ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 80)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

بعد نماز عصر ایک مجلس

فرمایا:جس قدر ارادے آپ نے اپنی عمر میں کئے ہیں۔ اُن میں سے بعض پورے ہوئے ہوں گے ، مگر اب سوچ کر دیکھو کہ وہ ایک بُلبُلہ کی طرح تھے جو فوراً معدوم ہوجاتے ہیں اور ہاتھ پلّے کچھ نہیں پڑتا ۔ گذشتہ آرام سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اس کے تصور سے دکھ بڑھتا ہے ۔ اس سے عقل مند کے لیے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان ابن الوقت ہو۔ رہی زندگی انسان کی جو اس کے پاس موجودہے ۔ جو گذر گیا ۔ وہ وقت مر گیا ۔ اس کے تصورات بے فائدہ ہیں ۔ دیکھو جب ماں کی گود میں ہوتا ہے اس وقت خوش ہوتاہے۔ سب اُٹھائے ہوئے پھرتے ہیں ۔ وہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا بہشت ہے ۔ اور اب یاد کر کے دیکھو کہ وہ زمانہ کہاں؟

سعدیؔ کہتا ہے ؎

من آنگہ سر تاجور داشتم

کہ بر فرق ظلِّ پدر داشتم

اگر بر وجودم نِشستے مگس

پرپریشاں شد خاطرے چند کس

یہ زمانےپھر کہاں مل سکتے ہیں ۔ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ چلاجاتا تھا۔ چند چھوٹے لڑکوں کو دیکھ کر روپڑا کہ جب سے اس صحبت کوچھوڑ ا ، دکھ پایاہے ۔ پیرانہ سالی کا زمانہ بُرا ہے۔ اس وقت عزیز بھی چاہتے ہیں کے مر جاوے اور مرنے سے پہلے قویٰ مر جاتے ہیں۔ دانت گر جاتے ہیں۔ آنکھیں جاتی رہتی ہیں۔اور خواہ کچھ ہی ہو آخر پتھر کا پتلاہوجاتا ہے ۔شکل تک بگڑ جاتی ہے۔ اور بعض ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیںکہ آخرخود کشی کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات جن دکھوں سے بھاگناچاہتا ہے۔ یکدفعہ ان میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اگراولاد ٹھیک نہ ہو تو اور بھی دکھ اُٹھاتا ہے ۔ اس وقت سمجھتا ہے کہ غلطی کی اور عمر یونہی گذر گئی ۔ مگر …دوہرا ؎

آگے کے دن پاچھے گئے ہر خدا سے کیونہ ہیت

اب پچتائے کیا ہوت ہے جب چڑیا ں چُگ گئیں کھیت

عقلمند وہی ہے جو خدا کی طرف توجہ کرے ۔ خد اکو ایک سمجھے ۔ اس کے ساتھ کوئی نہیں ۔ ہم نے آزماکردیکھاہے۔ نہ کوئی دیوی نہ دیوتا۔ کوئی کا م نہیں آتا ۔ اگر یہ صرف خدا کی طرف نہیں جھکتا تو کوئی اس پررحم نہیں کرتا۔ اگر کوئی آفت آجاوے تو کوئی نہیں پوچھتا ۔ انسان پر ہزاروں بلائیں آتی ہیں۔ پس یا د رکھو کہ ایک پرور دگار کے سوا کوئی نہیں ۔وہی ہے جو ماں کے دل میں بھی محبت ڈالتا ہے ۔ اگر اس کے دل کو ایسا پیدا نہ کرتا، تو وہ بھی پرورش نہ کر سکتی ۔ اس لیے اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 424-425)

اس حصہ گفتگو میں حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نےشیخ سعدی کے فارسی کے دو اشعار استعمال کیے ہیںجو کہ شیخ سعدی کی کتاب بوستان سعدی کے دوسرے باب (احسان کا بیان )میں موجود ہیں۔ان اشعار کو سیاق وسباق کے ساتھ پڑھا جائے تو معلوم ہوتاہےکہ یتیموں کو نوازنے اور ان کے حال پر رحم کرنے کےمضمون کو شیخ سعدی نے کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے چنانچہ لکھا ہے۔ ‘‘جس کا باپ مر گیا ہو اس کےسر پر سایہ کر ۔اس کا غبار جھاڑ اور اس کا کانٹا نکال۔یتیم بچہ کی مثال بے جڑ کےدرخت کی سی ہےجو کبھی سر سبز وشاداب نہیں رہتا۔جب تو کسی یتیم کو سامنے سر ڈالے دیکھے تو اپنے بچے کے رخسار پر بوسہ نہ دے۔یتیم اگر روتاہے تو اس کا ناز کون اٹھاتاہے؟اگر وہ غصہ کرتاہےتو اس کا بوجھ کون برداشت کرتاہے؟خبردار!کہیں وہ رونہ پڑے کیونکہ اس کے رونےسے عرش عظیم لرز جاتاہے ۔محبت سے اس کی آنکھ سے آنسو پونچھ۔مہربانی سے اس کے چہرہ سے خاک جھاڑ۔اگر اس کے سر سے اس کا سایہ چلا گیا ہے یعنی اس کا باپ مر گیا ہےتو اپنے سائے میں اس کی پرور ش کر۔

مَنْ آنْگَہ سَرِ تَاجْوَرْ دَاشْتَمْ

کِہْ بَرْ فَرْقْ ظِلِّ پِدَرْ دَاشْتَم

ترجمہ :۔میرا سر اس وقت ایک بادشاہ کا سر تھا جب میں باپ کی گود میں سر رکھتا تھا۔

اَگَرْ بَرْ وُجُوْدَمْ نِشَسْتِے مَگَسْ

پَرِیْشَاں شُدْ خَاطِرِے چَنْد کَسْ

ترجمہ :۔اگر میرے جسم پر مکھی بیٹھتی تو بہت سے آدمیوں کی طبیعت پریشان ہو جاتی۔

اور اب یہ حال ہے کہ اگر مجھے قید خانہ میں قیدی بنا کر لے جائیں تو میرے دوستوں میں سے بھی کوئی مددگا رنہ ہوگا۔بچوں کے در د کی مجھے خبر ہے۔اس لیے کہ بچپن میں میرے سر پر سے باپ چلا گیا تھا ۔’’

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button