متفرق مضامین

احمدی بچوں اور بچیوں میں اطاعتِ خلافت کے نمونے

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

(حضرت خلیفة المسیح کی تحریکات و ارشادات پر لبیک کہنا)

اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا

ترکِ رضائے خویش پئے مرضیٔ خُدا

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جاؤ اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر رکھ لو۔

(البقرۃ:209)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’اے مسلمانو تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو۔ اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا اسلام قبول کرو۔ یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو۔ یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوئوں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دے۔ تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ اور قوم کے ہر فرد کو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کرو ۔ دوم صرف چند احکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جائو۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجا لائو۔ اور صفات الٰہیہ کا کامل مظہر بننے کی کوشش کرو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 456تا457)

اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسیح الزمان ؑکی بیعت میں شامل ہو کر خلافت احمدیہ کے زیر سایہ اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ہمیں اپنے آباء، والدین اور اساتذہ کرام سے سمعنا و اطعنا کی گُڑھتی دی گئی جس سے ہم میں یہ احساس رچ بس گیا کہ ہر حال میں خلیفة المسیح کی اطاعت کرنی ہے۔

ہر طفل و ناصرہ اپنے تنظیمی وعدے میں اور ہر خادم ، ممبر لجنہ اور ناصراپنے تنظیمی عہد میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ خلیفة المسیح کے ہر ارشاد پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور پھر چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد ہر روز ہماری آنکھوں کو اطاعت کے کئی دلکش عملی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اطاعت کےیہ نظارے دل ودماغ کو عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔اس سرور اور لذت کی یہ کیفیت الفاظ کے پیمانے سے نہیں ماپی جاسکتی ۔؎

فرزانوں کا یہ ظرف کہاں

یہ حوصلہ ہے دیوانوں کا

اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے آنے والی ہر آواز پر والہانہ لبیک کہا جائے۔ کسی ارشاد کو بھولنا یا اس کی طرف توجہ نہ دینا ایک احمدی کی شان نہیں۔ خلفائےاحمدیت جو تحریکات وقتاً فوقتاً کرتے ہیں ان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔یہ تحریکات اپنے اندر زندگی کا پیغام رکھتی ہیں ۔

ان لوگوں کے اخلاص و وفا کا اندازہ لگانا نہایت مشکل امرہے جو خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان،مال، وقت ، عزت اور ہر چیز قربان کرنے کےلیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور اگر خلیفۂ وقت کوئی مالی تحریک کرتے ہیں تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور صاحب استطاعت احباب حضور سے یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ اکیلے ہی ساری رقم ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ ان مثالوں سے جماعت احمدیہ کی تاریخ بھری پڑی ہے۔موضوع کے اعتبار سے صرف بچے اور بچیوں کی مالی تحریکات پر لبیک کہنے کے حوالے سے چند واقعات پیشِ خدمت ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماں باپ کو چندے کی عادت ڈالنے کی تحریک

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تحریک جدید کے متعلق فرماتے ہیں :

’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو تحریک جدید کے بانی تھے فرماتے ہیں:’’ہر احمدی مرد اور ہر احمدی بالغ عورت کا فرض ہے کہ اس تحریک میں شامل ہو۔ بلکہ بچوں میں بھی تحریک کی جائے اور رسمی طورپر انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے۔ مثلاًاپنے وعدے کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ حصہ ڈال دے چاہے ایک پیسہ ہو، دو پیسے ہوں یا ایک آنہ ہو(یہ وہاں کے سکے ہیں ) اس سے ان کے دلوں میں تحریک ہوگی۔ بلکہ بجائے بچے کی طرف سے خود وعدہ لکھوانے کے، اسے کہو کہ خود وعدہ لکھوائے۔ اس سے اس کے اندریہ احساس پیداہوگا کہ مَیں چندہ دے رہاہوں۔ بعض لوگ بچوں کی طرف سے چندہ لکھوادیتے ہیں لیکن انہیں بتاتے نہیں۔ بچے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سوال کرتاہے۔ جب تم اسے کہو گے کہ جاؤ اپنی طرف سے چندہ لکھواؤ تو وہ پوچھے گاکہ چندہ کیا ہوتاہے۔ اور جب تم چندہ کی تشریح کروگے۔ وہ پھر پوچھے گاکہ چندہ کیوں ہے تو تم اس کے سامنے اسلام کی مشکلات اور خوبیاں بیان کرو گے۔ بچے کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھاہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سوال کرتاہے۔ اور اگر تم ایساکرو گے تو اس کے اندر ایک نئی روح پیداہوگی اور بچپن سے ان کے اندر اسلام کی خدمت کی رغبت پیداہوگی۔‘‘

اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :

’’جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں۔ خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔ ‘‘

(الفضل 17؍فروری 1960ء صفحہ 2 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 153تا154)

(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍ نومبر 2003ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍جنوری2004ءصفحہ8)

پھر حضور انور نے وقفِ جدید کے متعلق فرمایا:

’’وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے۔ اور سوائے استثناء کے اِلاّماشاء اللہ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہو ان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں۔ اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا۔ اور اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں۔ اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طورپر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہو گا۔ اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہو گا۔ انشاء اللہ۔ اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پرکوشش ہو تو اس تعداد میں آسانی سے (جو موجودہ تعداد ہے) دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے، بغیرکسی دقت کے۔ اور یہ تعداد آسانی سے 10لاکھ تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ کیونکہ موجودہ تعداد 4لاکھ کے قریب ہے …۔

عورتیں یاد رکھیں کہ جس طرح مرد کی کمائی سے عورت جو صدقہ دیتی ہے اس میں مرد کو بھی ثواب میں حصہ مل جاتا ہے تو آپ کے بچوں کی اس قربانی میں شمولیت کا آپ کو بھی ثواب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے اور ان کا اجر دیتا ہے۔ اور جب بچوں کو عادت پڑ جائے گی تو پھر یہ مستقل چندہ دینے والے بچے ہو ں گے۔ اور زندگی کے بعد بھی یہ چندہ دینے کی عادت قائم رہے گی تو یہ ماں باپ کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصائح پر عمل کرنے کے نمونے، قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے نمونے، ہمیں آخرین کی اس جماعت میں بھی ملتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم کئے۔

…جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس میں اگر کوشش کی جائے تو بچوں کے ذریعے سے ہی میرے خیال میں معمولی کوشش سے پوری دنیا میں 6لاکھ کی تعداد کا اضافہ کیا جا سکتا ہے تاکہ کم از کم وقف جدید میں 10لاکھ افراد تو شامل ہوں۔ تحریک جدید کی طرح نئے آنے والوں کو بھی اس میں شامل کریں۔ بچوں کو شامل کریں، خاص طور پر بھارت اور افریقہ کے ممالک میں کافی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍ جنوری 2005ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍جنوری2005ءصفحہ7تا9)

تحریک جدید کے مالی مطالبات اور افرادِجماعت احمدیہ کا لبیک

جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز جذبہ ایثار و قربانی کا اندازہ کرنے کے لیے ہم سب سے پہلے تحریک جدید کے مالی مطالبات کو لیتے ہیں۔ حضورؓ نے پہلے سال کے لیے ساڑھے ستائیس ہزار چندہ کا مطالبہ فرمایا تھا مگر جماعت نے ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصے میں 33؍ہزار روپیہ نقد اپنے امام کے قدموں میں ڈال دیا اور ایک لاکھ سے زائد کے وعدے پیش کر دیے۔ چنانچہ 24؍جنوری 1935ء کو حضورؓ نے اعلان فرمایا کہ

’’الحمدللّٰہ رب العلمینکہ جماعت احمدیہ کے مخلصین نے میری مالی تحریک کا جو جواب دیا ہے وہ مخالفوں کی آنکھیں کھولنے والا اور معاونوں کی ہمت بڑھانے والا ہے چونکہ سب نیکیوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے میں اسی پاک ذات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں اپنی محبت کے اظہار کا ایک حقیر سا موقعہ دے کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔

چندوں کی تحریک ساڑھے ستائیس ہزار کی تھی اس کے متعلق اس وقت تک نقد تینتیس ہزار رقم آچکی ہے اور پندرہ جنوری سے پہلے ارسال شدہ وعدے کل ایک لاکھ چھبیس ہیں جو مطلوبہ رقم سے پونے چار گنے زیادہ ہیں اور ابھی بیرون ہند کے وعدے آرہے ہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 35)

تحریک جدیدکے مطالبات پر ہندو اخبار’’ملاپ‘‘ نے لکھا:

’’احمدی خلیفہ کا قابل تقلید حکم: قادیانی احمدیوں کے خلیفہ صاحب نے اپنے پیروئوں کے نام یہ حکم جاری کیا ہے کہ وہ آئندہ تین سال تک سنیما۔ تھیٹر۔ سرکس وغیرہ ہرگز نہ دیکھیں اور کھانے پینے میں انتہائی سادگی اختیار کریں۔ بلا ضرورت کپڑے نہ بنائیں۔ جہاں تک ہوسکے موجودہ کپڑوں میں ہی گزارا کریں اور تبلیغ کے لئے چندہ دیں یہ حکم بلاشک و شبہ قابل تقلید ہے خصوصاً ہندوئوں کے لئے جو وید پرچار کو بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں حالانکہ وید پرچار میں ہندوئوں کی زندگی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہندو بھی فیصلہ کرلیں کہ وہ اپنا روپیہ زیادہ تروید پر چارہی کے ذریعہ خرچ کریں گے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 33-34)

یہ نظارے صرف وقتی یا بڑی عمر کے یا متمول لوگوں تک محدود نہ تھے بلکہ ہر عمر اور ہر زمانے اور قوم کے لوگوں نے نہ صرف اس تحریک بلکہ ہر مالی قربانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

دفتر اطفال کا قیام اور احمدی نونہالان کا والہانہ لبیک

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 7؍اکتوبر 1966ء کو دفتر اطفال کا اعلان فرمایا۔ آپؒ نے 15سال کی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں، اطفال اور ناصرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول کے بچو۔اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو… وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں یعنی ان کی عمریں سات سال سے پندرہ سال کی ہیں اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی وقف جدید میں دیں تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا…… اب سال کا بہت تھوڑا حصہ باقی رہ گیا ہے اگر احمدی بچے اس پر پچاس ہزار روپے پیش کر دیں تو وہ دنیا میں ایک بہترین نمونہ قائم کرنے والے ہوں گے۔‘‘

(الفضل 12؍ اکتوبر 1966ء)

افریقن بچوں کا مالی قربانی کی تحریک پر لبیک کہنا

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ افریقن بچوں کا مالی قربانی کی تحریک پر لبیک کہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اسی طرح گیمبیا کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ جب محصّل ان سے چندہ لینے ان کے گھر آیا تو وہ بار بار گھر کے اندر جاتیں اور اپنے ہر بچے کی طرف سے بھی کچھ نہ کچھ چندے کی رقم لے آتیں۔ مبلغ نے بتایا کہ یہ دیکھ کر اُن کے بچے بھی اندر گئے اور اپنے گلّوں سے جو بھی معمولی رقم نکلی وہ پیش کر دی اور کہتے تھے کہ ہم کیوں ثواب سے پیچھے رہیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ بچوں کے دلوں میں بھی چندوں کی اہمیت ڈالتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ جنوری 2014ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍جنوری2014ءصفحہ8)

’’اسی طرح الاڈا ریجن کے مبلغ صاحب کہتے ہیں ایک مرتبہ سویو (Soyo) جماعت کے دورے پر گئے تو سات سال کی ایک بچی رشیدہ یا راشدہ، اب دیکھیں بچوں کے دل میں بھی کس طرح اللہ تعالیٰ ڈالتا ہے، ٹماٹر اور مرچیں اور مالٹے لے کر آئی اور کہا کہ وہ یہ سب تحریک جدید کے چندہ کے لئے لائی ہے۔ وہاں کے صدر صاحب نے بتایا کہ وہ ہر ماہ چندہ دیتی ہے اور اگر اس کی ماں چندے کے پیسے نہ دے تو وہ روتی ہے۔ جب معلم صاحب چندہ لینے آئے تو وہ سکول گئی ہوئی تھی۔ آج ہمیں دیکھ کر وہ گھر گئی اور پیسے نہ ملے تو اپنے کھیت کی یہ چند چیزیں بطور چندہ کے لے کے آئی ہے۔ پس یہ قربانی کی وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ بچوں میں بھی پیدا کر رہا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍ نومبر 2014ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍نومبر2014ءصفحہ7)

’’پھر بچوں میں اخلاص اور قربانی کی اہمیت کا جو احساس ہے یہ انقلاب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں نظر آتا ہے جو آپؑ نے پیدا فرمایا۔ گھانا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے جماعت میں مالی قربانی خصوصاً تحریکِ جدید کے بارے میں خطبہ دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں بچوں کو بھی قربانی کی عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چندہ دیں۔ اس پر اگلے جمعہ کو نماز جمعہ پر ایک طفل جس کی عمر تقریباً نو دس سال ہو گی کچھ رقم لے کر آیا اور تحریکِ جدید کی مدّ میں پیش کر دی اور پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں نے والدین سے چندے کے لیے رقم مانگی جو کسی وجہ سے مجھے مل نہیں سکی، نہیں ہوگی والدین کے پاس۔ کہتے ہیں میں نے اس پر ایک دکان پر مزدوری کرنی شروع کر دی اور جو رقم حاصل کی وہ چندے میں دے رہا ہوں۔

پھر سیرالیون کی ایک مثال ہے۔ وہاں کینما کے لوکل معلم بشیرو صاحب لکھتے ہیں کہ ایک جماعت سیرابو (Serabu) میں جب احباب جماعت کو چندہ تحریکِ جدید کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی گئی تو اسی دوران ایک بچہ نو یا دس سال کی عمر کا ہو گا اور میں نے دیکھا کہ وہ سر پر آگ جلانے والی کچھ لکڑیوں کا گٹھا لے کر آیا اور اس نے معلم صاحب سے کہا کہ یہ لکڑیاں آپ مجھ سے خرید لیں اور جتنے پیسے ہوں وہ چندے میں ڈال لیں۔ معلم صاحب نے وہ لکڑیاں اس بچے سے خرید لیں اور چندے کی رسید کاٹ دی۔ بعد میں وہ لکڑیاں بھی واپس کر دیں کہ تمہارا چندہ آ گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے مال اور ایمان میں بہت برکت عطا فرمائے۔ اس طرح قربانی کا تصور یہاں کے بچوں میں نہیں ہو گا کہ محنت کر کے، مزدوری کر کے یا جنگل جا کے لکڑیاں کاٹ کر پھر چندہ ادا کریں۔ یہاں حالات اچھے ہیں۔ بے شک یہاں بھی بڑی اچھی مثالیں ہیں۔ بعض بچے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے جیب خرچ کی پوری رقم دے دی۔ کوئی خاص چیز خریدنی تھی اس کے لیے رقم جمع کی تھی تو وہ قربانی کر دی۔ بہرحال اپنے اپنے ماحول میں ہر جگہ اخلاص و وفا کی مثالیں ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 8؍ نومبر 2019ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر2019ءصفحہ 8تا9)

’’لائبیریا سے ایک مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی کی ایک جماعت ہے اس میں مغرب عشاء کے بعد احبابِ جماعت کو مَیں نے وقف جدید کے چندے کے حوالے سے تحریک کی تو احباب نے حسبِ معمول باری باری اپنا اور اپنے فیملی ممبرز کا چندہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران دو چھوٹے لڑکے عزیزم سلیمان اور عزیزم عبداللہ کمارا مسجد سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ دیر کے بعد دونوں واپس آئے اور بیس بیس لائبیرین ڈالر چندہ ادا کردیا۔ کہتے ہیں کیونکہ عموما ًوہاں والدین بچوں کا چندہ دیتے ہیں اس لیے مجھے خیال آیا کہ ان بچوں سے پوچھوں کہ انہوں نے اپنا چندہ خود کیوں دیا ہے۔ اس پر دونوں بچے کہنے لگے کہ ہمیں یہ پتا چلا تھا کہ خلیفۂ وقت کا یہ ارشاد ہے کہ بچے بھی وقفِ جدید میں شامل ہوں۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ اب ہم خلیفة المسیح کے ارشاد کے مطابق پیسے جمع کرکے خود اپنا چندہ ادا کریں گے۔ دور دراز کے علاقے میں بیٹھے ہوئے بچے جنہوں نے کبھی خلیفہ وقت کو دیکھا بھی نہیں لیکن اب یہ اخلاص اور تعلق ہے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہی ان کے دلوں میں پیدا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اخلاص و وفا کو مزید بڑھائے۔ پس بچے ہیں یا بڑے، نومبائعین ہیں یا پرانے احمدی ان کو یہ ادراک حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو پانے کا ایک ذریعہ اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے اور پھر بعض کی تو خدا تعالیٰ خود رہ نمائی بھی کرتا ہے جیسے میں نے واقعات میں بھی بتایا۔ یہ لوگ ایسے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے قابلِ رشک کہلانے والے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍جنوری 2020ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍جنوری2020ءصفحہ9)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سیرالیون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’سیرالیون سے واٹر لو (Waterloo)ریجن کے مبلغ افتخار صاحب۔ کہتے ہیں کہ چندہ وقفِ جدید کی وصولی کے بارے میں مختلف جماعتوں کے دورہ جات کیے۔ احباب جماعت کو بتایا کہ ہماری طرف سے آپ کو چندوں کی اہمیت بتانے میں سستی ہوئی ہے، تحریک جدید کے چندے کے اعلان کے وقت میں نے اعلان کیا تھا کہ سیرالیون میں کافی استعداد ہے، پوٹینشل (Potential)ہے اور اگر وہ چاہیں تو اپنے چندوں میں بہتری کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس پیغام کو لے کے وہ جماعتوں میں گئے اور انہوں نے کہا کہ خلیفۃالمسیح کا یہ پیغام ہے کہ سیرالیون کافی بڑی اور پرانی جماعت ہے اور افراد جماعت قربانیاں کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سستی ہے تو عہدیداروں کی طرف سے ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ پیغام سن کے احباب جماعت میں ایک جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا اور انہوں نے نہ صرف یہ کہ وقفِ جدید کے چندے ادا کر دیے بلکہ دوسرے چندہ جات میں بھی اضافہ کے ساتھ ادائیگی کی۔ Newton ایک جگہ ہے وہاں اٹھارہ گھرانوں میں رابطہ کیا جس کے نتیجہ میں تیرہ لاکھ لیون ایک ہی دن میں وصول ہوگئے۔ دو احمدی سکولوں کے طلباء نے تین لاکھ لیون ایک ہی دن میں وقف جدید میں ادا کر دیے اور مزید دو لاکھ لیون کا بعد میں اضافہ کر دیا۔

Newton میں ایک بچی مسلمہ فوفونہ (Muslima Fofanah) نے پچاس ہزار لیون ادا کیے اور کہا کہ اس کے لیے خلیفۃ المسیح کی خدمت میں دعا کی درخواست کریں۔ کہتے ہیں پانچ طالب علموں نے مجھے بتایا کہ مزدوری کرنے پر جو اجرت ملی تھی انہوں نے پچاس ہزار لیون وقف جدید میں پیش کر دیے۔

پس یہ ہیں وہ لوگ جو خلیفۂ وقت کے حکم پر لبیک کہنے والے ہیں۔ کبھی ملے نہیں، کبھی اس طرح آمنے سامنے بیٹھے نہیں لیکن ان کے دلوں میں خلافت سے محبت اور اس کا احترام ہے اور اسی لیے پھر اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍جنوری 2021ء

مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 29 جنوری 2021ء صفحہ7)

بھارت کے بچوں کا ذکر

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھارت کے مالی قربانیوں پر والہانہ لبیک کرنے کا ذکر کرتے ہوئے خصوصاً بچوں کے واقعات بیان فرمائے ۔ ان میں سے چند پیش ہیں:

’’اسی طرح انڈیا سے ہی انسپکٹر وقف جدید منور صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جماعت ساندھن صوبہ یوپی کے دورے کے دوران ایک دوست کے پاس چندہ وقف جدید کی وصولی کے لئے گئے تو انہوں نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ کل صبح آ جائیں پھر دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اگلے روز میں دوبارہ ان کے گھر گیا تو موصوف نے بتایا کہ پیسوں کا انتظام نہیں ہوا۔ ان بچوں کو دیکھیں۔ بچوں میں قربانی کی کتنی روح ہے۔ ان کی چھوٹی بیٹی پاس کھڑی سن رہی تھی وہ اپنے والد کے پاس آ کر کہنے لگی کہ آپ نے مجھے وعدہ کیا تھا کہ سردی بڑھ رہی ہے اور آپ مجھے سردیوں میں جوتے خرید کر دیں گے۔ آپ نے میری سردی کے جوتوں کے لئے جو رقم رکھی ہوئی ہے وہ مجھے دے دیں۔ بچی نے ضد کر کے اپنے والد سے یہ رقم حاصل کی اور ساری چندہ وقف جدید میں ادا کر دی اور کہنے لگی کہ جوتے تو بعد میں بھی آتے رہیں گے پہلے چندہ لے لیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍ جنوری 2018ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ءصفحہ8)

’’پھر انڈیا سے ہی عبدالباسط صاحب انسپکٹر لکھتے ہیں کہ کیرالہ کی ایک جماعت ’’کوچین‘‘ میں تحریک جدید کے حوالے سے جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک جدید کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بیان کیا گیا۔ احباب جماعت کو تحریک جدید کی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین کی گئی۔ جلسے کے ختم ہونے کے بعد ہم صدر صاحب کے گھر گئے تو صدر صاحب کی بیٹی جس کی عمر آٹھ سال ہے وہ اپنا منی باکس لے کرآگئی کہ مولوی صاحب اس میں جتنی بھی رقم ہے وہ چندہ تحریک جدید میں جمع کر لیں۔ اس وقت اس کے باکس میں تقریباً آٹھ سو چونسٹھ روپے تھے جو بچی نے چندہ تحریک جدید کے لیے پیش کیے۔ اس کے والدنے بتایا کہ ان کی بیٹی ایک عرصے سے یہ رقم چندہ تحریک جدید میں دینے کی نیت سے ہی جمع کر رہی تھی۔ باپ نے کہا جب میں اپنی دکان سے واپس آتا تو میری جیب میں جو بھی سکّے ہوتے وہ مجھ سے لے کر جمع کر لیتی۔ کہتی وہ سکّے مجھے دے دیں۔ اور اپنے بُوگی میں ڈال لیتی۔ اس طرح اس بچی نے کئی مہینوں سے جمع کی ہوئی رقم چندے میں ادا کر دی۔ یہ ادراک ہے مالی قربانی کا جو احمدی بچوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍نومبر2020ء

مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍نومبر 2020ءصفحہ8)

’’جماعت احمدیہ نامانہ سرکل کوٹا (راجھستان) کی ایک نو احمدی خاتون سے چندہ تحریک جدید کا مطالبہ کرنے پر انہوں نے اپنی بچی سے (جو چودہ سال کی عمر کی بچی تھی) کہا کہ پچاس روپیہ دے دو۔ بچی نے جواب دیا کہ میرے پاس ایک سو روپیہ ہے میں وہی چندہ دوں گی۔ چنانچہ ماں کے منع کرنے کے باوجود بچی نے ایک سو روپیہ چندہ ادا کر دیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍ نومبر 2012ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍نومبر2012ءصفحہ9)

یورپ و امریکہ کے بچوں کی قابلِ تقلید مثالیں

یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے بچوں اور بچیوں کی قربانی کی تحریک پر لبّیک کہنے کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’صدر لجنہ کینیڈا لکھتی ہیں کہ یونیورسٹی کی ایک بچی نے بتایا کہ ایک دفعہ میری لوکل سیکرٹری وقف جدیدنے مجھے کہا کہ تم چندہ وقف جدید ضرور دو۔ خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری مشکلات دور فرمائے گا۔ اس بچی نے بتایا کہ میرے پاس اس وقت صرف پچاس ڈالر تھے جو کہ ایک سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے میرے لئے بہت بڑی رقم تھی لیکن میں نے چندہ وقف جدید میں ادا کر دئیے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں یہ رقم دینے کے کچھ عرصہ بعد ہی مجھے یونیورسٹی سے آٹھ سو ڈالر سکالر شپ مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے میری قربانی سے بہت بڑھ کے نوازا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍ جنوری 2018ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ءصفحہ8)

’’کینیڈا میں وان جماعت کے بچوں کی ایک مثال ہے۔ وہاں کے صدر کہتے ہیں کہ اکتوبر میں ہم جماعت کے تحریکِ جدید کے وعدوں کو مکمل کرنے کے لیے کام کر رہے تھے تو بچوں کو بھی اور گھر کے بچوں کو بھی تلقین کی۔ انہوں نے بھی اپنے جیب خرچ میں سے اپنے وعدے سے زیادہ چندہ ادا کیا۔ ایک بیٹی جس نے ابھی انجنیئرنگ مکمل کی ہے اس کے پاس کچھ رقم تھی اس نے وہ ساری رقم چندے میں ادا کردی۔ اور پہلے وہ انٹرویو دے رہی تھی ملازمت کے لیے کامیابی نہیں ہو رہی تھی، جس دن یہ چندہ ادا کیا اس سے اگلے روز ہی ایک جاب کے لیے انٹرویو ہوا تھا۔ واپس آئی تو بڑی خوش تھی کہ اس کے ساتھ انٹرویو کے دوران بھی کوئی غیبی طاقت تھی اور بڑا آسانی سے سب کچھ ہو گیا اور جس کمپنی میں انٹرویو دینے گئی تھی وہاں اَور بھی کافی لوگوں نے انٹرویو دیا تھا وہ کہہ رہی تھی کہ انٹرویو تو بہت اچھا ہوا ہے لیکن نتیجہ سال کے آخر میں پتا لگے گا لیکن دو دن بعد ہی اس بیٹی کو کال آ گئی کہ تمہیں سلیکٹ کر لیا گیا ہے اور فروری 2020ء سے کام شروع کرنا ہو گا۔ پھر اگلے دن کال آئی کہ باقی لوگ فروری میں شروع کریں گے لیکن تم اسی سال نومبر سے شروع کر سکتی ہو۔ اس سے اس بچی کے بھی ایمان کو تقویت پہنچی۔ ایمان میں اضافہ ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھا۔

…جرمنی کی جماعت سے ایک بچی ہے وہ لکھتی ہیں کہ میں دو ماہ سے حاملہ تھی۔ اب ان کا بچہ پیدا بھی ہوگیا اور دو سال کا بھی ہو گیا اور کہتی ہیں جب میں حاملہ تھی اس وقت میں نے دعا کی، بہت دعا کی اور میں نے وعدہ کیا کہ ہر ماہ تحریکِ جدید میں سو یورو دوں گی۔ باقی سات ماہ اللہ تعالیٰ نے خیریت سے گزار دیے۔ کوئی پیچیدگیاں تھیں وہ دور ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بیٹے سے نوازا اور کہتی ہیں اب بھی میں اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ ہر ماہ تحریکِ جدید میں چندہ ادا کر کے پورا کر رہی ہوں۔

دنیا کے اس حصے میں جو مادیت میں ڈوبا ہوا ہے اور خدا سے دوری پیدا ہو رہی ہے یہاں اللہ تعالیٰ احمدیوں کو اپنے فضلوں سے نواز کر جہاں اپنے وجود کا پتا دیتا ہے وہاں احمدیت کی حقیقت اور سچائی بھی ان پر ظاہر ہو رہی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍ نومبر 2019ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر2019صفحہ7تا8)

’’صدر لجنہ کینیڈا کہتی ہیں کہ ایک مجلس کے دورے کے دوران ایک خاتون نے بتایا کہ ان کی بارہ سال کی بچی کو سکول کی طرف سے اسّی ڈالر کا انعام ملا۔ اس سے وہ اپنی مرضی کا کچھ خریدنا چاہتی تھی لیکن سیکرٹری وقف جدید کی تحریک پر اس نے انعام کی یہ ساری رقم چندے میں ادا کر دی۔ وہ کہتی ہیں اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو اس طرح نوازا کہ اگلے دن عبدالسلام سائنس فیئر میں اس کی پہلی پوزیشن آئی اور اسے تین سو ڈالر کا انعام مل گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بچی کے ایمان اور اعتقاد کو پختگی عطا فرمائی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ جنوری 2019ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جنوری 2019ءصفحہ8)

’’سیکرٹری تحریک جدید یوکے کہتے ہیں …ایک طفل نے اپنا چھ ماہ کا جیب خرچ تحریک جدید میں ادا کر دیا۔ بچے بھی مالی قربانیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک خادم نے چھٹیوں پر جانے کے لیے رقم بچا کے رکھی ہوئی تھی یہ تمام رقم تحریک جدید کے چندے میں ادا کر دی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍ نومبر 2020ء

مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍نومبر 2020ءصفحہ8)

عیدی سے چندہ دینے کی تحریک

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو عیدی میں سے چندہ دینے کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بچوں، کھلونوں وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں تو دین کے لئے کیوں نہیں کئے جاتے۔ تو اس وقت بھی جب بچوں پہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں اگر بچوں کو سمجھایا جاوے اور کہا جائے کہ تمہیں بھی مالی قربانی کرنی چاہئے اور اس لئے کہ جماعت میں بچوں کے لئے بھی، جو نہیں کماتے ان کے لئے بھی ایک نظام ہے۔ تحریک جدید ہے، وقف جدید ہے۔ تو اس لحاظ سے بچوں کو بھی مالی قربانی کی عادت ڈالنے کے لئے ان تحریکوں میں حصہ لینا چاہئے۔ اس کے لئے کہنا چاہئے، اس کی تلقین کرنی چاہئے۔ جب بھی بچوں کو کھانے پینے کے لئے یا کھیلنے کے لئے رقم دیں تو ساتھ یہ بھی کہیں کہ تم احمدی بچے ہو اور احمدی بچے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر بھی اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچا کر اللہ کی خاطر، اللہ کی راہ میں دینا چاہئے۔

اب عید آ رہی ہے۔ بچوں کو عیدی بھی ملتی ہے تحفے بھی ملتے ہیں۔ نقدی کی صورت میں بھی۔ اس میں سے بھی بچوں کو کہیں کہ اپنا چندہ دیں۔ اس سے پھر چندہ ادا کرنے کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ذمہ داری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ بچہ پھر یہ سوچتا ہے اور بڑے ہو کر یہ سوچ پکّی ہو جاتی ہے کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر خرچ کروں، قربانیاںدوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍ نومبر 2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍نومبر2004ءصفحہ7)

جماعت احمدیہ کے بچوں اور بچیوں اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ نے اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے جیب خرچ اور اپنی عیدی اپنے امام کے حضور پیش کر دی۔

خاکسار کو ربوہ میں دفتر اطفال الاحمدیہ میں خدمت کی توفیق ملی ہے۔ اس دوران عید کے ایام میں اطفال کو عیدین کے موقع پر عیدی سے چندہ دینے سے متعلق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پہنچایا جاتا تھا۔ اور عید کے بعد اس امر سے متعلق کئی رپورٹس موصول ہوتیں کہ کئی اطفال نے اپنی عیدی میں سے چندہ ادا کیا۔دفتر وقفِ جدید کی جانب سے اطفال کو غلے(Money Boxes) فراہم کیے گئے کہ اطفال اپنے جیب خرچ میں سے اس میں بھی کچھ ڈالیں اور اس دوران آنے والی عید پر بھی یاددہانی کروائی گئی ۔ اور جب مقررہ تاریخ پر غلے کھول کر رسید کاٹی گئی تو کئی اطفال کی جانب سے غلوں میں ہزار ہزار روپے سے زائد کی رقم اکٹھی ہو چکی تھی۔

تحریک وقف نو پر والدین کا لبیک اور واقفینِ نو کا عملی اقدام

وقف زندگی کا سلسلہ تو الٰہی جماعتوں کی اتباع میں حضرت مسیح موعود ؑکے زمانہ سے جماعت احمدیہ میں جاری تھا۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس باب میں ایک ایسا اضافہ کیا جو تاریخ عالم میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔اور وہ حضرت مریمؑ کی والدہ کی سنت میں اولاد کو پیدائش سے پہلے خدا کے حضور وقف کرنا ہے۔ چنانچہ اس وقت جب جماعت صد سالہ جوبلی 1989ء کے کنارے پر کھڑی تھی حضور نے اللہ تعالیٰ کی منشاء سے 3؍اپریل 1987ء کو اس کااعلان کیا۔آغاز میں اس تحریک کا عرصہ 2 سال اور تعداد 5ہزار واقفین تھے۔

جماعت نے حضور ؒکی اس خواہش پر بھرپور انداز میں لبیک کہتے ہوئے اپنے ہونے والے بچوں کو اس تحریک میں پیش کیا۔ چنانچہ بعض مخلصین کی باربار درخواست پر حضورؒ نے اس تحریک میں مزید دو سال کا اضافہ فرمادیا۔ 1991ء میں حضورؒ نے اس تحریک کو مستقل حیثیت دے دی لیکن ایک استثناء کے ساتھ کہ یہ صرف پیدائش سے قبل ہی وقف نو میں شا مل کیا جاسکتا ہے۔ گو کہ قبل ازیں پیدائش کے بعد بھی وقف نو میں شامل کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ یہ تحریک آج بھی جماعت میں جاری ہے اور 09؍ اگست 2020ء کو ایوانِ مسرور اسلام آباد میں جلسہ سالانہ برطانیہ کی مناسبت سے خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے واقفین نوکے اعداد و شمار پیش فرمائے۔ واقفین نو کی کل تعداد72 ہزار 932 ہے۔ جس میں 43ہزار 281 لڑکے اور 27 ہزار 944 لڑکیاں ہیں۔ والدین اب بھی بچے پیش کرتے چلے جارہے ہیں۔اس وقت تحریک وقف نومیں شامل ہر رنگ و نسل اور ہر قوم و قبیلہ کے 72 ہزار کے قریب بچے اس تحریک میں شمولیت کی سعادت پاکر وحدت اقوام کا ایک حسین منظر پیش کررہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی واقفین نو بچے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے علاوہ جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کرکے میدان عمل میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

خلافت احمدیہ کے گذشتہ سو سال کی تاریخ میں خلفائے احمدیت کی جانب سے سینکڑوں چھوٹی بڑی مالی، جسمانی اور روحانی تحریکات کی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جہاں بڑوں اور ذی شعور احباب نے لبیک کہا وہیں چھوٹی عمر کے نوجوانوں اور خصوصاًبچوں یا بچیوں نے بھی قربانی کے اعلیٰ معیار آئندہ نسلوں کے لئے قائم کر دیے ۔ اب ہمارا کام ہے کہ ان قربانیوں کو نہ صرف زندہ رکھیں بلکہ بام عروج پر پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ماہنامہ خالد کے ’’سید نا طاہر نمبر‘‘کے لیے اپنے پیغام میں فرمایا:

’’یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے اس لئے اگر زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں، پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفۂ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے۔ خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم ہو اور خلیفۂ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہو جائے۔‘‘

(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر مارچ، اپریل2004ءصفحہ4)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button