یادِ رفتگاں

مکرم منظور احمد شاد صاحب مرحوم

’’آپ جتنا خوش قسمت کون ہے، آپ آزاد بھی ہیں اور سلسلہ کی جتنی چاہیں خدمت بھی کر سکتے ہیں‘‘(سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

ہمارے بہت ہی پیارے شفیق و مہربان والد بزرگوار مکرم و محترم منظور احمد شاد صاحب مورخہ17؍جنوری2021ءبروز اتوار چند دن لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اپنے پیارے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

آپ کی اس اچانک وفات پہ ہم سب کےدل جہاں بہت ہی زیادہ حزیں اور آنکھیں اشکبار ہیں،وہیں پر ہم سب اپنے پیارے خدا کی رضا پر راضی ہیں، کہ یہ ہی ہمارے پیارے مرشد و امام کی تعلیم ہے، جیسا کہ فرمایا:

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

آپ کی وفات پر بلا مبالغہ دُنیا بھر سے بیسیوں احباب و خواتین نے بذریعہ فون ہم سے اظہار افسوس کیا اور محترم والد صاحب کے لیے اپنی محبت اور خلوص کا اظہار فرمایا۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ و احسن الجزاء۔

ہمارے محترم والد صاحب یکم اپریل 1938ءکو فتح پور ضلع گجرات میں حضرت منشی عبدالکریم صاحبؓ اورمحترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ اپنے چار بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔

منظور احمد شاد

ابتدائی حالات اور خاندان میں احمدیت کا نفوذ

آپ کے والد محترم حضرت منشی عبدالکریم صاحبؓ اپنے ہمسایہ میں رہنے والے علاقے کے ایک بہت ہی بلند پایہ صاحب کشوف و الہام بزرگ حضرت سید محمود احمد شاہ صاحب ؓکے انتہائی قریبی اور خاص مرید تھے۔ آپ کا اکثر وقت حضرت شاہ صاحبؓ ہی کی پاک صحبت میں صرف ہوا کرتا۔جب حضرت سید محمود احمد شاہ صاحب ؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت کا علم ہوا تو آپ اپنے گاؤں فتح پور سے پیدل چل کر قادیان حاضر ہوئے(اس وقت 313صحابہ کی فہرست مکمل ہوچکی تھی) آپ نے بیعت کے لیےحضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا،اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ آپ کا نام تو فہرست میں لکھا جاچکا ہے۔

سلسلہ کی ایک کتاب 313 اصحاب صدق و صفا (مؤلفین مکرم مولانا نصراللہ خان ناصر صاحب اور مکر م عاصم جمالی صاحب )میں آپ کا ذکر ا ن الفاظ میں مذکور ہے:

’’…حضرت سید محمود شاہ رضی اللہ عنہ محمدی پور گجرات شہر کے رہنے والے تھے۔فتح پور میں ان کی بیٹی فاطمہ بی بی زوجہ حضرت محمد شاہ ؓ تھیں۔ آپ کی بیعت 1897ءسے قبل کی ہے۔ حضرت اقدسؑ کے ساتھ تعلق کی عکاسی ایک خط سے بھی ہوتی ہے۔حضرت مولانا جلال الدین شمس ؓنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان معاصر علماء کرام کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے آپؑ کی بیعت میں شمولیت کا شرف حاصل کیا۔ فتح پور کے ایک اَور صحابی حضرت منشی عبدالکریم ؓ کی بیعت اور تربیت آپ کے ذریعہ ہوئی۔‘‘ (صفحہ 236)

حضرت سید محمود احمد شاہ صاحب ؓجب بیعت سے مشرف ہوکر واپس اپنے گاؤں آئے تو آپ نے سرعام اعلان کے ذریعہ سارے گاؤں کو اپنی بیعت سے متعلق آگاہ فرمایا۔ چنانچہ ہمارے حضرت دادا جان ؓنے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ شاہ جی جس کو آپ نے امام مہدی مانا ہے وہ شخص ہر گز جھوٹا نہیں ہوسکتا، چنانچہ وقت آنے پر جب سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 1903ء میں کرم دین بھیں کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تو آپؓ اپنے گاؤں سے پیدل چل کر جہلم پہنچے اورحضور علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے۔

حضرت منشی عبدالکریم صاحبؓ ایک تقویٰ شعار، پاک باز، دُعا گو بزرگ تھے۔ آپ کی زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رہا کرتی، آپ کو ایک لمبےعرصہ تک بحیثیت محصل شعبہ مال دور دراز کے گاؤں وغیرہ تک خدمات سر انجام دینے کی توفیق عطا ہوئی۔حضرت سید محمود احمد شاہ صاحب ؓنے اپنی وفات کے قریب اپنے گھر میں جاری درس قرآن کا سلسلہ آپ کے سپرد کردیا تھا، الحمدللہ یہ تدریس کا عظیم الشان سلسلہ حضرت دادا جان کی وفات کےبعد بھی اب تک اگلی نسلوں میں جاری و ساری ہے۔ الحمدللہ

ہمارے داداجان حضرت منشی عبدالکریم صاحبؓ کی پہلی اہلیہ سے صرف ایک بیٹی تھیں،جب ایک لمبا عرصہ تک مزید کوئی اولاد نہ ہوئی توآپ کی پہلی اہلیہ محترمہ نے خود سے ایک مناسب رشتہ تلاش کرکے حضرت دادا جانؓ کو دوسری شادی کے لیے تیار کرلیا، چنانچہ ہمارے والد صاحب محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ بڑی والدہ نے آپ چاروں بہن بھائیوں کو اس قدر پیار دیا کہ میں بڑی والدہ ہی کو اپنی اصل والدہ خیال کرتا رہا۔ابھی محترم والد صاحب کی عمر صرف چار سال ہی تھی کہ پہلے بڑی والدہ اور پھر آپ کی چھوٹی والدہ بھی دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ اس کے بعد آپ کی پرورش اور دیکھ بھال کی تمام تر ذمہ داری آپ کی بڑی بھابھی جان محترمہ عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ محترم بشارت احمد صاحب کے سپرد ہوگئی، والد صاحب بتایا کرتے کہ بھابھی جان نے میری اس قدر پیار و محبت اور چاہت کے ساتھ پرورش کی اور مجھے سنبھالا کہ مجھے کبھی یہ احساس ہی نہ ہونے دیا کہ میری والدہ وفات پا چکی ہیں، آپ یہ ہی کہا کرتے تھے کہ میری تین مائیں تھیں، ہم نے خود دیکھا ہے کہ ہماری تائی جان ہمارے ابا جان کو دیکھ کر کھل اُٹھا کرتیں، اور بہت ہی پیار کا اظہار کیا کرتیں، اسی طرح آپ کے بڑے بھائی محترم بشارت احمد صاحب بھی آپ سے بہت ہی شفقت کا سلوک فرمایا کرتے۔ربوہ میں سلسلہ تعلیم کے دوران آپ کے بڑے بھائی محترم بشارت احمد صاحب اپنے نا مساعد حالات کے باوجود والد صاحب کے تمام تر اخراجات اُٹھاتے رہے، اسی طرح آپ کی بھابھی جان بھی اجناس کی صورت میں کھانے کی اشیا ءگاؤں سے بھجوادیا کرتیں، فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

ہمارے والد محترم منظور احمد شاد صاحب نے مڈل تک تعلیم فتح پور سکول میں حاصل کی۔اسی دوران جماعت احمدیہ کے خلاف ملک گیر سطح پر 1953ءکے فسادات شروع ہوگئے، ان فسادات کے اثرات ہمارے گاؤں تک بھی پہنچ گئے۔آپ کے اسکول میں ایک ہزار طلبہ زیر تعلیم تھے، جبکہ اسکول میں آپ کے علاوہ صرف ایک اَور احمدی طالب علم تھے۔چنانچہ آپ دونوں کو اسکول میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جنت دوزخ اور حوروں کی کہانیاں وغیرہ اور دیگر فرسودہ الزامات لگائےجانے لگے۔کم عمری کے باعث آپ کا ذہن ان الزامات سے متاثر ہونے لگا تو آپ نے فیصلہ کیا کہ مجھے بذات خود تحقیقات کر کے احمدیت پر قائم رہنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔چنانچہ آپ بڑی جرأت کر کے اپنے والد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں صرف اس لیے احمدی نہیں رہنا چاہتا کہ آپ احمدی ہیں، میں خود تحقیق کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ کے والد محترم آپ کے اس فیصلے سے بہت خوش ہوئے اور آپ کو بخوشی ربوہ جاکر تحقیق اورسلسلہ تعلیم جاری رکھنے کی اجازت عطا فرمائی۔ چنانچہ آپ والد صاحب کی اجازت سے دوسرے ہی دن عازم ربوہ ہوئے۔ اورابتدائی دو تین دن ہی میں حضرت مصلح موعود ؓکی اقتدا میں ادائیگی نماز اور درس وغیرہ میں شرکت کے بعد تمام شکوک و شبہات رفع ہوگئے۔اسی دوران آپ نے تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ میں داخلہ لے لیااور اپنی زندگی خدمت اسلام احمدیت کے لیے وقف کردی۔ انہی دنوں میں قصر خلافت کی حفاظت کے لیے اسکول سے چند ایک طلبہ کو منتخب کیا گیا اور خوش قسمتی سے آپ بھی ان میں شامل تھے۔الحمدللہ، اس کے علاوہ آپ کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیر قیادت بطور نائب زعیم حلقہ دارالصدر خدمات کی توفیق بھی ملنے لگی۔

اس دوران آپ کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے جسم اطہر کو دبانے کی عظیم سعادت نصیب ہوئی جس پر آپ تا عمر بہت نازاں رہے، یہ سعادت پھر آپ کو اکثر ملتی رہی۔ آپ فرمایا کرتے کہ حضور پُر نور میری اس خدمت کو پسند فرمایا کرتے تھے۔

قیام ربوہ کے دوران سعادتوں کا حصول

حفاظت قصر خلافت کی اسی ڈیوٹی کے دوران آپ کو اپنے پیارے امام کی معیت میں حضور ؓ کی گاڑی میں ایک دفعہ احمد نگر کے پاس ایک نہر کے کنارے اور ایک دفعہ چنیوٹ اور فیصل آباد کے درمیان ایک اور نہر کے کنارے پکنک پر جانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک سعادت آپ کو یہ ملا کرتی کہ روزانہ حضور ؓ کی صحت کا احوال اکثر حضورؓ سے براہ راست پوچھ کر ریلوے پھاٹک کے قریب قائم تار گھر میں بتانے جایا کرتے۔ اسی طرح قیام ربوہ کے لیے ہونے والے اس تاریخی وقار عمل میں بھی آپ کو شرکت کی توفیق عطا ہوئی جس میں حضورؓ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی تھی، اور سب سے پہلے حضورؓ نے ہی تغاری اٹھائی تھی۔ اس کے علاوہ آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے اکابر صحابہ کی پاک صحبتوں سے بھی بھر پور فیض یاب ہونے کاشرف ملا کرتا۔ جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ،حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓاور خاص طور پر حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی ؓکی شفقتوں سے بھر پور فیض یاب ہوئے۔ آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود ؑکے کئی افراد کے ہم جماعت ہونے کا بھی شرف حاصل رہا۔ آپ پڑھائی میں بہت اچھے تھے، چنانچہ آپ نویں اور دسویں جماعت میں کلاس مانیٹر بھی رہے۔دسویں جماعت کے امتحانات کے قریب آپ شدید بیمار ہوگئے۔کمزوری اور نقاہت کے باعث آپ ٹھیک طرح سے امتحانات کی تیاری بھی نہ کرسکے۔چنانچہ آپ نے سوچا کہ اس سال امتحان نہیں دیتا،اس کا ذکر آپ نے حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی ؓسے جب کیا تو حضرت بھائی صاحب ؓنے فرمایا کہ تم نے لازمی امتحانات میں حصہ لینا ہے،جب پرچہ تمہارے سامنے آئے تو اس طرح دُعا کرنا، سب سے پہلے سورت فاتحہ پڑھنا اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا کے بعد حضور ﷺ پردرود و سلام بھیجنااور دعا میں یہ بھی عرض کرنا کہ یا باری تعالیٰ یہ پرچہ عبدالرحیم کی خاطر آسان کردے، آپ فرمایا کرتے کہ وہ پرچے جو کہ بظاہر بہت مشکل نظر آرہے ہوتے اس طرح دُعا کرنے سے بہت ہی آسان لگنے لگتے، چنانچہ جب نتیجہ آیا تو آپ صرف چند ایک نمبر سے فرسٹ ڈویژن سے رہ گے۔ آپ کے استفسار پر حضرت بھائی صاحبؓ نے بتایا کہ آپ نے آٹھ بار ذات باری تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔

یہاں پر حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی رضی اللہ تعالیٰ کے تعلق باللہ کے حوالہ سے محترم والدصاحب کا ایک چشم دید واقعہ بھی بیان کرنا ازدیاد ایمان کا باعث ہوگا۔ والد صاحب حضرت بھائی صاحبؓ کے ہمسایہ میں رہتے تھے، اس لیے آپ کا اکثر وقت آپ ہی کی صحبت میں گذرتا۔آپ حضرت بھائی صاحبؓ کا جسم مبارک دبایا کرتے، اور ایمان افروز واقعات سے فیض یاب ہوا کرتے۔ ایک دن آپ کی بیٹی نے کھانا لاکر پیش کیا، ابھی حضرت بھائی صاحبؓ کھانا شروع کرنے ہی والے تھے کہ دیوار پر بیٹھی ہوئی ایک مرغی نے اچانک جھپٹ کر آپ کی پلیٹ میں منہ مار دیا اور آپ کی زبان سے بے اختیارنکلا جا تیری لت ٹٹ جائے۔یعنی جاؤ تمہاری ٹانگ ٹوٹ جائے۔آپ کی زبان سے جیسے ہی یہ الفاظ جاری ہوئے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک کتے نے مرغی کی ٹانگ منہ میں لے کر اور دبا کر چھوڑ دی اور بعینہٖ آپ کے ادا کیے ہوئے الفاظ کے مطابق ٹانگ ٹوٹ گئی۔اور حضرت بھائی صاحبؓ نے زار و قطار رونا شروع کردیا، اور خدا تعالیٰ کے حضور بار بار یہ ہی عرض کرتے رہے، اے اللہ جے توں عبد الرحیم دیاں اینیاں ای مننیاں ہوندیاں نے تے فیر منہ وچوں غلط گلاں کیوں کڈانا ویں۔یعنی اے اللہ اگر تم نے عبدالرحیم کی باتیں اتنی زیادہ ہی ماننی ہوتی ہیں تو پھر منہ سے غلط باتیں کیوں نکلواتے ہو۔

گویا پہلے گاؤں اور پھر ربوہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہائی پاک صاف ماحول میسر آیا، اسی دوران آپ کو 16سال کی عمر میں نظامِ وصیت میں شمولیت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔میٹرک کے بعد آپ جامعہ احمدیہ میں داخل ہو گئے، لیکن امتحانات کے قریب لاحق ہونے والی بیماری کے اثرات ابھی باقی تھے اس لیے ایک ماہ بعد ہی جامعہ سے طبی بنیاد پر فارغ کر دیے گئے۔جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اپنے بڑے بھائی مکرم بشارت احمد صاحب کے پاس گھارو سندھ جانے کا پروگرام بنایا، اور الوداعی ملاقات کے لیے اپنے سب سے زیادہ پیارے اور مہربان آقاحضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے، جامعہ سے فراغت اور اپنے پیارے آقا سے جدائی کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، اس پر سیدنا حضور انور نے پریشانی کی وجہ دریافت فرمائی، تو آپ نے عرض کیا کہ حضور میں نے جامعہ میں داخلہ لیا تھا، اس پر پیارے آقا نے فر مایا کہ ہاں مجھے معلوم ہے اور آپ تو ایک ماہ سے جامعہ میں پڑھ بھی رہے ہیں، اس پر آپ نے عرض کیا کہ حضور مجھے طبی بنیاد پر جامعہ سے فارغ کر دیا گیا ہے،اس موقع پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو مخاطب ہوتے ہوئے وہ تاریخی نصیحت فرمائی کہ جو محترم والد صاحب کے لیے تا عمر ایک نصب العین ثابت ہوئی اور آپ تمام عمر اپنےعظیم استا د محسن مرشد اور امام کی نصیحت پر عمل پیرا رہے، حضور رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایاکہ آپ جتنا خوش قسمت کون ہے، کہ آپ آزاد بھی ہیں اور سلسلہ کی جتنی چاہیں خدمت بھی کر سکتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی باکمال یادداشت

محترم والد صاحب حضرت مصلح موعودؓکی یادداشت کے حوالے سے اکثر یہ واقعہ سنایا کرتے تھے۔فروری 1958ءمیں حضور مسجد احمدیہ مارٹن روڈ کا سنگ بنیاد رکھنےکے لیے کراچی تشریف لائے تو والد صاحب کے دل میں بھی اپنے پیارے آقا کے دیدار کی خواہش پیدا ہوئی،اور آپ گھارو سے کراچی میں کوٹھی دارالصدر پہنچ گئے۔ چونکہ کراچی میں نہ ہی آپ کی تجنیدتھی اور نہ ہی آپ کو کوئی جانتا تھا،اس لیے ملاقات کا شرف بالکل نا ممکن تھا کہ اسی دوران آپ کا گزر اس بڑے کمرہ کے سامنے سے ہوا کہ جس میں حضورؓ جماعت احمدیہ کراچی کی مجلس عاملہ سے مخاطب تھےاور حضورؓ کے دائیں طرف حضرت چودھری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی تشریف فرماتھے، والد صاحب فرماتے ہیں کہ جیسے ہی میرا گزر اس کمرہ کے سامنے سے ہوا،اورحضور ؓکی نظر مجھ پر پڑ ی اور آپ نے ڈیوٹی پر موجود خادم کے ذریعے مجھے اپنے پاس بلوالیا،اورمیں نے شرف مصافحہ کے بعد حضور پر نور کے جسم مبارک کو دبانا شروع کردیا، اس غیر معمولی تعارف کے بعد پھر مزید کسی تعارف کی ضرورت نہ رہی۔

کراچی میں مستقل قیام

اس دوران آپ کے بڑے بھائی مکرم ومحترم بشارت احمد صاحب (والدمکرم و محترم مولانا منور احمد خورشید صاحب)بھی کراچی منتقل ہوگئے، اور آپ دونوں بھائیوں نے مل کر مختلف کاروبار وغیرہ بھی شروع کیے لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔ 1960ء میں آپ محکمہ پولیس سے وابستہ ہوگئے۔ اس بارے میں جب آپ کے والدمحترم حضرت منشی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم ہوا تو انہوں نے بذریعہ خط اپنی تشویش کا اظہارکیا، اس پروالد صاحب نے عرض کیا کہ اگر ساری زندگی آپ کو میرے حوالہ سے کوئی شکایت ملی تو جو چاہیں مجھے سزا دیجئے گا۔ 1961ءمیں فورس کی نوکری کے باعث جب آپ کو جماعتی خدمات کے لیے وقت نکالنا مشکل نظر آنے لگا تو آپ نے اپنا تبادلہ کلیریکل اسٹاف میں کروالیا، اور پھر یہاں سے آپ کی دینی خدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، جو تادم واپسیں جاری رہا۔

محترم والد صاحب کی شادی کے متعلق آپ کی بھابھی صاحبہ نے جب بھی آپ سے پوچھا آپ نے یہی کہا کہ جب اور جہاں بھی آپ کہیں گی مجھے کبھی بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا۔چنانچہ فروری 1962ء میں آپ کی بھابھی صاحبہ نے آپ کی شادی اپنی چھوٹی بہن محترمہ حلیمہ ناصرہ صاحبہ سے کر وادی۔ ہماری والدہ صاحبہ شادی سے قبل ہی اپنے گاؤں میں بطورصدر لجنہ اماءللہ خدمت سلسلہ کی توفیق پارہی تھیں۔ شادی کے بعد ابتدائی دور میں ہی آپ نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے والد صاحب کا نام احمدیہ ہال کراچی میں محراب کے اند ر دیگر خدماتِ سلسلہ سر انجام دینے والے احباب کے ساتھ لکھا ہوا ہے، اس وقت محترم والد صاحب خدام الاحمدیہ میں بطور سائق کے خدمت کی توفیق پارہے تھے، لیکن بعد میں محترمہ والدہ صاحبہ کی خواب بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی، الحمداللہ۔ چنانچہ 1962ءمیں بطور زعیم حلقہ ڈرگ روڈ، پھر نائب قائد۔ جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ ڈرگ روڈ، 1968ءسے 1986ءتک مسلسل 18سال تک آپ بطور صدرجماعت احمدیہ ڈرگ کالونی رہے، چونکہ کراچی ایئرپورٹ بھی اسی حلقہ کی حدود میں واقع ہے، اس لیے خلفاء کی کراچی آمد اور روانگی کے وقت آپ کو خصوصی خدمات کی تو فیق ملا کرتی۔ صدارت کے اس لمبے عرصہ کے دوران آپ ناظم اطفال ضلع کراچی 73/1972ء،اور 1972تا 1975ءقائد ضلع کراچی رہے، خصوصاً 1974ءکےانتہائی پر آشوب حالات کے دوران آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تاریخی خدمات کی توفیق ملی۔آپ زعیم اعلیٰ انصار اللہ بھی رہے، اسی طرح بعد ازاں آپ جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ کراچی مقرر ہوئے،اور پھر اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے نائب امیر کراچی مقرر فرما دیا۔اس کے علاوہ ایک ذمہ داری حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے زیر ارشادآپ کے سپرد صوبہ سندھ اور صوبہ بلو چستان کے امور کی نگرانی کا کام تھا۔انہیں ذمہ داریوں کے دوران کم از کم تین بار آپ کو قتل کیے جانے کی سازش کا انکشاف بھی ہوا،لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہمیشہ آپ کے شامل حال رہی۔

FOR ME

EVERY AHMADI IS PROMINEN

آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی شفقتوں اور عنایتوں سے بھی لطف اندوز ہونے کی سعادت نصیب ہوئی، اس وقت یہاں پر صرف ایک پُرسعادت ملاقات کا احوال پیش ہے۔

ایک دفعہ کراچی کے تینوں ڈپٹی کمشنرز نے فیصلہ کیا کہ حالات کے پیش نظر پرومینینٹ احمدیوں کے گھروں پر پولیس کا پہرہ لگا دیا جائے، چنانچہ جب یہ پیشکش حکومت کی طرف سےجماعت احمدیہ کراچی کے سامنے پیش کی گئی تو اسی دن محترم چودھری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے ہنگامی کمیٹی کا اجلاس طلب فرما لیا،چنانچہ اس ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کل صبح کی پہلی فلائٹ سے منظور شاد صاحب ربوہ جائیں اور بلا تاخیر کل شام کی فلا ئٹ سے واپس آجائیں، اور پھر جو بھی حضور رحمہ اللہ فیصلہ فرمائیں اس پر عمل در آمد کیا جائے۔ چنانچہ اگلے ہی دن والد صاحب کراچی سے لاہور اور وہاں سے ربوہ پہنچے۔ جب آپ قصر خلافت پہنچے اس وقت حضور کھانے وغیرہ کے لیے اوپر تشریف لے جا چکے تھے۔ والد صاحب نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک بہت ہی اہم پیغام حضور کی خدمت میں پیش کرناہے۔ چنانچہ حضورؒ نے ازراہ شفقت آپ کو اوپر بلوالیا، اس وقت حضور ؒکھانا تناول فرما رہے تھے، جیسے ہی والد صاحب اندر داخل ہوئے حضورؒ نے فرمایا کہ تو آپ آئے ہیں، مجھے تو کہہ رہے تھے کہ جماعت کراچی کا کوئی نمائندہ آیا ہے، اور حضور نے آپ کو بھی کھانے میں ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی۔

امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی نے جاتے ہوئے کچھ ضروری ڈاک بھی آپ کے سپرد کی تھی، چنانچہ آپ باری باری ایک ایک خط پڑھتے جاتے اور حضور ؒآپ کو ساتھ ساتھ جواب ارشاد فرماتے جاتے، جب خطوط کو بند کرنے کا مرحلہ آیا تو حضور نے ایک دراز سے ایک ٹیپ نکال کر دی اور ساتھ ہی ٹیپ کو کاٹنے کے لیے اپنے آگے پڑی ہوئی کھانے والی چھری عطا فرمائی، اب اس چھری سےٹیپ کو کاٹنے میں کافی مشکل پیش آرہی تھی، والد صاحب اسی کشمکش میں تھے کہ کیا کریں، اس پر حضورؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ شاد صاحب آج آپ کا زور دیکھتے ہیں۔

اس دوران حضور ؒبھی کھانا تناول فرما چکے تھے اور خطوط بھی ختم ہو چکے تھے،اس پر حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ اب بتاؤکہ کیسے آئے ہو۔ والد صاحب نے عرض کیا کہ کراچی کے تینوں ڈپٹی کمشنرز کی یہ تجویز ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر تمام اہم احمدی عہدہ داروں کے گھروں پہ پولیس کا پہرہ لگا دیا جائے، اس بات پر حضورؒ جو ابھی تک بہت ہی خوشگوار موڈ میں تھے یک لخت جلال میں آگئے اور انگریزی میں فرمایا کہ میرے لیے ہر احمدی اہم ہے، جاکر بتا دو اپنے ڈپٹی کمشنرز کو۔

چند ایک ساعت کے بعد حضورؒ پھر والد صاحب سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ اور کوئی بات کہو، اس پر والد صاحب نے عرض کیا کہ حضورؒ مجھے اکثر شدیدسر درد کی شکایت رہتی ہے، اور اس کے لیے میں ایک سال سےمائیگرین کی گولی لے رہا ہوں، حضورؒ نے تین دفعہ استغفار اور تین ہی دفعہ اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھا، اور فرمایا کہ یہ ہی گولی ڈاکٹر نے میاں لُکی کو لکھ کر دی تھی میں نے اُٹھواکر باہر پھینکوادی، یہ تو زہر ہے،اور آج کے بعد تم نے بھی نہیں کھانی۔ والد صاحب نے عرض کیا جی بہتر حضور، اس کا کوئی متبادل علاج، حضورؒ نے اپنے ہاتھ کی چار انگلیوں سے ایک مخصوص انداز میں سر میں مساج کاطریق بتایا،اور فرمایا کہ صبح سویرے اُٹھ کر خا لی معدہ چھ سات منٹ تک یہ مساج کرنا ہےاور یہ آپ کا علاج ہے، چنانچہ گھر پہنچ کر والد صاحب نے اہلیہ اور بچوں سے کہا کہ اگر کبھی میں اس درد سے مرنے بھی لگوں تو یہ گولی مجھے نہ دی جائے کیونکہ خلیفہ وقت نے یہ گولی لینے سے منع فرمادیا ہے۔جب دفتر گئے تو انتہائی شدید درد شروع ہوگیا، فوری طور پر حضورؒ کی خدمت میں ایک جوابی خط تحریر کیا،اور یہ ایک معجزہ ہے کہ تیسرے ہی دن اس خط کا جو اب کراچی میں مل گیا۔[ اس زمانہ میں یہ بالکل ناممکن بات تھی ] اس میں صرف ایک جملہ لکھا تھا کہ گھبرائیں نہیں علاج جاری رکھیں، یہ مساج والد صاحب نے آٹھ دس دن کیا اور پھر ساری زندگی وہ سر درد کبھی نہیں ہوا، پیارے آقا کے ساتھ یہ ملاقات پچپن منٹ تک جاری رہی۔

منظور احمد شاد

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شفقت اور دُعا اوراہلیہ کی صحت یابی

یہ 1970ء کی بات ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ کی طبیعت کچھ اچھی نہ تھی بلڈ پریشر بہت نیچے چلا جایا کرتا تھا،اپنی استطاعت کے مطابق پرائیویٹ علاج کےعلاوہ پولیس ہسپتال سے بھی دوائی وغیرہ لے رہے تھے، لیکن آرام نہیں آرہا تھا۔چنانچہ والد صاحب نے حضورؒ کی خدمت اقدس میں دُعا کے لیےخط لکھا،حضور ؒنےجواب میں لکھا کہ بیماری کی تفصیل لکھیں اور ساتھ ہی ازراہ شفقت 24روپے بذریعہ منی آرڈر بھجوادیے۔ اسی دوران حضور ؒ کا کراچی کے دورہ کا پروگرام بن گیا۔چنانچہ والد صاحب حضورؒکی خدمت میں حاضر ہوگئے، حضورؒ کے ساتھ اس دفعہ محترم صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب بھی تشریف لائے ہو ئے تھے، اور اسی دن محترم صاحبزادہ صاحب کی واپسی بھی تھی،حضور ؒنے محترم صاحبزادہ صاحب کو طلب فرمایا اور ڈاکٹر صاحب کو کہاکہ ان کی اہلیہ کا علاج کریں، دوائیں آپ ربوہ سے بھجوائیں گے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے بیماری کے حالات دریافت فرمائے اور ربوہ جاکر دوائیں ارسال فرمادیں۔ اتفاق سے یہ وہی دوائیں تھیں جو پولیس ہسپتال سے ہم لیتے تھےاور جن کےایک عرصے سے استعمال کے باوجود کوئی خاص افاقہ نہیں ہو پارہا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ پیارے آقا کی دُعا کے نتیجہ میں چند ایک دنوں میں ان ہی دواؤں سے مرض جاتا رہا۔

محترم والد صاحب کے دورِ قیادت میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کو چند ایک تاریخی کاموں کی توفیق عطا ہوئی۔چنانچہ تاریخ احمدیت جماعت احمدیہ کراچی کے صفحہ نمبر 479پر مذکور ہے کہ

مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کراچی کے لیے 73/1972ءتاریخی سال

کراچی میں خدام الاحمدیہ کی سطح پر باقاعدہ ضلعی نظام کے قیام کے بعدیہ پہلا موقع تھا کہ سال 73/1972ءمیں مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کراچی تمام اضلاع میں اول آئی اور انعامی شیلڈ حاصل کی اس سال مکرم منظور احمد شاد صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کراچی تھے۔

اس دور میں ہونے والے چند ایک تاریخی کاموں میں سے کچھ یہ ہیں:

1۔ لیار ی میں عظیم الشان وقار عمل :

تاریخ جماعت احمدیہ کراچی کے صفحہ 468تا 470 پر اس بے مثال وقارعمل کی تفصیل موجود ہے۔ یہاں پر صرف ایک جھلک ہی دکھائی جاسکتی ہے۔ یہ تاریخی وقار عمل رات کے وقت ہونا تھا، اس وقارعمل میں کل 714افراد نے حصہ لیا۔ محترم قائد صاحب ضلع کی خواہش تھی کہ کوئی صوبائی وزیر اس وقار عمل کا افتتاح کریں۔چنانچہ رات 10بجےجناب عبدالستار گبول صاحب صوبائی وزیر محنت حکومت سندھ وقار عمل کی جگہ تشریف لے آئے۔ اس تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔اس کے بعد جناب عبدالستار گبول صاحب نے اپنی تقریر میں خدام کے جذبہ خدمت خلق کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔اس کے بعد قائد صاحب ضلع کراچی نے فرمایا کہ یہ سب شمع محمدی کے پروانے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس ارشاد کی تعمیل میں جمع ہوئے ہیں کہ راستہ سے گندگی یا ضرر رساں چیزوں کو ہٹادینا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ اس کے بعد مکرم و محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب نے اجتماعی دُعا کروائی، اور اس وقار عمل کا آغاز ہو گیا۔اس موقع پر کراچی میونسپل کارپوریشن کے ہیلتھ آفیسر، چیف سینیٹری انسپکٹر،50 انسپکٹرز، 100 سب انسپکٹر ز کے علاوہ محترم میجر شمیم احمد صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی، محترم کیپٹن سید افتخار حسین صاحب نائب امیر و ناظم انصار اللہ ضلع کراچی، محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب، اور محترم مولانا محمد عثمان چینی صاحب بھی احباب کی حوصلہ افزائی کے لیے ساتھ شامل رہے۔ اگلے روز اس تاریخی وقار عمل کی خبر روزنامہ جنگ، روزنامہ آغاز، روزنامہ امن میں شائع ہوئی، اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کراچی سے بھی اس شاندار وقار عمل کی خبر نشر ہوئی۔

2۔ تحریک سائیکل سفر برائے دیہات سروے : سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جماعت احمدیہ کی مجلس شوریٰ 1973ءکے موقع پر سائیکل سفر برائے دیہات سروے تحریک کا اجرا فرمایا۔اس تحریک میں حصہ لیتے ہوئے 20؍مئی 1973ء کو 97؍دیہات کا سروے مکمل کیا گیا۔

(تاریخ احمدیت کراچی صفحہ 470)

3۔ ٹھٹھہ میں بند کی حفاظت : 1973ء میں سندھ میں سیلاب آگیا تو جماعت احمدیہ کراچی نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے حکومت کو پیشکش کی۔ اس حوالے سے ٹھٹھہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے 87خدام نے قائد ضلع کراچی مکرم منظور احمد شاد صاحب کی قیادت میں تین دن وہاں قیام کیا۔ بند میں ایک فرلانگ لمبا شگاف پڑ گیا تھا،وہ خدام نے ہزارہا ریت کی بوریاں ڈال کر پر کیا،یہ بند کراچی سے 51 میل دور تھا، اس حوالے سے ریڈیو پاکستان نے کئی خدام کے انٹرویوز ریکارڈ کیے جو کہ بعد میں نشر ہوتے تھے،خدام کو روزانہ کراچی سے کھانا بھجوایا جاتاتھا۔

(تاریخ احمدیت کراچی صفحہ 472)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒان دنوں یورپ کے دورہ پر تھے، سیلاب کے متعلق آپ کو دورہ کے دوران اطلاعات ملتی رہیں۔چنانچہ حضورؒ نے فرمایا کہ وہ اطلاع مجھے ملتی رہی،دُعائیں بھی کرتا رہا،اور جماعت کو اس سلسلے میں خدمت کرنے کے لیے ضروری ہدایات بھی دیتا رہا۔مجھے خوشی ہےکہ احباب جماعت نےانسانیت کی خدمت کے اس دکھ میں پوری پوری شرکت کی اورضروری امدادبہم پہنچائی۔

4:سالانہ اجتماع مرکزیہ 1973ء میں سائیکلوں پر شرکت :

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جماعت کو سائیکل استعمال کرنے کی تحریک فرمائی، اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نےسالانہ اجتماع ربوہ پر گیارہ خدام کو بذریعہ سائیکل تیار کیا۔کراچی کے 11 خدام پر مشتمل قافلہ کو مورخہ 20؍اکتوبر 1973ء صبح 6بجے مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی اورمکرم قائد صاحب ضلع اور دیگر احباب نےدُعاؤں اور جوش و خروش کے ساتھ مسجدالاحمدیہ مارٹن روڈ سے رخصت کیا،ان مخلص خدام کا حضور نے سالانہ اجتماع 1973ء کی اختتامی تقریر میں بھی ذکر فرما یا۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کراچی صفحہ 477 تا 479)

5۔ سندھ و بلوچستان میں امور کی نگرانی :

تاریخ جماعت احمدیہ کراچی کے صفحہ نمبر 579 باب پنجم میںمحترم والد صاحب خود فرما تے ہیں کہ

’’بحیثیت نائب امیر و جنرل سیکرٹری خاکسار کے سپرد جماعت احمدیہ کراچی کے امور کے علاوہ سندھ و بلوچستان کے امور کی نگرانی کا بھی کام تھا۔اس حیثیت سے خاکسار کا اکثر وقت سندھ اور بلوچستان کے دوروں میں گزرتا تھا۔ہنگامی حالات کے تحت شائد ہی کوئی ایسا شہر یا قصبہ ہوگا جہاں خاکسار نہیں گیا۔مندرجہ ذیل مواقع خاص طور پر قابل ذکر ہیں،

1: جب بھی راہ مولیٰ میں کوئی شہادت ہوتی۔

2:جب بھی کوئی قاتلانہ حملہ ہوتا۔

3: اسیران راہ مولیٰ کی سماعتوں کی پیروی کے سلسلہ میں۔ اسیران راہ مولیٰ کے مقدمات کی پیروی کے سلسلہ میں سینئر وکلاء کے ہمراہ اور خصوصاً مکرم سید علی احمد طارق صاحب سینئر وکیل سپریم کورٹ کے ہمراہ متعدد بار نواب شاہ، ٹنڈوآدم،سانگھڑ، شہداد پور، سکھر، حیدر آباد، کوٹری اور لاڑکانہ وغیرہ میں جانے کا موقع ملا کرتا۔

4: ایک بار جب نواب شاہ سے ایک احمدی بچہ اغوا ہو گیا تو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ مرکزیہ نے ارشاد فرمایا کہ منظور شاد نواب شاہ میں اپنا کیمپ آفس بنائے،اوراسے اس وقت تک واپس آنے کی اجازت نہیں ہے کہ جب تک بچہ نہ مل جائے،خاکسار ایک ہفتہ تک مکرم و محترم پروفیسر عبدالقادر ڈاہری صاحب کے گھر ٹھہرا اور مکرم عبدالستار ڈاہری صاحب کے تعاون سے اغواکنندگان سے مذاکرات کرکے بچہ بازیاب کروایا گیا۔

5: جلسہ ہائے سالانہ اندرون سندھ کے مواقع پر مرکز کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوتا رہا،اور افتتاحی یا اختتامی اجلاسات کی صدارت کی سعادت ملتی رہی۔

6: ڈش اینٹینوں کی تنصیب کا کام۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی ارشاد کے تحت پورے سندھ و بلوچستان میں ڈش اینٹینوں کی تنصیب کے کام کا جائزہ لیااور اینٹینوں کی تنصیب کا کام مکمل کیا اس سلسلہ میں سندھ اور بلوچستان کی ہر جماعت کا دورہ کیا گیا،اس کام کی تکمیل پر کئی مہینے لگے۔

7: بارش زدگان کی امدا د۔ بارش اور سیلاب کے نتیجے میں غریب احمدیوں کے گھروں کی مرمت اور تعمیر نو نیز بیوت الحمد کی مرمت کے سلسلہ میں سارے سندھ کا دورہ کیا گیا،یہ دورہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی خصوصی ہدایت پر کیا گیا

8:احمدیہ قبر ستانوں کا قیام : ایک احمدی خاتون کی وفات پر نعش کو اس لئے مسجد کے صحن میں دفنانا پڑا کہ عام قبر ستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر خاکسار نے پورےسندھ کا دورہ کیا۔اور ہرایک جماعت میں اپناقبرستان بنا نے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا، چنانچہ دو مقامات پر فوری طور پر احمدیہ قبرستانوں کے لئے مناسب زمین کا انتظام بھی ہو گیا،اس سلسلہ میں ایک ایمان افروز واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں، جب خاکسار لاڑکانہ کے گاؤں گورگیج پہنچا، اور جماعت میں قبرستان کے لئے تحریک کی کہ اس نیک مقصد کے لئے اپنی زمین کا ایک ٹکڑا پیش کریں تومکرم اللہ یار صاحب چانڈیو نے اپنی زمین کا دو ایکڑ پر مشتمل ایک ٹکڑ ا اس سلسلہ میں پیش کردیا، فجزاھم اللہ تعالیٰ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ فیصلہ سے پہلے میں وہ زمین کا حصہ دیکھنا چاہتا ہوں، مجھے بتایا گیا کہ زمین یہاں سے تین کلو میٹر دور ہے اور وہاں گاڑی پر نہیں جا سکتے،اس لئے مجھے کہا گیا کہ وہاں نہ جایا جائے، میں نے عرض کیا کہ میں ہر صورت میں وہ جگہ دیکھنا چاہتا ہوں۔چنانچہ دن کے دو بجے شدید گرمی میں ہم لوگ پیدل وہ جگہ دیکھنے کے لئے روانہ ہو گئے، یہ جگہ ایک ناہموار غیر آباد جگہ تھی،خاکسار نے پوچھا کہ یہاں پانی کا کیا انتظام ہے، بتایا گیا کہ سارے علاقہ میں پانی کھارا ہے،میں نے عرض کیا کہ جہاں میں کھڑا ہوں یہاں بور کریں انشا ءاللہ پانی میٹھا نکلے گا،خاکسار کے چلے آنے کے بعد ٹریکٹر کے ساتھ زمین ہموار کرادی گئی،اب جب پانی کے لئے بورنگ شروع کروائی گئی تو پانی ہر جگہ سے کھارا نکلنے لگا،اس پر مکرم غلام الدین چانڈیوصاحب جو کہ اس وقت قائد مجلس کے علاوہ نائب قائد ضلع بھی تھے انہوں نے کہا کہ منظور شاد صاحب جب آئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ جہاں میں کھڑا ہوں یہاں بور کروانا تو پانی انشاء اللہ میٹھا نکلے گا،چو نکہ زمین ہموار کروائی جاچکی تھی اس لئے اس جگہ کا تعین مشکل ہو گیا بہرحال ایک جگہ کے متعلق سب کا اتفاق ہوگیا کہ منظور شاد یہاں کھڑا تھا، چنانچہ جب وہاں پر بورنگ کی گئی تو پانی میٹھا نکلنے لگا،یہ صرف اور صرف خلافت کی برکت اورحضور کے ارشاد کی تعمیل ہی کا نتیجہ تھا، ورنہ من آنم کہ من دانم۔‘‘

اس کے علاوہ احباب کے باہمی جھگڑوں کے تصفیہ کے سلسلہ میں بھی اکثر جانا پڑتا۔ اس دور میں صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں کئی کئی ہفتوں تک رہنا پڑتا تھا،آپ کی یہ خدمات دربار خلافت سے بھی حصول دُعا کا باعث ہوا کرتیں۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اپنے ایک مکتوب میں آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’پیارے عزیزم مکرم منظور احمد شاد صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کو مختلف مقدمات و دیگر امور کے سلسلہ میں خدا کے فضل سے جماعت کی خدمت کی توفیق ملتی رہتی ہے،اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزاء عطا فرمائے۔قلب و ذھن کو جلاء بخشے اوربیش از بیش مقبول خدمت سلسلہ کی توفیق بخشے۔مکرم امیر صاحب کراچی کی طرف سے اُن کی چٹھی محررہ 92/03/07 میں مختلف وکلاءاور کارکنان کی اندرون سندھ خدمات کی یکجائی رپورٹ ملی، تو میرے دل میں خواہش پیداہوئی کہ چند تحسین کے کلمات آپ کو لکھوں اور مطلع کروں کہ خدا کے فضل سے آپ کے لئےاس رمضان المبارک میں آپ کی خدمات کے پیش نظر خصوصی دُعا کی تحریک پیداہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دین و دنیا کی حسنات سے نوازے۔ آپ کے سب کا موں میںبرکت دے اور اپنے بے انتہا فضلوں کا مورد بنائے۔گھر میں سلام اور بچوں کو پیار۔

والسلام خاکسار(دستخط)

خلیفۃ المسیح الرابع‘‘

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button