متفرق مضامین

کیا اطاعت ایک جرم ہے؟

(ابو نائل)

جماعت احمدیہ ایک واجب الا طاعت خلافت پر یقین رکھتی ہے

دنیا میں مذہبی اطاعت پر اعتراضات تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن ان کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی جاتی بلکہ ان اعتراضات کی بنیاد اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اکثر اوقات مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے

ہمیشہ سے دنیا میں مختلف نظریات کے دھارے بہتے رہے ہیں۔ایک گروہ ایک نظریے کو لے کر کھڑا ہوتا ہے اور دوسرا گروہ اس سے مختلف بلکہ متضاد نظریے کا علمبردار بن کر منظر پر نمودار ہوتا ہے۔اگر ایک گروہ انسانیت کو مشرق کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو دوسرا گروہ اسے مغرب کی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے۔اور یہی نظریاتی کشمکش انسانوں کو مصنوعی روبورٹس کی فرضی دنیا سے ممتاز کرتی ہے۔

اس دَور میں بلکہ تاریخ کے ہر دَور میں ایک بحث ہمیشہ سے چلی آئی ہے۔ایک طبقہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مکمل شخصی آزادی ہونی چاہیے۔ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ وہ جس طرح چاہے زندگی گزارے۔معاشرے کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک شخص کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرے۔اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ کسی انسان کو مذہبی اقدار کا پابند بنا کر اس کی شخصی آزادی سلب کی جائے۔ اس طرح مذہب کے نام پر لوگوں کو اپنا غلام بنایا جاتا ہے۔مذہب کا نام لے کر کبھی اطاعت کے سبق دیے جاتے ہیں اور کبھی ادب کے لیکچر پلائے جاتے ہیں۔ اور مذہب کی آڑ لے کر انسانوں کی نجی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں دخل اندازی کی جاتی ہے۔

دوسری طرف مذہب کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ ایک مذہب کے پیروکار اس بنا پر اپنی مذہبی اقدار کی پابندی کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں۔اور ان پر عمل کر کے ہمیں خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو گی اور ان احکامات پر عمل کرنے میں ہمارا ہی بھلا ہے۔ اور اکثر مذاہب کے عقیدے میں یہ شامل ہے کہ انسان اس جہان میں نیک اعمال کرتا ہے اور اس کے بدلے میں اگلے جہان میں اسے اجر سے نوازا جاتا ہے۔سب سے پہلے قرآن کریم کی چند آیات درج کی جاتی ہیں تا کہ واضح ہو کہ قرآنی نظریات کے مطابق خدا اور رسول کی اطاعت کا کیا فائدہ ہے؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔

(النور:52)

مومنوں کا قول جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے محض یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اور یہی ہیں جو مراد پاجانے والے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اسے کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔پھراولی الامر کی اطاعت کا حکم بھی دیا گیا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا۔

(النساء:60)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لَوٹا دیا کرو اگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر (طریق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔

ان تعلیمات پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دے کر مذہب میں یا معین طور پر اسلام میں انسانی آزادی کو سلب کیا گیا ہے اور اس کی سوچ اور نشوونما پر قدغن لگائی گئی ہے۔اگر انسان کو اس طرح اطاعت کا سبق دیا جائے تو اس کی ذہنی ترقی رک جائے گی۔ اس سلسلے میں اکثر چار سو سال قبل گلیلیو پر چلائے جانے والے مقدمے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔جب پوپ اربن ہشتم کی قیادت میں چرچ اس بات پر مصر تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔اورگلیلیو کی اس کتاب پر پابندی لگا دی گئی جس میں اس نظریے کے بھی دلائل دیے گئے تھے کہ زمیں سورج کے گرد گھومتی ہے اور اس بات کے حق میں بھی دلائل دیے گئے تھے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ پہلے نظریے کے حق میں دلائل زیادہ وزنی تھے۔اگر یورپ صرف چرچ کے نظریات کی اطاعت پر ہی اکتفا کر لیتا تو اب تک یہی سمجھ رہا ہوتا کہ سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔اور انسانی ترقی ایک انچ بھی آگے نہ سرکتی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل جماعت احمدیہ میں نظام خلافت قائم ہے اور جماعت احمدیہ ایک واجب الا طاعت خلافت پر یقین رکھتی ہے۔ اور اگر اس پہلو سے دیکھا جائے، یہ اطاعت کا ایک زائد پہلو ہے کہ تمام مبائع احمدیوں نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت بھی کرنی ہے اور خلیفہ وقت کی اطاعت بھی اس پر فرض ہے۔ اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں 27؍ مئی 1908ء کے حالات پر نظر ڈالنی ہو گی۔ یعنی وہ دن جب جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کا آغاز ہوا۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ تاریخی بیعت کن شرائط پر کی گئی تھی۔

اس روز جب قادیان میں موجود سب احباب کا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ حضرت حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گزارش کی جائے کہ وہ تمام جماعت کی بیعت قبول فرمائیں۔ یہ درخواست جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں زبانی پیش کی گئی تو آپؓ نے فرمایا کہ میں دعا کر کے جواب دوں گا۔ پھر اس درخواست کو جس پر بہت سے نمایاں احباب کے دستخط تھے تحریری صورت میں لکھا گیا اور کل جماعت کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے تمام احباب کی موجودگی میں پڑھ کر سنائی۔اس کے درج ذیل الفاظ قابل توجہ ہیں:

’’حضرت مولوی صاحب کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا۔‘‘

اور بیعت قبول فرمانے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے جو خطاب فرمایا اس میں آپؓ نے فرمایا:

’’اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو بیعت بک جانے کا نام ہے۔ ایک دفعہ حضرت نے اشارتاََ فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا۔ سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا۔پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے۔ایک شخص دوسرے کے لئے اپنی تمام حریت اور بلند پروازیوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا نام عبد رکھا ہے…

اب تمہاری طبیعتوں کے رخ کسی طرف ہوں۔ تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہو گی۔ اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاََ و کرہاََ اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں۔‘‘

(حیات نور صفحہ331تا335)

اس بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بشارات کی روشنی میں جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کا آغاز ہوا۔ اور اس بنیاد پر ہوا کہ بیعت کا مطلب ہی یہ ہے کہ بیعت کرنے والا بیعت کے وقت اپنی تمام حریت اور بلند پروازیوں کو چھوڑ کر خواہ اس کی طبیعت کا رخ کسی طرف بھی ہو ایک اور شخص کی اطاعت کو قبول کرتا ہے۔ ایک معترض یقینی طور پر یہ اعتراض کرے گا کہ اس نظام کے تحت شخصی آزادی اور انسانی حریت پر پابندی لگائی جاتی ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی الٰہی جماعت قائم ہوتی ہے اور یہ جماعت ایک واجب الاطاعت وجود کے گرد جمع ہوتی ہے۔ باوجود اس کے کہ اس الٰہی جماعت کو دن رات صلح و آشتی اور محبت اور امن پسندی کی تعلیم دی جا رہی ہو ، دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی ہیں۔اور بغیر سوچے سمجھے اس بنا پر کہ یہ گروہ ایک وجود کی اطاعت کے عہد کے ساتھ جمع ہوا ہے، اسے ہر ایک کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ایک طرف تو ایک طبقہ اس اطاعت کو شخصی آزادی اور انسانی حریت کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے اور دوسری طرف صاحب اقتدار طبقہ اس اطاعت کے عہد کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں الزام باہم متضاد ہیں۔

مثال کے طور پر اطالوی فلاسفر Benedetto Croce نے یہ نظریہ پیش کیا کہ نعوذُ باللہ مذہبی دنیا میں ذہنی راہ نمائی پسماندہ ذہن کے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو کہ اسے اپنی موروثی جائیداد سمجھتے ہیں۔ آخر مذہب کا مصرف ہی کیا ہے۔ اور فلسفہ نے مذہب کی ضرورت کو ہی ختم کر دیا ہے۔

(The Story of Philosophy by Will Durant p 614)

یہ تو مذہبی اطاعت پر ایک عمومی اعتراض تھا۔ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اس حوالے سے جماعت احمدیہ پر کیا اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں کہ اب پاکستان اور بعض دوسرے مسلمان ممالک میں جماعت احمدیہ کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، لیکن جب انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں اپنے عروج پر تھی تو اس وقت یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ جماعت احمدیہ حکومت کے خلاف بغاوت کی تیاری کر رہی ہے۔سلسلہ احمدیہ کے اشد ترین دشمن اور اہل حدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا :

’’گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے اور گورنمنٹ اور مسلمانوں کے ایڈووکیٹ اشاعۃ السنہ نے بار ہا جتا دیا ہوا ہے کہ یہ شخص درپردہ گورنمنٹ کا بد خواہ ہے۔ اور یہ گورنمنٹ اور دیگر مخالفین مذہب کے حق میں اپنی کتاب آئینہ کمالات کے صفحہ 601 میں صاف کہہ چکا ہے کہ نافرمان کا مال اور اس کی جان اس کے ملک سے خارج ہو کر خدا کے ملک میں داخل ہوجاتے ہیں۔پھر خدا تعالیٰ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو بلاواسطہ رسولوںکے ان کے مال کو تلف کرے اور ان کی جانوں کو معرض عدم میں پہنچا دے۔[یعنی ہلاک کرے ]۔‘‘

(اشاعۃ السنہ جلد 18 نمبر5 صفحہ 152)

چونکہ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے مامور کی اطاعت کے نام پر جمع ہوئی اس لیے اس پر یہ بے بنیاد الزام لگایا جا رہا تھا کہ یہ جماعت بغاوت کی تیاری کر رہی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے دَور میں بھی حکمران طبقہ انہی خدشات میں گھرا ہوا تھا۔چنانچہ جب امرتسر کے جریدے ورتمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں گستاخیوں سے بھرا پلندہ شائع ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس بارے میں ایک اشتہار شائع کر کے دیواروں پر لگایا گیا۔حکومت نے فوری طور پر دفعہ 144کا نفاذ کر دیا۔ اس وقت حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ امیر جماعت لاہور تھے۔ وہ کسی اشاعت کے سلسلے میں ڈپٹی کمشنر لاہور مسٹر اوگلوی کے دفتر گئے تو وہ اس اشتہار پر برہم بیٹھے تھے۔ اور کہا کہ اگر شہر میں فساد ہو جاتا۔ اس پر حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ اسے فرو کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔امام جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ دینی غیرت کی حفاظت کریں۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے قانون کے اندر رہتے ہوئے جو طریق وہ مناسب سمجھیں گے اختیار کریں گے۔اس پر ڈپٹی کمشنر کہنے لگے اگر امام جماعت احمدیہ تمہیں قانون شکنی کا حکم دیں۔ اس پر حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ اسلام قانون شکنی کی اجازت نہیں دیتا اس لیے یہ سوال ہی فضول ہے۔ انہوں نے دہرایا تو چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ فضول سوال دہرانے سے معقول نہیں ہوجاتا۔ بہر حال اس کے بعد پنجاب کے گورنر ایمرسن صاحب کی قیادت میں جماعت احمدیہ کی مخالفت اور مجلس احرار کی پشت پناہی شروع کر دی۔ یہ تفصیلات تاریخ کا حصہ ہیں۔یہ سب کارروائیاں بھی اس لیے کی گئیں کیونکہ جماعت احمدیہ نے ایک واجب الاطاعت وجود کی بیعت کی ہوئی تھی اور کیونکہ اس کا ایک اپنا نظام تھا۔

(تحدیث نعمت صفحہ419تا430)

اور مخالفین کا یہ عارضہ آزادی کے بعد بھی پاکستان میں جاری رہا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ شدید ہو گیا۔ چنانچہ جب 1974ء میں جماعت احمدیہ کے بارے میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کارروائی کی جا رہی تھی تو ایک ممبر ملک محمد سلیمان صاحب نے کہا :

’’تو ہر پاکستانی شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ سٹیٹ کا Loyalہو۔تو سٹیٹ کی تعریف آئین کے آرٹیکل 7 میں کی گئی ہے جس میں فیڈرل گورنمنٹ ، پروینشل گورنمنٹ ، اسمبلیز وغیرہ موجود ہیں۔ تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کسی قادیانی کو اگر کوئی گورنمنٹ یعنی سٹیٹ کا فرد جو بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو حکم دے اور دوسری طرف سے ان کا اپنا ہیڈ اس کو کوئی حکم دے تو کس کے حکم کی تابعداری وہ کرتا ہے ؟ یقینا ََ وہ اپنے ہیڈ کی بموجب شق 10 بیعت نامہ تابعداری کرتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔اس لئے ان کو ایک خلاف آئین جماعت قرار دیا جائے۔ اور آئین کی خلاف ورزی کے لئے آپ نے ایک شق نمبر 6 رکھی ہے کہ وہ high treasonکا مرتکب ہوتا ہے اور جب آرٹیکل 6 کے تحت وہ high treason کا مرتکب ہوتا ہے۔تو اس کے لئے آپ نے فیصلہ کیا تھا کہ اس کی سزا death ہو گی۔‘‘

(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ء صفحہ2639)

اس بات پر حیرت ہے کہ یہ کارروائی ان ممبران اسمبلی کے سامنے ہو رہی تھی جنہوں نے پاکستان کا آئین بنایا اور منظور کیا تھا۔ اور ان کے سامنے یہ لایعنی دعویٰ پیش کیا جا رہا تھا کہ جب احمدی نظام جماعت کی پیروی کرتے ہیں تو وہ آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کر کے سنگین غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔مناسب ہو گا کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ اس آرٹیکل میں کیا لکھا ہے۔اس کی رو سے کوئی بھی شخص جو طاقت یا دیگر غیرآئینی ذرائع سے دستور کی تخریب کرے یا اسےمعطل کرے وہ سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس شق کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ ایک مذہبی جماعت اپنے نظام سے وابستہ ہے اور رضاکارانہ طور پر اس کی پیروی کرتی ہے۔ خاص طور پر جب اس جماعت کے اغراض و مقاصد خفیہ نہیں رکھے گئے اور ایک صدی سے زائد عرصہ گذر گیا ان کا برملا اظہار کیا جاتا ہے۔

اس دلچسپ پہلو کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ بعض مغربی مصنفین اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ گو آزادی ضمیر کے بارے جماعت احمدیہ کی اقدار اورنظریات وہی ہیں جو کہ مغربی جمہوری ممالک کے ہیں لیکن یہ خوبی کی بات نہیں بلکہ یہ جماعت احمدیہ میں عدم برداشت کاثبوت ہے کیونکہ احمدی اپنے خلیفہ کی اطاعت کی وجہ سے ان اقدار کو اپناتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ یہ عجیب و غریب نظریہ ایک مغربی مصنف کے الفاظ میں ہی پڑھا جائے۔

What is incommensurated in this case is the fact that the Ahmadis actively embrace many of the key hallmarks of liberal democracy to cultivate an attitude of absolute obedience to their caliph. It is the caliph who commands Ahmadis to be good citizens, and it is the caliph who demands that they exercise loyalty to the countries in which they reside. When Ahmadis reflect the values of the liberal democracies in which so many of them now live, they do so in order to manifest and demonstrate their loving subordination to their caliph. It is nonetheless another “illiberal” feature of the Ahmadiyya Jama‘at that might shock their political suitors the most.

(Far from the Caliphs Gaze, by Nicholas H. A. Evans published by Cornell University Press page 3)

ترجمہ: اس سلسلہ میں جو پہلو غیر متناسب ہے وہ یہ ہے کہ احمدی آزاد جمہوریتوں کے بہت سے نمایاں خد و خال کو اس لیےاپنالیتے ہیں تاکہ وہ خلیفہ کی مکمل اطاعت کر سکیں۔یہ خلیفہ ہی ہےجو انہیں یہ بتاتا ہے کہ انہیں اچھا شہری بننا چاہیے۔اور یہ خلیفہ ہی ہے جو ان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جس ملک میں رہائش پذیر ہیں اس ملک کے اچھے شہری بن کر رہیں۔ جب احمدیوں میں ان ممالک کی مروجہ اقدار ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں جن ممالک میں ان میں سے بہت سے رہائش رکھتے ہیں تو یہ اس لیے ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ کی محبت بھری اطاعت کر رہے ہوتے ہیں۔لیکن یہ پہلو بھی احمدیوں کی تنگ نظری کی ایک شکل ہے اور یہ حقیقت ان کے سیاسی دوستوں کے لیے صدمے کا باعث ہو گی۔

اس حوالے سے ہم یہی سمجھ سکتے ہیں کہ اس کتاب کےمصنف یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ اگر احمدی کوئی اچھا کام کرتے ہیں یا اچھے نظریہ کو اپناتے ہیں لیکن اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ یہ ان کے خلیفہ کا حکم ہے تو یہ ان کی تنگ نظری کا ثبوت ہے۔ اصل الفاظ بھی اوپر درج کر دیے گئے ہیں۔ ہر پڑھنے والا اس فلسفہ کے بارے میں اپنی رائے قائم کر سکتا ہے۔لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ اس طبقہ کے نزدیک اگر کوئی احمدی اپنے امام کی اطاعت کرتے ہوئے نیکی اور فلاح و بہبود کے کام کرے تو بھی اس طبقہ کے نزدیک یہ ایک برائی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ شروع سے لے کر اب تک جماعت احمدیہ پر یہ الزام متواتر لگایا گیا ہے کہ یہ جماعت ایک امام کی اطاعت کرتی ہے۔ہر ذی شعور یہ سوچے گا کہ بھلا یہ کیا اعتراض ہوا؟ اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے ایک راہ نما کی اطاعت کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ کسی قانون شکنی یا فساد کا مرتکب ہو۔ لیکن جس جماعت پر یہ اعتراضات کیے جا رہے ہیں اس کی شرائط بیعت میں سے دوسری شرط یہ ہے کہ

’’یہ کہ جھوٹ اور زنا اوربد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آ وے۔‘‘

جماعت احمدیہ کے قیام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت پیدا کی جائے جو کہ ہر قسم کے فساد اور بغاوت کے خیالوں سے دور رہے۔اس کے با وجود ایسی جماعت پر بغیر کسی ثبوت کےیہ بھانت بھانت کے الزامات لگانا بد ترین زیادتی نہیں تو اورکیا ہے؟ جیسا کہ اوپر درج مثالوں سے ظاہر ہے کہ یہ طبقہ جماعت احمدیہ میں اطاعت کے جذبہ کو ایک عفریت کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان الزامات کا کچھ تجزیہ پیش کیا جائے۔

سب سے پہلے تو یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا صرف احمدی ہی اطاعت کا عہد کرتے ہیں یا دوسری مذہبی تنظیموں میں بھی ایسے عہد لیے جاتے ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہر احمدی بیعت یا تجدید بیعت کے وقت خلیفہ وقت کے ہر معروف فیصلہ کی تعمیل کرنے کا عہد کرتا ہے لیکن کیا دوسری مذہبی تنظیموں میں بھی اس قسم کے حلف لیے جاتے ہیں؟

شمالی امریکہ کے اینگلیکنچرچ میں جب کوئی شخص پادری بننے کے لیے اپنی تعلیم کا آغاز کرتا ہے تو اسے اطاعت کا ایک حلف اُٹھانا ہوتا ہے۔ اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

‘‘I do swear by almighty God that I will pay true and canonical obedience in all things lawful and honest to the Bishop of the Anglican Diocese, and his successors: So help me God.’’

ترجمہ: میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر عہد کرتا ہوں کہ میں ہر جائز اور دیانتدارانہ امر میں اینگلیکن ڈائوسیس کے بشپ اوراس کے جانشینوں کی حقیقی اور شرعی اطاعت کروں گا۔ اے خدا میری مدد کر۔

اسی طرح سب سے بڑے چرچ یعنی کیتھولک چرچ میں بھی ان سب افراد کو جو پادری یا نن بن کر اپنے چرچ کے لیے وقف ہوجاتے ہیں اپنے بالا افراد سے اطاعت کا حلف اُٹھانا پڑتا ہے۔

اور اسی قسم کے حلف دوسری مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد بھی اٹھاتے ہیں۔اگر اسی بنا پر ان سب کو غدار اور تنگ نظر اور ریاست کے لیے خطرہ قرار دے دیا جائے تو غدار سازی کا وہ سلسلہ شروع ہو جائے گا جسے روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔اور جس ملک میں اس قسم کی سوچ کو پروان چڑھایا جائے گا اس ملک میں اس قسم کی سوچ کا یہ لازمی نتیجہ نکلے گا کہ مذہبی آزادی بالکل سلب ہوجائے گی۔ اور یہ اپنی ذات میں اس ملک کے آئین سے غداری اور قانون شکنی ہو گی کیونکہ دنیا کے مختلف دستوروں میں مذہبی آزادی اور مذہبی اداروں کے قیام کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے آئین کاآرٹیکل 20 یہ ہے:

’’ قانون ، امن عامہ اور اخلاق کے تابع

(الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی پیروی کرنے کا حق ہو گا

(ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہو گا۔‘‘

اگر مذہبی اطاعت کو جرم قرار دے دیا جائے تو کسی قسم کے مذہبی ادارے قائم نہیں رہ سکتے۔ بلکہ مذہبی آزادی بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ مثال کے طور پر اوپر وہ آیات درج کی گئی ہیں جن میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ کیا دنیا کے ایسے ممالک میں جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان تو اپنی مذہبی کتاب کی پیروی کرتے ہیں ، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے قانون اور آئین کے باغی ہیں۔اور اگر ہمارے قانون اور ان کے مذہبی احکامات کا تصادم ہو جائے توپھر مسلمان کیا فیصلہ کریں گے؟ ظاہر ہے کہ اس قسم کے اوہام کا اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ ہر ملک کے ایک بڑے حصے میں بے چینی پیدا کی جائے۔ اور مختلف مذاہب سے وابستہ شہریوں میں تصادم کی کیفیت پیدا کی جائے۔

اگر کسی بھی مذہبی تنظیم میں اطاعت کا عہد اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عہد کرنے والا اپنے ملک کے قانون کا وفادار نہیں ہے اور نہ ہی ان دونوں میں کوئی تصادم ہے کیونکہ یہ دونوں علیحدہ دائرے ہیں۔ اسلام کی تعلیم کی رو سے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کا وفادار شہری بن کر رہے۔ اور مختلف ممالک کے قوانین ہر شہری کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔ تو پھر تصادم کیسا؟

خالصتاََ دنیاوی نقطہ نگاہ سے بھی یہ ایک بے ڈھنگا اعتراض ہے۔کیونکہ خود دنیاوی حلف ناموں میں بھی ایک سے زیادہ اطاعتوں کا ذکر ملتا ہے۔مثال کے طور پر امریکہ میں فوج میں بھرتی ہوتے ہوئے جو حلف اُٹھایا جاتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں

‘‘I, , do solemnly swear (or affirm) that I will support and defend the Constitution of the United States against all enemies, foreign and domestic; that I will bear true faith and allegiance to the same; and that I will obey the orders of the President of the United States and the orders of the officers appointed over me, according to regulations and the Uniform Code of Military Justice. So help me God.’’ (Title 10, US Code; Act of 5 May 1960 replacing the wording first adopted in 1789, with amendment effective 5 October 1962)

اس حلف نامے میں ملک کے صدر اور اپنے بالا افسران دونوں کے احکامات کی اطاعت کرنے کا ذکر ہے۔ اس پر کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ اگر کوئی فوجی اپنے افسر کی اطاعت کرے گا تو ملک کے صدرکی اطاعت کس طرح کرے گا ؟ ہو سکتا ہے کہ بالا افسر صدر کے احکامات کے خلاف کوئی ہدایت دے دے۔ جیسا کہ حلف نامے کے الفاظ سے ظاہر ہے ہر کوئی قانون کے تحت اپنے دائرہ کار میں احکامات دیتا ہے۔مثال کے طور پر کسی ملک کا صدر کسی فوجی یا کسی شہری کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرے۔ یہ اس کا دائرہ کار نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو قابل مواخذہ ہو گا۔اسی طرح ایک فوجی افسر ان امور کے متعلق کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا جو کہ اس کے دائرہ کار سے تعلق نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح فری میسن جیسی تنظیم میں جس کی شاخیں تمام مغربی ممالک میں موجود ہیں ، میں بھی کچھ حلف اٹھائے جاتے ہیں۔ اور ان حلفوں میں بالا اراکین کی وفاداری کا حلف بھی شامل ہوتا ہے۔لیکن اس کی توجیہ یہی پیش کی جاتی ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اپنے ملک کے قوانین کے خلاف ورزی کی جائے۔ (The Hidden Life in Freemasonry By C. W. Leadbeater) اور تو اور 1662ء سے جو Book of Common Prayer رائج تھی اور بیسویں صدی تک استعمال ہوتی رہی اور پھر اس میں کئی ترامیم کی گئیں۔اس میں شادی کے وقت دلہن جو عہد کرتی تھی۔ اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں

I take thee_____ to my wedded husband, to have and to hold from this day forward, for better for worse, for richer for poorer, in sickness and in health, to love, cherish, and to obey, till death us do part, according to God’s holy ordinance; and thereto I give thee my troth.

اس عہد میں بیوی اپنے خاوند کی اطاعت کا عہد کرتی تھی۔ کیا اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا تھا کہ یہ تو ملکی قانون سے بغاوت ہے۔ اس سے تو بہت سے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔اگر بیوی خاوند کی اطاعت کرے گی تو ملکی قانون یا مذہبی قانون کی اطاعت کس طرح کرے گی؟ ظاہر ہے کہ اگر یہ اعتراض کیا جاتا تو نادانی پر مبنی ہوتا۔ اسی طرح اپنے مذہبی راہ نما کی اطاعت پر یہ اعتراضات کوئی وزن نہیں رکھتے۔

اب ایک اور پہلو سے اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔کسی مذہب کا پیروکار جب کسی مذہبی کتاب کی پیروی کرتا ہے تو اس بنیاد پر کرتا ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے جو کہ سب انسانوں سے زیادہ جاننے والا ہے۔ ہر کسی کا اختیار ہے کہ وہ کسی مذہب کی پیروی کرے یا نہ کرے۔ لیکن جو کسی مذہب کی پیروی کرے گا تو اسی بنیاد پر کرے گا۔ تو اگر وہ اس الہامی کتاب کو واجب الاطاعت نہیں سمجھے گا تو اور کیا کرے گا؟ اگر وہ یہ تسلیم کرے کہ یہ کتاب تو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی خیال کرے کہ میری عقل کے فیصلے اس سے بالا ہیں تو یہ ایک تضاد ہو گا۔ ایک معترض اس الہامی کتاب کا انکار تو کر سکتا ہے لیکن وہ اس مذہب کے پیروکار سے اپنی الہامی کتاب کی اطاعت کا حق نہیں چھین سکتا کیونکہ اس طرح وہ اس کو اس کے آزادی ضمیر کے بنیادی حق سے محروم کرنے والا ہوگا۔یہ ایک بودا دعویٰ ہے کہ ہم مذہب کی آزادی تو دیتے ہیں لیکن یہ اختیار نہیں دیں گے کہ ایک شخص اپنے مذہب کی اطاعت کا دم بھرے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی مذہبی راہ نما یا امام کی اطاعت کا عہد کرتا ہے تو وہ اس بنیاد پر کرتا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے۔ دوسرا شخص یہ اختیار تو رکھتا ہے کہ اسے تسلیم کرے یا نہ کرے مگر وہ اپنی مرضی سےاس اطاعت کو اختیار کرنے والے شخص کو اس کے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے لیے جس راہ کو پسند کرے اختیار کرے۔

اور ایسا بھی نہیں کہ غیر مذہبی دنیا میں اطاعت کو ضروری نہیں قرار دیا جاتا۔ مثال کے طور پر کسی بھی بڑے ہسپتال میں کسی بھی شعبے میں کئی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک شعبہ میں اس شعبہ کے کئی سپیشلسٹ بھی ہوتے ہیں۔یہ سب سپیشلسٹ اس شعبہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس شعبہ کا سربراہ بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ اور باقی ڈاکٹرز قوانین کے تحت اس کے فیصلوں کی تعمیل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ اس شعبہ کی نوعیت یا ہسپتال کے قوانین یا اس شعبہ کے سربراہ کی طبیعت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو کس حد تک استعمال کرتا ہے۔لیکن موٹے طور پر یہی پوزیشن ہوتی ہے جو کہ بیان کی گئی ہے۔ کوئی اور ڈاکٹر اگر شعبہ کے سربراہ کی واضح ہدایت کو ماننے سے انکار کردے تو اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے بلکہ کئی مرتبہ عملی طور پر کی بھی جاتی ہے۔ اور اس ڈاکٹر کا یہ عذر قبول نہیں کیاجاتا کہ مجھے اسی طرح مناسب لگ رہا تھا اس لیے میں نے یہ ہدایت ماننے سے انکار کر دیا۔ اب اس مثال کا مذہب سے تو کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ ایک لحاظ سے یہ ایک سائنسی معاملہ ہے۔لیکن اس دنیاوی انتظام میں بھی ایک شعبہ کے سربراہ کی اطاعت کی جاتی ہے۔اس کے بغیر یہ شعبہ چلایا نہیں جا سکتا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دنیا میں مذہبی اطاعت پر اعتراضات تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن ان کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی جاتی بلکہ ان اعتراضات کی بنیاد اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اکثر اوقات مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے اور یہ پہلو بہت قابل تشویش ہے کہ ان اعتراضات کو اُٹھانے والے شخصی آزادی کے نام پر ان اعتراضات کو اُٹھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم انسانی آزادی کے لیے یہ آواز بلند کر رہے ہیں لیکن سرسری جائزہ ہی اس حقیقت کو ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے نظریات دوسرے پر مسلط کیے جائیں۔ اگر ایک شخص اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر ایک مذہب یا ایک امام کی اطاعت کو قبول کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ دوسرے اس سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button