متفرق مضامین

خلافت سے وفا اور اس کی کامل اطاعت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی روشنی میں

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

خلافت کی اطاعت بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی

وفا اور اطاعت کسے کہتے ہیں؟

وفا عربی زبان کا لفظ ہےاوراس کےکئی معنی کیے جاتے ہیں۔مثلاً وعدہ اورعہد کا پورا کرنا،ارادتمندی وعقیدت مندی، وفاداری وخیر خواہی،دوستی و مروت، اخلاص وپیار،تکمیل و تعمیل بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔انگلش میں fulfillment، faithfulness، sufficingاور sincerityاس کا ترجمہ کیا جا تاہے۔

’’اطاعت‘‘ بھی عربی سے آیا ہے۔جس کے معنی تعمیل ِحکم اور حکم ماننا کے ہیں۔اس کے علاوہ تابعداری و فرمانبرداری، عبادت اور پرستش بھی اس کے معنے ہیں۔انگریزی زبان میںobedience,reverenceاورworshipping اس کے معنے کیے جاتے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی اطاعت کا حکم

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کامیاب و کامران ہونے والوں کی ایک یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ وہ کہتے ہیں سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَایعنی ہم نے سنا اور اطاعت کی۔جیسا کہ فرمایا:

اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَاؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔(النور:52)

مومنوں کا قول جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے محض یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی ہیں جو مراد پاجانے والے ہیں۔

اگلی آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہےجیسا کہ فرمایا:

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَخۡشَ اللّٰہَ وَ یَتَّقۡہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ۔(النور:53)

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ میں اللہ اوراُس کے رسول کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے۔وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا میں ہدایت پانے کے لیے رسول اللہ ﷺکی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے۔سورۃ الاحزاب آیت 67 میں اللہ تعالیٰ اور اُ س کے رسولﷺ کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈ الے جانے کاذکر بھی ہوا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :

یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا

جس دن ان کے چہرے جہنم میں اوندھے کئے جائیں گے وہ کہیں گے اے کاش! ہم اللہ کی اطاعت کرتے اور رسول کی اطاعت کرتے۔

مندرجہ بالا آیات کو پڑ ھنے کے بعد ایک انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہےکہ اِ س زمانے میں کس کے ساتھ وفا اور کس کی فرمانبرداری و تابعداری کرکے ایک انسان اس دُنیا اور آخرت میں جہنم سے دُور اور جنّت کےقریب ہو سکتاہے۔اس کا جواب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں دیتے ہوئے فرماتےہیں:

’’قرآن کریم سے بھی ہمیں واضح ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ احادیث سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ دائمی خلافت ہے۔ اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بڑی کھول کر وضاحت فرمائی کہ میرے بعد خلافت ہو گی اور ہمیشہ رہے گی۔…

اطاعت رسول میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمائی کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جو خلافت کا نظام ہے اس میں سب سے بڑھ کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ امیر ہے وہ خلیفہ ہی ہے۔ پس اس بات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خلافت کی اطاعت بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ لیکن یہاں وہ خلافت نہیں جو زبردستی چھین کر دنیاوی آقاؤں کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں وہ خلافت مراد ہے جو منہاج نبوت پر قائم ہو اور جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واضح ارشاد فرما چکے ہیں اور جو مسیح موعود کے آنے کے بعد قائم ہونی تھی۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍جون 2018ء صفحہ 6)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات و خطابات میں اِس موضوع کو جماعت کے سامنے اِس طرح رکھ رہے ہیںکہ ہر فردِ جماعت کے دل میں خلافت سےوفا ا وراس کی کامل اطاعت کا مضمون نقش ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ چنانچہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ چند ارشادات قارئین کے استفادہ کے لیے پیشِ خدمت ہیں:

مومنین کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی اطاعت کے معیار کو بڑھائیں

’’اگر ہم جائزہ لیں تو اکثر موقع پر یہ نظر آئے گا کہ اطاعت کے وہ معیار حاصل نہیں کرتے جو ہونے چاہئیں۔ اگر کسی بات پر عمل کر بھی لیں تو بڑی بے دلی سے عمل ہوتا ہے جو مرضی کے خلاف باتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے جو حکم ہیں، ان آیات میں اتنی بار جو اطاعت کا حکم آیا ہے یہ خلافت کے جاری رکھنے کے وعدے کے ساتھ ان آیات میں آیا ہے گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ خلافت کا نظام بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات اور نظام کا ایک حصہ ہے۔ پس خلافت کی باتوں پر عمل کرنا بھی تمہارے لیے ضروری ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے بلکہ ایک قومی اور روحانی زندگی کے جاری رکھنے کے لیے مومنین کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی اطاعت کے معیار کو بڑھائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مئی 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2019ء صفحہ 6)

اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے

’’یہاں میں عہدیداروں کو بھی کہوں گا کہ اگر جماعتی ترقی میں ممد و معاون بننا ہے …تو اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے۔ اگر عہدیدار اس مضمون کو سمجھ جائیں تو افراد جماعت خود بخود اس کی طرف توجہ کریں گے۔ اور ہر سطح پر اطاعت کے نمونے ہمیں نظر آئیں گے۔ ہمیں اونٹوں کی قطار کی پیروی کرتے ہوئے سب نظر آئیں گے۔ ایک رخ پر چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امام کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پس امیر بھی، صدر بھی اور دوسرے عہدیدار بھی پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کی اطاعت کے معیار ایسے ہیں کہ ہر حکم جو خلیفہ وقت کی طرف سے آتا ہے اس کی بلا چون و چرا تعمیل کرتے ہیں یا اس میں تاویلیں نکالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اگر تاویلیں نکالتے ہیں تو یہ اطاعت نہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍ جون 2014ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍جون2014ء صفحہ6)

اطاعت وہی ہے جو فوری طور پر کی جائے

’’بعض عہدیدار خلیفۂ وقت سے جو کوئی ہدایت آتی ہے تو اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں لیکن بڑے انقباض سے، نہ چاہتے ہوئے یہ عمل کرتے ہیں۔ اور نہ چاہتے ہوئے عمل کرنا کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت وہی ہے جو فوری طور پر کی جائے۔ اپنی رائے رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن جب کسی معاملے میں خلیفہ وقت کا فیصلہ آ جائے کہ یوں کرنا ہے تو پھر اپنی رائے کو یکسر بھلا دینا ضروری ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مَیں بعض معاملات میں اپنی رائے رکھتا ہوں اور اپنی طرف سے دلیل کے ساتھ خلیفۃ المسیح کو اپنی رائے پیش کرتا ہوں لیکن اگر میری رائے ردّ ہو جائے تو کبھی مجھے خیال بھی نہیں آیا کہ کیوں یہ ردّ ہوئی ہے یا میری رائے کیا تھی۔ پھر میری رائے وہی بن جاتی ہے جو خلیفہ وقت کی رائے ہے۔پھر کامل اطاعت کے ساتھ اس حکم کی بجا آوری میں لگ جاتا ہوں جو خلیفہ وقت نے حکم دیاتھا۔‘‘

(ماخوذ ازحیات بشیرمؤلفہ شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مَل صفحہ322-323…)(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍ جون 2014ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24؍جون 2014ء صفحہ7)

یاد رکھیں عہد بیعت پورا کرنے کے لیے اطاعت انتہائی اہم ہے

’’جماعت جب بڑھتی ہے تو منافقین بھی اپنا کام کرنا چاہتے ہیں۔ حاسدین بھی اپنا کام کرتے ہیں۔ خلافت سے سچی وفا یہ ہے کہ ان کے منصوبوں کو ہر سطح پر ناکام بنائیں اور خلافت سے جو بعض بدظنیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ایک واقعہ ہے جو قرآن کریم کا ترجمہ انگلش میں کرنے کے لئے لندن آ رہے تھے تو بمبئی سے غالباً ان کی روانگی تھی۔ وہاں پہنچے تو جمعہ کا دن آ گیا۔ جماعت نے درخواست کی کہ آج جمعہ ہے آپ جمعہ پڑھائیں۔ قادیان سے آئے ہیں بزرگ ہیں صحابی ہیں ہم بھی آپ سے کوئی فیض پا لیں۔ نہ جماعت والے آپ کو جانتے تھے، نہ کبھی دیکھا تھا، نہ آپ کسی کو جانتے تھے۔ آپ نے خطبہ دیا کہ دیکھو تم مجھے جانتے نہیں ہو۔ بعضوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہوا۔ تم نے مجھے جمعہ کے لئے کھڑا کر دیا۔ آج اپنا امام بنا دیا۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر امام نماز پڑھاتے ہوئے کوئی غلطی کرے تو تم نے سبحان اللہ کہہ دینا ہے۔ اگر امام اس سبحان اللہ پر اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر وہ اصلاح نہیں کرتا، اسی طرح اپنے عمل جاری رکھتا ہے تو تمہارا کام کامل اطاعت کرتے ہوئے اس کے ساتھ اٹھنا اور بیٹھنا ہے۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ تم اپنے طور پر نماز پڑھنی شروع کر دو۔ اسی طرح تم نے بیٹھنا ہے اسی طرح اٹھنا ہے اسی طرح جھکنا ہے۔پس آگے انہوں نے فرمایا کہ جب عارضی امامت میں اطاعت کا یہ معیار ہے اس کی اتنی پابندی ہے تو خلیفہ وقت کی بیعت میں آ کر جو تم عہد کرتے ہو اور خوشی سے عہد کر کے خود شامل ہوتے ہو، اس میں کس قدر اطاعت ضروری ہے۔ جبکہ تم نے خود سوچ سمجھ کر یہ بیعت کی ہے۔ پس یاد رکھیں عہد بیعت پورا کرنے کے لئے اطاعت انتہائی اہم ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ جون 2014ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24؍جون 2014ءصفحہ8)

اپنی فطرت ثانیہ اطاعت کو بنانا ہو گا بلکہ ہرچیزپر اطاعت ِامام کو فوقیت دینی ہو گی

’’تاریخ اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے کامل اطاعت کی وجہ سے اپنی گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور چند سالوں میں دنیا میں اسلام کو پھیلا دیا تو یہ اطاعت کی وجہ تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جنگوں سے اسلام پھیلا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ تبلیغ بھی انہوں نے کی۔ اگر کہیں جنگوں کا سامنا ہوا تو دشمن کی کثرت اور تعداد اور حملے انہیں اپنے کام سے روک نہیں سکے۔اطاعت کی روح ان میں تھی تو کثیر دشمن کے سامنے بھی اگر ضرورت پڑی تو کھڑے ہو گئے اور اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے ماننے والوں نے اطاعت کا نمونہ نہ دکھا کر چالیس سال تک اپنے آپ کو انعام سے محروم رکھا۔ پس اگر ترقی کرنی ہے تو اس زمانے کا جو جہاد ہے جو اپنی تربیت کا جہاد ہے اور پھر وہ جہاد ہے جو تبلیغ کے ذریعہ ہونا ہے خلیفہ وقت کے پیچھے چل کے ہونا ہے اس کی پابندی کرنی ہو گی۔ اسی طرح عمل کرنا ہو گا جس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِبِلیعنی اونٹوں کی مثال سے واضح فرمائی ہے۔ اپنی فطرت ثانیہ اطاعت کو بنانا ہو گا بلکہ ہر چیز پر اطاعت امام کو فوقیت دینی ہو گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍ جون 2014ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍جون2014ءصفحہ 8)

کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو کامل اطاعت کےساتھ امام وقت کی باتوں کو سنتے ہیں

’’کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو کامل اطاعت کے ساتھ امام وقت کی باتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور یہی باتیں ہیں جو پھر خلافت کے انعام سے بھی فیض پانے والا بناتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کے فیض سے فیض پانے والے وہی بتائے ہیں جو عمل صالح کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، توحید کو قائم رکھنے والے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے کہلاتے ہیں۔ پس ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلافت میں کبھی دنیاوی مقاصد ہو سکتے ہیں یا خلافت کا مقصد بھی دنیاوی مقاصد کی طرح ہے یا دنیا داروں کی طرح ہے۔ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے والوں کا روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تو تمام دنیاوی سازو سامان کے ساتھ بھی بسا اوقات کامیاب نہیں ہوتے۔ ان کے دنیاوی مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ کامیابی تو وہی ہے ناں جو آخری فتح مل جائے۔ وہ ان کو حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کا مقصد دنیاوی ہار جیت نہیں ہے بلکہ کامل اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور تقویٰ میں بڑھنا ہوتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍جون 2014ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍جون2014ءصفحہ 8)

خلافت ہے کیا؟ …اسی وقت سمجھ آئے گی جب کامل اطاعت پر یقین پیدا ہو گا

’’پس خلافت تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اس کے لئے اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلافت ہے کیا؟ اور یہ بات اسی وقت سمجھ آئے گی جب کامل اطاعت پر یقین پیدا ہو گا۔ کوئی جتنا جتنا بھی اپنے آپ کو عالم مدبّر یا مقرر سمجھتا ہے، اگر اطاعت نہیں ہے تو نہ ہی جماعت احمدیہ میں اس کی کوئی جگہ ہے، نہ ہی اس کا یہ علم اور عقل دنیا کو کوئی روحانی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فقرے کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتّباع امام کو اپنا شعار بناوے۔ پس جب مکمل طور پر خلیفہ وقت کی پیروی اور اطاعت اختیار کر لیں گے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور حکموں پر عمل کریں گے اور ان کی توجیہیں اور تاویلات نکالنی بند کر دیں گے تو علم بھی اور عقل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے ثمر آور ہو گی اور پھل پھول لائے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جون 2014ء۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍جون2014ءصفحہ 8تا9)

جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں

’’اطاعت کا معیار یہ نہیں ہے کہ صرف قسمیں کھا لو کہ جب موقع آئے گا تو ہم دشمن کے خلاف ہر طرح لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ صرف قسمیں کام نہیں آتیں۔ جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں۔ کامل اطاعت دکھاؤ گے تو تبھی سمجھا جائے گا کہ یہ دعوے کہ ہم ہرطرح سے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں حقیقی دعوے ہیں۔ اگر اُن احکامات کی پابندی نہیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے دئیے ہیں تو بسا اوقات بڑے بڑے دعوے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ پس اصل چیز اس پہلو سے کامل اطاعت کا عملی اظہار ہے۔ اگر یہ عملی اظہار نہیں اور بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات جو ہیں اُن میں بھی عملی اظہار نہیں تو پھر دعوے فضول ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍مئی2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍جون2011ءصفحہ6)

خلافت جاری رہے گی…سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کامل اطاعت ہو

’’اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ضرور مسلمانوں میں خلافت جاری رہے گی بلکہ وعدہ فرمایا ہے جو بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اُن میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کامل اطاعت ہو۔ پہلی خلافتِ راشدہ کا تسلسل تبھی ٹوٹا تھا کہ مسلمان اطاعت سے باہر ہوئے۔ مسلمان حقیقی خلافت سے اُس وقت محروم کئے گئے جب وہ اطاعت سے باہر ہوئے۔ اطاعت سے باہر نکل کر بعض گروہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم اپنی بیعت کو بعض شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں جن میں ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینا تھا یا بعض فتنہ پردازوں کی باتوں میں آ کر اطاعت سے باہر نکلنے والے بنے۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت صحابہ بھی موجود تھے لیکن جب کامل اطاعت سے باہر نکلے تو خلافت سے محروم کر دئیے گئے۔ اور کیونکہ خلیفہ بنانے کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو پھر اختلافات کے بعد، اطاعت سے نکلنے کے بعد خلیفہ بننے یا بنانے کی ان کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍مئی2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍جون2011ءصفحہ6)

خلیفۂ وقت کی اطاعت توعام امیر کی اطاعت سے بہت بڑھ کر ضروری ہے

’’…خلیفۂ وقت کی اطاعت تو عام امیر کی اطاعت سے بہت بڑھ کر ضروری ہے۔ دلی خوشی کے ساتھ کامل اطاعت کے نمونے ہمیں صحابہ کی زندگیوں میں کس طرح نظر آتے ہیں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک جنگ میں جنگ کی کمان حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کی گئی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی وجہ سے ان کو بدل دیا اور عین جنگ کی حالت میں ان کو بدلا گیا۔ تو بہرحال اس حالت میں خلیفۂ وقت کا حکم آیا کہ اب کمان حضرت ابو عبیدہ کریں گے، ان کو دے دی جائے۔ تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی عمدگی سے کمان کر رہے ہیں ان سے چارج نہیں لیا لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ آپ فوری طور پر مجھ سے چارج لیں کیونکہ یہ خلیفۂ وقت کا حکم ہے اور میں بغیر کسی شکوے کے یا دل میں کسی قسم کا خیال لائے بغیر کامل اطاعت کے ساتھ آپ کے نیچے کام کروں گا جس طرح آپ کہیں گے…تو یہ اطاعت کا معیار ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہیے نہ یہ کہ اگر کوئی فیصلہ خلاف ہو جائے تو شکوہ شروع کر دیں۔ کسی عہدے دارکو ہٹا کر دوسرے کو مقرر کر دیا جائے تو کام کرنا چھوڑ دیں۔ جو ایسا کرتا ہے نہ تو اس میں اطاعت ہے نہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے نہ تقویٰ ہے۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍مئی 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2019صفحہ 6)

اطاعت کا نمونہ دکھاؤ…اس جھگڑے میں نہ پڑو کہ یہ بات معروف کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں

’’گذشتہ 111 سال ہو گئے خلافت کی طرف سے انہی باتوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے اور اسی طرح یہ بھی ہے کہ انتظامی معاملات میں بھی کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ۔ صرف دینی یا روحانی معاملات میں نہیں۔ جیسا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے دکھایا تھا اور اس جھگڑے میں نہ پڑو کہ یہ بات معروف کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے خلاف کوئی بات ہے تو وہ یقیناً غیر معروف ہے۔ پس یہ جو ہم عہد میں دوہراتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا اس سے ہر ایک اپنی خود ساختہ تشریح معروف فیصلہ کی نہ نکالنے لگ جائے کہ یہ فیصلہ معروف ہے اور یہ نہیں ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ نہیں کہا تھا کہ عین جنگ کے درمیان جب فوجیں آمنے سامنے ہیں اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی حکمت عملی بھی بہت اچھی تھی اور مسلمانوں کو فائدہ بھی ہو رہا تھا اس وقت حضرت عمرؓ کا حکم جو آیا وہ غیر معروف تھا۔ نہیں بلکہ انہوں نے کامل اطاعت کے ساتھ ابو عبیدہؓ کے زیر ِکمان ایک عام کمانڈر کی حیثیت سے، فوجی کی حیثیت سے لڑنے کو ہی برکت سمجھا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مئی 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2019ءصفحہ 7)

جماعتی کاموں میں خاص طور پراپنے آپ کو خلافت کا تابع فرمان کرنا ہو گا

’’پس اگر کسی عہدیدار کے دل میں کبھی مَیں آئے یا خود پسندی پیدا ہو تو اسے استغفار کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ پس جماعت احمدیہ کی ترقی میں نہ علماء کی علمیت کام دے رہی ہے، نہ عقلمند کی عقل کام دے رہی ہے، نہ دنیاوی علم رکھنے والے کا علم و ہنر کام دے رہا ہے۔ اگر کسی دینی علم رکھنے والے، اگر کسی عقلمند کی عقل، اگر کسی دنیاوی علم والے کی علمیت، اگر ماہرین کے ہنر جماعت کے کاموں میں غیر معمولی نتائج پیدا کر رہے ہیں تو یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ اس وابستگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ان نتائج کا وعدہ ہے اور اس لئے وہ عطا فرما رہا ہے۔ دنیاداروں میں یا دنیاداری میں بیشک علم عقل اور ہنر کام دے سکتا ہے۔ لیکن جماعت میں رہنے والے کو بہر حال بہترین نتائج کے لئے جماعتی کاموں میں خاص طور پر اپنے آپ کو خلافت کا تابع فرمان کرنا ہو گا۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ مئی 2015ءالفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ءصفحہ 8)

اپنے عمل کو بھی خلیفۂ وقت کے تابع کریں اور دوسروں کو بھی نصیحت کریں

’’عہدیدار خلافت کے نمائندے کے نام پر اپنی اہمیت تو واضح کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں کہیں عہدیدار کھڑا ہو گا وہ کہے گا مَیں خلافت کا نمائندہ ہوں اور ان عہدیداروں میں مرد بھی شامل ہیں اور لجنہ کی صدرات بھی شامل ہیں اَور عہدیدار بھی شامل ہیں لیکن خلافت سے تعلق کو اس طرح انہوں نے ذہنوں میں نہیں ڈالا جس طرح ڈالنا چاہئے۔ اگر یہ عہدیدار خلافت کی اہمیت اور تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے تو ان عہدیداروں کی اہمیت خود بخود بڑھ جائے گی۔ پس یہ علماء کی ذمہ داری ہے۔ اس میں سب لوگ شامل ہیں چاہے وہ مربیان ہیں، عہدیداران ہیں یا دین کا علم رکھنے والے ہیں کہ خلیفۂ وقت کا دست و بازو بنیں۔ اپنے عمل کو بھی خلیفۂ وقت کے تابع کریں اور دوسروں کو بھی نصیحت کریں۔ یہ تصور غلط ہے کہ ایک دفعہ کہہ دیا تو بات ختم ہو گئی۔ یہ نصیحت اور تعلق کے اظہار کا بار بار ذکر ہونا چاہئے۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2015ءالفضل انٹر نیشنل 19؍جون 2015ءصفحہ 8)

خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں

’’ایک بہت بڑی تعداداللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھتی ہے۔لیکن یاد رکھیں یہ ریزولیوشنز، یہ خط، یہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے، تب سچے ثابت ہوں گے جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ نہ کہ وقتی جوش کے تحت نعرہ لگا لیا اور جب مستقل قربانیوں کا وقت آئے، جب وقت کی قربانی دینی پڑے، جب نفس کی قربانی دینی پڑے تو سامنے سو سو مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں۔ پس اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کوخداتعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے تقویٰ پر قائم رہنے کی جو تلقین کی جاتی ہے اور یقینا ًیہ خداتعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہی ہے، اس پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی جس آیت میں خلافت کا انعام دئیے جانے کا وعدہ فرمایاہے اس سے پہلی آیتوں میں یہ مضمون بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اللہ سے ڈرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو تو پھر تمہاری کامیابیاں ہیں۔ ورنہ پھر کھوکھلے دعوے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے۔ ہم آگے بھی لڑیں گے، ہم پیچھے بھی لڑیں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی2005ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جولائی2005ءصفحہ6)

وصیت کرنے کے بعد… خلافت سےوفا کا تعلق بھی پہلے سے بڑھ کر ہونا چاہئے

’’پس جو لوگ نظامِ وصیت میں شامل ہیں اُن کے ایمان، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔ انہوں نے ایک عہد کیا ہے۔ اس لئے وصیت کرنے کے بعد پھر تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش بھی پہلے سے زیادہ ہونی چاہئے۔ خلافت سے وفا کا تعلق بھی پہلے سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔ خدا تعالیٰ ہر احمدی کو اس میں ترقی کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ نظامِ خلافت کے الٰہی وعدوں سے فیض پانے کی ہر احمدی کو توفیق ملتی رہے تا کہ یہ نظام ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس سے فیض پاتے چلے جائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍مئی 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍جون2011ءصفحہ9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button