیئر کریں، دوستانہ ماحول ہو۔ دوسرے جو ان کی اچھی باتیں ہیں ان کو اختیار کریں اور جو ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اخلاق پہ اثر ڈالنے والی ہیں یا دین کے خلاف ہیں اس سے ان کو بچائیں اور یہ بتائیں، یہ ذہنوں میں ڈال دیں کہ تم احمدی ہو۔ اور احمدیت کیا چیز ہے؟ حقیقی اسلام ہے۔ کیوں ہم احمدی ہیں اور ہمارے کیا مقاصد ہیں، ہم نے کیاکرنا ہے۔ دنیا داروں کے تو یہ مقصد ہیں کہ یہ چیزیں صرف دنیا کی خواہشات اور دنیاکی چمک اور دنیا کی lustکے لیے ہی پھرتے ہیں لیکن ہمارے مقصد بہت بڑے بڑے ہیں اس لیے تم وہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ابھی بچپن سے ہی سے کوشش کرو۔ باقی یہ ذیلی چیزیں ہیں، ضمنی چیزیں ہیں، معمولی چیزیں ہیں بعد میں تمہیں خود ہی پتہ لگ جائیں گی۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا دنیاوی حکومتوں کو بعض blasphemy laws رکھنے چاہئیں مثلاً قرآن کریم کو جلانے سے روکنے کے لیے وغیرہ۔

حضورِ انور نے اس کے جواب میں فرمایا: اس کا سوال نہیں ہے کہ blasphemy law رکھنا ہے کہ نہیں رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جو مقدس چیزیں ہیں، انبیاء ہیں یا کتاب ہے اس کی عزت قائم کرنی ہے۔ وہ تو کرتا رہے گا۔ لوگوں کے قانونوں سے کچھ نہیں فرق پڑتا لیکن ان لوگوں کو اصل چیز جو بتانے والی ہے وہ یہ نہیں ہے۔ ان کو یہ کہنا ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ ہمیں لوگوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور ہر طبقے کے جذبات کے خیال کے لیے تم قانون پاس کرتے ہو اور پھر کہتے ہو یہ آزادیٔ اظہار ہے کہ ہر ایک کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ جب آزادی ہے تو پھر اس بات کا بھی تم لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ جب کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو وہاں آزادی کی limit لگاؤ۔ آزادی تمہیں یہ نہیں کہتی کہ تم لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالنے شروع کر دو، جیب کترے بن جاؤ۔ آزادی یہ نہیں کہتی کہ لوگوں کے گھروں کو توڑ کے،break in کر کے اندر جاؤ اور چوری کر کے ڈاکے ڈال کے ان کا مال لوٹ لو۔ یہ آزادی تو نہیں نہ کہلاتی۔ قانون پکڑتا ہے نہ۔ اسی طرح blasphemy law کی سزا دو یا نہ دو لیکن اپنے ملک میں امن قائم کرنے کے لیے کم از کم ہر شہری کو پابند کریںکہ ہم نے ہر ایک کے دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا ہے۔ اور جب جذبات کا خیال رکھیں گے تو وہاں خود بخود ایک امن کی فضا قائم ہو جائے گی۔ اور جب امن کی فضا قائم ہو جائے گی، بھائی چارے کی فضا قائم ہو جائے گی تو پھر دوسرے کے جذبات سے کوئی کھیلے گا نہیں۔ اصل چیز یہ ہے جو بتانے والی ہے۔ باقی blasphemy law، اللہ تعالیٰ نے تو کوئی سزا نہیں دی لیکن اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ تم لوگ بھائی بھائی بن کے رہو۔ ابھی تم نے تلاوت بھی کی اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو۔ ٹھیک ہے۔ اس قانون پہ اگر عمل کر لیں گے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اس قانون پہ اگر عمل کر لیں گے کہ ہمارا کام صرف حق لینا نہیں بلکہ حق دینا بھی ہے دوسرے کو۔ اگر یہ ہر شہری کو پتہ لگ جائے تو پھر یہ اصل چیز ہے جو ہمیں مذہب سکھاتا ہے۔ بہت سارے حقوق میں نے پچھلے سال، 2019ء کے جلسہ میں بیان کیے، کچھ اب کیے۔ کیا حقوق ہیں۔اگران حقوق کا خیال رکھا جائے تو فتنہ اور فساد پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہاں ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ blasphemy law کو implement کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ ٹھیک ہے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں۔ اس بات کو realize کر لیں اور اس کی حقیقت کو پہنچ جائیں اور اس کی گہرائی کو پہنچ کے اس پر عمل کروانے لگ جائیں تو سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں، محبت پیار اور بھائی چارہ قائم ہو جاتا ہے اور جب یہ قائم ہو جائے گا تو کوئی دوسرے کے جذبات سے کھیلے گا ہی نہیں چاہے وہ مذہبی جذبات ہیں یا ذاتی جذبات ہیں۔

پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور کے خیال میں ایسا وقت آئے گا کہ دجالی طاقتیں احمدی حکومتوں سے جنگ کریں گی اور اگر ایسا ہو گا تو کیا احمدیوں کو بھی قتال کرنا پڑے گا۔

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا بات یہ ہے کہ جب بھی ایسا وقت آئے کہ مذہب کو مٹانے کے لیے کوئی بھی ملک کوئی بھی دنیاوی حکومت طاقت کا استعمال کرے اس وقت احمدیوں کو بھی جہاد کی اور قتال کی اجازت ہے۔

عیسیٰ مسیح کرے گا جنگوں کا التوا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جنگوں کا التوا۔ التوا کا مطلب ہے آگے لے جانا۔ اس کو کچھ دیر کے لیے روک دینا۔ اس وقت تک روک دینا جب تک وہ حالات پیدا نہ ہوں۔ ابھی وہ حالات نہیں کہ مذہب کو ختم کرنے کے لیے تلوار کا استعمال ہو رہا ہو۔ جب مذہب کو ختم کرنے کے لیے بندوق اور تلوار کا استعمال ہو گا اس وقت مسلمانوں کو بھی جہاد کی اجازت ہے اور احمدیوں کو اس وقت سب سے بڑھ کر ہو گی اگر مذہب کے لیے ہے۔ لیکن فی الحال تو جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں وہ جیو پولیٹیکل جنگیں ہیں۔ اور اس میں کیاہو رہا ہے کہ خود مسلمان غیر مسلموں سے مدد لے رہے ہیں۔ خود مسلمان غیر مسلموں سے ہتھیار خرید رہے ہیں۔ خود مسلمان دوسروں کے ساتھ مل کے مسلمانوں کو مار رہے ہیں۔ تو پھر جہاد کیسا ہوا۔ آجکل کا جہادکوئی جہاد تھوڑے ہی ہے۔ اور یہ تو جو قلمی جہاد کا وقت تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کے ساتھ یَضَعُ الْحَرْب حدیث میں،بخاری میں بھی آیا کہ جنگوں کا خاتمہ ہو گا۔ وہ اس لیے ہو گا کہ دجالی طاقتیں اور جو بھی مذہبی لیڈر ہے وہ لٹریچر سے اور قلم سے اور میڈیا سے اسلام کے خلاف باتیں کریں گے اور وہی ہمیں کرنا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تو نہیں کہا کہ بالکل ہی ختم ہے۔ ہاں یہ فرمایا ہے کہ

یہ بات سن کے جو بھی لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

اگر جو کافر تمہارے سے مذہب کے لیے نہیں لڑ رہے ان سے اگر تم لڑو گے اپنے دنیاوی گیم کے لیے تو پھر مار ہی کھاؤ گے اور مسلمان مار کھا رہے ہیں۔ بات تو سچ ہو گئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی۔ ہاں یہ فرمایا کہ

عیسیٰ مسیح کرے گا جنگوں کا التوا

جنگوں کا التوا کر دیا، ملتوی کر دی ہیں۔ یہ باتیں اس وقت تک ملتوی کر دیں جب تک کہ وہ حالات پیدا نہ ہوں۔ آپؑ کہتے ہیں اگر وہ حالات پیدا ہو جائیں، دعا کریں کہ نہ پیدا ہوں تو پھر ٹھیک ہے پھر احمدیوں کو جنگ اور قتال کی اجازت ہو گی اس لیے کہ وہ مذہب کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جنگ کی اجازت دی تھی، سورۂ حج میں جس میں پہلی دفعہ ذکر کیا تھا وہ یہی تھی کہ اجازت تمہیں اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ لوگ اب حد سے بڑھ گئے ہیں، یہ مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے ہاتھوں کو نہ روکا تو نہ کوئی synagogueقائم رہے گا، نہ کوئی چرچ قائم رہے گا، نہ کوئی ٹیمپل قائم رہے گا، نہ مسجد قائم رہے گی۔ ہر مذہب جو ہے اس کی عبادت گاہوں کے نام لے دیے قرآن کریم نے کہ یہ چیزیں قائم نہیں رہیں گی اس لیے تمہیں جنگ کی اجازت ہے۔ ٹھیک ہے! اس لیے جنگ کی اجازت اسلام میں ہے ہی صرف اس وقت جب مذہب کے خلاف جنگ لڑی جائے۔

جغرافیائی gainکرنے کے لیے جنگوں کی اجازت نہیں ہے اور نہ مسلمانوں نے لڑیں۔ تو فتنہ ختم کرنے کے لیے جنگیں لڑیں، فساد ختم کرنے کے لیے جنگیں لڑیں۔ کبھی جغرافیائی gain لینے کے لیے جنگیں نہیں لڑیں اسلام نے، کم از کم خلفائے راشدین نے۔ بادشاہوں نے بعد میں اس لیے جنگیںکیں جو خلفاء کے نام پہ اسلامی بادشاہ تھے لیکن وہ اسلامی تعلیم نہیں تھی۔ اسلامی تعلیم تو خلفائےراشدین تک ختم ہو گئی جس کا مطلب ہے اس کی عملی حیثیت ختم ہو گئی۔ باقی عمل جاری رہا، عبادتیں بھی جاری رہیں، جنگیں بھی جاری رہیں۔ بعض جنگیں جائز بھی لڑیں بادشاہوں نے بعض ناجائز بھی لڑیں۔ تو اس لیے جنگ صرف اس وقت ہے جب فتنہ اور فساد ہو اس کو ختم کرنا ہو اس لیے قرآن شریف میں سورۂ حجرات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اگر دو ملک جنگ لڑیں تو ان میں امن قائم کرنے کی کوشش کرو۔ جب وہ جنگ سے باز آ جائیں تو پھر ان سے انصاف کرو۔ اگر ایک ملک دوسرے پہ زیادتی کرتا ہے تو جو زیادتی کرنے والا ہے اس کے خلاف کرو۔ ٹھیک ہے! لیکن جب امن قائم ہو جائے پھر اپنے personal gainsکے لیے ان پر restrictionsکو اور sanctions کو impose نہ کرو جس طرح آجکل کی دنیامیں ہوتا ہے۔ پھر ان کو ان کے حال پہ چھوڑو۔ ان کو کہو ٹھیک ہے اب تم اپنی اپنی قوم کو چلاؤ، اپنے ملکوں کو چلاؤ۔ ترقی کرو۔ سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد کیا ہوا؟ فرسٹ ورلڈ وار کے بعد کیا ہوا؟ ملک ٹوٹ گئے۔ ملکوں کی ڈویژن کر دی اس لیے کہ کہیں یہ طاقت جمع کر کے دوبارہ نہ اکٹھے ہو جائیں۔ یہ تو انصاف نہیں تھا۔ مڈل ایسٹ میں ملکوں کے ٹکڑے اس لیے کر دیے ان دجالی طاقتوں نے کہ تاکہ نہ ان کی طاقت بنے،نہ یہ اکٹھے ہو کے لڑ سکیں اور اس وقت سے پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ وہ خود دجال کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ہم نے کیا لڑنا ہے دجالوں سے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور آپ آجکل عورتوں کے حقوق کے بارے میں بھی خطاب فرماتے ہیں۔ آپ نے بتایا ہے کہ وہ اپنے خاوندوں سے کن باتوں کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ اسی طرح آپ نے بتایا ہے کہ قوّام ہونے کے ناطے خاوند کے کیا فرائض ہیں۔ حضور میرا سوال یہ ہے کہ عورتوں کے کیا فرائض ہیں خاوند اور اس کی فیملی کے آگے۔ مرد کے اپنی بیوی پر کیا حقوق ہیں۔

حضور انور نے فرمایا بات یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ آجکل آپ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ میں آجکل عورتوں کے حقوق کی تو بات کر ہی نہیں رہا۔ آجکل تو میں خطبات دے رہا ہوں تاریخ اسلام پہ، بدری صحابہ پہ۔ ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہو کہ recent جلسہ سالانہ کی تقریر میں آپ نے عورتوں کے حقوق کی بات کی۔ ٹھیک ہے۔ تو اس بات کو چھوڑیں کہ میں پہلے کیا کچھ کہہ چکا ہوں کہ عورتوں کو کس طرح اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ اگر اسی تقریر میں آپ غور سے سنیں، میں حیران ہوں کہ لوگوں نے غور سے سنا ہی نہیں اور عورتوں نے بھی کیونکہ بعض پوائنٹس ذرا زیادہ ہائی لائٹ ہو کے ان کی favourمیں چلے گئے اس لیے انہی کو دیکھا۔ اسی تقریر میں مَیں نے بتایا ہوا ہے کہ عورتوں کے کیا حقوق ہیں۔ اور وہ جو ایک لمبی حدیث تھی جس کا خلاصہ میں نے بیان کیا تھا کہ عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ مرد جو ہیں وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، چندہ بھی دیتے ہیں، کمائی بھی کرتے ہیں اور پھر جہاد پہ بھی جاتے ہیں، حج پہ بھی جاتے ہیں اور عورتیں بعض دفعہ ایسے کام نہیں کر سکتیں۔ تو جب گھر میں بیٹھ کے جو فرائض ادا کر رہی ہیں تو کیا ہمیں اس کا اجر اتنا ملے گا جتنا ان لوگوں کا جہاد وغیرہ کے برابر مل رہا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تم لوگوں کوملے گا۔ ٹھیک ہے! تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں عورتوں کویہ نہیں کہا گیا کہ مردوں کے حقوق نہیں ہیں۔ مردوں کو جو ثواب مل رہا ہے وہ عورتوں کے ثواب کے برابر ہے۔ برابر کر دیا ناں ثواب میں؟ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں کئی جگہ یہی لکھا ہے کہ مرد کو بھی اس کے نیک کاموں کا اجر ملے گا عورت کو بھی نیک کام کا اجر ملے گا۔ مرد کو بھی یہ چیز ملے گی عورت کو بھی یہ چیز ملے گی۔ جنت میں مرد بھی ہوں گے عورتیں بھی ہوں گی۔ اس عورت نے جب یہ کہا تھا کہ ہم گھر کو سنبھالتی ہیں اس کا مطلب ہے وہ گھر کو سنبھالنے کا حق ادا کریں گی تو اجر ملے گا۔ حدیث میں اس بات کو اگر غور سے دیکھیں کہ عورت نے کہا تھا ہم گھر کو سنبھالتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داریاں ادا کرنے والی عورت ہے۔ وہ بچوںکی حفاظت کرنے والی ہے۔ بچوں کی تربیت کرنے والی ہے مرد کے بچوں کی۔ اور مرد کے گھر کی نگران ہے، اس کے گھر میں جو دولت اس کی پڑی ہے اس کی حفاظت کرنے والی ہے۔ اپنی عزت اور ناموس کی حفاظت کرنے والی ہے۔ وہ مرد سے وفا داری کرنے والی ہے اور اس کے حق ادا کرنے والی ہے تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! اگر تم لوگ یہ ساری باتیں کر رہی ہو تو تمہیں جو مردوں کے جہاد اور عبادتوں اور حج اور فلاں فلاں کے ثواب ہیں اتنا اجر تمہیں بھی مل جائے گا۔ تو اسی حدیث میں عورتوں کو یہ کہہ دیا کہ تم یہ یہ کام کرو گی تو ملے گا۔ یہ کب کہہ دیا کہ سب کچھ گھر بیٹھے مل جائے گا ۔ اس کی لسٹ بنوائی۔ اس عورت نے یہ کہا تھا کہ ہم یہ کرتی ہیں کیا ہمیں اس کا اجر ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اگر تم واقعی یہ کرتی ہو، اگر تم بچوں کی صحیح تربیت کر رہی ہو، تم خاوند کے گھر کی حفاظت کر رہی ہو، اس کے پیچھے اپنی عزت کا خیال رکھ رہی ہو اور اس کے پیسے کی حفاظت کر رہی ہو، اس کی دولت کی حفاظت کر رہی ہو اور ہر طرح سے اس کی خدمت کر رہی ہو تو تمہیں یقیناً اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مردوں کو جہاد کا ثواب ملتا ہے۔ ذمہ داری تو ڈال دی۔ آپ کہاں سے کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا میں نے صرف عورتوں کے حق کی بات کی۔ عورت پہ تو اتنی باتیں اسی حدیث میں بیان ہو گئی ہیں جو اس نے گھر کو سنبھالنے کے لیےکرنی ہیں ۔ اب آپ کے بچے کی تربیت اگر صحیح ہو جائے تو کیا عورت اس بات کی حق دار نہیں ہے کہ آپ اس سے نیک سلوک کریں۔ اگر عورت آپ کے گھر کی حفاظت کر رہی ہے تو کیا عورت اس بات کی حق دار نہیں ہے کہ آپ اس سے نیک سلوک کریں۔ اگر عورت اپنی عزت اور ناموس کی حفاظت کر رہی ہے، اپنے خاوند سے sincereہے، وفادار ہے اور اس کا پیار کا حق ادا کرنے والی بیوی ہے تو کیا وہ اس بات کی حق دار نہیں ہے کہ آپ اس سے نیک سلوک کریں۔ ہے ناں؟ بس پھر۔ پھرکہاں سے حق آگیا۔ حق تو دونوں کا بیان ہو گیا۔ اسے غور سے سنیں تو اسی حدیث میں دونوں کے حق ادا ہو جاتے ہیں۔

تو یہ سارے حق دونوں کو دیے ہوئے ہیں کہ تم یہ یہ کرو تو عورت کو اجر فلاں فلاں چیز کا ہے۔ ہاں مرد کو یہ کہا ہے کہ تم اس سے نیک سلوک کرو۔ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ تو جو نیک سلوک ہے وہ اسی لیے ہے کہ جب عورت تمہارے حق ادا کر رہی ہے تو اس سے نیک سلوک کرو۔

ایک اَور خادم نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں سے کس طرح بات کرتا ہے خاص طور پر اپنے چنیدہ خلفاء سے۔

حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوگوں سے کئی ذرائع سے بات کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ اگر آپ حقیقۃ الوحی کتاب کو پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ ایسا کس طرح کرتا ہے۔ بسا اوقات وہ خوابوں کے ذریعہ بعض معاملات میں راہنمائی کرتا ہے اور بعض اوقات کشف کے ذریعہ اور بعض دفعہ کوئی بات دل میں راسخ ہو جاتی ہے اور وہ معاملہ کسی کے دل میں قرار پکڑ جاتا ہے۔ بعض کو براہِ راست وحی کے ذریعہ بعض معاملات پر اطلاع دی جاتی ہے۔ اس طرح کئی طریق ہیں اور اللہ جس طریقہ سے چاہتا ہے کسی فردِ واحد سے بات کرتا ہے۔

حضور انور نے مزید فرمایا اللہ تعالیٰ کاموں کے نتیجے بھی نکالتا ہے کیونکہ وہی ہے جو راہنمائی بھی کرتا ہے۔ بسا اوقات کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا اور اس کی راہنمائی ہو رہی ہوتی ہے۔ جب وہ دعا کرتا ہے تو اس کے سامنے ایک راستہ وضع ہو جاتا ہے اور جب وہ اس پر چلتا ہے تو اسے کامیابی نظر آنے لگتی ہے اور پھر وہ سمجھتا ہے کہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا اور مرضی تھی۔ اس طرح بات چیت کرنے کے کئی طریق ہیں۔

ایک نو مبائع خادم نے حضورِ انور سے تبلیغ کے بہترین ذرائع کے حوالہ سے دریافت فرمایا۔

حضور انور نے فرمایا آپ کسی پر احمدیہ مسلم جماعت میں داخل ہونے کے لیے زبردستی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ سے مخاطب ہو کرفرمایا کہ اگرچہ آپ کو اسلام کی تبلیغ کر نی چاہیے پھر بھی آپ کسی کے ساتھ زبر دستی نہیں کر سکتے اور کسی کو اپنی پیروی کے لیے مجبور نہیں کر سکتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ یقیناً حق اور باطل ظاہر ہو چکاہے۔ اگرچہ حق اور باطل ظاہر ہو چکے ہیں پھر بھی آپ زبر دستی نہیں کر سکتے۔ آپ پیغام پہنچائیں۔ اگر دوسروں کو پسند آجائے اور وہ قبول کرلیں گے تو بہت بہتر ہے۔ اگر وہ قبول نہ کریں تو ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔

حضورِ انور نے حضرت ابو ہریرۃ ؓکی مثال بیان فرمائی جو آنحضورﷺ کے صحابی تھے۔ آپ کی والدہ غیر مسلم تھیں اور آنحضرتﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھیں۔ حضرت ابو ہریرۃؓ نے آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ ان کی والدہ کے حق میں دعا کریں اور آپﷺ کی دعا کے نتیجے میں ان کا دل پھرا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

ایک اَور خادم نے سوال کیا کہ حضور اللہ تعالیٰ رحمٰن اور رحیم کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ بچے بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا معصوم لوگوں کو بعض ذہنی امراض ظاہر ہو جاتے ہیں جیسے شیزوفرینیا (schizophrenia)وغیرہ۔

حضورِ انور نے فرمایا کوئی بھی بیماری کسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، خواہ وہ بچے کے پیداہونے کے بعد کسی جسمانی وجہ سے ہو، یا پیدائش سے پہلے (کسی وجہ سے)۔ بسا اوقات ایک بیماری کسی کے ماحول یا حالات کی وجہ سے پھیل سکتی ہے۔ اس لیے قانونِ قدرت حرکت میں ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی ایسے علاقے میں جائیں جو ملیریا سے بھرا ہو اہو اور پھر آپ کو مچھر کا ٹ بھی لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کو ملیریا ہو جائے گا، سوائے اس کے کہ آپ ملیریا سے بچاؤ کی دوائی استعمال کر رہےہوں۔ در حقیقت کبھی کبھی اگر کوئی دوا استعمال کر بھی رہا ہو اس کے باوجود اس کو ملیریا ہو سکتا ہے۔ اب بچوں کو کیوں ملیریا ہو رہا ہے جبکہ انہوں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا؟

اسی حوالہ سے مزید تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایا اسی طرح بعض دماغی بیماریاں جیساکہ شیزوفرینیا (schizophrenia)یا ڈپریشن ہے وہ خاص حالات میں پیدا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت یہ ہے کہ ایسی کیفیت میں کہ اگر ایسے بیمار کی کچھ خطائیں ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمادیتاہے …اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بہت سی نیکیوں کی جزا ایسی ہے کہ ان کا اجر اگلے جہان میں ملتا ہے۔ جب (اصل اور حقیقی ) اجر اگلے جہان میں ملنا ہے تو پھر کیا پتہ جو آج آپ کے نزدیک نہایت بری حالت میں ہے وہ اگلے جہان میں آپ سے اچھے مقام پر ہو اگرچہ آپ نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں۔ اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت، رحم اور بخشش ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ ہم میڈیا میں دیکھتے ہیں کہ میڈیا اٹیک کرتا ہے، ٹارگٹ کرتا ہے مسلمانوں کو تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیوں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کیوں کرتا ہے؟ یہ تو صرف میڈیا ہی بتا سکتاہے۔ یہ جو پاگلوں والی حرکتیں کرتا ہے یاکوئی ظلم کرتا ہے تو اس ظالم سے پوچھو تم کیوں کر رہے ہو۔ میں تمہیں کیا بتا سکتا ہوں۔ ہاں بات یہ ہے کہ اسلام کی جو حقیقی تصویر ہے وہ دنیا کو نہیں پتہ۔ دنیا نے یہ دیکھا کہ مسلمان Syriaمیں جنگ لڑ رہے ہیں۔ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے۔ دنیا نے یہ دیکھا یمن میں ظلم ہو رہا ہے۔ دنیا نے یہ دیکھا طالبان ظلم کر رہے ہیں۔ دنیا نے یہ دیکھا کہ القاعدہ ظلم کر رہے ہیں بلا وجہ۔ دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ وہ کہتے ہیں جی یورپ کے خلاف بلاوجہ بول رہے ہیں بعض باتوں پہ۔ بعض حقائق صحیح بھی نہیں ہیں۔ کوئی ’بوکو حرام‘ ہے کوئی ’الشباب‘ ہے، کوئی فلاں تنظیم ہے، کوئی فلاں تنظیم ہے۔ جہاں جہاں ہے مسلمانوں کے نام پہ غلط حرکتیں ہو رہی ہیں تو اس لیے دنیا ٹارگٹ کرتی ہے۔ ان کو اگر صحیح اسلام کی تصویر بتائی جائے، جب ہم بتاتے ہیں پیس کانفرنس (Peace Conference)کرتے ہیں یا میں کہیں بھی جاتا ہوں دنیا میں دنیا کو پریس کانفرنس میں بتا دیتا ہوں، لوگوں کو بتاتا ہوں تو وہ کہتے ہیں یہ اسلام جو تم بتا رہے ہو یہ ایسا اسلام ہے کہ ہر ایک اس کو قبول کرنے کو اور اس کے حق میں بولنے کو تیار ہے ۔ کل کے خطبہ میں بھی میں نے لوگوں کے واقعات سنائے اور ہمیشہ سناتا رہتا ہوں۔ اس لیے ہماری طرف سے کمزوری ہے کہ ہم دنیا کو بتا نہیں رہے۔ اب آخر اس زمانے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے افراد کا ہی کام ہے نہ کہ دنیا کو بتائیں کہ اصل اسلام کی تصویر کیا ہے اور حقیقت کیا ہے۔ تو یہ آپ لوگوں کاکام ہے۔ کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو اس پہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں ہائی لائٹ کر کے بتایا کریں کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ یہ جو ہو رہا ہے یہ غلط ہو رہا ہے۔ مختلف وقتوں میں چھوٹے چھوٹے خط اور مضمون لکھتے رہا کریں۔ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا کریں۔ تو جب دنیا کو enlightenmentہو جائے گی، پتہ لگ جائے گا کہ کیا حقیقت ہے اسلام کی تو پھر لوگ اسلام کے خلاف نہیں بولیں گے۔ تو اس زمانے میں یہ ہمارا کام ہے کہ دنیا کو بتائیں اور جہاں تک ہمارے سے ہو سکتا ہے ہم بتاتے ہیں۔ آپ لوگ اپنے اپنے ملک میں بتائیں۔ peaceکے لیے لٹریچر تقسیم کریں، پمفلٹ تقسیم کریں۔ آپ کا اتنا چھوٹا سا ملک ہے ڈنمارک اس وقت تک تو ملک کے ہر شخص تک اسلام کا امن کا پیغام پہنچ جانا چاہیے تھا۔

حضورِ انو ر نے ڈنمارک کو ایک مثالی مجلس بنانےکے حوالہ سے فرمایا یہ (ڈنمارک) تو ایک آئیڈیل مجلس بن سکتی ہے۔ ربوہ میں ہمارے محلے میں اس سے زیادہ خدام ہوتے ہیں۔ تو ڈنمارک کی مجلس خدام الاحمدیہ ایک نمونہ بن جائے۔

اور دوسرا یہ کہ آپ لوگ زیادہ لٹریچر تقسیم کریں۔ ٹارگٹ مقرر کریں، پانچ ملین کی آبادی ہے؟ ہاں تو پھر کم از کم ہر سال آپ کی طرف سے ڈھائی لاکھ کے قریب لٹریچر تو تقسیم ہونا چاہیے۔ اگر آپ لوگ اڑھائی لاکھ کریں، انصاراللہ اڑھائی لاکھ کرے، لجنہ کرے دو اڑھائی لاکھ تو تقریباً پونا ملین ہو گیا۔ چھ سال میں آپ سارے ڈنمارک کو بتا سکتے ہیں۔ ابھی تو آپ کے پانچ فیصد لوگوں کو بھی نہیں پتہ کہ احمدیت کیا چیز ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button