متفرق مضامین

10 محرم یومِ عاشورہ۔ حضرت نوحؑ اور حضرت موسیٰؑ کی ظالموں سے نجات کا دن

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

شہادتِ عظیم حضرت امام حسینؓ سے قبل محرم کے دسویں تاریخ کا ایک اور اسلامی تاریخی پسِ منظر عاشوراء کا روزہ رکھنا ہے۔ اس مضمون میں اس پسِ منظر کے حوالہ سے چند جماعتی حوالہ جات کا ایک مجموعہ پیشِ خدمت ہے۔

روزے رکھنا سنّت انبیاء ہے۔ نبی کریمؐ بھی روزہ کی عبادت کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ نبوت سے قبل عربوں کے دستور کے مطابق دسویں محرم کاروزہ رکھتے تھے۔ نبوت کے بعد بھی مکہ میں آپؐ کئی مہینوں تک یہ روزہ رکھتے رہے۔مدینہ آکربھی روزہ رکھا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔رمضان کے علاوہ مدینہ میں آپؐ شعبان کا اکثر مہینہ روزے رکھتے تھے۔(بخاری کتاب الصوم باب صوم شعبان:1834۔ بحوالہ اسوۂ انسانِ کامل)

موسیٰ کے ساتھ تعلق کا سب سے زیادہ حقدار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ایسے یہودیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے یوم عاشورہ کے روز کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: یہ کیسا روزہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ آج کے دن ہی اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا۔ اور اس روز فرعون غرق ہوا تھا، نوح کی کشتی جُودی پہاڑ پر رکی تھی۔ نوح علیہ السلام نے اور موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں موسیٰ کے ساتھ تعلق کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اور اسی وجہ سے اس دن روزہ رکھنے کا بھی میں زیادہ حقدار ہوں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی عاشورہ کا روزہ رکھنے کا فرمایا۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 360-359 مطبوعہ بیروت)

(خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء)

حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ

’’رمضان کے روزے فرض کئے جانے سے پہلے آپؐ نفلی روزے بھی رکھتے تھے،مگر وہ اس طرح باقاعدہ اورمعیّن اورموّقت صورت میں مشروع نہیں ہوئے تھے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل آپؐ یوم عاشورہ یعنی محرم کی دسویں تاریخ کاروزہ رکھا کرتے تھے اورصحابہ کوبھی اس کی تحریک فرماتے تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ﷺصفحہ 337)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ

بائبل میں روزوں کا ذکر ملتاہے۔ مثلاً دسویں محرم کے متعلق آتا ہے کہ یہ وہ دن تھا جب فرعون کے ظلموں سے بنی اسرائیل کو نجات دی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں آتا ہے کہ اس دن کو یاد رکھو اور روزہ رکھو (احبار باب 14:29۔34)۔ لیکن روزوں کا پورا ایک مہینہ فرض ہونا پہلے کبھی کسی قوم میں نظر نہیں آتا۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10جون 1983ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ

مدینہ میں شروع میں حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ صرف عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور قطعی طور پر یہ ثابت ہے بخاری میں بھی یہ حدیث ہے اور دوسری کتب میں بھی کہ جب آنحضرتﷺ ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں یعنی دسویں محرم کا۔ اس پر آنحضورﷺنے پوچھا کہ کیوں رکھتے ہیں تو کسی نے بتایا کہ اس لئے کہ ان کی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو فرعون کے مظالم سے دسویں محرم کو نجات ملی تھی۔ (مسلم کتاب الصیام یوم عاشوراء حدیث نمبر:2545)

 اس لئے اس دن کو خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا دن مناتے ہیں اور اس لئے روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضرت اقدس محمد مصطفیﷺنے فرمایا کہ موسیٰ یہود کے مقابل پر ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ اس لئے یہ اعلان کر دو،غالباً یہ اعلان ہوا ہے اسی دن یعنی جب روزہ تھا، اس سے پہلے ایک رات معلوم ہوا ہے کیونکہ روایت میں پتا چلتا ہے کہ آپ نے یہ اعلان کروایا صبح کے وقت کہ جس شخص نے صبح روزے کا وقت شروع ہونے کے بعد اس اعلان کے سننے تک کچھ نہیں کھایا وہ کچھ نہ کھائے اور آج عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو کوئی کھا چکا ہے وہ اس کے بدلہ پھر کسی دن عاشورہ کا روزہ رکھے جس طرح رمضان کے روزے بعد میں بھی رکھے جا سکتے ہیں۔

تو یہ پہلی مرتبہ آنحضورﷺ نے عاشور ہ کا روزہ جو رکھا وہ یہود کی اس روایت پر بنا کرتے ہوئے اور اس کی پہلی مرتبہ تلقین فرمائی لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس سے پہلے خود روزے نہیں رکھتے تھے اس سے انکار نہیں ہوتا۔اس روایت سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے روزوں کی اپنے متبعین کو جو ہدایت فرمائی ہے وہ پہلی مرتبہ عاشورہ کے روزے کے متعلق فرمائی اور تاکید فرمائی کہ یہ چونکہ موسیٰ کی رہائی کا دن ہے اس لئے ہم سب اس میں روزہ رکھیں گے۔ اب قرآن کریم کا ایک کثیر حصہ نازل ہو چکا تھا اور اس میں رمضان کا کوئی ذکرنہیں تھا۔ پھر جب رمضان کے روزے رکھنے کا حکم آیا تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اب اس کے بعد آزادی ہے چاہو تو عاشورہ کا روزہ رکھو چاہو تو نہ رکھو۔ خدا نے ہمیں اپنے ہمارے روزے عطا کر دیئے ہیں۔ (بخاری کتاب الصوم باب الصیام یوم عاشوراء حدیث نمبر :2001)

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15اپریل 1988ء بمقام بیت الفضل لندن)

یومِ عاشورہ

حضرت موسیٰؑ اور حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کا تعلق

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ

’’اب میں اس مضمون کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض احادیث سے مزید واضح کرتا ہوں۔یہ بات کہ آئندہ زمانے میں امت محمدیہ کے ساتھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس واقعہ کا ایک تعلق ہوگااوراس فرعون کاایک تعلق ہوگا یہ بات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمائی اور آپ نے اس کاخوب کھول کرذکر فرمایا۔ جامع ترمذی کتاب الصوم باب ماجاء فی صوم المحرم اس میں ایک روایت ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے

سالہ رجل فقال ای شھر تامرنی ان اصوم بعد شھر رمضان قال لہ ماسمعت احد یسال عن ھذا الا رجلا سمعتہ یسال رسول اللہ ۖو انا قاعد عندہ فقال یا رسول اللہ ای شھر تامرنی ان اصوم بعد شھر رمضان قال ان کنت صائما بعد شھررمضان فصم المحرم فا نہ شھراللہ فیہ یوم تاب فیہ علی قوم و یتوب فیہ علی قوم اخرین

ترمذی کی اس حدیث کی شرح میں حاشیہ میں لکھا ہے قوم موسیٰ نجاھم اللہ من فرعون و اغرقہ’ کا اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس قوم کاذکر فرمایا ہے وہ موسیٰ کی قوم تھی اُن کو تواللہ تعالیٰ نے فرعون سے نجات بخشی اورفرعون کوغرق فرمادیا۔اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ مجھے نصیحت فرمائیں کہ میں رمضان کے علاوہ کس مہینے میں روزے رکھوں۔آپ ؐنے فرمایا تم سے پہلے صرف ایک شخص کو میں نے ایسا سوال کرتے ہوئے سنا ہے اور وہ شخص تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کررہا تھا۔اُس کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے رمضان کے سوا کسی مہینے میں روزے رکھنے ہیں یعنی کسی ایک مہینے میں خاص طورپر روزے رکھنے ہیں تو محرم کو اختیار کروکیونکہ وہ خدا کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن آتا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی طرف توجہ فرمائی اوراُس کی توبہ کو قبول فرمایااوراس قوم کو نجات بخشی اُس کی توبہ کے نتیجے میں ”و یتوب فیہ علی قوم اخرین” اور اسی طرح اللہ تعالیٰ آئندہ زمانے میں آخرین میں بھی اسی واقعہ کودہرائے گا اورآخرین میں بھی بعض لوگوں کی توبہ کو قبول فرماتے ہوئے اُنہیں فرعون سے نجات بخشے گااوریہ اسی مہینے میں ہونے والا واقعہ ہے

 اس کے بعد اُس دن کی تعین فرمائی کہ ایسا کس دن میں ہوا تھا۔اورآئندہ بھی اسی دن کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔محرم کا مہینہ تو واضح فرمادیا۔

عن انس قال سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الایأم وسئل عن یوم الاربعاء قال یوم نحس قالوا وکیف ذاک یا رسول اللہ قال اغرق فیہ اللہ فرعون وقومہ’۔ (الدرالمنثورلسیوطی جلد6صفحہ:135)

کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنوں اور بالخصوص بدھ کے دن کے بارے میں پوچھا گیا توآپ ﷺ نے فرمایا منحوس دن۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیسے توفرمایا اس روز اللہ نے فرعون اوراُس کی قوم کو غرق کیا تھا تومحرم اوربدھ کادن یہ وہ نشان دہی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے1400سال پہلے فرماچکے ہیں اور خود آپ کے ارشاد کے مطابق قوم موسیٰ کے ساتھ گزرنے والے واقعات میں سے خصوصاً فرعون والا واقعہ دہرایا جائے گا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق آئندہ قوم آخرین میں یہ واقعہ دہرایا جانے والا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ قوم آخرین کون سی ہے۔ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید وضاحت فرمائی۔ترمذی ابواب الصوم باب ماقیل یوم العاشورة (حدیث نمبر:672) اس میں درج ہے:

 حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ وہ دن ہیں جن میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو فرعون پر غلبہ ملا اور سمندر سے نجات حاصل ہوئی اور اس طرح کا ایک اور واقعہ میری اُمت میں بھی آئندہ زمانے میں ہونے والا ہے۔ تو قوم آخرین سے مراد کوئی دوسری قوم نہیں بلکہ اُمت محمدیہ ہی ہے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اگر یہ وضاحت نہ بھی ہوتی تب بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اور کس کی اُمت کے حق میں خدا نشان ظاہر فرماسکتا ہے۔اس لئے وہ تو بہرحال قطعی بات ہے لیکن مزید تقویت ایمان کی خاطر میں یہ حدیث بھی آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے آج سے تقریباً86سال پہلے یہ خبردی کہ یہ واقعہ آپ کے زمانے میں ہونے والا ہے۔آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہیں جن کی یہ پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔چنانچہ الہاماًآپ سے یہ فرمایا گیا

”یاتی علیک زمن کمثل زمن موسیٰ”(تذکرة صفحہ:366)

کہ تجھ پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جیسا موسیٰ کے اوپر ایک زمانہ آیا تھا۔21دسمبر1902ء۔ الحکم24 دسمبر1902ء میں یہ شائع ہوا۔اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو 18 مارچ 1907ء کووصال سے قریباًایک سال پہلے یہ الہام ہوا:

” ایک موسیٰ ہے میں اُس کو ظاہر کروں گااورلوگوں کے سامنے اُس کوعزت دوں گا۔”(تذکرہ صفحہ:596)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا:

انہ’ کریم”تمشی امامک وعادٰی من عادٰی۔

فرمایا:کل جو الہام ہوا تھا یأتی علیک زمن کمثل زمن موسیٰ یہ اُسی الہام سے آگے معلوم ہوتا ہے جہاں ایک الہام کا قافیہ دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہام ایک دوسرے سے دس دن کے فاصلہ سے ہوں مگرمیں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا تعلق آپس میں ضرور ہے۔یہاں بھی موسیٰ اور عادیٰ کاقافیہ ملتا ہے اور پھرتوریت میں اس قسم کا مضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ توچل اورمیں تیرے آگے چلتا ہوں”۔(تذکرہ صفحہ:367-366)

 ان امور سے یہ ثابت ہوا کہ فرعون کے ساتھ ہونے والے واقعات اورحضرت موسیٰ علیہ الصلوٰةوالسلام کے ساتھ فرعون نے جو مظالم کئے اُن کے جواب میں خداتعالیٰ کی ایک ایسی تقدیرظاہر ہوئی تھی جس نے دوبارہ ظاہر ہونا تھااورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک عظیم الشان معجزہ قرآن کریم کے ایک بیان کی صورت میں ظاہر ہوا۔جس نے گزشتہ تاریخ کے ایک ایسے چھپے ہوئے واقعہ کو روشن کردیا جس کے متعلق کوئی دنیا کااندازہ لگانے والا، کوئی سائنس دان، کوئی مفکر وہم وگمان بھی نہیں کرسکتا تھا۔چنانچہ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جب بعض دہریہ مجھ سے خداتعالیٰ کی ہستی کے ثبوت مانگتے ہیں تو اُن کو میں ایک مثال یہ دیا کرتا ہوں۔ میں اُن سے کہتا ہوں اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادہ ہے اور غیب کا علم تم لوگ کہہ سکتے ہو کہ ٹامک ٹویوں کے ذریعے زائچوں کے ذریعے معلوم کیاجاسکتا ہے مگر قرآن کریم نے تین قسم کے غیب ایسے بیان فرمائے ہیں جن کے متعلق تم خود ماننے پر مجبور ہوجائو گے کہ کوئی زائچہ کوئی اندازہ اس قسم کے غیب پر انسان کوغلبہ نہیں دے سکتا۔ایک غیب کا تعلق ہے ماضی کے واقعات سے اوراُن میں سے سب سے نمایاں واقعہ یہ فرعون والا واقعہ ہے کوئی انسان یعنی حضرت موسیٰ کے زمانے کے بعد جو تقریباً1900سال کے بعد آیا ہو وہ 1900سال کے پہلے ہونے والے اس واقعہ کے متعلق ایسا اندازہ لگائے جس کو انسانی فطرت رد کرتی ہو اور جس کا اُس سے ثبوت مانگا جائے تو کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے۔سوسال گزر جائیں۔دوسوسال گزرجائیں۔تین سوسال گزرجائیں۔ہزارسال گزرجائیں۔اُس پر تین سوسال گزرجائیں اوراُس وقت تک اگر مسلمانوں سے پوچھا جائے کہ بتاؤ کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ فرعون کی لاش محفوظ ہے تو کوئی جواب نہ دے سکیں۔کوئی ادنیٰ سی عقل رکھنے والا انسان بھی ایسی گپ بنا نہیں سکتا اگر یہ گپ ہو۔عالم الغیب والشھادة خدا سے جس کا تعلق نہ ہو ایسی بات وہم وگمان میں بھی نہیں لاسکتا۔چنانچہ جب بھی میں نے بات بعض دہریوں کے سامنے رکھی کبھی وہ اس کاجواب نہیں دے سکے۔آپ بھی تجربہ کرکے دیکھیں یہ ایک ایسامعجزہ ہے قرآن کریم کا جس کی کوئی نظیر آپ کو کسی جگہ نہیں ملے گی۔ماضی بعید کے ایک ایسے دور کے واقعہ کودہرانا اوراس کے ایک ایسے پہلو کو اُجاگرکرنا جو تاریخ میں کہیں مذکور نہیں اور جس کے متعلق دعویٰ کرنا خوداپنے آپ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔نعوذ باللہ من ذالک ان معنوں میں ایک ایسادعویٰ پیش کرنا جس کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا،جس کو بظاہر تاریخ جھٹلارہی ہے۔ جس کو ہر معقول آدمی رد کرتا چلا جائے گا کہ یہاں تک1300سال کے بعد خداتعالیٰ کی تقدیر اُس کی سچائی میں ایسے ثبوت مہیاکردے گی جن کو زمین اُگلے گی اوردنیا اُس کا انکار نہیں کرسکے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1988ء بمقام بیت الفضل لندن)

محرم کے بجائے رمضان ہی سال کا پیمانہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ

’’رمضان مبارک بھی آنے والا ہے۔ پچھلے رمضان سے اس کا موازنہ بھی ہم کریں گے  انشاء اللہ اور میں گزشتہ رمضان میں یہ آپ کو واضح طور پر نصیحت کر چکا ہوں کہ رمضان سے رمضان کے سفر کا بھی جائزہ لیا کریں۔ سال کبھی ایک خاص مقام سے باندھے جاتے ہیں اور خاص مقام تک چلتے ہیں۔ کہیں ایک دوسرے مقام سے باندھے جاتے ہیں اور پھر اسی مقام تک آئندہ سال تک چلتے ہیں۔ تو جہاں تک انگریزی مہینوں کا تعلق ہے اس کا سفر یکم جنوری سے شروع ہو گا اور 31 دسمبر پہ ختم ہو گا۔ جہاں تک اسلامی مہینوں کا تعلق ہے رمضان سے ہمارا سال شروع ہوتا ہے یعنی عملًا ہم شعوری طور پر رمضان ہی سے سال شروع کرتے ہیں اگرچہ محرم سے سال شروع ہوتا ہے مگر میرے نزدیک تو رمضان ہی ہے سال کا پیمانہ۔ رمضان سے شروع ہوتا ہے اور رمضان پر جا کر ختم ہوتا ہے۔‘‘

   (خطبہ جمعہ فرمودہ 29 دسمبر1995ء بمقام بیت الفضل لندن)

محرم کی ابتدائی دس راتوں کا قرآن میں ذکر نہیں ہے

وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ اس سے بعض لوگ محرم کی دس راتیں بھی مراد لیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اس کے ردّ میں فرماتے ہیں کہ :

’’دوسریؔ تو جیہ محرم کی راتوں کی ہے۔ اس میں بھی اگر تو صرف اتنا ہوتا کہ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ توجیہ چسپاں ہو جاتی اور ہمیں اس تفسیر کو درست تسلیم کرنا پڑتا کیونکہ حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں یہ وہ دن ہیں جن میں حضرت موسٰی علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ ملا اور سمندر سے نجات حاصل ہوئی۔ اور اسی طرح کا ایک واقعہ میری اُمت میں بھی آئندہ زمانہ ہو گا (ترمذی ابواب الصوم باب ماقیل فی یوم عاشوراء )

پس جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ ذی الحجہ کی دس راتوں پر چسپاں ہو سکتا ہے اسی طرح اگر وَالْفَجْرِ وَلَیَالِ عَشْرٍ میں حضرت موسٰی علیہ السلام کے اس عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ سمجھا جائے تو کوئی بڑے سے بڑا معتبر بھی اس کی عظمت اور اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں وَالْفَجْرِ سے محرم کی دسویں رات کی صبح مراد لی جائے گی اور لَیَالٍ عَشْرٍ سے محرم کی ابتدائی دس راتیں۔ کیونکہ ان دس راتوں میں سے کچھ وقت حضرت موسٰی علیہ السلام کا فرعون سے بحث کرنے میں گزرا ہو گا۔ کچھ وقت سامانِ سفر کو درست کرنے میں صرف ہؤا ہو گا اور اس لحاظ سے ان تمام راتوں کو ہی خدا تعالیٰ کا ایک نشان قرار دینا پڑے گا۔ بہرحال اگر صرف وَالْفَجْرِ وَلَیَالَ عَشْرٍ تک ہی آیت ہوتی تو ہم تسلیم کر لیتے کہ فجر سے مراد وہ فجر ہے جب حضرت موسٰی علیہ السلام مصر سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر اور فرعون سمندر میں غرق ہؤا۔ اور وَلَیَالَ عَشْرٍ سے مراد محرم کی ابتدائی دس راتیں ہیں کیونکہ وہ سب کی سب خدا تعالیٰ کے لئے اس نشان کی مظہر ہیں کہ بنی اسرائیل نے موسٰیؑ کی پیروی میں فرعون کے مظالم سے نجات حاصل کی۔ مگر اس موقع پر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کا اس واقعہ سے کیا جوڑ ہؤا یہ بالکل تشنۂ تفسیر رہ جاتا ہے۔

 اسی طرح یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت موسٰی علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اس میں اشارہ ہے تو وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کے کیا معنے ہوئے اور محرم کی دس راتوں اور حضرت موسٰیؑ کے واقعہ سے اس کا کیا جوڑ ہے؟ اگر صرف فجر اور دس راتوں کا ذکر ہوتا تو عقلی طور پر ہم اس توجیہ کو تسلیم کرنے میں ہر گز وکوئی عذر نہ تھا جس طرح عقلی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ پر ذوالحجہ کی دس راتیں یا یوم النحر کی فجر چسپاں ہو سکتی ہے اسی طرح عقلی طور پر حضرت موسٰی علیہ السلام کا یہ واقعہ بھی چسپاں ہو سکتا ہے۔ پس اگر صرف اتنی ہی آیت ہوتی تو کوئی شخص اس واقعہ کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتا تھا بلکہ ہر شخص کے نزدیک یہ شہادت ایک اہم شہادت ہوتی۔ ایک اہم قسم ہوتی اور فرعون بخش قسم ہوتی مگر اگلی دو آیتیں ہمیں اس طرف بھی جانے نہیں دیتیں۔

(تفسیر کبیر جلد 8صفحہ 495 تا 496)

محرم میں درود شریف پڑھنے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ محرم کے ایام میں دعاؤں اور درود شریف کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

دعاؤں کی قبولیت اور محرم کے حوالے سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں، اس مہینے میں درود شریف پر بہت زیادہ زور دیں کہ قبولیت دعا کے لئے یہ نسخہ آنحضرتﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور آنحضرتﷺ کے عاشق صادق نے اپنے عملی نمونہ سے درُود شریف کی برکات ہمارے سامنے پیش فرما کر ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ درُود پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو اس معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہو گی جس سے درُود فائدہ دیتا ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2009ء)

 اللہ تعالیٰ ہمارے لئے نیا سال مبارک فرمائے اور تمام مسلم امت اور خصوصاً احبابِ جماعت احمدیہ کے لئے نیا سال نہایت برکات لئے ہوئے وارد ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں اور دورد شریف  کے وردکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

محرم اور بد رسومات

حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے مختلف مواقع پر محرم کی رسومات کے حوالہ سے سوالات ہوئے وہ سوال و جواب حسبِ ذیل ہیں۔

ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہواکہ محرم کے دنوں، اِمَا مَین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا:

’’ عام طورپر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔ رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا جائز نہیں ہے۔ ‘‘

(الحکم 17مئی1901ء صفحہ12)

 (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ253)

سوا ل پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کاروزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ فرمایا: ’’ضروری نہیں ہے۔ ‘‘

(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)

سوال پیش ہوا کہ محرّم میں جو لوگ تابوت بناتے ہیں اورمحفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ فرمایا : ’’ گناہ ہے۔‘‘

(بدر14مارچ1907ء صفحہ5)

قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت وچاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ لِلّٰہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:

ایسے کاموں کے لیے دن اور وقت مقرر کردینا ایک رسم وبدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اس سے پرہیز کرنا چاہئے کیوں کہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں۔ ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کرلیا ہے اس لیے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے۔ (بدر14مارچ1907ء صفحہ5)

حضرت شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالویؓ تحریر فرماتے ہیں کہ

خاکسار نے (حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں۔ ناقل)عرض کیا کہ میں نے بار ہا صوفیاء کی مجلس حال وقال میں اور شیعہ وغیرہ کی مجالس محرم وغیرہ میں قصداً اس غرض سے شامل ہو کر دیکھا ہے کہ یہ اس قدر گریہ وبکا اور چیخ وپکار جو کرتے ہیں مجھ پربھی کوئی حالت کم ازکم رقت وغیرہ ہی طاری ہو مگر مجھے کبھی رقت نہیں ہوئی۔

جواب: حضور نے فرمایا کہ ان مجالس میں جوشور وشغب ہوتا ہے اس کا بہت حصہ تو محض دکھاوے یا بانی مجلس کے خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے اور باقی رسم اور عادت کے طور پر بھی وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ایسا کرنا موجب ثواب ہے۔ لیکن مومن کے لئے رقیق القلب ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے نمازیں وقت پر اور خشوع خضوع سے اد اکرنااور کثرت استغفار ودرود شریف اور نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے وقت اھدنا الصراط المستقیم کا تکرار بطور علاج فرمایا۔

(سیرت المہدی روایت نمبر 1114)

یہ رسومات بدعت ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کسی صحابیؓ یا تابعی جو صحابہؓ کے بعد آئے، جنہوں نے صحابہؓ کو دیکھا ہوا تھا، کے زمانے میں عیدمیلادالنبیؐ کا ذکر نہیں ملتا۔۔۔۔ اس کے علاوہ اَوربھی بہت سارے دن منائے جاتے تھے۔ یوم عاشورہ ہے۔ میلاد النبیؐ تو خیر ہے ہی۔ میلاد حضرت علیؓ ہے۔ میلاد حضرت حسنؓ ہے۔ میلاد حضرت حسینؓ ہے۔ میلا د حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ ہے۔ رجب کے مہینے کی پہلی رات کو مناتے ہیں۔ درمیانی رات کو مناتے ہیں۔ شعبان کے مہینے کی پہلی رات مناتے ہیں۔ پھر ختم کی رات ہے۔ رمضان کے حوالے سے مختلف تقریبات ہیں اور بے تحاشا اور بھی دن ہیں جو مناتے ہیں اور انہوں نے اسلام میں بدعات پیدا کیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بالکل اس کو نہیں مناتے اور عید میلا دالنبیؐ کوبدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جس نے اتنا غلو سے کام لیا کہ انتہا کر دی۔ بہرحال ہم دیکھیں گے کہ اس زمانے کے امام نے جن کو اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل کرکے بھیجا ہے انہوں نے اس بارے میں کیا ارشاد فرمایا۔

ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مولو د خوانی پر سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ’’آنحضرتﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خد انے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں۔ خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو۔ آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں۔ اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تووہ ایک وعظ ہے۔ آنحضرتﷺ کی بعثت، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے۔ ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنا لیویں‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ160-159۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 13؍ مارچ 2009ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button