متفرق مضامین

اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

قرآن پا ک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی

(الاعراف:173)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:’’اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسانی روح کی فطرت میں یہ شہادت موجود ہے کہ اس کا خدا پیدا کنندہ ہے۔ پس روح کو اپنے پیدا کنندہ سے طبعاً و فطرتا ًمحبت ہے اس لیے کہ وہ اس کی پیدائش ہے۔‘‘

(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 364)

لیکن انسانی فطرت میں یہ شہادت ایک درجہ پر نہیں ہوتی بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام :’’ ایک تحصیل پھیکی ہوتی ہے ایک گاڑھی ہوتی ہے ۔ دونوں میں فرق ہوتاہے۔‘‘

(البدر جلد 2 نمبر 18،صفحہ 1 ،22؍مئی 1903ء)

دراصل انبیاء کرام اس لیے آتے ہیں کہ فطری شہادت کے اس مدھم سے نوری شعلہ کو جو روح کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے اپنی انفاس قدسیہ سے فروزاں کر دیں کہ ہر طرف اسم محمد سے اجالا ہو جائے۔

انبیاء کے بعد یہ سلسلہ ان کے مجددین اور مامورین کے ذریعے جاری رہتا ہے ۔ لیکن امت مسلمہ پر مخبر صادق آنحضرتﷺ کی پیش گوئی کے مطابق وہ وقت آچکا تھا کہ

’’ عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ‘‘

جب امت مسلمہ کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔

بظاہر کئی دعوے دار تھے لیکن امت مسلمہ کی حالت بقول غالب

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خاموش ہے

مسلمانان ہندوستان پر اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد جو ستم ٹوٹا تھا کہ ایک قسم کا فکری انتشار پیدا ہو گیا تھا۔ ایک طبقہ جو اہل شریعت کہلاتا تھا جو کہ علماء سے تعلق رکھتا تھا اور دوسرا طبقہ جوکہ اہل طریقت کہلاتا تھا صوفیا ء کا تھا۔

علمائےکرام حیلہ سازیوں کے ذریعہ ایک طرف عوام اور حکمرانوں کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد کر رہے تھے اور دوسری طرف اہل طریقت یہ سمجھتے تھے کہ روحانی ترقی کے لیے کسی خاص مذہب یا عقیدہ سے وابستگی ضروری نہیں۔

کِتےرام داس کِتےفتح محمد، ایہو قدیمی شور

مِٹ گیا دُونہاں دا جھگڑا،نکل پیا کُجھ ہور

اہل شریعت اور اہل طریقت کا یہ مخاصمہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادبی شاہکاروں میں بھی نظر آنے لگیں ۔ چنانچہ قصہ ہیر رانجھا کے خالق وارث شاہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انسانی روح کس کی امانت ہے شریعت کی یا طریقت کی ۔ قصہ وارث شاہ میں ہیر انسانی روح کی علامت ہے جبکہ رانجھا طریقت کی اور کھیڑا شریعت کی ۔

چنانچہ قرآن پاک میں جو ارشاد باری تعالیٰ ہے

اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی۔

وارث شاہ اسی کا ذکر اپنے قصہ میں یوں کرتے ہیں

عین شین تے قاف جے نیّت میری جنہاں ہیر ایمان دیوا یائی

قالو بلیٰ دےروز نکاح بُدھا روح نبی آن نبھایائی

لیکن اہل شریعت اور اہل طریقت دونوں اس صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے جو انسانی فطرت میں موجود قالو بلیٰ کے مدھم نوری نکتہ کو فروزاں کر دے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں پھیکی تحصیل کو گاڑھی کر دے چنانچہ ہیر جو انسانی روح کی علامت ہے وہ پکار اٹھتی ہے

ہیر آکھدی جوگیا جھوٹھ بولیں کون رٹھڑے یار مناونداای

ایسا ملیا نہ کوئی ڈھونڈ تھکی جھیڑا گیا نو موڑ لیاونداای

یہ قصہ 1766ء میں لکھا گیا لیکن رفتہ رفتہ 1857ء کے بعد مسلمانان ہندوستان نے فکری انتشار اور روحانی ادبار کی اتھاہ گہرائیوں کو چھو لیا ۔ یہاں تک کہ جدید تعلم یافتہ طبقہ جو علی گڑھ کی تحریک سے متاثر ہوا تھا وہی زبان بول رہا تھا جو مغرب کے نام نہاد مستشرقین بول رہے تھے چنانچہ پروفیسررینان جو ایک مشہور محقق گزراہے وہ اپنے مضمون میں لکھتا ہے:

’’ عربی زبان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ فلسفی مسائل کو ادا کر سکے‘‘

(مقالات شبلی جلد دوم صفحہ 55،54)

چنانچہ علی گڑھ گزٹ میں ایسے مضامین شائع ہوتے تھے جن میں ان خیالات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ عربی زبان میں ایسا کوئی لٹریچر موجود نہیں جو خیالات کو رفعت اور کردار کو استحکام عطا کر سکے کیونکہ ’’ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں عرب تو ہمیشہ سے وحشی اور جاہل لوگ رہے ہیں جن کو تہذیب سے بہت کم حصہ ملا ‘‘

(مقالات شبلی ۔ مسعود علی ندوی )

بعد میں بعض لوگ تو اس سفر جنوں میں اس حد تک چلے گئے کہ اگر نٹشے (Nietzche) نے یہ کہا تھا:

God is dead (Gott ist tot)

تو یہ خیالات اردو شاعری میں اس طرح در آئے کہ

نہیں اس دریچے کے باہر تو دیکھ

خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے

یعنی جدید تعلیم سے آراستہ نوجوان جن سے یہ توقع تھی کہ وہ کوئی خدمت اسلام بجا لائیں گے انہیں مغربی فلسفے کا طوفان خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جا رہا تھا۔ اور انسانی روح جسے قَالُوۡا بَلٰیکی شہادت کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ چیخ اٹھی

مینوں لے چلے وے بابلا لے چلے

یہ وہ تناظر تھا جس میں قادیا ن کےگمنام گوشوں سے ایک شخص باہر نکلا زبر دست نشانوں سے خدا کا چہرہ اس طرح دکھایا کہ آنکھوں کی پیاس بجھ گئی ۔ دل یقین سے بھر گئے اور پیاسی روحیں لذت دیدار سے اس طرح سرشار ہوئیں کہ دَور ِمسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لے کر خلافت خامسہ تک کبھی نماز عشق قضا نہیں کی۔سرِمقتل بھی شہادت دی

اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button