متفرق مضامین

اطاعت خلافت اور ہماری ذمہ داریاں

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی کثرت کے ساتھ اطاعت امام پر زور دیا ہے کیونکہ ہر نظام کا عموماًاور جماعت مومنین کاخصوصاً ترقی کا انحصار اطاعت خلافت پر ہے

اطاعت خود فراموشی کی منزل

حقیقت میں اطاعت خود فروشی

اطاعت کے بغیر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا اور اطاعت ہر نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔مگر دنیوی نظام میں اطاعت منصب و دولت کے حصول کی خاطر ہوتی ہے جبکہ دین کی اطاعت اور عدم اطاعت کا اثر اخروی زندگی پر پڑتا ہے ۔ اسی طرح پرایمان اور عدم ایمان کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے ۔ اطاعت کرنے والا مومن اور انکار کرنے والا فاسق کہلاتا ہے ۔ اطاعت خلافت ایک نعمت ہے جو رضائے باری تعالیٰ کی صورت میں مومن کوملتی ہے اور اس پر جزاوسزا اسی طرح مرتب ہوتی ہے جس طرح نبی پر ایمان یا اس کے انکار کی صورت میں انسان خدا تعالیٰ کی رضایا اس کے قہر کامورد بنتا ہے۔

اطاعت خلافت سے وابستہ ہے

اطاعت کی اس عظیم الشان نعمت کا اظہار خدا تعالیٰ نے خلافت کے قیام کے ساتھ ہی کیا۔حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما کر بتایا کہ انسان کی تمام تر سعادتیں جذبه اطاعت میں مضمر ہیں اور تمام تر شقاوتیں نا فرمانی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں ۔ سعادتوں کا یہ سرچشمہ نبوت کے بعد خلافت ہے جس سے پہلوتہی دامن فسق سے ہمکنار کرتی ہے ۔

مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ

(النور:56)

اور پھر انسان اپنی مومنانہ حیثیت کھوکر ابلیس کا روپ دھار لیتا ہے۔ گویا یہی اطاعت کی نعمت ہے جو خدا کی رحمتوں کا امیدوار بناتی ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی کثرت کے ساتھ اطاعت امام پر زور دیا ہے کیونکہ ہر نظام کا عموماًاور جماعت مومنین کاخصوصاً ترقی کا انحصار اطاعت خلافت پر ہے۔

اطاعت خلافت

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔

( النور:57)

اور نماز قائم کرواور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کروتاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اطاعت کے معنی

خاکسار سب سے پہلے اطاعت کے معنی پیش کرے گا لفظ الطَّاعَةُکے معنی محض فرمانبرداری کے نہیں بلکہ ایسی فرمانبرداری کے ہیں جس میں بشاشت قلب سے الله تعالیٰ کے احکام بجالائے جائیں اور ان کے بجالاتے ہوئے انسان کو لذت اور سرور محسوس ہو ۔

اسی اطاعت کا عملی نمونہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی رؤیا میں اپنے ہی بیٹے کی قربانی کا نظارہ دیکھا اور کامل بشاشت سے اپنے بیٹے 13 سالہ اسماعیل کی قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل نے بھی دلی بشاشت کے ساتھ یہ کہا :

یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ

( الصّٰفّٰت : 103)

اے میرے باپ آپ کو جوبھی حکم ملا ہے اسے پورا کریں۔ میری فکرنہ کریں میں بھی پوری بشاشت سے خدا تعالی کے ہر حکم پر قربان ہونے کو تیار ہوں ۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے جدھر اسے لے جاؤ چل پڑتا ہے اور اطاعت کا عادی ہوتا ہے۔

(مسند احمد جز 4 صفحه 126 ابودائود کتاب السنة باب في الزوم الطاعة )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی فدائیت اور اطاعت کے بارے میں فرمایاکہ وہ میری ہر امر میں اس طرح پیروی کرتے ہیں جس طرح نبض حرکت قلب کی پیروی کرتی ہے ۔ یہی وہ اطاعت ہے جس کا خدا اور رسول کا ہم سے تقاضا ہے ۔

خلافت کی اہمیت

اطاعت خلافت کے لیے خلافت کی اہمیت کا جاننابھی ضروری ہے ۔ خلافت کیا ہے وہ عروہ وثقی ہے جس کے لیے ٹوٹنا نہیں اور جو بھی اسے تھامے رکھے گا وہ ہلاکت سے بچ جائے گا۔ خلافت وہ حبل اللہ ہے جو ہمیں خدا سے ملاتی ہے اور ہر تفرقہ اور فساد سے بچاتی ہے۔خلافت وہ شجرہ طیبہ ہے جس سے وابستہ رہ کے ہم سر سبز رہ سکتے ہیں اور جو اس شجرہ طیبہ سے جدا ہوتا ہے وہ سوکھی ہوئی ٹہنی کی طرح ہے جو کاٹے جانے کے لائق ہے۔

خلیفه جانشین ہے رسول کا اور وہ ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’انسان کے لئے دائمی طور پر بقاء نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جوتمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت رکھے۔سواسی غرض سے خداتعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانے میں برکات رسالت سے محروم نہ ر ہے ۔ ‘‘

(شہادت القرآن ،روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 353)

اطاعت کےلیے اونٹ کی مثال

آیت اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ

(الغاشيۃ: 18)

یعنی کیاوہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کئے گئے؟ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں :

’’اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت رکھی گئی ہے ۔ دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پراس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں ۔ اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیش رو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو ۔ پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے ۔ اسی طرح پرضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہوجاوے ۔‘‘

(الحکم جلد 4نمبر 42 مورخہ 24؍نومبر 1900ء صفحہ 4تا5)

نظام خلافت اور اطاعت

خلافت کے تعلق میں مومنوں کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری نظام خلافت سے دلی وابستگی اور خلیفہ وقت کی غیرمشروط مکمل اطاعت ہے ۔ جب یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جس کو خلیفہ بنایا جاتا ہے وہ خدا کا نمائندہ اور سب سے محبوب شخص ہوتا ہے تو پھر ان باتوں کا لازمی تقاضا ہے کہ ایسے بابرکت وجود سے دل و جان سے محبت کی جائے اور اپنے آپ کو کلیتاً اس کی راہ میں فدا کر دیا جائے۔ یہ مضمون سورة النور کی آیت استخلاف کے مطالعہ سے خوب روشن ہوجاتا ہے ۔ خلافت کے مضمون سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور خلافت کے ذکر کے معاً بعد پھر اطاعت رسول کا ذکر موجود ہے ۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ اس میں یہ عظیم نقطہ مخفی ہے کہ خلیفہ کی اطاعت در اصل رسول ہی کی اطاعت ہے ۔ اور رسول کی اطاعت کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کے خلیفہ کی اطاعت بھی اسی وفا اور جانفشانی سے کی جائے جس طرح رسول کی اطاعت کا حق ہے۔

خلیفہ سے دلی وابستگی ضروری ہے

خلیفہ وقت سے دلی وابستگی کی اہمیت اور فرضیت کے ذکر میں رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم کی یہ تاکیدی حدیث بھی ہمیشہ مدنظر رہنی چاہیے ۔ آپؐ نے فرمایا :

فَاِنْ رَاَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيْفَةَ اللّٰهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزِ مْہُ وَاِنْ نُھِکَ جِسْمُکَ وَاُخِذَ مَالُکَ ۔

( مسند احمد بن حنبل حديث 22333)

اگرتم دیکھ لو کہ اللہ کا خلیفه زمین میں موجود ہے تو اس سے وابستہ ہو جاؤ اگر چہ تمہارا بدن تارتار کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے ۔

اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت ہی درحقیقت دنیا میں سب سے بڑا اور قیمتی خزانہ ہے ۔ جان و مال سے بڑھ کر قیمتی دولت ہے ۔ پس جب یہ دولت کسی جماعت کو الله تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو تو اس سے چمٹ جانا اور ہر حالت میں چمٹے رہنا ہی زندگی اور بقا کی ضمانت ہے ۔

نظام خلافت سے وابستگی کی اہمیت کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

’’جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنادیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو۔اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھوگے اس قدرتمہارے کاموں میں برکت ہوگی اور اس سے جس قدر دور رہو گے اسی قدرتمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی ۔ جس طرح وہی شاخ پھل دے سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو ۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کرسکتی جو درخت سے جدا ہو ۔ اسی طرح وہ شخص اس سلسلے کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے ۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابسته نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹہ کرسکتا ہے ۔‘‘

( روز نامہ الفضل قادیان 20؍نومبر 1946ء صفحہ 7)

اطاعت روح ہے ترقی اور اتحاد کی

اطاعت کیا ہے اور اس کی روح کیا ہے ؟ اس کی مثالیں قرون اولیٰ سے لے کر آج تک تاریخ اسلام کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔اطاعت روح ہے ترقی کی ، اطاعت جان ہے اتحاد جماعت کی، اطاعت وہ برقی رو ہے جس سے قلوب اور اذہان روشن ہوتے ہیں ، اطاعت نام ہے خدا کی خاطر اور اس کے دین کی ترقی کی خاطر ایک مسلسل جدوجہد کا ۔

خلیفہ کا تقرر بطور امام کے ہوتا ہے

خدا تعالیٰ جب اپنے رسول کو اپنی طرف اٹھاتا ہے تو اس دنیامیں اس کی جماعت میں سے کسی پاکیزه ترین اور اعلیٰ بزرگی والے بندے کو اس کا جانشین یعنی خلیفه مقرر کردیتا ہے۔ تا اس کے متبعین میں پھوٹ نہ پڑ جائے اور وہ روحانی سلسلہ جس کو اس کے مرسل نے اپنی ان تھک کوششوں سے رات دن ایک کر کے قائم کیا درہم برہم نہ ہو جائے۔جوشخص اس کے بعد اس خلیفہ کا انکار کرتا ہے یا اس سے غداری کرتا ہے وہ فاسق اور نافرمان کہلاتا ہے۔ جیسے اللہ جل شانہ آیت استخلاف میں فرماتا ہے :

مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ

(النور:56)

جو خلافت کے قائم ہونے کے بعد اس کا انکار کرے تو وہی لوگ فاسق ہیں ۔

خلیفہ کے مقرر کردہ نظام میں اعتراض نہ کیا جائے

پس خلیفہ کے مقرر کردہ نظام کو دیکھ کر ہمیں یہ حق ہرگزنہیں پہنچتا کہ ہم نکتہ چینی کریں کہ اس کام کے کرنے میں خلیفه حق بجانب ہے یانہیں ۔کیونکہ ہماری نگاہیں اتنی دور بین نہیں جتنی کہ خلیفہ کی ۔ اور ہماری عقل اتنی تیز نہیں جتنی کہ خلیفہ کی عقل ہے جسے خدا نے مقرر کیا ہوتا ہے ۔ ہمارا صرف یہ کام ہے کہ ہم خلیفہ کی پوری پوری اطاعت کریں اور اس کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر اس قربانی کو جو وہ ہم سے طلب کرتا ہے پیش کر دیں تا کہ ہم پر کبھی ایسا وقت نہ آئے جب کہ ہم خلیفہ کی ذرہ بھر بھی نافرمانی کر کے فاسق و فاجر بنیں۔آنحضرت ﷺ نے تو عام امراءکی اطاعت کی بھی سخت تاکیدفرمائی ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً

ترجمہ:جو اپنے امیر میں کوئی نا پسندیدہ بات دیکھے تو اس کو چاہیے کہ وہ صبر کرے۔ کیونکہ جو بھی اس حال میں مرے کہ وہ جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔

تمام تر قیات خلافت سے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس انعام کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہو گا لیکن اگرتم اس کی حقیقت کوسمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگرساری دنیامل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل ناکام ونامراد رہے گی۔ جیسا کہ مشہور ہے اسفند یار ایسا تھا کہ اس پر تیر اثر نہ کرتا تھاتمہارے لئے ایسی حالت خلافت کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔ جب تک تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پراثر نہ کر سکے گی ۔ ‘‘

(حقائق القرآن مجموعۃ القرآن حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؒ سورۃ النور زیر آیت استخلاف صفحہ 73)

پس دنیا نے دیکھا کہ کیسے خداتعالیٰ کے خلیفہ کے یہ الفاظ پورے ہوئے ۔ جماعت کے مقابل پر بڑے بڑے مرد آہن اٹھے لیکن ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئے۔خدا تعالیٰ نے ہر دشمن کے مکر کی ہر بازی اسی پرالٹی۔ 1934ء،1953ء،1974ءاور1984ءمیں جماعت کا نام مٹانے اور خلافت احمدیہ کو نعوذ باللہ تہ تیغ کرنے والے اپنے ہر ارادے میں خائب وخاسر ہوئے ۔ پس خلافت احمدیہ جماعت کے حق میں کونے کا وہ پتھر ثابت ہوئی کہ جواس پرگرا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور جس پر یہ گرا اس کے بھی نام ونشان مٹ گئے۔

اطاعت خلافت کی اہمیت وافادیت

جب سے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا اسی وقت سے اس کی اصلاح اور روحانی ترقی کے لیے وہ انبیا ءبھیجتا اور ان کے ذریعے اپنے بندوں کو اپنا عرفان عطا کرتا رہا ہے اور ان انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے۔ان انبیاء کی وفات کے بعد دوسری قدرت یعنی خلفاءان کے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں بالکل انبیاء کی طرح ان خلفاء کی اطاعت بھی فرض ہے ۔ خدا تعالیٰ نے سورۃ النور کی آیت استخلاف میں جہاں ان لوگوں کو جوایمان لائےاور اعمال صالحہ بجا لائے ان کوضرور زمین میں خلیفہ بنادے گا ، وہاں صاف الفاظ میں یہ بھی بتادیا کہ

مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ

جو کوئی بھی اطاعت سے منحرف ہو گا وہ فاسق بن جائے ۔

یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ میں مقام خلافت کی اہمیت کو سمجھنے کے نتیجے میں قربانی اور اطاعت کی ایسی روح پیدا ہوئی کہ خلیفہ وقت کے ایک اشارے پرافراد جماعت اپناسب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ دنیا کے گوشے گوشے میں بسنے والا ہر احمدی اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے ہمہ وقت تیارہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا ایک واقعہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت چودھری حاکم دین صاحبؓ کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش پران کی بیوی کو سخت تکلیف تھی ۔ چودھری صاحبؓ رات گیارہ بجے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے گھر گئے اور تکلیف کا ذکر کیا ۔ آپ نے ایک کھجور پر دعا کر کے آپ کو دی کہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور بچہ پیدا ہو جائے تو اطلاع بھی دیں ۔ تھوڑی دیر بعد بچہ پیدا ہوگیا مگرانہوں نے حضرت خلیفة المسیح الاوّل ؓکو جگانا مناسب نہ سمجھا ۔ صبح جب حضور ؓکو بتایا تو حضورؓ نے فرمایا کہ بچہ پیدا ہونے پرتم دونوں میاں بیوی تو آرام سے سوگئے ۔ اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سورہتا ۔ میں تمام رات تمہاری بیوی کے لیے دعا کرتا رہا ۔

یہ وہ برکات ہیں جو خلفاء سے وابستہ ہیں ۔ خدا جسے خلیفہ بناتا ہے اس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے اس کے دل میں پوری قوم کا درد پیدا کر دیتا ہے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ہم صرف اس صورت میں خلیفہ وقت کی دعاؤں سے فیضیاب ہوسکیں گے جب کہ ہم خلیفه کی کامل اطاعت کرنے والے ہوں گے ۔

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایت سے ذرہ بھر بھی ادھر ادھر نہ ہو ۔ جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ اور جدھر بڑھنے کا حکم دے ادھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ ۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 14 صفحہ515تا516)

اطاعت خلافت کے چند نمونے

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

’’ ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ ( حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی الله عنہ ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے از راہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں ۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت مرزا صاحب(حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) سے اجازت حاصل کرو ۔ اس نے حضرت کی خدمت میں درخواست کی ۔ حضور علیہ السلام نے اجازت دی ۔ بعد نماز عصر جب حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ “ امید ہے آپ آج ہی واپس آجائیں گے ۔ ‘‘عرض کی بہت اچھا ۔ بٹالہ پہنچے ، مریضہ کو دیکھا ، واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے ۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت ! راستے میں چوروں اور ڈاکوؤں کا بھی خطرہ ہے پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے ۔ کئی مقامات پر پیدل پانی میں سے گزرناپڑے گامگر آپ رضی الله عنہ نے فرمایا : خواہ کچھ ہو سواری کا انتظام بھی ہو یا نہ ہو ، میں پیدل چل کر بھی قادیان ضرور پہنچوں گا کیونکہ میرے آقا کا ارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے ۔ خیر یکہ کا انتظام ہو گیا اور آپ چل پڑے مگر بارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہو چکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا ۔ کانٹوں سے آپ کے پاؤں زخمی ہو گئے مگر قادیان پہنچ گئے اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضر ہو گئے ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے ؟، قبل اس کے کہ کوئی اور جواب دینا آپ رضی الله عنہ فورا ًآگے بڑھے اور عرض کی : حضور میں واپس آ گیا تھا۔ یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور رات شدت کی بارش تھی ، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں زخمی ہو چکے ہیں اور میں سخت تکلیف اٹھا کر واپس پہنچا ہوں وغیرہ و غیره ، بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا ۔ ‘‘

(حيات نورصفحہ 189)

منشی امام دین صاحب پٹواری ؓجنہوں نے 1894ء میں بیعت کی تھی انہیں حقہ پینے کی بہت عادت تھی ۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے خلافت کے ابتدائی زمانے میں کسی خطاب میں حقہ کی مذمت بیان کی تو اسی وقت حقہ چھوڑ دیا اور عزم کیا کہ اب ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا ۔ شروع میں بیمار ہو گئے اور لوگوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ چھوڑیں لیکن ایسی اطاعت کی کہ پھر ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔

(اصحاب احمد جلد 1 صفحہ 118)

حضرت ابو عبداللہ صاحب ؓ رئیس کھیوا باجوہ سیالکوٹ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی صحابہ میں شامل تھے، جن کے بارے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ شاید مولوی عبداللہ ہی امام مہدی ہونےکا دعویٰ کر یں ۔ تا ہم آپ رضی الله عنہ تو امام مہدی کی بیعت کر کے غلاموں میں شامل ہوگئے ۔ ایک مرتبہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی الله تعالیٰ عنہ کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت ارشاد فرمائیں ۔ حضور ؓنے فرمایا مولوی صاحب میں نہیں سمجھتا کہ کوئی چیزکرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں۔ اب تو حفظ قرآن ہی باقی ہے ۔ چنانچہ تقریبا ً65 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا ۔ باوجود اتنی عمر ہونے کے حافظ قرآن ہو گئے ۔

(ماخوذ از روزنامہ الفضل 8؍ دسمبر 2010ء صفحہ 4بحوالہ الفضل قادیان 19 اپریل 1947ء)

آج وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے سارے عہد و پیمان واقعی سچ کر دکھائیں ۔ ہمارے بزرگوں نے جو نمونے دکھائے ان کو پھر تازہ کریں ۔ آئیں ہم عہد کریں کہ ہم خلافت احمدیہ کی حفاظت اور استحکام کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے، خلیفہ وقت کے دست و بازو اور ادنیٰ چاکر بن کر ہمیشہ اس کی ہر آواز پر سچے دل سے لبیک کہیں گے ۔ اور ہر تحریک پراس طرح والہانہ لبیک کہیں گے کہ اطاعت کے پیکر فرشتے بھی اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں ۔

اے خدا تو ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اس وعدہ کو پورا کرسکیں اور زندگی کے آخری سانس تک وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھاتے چلے جائیں ۔ الله کرے کہ خلیفہ وقت کے منہ سے جو بات بھی نکلے ہم اس پرعمل کرنے والے بن جائیں اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے خادموں میں شمار ہوتے رہیں ۔ آمین یارب العالمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button