متفرق مضامین

سیرت وشہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ (قسط سوم۔آخری)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپؓ کے تمام ساتھی اُس راہ پر گامزن تھے جو کامیابی کی راہ اور ابدی جنتوں کی طرف لے جانے والا راستہ ہے

(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت حسین ؓکی شہادت کے بعد آپ کا سر مبارک ابن زیاد کے پاس کوفے میں لایاگیا تو اس بدبخت نے ایک چھڑی سے آپ کے ہونٹوں کو چھیڑتے ہوئے اُن کی بے حرمتی شروع کردی۔اُس وقت اس مجلس میں صحابی رسول حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ آپؓ نے اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھا توپھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اس پر اُس بدبخت نے کہا کہ

مَا یُبۡکِیۡکَ أَیُّھَاالشَیۡخُ؟

اے بوڑھے تم کیوں رورہے ہو؟ تو آپؓ نے فرمایا:

یُبْکِیْنِیْ مَاَرَأیْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، رَأَیْتُہُ یَمُصُّ مَوْضَعَ ھَذا الْقَضِیْبِ، وَیَلْثِمُہُ، وَیَقُوْلُ: اللّٰھُمَّ اِنِّی أُحِبُّہُ فَاَحِبَّہ۔

(سیر اعلام النبلاء جزء3۔صفحہ 1487،الحسین بن علی،الناشر: بیت الافکار الدولیۃ، طبع 2004ء فی لبنان)

جو کچھ میں نے رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں دیکھا تھا اُس بات نے مجھے رُلادیا۔میں نے دیکھا کہ آپؐ ان ہونٹوں پر پیار کررہے تھے اور یہ دعا کررہے تھے کہ :اے اللہ! میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے اپنا محبوب بنالے۔

پھر آپؓ نے وہاں سے باہر نکل کر فرمایا:

مَلَکَ عَبْدٌ عَبِیْدًا

فَاتَّخَذَھُمْ تَلِیْدًا

ایک انسان انسانوں کا خدا بن بیٹھا اور انہیں یرغمال بنالیا۔؎

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا

اسد الغابہ میں حضرت حسین ؓکی شہادت کے بعد کے واقعات میں لکھا ہے کہ حضرت حسین ؓکے ہمراہ 72آدمی شہید ہوئے تھے جب وہ شہید ہوئے تو عمرو بن سعد نے ان کا اور ان کے ساتھیوں کے سر ابن زیادکے پاس بھیج دیے۔ ابن زیاد نے لوگوں کو جمع کیا اور وہ سر منگوائے اور حضرت حسینؓ کے دونوں ہونٹوں کے درمیان میں ایک لکڑی سے کونچنے لگا جب حضرت زید بن ارقم ؓ نے دیکھا کہ وہ لکڑی کو اُٹھاتا ہی نہیں تو انہوں نے کہا کہ (او کمبخت) اس لکڑی کو اُٹھا۔ قسم ہے اُس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کے دونوں ہونٹ ان ہونٹوں پر دیکھے ہیں۔ آپ ان ہونٹوں پر بوسہ دیتے تھے یہ کہہ کر وہ روئے تو ابن زیاد نے کہا کہ خدا تمہاری آنکھوں کو روتا ہوادیکھے۔خدا کی قسم ! اگر تم بوڑھے اور سٹھیائے ہوئے نہ ہوتے تو میں تمہاری گردن ماردیتا۔ پس زید بن ارقم ؓ وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ اے گروہ عرب! آج کے بعد سے تم غلام ہو، تم نے حسین بن فاطمہ کو قتل کیا اور تم نے ابن مرجانہ (یعنی ابن زیاد) کو سردار بنایا ہے جوتمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور برے لوگوں کو غلام بناتا ہے۔

(اسدالغابہ (مترجم)جلد سوم صفحہ 570۔ناشر المیزان اردو بازارکراچی)

امام ذہبی ؒنے اپنی کتاب سِیَرُ اَعۡلَامِ النُّبَلَاء میں حضرت حسین ؓکے قریبی رشتہ داروں کی شہادت کی تفصیل درج کرتے ہوئے لکھا ہے :’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہونے والوں میں آپ ؓ کے چار بھائی جعفر، عتیق، محمد اور عباس اکبر شامل تھے۔ آپؓ کے بڑے بیٹے علی اور عبداللہ بھی شہید ہوئے جبکہ آپ کے بیٹے علی زین العابدین بیمارتھے۔ آپؓ کے ساتھ شہید ہونے والوں میں آپ کے بھائی حسن ؓ کے بیٹے عبداللہ اور عبدالرحمن جبکہ مسلم بن عقیل بن ابی طالب اور عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کے بیٹے محمد اور عون بھی شامل تھے۔‘‘

(سیر اعلام النبلاء جزء3 صفحہ 1496،الحسین بن علی،الناشر: بیت الافکار الدولیۃ، طبع 2004ء فی لبنان)

بسا اوقات وہ لوگ جنہیں دنیا میں عارضی اقتدار مل جاتا ہے وہ اپنی کج روی اور عارضی طاقت کے نشے میں فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سفاکانہ ذہنیت اور ابلیس پسندانہ سوچ کو فروغ دینا شروع کردیتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیںکہ اقتدار اعلیٰ کا اصل مالک ایک ایسی ہستی ہے جو احکم الحاکمین ہے۔جسے تمام قدرت وطاقت اورہر طرح کا اختیار حاصل ہے۔ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ

ا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِی الۡبِلَادِ ۔مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ ۟ ثُمَّ مَاۡوٰٮہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمِہَادُ ۔

(آل عمران:197تا198)

جو لوگ کافر ہیں اُن کا ملک میں آزادی سے پھرنا تجھے ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ عارضی نفع ہے جس کے بعد اُن کا ٹھکانا جہنم (میں ) ہوگا۔ اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔

پس اس فانی دنیا میںبظاہر کسی کاکامیاب دکھائی دینا اور اقتدار حاصل کرکے لوگوں پر حکومت کرنا کچھ معنے نہیں رکھتا بلکہ اصل کامیابی تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے اور اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی خاطر گزارنے کا نام ہے۔لہٰذاجو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے ہیں اُن کے لیے ابدی انعامات کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

لٰکِنِ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا نُزُلًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّلۡاَبۡرَارِ۔

(آل عمران:199)

لیکن وہ لوگ جنہوں نے اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کیا ان کے لیے جنّتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں (یہ ) اللہ کی طرف سے ان کی مہمانی کے طور پر (ہوگا) اور وہ جو اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لیے بہت ہی اچھا ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپؓ کے تمام ساتھی اُس راہ پر گامزن تھے جو کامیابی کی راہ اور ابدی جنتوں کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔آ پؓ نے اس راہ میں جوبے انتہا دکھ اوراَن گنت تکلیفیں اُٹھائیں وہ اپنے نفس کی خاطر نہ تھیں بلکہ وہ چاہتے تھے کہ حق وصداقت کا بول بالا ہواوردین متین اپنی اصل حالت میں نشوونما پائے۔اسی لیے آپؓ نے کانٹوں کی راہ اختیار کی اور مصائب کے راستے کو چنا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کربلا کے واقعات کے دوران حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بے مثال صبر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ’’انسان کا خلق اس کی فتح اور کامیابی کے متعلق ہوتا ہے کہ جو کچھ صبر وغیرہ اخلاق فاضلہ مصیبت اور بلا کے وقت دکھلاتا ہے وہی فتح اور اقبال کے وقت دکھلاوے … امام حسین علیہ السلام… اگر چاہتے تو جاسکتے تھے مگر جگہ سے نہ ہلے اور سینہ سپر ہوکر جان دی۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 437،ایڈیشن 2003ء)

حضور علیہ السلام کاایک اور ارشاد مبارک ہے:’’امام حسین ؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھا کتنا خوفناک ہے۔ لکھا ہے کہ اُس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہرطرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کردیا گیا۔اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اُٹھے کہ اِس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کےلئے تھا۔جاہل تو کہیں گے کہ وہ گنہگار اور بد اعمال تھے اس لیے ان پر تکلیف آئی مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ آرام سے کوئی درجہ نہیں ملا کرتا۔ جو لوگ ایک ہی پہلو پر زور دیتے چلے جاتے ہیں اور ابتلائوں اور آزمائشوں میں صبر کرنا نہیں چاہتے، اندیشہ ہے کہ وہ دین ہی چھوڑ دیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 336،ایڈیشن 2003ء )

پس شہیدانِ راہ وفا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام بہت نمایاں ہے۔آپؓ نے اپنے گھرانے کا ایک ایک فرد اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوادیا لیکن آپ کے صبروانضباط اور عزم و استقامت میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی اور بالآخر صبرووقار کے اس کوہ پیکر نے بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ راہِ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا روزِ اوّ ل سے جماعت مومنین کا شیوہ رہا ہے کیونکہ وہ اس بھید کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر نیک کام اور اعلیٰ مقصد کے لیے جان کی قربانی دی جائے تو یہ زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے؎

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

خدا تعالیٰ نے امام حسین کا انتقام لے لیا

تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد اللہ تعالیٰ نے امام حسین ؓ کے قاتلوں کو اپنی پکڑ میں لیا اور اُنہیں عبرت ناک سزائیں ملیں لیکن قدرت کے انتقام کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ظالم کی اولاد اپنے باپ دادا کے ظلموں اور اُن کی غلطیوں کا اعتراف کرے اور اُن کی جانشینی سے انکار کردے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب’’خلافتِ راشدہ ‘‘میں یزید کی وفات کے بعد پیش آنے والے ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ’’یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا،جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا۔ پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھ پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ مَیں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ مَیں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اس وقت سے لے کر اب تک مَیں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہوتو مَیں یہ اَمارت اس کے سپرد کردوں اور خود بری الذمہ ہوجاؤں مگر باوجود غور کرنے کے مجھے تم میں سے کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا۔ اس لیے اے لوگو!یہ اچھی طرح سُن لو کہ میں اس منصب کا اہل نہیں ہوں اور مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس منصب کے اہل نہیں تھے۔ میرا باپ حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا اور اُس کا باپ حسن حسینؓ کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا۔ علیؓ اپنے وقت میں خلافت کا زیادہ حقدار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے۔ اس لیے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں۔‘‘

(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15صفحہ557تا588)

ایک مرتبہ ایک شیعہ دوست حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔آپؓ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’آپ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں آپ دیکھیں کہ امام حسینؓ سے جو کچھ ہوا خدا تعالیٰ نے اس کا کیسے بدلہ لیا۔ یزید کے مرنے پر اس کے بیٹے کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ لوگوں کو جمع کیا اور کہا اے لوگو! تم نے مجھے بادشاہ تو بنایا ہے مگر میں اس کا حقدار نہیں۔ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ سے زیادہ حقدار ہیں۔ تم ان کو بادشاہ بنالو۔ اور اگر ان کو نہیں بناتے تویہ خلافت پڑی ہے۔ انہوں نے اس کو بہت مجبور کیا لیکن یزید کے بیٹے نے جو ایک نہایت نیک انسان تھا کہا کہ میں اس کا حقدار نہیں ہوں۔ جب گھر آیا تو گھر والوں نے کہا کہ تم نے تو خاندان کی ناک کاٹ دی ہے۔ اس نے کہا میں نے ناک کاٹی نہیں بلکہ ناک لگادی ہے۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے امام حسین کا بدلہ لے لیا۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 5؍جولائی 1960ء صفحہ 3)

خراج عقیدت کا بہترین طریق درود

شہدائے کربلا خصوصاً اہل بیت کو خراج عقیدت پیش کرنے اور اُن کی روحوں کو سکون پہنچانے کا اہم ترین ذریعہ درود شریف ہے۔اس لیے محرم کے مہینے میں خاص طورپرکثرت سے درود شریف پڑھنا چاہیے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 24؍اکتوبر 1982ء کواپنے عہد خلافت کے اوّلین محرم کے دوران مجلس عرفان میں یہ تحریک فرمائی کہ محرم کے ایّام میں آنحضرت ﷺ اور اہل بیت کے ساتھ ہر عاشق کوجوروحانی تعلق ہے اس کی بنا پر کثرت سے درودشریف پڑھنا چاہیے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی احباب جماعت کو متعدد بار درود شریف پڑھنے کی تحریکات فرمائی ہیں۔ ایک موقع پر آپ نے محرم کے مہینے میں خاص طور پر درود شریف پڑھنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمیں عموماً درود کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور اس مہینے میں خاص طورپر اس طرف توجہ رکھنی چاہئے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی اس کی خاص تحریک فرمائی تھی تو میں بھی اس کا اعادہ کرتے ہوئے یاددہانی کرواتا ہوں کہ اس مہینے میں درود بہت پڑھیں۔ یہ جذبات کا سب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہوسکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنے کے لیے ہوسکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بنتا ہے۔ ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 31؍دسمبر 2010ء صفحہ 7)

خلفائے راشدین اور صحابہ ؓکی آپ سے محبت

بعض بداندیش خلفائے راشدین اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اہل بیت کا حق تسلیم نہیں کیا اور ان کے ساتھ مسلسل بدسلوکی کرتے رہے۔ یہ سراسر بہتان اور تعصب پر مبنی الزامات ہیں جن کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور اہل بیت رسول آپس میں رشتہ اخوت ومودّت کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔جس کی گواہی عرش عظیم کے مالک نے بھی رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح:30) کے الفاظ میں دی ہے یعنی وہ سب آپس میں بے انتہا رحم کرنے والےوجود ہیں۔حق اور سچ بات یہی ہے کہ صحابہ کرام ؓ آپس میں بہت شیروشکر، ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیرخواہ تھے اور وہ بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ نبی کریم ﷺکے نواسے ہونے کی وجہ سے صحابہ کرام ؓ کی آنکھوں کا تارا تھے اور اسی وجہ وہ دونوں اُن کی خاص توجہ اور شفقت کامورد بناکرتے۔

نبی کریم ﷺ کے خلفاء بھی حضرات اہل بیت کاخاص خیال رکھتے تھے۔اُن کے مابین نہ صرف مثالی تعلقات تھے بلکہ وہ اُن کے تمام حقوق ادا کرتے اور دوسروں کو بھی اُن کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرمایاکرتے۔اہل بیت بھی خلفائے عظام کے مقام ومرتبہ کو تسلیم کرتے اور ہر طرح سے اُن کی اطاعت کیا کرتے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات چیت کرتے ہوئے آپ کے سامنے کلمہ شہادت پڑھا۔ پھر کہا: ابوبکرؓ! ہم آپ کی فضیلت اچھی طرح جان چکے ہیں اور انہوں نے اپنی اس رشتہ داری کا ذکر کیا جو اُن کو رسول اللہ ﷺ سے تھی اور نیز اپنے حقوق کا بھی ذکر کیا تو حضرت ابوبکرؓ بولے، کہنے لگے :اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار یقیناً مجھے میرے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ پیارے ہیں کہ میں ان سے کوئی خاص سلوک کروں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل أصحاب النبیﷺ بَاب:مَنَاقِبُ قَرَابَۃِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺ حدیث:3712)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ یہ نصیحت فرمائی کہ

ارۡقُبُوۡا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ فِی أَھۡلِ بَیۡتِہِ۔

محمد ﷺ کو مدنظر رکھ کر ان کے اہل بیت کا خیال رکھو۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل أصحاب النبیﷺ بَاب:مَنَاقِبُ قَرَابَۃِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺ حدیث:3713)

علامہ حافظ ابُو الفدا عِمادالدین ابن کثیر دمشقی نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپؓ حسنؓ اور حسین ؓدونوں کی عزت کرتے تھے اور ان کو اُٹھا لیتے تھے اور انہیں باپ کی طرح چاہتے تھے۔ ایک دفعہ یمن کے حُلّے آئے تو آپؓ نے وہ صحابہ ؓ کے بیٹوں میں تقسیم کردیے اور اُن دونوں کو اِن میں سے کچھ نہ دیا اور فرمایا : ان میں ان دونوں کے لائق کوئی حُلَّہ نہ تھا پھر آپ نے یمن کے نائب کو پیغام بھیجا تو اس نے ان دونوں کے مناسب حال حُلّے بنوائے۔

(البدایہ والنہایہ(مترجم) جلد ہشتم صفحہ 265۔61ھ کے واقعات۔ناشر نفیس اکیڈمی کراچی )

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رسول ﷺ کے مابین خوشگوار تعلقا ت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بھی دونوں خاندانوں میںیکے بعد دیگرے کئی شادیاں ہوئیں اور ان کے ذریعہ باہمی تعلقات مزید پختہ ہوتے رہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓکی پوتی حفصہ بنت عبدالرحمٰن ؓکی شادی حضرت امام حسن ؓسے ہوئی۔اسحاق بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی شادی ام حکیم بنت القاسم بن محمد بن ابی بکر سے ہوئی۔ اسی طرح حضرت حسین ؓ کے پوتے امام محمد الباقر بن علی زین العابدینؒ کی شادی ام فروہ بنت القاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیقؓ سے ہوئی۔ام فروہ بنت القاسم سے امام محمد الباقرؒ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جن کا نام جعفر تھا جو بعد میں علم وفضل کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے اور حضرت امام جعفر صادقؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔ان کی نانی کا اسماء بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر الصدیق ہے۔

(فضائل صحابہ و اہل بیت ؓصفحہ70۔از ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد۔ المکتبہ الرحمانیہ ماڈل ٹاؤن لاہور۔ایڈیشن اوّل: جولائی 2007ء)

پس یہ شادیاں اس بات کی پختہ دلیل ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓکے خاندان کے درمیان نہایت گہرا تعلق قائم تھا۔

اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مابین گہرے تعلقات تھے۔ انہی تعلقات کی بنا پر حضرت علی ؓنے اپنی لخت جگر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کی تھی۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کی شادی کسی کے ساتھ تبھی کرتا ہے جب وہ اُس سے راضی اور خوش ہو۔اس شادی کا ذکر کتب حدیث وسیر میں درج ہے۔

اہل بیت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں بھی متعدد شادیاں ہوئیں۔چنانچہ الحسین بن علی بن علی زین العابدین بن الحسین ؓکی شادی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ کی پوتی بنت خالد سے ہوئی۔ اسی طرح الحسن (المثنٰی )بن الحسن بن علی بن ابی طالب کی شادی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں رملہ بنت سعید بن زید بن نفیل العدوی کے ساتھ ہوئی۔

(فضائل صحابہ و اہل بیت ؓصفحہ73۔المکتبہ الرحمانیہ ماڈل ٹاؤن لاہور۔ایڈیشن اوّل:جولائی2007ء)

ان رشتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے مابین گہرے مراسم تھے۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان بنو امیہ اور اہل بیت کے درمیان بھی متعدد رشتے طے پائے۔ حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے علاوہ حضرت زینب بنت رسولؐ کی شادی حضرت ابوالعاص بن الربیعؓ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ بن ابی طالب کی شادی امامہ بنت ابی العاصؓ(زینب ؓبنت رسول اللہ کی بیٹی) سے ہوئی۔ خدیجہ بنت علی بن ابی طالب کی شادی معاویہ بن مروان بن الحکم الأموی سے طے پائی۔ زینب بنت الحسن (المثنٰی ) بن الحسن بن علی بن ابی طالب کی شادی الولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی۔اسی طرح نفیسہ بنت زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب کی شادی الولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی۔ نیز فاطمہ بنت الحسین ؓ بن علی بن ابی طالب کی شادی عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان سے طے پائی۔

(فضائل صحابہ و اہل بیت ؓصفحہ74۔المکتبہ الرحمانیہ ماڈل ٹاؤن لاہور۔ ایڈیشن اوّل: جولائی 2007ء)

خلفائے راشدین اور اہل بیت رسول ﷺ کے درمیان خوشگوارتعلقات کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت علی ؓنے اپنے تین بیٹوں کے نام حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓکے ناموں کی مناسبت سے ابوبکر،عمر اور عثمان رکھے۔ حضرت حسنؓ کے دو بیٹوں کے نام ابوبکر اور عمر تھے۔

خلفائے راشدین کے علاوہ دیگر صحابہ بھی اہل بیت رسول ﷺ سے دلی محبت رکھتے تھے اور اُن کے اعلیٰ حسب نسب کی دل سے قدرکرتے تھے۔

عیزار بن حریث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمروبن العاصؓ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے کہ آپ نے حضرت امام حسین ؓ کواُدھر آتے دیکھا تو فرمایا: آپؓ آسمان والوں کی نگاہ میں تمام اہل زمین سے زیادہ محبوب ہیں۔

(سیر اعلام النبلاء جزء3۔صفحہ 1487،الحسین بن علی،الناشر: بیت الافکار الدولیۃ، طبع 2004ء فی لبنان)

آنحضور ﷺکے صحابہ کو آپ کے نواسوں سے جو حددرجہ محبت تھی اس کا اندازہ درج ذیل واقعے سے بھی بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔

ابی مہزمبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ایک جنازہ میں شامل تھے۔ اتنے میں دیکھا کہ حضرت ابوہریرہؓ اپنے کپڑے سے حضرت امام حسینؓ کے پاؤں سے مٹی جھاڑ رہے تھے۔(ایضاًصفحہ1488)

واقعہ کربلا غیروں کی نظرمیں

واقعہ کربلا ایک ایسا سانحہ ہے جس نے تاریخ عالم پر گہرے اثرات مترتب کیے ہیں۔ اپنے تو اپنے بیگانوں نے بھی اس سفاکانہ اور بہیمانہ قتل وغارت گری پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ایک جرمن فلاسفر ماربین نے اپنی کتاب سیاست اسلامیہ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ’’ تاریخ عالم میں ایسے کسی شخص کا پتہ نہیں ملتا جس نے اپنے بیٹوں اورارادت مندوں کے ساتھ اس شان کے ساتھ جانوں کی اجتماعی قربانی پیش کی ہو۔‘‘

(الاعلام جلد 2صفحہ 243مولف خیرالدین الزرکلی ناشر دارالعلوم للملایین بیروت لبنان طبع ہفتم مئی 1986ء)

مسٹر جان لونگ نے لکھا کہ’’حسین دیندار، خدا پرست اور بے مثال بہادر تھے۔ وہ سلطنت اور حکومت کے لیے نہیں لڑے۔ بلکہ خدا پرستی کے جوش میں یزید سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ اسلام اور دین محمدی کے خلاف تھا۔‘‘

(سرگزشت امام حسین صفحہ 168از محمد بشیر اختر الہٰ آبادی )

پنڈت امر ناتھ جی سابق وائس چانسلر الٰہ آباد یونیورسٹی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’تاریخ انسانی کے غم ناک واقعات میں کوئی بھی واقعہ اتنا دل خراش نہ ہوگا جتنا کربلا کے میدان میں جنگ حسین کا خاتمہ ہے۔ وہ عین سجدہ میں قتل کئے گئے اور شہادت کا درجہ حاصل کرگئے۔ ہمارے نزدیک قدیم سورماؤں کے کارناموں کو نظر میں رکھنا بہت بہتر ہے کہ وہ لوگ کیا تھے اور کیا کرگئے۔ ان کی کامیابیاں روح کی پر استقلال فتح کا باعث ہیں جن کے لیے انہیں سخت ترین امتحانات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

(مون لائٹ لکھنو بحوالہ ’’سرگزشت امام حسین‘‘صفحہ 165-167ناشر مرکزی سیرت کمیٹی باغبانپورہ لاہور)

سیرت کے چند نمایاں پہلو

سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی کا لمحہ لمحہ عبادت الٰہی سے عبارت نظر آتا ہے۔حق تعالیٰ کے ساتھ آپ کو خاص تعلق اور قلبی لگائو تھا۔ آپ بکثرت نماز، روزہ، حج اور تمام نیک اعمال بجالانے والے تھے۔آپؓ نے اپنی زندگی کمال زہد کے ساتھ گزاری۔ کثرت سے اعتکاف کیا کرتے تاکہ نہایت سکون اور دلجمعی کے ساتھ عبادت الٰہی سے لطف اندوز ہوسکیں۔آپ کے بارے میں مختلف سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ عالم وفاضل، بہت روزہ رکھنے والے، بہت نمازیں پڑھنے والے، حج کرنے والے، صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کثرت سے بجالانے والے تھے۔ انہوں نے 25حج پیدل جاکر کیے۔

(اسدالغابہ جلد 2 صفحہ 20 ابن اثیر جزری )

حضرت امام حسین ؓعابد شب بیدار تھے۔ کثرت سے روزہ رکھنا آپ کا معمول تھا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : اے اللہ مجھے آخرت کا شوق عطا فرما حتیٰ کہ دنیا سے بے رغبت ہوکر اس کی صداقت اور سچائی مجھے اپنے دل میں محسوس ہونے لگے، اے اللہ مجھے آخرت کے معاملے میں بصیرت عطا فرما، حتیٰ کہ میں شوق کے ساتھ حسنات کا طالب بنوں اور سیئات سے ڈر کر بھاگوں۔

( کتاب الزہد تالیف حضرت امام ابوبکر عبداللہ قرشی بغدادی۔ دارالاشاعت اردوبازار کراچی 2001ء)

امام ابن عبدالبر ؒ نے بھی آپ ؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت حسین ؓ صاحب علم وفضل، دین دار، بکثرت روزے رکھنے والے،نوافل کے شائق اور حج کے دلدادہ تھے۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب صفحہ184،دارالاعلام، الأردن، الطّبۡعَۃ الأولٰی 2002ء )

امام الزمان سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت امام حسن ؓاور حضرت امام حسین ؓکے تعلق باللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’حضرت امام حسین اور حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت ﷺکے آل تھے۔‘‘

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15صفحہ 364تا365)

تواضع،انکساراورجودوسخا

ایک مرتبہ حضرت امام حسن ؓ، حضرت حسین ؓاور حضرت عبداللہ بن جعفر ؓحج کو نکلے ابھی راستے ہی میں تھے کہ زاد راہ ختم ہوگیا اور بھوک وپیاس کی شدت نے نڈھال کردیا، اچانک دُور ایک خیمہ دکھائی دیا وہاں پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں صرف ایک بڑھیا ہے، اس سے پوچھا کہ آپ کے ہاں پینے کی کوئی چیز ہے ؟ بڑھیا نے کہا: ہاں ہے، ان حضرات نے بڑھیا کے ہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ اس کے پاس صرف ایک کمزور سی بکری تھی کہنے لگی : اس بکری کا دودھ نکال کر پی لو۔ ان حضرات نے دودھ نکالا اور پی لیا۔پھر پوچھا کوئی کھانے کی چیز بھی ہے ؟ وہ بولی یہی بکری ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتی ہوں کہ جب تک میں لکڑیاں جمع کروں اس وقت تک تم میں سے ایک شخص اس بکری کو ذبح کرلے اور پھر اسے بھون کر کھالو چنانچہ ان حضرات نے ایسا ہی کیا اور وقت ٹھنڈا ہونے تک وہیں ٹھہرے رہے، چلتے وقت بڑھیا سے کہاہم قریشی لوگ ہیں حج کے لیے مکہ جارہے ہیں۔ بعافیت لوٹ آئیں تو ہمارے ہاں آنا ہم تمہیں اس بھلائی کا بہترین بدلہ دیں گے، یہ کہا اور چلے گئے، اُس کا شوہر آیا تو ا س نے سارا قصہ شوہر کو سنایا وہ سن کر ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ جن کو جانتی ہے نہ پہچانتی اُن کے لیے بکری ذبح کرڈالی اور کہتی ہے کہ قریشی لوگ تھے۔

کچھ عرصے بعد میاں بیوی کی نوبت فاقے کو پہنچی تو مجبور ہوکر مدینہ کا رُخ کیا اور یہاں اونٹ کی مینگنیاں چننے لگے، بڑھیا مینگنیاں چنتی ہوئی ایک گلی سے گزری، مینگنیاں جمع کرنے کا ٹوکرا ساتھ تھا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے مکان کے دروازے پر تشریف فرماتھے، دیکھتے ہی پہچان لیا اور آواز دے کر کہا : بڑی بی آپ مجھے جانتی ہیں ؟ وہ کہنے لگی، نہیں۔ حضرت حسن ؓنے فرمایا: میں فلاں مقام پر فلاں سن میں فلاں روز آپ کا مہمان بناتھا! وہ کہنے لگی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نہیں پہچان سکی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نہیں پہچان سکی تو کوئی بات نہیں میں نے تو تم کو پہچان لیا۔ اس کے بعد اپنے غلام کو حکم دیا کہ صدقے کی بکریوں میں سے ہزار بکریاں خرید کر ان کے حوالے کردو، اور ایک ہزار دینار نقد عطا فرمائے، اس کے بعد اپنے غلام کے ساتھ اسے اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا، حضرت حسین ؓنے بھی دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا،غلام سے دریافت کیا کہ بھائی حسنؓ نے کیا دیا ہے؟ اس نے بتادیا تو حضرت حسین ؓنے اُسی قدر(یعنی ہزار بکریاں اور ہزار دینار نقدی) عطا فرمائے، پھر غلام کے ساتھ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا، انہوں نے بھی دیکھتے ہی پہچان لیا، غلام نے بتایا کہ حضرت حسن ؓ اور حسینؓ نے اتنااتنا دیا ہے، حضرت عبداللہ ؓنے فرمایا کہ اگر آپ پہلے میرے پاس آتیں تب بھی میں ان دونوں کی پیروی کرتا، پھر دوہزار بکری اور دو ہزار دینار کا حکم صادر فرمایا، اس طرح وہ بڑھیا تمام اہل مدینہ سے زیادہ مالدار بن کر لوٹی۔

(البدایہ والنہایہ بحوالہ الامام الحسین ؓ(مترجم )صفحہ84تا86۔ ناشرمکتبہ نفائس القرآن، کریم پارک لاہور۔ سن اشاعت1428ھ)

حضرت امام حسینؓ کو ایک شخص کے متعلق خبر پہنچی کہ وہ آپؓ کے بارے میں ناپسندیدہ کلام کرتا ہے۔چنانچہ آپؓ نے کھجوروں کا بھرا ہوا طشت اٹھایا اور خود لے کر اُس آدمی کے گھر پہنچ گئے، جب اُس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا کہ وہ طشت اٹھائے آرہے ہیں تو اُس نے کہا رسول اللہ ﷺ کے بیٹے یہ کیا ہے ؟ آپؓ نے فرمایا:یہ تم لے لو۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے اپنی نیکیوں کا مجھے تحفہ بھیجا ہے تو میں اُس کے بدلے تمہیں دے رہا ہوں۔

(شانِ حسنؓ وحسینؓ صفحہ80۔ناشر:راسخ اکیڈمی لاہور۔جنوری2008ء)

آخری غلبہ ہی خدا تعالیٰ کانشان ہوتا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’آخری غلبہ ہی خدا تعالیٰ کا نشان ہوتا ہے اور یہ ہی ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو وہ عظمت اور شان حاصل ہے جو دوسروں کو نہیں اور یہ مقام کسی سے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آئے اور اسے حاصل کرے۔پس یہ خیال مت کرو کہ یہ مقام محمد مصطفیٰ ﷺ، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔نبوت اَور چیز ہے اور یہ مقام اَور چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید حاصل کرنے کے لیے نبوت شرط نہیں بلکہ یہ کامل مومن کو حاصل ہوسکتی ہے۔

دیکھو حضرت امام حسینؓ نبی نہ تھے۔اور بظاہر ان کو یزید کے مقابلہ میں شکست بھی اٹھانی پڑی۔یزید اُس وقت تمام عالم اسلامی کا بادشاہ تھا اور اس وقت چونکہ تمام متمدن دنیا پر اسلامی حکومت تھی اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام دنیا کا بادشاہ تھا۔ اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک دنیا پر اُس کے رشتہ داروں کی حکومت رہی اور اس وقت منبروں پر حضرت علیؓ اور آپ کے خاندان کو گالیاں دی جاتی تھیں،یزید کو اتنی بڑی حکومت حاصل تھی کہ آج کل کسی کو حاصل نہیں۔ آج انگریزوں کی سلطنت بہت بڑی سمجھی جاتی ہے مگر ذرا مقابلہ تو کریں بنوامیہ سے جن کے خاندان کا ایک فرد یزید بھی تھا۔ انگریزوں کی حکومت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ فرانس سے شروع ہوکر سپین، مراکو، الجزائر، طرابلس اور مصر سے ہوتی ہوئی عرب، ہندوستان، چین، افغانستان، ایران، روس کے ایشیائی حصوں پر ایک طرف اور دوسری طرف ایشیائے کوچک سے ہوتے ہوئے یورپ کے کئی جزائر تک یہ حکومت پھیلی ہوئی تھی۔ اس قدر وسیع سلطنت آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ موجودہ زمانہ کی دس پندرہ سلطنتوں کو ملا کر اس کے برابر علاقہ بنتا ہے اور اتنی بڑی سلطنت کا ایک بادشاہ ہوتا تھا جن میں سے قریباً ہر ایک حضرت علی ؓ اور آپ کے خاندان کو اپنا دشمن سمجھتا تھااس لیے ممبروں پر کھڑے ہوکر ان کو گالیاں دی جاتی تھیں۔اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ساری دنیا میں امام حسین ؓ کی عزت پھر قائم ہوگی اور اس وقت کوئی وہم بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یزید کو بھی لوگ گالیاں دیا کریں گے مگر آج نہ صرف تمام اس علاقہ میں جہاں امام حسین ؓ کو گالیاں دی جاتی تھیںبلکہ دوسرے علاقوں میں بھی کیونکہ بعد میں اسلامی حکومت اور بھی وسیع ہوگئی تھی گو وہ ایک بادشاہ کے ماتحت نہ رہی سب جگہ یزید کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حضرت امام حسین ؓ کی عزت کی جاتی ہے۔ گوآپ نبی نہ تھے، صرف ایک برگزیدہ انسان تھے اور حق کی خاطر کھڑے ہوئے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کو کامیابی دی۔ بظاہر دشمن یہ سمجھتا ہوگا کہ اس نے آپ کو شہید کردیا مگر آج اگر یزید دنیا میں واپس آئے (اگرچہ اللہ تعالیٰ کی سنت نہیں کہ مُردے دنیا میں واپس آئیں) تو کیا تم میں سے کوئی یہ خیال کرسکتا ہے کہ وہ یزید ہونے کو پسند کرے گا؟ جس دن حضرت امام حسین شہید ہوئے وہ کس قدر غرور اور فخر کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھتا ہوگا اور اپنی کامیابی پر کس قدر نازاں ہوگالیکن آج اگر اُسے اختیار دیا جائے کہ وہ امام حسینؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہے یا یزید کی جگہ تو وہ بغیر ایک لمحہ کے توقف کے کہہ اُٹھے گا کہ میں دس کروڑ دفعہ امام حسین ؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ اور اگر حضرت امام حسین ؓسے کہا جائے کہ وہ یزید کی جگہ ہونا پسند کریںگے یا اپنی جگہ ؟ تو وہ بغیر کسی لمحہ کے توقّف کے کہہ اُٹھیں گے کہ دس کروڑ دفعہ اُسی جگہ پر جہاں وہ پہلے کھڑے ہوئے تھے۔ کسی اَور سے فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں اگر یزید خود آئے تو اُس کا اپنا فیصلہ بھی یہی ہوگا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍اپریل 1938ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 19صفحہ 227تا229)

پس واقعہ کربلا اسلام میں پیش آنے والے بڑے بڑے دکھوں میں ایک ایسا دکھ ہے جسے بھول جانا ممکن نہیں۔زندہ قوموں کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی نیک یادوں اور اُن کی عظیم قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں اُن کی سیرت اور اُن کے کارناموں سے آگاہ رہیںجو ان پاک باز ہستیوں کے ذریعہ معرض وجود میں آئے۔حضرت امام حسین ؓ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ پیش آنے والاواقعہ اس قدر غم ناک اور دل خراش ہے کہ اُس کے تصور سے روح کانپ اُٹھتی ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔پس جب ایمان دلوں سے نکل جائے اور تقویٰ سے دُوری اختیار کرلی جائے توپھر ایسے ہی واقعات جنم لیتے ہیں۔

یہ دَور جس میں سے ہم اس وقت گزررہے ہیں یہ بھی تقویٰ سے دُور ی اور ایمان کی کمزوری کا دَور ہے،جس میں دین نہایت کمزوری اور کس مپرسی کی حالت میں ہے جبکہ یزیدی قوتیںہر طرف برسرپیکار ہیں۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو یہی فرمایا ہے کہ صبح کی دعا اور سحری کی گریہ و زاری کے ذریعے ان حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔پس یہ وقت خواب غفلت میں سونے کا نہیں بلکہ دین اور دین کی اغراض کے لیے جاگنے اور بیدار مغزی سے کام کرنے کا وقت ہے۔ حضور علیہ السلام کے چند دردناک فارسی اشعارپر اپنی گزارشات کو اس امید پر ختم کرتا ہوں کہ انہیں پڑھ کر ہمارے اندر بیداری پیدا ہو اور ہم دلی جوش اور والہانہ محبت کے ساتھ اپنے ربّ کے آستانہ پر جھکیں اور ہمیشہ جھکے رہیں تاکہ وہ ہماری فریادوں کو سنے اور ہماری عجزوبکا کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے محض اپنے فضل سے اسلام کی کمزوری کو فتح مندی میں بدل کر اپنی توحید کا پرچم ہر سو لہرا دے۔ آمین اللہم آمین۔

ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید

دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین

خون دیں بینم رواں چوں کشتگان کربلا

اے عجب ایں مردماں راہ مہر آں دلدار نیست

اندریں وقت مصیبت چارۂ ما بیکساں

جُز دعائے ہا مداد و گریۂ اسحار نیست

کفر، افواج یزید کی مانند ہر طرف جوش میں ہے اور دین حق زین العابدین کی طرح بیماروبے کس ہے۔

شہدائے کربلا کی طرح میں دین کا خون بہتا ہوا دیکھتا ہوں مگر تعجب ہے کہ ان لوگوں کو اس دلدار سے کچھ محبت نہیں۔

اس مصیبت کے وقت ہم غریبوں کا علاج صبح کی دعا اور سحری کی گریہ وزاری کے سوا کچھ نہیں۔

اللّٰھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد

وبارک وسلم انک حمید مجید

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button