متفرق مضامین

اطاعت خلافت اور انصاراللہ کا عظیم الشان کردار

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

جماعت کے انصار نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں نہایت عمدہ نمونے پیش کیے

خلیفۃ اللہ المہدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لیے جو لائحہ عمل تجویز فرمایا اور خلفائے سلسلہ نے جس طرح ان راہوں پر جماعت احمدیہ کو گامزن کیا وہ تاریخ عالم کا ایک حیرت انگیز انقلاب ہے جس سے حال کی دنیا بے خبر ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ دنیا سر اٹھا کر عظمت کے ان میناروں کو دیکھے گی اور ان سربفلک چوٹیوں کو سلام پیش کرے گی۔اس زمانے کے امام نے انہیں جن عبادتوں،اخلاق اور قربانیوں کی طرف بلایا وہ دیوانہ وار ان کی طرف دوڑتے چلے گئے۔

انصاراللہ سے مراد وہ بھی ہیں جو عمر کی قید سے قطع نظر دین محمدی کے مددگار ہیں اور وہ بھی جو 40 سال سے اوپر جماعت کی تنظیم کے ممبر ہیں ان سب نے امام کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے کردار میں جو پاک تبدیلیاں پیدا کیں وہ عالم روحانی کا ایک خوبصورت نقشہ ہے۔ مجلس انصاراللہ کی اجتماعی کارکردگی اور تنظیمی پروگرام یقیناً بے مثال ہیں۔ مگر انفرادی طور پر انصار نے جو نیک نمونے اور دلکش اخلاق دکھائے وہ بھی ناقابل فراموش اور خلافت احمدیہ کی قوت قدسیہ کی روشن دلیل ہیں۔ آیئے اس کے چند نظاروں سے مشام جام معطر کریں۔ان سعادت مندوں میں وہ بھی شامل ہیں جو بچپن یا جوانی سے صدق و سداد کی راہوں پر قدم مارتے رہے اور تادم واپسیں اس جادہ استقامت سے منحرف نہ ہوئے بلکہ عشق الٰہی اور وفا میں بڑھتے چلے گئے اور وہ بھی ہیں جو بعد میں آئے اور پہلوں سے بہت آگے بڑھ گئے اور وہ بھی جو انصاراللہ کی باقاعدہ تنظیم کے قیام سے پہلے سے عاشقانہ رنگ رکھتے تھے اور پھر یہ رنگ مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔یہ سب واقعات اللہ تعالیٰ کی اور امام وقت کی اطاعت کے نمونے ہیں۔

نماز اور تعلق باللہ

حضرت مسیح موعود ؑنے محبت الٰہی کی جو لَو اپنے عاشقوں میں بھڑکائی تھی وہ نہ بجھنے والی شمع تھی ۔مجلس انصاراللہ کے پہلے صدر حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کے نماز پڑھنے کی عجیب شان تھی نماز میں اس طرح کھڑے ہوتے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے۔ حتی الامکان مسجد مبارک میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے۔مغرب کی نماز مسجد مبارک میں پڑھ کر آتے کھانا کھاتے وضو کرتے اور پھر نماز کے لیے چلے جاتے۔اس معمول میں گرمی سردی بارش بادل آندھی بیماری کوئی چیز حائل نہ ہو سکتی تھی۔ گھنٹوں خدا کے حضور خشوع و خضوع سے کھڑے رہتے وضو اتنے اطمینان اور توجہ سے کرتے کہ دوسرے آدمی اس دوران دس دفعہ وضو کرکے فارغ ہو جائیں۔

(سیرت شیر علی صفحہ80تا81)

مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی ؓحضرت مولانا صاحبؓ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ایک دفعہ مجھے ان کی رفاقت میں نماز کے لئے مسجد مبارک میں جانے کا موقع ملا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو نماز ختم ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ مجھے اپنے ہمراہ لئے مسجد اقصیٰ لے گئے لیکن وہاں بھی اتفاق سے نماز ختم ہوچکی تھی۔اب حضرت مولوی صاحب مجھے ساتھ لے کر مسجد فضل (جو ارائیاں محلہ میں تھی) کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچے تو نماز کھڑی تھی۔ چنانچہ ہم نے نماز باجماعت ادا کی۔ اس طرح مجھے حضرت مولوی صاحب کے نماز باجماعت ادا کرنے کے شوق سے روحانی طور پر ایک خاص لذت محسوس ہوئی اور یہ سبق بھی کہ حتی الامکان نماز باجماعت ادا کی جائے۔‘‘

(سیرت حضرت مولانا شیر علی صفحہ263)

حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ؓکی ادائیگی نماز باجماعت کا تذکرہ مولوی سلیم اللہ صاحب یوں کرتے ہیں:

آپ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ اذان ہوگئی۔ آپ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے سپرد خدا کرکے مسجد چلے گئے۔ بعد نماز جلدی سے اٹھ کر واپس آنے لگے تو کسی نے ایسی جلدی کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ آیا تھا اب فوت ہوچکی ہو گی اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔ چنانچہ بعض دوسرے دوست بھی گھر تک ساتھ آئے اور بچی وفات پاچکی تھی۔

(اصحاب احمد جلد5 حصہ سوم صفحہ82 طبع اول 1964 ٫)

ایک دفعہ ایک نوجوان نے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ سے کہا کہ یورپ میں فجر کی نماز اپنے وقت پر ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا اگرچہ مجھے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے سخت حجاب ہوتا ہے لیکن آپ کی تر بیت کے لیے بتاتا ہوں کہ خدا کے فضل سے نصف صدی کا عرصہ یورپ میں گزارنے کے باوجود فجر تو فجر میں نے کبھی نماز تہجد بھی قضا نہیں کی۔ یہی حال باقی پانچ نمازوں کا ہے۔

(ماہنامہ خالد ربوہ دسمبر 1985ء صفحہ89)

حضرت چودھری صاحب کی پابندیٔ نماز کی گواہی سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست نے بھی دی وہ لکھتے ہیں آپ اسلامی شعار کے سختی سے پابند ہیں کبھی بھی نماز کو قضا نہیں ہونے دیتے اور آپ کی کوٹھی پر جب بھی نماز ہو تو نمازپڑھانے کے فرائض آپ کے ایک باورچی ادا کرتے ہیں یعنی اپنے باورچی کی امامت میں نماز پڑھتے ہیں۔

(اخبار ریاست دہلی 28؍مئی 1956 ٫ بحوالہ اصحاب احمد جلد11 صفحہ191)

خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب (انصاراللہ کے نائب صدر) کے متعلق ایک مبلغ بیان کرتے ہیں کہ

حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب باقاعدگی سے نماز تہجد ادا فرماتے تھے جو ہم نوجوانوں کے لیے اس سلسلے میں بہترین نمونہ تھے۔ جب میں لائل پور میں مربی سلسلہ تھا تو آپ میرے پاس بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک رات ہم آدھی رات سے بھی زائد عرصہ تک باتیں کرتے رہے۔ پھر ہم سوگئے۔ میں نے دل میں گمان کیا کہ آج مولانا صاحب نماز تہجد کے لیے نہیں اٹھ سکیں گے۔ مگر جب تہجد کے وقت میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ آپ بڑی رقت سے نماز تہجد ادا کررہے ہیں۔

(الفضل 27؍جنوری 2003ء)

مکرم شیخ خورشید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ خدا بخش صاحب درویش قادیان کے ریلوے سٹیشن کے قلی تھے ان کے دو ہی شوق تھے ایک یہ کہ نماز باجماعت ادا کرنی ہے اور حتی الوسع یہ نماز مسجد مبارک قادیان میں ادا کرنی ہے۔ جو ریلوے سٹیشن سے کافی دور تھی۔ مجھے علم نہیں کہ ان کے پاس کوئی گھڑی تھی یا نہیں مگر نمازوں کے اوقات کا انہیں علم تھا۔ جب نماز کا وقت قریب ہوتا تو وہ کسی سواری کا سامان نہیں اٹھاتے تھے اور بھاگم بھاگ مسجد کا رخ کرتے۔دوسرا شوق انہیں یہ تھا کہ مسجد مبارک میں اس مقام پر کھڑے ہو کر نفل ادا کرنے ہیں جہاں حضرت مسیح موعوؑد کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اگر وہ جگہ خالی نہ ہوتی تو نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد وہ پچھلی صف میں بیٹھ کر انتظار کرتے اور جونہی وہ جگہ خالی ہوتی تو فوراً وہاں چلے جاتے اور عین اسی جگہ کھڑے ہو کر سنتیں اور نفل ادا کرتے جہاں حضرت مسیح موعودؑ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ بس یہی دو شوق ان کے تھے جسے وہ حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد انہوں نے درویشان قادیان میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔

(الفضل23؍جنوری 2003ء)

مکرم عبدالحلیم سحر صاحب بیان کرتے ہیں:

اباجی اور تایا جان (قریشی عبدالغنی صاحب مرحوم اور قریشی فضل حق صاحب) دونوں گولبازار میں اکٹھی دکان کرتے تھے۔ یہ دونوں بھائی نمازوں کے اوقات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ایک دن نماز عصر میں تقریباً چار یا پانچ منٹ باقی تھے دکان پر سودا خرید نے تین چار خواتین آئیں اباجی دکان بند کرنے کی تیاری کر رہے تھے انہوں نے خواتین سے کہا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اب سودا نماز کے بعد ملے گا۔ خواتین نے کہا کہ قریشی صاحب ابھی دے دیں ہم انتظار نہیں کرسکتیں اباجی نے کہا کہ نہیں پہلے نماز پھر کاروبار۔ عورتوں نے کہا کہ قریشی صاحب 50,40 روپے کا سامان خریدنا ہے۔ (اس وقت اتنے روپوں کی بہت اہمیت تھی) خواتین نے کہا کہ سامان ہمیں دے دیں ورنہ ہم کسی اور سے خرید لیں گی آپ نے انہیں کہا کہ کسی اور سے خرید لیں بہت اچھا ہے۔ میں نے اباجی سے کہا کہ ابھی پانچ منٹ ہیں سودا دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ رازق اللہ ہے اس کی عبادت پہلے کاروبار بعد میں۔ غرض دکان بند کی اور مسجد میں چلے گئے چہرے پر اطمینان اور بے غرضی تھی۔ جب نماز کے بعد دکان کھولی تو دو یا تین منٹ بعد ایک گاہک آیا اور 460 روپے کا سود اخریدا اور چلا گیا۔ اباجان نے مجھے مخاطب ہو کر کہا بیٹا دیکھا میرے خدا نے مجھے کئی گنا زیادہ عطا کر دیا ہے۔ یہ حیران کن واقعہ تھا کیونکہ اس زمانے میں دکان کی کل سیل 400 یا 500 روپے دن میں ہوتی تھی۔ خاکسار کا ایمان اور توکل اس واقعہ کے بعد اور مضبوط ہوگیا۔

(الفضل 6؍دسمبر1999ء)

حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی پیدائش جنوری 1900ء میں ہوئی اور 1916ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی اور 2004ء میں ان کی عمر 104 برس سے زیادہ تھی ۔ایک انٹرویو میں آپ فرماتے ہیں:

’’16 سال کی عمر سے اب تک کوئی نماز قضا نہیں کی اور نہ روزہ قضا کیا ہے۔… خداتعالیٰ توفیق دے تو کافی وقت تہجد میں گزار سکتا ہوں۔

(الفضل 25؍جنوری 2002ء)

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بیسویں صدی کے عظیم موحد سائنسدان تھے۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود نماز اور دیگر دینی شعار کے پابند تھے۔ نوبیل انعام کی اطلاع ملنے پر سب سے پہلے مسجد فضل لندن میں نوافل ادا کیے۔ لندن میں جمعہ کے روز اول وقت مسجد میں تشریف لاتے اور پہلی صف میں امام کے عین سامنے بیٹھتے۔ اٹلی کے سنٹر میں نمازجمعہ کی امامت خود کرتے تھے۔

(ماہنامہ خالد ربوہ دسمبر 1997ء صفحہ162,49)

مکرم ماسٹر محمد صدیق صاحب صدر جماعت احمد نگر رہے۔ نماز کے اس قدر پابند کہ ایک بار گھوڑی چوری ہوگئی اور کہیں سے پتہ چلا کہ فلاں طرف کسی کو لے جاتے دیکھا گیاہے۔ پہلے ادھر جانے لگے لیکن پھر سوچا صبح جمعہ ہے اگر اتنے فاصلے تک گیا توجمعہ رہ جائے گا۔ چنانچہ جمعہ کو اہمیت دی اور اللہ پر توکل کیا۔ خداتعالیٰ کو یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اسی رات گھوڑی خود بخود گھر پہنچ گئی۔

(الفضل 11؍دسمبر 2010ء)

خدمت و عشق قرآن

محبت الٰہی کا ایک زینہ محبت قرآن ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے کئی اصحاب نے اپنے پہلے بزرگوں کی اتباع میں بڑی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ جن میں حضرت چودھری نصراللہ خان صاحبؓ اور حضرت صوفی غلام محمد صاحب ؓ کے نام بھی آتے ہیں۔

(اصحاب احمد جلد11 صفحہ161)

1913ء میں ایک غیراحمدی صحافی محمد اسلم صاحب قادیان آئے اور چند دن قیام کرکے واپس گئے۔ انہوں نے واپسی پر اپنے تاثرات تفصیل سے شائع کرائے جن میں لکھا:صبح کی نماز منہ اندھیرے مسجد مبارک میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلاتمیز بوڑھے و بچے اور نوجوان کو لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا۔ دونوں احمدی مساجد (مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک)میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کو قرآن خوانی کا مؤثر نظارہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا۔ (تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ441)یہ سب حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفہ اولؓ کی محبت قرآن کا پرتو تھا۔

چنیوٹ کے حاجی تاج محمود صاحب نے 1902ءمیں تحریری بیعت کی۔1939ء میں رمضان کے مہینے میں ان کی اہلیہ کی وفات ہوئی۔ حاجی صاحب مع چند اور احمدیوں کے تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کا ایک نواسہ جو حافظ قرآن تھا قرآن مجید سنا رہا تھا کہ ساتھ والے مکان سے رونے کی آوازیں آئیں اور ایک لڑکے نے آکر بتلایا کہ حاجی صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس وقت چار تراویح پڑھی جاچکی تھیں۔اس حادثےکی اطلاع پا کر حاجی صاحب نے اناللہ پڑھا اور اپنے نواسے کو ہدایت کی کہ بقیہ چار تراویح میں حسب معمول قرآن مجید سنائے۔ پوری نماز ختم کرنے کے بعد وہ اور دیگر اقربا میت والے مکان میں گئے۔1941ء میں چنیوٹ میں جب مسجد تعمیر ہوئی تو اس دن سے آخری ایام تک وہ مسجد ان کا ملجا و ماویٰ بنی رہی۔ ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت اور وعظ و نصیحت میں مصروف رہتے تھے۔

(تابعین اصحاب احمد جلد10 صفحہ49تا50)

مکرم مجید احمد بشیر صاحب اپنے والدین کے متعلق لکھتے ہیںکہ محترم والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں مقیم رہے لیکن ماہ رمضان ربوہ میں ہی گزارتے تھے۔ رمضان المبارک میں قرآن کریم کے دو دو تین تین دور کرتے اور ہمیں بھی تلقین کرتے۔ پورے گھر میں ایک مقابلےکی روح رہتی۔ آپ اس بات کو یقینی بناتے کہ آخری روزہ کے دن چاند نظر آنے سے قبل کم ازکم ایک دفعہ گھر کا ہر فرد قرآن مجید ختم کرے۔ قرآن کریم صحت سے پڑھنے کی طرف ہر وقت توجہ دلاتے بلکہ جب ہم تلاوت کرتے تو اگر زیرزبر کی غلطی ہو جاتی تو فوراً درست کرواتے۔ گو حافظ قرآن تو نہ تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عربی کے قواعد کی کسی حد تک سدھ بدھ رکھتے تھے۔ رمضان المبارک میں مسجد مبارک میں درس قرآن سے استفادہ کرتے اور ہمیں بھی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ نگرانی بھی فرماتے تھے۔ تمام بہن بھائیوں نے چھوٹی عمر میں قرآن کریم کا پہلا دَور مکمل کرلیا تھا۔ اس سلسلےکو اولاد در اولاد بھی قائم رکھا۔ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں نے ہمارے والدین کی خصوصی دعاؤں اور کوششوں سے قرآن کریم کا پہلا دور چھوٹی عمروں میں ہی مکمل کرلیا اور اس طرح بچپن سے ہی ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت بٹھا دی۔

(الفضل 8؍مارچ 2012ء)

مکرم محمد شفیع خان صاحب لکھتے ہیں کہ میں 1965ء میں کراچی سے لاہور سرکاری ملازمت پر آیا تو دلی دروازہ کی مسجد میں احمدی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مکرم انشاء اللہ خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ 50 کے لگ بھگ تھے۔ ان سے بے تکلفی ہو گئی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم مجھے کچھ ایسے بچے ڈھونڈ کر دو جنہیں میں قرآن شریف پڑھا دیا کروں میرے پاس عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت خالی ہے ایسے بچے جو سکول جاتے ہوں اور دن کے پچھلے پہر پڑھنا چاہیں وہ مجھے بتادیں۔ میں نے ان سے کہا میں ساندہ کلاں میں رہتا ہوں۔ وہاں قریب کی آبادی کرشن نگر میں احمدی رہتے ہیں پتہ کرکے بتاؤں گا میں ابھی لاہور میں نیا ہوں زیادہ واقفیت نہیں مجھے کچھ وقت دیں وہ کہنے لگے ٹھیک ہے مجھے چند یوم میں بتا دیں۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کے گھر سے ساندہ کلاں دو تین میل دور ہے کیا آپ کے پاس گاڑی ہے جس پر آپ اتنی دور آسکیں گے کہنے لگے گاڑی تو ہے لیکن میں پیدل جایا کروں گا تاکہ میری واک بھی ہو جائے۔ کچھ دن بعد پھر انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ بچے قرآن کریم پڑھانے کے لیے دو میں نے جواب دیا کوشش کررہا ہوں ابھی تک کسی سے رابطہ نہیں ہوا۔ میر اجواب سن کر وہ مجھ سے ناراض ہوگئے کئی روز گزر گئے تو ایک روز ملاقات پر بتایا کہ مجھے بچے مل گئے ہیں وہ بہت خوش تھے۔ وہ صبح گھر سے نوافل اور تہجد ادا کرکے نکلتے اور پیدل چاہے کتنی بھی دور بچوں کے گھر ہوں وہاں جاتے پہلے نماز فجر وہاں ادا کرتے پھر بچوں کو قرآن کریم پڑھا کر پیدل ہی واپس گھر تک آتے وہ دفتری اوقات کے بعد پیدل نکلتے اور قرآن کریم پڑھا کر مغرب تک واپس آجاتے۔انہوں نے یسرناالقرآن خود مرکز سے منگوا کر رکھے تھے۔ جو وہ خود بلامعاوضہ بچوں کو دیتے ۔مجھے ایک دن کہنے لگے تم نے کیا حضور پُرنور کا یہ قول سنا ہے کہ جو لوگ قرآن کو دنیا میں عزت دیں گے وہ آسمان پر قیامت کے روز عزت پائیں گے ۔

(الفضل 24؍مئی2011ء)

مکرم محمد شفیق قیصر صاحب لکھتے ہیں:اباجان محترم چودھری محمد حسین صاحب راجن پور کے قریب ایک گاؤں موضع سو ہیں میں رہتے تھے۔ چھوٹی عمر میں قادیان دارالامان تشریف لے آئے۔ اباجان قرآن کریم کے عاشق تھے۔ ایک چھوٹے سائز کا قرآن کریم ہر وقت اباجان کے پاس رہتا۔ جب بھی موقع ملتا بجائے کسی اور گپ شپ کے اباجان قرآن مجید کو کھول کر اس کی تلاوت کرتے۔ آپ زمیندار تھے۔ بیلوں کے ذریعہ کاشتکاری کرتے ہل چلاتے ہوئے جب تھک جاتے تو آرام کرنے کے لیے جب بیٹھتے تو قرآن کریم کو کھول کر پڑھنا شروع کر دیتے۔ بعض اوقات جب اکٹھے زمیندار ہل وغیرہ چلاتے تو آرام کے وقت جبکہ دوسرے لوگ حقہ پینے یا پھر دوسری دنیاداری کی باتوں میں مشغول ہوتے تو آپ قرآن کریم کو جیب سے نکال کر اس کی تلاوت میں مشغول ہوتے۔ آپ کو فارغ بیٹھے ہوئے نہ دیکھا یا تو آپ کسی نہ کسی کام میں مشغول ہیں، سو رہے ہیں یا پھر قرآن کریم آپ کے ہاتھوں میں ہوتا اور آپ اس کی تلاوت کر رہے ہوتے۔ اگر وقت ایسا ہوتا یا روشنی کا انتظام نہ ہوتا تو بعض مسنون دعائیں جو قرآن کریم میں ہیں ان کو بآواز بلند بڑے سوز سے گھر میں، سفر میں پڑھتے رہتے۔

(الفضل 9؍دسمبر 2009ء صفحہ5)

جلسہ سالانہ

مکرم غلام محمد لون صاحب کاٹھ پوری کشمیر کے باسی تھے۔ 1954ء تا 1994ء (وفات تک) جلسہ قادیان میں شرکت کی توفیق پائی۔ آپ کاجوان بیٹا محمد اقبال دسمبر 1988ء میں کار کے حادثہ میں وفات پاگیا۔ اس وقت بھی آپ یہ کہتے ہوئے جلسہ پر جانے کی تیاری میں لگ گئے کہ میرا بیٹا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، میں جلسہ سالانہ کی برکات کیوں چھوڑ دوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر2014ء صفحہ18)

مالی قربانی

بانی انصاراللہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی اولاد کو وصیت سے آزاد رکھا ہے۔ اس لئے میں وصیت کرنا خلاف شریعت سمجھتا ہوں لیکن اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے اوسطاً پانچواں حصہ اپنی آمد کا چندوں اور للّٰہی کاموں میں خرچ کرتا ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ بلکہ میں تو گھر کے خرچ کے لئے جو قرض لیتا ہوں اس میں سے بھی چندہ ادا کرتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی ضرورتوں کے لئے قرض لیتے ہیں تو خداتعالیٰ کے لئے قرض کیوں نہ لیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد12 صفحہ306)

1939ء میں جماعت نے پچاس سالہ جوبلی میں 2 لاکھ 70 ہزار روپیہ بطور تحفہ حضور ؓکی خدمت میں پیش کیا تھا۔ جو حضور ؓنے 1952ء میں سارے کا سارا مع نذرانے ادارہ الشرکة الاسلامیہ کے حوالے کر دیا جو اردو میں احمدیہ لٹریچر کی اشاعت کے لیے حضورؓ نے قائم فرمایا تھا۔ اسی ادارے نے روحانی خزائن، ملفوظات اور تفسیر کبیرکے سیٹ شائع کیے۔

حضرت مسیح موعود ؑنے یہ خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ منارةالمسیح کے ساتھ ایک کمرہ بنایا جائے جس میں 100 آدمی بیٹھ سکیں۔ اس میں مذہبی تقاریر کا جلسہ ہو اور دین حق کی خوبیاں بیان کی جائیں۔(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ296)1945ء کی مجلس مشاورت میں یہ معاملہ بھی ضمناً زیر غور آیا تو حضرت مصلح موعود ؓنے تحریک فرمائی کہ حضرت مسیح موعود ؑکی اولاد کے لیے ایک سے ہزار ہونے کی دعا ہے اس لیے ہمیں اتنا بڑا ہال بنانا چاہیے جس میں ایک لاکھ افراد بیٹھ سکیں حضورؓ نے 2 لاکھ روپیہ کی تحریک کی۔ بعض احباب نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ہم ساری ساری جائیداد وقف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ موقع پر ہی 2 لاکھ 22 ہزار روپے جمع ہوگئے۔

(تاریخ احمدیت جلد10 صفحہ503تا509)

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت بشیرالدین صاحب بھاگلپوری ؓنے اس تحریک میں شامل ہوتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایاکہ خداتعالیٰ کا بڑا شکر ہے۔ میں نے 1905ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس وقت آپ سے سنا تھا کہ قادیان مرجع خاص و عام ہوگا اور اب دیکھ لیا ہے کہ عظیم الشان جماعت بن رہی اور بنتی جار ہی ہے۔ اس لیے بہت زیادہ آدمیوں کے بیٹھنے کے لیے ہال بننا چاہیے۔ کیونکہ ساری دنیا کے مذاہب کے نمائندے آئیں گے اور بڑے بڑے لوگ آئیں گے ہماری ساری جائیدادیں اس ہال کی تعمیر کے لیے حاضر ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ506)

حضرت مصلح موعودؓنے 1944ء میں وقف جائیداد کی تحریک فرمائی تھی۔حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت میاں خدا بخش صاحبؓ گوندل نمبردار موضع کوٹ مومن ضلع سرگودھا نے حضور ؓکی خدمت میں لکھا:

حضور کے غلام نے آپ کا خطبہ جمعہ مورخہ 18؍ربیع الاول کل مورخہ 17؍مارچ 44ء کو پڑھا … جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک پڑھ کر دل کو اس قدر خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ میری جائیداد قریب قریب اس وقت بوجہ جنگ کے دولاکھ کی ہے۔ میں خدا کے دین کی اشاعت کے لیے بسم اللہ کر کے وقف کرتا ہوں۔ یہ جائیداد کیا چیز ہے میرا سر بھی اس کام کے لیے حاضر ہے …جنوری 1324ھش 1954ء میں آپ نے اپنی زرعی زمین سے ایک کنال کا رقبہ صدر انجمن احمدیہ کے نام رجسٹری کرا دیا مسجد احمدیہ کی تعمیر شروع کی مگر ادھر یہ مسجد پایہ تکمیل تک پہنچی ادھر واپسی کا بلاوا آگیا۔

(تاریخ احمدیت جلد10 صفحہ539)

خدمت خلق

قادیان میں ایک نابینا حافظ حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے اصحاب میں تھے۔ایک روز ایک حکیم صاحب کے پاس گئے اور یہ شکایت کی کہ میرے کانوں میں شائیں شائیں کی آواز سنائی دیتی ہے اور سنائی بھی کم دیتا ہے کوئی علاج بتائیں۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ آپ کے کانوں میں خشکی ہے۔ دودھ پیا کریں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ روٹی تو مجھے حضور کے لنگر سے مل جاتی ہے دودھ کہاں سے پیوں۔ اسی دوران حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ (مجلس انصاراللہ کے پہلے صدر) وہاں سے گزرے اور انہوں نے یہ ساری گفتگو سن لی اور خاموشی سے چلے گئے۔ اسی روز رات کے وقت ایک شخص حافظ صاحب کے پاس آیا اور قریباً ڈیڑھ سیر دودھ دے کر چلا گیا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا وہ شخص خاموشی سے آتا اور دودھ دے کر چلا جاتا۔ حضرت حافظ صاحب نے یہ قصہ شیخ عبدالعزیز کو سنایا۔

شیخ عبدالعزیز صاحب فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آیا کہ دیکھوں کہ یہ کون شخص ہے جو مسلسل ڈیڑھ سال سے دودھ لے کر آتا ہے اور کبھی ناغہ بھی نہیں کرتا اور نہ ہی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ چنانچہ اس خیال کے تحت میں ایک روز اس شخص کے آنے سے پہلے ہی حافظ صاحب کے دروازے کے آس پاس گھومنے لگا۔ اتنے میں ایک شخص ہاتھ میں برتن لئے ان کے گھر کے اندر چلا گیا۔ چونکہ سردیوں کے دن تھے۔ اس لئے حافظ صاحب اندر چار پائی پر بیٹھے تھے۔ اس شخص نے حسب معمول دودھ دیا۔ میں اسے دیکھنے کے لیے جب اندر داخل ہوا تو وہ میرے پاؤں کی آہٹ سن کر کمرہ کے اندر ایک کونے میں جاکھڑا ہوا۔ اندر اندھیرا تھا اس لیے میںپہچان نہ سکا۔ غور سے دیکھا تو ایک شخص دیوار سے لگا دکھائی دیا۔ میں نے پاس جاکر پوچھا کہ بھائی تم کون ہو؟ مجھے دھیمی سی آواز آئی ’’شیرعلی‘‘ یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے جیسے زمین نکل گئی۔ میں سخت شرمندہ ہوا کہ جس کام کو حضرت مولوی صاحب راز میں رکھنا چاہتے تھے میں نے اسے افشا کر دیا۔ مجھے دیر تک آپ کے سامنے جاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی تھی۔

(سیرت شیر علی)

سخت سردی کا موسم تھا۔ ضلع امرتسر کے احمدی نور محمد صاحب کے پاس نہ کوٹ تھا نہ کمبل۔ صرف اوپر نیچے دو قمیص پہن رکھی تھیں کہ گاڑی میں ایک معذور بوڑھا ننگے بدن کانپتا ہوا نظر آیا۔ اسی وقت اپنی ایک قمیص اتار کر اسے پہنا دی۔ ایک سکھ دوست بھی ساتھ سفر کررہا تھا وہ یہ دیکھ کر کہنے لگا ’’بھائیا جی ہن تھاڈا تے بیڑا پار ہو جائے گاآپاں دا پتہ نئیں کی بنے؟‘‘ چند دن بعد وہ احمدی ایک گرم کمبل خرید کر اسے اوڑھ کر حسب معمول احمدیہ مسجد مغلپورہ میں نماز فجر کے لیے داخل ہوئے تو دیکھا کہ فتح دین نامی ایک شخص جو کسی وقت بہت امیر تھا۔ بیماری اور افلاس کا مارا سردی سے کانپ رہا ہے۔ نور محمد صاحب نے اسی وقت وہ نیا کمبل اسے اوڑھا دیا۔

(روح پرور یادیں صفحہ287)

1970ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے نصرت جہاں سکیم جاری فرمائی۔ جس میں انصار ڈاکٹرز اور اساتذہ کو بھی خصوصی خدمت کی توفیق ملی۔

اس سکیم میں اللہ تعالیٰ نے جو برکت ڈالی اس کا ذکر کرتے ہوئے حضورؒ نے 1980ء میں فرمایا:

’’اس سکیم کے تحت بہت سے احباب نے جانی قربانی کا جو نمونہ پیش کیا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ بہت سے ڈاکٹروں نے مغربی افریقہ میں نئے کلینک کھولنے اور انہیں چلانے کے لئے تین تین سال وقف کئے۔ میں نے ان سے کہا تم خدمت کے لئے جارہے ہو۔ جاؤ ایک جھونپڑا ڈال کر کام شروع کردو اور مریضوں کی ہر ممکن خدمت بجالاؤ۔ میں ابتدائی سرمائے کے طور پر انہیں صرف پانچ سو پونڈ دیتا تھا۔ انہوں نے اخلاص سے کام شروع کیا۔ غریبوں سے ایک پیسہ لئے بغیر ان کی خدمت کی۔ امراء نے وہاں کے طریق کے مطابق اپنے علاج کے اخراجات خود ادا کئے۔ اب وہاں ہمارے ایسے ہسپتال بھی ہیں جن کی بچت تمام اخراجات نکالنے کے بعد ایک ایک لاکھ پونڈ سالانہ ہے۔ دو سال کے اندر اندر 16 ہسپتال کھولنے کی توفیق مل گئی۔ پھر ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اب تو میڈیکل سنٹروں کی تعداد چوبیس پچیس ہو گئی ہو گی۔ وہاں لوگ ہمارے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ میں بھی ہسپتال قائم کرو۔

اسی طرح مغربی افریقہ کے ممالک میں پہلے یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کا کوئی ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا۔ سارے سکول عیسائی مشنوں کے ہوتے تھے۔ … بچے بھی انہی کے سکولوں میں پڑھنے پر مجبور تھے۔ وہ براہ راست بائبل کی تعلیم دیئے بغیر ان کا عیسائی نام رکھ کر انہیں چپکے سے عیسائی بنا لیتے تھے۔ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہاں پرائمری، مڈل اور ہائرسیکنڈری سکول کھولنے کی توفیق دی۔ اس طرح وہاں … بچوں کی تعلیم کا انتظام ہوا۔ نصرت جہاں منصوبہ کے تحت سولہ نئے ہائرسیکنڈری سکول کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ خداتعالیٰ نے وہاں اس سے زیادہ تعداد میں سکول کھولنے کی توفیق عطا کردی۔ غلبہ اسلام کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی۔ سو اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں منصوبہ کے تحت یہ بنیادیں فراہم کردیں۔اب وہاں خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری اس خدمت کا اتنا اثر ہے کہ نائیجیریا میں ہماری جماعت کے جلسہ سالانہ میں ملک کے صدر نے جس کا تعلق … نارتھ سے ہے جو پیغام بھیجا اس میں جماعت کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا کہ میں تمام مسلمانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں بھی ملک وقوم کی اسی طرح خدمت کرنی چاہئے۔ جس طرح جماعت احمدیہ نائیجیریا کر رہی ہے۔‘‘

(دورہ مغرب صفحہ24)

وقف عارضی

وقف عارضی کی سکیم قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا بہترین موقع ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:

’’میں نے ایک بزرگ کو ایک ایسی جماعت میں بھیجا جو تعداد میں بہت بڑی ہے۔ انہوں نے وہاں جا کے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور دعائیں کرنے لگ گئے۔ انہوں نے جماعت کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے دیکھا کہ شروع میں جماعت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ پہلے ہفتہ انہوں نے یہ رپورٹ بھیجی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مر چکی ہے اور اس کے زندہ ہونے کی اب کوئی امید نہیں۔ دوسرے ہفتہ کی رپورٹ بھی اس قسم کی تھی۔ تیسرے ہفتہ کی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں نے پہلے جو رپورٹیں بھجوائی ہیں وہ سب غلط تھیں جماعت مری نہیں بلکہ زندہ ہے لیکن خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے۔ اگر اس کی تربیت کی جائے اور اسے جھنجھوڑا جائے تو اس کی زندگی کے آثار زیادہ نمایاں ہو جائیں گے۔ وہ زندگی جو جماعت ہائے احمدیہ نے حضرت مسیح موعود ؑکے ذریعہ اپنے ربّ سے حاصل کی ہے۔‘‘

(خطبات ناصر جلد اول صفحہ404)

جن احباب نے تحریک وقف عارضی میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ نے ان پر انفرادی اور اجتماعی طور پر مختلف رنگوں میں بے پناہ فضل نازل فرمائے۔ ان میں انصار بھی تھے اور خدام بھی۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ایک موقع پر ان افضال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’اس تحریک میں حصہ لینے والے ان پڑھ تھے یا کم پڑھے ہوئے تھے۔ یا بڑے عالم تھے۔ چھوٹی عمر کے تھے یا بڑی عمر کے، اللہ تعالیٰ نے ان پر قطع نظر ان کی عمر۔ علم اور تجربہ کے (کہ اس لحاظ سے ان میں بڑا ہی تفاوت تھا) اپنے فضل کے نزول میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اس عرصہ میں ان سب پر اللہ تعالیٰ کا ایک جیسا فضل ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کے فضل سے 99 فیصدی واقفین عارضی نے بہت ہی اچھا کام کیا۔ ان میں سے ہر ایک کا دل اس احساس سے لبریز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں اس پر اتنے فضل نازل کئے ہیں کہ وہ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا اور اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ خدا کرے اسے آئندہ بھی اس وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہے۔ اور بعض جماعتوں نے تو یہ محسوس کیا کہ گویا انہوں نے نئے سرے سے ایک احمدی کی زندگی اور اس کی برکات حاصل کی ہیں۔ ان کی غفلتیں ان سے دور ہو گئی ہیں اور ان میں ایک نئی روح پیدا ہو گی۔ ان میں سے بہتوں نے تہجد کی نماز پڑھنی شروع کر دی۔

(خطبات ناصر جلد اول صفحہ402)

وقف جدید کے ایک معلم بیان کرتے ہیںکہ ہمارے علاقہ کے ایک بزرگ کا واقعہ ہے جب وہ چھ ہفتے کے وقف عارضی پر جانے لگے تو گندم کی بوائی کا موسم تھا گندم کاشت کی تو اپنے کھیت میں کھڑے ہو کر کہا اب پانی اسے خدا دے گا۔ یہ علاقہ بارانی تھا بارش کے پانی سے ہی فصل نے تیار ہونا تھا۔ دوسرا یہ کہ بارانی علاقہ والی فصل میں اگر پانی کو روکا نہ جائے تو وہ اچھی طرح سیراب نہیں ہوتی۔ کیونکہ زمین ریتلی ہوتی ہے۔ آناً فاناً پانی خشک ہو جاتا ہے یا آگے نکل جاتا ہے۔ بیوی بچوں نے کہا آپ تو جارہے ہیں۔ آپ نے گندم کاشت کی ہے علاقہ بارانی ہے اور اس کے پانی کو کون سنبھالے گا۔ کہنے لگے میرے خلیفہ کا حکم ہے میں نے جانا ضرور ہے۔ فصل میں نے کاشت کردی ہے اب خدا اس کو سیراب کرے گا۔ چنانچہ وہ بزرگ وقف عارضی پر چلے گئے۔روایت کرنے والے بتاتے ہیں کہ جب بھی ان کی فصل کو پانی کی ضرورت پیش آئی تو ہم نے اس فصل پر بارش برستے دیکھی جب بزرگ اپنی وقف عارضی پوری کرکے واپس لوٹے۔ اپنی فصل کی طرف گئے تو تمام دوسرے لوگوں کی فصل سے ان کی فصل اوپر لہلہا رہی تھی۔

(الفضل 13؍مارچ 2006ء)

دیانت

ہمالیہ کے دامن میں واقع گاؤں آسنور میں حضرت حاجی خواجہ عمرڈار صاحب کو سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے حسن اخلاق اور بلند کردار سے جلد ہی مضبوط جماعت یہاں قائم ہوگئی۔ آپ ایک دیانتدار تاجر تھے۔ جب آپ پہلی بار قادیان سے واپس آئے تو اپنے تجارتی شراکت دار کو حضرت مسیح موعود ؑکی صداقت کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے بیعت کرلی ہو تو میری طرف سے ابھی بیعت کا خط لکھ دیں۔ جب کسی نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے بغیر تحقیق کیے کیسے بیعت کرلی تو وہ کہنے لگے کہ عمرڈار نے تجارت میں مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا تو مذہب میں میرے ساتھ کس طرح دھوکا کرے گا!۔

(الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر 2014ء صفحہ18)

جانی قربانی

حضرت مسیح موعود ؑکے متبعین نے آپ کی زندگی میں ہی صدق و صفا کے اعلیٰ نمونے دکھائے اور حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ اور حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب کے علاوہ افریقہ میں بھی ایک شہید کا پتہ ملتا ہے احمدیوں نے ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش،افغانستان،برطانیہ،امریکہ،ٹرینیڈاڈ،انڈونیشیا وغیرہ میں سینکڑوں شہادتیں پیش کرنے کی توفیق پائی ہے۔تقسیم ہند کے بعد حضرت مصلح موعود ؓ نے تحریک فرمائی کہ ہم قادیان کسی صورت میں مکمل طور پر نہیں چھوڑیں گے اور ایسے جاں بازوں کی ضرورت ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر قادیان میں ٹھہر جائیں اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کریں حضورؓ نے اپنے ایک بیٹے سمیت 313 احمدیوں کا وہاں ٹھہرنے کے لیے انتخاب فرمایا۔ چنانچہ 16؍نومبر 47ء سے وہاں عہد درویشی کا آغاز ہوا۔ ان احمدیوں نے جس ایمان، استقامت اور فدائیت کا مظاہرہ کیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار ریاست نے لکھا:

’’یہ واقعہ انتہائی دلچسپ ہے کہ جب مشرقی پنجاب میں خونریزی کا بازار گرم تھا۔مسلمانوں کا مسلمان ہونا ہی ناقابل تلافی جرم تھا۔ مشرقی پنجاب کے سبی ضلع کے مقام پر بھی کوئی مسلمان باقی نہ رہا وہ یا تو پاکستان چلے گئے یا قتل کر دیئے گئے تو …قادیان میں چند درویش صفت احمدی تھے … جنہوں نے اپنے مقدس مذہبی مقامات چھوڑنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے ننگ شرافت لوگوں کے ننگ انسانیت مظالم برداشت کئے اور جن کو بلاخوف تردید مجاہد قرار دیا جاسکتا ہے اور جن پر آئندہ کی تاریخ فخر کرے گی۔ کیونکہ امن اور آرام کے زمانہ میں تو ساتھ دینے والی تمام دنیا ہوا کرتی ہے۔ان لوگوں کو انسان نہیں فرشتہ قرار دیا جانا چاہئے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے شعار پر قائم رہیں اور موت کی پرواہ نہ کریں۔ اب بھی … قادیان کے درویشوں کے اسوۂ حسنہ کا خیال آتا ہے تو عزت و احترام کے جذبات کے ساتھ گردن جھک جاتی ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جن کو آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے قرار دینا چاہئے۔‘‘

(بحوالہ مرکز احمدیت قادیان،صفحہ280)

حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ) لکھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد جب قادیان کا محاصرہ کرلیا گیا تو اباجان حضرت مصلح موعودؓ (بانی انصاراللہ) کا خط ہم سب بھائیوں کے نام ملا جس میں آپ نے لکھا:جہاں تک ظاہری حالات اور ہماری معلومات کا تعلق ہے ہندوستان کی فوج کی مدد سے ……جتھے قتل عام شروع کرنے والے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں تم سب بھی قتل کر دیئے جاؤ گے۔ میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم سب بھائی بشاشت سے اور ہنستے مسکراتے خدا کی راہ میں جان دینا۔ کسی قسم کا خوف تمہارے چہروں پر بھی نہ آئے۔

(یادوں کے دریچے صفحہ58)

تحریک شدھی کے موقع پر ایک بنگالی نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں بوڑھا ہوں اور میرے بیٹے راجپوتانہ میں دعوت الی اللہ کے لیے شاید اس لیے وقف نہ کر رہے ہوں کہ مجھے تکلیف ہوگی مگر خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر میرے 10 بیٹے ہوں اور وہ سارے کے سارے خدمت دین کرتے ہوئے مارے جائیں تب بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا بلکہ میں خود بھی خدا کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے لیے عین خوشی کا موجب ہوگا۔

(الفضل 15؍مارچ 1923ء)

ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کر دیا گیا تو انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی خدمت لکھا کہ میرا بھائی اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے نتیجے میں ڈرے نہیں۔ کمزور نہیں پڑے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے دل میں شہادت کا جذبہ پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے میرا ایک بھائی شہید کیا ہے مگر میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری ساری اولاد بھی اس راہ میں شہید ہوتی چلی جائے تو مجھے اس کا دکھ نہیں ہوگا۔ خدا نے ان کی یہ آرزو سن لی اور انہیں بھی جلد ہی شہادت کا رتبہ عطا فرمایا اور یہ خط حضور ؒکی خدمت میں پہنچنے سے پہلے وہ شہید ہوچکے تھے۔

(الفضل 4؍دسمبر1989ء صفحہ5)

تمباکو نوشی سے اجتناب

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کو حقہ سے سخت نفرت تھی ۔ایک شخص حقہ پی کر آپ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو گیا آپ کو متلی ہونے لگی آپ نے نماز کے بعد اسے فرمایا بہتر ہے آپ ایسی حالت میں نماز گھر پر ہی پڑھ لیا کریں (الفضل 24؍ستمبر 1913ء صفحہ 15)آپؓ نے 1912ء میں ایک خطاب میں تمباکو نوشی چھوڑ نے کی پُرزور تلقین فرمائی۔(الحکم 28؍فروری 1912ء صفحہ6)حضور کی یہ نصیحت نہایت مؤثر اور کارگر ثابت ہوئی۔اخبار الحکم لکھتا ہے:

بہت سے آدمیوں نے حقہ نوشی سے توبہ کرلی اور حقے ٹوٹ گئے۔مدرسہ کے طالب علموں میں سے جو سگریٹ نوشی کے عادی تھے۔ وہ اپنی توبہ کی درخواستیں پے درپے بھیج رہے ہیں۔ بعض کو اس قبیح عادت کے ترک سے تکلیف بھی ہوئی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح نے ان کے لئے ایک نسخہ تجویز کیا ہوا ہے۔ میں اسے اس افادہ عام کے لئے درج کر دیتا ہوں۔فرمایا کہ جب حقہ کی خواہش پیدا ہو تو چند کالی مرچیں منہ میں رکھ لو اس سے یہ تکلیف جاتی رہے گی۔ بہرحال یہ خدا کے فضل کی بات ہے کہ یہ بلا ہمارے مدرسہ سے رخصت ہونے کو ہے بلکہ ہوچکی ہے۔

(الحکم 14؍فروری 1912ء صفحہ8)

حضرت مصلح موعود ؓ نے آغاز خلافت سے ہی احمدیوں کو تمباکونوشی چھوڑنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ روزنامہ الفضل لکھتا ہے:

حضرت مصلح موعود کے دربار میں ایک تجویز پیش ہے۔ تمباکو امریکہ سے آیا تھا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اس کے خرچ کو اسی ملک میں اشاعت حق پر لگایا جاوے۔ پس جو احمدی تمباکو (سگریٹ، حقہ) پیتے ہیں۔ وہ اس لغو عادت کو چھوڑ دیں اور جو خرچ ماہوار تمباکو پر کرتے ہیں بطور کفارہ اس کا نصف اس فنڈ میں بالالتزام دیتے ہیں اور جو نہیں چھوڑ سکے وہ اپنے تمباکو کے ماہوار خرچ کے برابر چندہ اس فنڈ میں ہر مہینے جمع کرادیا کریں۔ پہلے یہ تجویز قادیان میں رائج ہوگی۔ اپنے گھر کوپاک کرکے پھر بیرونجات کے احمدیوں پر نگران مقرر ہوں گے جو ہر تمباکو نوش سے یہ رقم وصول کرکے داخل دعوت الی الخیر فنڈ کریں گے۔(الفضل 22اپریل 1914ء صفحہ1) چند دن بعد کے الفضل میں لکھا ہے کہ تمباکو کے متعلق تجویز پر عمل ہورہا ہے۔

مرزا احمد بیگ صاحب ساہیوال روایت کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفع میرے ماموں مرزا غلام اللہ صاحب سے فرمایا کہ مرزا صاحب دوستوں کو حقہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں۔ ماموں صاحب خود حقہ پیتے تھے۔ انہوں نے حضور سے عرض کیا بہت اچھا حضور۔گھر آکر اپنا حقہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اسے توڑ دیا۔ ممانی جان نے سمجھا کہ آج شاید حقہ دھوپ میں پڑا رہا ہے اس لیے یہ فعل ناراضگی کا نتیجہ ہے۔ لیکن جب ماموں نے کسی کو کچھ بھی نہ کہا تو ممانی صاحبہ نے پوچھا آج حقے پر کیا ناراضگی آگئی تھی؟ فرمایا مجھے حضرت صاحب نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہے اور میں خود حقہ پیتا ہوں۔ اس لیے پہلے اپنے حقے کو توڑا ہے۔چنانچہ ماموں صاحب نے مرتے دم تک حقے کو ہاتھ نہ لگایا اور دوسروں کو بھی حقہ چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے۔

(سوانح فضل عمر جلد2 صفحہ34)

آئندہ نسلوں کو وصیت

حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ نے آنے والی نسل کو اس خدائی امانت کی حفاظت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

’’جب تک یہ الٰہی امانت ہمارے پاس رہی اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے خدمت کی۔ اب حکمت الٰہیہ کے ماتحت یہ امانت آپ کے سپرد ہے۔ اس کا حق ادا کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ پس دیکھنا اسے اپنے سے عزیز رکھنا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 9 صفحہ279)

حضرت شیخ محمد اسماعیل سرساوی صاحب ؓ نے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہم نے خلافت کی حقیقت کو سمجھا تھا کہ خلافت ہی ایسی ضروری ہے کہ جس کے بغیراسلام کی حفاظت ہو نہیں سکتی۔ پس ہم نے اپنے وقت میں اپنے خلیفہ کی بھی حفاظت کماحقہ کرکے دکھا دی تھی اور حفاظت بھی کماحقہ کرکے اپنے پیارے خدا کی خوشنودی حاصل کرلی تھی۔ اب ہم تو بوڑھے ہو گئے اور ہڈیاں بھی ہماری کھوکھلی ہوگئیں۔ ٹھوکریں ہی کھاتے رہے اور ٹھوکریں کھاتے ہی اس دنیا سے گزر جائیں گے۔ اب تمہارا نوجوانوں کا ہی کام ہے کہ آگے آگے قدم رکھو اور اپنے پیارے خلیفہ کی بھی حفاظت کرو اور خلافت کی بھی حفاظت کرو۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر6صفحہ78)

حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحبؓ آف کھارا متصل قادیان اپنی اولاد کو بار بار یہی نصیحت کرتے کہ مرکز کے ساتھ مضبوط تعلق رکھنا۔ مرکزی نقطہ خلافت ہے۔ سب سے بڑھ کر عزت و احترام خلیفة المسیح کا ہے باقی سب آپ کے تابع ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد 25 صفحہ231)

الحاج احمد عکاشی صاحب علاقہ اردشر تنزانیہ کے نہایت دلیر مربی سلسلہ تھے۔ وفات سے قبل اپنے تمام خاندان کو جمع کرکے اپنی آخری وصیت ریکارڈ کی جس میں پورے خاندان کو جماعت احمدیہ سے ہر دم وابستہ رہنے کی تاکید کی اور کہا کہ اس بات میں ذرا بھر شبہ نہیں کہ روئے زمین پر صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس میں شامل ہو کر انسان آنحضرت ﷺسے سچی محبت کرسکتا ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد25صفحہ240)

الغرض یہ اطاعت کے پتلے تھے۔ وفا کے مجسمے تھے۔ انہوں نے کچھ کھویا نہیں بلکہ سب کچھ پا لیا۔ کیا یہ اعزاز کم ہے کہ کسی کو دوسروں کے لیے مثال بنا دیا جائے اور اس کے نقشے قدم پر چلنے کی تلقین کی جائے۔ انہوں نے اپنے مولیٰ کی محبت پائی۔ مخلوق پر رحم اور شفقت کے مزے لوٹے۔ اعلیٰ اخلاق کی حلاوت سےفیضیاب ہوئے۔روحانیت سے جھولیاں بھرتے رہے اور اپنے خدا کے حضور سرخ روح ہو گئے۔ پس مبارک ہیں وہ جو خلافت کی اطاعت سے برکتیں حاصل کرتے ہیں اور مبارک ہے وہ خلافت جو اطاعت گذاروں کو دنیا جہان کی نعمتیں دے دیتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button