بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر19)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اگر ہم اچھے کام کریں گے تو جنت کا وعدہ ہے اور اگر بُرے کام کریں گے تو جہنم میں جانا پڑے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے؟

٭…اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتابوں میں Complicated باتیں کیوں بیان کی ہیں اور سب کچھ آسان اور واضح انداز میں کیوں نہیں بتا دیا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بعد میں اختلافات ہونے ہیں؟

٭…چھوٹے بچوں والی ماؤں کو نماز کے وقت بچےکو ساتھ لے کر یا گود میں اٹھا کر نماز پڑھنا پڑتی ہے۔ اس وقت فطرتاً نماز سے زیادہ بچےکی طرف توجہ رہتی ہے۔ اس سے ہم نماز کی فضیلت سے محروم تو نہیں ہو رہی ہوتیں؟

٭…کئی دفعہ شادی کے بعد لڑکیاں اپنا نام بدل کر خاوند کے نام کے ساتھ ملا کر رکھ لیتی ہیں۔ اسلامی نظریہ کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے؟

٭… Pandemicحالات میں ہم پہلے کی طرح تبلیغ نہیں کر پا رہی ہیں۔ اب ان حالات میں ہم کس طرح اپنے کام کو جاری رکھ سکتی ہیں؟

٭…شادی کے معاملے میں دین کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔ مگر آج کل لوگ خوبصورتی اور دوسری خصوصیات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے جماعت کی کافی نیک اور دینی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی، اس بارے میں حضور سے راہ نمائی کی درخواست ہے؟

٭… اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا امر سب سے پسندیدہ اور کونسا امر سب سے نا پسندیدہ ہے؟

٭…حضور بنگلہ دیش کی لجنہ اور ناصرات کےلیے کوئی پیغام ارشاد فرما دیں ۔

سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اگر ہم اچھے کام کریں گے تو جنت کا وعدہ ہے اور اگر بُرے کام کریں گے تو جہنم میں جانا پڑے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 4؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضورانورنے فرمایا:

جواب: بنیادی طور پر یہ سوال ہی درست نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کی ہر گز یہ تعلیم نہیں کہ انسان جنت کی لالچ سے نیکیاں بجالائے یا جہنم کے خوف سے بُرائیوں سے بچے۔ ایسا ایمان جو کسی لالچ یا کسی خوف سے ہو وہ کمزور ایمان ہوتا ہے۔ مخلوق کا اپنے خالق سے ایسا مضبوط تعلق ہونا چاہیے جو بہشت کی طمع یا دوزخ کے خوف سے پاک ہو۔ بلکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی انسان اپنے رب کی عبادت میں، اس کی محبت اور اطاعت میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنے دے۔ اسی لیے قرآن وحدیث میں خالق اور مخلوق کے تعلق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو اختیار کر کے اس کا حقیقی عبد بنے اور اس کے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول پیش نظر ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون کو کئی جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارابہشت ہمارا خدا ہےہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 21)

پس اللہ اور بندے کا تعلق، عاشق اور معشوق والا تعلق ہے۔ کوئی عاشق اپنے معشوق سے یہ نہیں کہتا کہ میں تجھ پر اس لیے عاشق ہوں کہ تو مجھے اتنا روپیہ یا فلاں فلاں شے دےدے۔ ہر گز نہیں۔ اس کا عشق تو ہر قسم کے طمع اور لالچ سے پاک ہوتا ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان باتوں سے اللہ تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ہر قسم کے فائدہ یا نقصان سے پاک ذات ہے۔ اس نے انسان کو یہ تعلیم انسان ہی کے فائدہ کےلیے دی ہے۔ اسی لیے وہ فرماتا ہے کہ ’’جو شخص شکر کرتا ہے اس کے شکر کا فائدہ اسی کی جان کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو یقیناً اللہ بے نیاز ہے (اور) بہت صاحب تعریف ہے۔‘‘

(سورۂ لقمان: 13)

یہ سوال ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ ایک ماں کے اپنے بچےکو دودھ پلانے اور بچہ کے بیمار ہونے پر اسے کڑوی دوائی پلانے میں اس ماں کا کیا فائدہ ہے؟ یا ایک استاد کے پڑھائی کرنے والے شاگرد کوپاس کرنے اور پڑھائی نہ کرنے والے شاگرد کو فیل کرنے میں اس استاد کا کیا فائدہ ہے؟

پس جس طرح ان امور میں ماں اور استاد کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ اس بچہ اور شاگرد کا فائدہ اور نقصان ہے اسی طرح اللہ اور بندہ کے معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں بلکہ الٰہی احکامات کی بجا آوری میں انسان کا فائدہ اور ان احکامات کی حکم عدولی میں انسان ہی کا نقصان ہے۔

سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتابوں میں Complicated باتیں کیوں بیان کی ہیں اور سب کچھ آسان اور واضح انداز میں کیوں نہیں بتا دیا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بعد میں اختلافات ہونے ہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 4؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اصل میں اعلیٰ درجے کے ایمان کےلیے آزمائش شرط ہوتی ہے۔ اسی لیے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ہدایت پانے والے اور کامیابی حاصل کرنے والے متقیوں کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ پس ایمان ہمیشہ اسی صورت میں مفید ہوتا ہے جب اس میں کوئی اخفاکا پہلو ہو۔ تا کہ مومن اور غیر مومن کا فرق واضح ہو سکے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اخفا کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پیشگوئی میں کسی قدر اخفاء اور متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہی ہمیشہ سے سنت الٰہی ہے…اگر آنحضرتﷺ کے متعلق جو پیشگوئیاں تورات اور انجیل میں ہیں وہ نہایت ظاہر الفاظ میں ہوتیں …تو پھر یہودیوں کو آپ کے ماننے سے کوئی انکار نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ ان میں متقی کون ہے جو صداقت کو اس کے نشانات سے دیکھ کر پہچانتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد نہم صفحہ 283، ایڈیشن 1984ء)

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بنگلہ دیش کی Virtual ملاقات مورخہ 14؍نومبر 2020ء میں ایک لجنہ ممبرنے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ چھوٹے بچوں والی ماؤں کو نماز کے وقت بچےکو ساتھ لے کر یا گود میں اٹھا کر نماز پڑھنا پڑتی ہے۔ اس وقت فطرتاً نماز سے زیادہ بچےکی طرف توجہ رہتی ہے۔ اس سے ہم نماز کی فضیلت سے محروم تو نہیں ہو رہی ہوتیں؟ حضور نے فرمایا:

جواب: نہیں محروم نہیں ہو رہی ہوتیں۔ لیکن آپ یہ کیا کریں کہ جب بچہ روتا ہے تو اس کو گود میں اٹھا لیا اور نماز پڑھ لی اورپھر جب سجدہ میں گئے تو بچہ کو ایک سائیڈ پر بٹھا دیا پھر نماز پڑھ لی۔ یہ تو اضطراری حالت ہے اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔ کیونکہ آپ نیک نیتی سے نماز پڑھ رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دیتا ہے۔ لیکن نماز کا وقت آپ کے پاس کافی ہوتا ہے۔ فجر کے وقت تو بچے عموماً سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یا فیڈر یا دودھ دے کے، یا فیڈ دے کے اس کو سُلا کے آپ آرام سے فجر کی نماز پڑھ سکتی ہیں۔ عام طور پہ کوشش یہ کریں کہ بچہ کو سلانے کے بعد یا بچہ کو فیڈ دے دی ہے تو پھر اس کے بعد اس کو لٹا کے اگر وقفہ ہے تو پھرآرام سے نماز پڑھیں۔ اور اگر وقفہ تھوڑا ہے مثلاً سورج ڈوب رہا ہے یا فجر کی نماز پہ سورج نکل رہا ہےتو پھر مجبوری ہے کہ جلدی جلدی نماز پڑھ لینی ہے۔ یاآپ کی عصر کی نماز سورج ڈوبنے کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے تو جلدی سے پڑھ لیں۔ لیکن عموماً کوشش یہ کریں کہ بچہ سے فارغ ہونے کے بعد اس کو سلا کے، لٹا کے آپ اپنی نماز پڑھ لیں۔ لیکن اگر مجبوری میں آپ کو بچہ کو گود میں لے کے پڑھنی بھی پڑھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ا س میں کوشش کریں کہ جتنی زیادہ توجہ آپ نماز کی طرف قائم کرسکتی ہیں قائم رکھیں، نماز کے جو الفاظ ہیں ان پہ غور کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ثواب دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ رحمٰن، رحیم ہے اور بخشش کرنے والا بھی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ یہ ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کو ساری صورت حال پتہ ہے۔ لیکن اگر ساری کوششوں کے باوجود کسی عورت کے پاس وقت نہیں رہتا اور اس کو بچہ کو گود میں لے کے نماز پڑھنا مجبوری ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دینے والا ہے، دیتا ہے۔

سوال: اسی ملاقات میں ایک لجنہ ممبر نے دریافت کیا کہ کئی دفعہ شادی کے بعد لڑکیاں اپنا نام بدل کر خاوند کے نام کے ساتھ ملا کر رکھ لیتی ہیں۔ اسلامی نظریہ کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے؟ حضور انورنے اس سوال کے جواب میں فرمایا:

جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔ رکھ لیتی ہیں تو کیا ہوگیا؟ اب ان کی جو پہچان ہے سرکاری کاغذوں میں، تو مجبوری ہے۔ بعض دفعہ سرکاری کاغذوں میں ایک نام مثلاً عطیہ بابر کسی نے اپنے باپ کے نام سے نام رکھا ہوا ہے۔ تو جب اس کی شادی ہو جائے گی، اس کی رجسٹریشن ہو جائے گی تو رجسٹریشن میں، اس کے نکاح فارم یا سرکاری کاغذوں میں اس کا نام عطیہ مبشر کے نام سے اگر آجائے گا، بابر کی جگہ مبشر آ جائے گا تو اس میں کیا حرج ہے؟ کوئی حرج نہیں اس میں۔ اسلام میں اس کی بالکل اجازت ہے کہ خاوند کے نام سے نام رکھ لیا جائے۔ اصل نام اس کا عطیہ ہے۔ دوسرا نام تو پہچان کےلیے رکھا ہوا ہے، پہلے باپ اس کی پہچان تھا اب شادی کے بعد خاوند اس کی پہچان ہوگیا۔ بلکہ اچھی بات ہے جو خاوند کی پہچان کے ساتھ نام رکھیں گے تو خاوند کو اپنی بیوی کی عزت کا خیال رہےگا اور بیوی کو اپنے خاوند کی عزت کا خیال رہے گا۔ اور دونوں میں اس سے پیار اور تعلق زیادہ قائم ہوگا۔ اس لیے خاوند کے نام سے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

سوال: اسی ملاقات میں ایک لجنہ ممبرکا سوال پیش ہوا کہ ان Pandemicحالات میں ہم پہلے کی طرح تبلیغ نہیں کر پا رہی ہیں۔ اب ان حالات میں ہم کس طرح اپنے کام کو جاری رکھ سکتی ہیں۔ حضور اس معاملہ میں ہماری راہ نمائی فرما دیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا:

جواب: اب مجبوری ہے باہر تو نکل نہیں سکتے۔ بعض ملکوں میں حکومت کی طرف سے کووڈ کی وجہ سے Social Distancingاور بعض دوسری چیزوں کی بعض پابندیاں ہیں۔ لیکن اس میں آن لائن اپنے ذاتی رابطے کیے جا سکتے ہیں۔ جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے انہوں نے سوشل میڈیا پہ آن لائن تبلیغ کےلیے پروگرام بنا لیے ہیں۔ اگر آپ کا تبلیغ ڈیپارٹمنٹ سوشل میڈیا پہ کوئی ویب سائٹ بنا لیتا ہے تو اس پہ لجنہ تبلیغ کر سکتی ہیں، ساری لجنہ شامل ہو سکتی ہیں۔ پھر اپنے Contacts کو فون کر کے یا سوشل میڈیا کے ذریعہ سے Message بھیج کے تبلیغ کرسکتی ہیں۔ اسلام کی تعلیم کے بارے میں کوئی اچھا Message، کوئی اچھا Quoteبھیج دیا۔ اس سے پھر آہستہ آہستہ رستے کھلتے ہیں۔ توان حالات میں بھی تبلیغ کرنے کے نئے نئے رستے Explore ہو سکتے ہیں، وہ تو خود کوشش کر کے Explore کرنے چاہئیں۔ ٹھیک ہے؟

سوال: اسی ملاقات میں ایک لجنہ ممبرنے حضور سے دریافت کیا کہ شادی کے معاملے میں دین کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔ مگر آج کل لوگ خوبصورتی اور دوسری خصوصیات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے جماعت کی کافی نیک اور دینی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی، اس بارے میں حضور سے راہنمائی کی درخواست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

جواب: دیکھیں ہم نے تو کوشش کرنی ہے اور میں تو کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لڑکوں کو بھی سمجھاتا رہتا ہوں۔ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہی فرمایا ہے کہ تم لوگ جو کسی سے شادی کرتے ہو تو اس کی خصوصیات کی بنا پر کرتے ہو یا اس کا خاندان دیکھتے ہو یا اس کی شکل دیکھتے ہویا اس کی دولت دیکھتے ہو۔ لیکن ایک مومن جو ہے اس کو ہمیشہ عورت کا دین دیکھنا چاہیے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر لڑکوں میں دین نہیں ہوگا تو وہ لڑکیوں کا دین کس طرح دیکھیں گے؟ تو جو جماعتی نظام ہے اور خدام الاحمدیہ ہے، میں ان کو بھی کہتا ہوں کہ لڑکوں میں دینداری پیدا کرو۔ جب لڑکوں میں دینداری پیدا ہوگی تو پھر وہ یقیناً ایسی لڑکیوں سے شادی کرنے کی کوشش کریں گے جو دیندار ہوں۔ تو یہ تربیت کا معاملہ ہے اور اس طرف میں جماعت کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں اور انصار اللہ کو بھی توجہ دلاتا رہتاہوں۔ لیکن لجنہ کا کام یہی ہے کہ وہ خود بھی کوشش کریں، جو بڑی عمر کی لجنہ ممبرات ہیں، مائیں ہیں وہ بھی اپنے بچوں اور لڑکوں کی تربیت کریں، ان کو توجہ دلائیں کہ تم نے نیک اور دیندار لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ اگر مائیں اپنا کردار ادا کریں گی تو یقیناً ان کے لڑکے بھی دیندار لڑکیوں سے شادی کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب لڑکے کی شادی کا معاملہ آتا ہے تو مائیں کہتی ہیں کہ ہمارا بچہ جو ہے ہم اس کی شادی اپنی مرضی سےکریں گے۔ اور جب لڑکیوں کی عمر گزر رہی ہوتی ہے اور لڑکیوں کے رشتے نہیں ملتے، جب وہ بڑی ہو جاتی ہیں، تو پھر مائیں اور باپ کہتے ہیں کہ جماعت ان کی شادی کروادے۔ حالانکہ دونوں کو جماعت کے سپرد کرنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ دیندار لڑکے اور دیندار لڑکیاں آپس میں مل کر شادیاں کریں تا کہ جماعت کے اندر ہی لڑکے اور لڑکیاں رہیں اور آئندہ بھی نیک اور دیندار نسل پیدا ہوتی رہے۔ تو یہ تو کوشش ہے، مردوں کی بھی اور عورتوں کی بھی مشترکہ کوشش ہے، جو مل کے کرنی چاہیے۔ اس میں ماوٴں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور باپوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کےلیے میں کوشش بھی کرتا ہوں، میں توجہ بھی دلاتا ہوں، دعا بھی کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔

سوال: اسی ملاقات میں ایک سوال حضور انور کی خدمت اقدس میں یہ پیش ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا امر سب سے پسندیدہ اور کونسا امر سب سے نا پسندیدہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارے میں فرمایا:

جواب: بات یہ ہے کہ ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا کہ کونسی نیکی ہے جو میں اختیار کروں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنے ماں باپ کی خدمت کرو جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ ایک دوسرا شخص آیا اس نے کہا کونسی نیکی ہے جو میں کروں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم مالی قربانی کرو، یہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ تیسرا شخص آیا اس نے کہا بتائیں کونسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جو میں کروں۔ آپؐ نے کہا اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اسی طرح چوتھا شخص آیا اس کو ایک اور بات بتائی۔ تو آنحضرتﷺ ان کے حالات جانتے تھے اور پتہ تھا کہ کس کس میں کون کون سی کمزوریاں ہیں۔ کچھ ان کے حالات جاننے کی وجہ سے پتہ ہوں گی، کچھ اللہ تعالیٰ بھی راہ نمائی کرتا ہوگا۔ تو ہر ایک کے حالات کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ یہ انسان کو خود جائزہ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات سو احکام دیے ہیں۔ نیکیاں بھی بتائی ہیں، نواہی بھی بتائے ہیں۔ یہ بھی بتایا ہے کہ کیا کام کرنے ہیں اور کیا منع ہیں۔ اوامر کیا ہیں اور نواہی کیا ہیں۔ کرنے والے کام کیا ہیں اور نہ کرنے والے کام کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی لسٹ بتا دی۔ اب خود انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ میرے میں کونسی کمزوری ہے جس کو میں دور کروں اور کونسی نیکی ہے جو میں نہیں کرتا اس کو میں کروں۔ تو اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے کر خود یہ کرے تو اصلاح پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے اپنے نفس سے فتویٰ لینا چاہیے۔ ہر ایک فتویٰ Black and White میں ظاہر نہیں ہوجاتا۔ اصولی طور پر یہی حکم ہے کہ اپنی کمزوریوں کو تلاش کرو اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ اورنہ صرف کمزوریاں دور کرو بلکہ نیکی بھی کرو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو بنیادی اصول بتا دیا وہ یہ بتا دیا کہ تمہارے دو کام ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو، اس کی عبادت کا حق ادا کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق صحیح طرح ادا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پھر انسان کو توفیق دیتا ہے کہ وہ نیکیاں ہی کرتا رہے۔ کیونکہ اس کی عبادت کا حق ادا ہو رہا ہوتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے بندوں کا حق ادا کرو۔ جب انسان اس کے بندو ں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر کسی سے برائی نہیں کرتا اور پھر مزید نیکیوں کی بھی توفیق ملتی چلی جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ تو بنیادی چیز یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو۔ باقی انسان تفصیلات میں جائے تواپنا خود جائزہ لے، اپنے ضمیر سے دیکھے، پوچھے کہ کیا برائیاں ہیں جو میں نے چھوڑنی ہیں اور کیا نیکیاں ہیں جو میں نے کرنی ہیں۔ باقی یہ بھی ہے کہ ایک شخص آیا اس نے آنحضرتﷺ سے کہا کہ میں اتنا نیک نہیں ہوں، میرے میں بہت ساری برائیاں ہیں۔ آپ مجھے ایک برائی بتا دیں جو میں چھوڑدوں، باقی میں ابھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: اچھا تم یہ عہد کر لو کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا، ہمیشہ سچ بولنا ہے۔ جب اس نے ہمیشہ سچ بولنے کا ارادہ کیا تو ہر دفعہ جب کوئی برائی کرنے لگتا تھا تو اسے خیال آتا تھا کہ اگر آنحضرتﷺ نے پوچھا کہ تم نے یہ برائی کی ہے تو اگر میں سچ بولوں گا تو شرمندگی ہو گی، جھوٹ بولوں گا تو میں نے وعدہ کیا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اس طرح آہستہ آہستہ اس کی ساری برائیاں ختم ہو گئیں۔ تو انسان کو خود دیکھنا چاہیے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ اس لیے انسان کو جائزہ لینا چاہیے کہ میں نے چھوٹی سے چھوٹی با ت پہ بھی جھوٹ نہیں بولنا کیونکہ یہ شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کو شرک نا پسند ہے۔ تو یہ بہت ساری باتیں ہیں جو ہر ایک کے حالات کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ اس لیے خود جائزہ لے لیں کہ کیا کمی ہے۔ لیکن بنیادی اصول یہی ہے کہ اللہ کا حق ادا کرو اور بندوں کا حق ادا کرو اور جب کوئی کام کرنے لگو تو یہ دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ جب یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے، میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو پھر انسان برائی سے رُکے گا اور نیکیاں کرے گا۔

سوال: اسی Virtual ملاقات مورخہ 14؍نومبر 2020ء میں صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ بنگلہ دیش نے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور بنگلہ دیش کی لجنہ اور ناصرات کےلیے کوئی پیغام ارشاد فرما دیں جو اس میٹنگ کے بعد وہ سب کو پہنچا دیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ۔

جواب: سب کو میراالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہنچا دیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیں کہ اپنے ایمان پہ قائم رہنا۔ مشکل حالات آتے ہیں، پریشانیاں آتی ہیں، تکلیفیں آتی ہیں، اس کو کبھی اپنے دین پہ حاوی نہ ہونے دینا۔ اور ہمیشہ ہر مشکل اور ہر تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا۔ اور کسی انسان سے کسی قسم کی امید نہ رکھنا۔ اور اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنی نسل کی تربیت کےلیے عہد کرو کہ ہم نے انہیں نیک اور صالح بنانا ہے اور صحیح مومن بنانا ہے۔ اور اگر یہ دعا کریں گی اور اپنے بچوں کےلیے کوشش کریں گی تو ظاہر ہے کہ خود بھی اس کےلیے کوشش کرنی پڑے گی۔ اس لیے اپنی اصلاح کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دیں تاکہ آئندہ نیک نسلیں پیدا ہوتی رہیں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ہماری عورتوں کی اصلاح ہو جائے اور ہماری عورتیں نیک ہو جائیں، ہماری عورتیں تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے لگیں تو ہماری نسلیں انشاء اللہ تعا لیٰ محفوظ ہو جائیں گی، پھر ہمیں کوئی فکر نہیں ہوگی۔ یہی لجنہ اماءاللہ کا کام ہےاور یہی میرا پیغام سب لجنہ اماءاللہ کو اور سب ناصرات کو ہے جنہوں نے آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ مائیں بننا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button