الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت السید محمد سعیدی صاحبؓ

جس طرح دنیا کے مقدس ترین شہر مکہ معظمہ سے سب سےپہلے حضرت محمد بن احمد مکّی کو، طائف سے عثمان عرب صاحب کو امام الزمان پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی اسی طرح شام کے اول المبائعین السید العالم التقی محمد سعیدی الطرابلسی انثارالحمیدانی تھے۔

(تحفہ بغداد صفحہ 16)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 6؍اپریل 2013ء کے ایک مضمون میں حضرت السیّد محمد سعیدی صاحبؓ آف شام کے قبول احمدیت کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ آپؓ نہایت درجہ بزرگ اور نابغہ روزگار عالم تھے اور فخر الشعراء اور مجدّد الادباء کے خطاب سے یاد کیے جاتے تھے۔ آپ اپنے وطن سے بذریعہ بحری جہاز پہلے کراچی پہنچے۔ بعدازاں کرنال میں اپنے حلقہ احباب سے ملتے ہوئے بغرض علاج دہلی چلے گئے اور حکیم محمد اجمل خاں دہلوی کے زیرعلاج رہے۔ پھر دہلی کے مشہور مدرسہ فتح پوری میں علوم عربیہ میں فرائض تدریس بجالانے لگے۔ اسی دوران ڈیرہ دون میں حضرت حافظ محمد یعقوب صاحبؓ نے ‘‘آئینہ کمالات اسلام’’سے حضرت مسیح موعودؑ کا آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں مطبوعہ نعتیہ عربی قصیدہ آپ کو دکھلایا جسے پڑھ کر آپ بے ساختہ پکار اٹھے کہ عرب بھی اس سے بہتر کلام نہیں لاسکتے، خدا کی قسم! مَیں ان اشعار کو حفظ کروں گا۔

ازاں بعد آپ کو سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا جہاں حضرت حکیم میر حسام الدین صاحبؓ نے آپ کو ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘کے عربی حصہ کا ردّ لکھنے پر ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا وعدہ کیا۔ اس وقت حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بھی موجود تھے جن سے حضرت السید محمد سعیدؓ نے حضورعلیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور پھر قادیان حاضر ہوگئے۔ آپ قریباً سات ماہ تک قادیان میں تحقیق میں مصروف رہے، حضرت اقدسؑ کو نہایت قریب سے دیکھا اور حضوؑر کے علمی فیضان سے متمتع ہوئے اور بالآخر بعض مبشر رؤیا کی بِنا پر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور ساتھ ہی آپ میں ایسا علمی و روحانی انقلاب برپا ہوا کہ نہایت درجہ فصیح و بلیغ ایک رسالہ’’الانصاف بین الاحباء‘‘کے نام سے شائع کیا جس میں نہایت شاندار رنگ میں السید عبدالرزاق قادری بغدادی مقیم حیدرآباددکن کو تحریک احمدیت اور حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی سے متعارف کرایا، ازاں بعد رسالہ’’ایقاظ الناس‘‘شائع کرکے دعوت الی اللہ کا حق ادا کردیا۔ یہ حقائق و براہین سے لبریز رسالہ بڑی تقطیع کے 72 صفحات اور پانچ فصلوں پر مشتمل تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کرامات الصادقین (صفحہ16طبع اول)اور’’نورالحق‘‘(حصہ اول صفحہ 23,22۔ مطبوعہ جنوری 1894ء)میں ان معرکہ آراء عربی تالیفات کا تذکرہ فرمایا اور ان کے پُراز معلومات اور مسکت دلائل اور معارف کو نہایت روح پرور الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپؓ کو 313 صحابہ کبار میں شامل کرنے کا بھی اعزاز بخشا۔

………٭………٭………٭………

عشاق مسیح موعودؑ کا والہانہ جوشِ خدمت

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍مارچ 2013ء میں حضرت میر سید مہدی حسین شاہ صاحب کے قلم سے ہجرتِ قادیان اور دارالامان کی پاکیزہ فضا میں مجنونانہ خدمت کے دَور کا نقشہ اخبار الحکم 28؍ اکتوبر 1936ء سے منقول ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل فارسی کلام کی شاندار عملی تعبیر بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ؎

مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است

ہمیںکارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

حضرت شاہ صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ قادیان میں آنے کے بعد مَیں نے اپنے لیے کوئی کام سوچا۔ اخبار الحکم اور بدر میں تلاش کی، مگر یہ اس وقت مالی مشکلات میں تھے۔ حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی نے مجھے پریس مَین بننے کی ترغیب دی لیکن مَیں نے سوچا کہ قادیان میںرہ کر بھی اگر حضرت اقدسؑ سے دُور رہے تو فائدہ کچھ نہ ہوگا اس لیے حضرت میر ناصر نواب صاحب سے عرض کی کہ حضرت اقدسؑ کی خدمت کسی طرح مل جائے۔ انہوں نے فرمایا:تنخواہ کوئی نہ ملے گی۔ مَیں نے کہا:مجھے تنخواہ کی ضرورت نہیں، خدمت کرنی چاہتا ہوں۔ حضرت موصوف نے ایک بلٹی بٹالہ سے لانے کے لیے حضور اقدسؑ سے مجھے لا کر دے دی اور دو آنے خوراک کے لیے حضورؑ نے خود ساتھ دیے۔ جمعہ کا دن تھا۔ صبح مَیں روانہ ہوا اور ساڑھے چھ بجے کے بعد بلٹی لے کر واپس ہوا۔ راستے میںمیرا دل خوشی سے بھرا ہوا تھا کہ حضرت اقدسؑ کی خدمت بجا لا رہا ہوں۔ میں نے بلٹی لا کر میر صاحب کی خدمت میںحاضر کی تو میر صاحب نے فرمایاکہ کیا یکہ پر آئے ہو؟ مَیںنے عرض کی کہ میرے پاس تو یہ دونّی تھی۔ یہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کر دیں اور مَیںنے یہ خدمت محض لِلّٰہکی ہے۔ میر صاحب نے فرمایا: یہ تم کھا لینا۔ مَیں نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں مَیں روٹی لنگر سے کھا لوں گا۔

حضرت اقدسؑ کو میرا جلدی آنا پسند آیا اور آئندہ خدمت ملنے کا وعدہ فرمایا۔ مَیں نے ایک نظم کے ذریعے بھی خدمت ملنے کی درخواست کی تھی جس پر مجھے امرتسر سے برف لانے کی خدمت ملتی رہی۔ ایک روز حضورؑ نے مجھے در دولت پر بلوا کر فرمایا:’’میاں مہدی حسین! ہم نے آپ کو برف لانے کے لیے بھیجا۔ آپ برف لائے اور ہم نے گھر میں اور مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی پی، تم کو ثواب ہوا۔ دوبارہ پھر ہم نے بھیجا اور تم لائے۔ سب نے پی۔ تیسری بار تم پھر لائے۔ اب چوتھی بار ہمارا ا رادہ تھا کہ کسی اَور کو بھیجیں (مولوی حافظ غلام محی الدین صاحب کا نام لیا)مگر ہم نے چاہا کہ یہ خدمت بھی ہم آپ کو ہی دیں۔‘‘اس وقت حضرت اقدسؑ کا چہرہ نہایت بشاش تھا۔ میں نے عرض کی کہ حضور چارپائی پر تشریف رکھیں۔ حضورؑ تلطّف سے بیٹھ گئے اور میں پائوںدبانے لگ گیا ۔ مَیںنے عرض کی حضور!میری تو یہی تنخواہ اور یہی غذا ہے کہ حضور خدمت فرماویں۔ حضوؑر نے فرمایا کہ ’’مَیں اب لوئی لا دیتا ہوں اور آپ برف لینے چلے جائیں‘‘۔یہ معاملہ میرے لیے نہایت خوشکن تھا۔

مجھے لاہور امرتسر جانے کی خدمت ملتی رہی۔ باقی وقت کے لیے میں نے کوئی کام کی فکر کی۔ میر صاحب قبلہ نے ایک روز حضرت اقدسؑ سے خود ہی عرض کی کہ ان کو یعنی مجھے کپڑا دھونے کے لیے صابن، حجامت اور جوتی کی مرمت کے لیے کسی قدر تنخواہ ماہوار ملنی چاہیے۔ حضو رؑنے فرمایا میرے پاس گنجائش نہیں، ایک روپیہ اس وقت لے لو۔ میر صاحب روپیہ لے کر میرے گھرپر پہنچے تو میں نے عرض کی کہ حضور کو آپ یہ تکلیف نہ دیں، مَیں تنخواہ خداتعالیٰ سے لے لوں گا۔

اس کے بعد مَیں نے ضروریات کے لیے خداتعالیٰ کی جناب میں عرض کی تو رات کو دیکھا مَیں میانمیر مشرقی جنوبی ریلوے کی سڑک پر جو اونچی ہے بیٹھا ہوں اور کوئی میرے سر کی طرف سے مجھے کہتا ہے: مانگ کیامانگتا ہے؟ مَیں نے کہا مجھے صرف قادیان میں رہنے کے لیے سات آٹھ روپیہ ماہوار کی ضرورت ہے زیادہ کی نہیں۔ تو اُس نے کہا:ارے خدا سے بھی مانگا تو آٹھ روپے مانگے، جا تجھ کو آٹھ روپے دے دیے۔ مَیںنے جواباً کہا مجھے قاضی عبداللہ کی طرح ساٹھ ستر کی ضرورت نہیں، مَیں مالدار نہیں بننا چاہتا ۔

قاضی عبداللہ صاحب کے والد ماجد نے مجھے یہ فقرہ کہا تھا کہ مَیں چاہتا ہوں میرا بچہ ساٹھ ستر روپے کی نوکری کرسکے اس لیے پڑھاتا ہوں۔ پھر صبح کو میں قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم والد قاضی عبداللہ کے پاس اسی مناسبت سے گیا کہ میںکچھ کام خالی وقت میں کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے سوڈا واٹر کا کام کرنے کی ترغیب دی اور روپیہ بھی مہیا کرنے کو کہا اور ساتھ اپنے بڑے بیٹے قاضی عبدالرحیم صاحب کی شرکت بھی تجویز کی۔ پھر کہا گذشتہ سال جس شخص نے یہ کام کیا تھا اس سے پوچھوکہ کیا منفعت ہوئی تھی!

پھر مَیں اس غرض سے بابو محمد افضل صاحب ایڈیٹر ’’بدر‘‘کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کچھ کام کرنا چاہتے ہو؟ مَیں نے کہاہاں۔ تو کہا میرے پاس منشی کی جگہ خالی ہے۔ مَیں نے کہا تنخواہ کیا ہو گی؟ تو بتلایا کہ آٹھ روپیہ۔ مجھے آگے گنجائشِ کلام نہ رہی۔ ان کے اصرار پر حضرت اقدسؑ کے حضور اطلاعی عریضہ لکھا گیا اور مَیں کام کرنے لگا۔

گورداسپور میں مقدمات کے لیے کتابوں کی ضرورت ہوئی تو مفتی فضل الرحمٰن صاحب نے حضرت اقدسؑ سے رات کو ہمراہ لے جانے کی غرض سے مجھے طلب کیا۔ حضورؑ نے فرمایا ’’میاں مہدی حسین! یہ جنگ کا وقت ہے۔ تم سب کام چھوڑ کر مفتی صاحب کے ساتھ چلے جائو۔‘‘ مَیں نے بسروچشم منظور کیا۔ اس کے بعد تین مرتبہ مجھے بلاکر تاکید فرمائی۔ میں نے عرض کی کہ اب حضور کے حکم کے بعد ملکہ وکٹوریہ بھی مجھے منع کرے تو مَیں ہرگز نہ مانوں گا۔ اور میں نے کہا کہ جس وقت بھی مجھے حکم ہو میں ہر طرح تیار ہوں۔

کتابوں کے لے جانے میں ایک کتاب کی کمی تھی جو کہیں سے نہ ملتی تھی۔ میرے دفتر میں ایک نسخہ موجود تھا مَیں نے لا کر پیش کر دیا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور دیر تک میرے نام کے مختلف معنے بیان فرماتے رہے۔ … بعد میں مَیں نے ’’الحکم‘‘ میں کام شروع کیا تو ان سے پہلے یہ شرط کرلی کہ حضرتؑ کا کام مقدّم ہو گا۔

تین چار ماہ کے بعد حضرت اقدسؑ نے مجھے اپنے آستانہ پر چند روز کے لیے بلوالیا مگر مَیں پھر واپس نہیں گیا اور کتب خانہ کا کام حضرتؑ کے حکم سے آخر ایام تک کرتا رہا۔…

الغرض شمع احمدیت کے یہ پروانے حضرت اقدسؑ کے وصال کے بعد عمربھر آپ کی یاد میں ماہی بے آب بنے رہے۔ جونہی اپنے محبوب آقاؑ کا ذکر کرتے تھے اشکبار ہو جاتے تھے۔ اس کیفیت کو حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمایا ہے ؎

چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ

کسی کی یاد میں مَیں ہو رہا ہوں دیوانہ

زمانہ گزرا کہ دیکھیں نہیں وہ مست آنکھیں

کہ جن کو دیکھ کے مَیں ہو گیا تھا مستانہ

وہ جس کے چہرہ سے ظاہر تھا نور ربّانی

ملک کو بھی جو بناتا تھا اپنا دیوانہ

کہاں ہے وہ کہ ملوںآنکھیں اس کے تلووں سے

کہاں ہے وہ کہ گروں اس پہ مثلِ پروانہ

………٭………٭………٭………

استخارہ کا طریق اور برکات

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 24؍اپریل 2013ءمیں نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ کی طرف سے مرسلہ ایک بہت اہم مضمون زیب قرطاس ہے جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں استخارہ کرنے کا طریق اور اس کی برکات کے حوالے سے راہنمائی پیش کی گئی ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے:

رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۔

(القصص:25)

اے میرے ربّ! یقیناً مَیں ہر اچھی چیز کے لئے، جو تُو میری طرف نازل کرے، ایک فقیر ہوں۔

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اہم امور میں استخارہ کا طریق اس طرح سکھایا کرتے تھے جیسے کوئی قرآن کا حصہ سکھا رہے ہیں۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی اہم کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل پڑھے پھر آخر میں یہ دعا مانگے:

اے اللہ! میں تجھ سے بھلائی کا طلبگار ہوں۔ تجھ سے طاقت و قدرت چاہتا ہوں۔ تیرے فضل عظیم کا سوالی ہوں کیونکہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ میں قادر نہیں۔ تو ہر بات کو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ تو سارے علم رکھتا ہے اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں میرا یہ کام (کام کا نام لے سکتا ہے)میرے لئے دینی اور دنیوی ہر لحاظ سے اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہے یا فرمایا یوں کہے کہ میری اب کی ضرورت اور بعد میں پیدا ہونے والی ضرورت کے لحاظ سے بابرکت ہے تو یہ کام آسان کردے اور پھر اس میں میرے لئے برکت ڈال اور اگر تیرے علم میں یہ کام میری دینی اور معاشی حالت کے لحاظ سے اور انجام کار کے اعتبار سے مضر ہے۔ یایوں فرمایا: اب کی ضرورت یا مستقبل کی ضرورت کے لحاظ سے میرے لئے مضر ہے تو اس کام کو نہ ہونے دے اور اس کے شر سے مجھے بچالے اور میرے لئے خیر جہاں بھی ہو، وہ مقدر فرما اور مجھے اس پر اطمینان بخش۔ (بخاری کتاب الدعوات)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

استخارہ اہل اسلام میں بجائے مھورت (یعنی علم نجوم کے مطابق کسی کام کے کرنے کا مبارک وقت) کے ہے۔ چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا۔ اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو نفل پڑھے۔ اول رکعت میں سورۃ قُل یایھا الکافرون … پڑھ لے اور دوسری میں قل ہو اللّٰہ … التحیات میں یہ (یعنی استخارہ کی)دعا کرے۔

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 604)

فرمایا: آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کردیا ہے۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریق تھا۔ … لیکن اب مسلمان اسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے۔ جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 230)

فرمایا: استخارہ مسنونہ کے بعد جس طرف طبیعت کا میلان ہو وہ منظور کرلو۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 226)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:

ہم انجام سے بےخبر ہوتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے۔ اس لئے اول خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو۔

(خطبات نور صفحہ 478)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:

استخارہ اسلام کے اعلیٰ رکنوں میں سے ایک رکن ہے اور اتنا بڑا رکن ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لئے فرض کیا گیا ہے اور بغیر اس کے اس کی عبادت مکمل ہی نہیں ہوسکتی کہ ایک دن رات میں پانچ وقت اور ہر ایک رکعت میں ایک بار استخارہ نہ کرے۔ … پھر سنن اور نوافل میں بھی استخارہ ہوتا ہے۔ … استخارہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ خداتعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو میں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے۔ سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے۔ اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔ … فرق اگر ہے تو یہ کہ سورۃ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے، مگر استخارہ کرتے وقت کسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے۔

(خطبات محمود جلد 6 صفحہ 14، 15)

فرمایا: استخارہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک استخارہ عام ہوتا ہے اور ایک استخارہ خاص۔ استخارہ عام پہلے کیا جاتا ہے اور استخارہ خاص بعد میں۔ … استخارہ عام یہ ہوتا ہے کہ قطع نظر کسی خاص شخصیت کے دعا کی جائے کہ اے خدا! ہمارے لئے ایسا جوڑا مہیا فرما جو جنود مجندہ ہو۔ دوسرا استخارہ خاص اس وقت کیا جائے جب اس کا موقع آئے اور نام لے کر استخارہ کیا جائے۔ اس طرح استخارہ عام استخارہ خاص کا محافظ ہوجاتا ہے۔

(خطبات محمود جلد 3 صفحہ 435)

فرمایا: بعض لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ جب کسی امر کے متعلق استخارہ کیا جائے تو ضرور ہے کہ اس کے بارے میں خدا کی طرف سے انہیں آواز کے ذریعہ بتایا جائے کہ کرو یا نہ کرو، لیکن کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی آواز آیا کرتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں برکت ڈالی جاتی ہے اور جو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں ان سے روکا جاتا ہے۔ … خدا تعالیٰ انسانوں کے ماتحت نہیں۔ بلکہ آقا ہے اور آقا کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ نوکر کو ہر ایک کام کے متعلق کہے تب وہ کرے ورنہ نہ کرے۔ اکثر اوقات آقا کی خموشی ہی حکم ہوتا ہے۔… جو اس لئے استخارہ کرتا ہے کہ مجھے خوابیں آئیں، وہ ایک بے ہودہ حرکت کرتا ہے اور ایسی خوابیں اس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہوں گی۔ … استخارہ کے لئے خوابوں کا آنا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ تو دعا ہے۔ اس کے کرنے کے بعد جو خدا تعالیٰ دل میں ڈالے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اگر خداتعالیٰ اس کام کے متعلق انشراح کردے تو کرلیا جائے اور اگر قبض پیدا ہو تو نہ کیا جائے۔

(خطبات محمود جلد 6 صفحہ 15 ، 16)

فرمایا: دعا اور استخارہ کرتے وقت اپنی تمام آراء اور فیصلوں سے علیحدہ ہوجاؤ۔ کیونکہ اگر تم فیصلہ کرنے کے بعد دعا اور استخارہ کروگے تو وہ بابرکت نہیں ہوگا۔ استخارہ اور دعا وہی بابرکت ہوگی جس میں تمہاری رائے اور فیصلہ کا دخل نہ ہو۔ تم خدا پر معاملہ کو چھوڑ دو اور دل اور دماغ کو خالی کرلو اور اس کے حضور میں عرض کرو کہ خدایا جو تیری طرف سے آئے گا وہی ہمارے لئے بابرکت ہوگا اور ہماری بہتری کا موجب ہوگا۔

(خطبات محمود جلد 3 صفحہ 86، 87)

فرمایا: ایک شخص روئی کا بہت بڑا سودا کرنے لگا۔ حضرت خلیفہ اول سے مشورہ لیا آپ نے فرمایا استخارہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ اس میں یقینی فائدہ ہے۔ آ پ نے فرمایا کہ کیا حرج ہے، استخارہ کے معنے بھی خیر طلب کرنے کے ہیں۔ آخر انہوں نے استکراہ (ناخوشی) سے استخارہ کیا۔ جب وہ سودا کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے ایسا سبب ان کے لئے بنایا کہ وقت پر ان کو علم ہوگیا اور وہ سودا کرنے سے رُک گئے اور کئی ہزار کے نقصان سے بچ گئے۔

(خطبات محمود جلد 3 صفحہ 93)

فرمایا: مسلمان کا کوئی کام استخارہ کے بدوں نہیں ہونا چاہئے۔ کم از کم بسم اللہ سے ضرور شروع ہو اور طریق استخارہ یہ ہے کہ دعائے استخارہ پڑھی جائے۔ ایک دفعہ کم از کم۔ ورنہ سات دن تک عموماً۔ صوفیاء نے چالیس دن رکھے ہیں۔ اس کی بہت برکات ہوتی ہیں جن کو ہر ایک شخص جس کو تجربہ نہ ہو نہیں سمجھ سکتا۔

(خطبات محمود جلد 3 صفحہ 93،92)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’بعض عورتیں اور مرد پانچ گھنٹے، چھ گھنٹے میں استخارہ کرکے جواب دے دیتے ہیں۔ اپنی مرضی کے رشتے کروا دیتے ہیں اور اس کے بعد جب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تمہارا قصور ہے ہمارا استخارہ ٹھیک تھا۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ خود دعائیں نہیں کرتے۔ خود توجہ نہیں۔ خود نمازوں کی پابندی نہیں اور ایسے لوگوں پر اندھا اعتقاد ہے جنہوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ احمدیوں کو اس قسم کی چیزوں سے خاص طور پر بچنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 7 صفحہ85)

………٭………٭………٭………

چیونٹی (Ant)

چیونٹیوں کی قریباً بارہ ہزار اقسام ہیں جن کی جسامت دو سے پچیس ملی میٹر تک ہوتی ہے۔ ماہنامہ ’’خالد‘‘ربوہ اکتوبر 2012ء میں چیونٹیوںکے بارے میں مکرم محمد جبران صاحب کا مختصر معلوماتی مضمون شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چیونٹیاں بھی اپنی زندگیاں ایک حیرت انگیز مربوط نظام کی اطاعت کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔

چیونٹیاں سماجی جاندار ہیں اور بڑی بڑی بستیوں میں گروہوں کی شکل میں رہتی ہیں۔ فوجی چیونٹیاں لاکھوں کی تعداد میں قطار بناکر چلتی ہیں اور راستے میں آنے والی ہر چیز کھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ایک بستی میں عموماً ایک ہی ملکہ چیونٹی ہوتی ہے جو انڈے دیتی ہے۔ جب انڈے نر سے بارآور ہوتے ہیں تو مادہ کارکن چیونٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اگر انڈے نر سے بارآور نہ ہوں تو پھر زیادہ نر پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ بستی میں موجود ہزاروں چیونٹیوں میں نر چیونٹیوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ ملکہ چیونٹی اور نر چیونٹیوں کے پر ہوتے ہیں اور ان کا ملاپ اُڑتے ہوئے ہوتا ہے۔

کارکن چیونٹیوں کے پَر نہیں ہوتے۔ یہ خوراک ذخیرہ کرتی ہیں اور نوخیز چیونٹیوں کو خوراک مہیا کرتی ہیں۔ گھروندے بھی بناتی ہیں۔ انہی میں مادہ سپاہی چیونٹیاں بھی ہوتی ہیں جو گھروندوں کی حفاظت کرتی ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:

’’چیونٹیوں میں بہت بڑا بھاری نظام ہوتا ہے۔ یہ ہاتھوں سے بات کرتی ہے، انسان کی طرح اپنی لاش کی حفاظت کرتی ہے، غلّے کا ڈھیر رکھتی ہے، سردی اور گرمی کے مکانات علیحدہ علیحدہ رکھتی ہے، چوبارے بناتی ہے۔ ایک قسم کا کیڑا جس میں سے ایک مادہ نکلتا ہے جو چیونٹی کے لیے دودھ کا کام دیتا ہے، اُن کیڑوں کو یہ جمع کرکے اپنے گھروں میں رکھتی ہیں اور اُن کی غذا کا خیال رکھتی ہیں اور جب غلّہ کی کمی ہو تو تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ ان کیڑوں کو پہلے غذا دیتی ہیں، پھر بچ رہے تو خود کھاتی ہیں۔ ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، صلح بھی ہوتی ہے۔ غرض ایک وسیع نظام ان میں پایا جاتا ہے۔ یہ سب ایک قسم کی وحی خفی کے نتیجہ میں ہے۔‘‘

(تفسیرکبیر جلد چہارم)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button