متفرق مضامین

خلافت احمدیہ۔ ہستی باری تعالیٰ کا ایک زندہ جاوید ثبوت

مکرم عابد وحید خان صاحب۔انچارج مرکزی پریس اینڈ میڈیا سیکشن کے ساتھ ایک انٹرویو (ترجمہ :ابو سلطان)

[ادارہ ریویو آف ریلیجنز نے 19؍ اور 20؍ جون 2021ء کو پہلے The God Summit کا کامیاب (آن لائن) انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کے دوران محترم عابد وحیدخان صاحب پریس سیکرٹری مرکزی پریس اینڈ میڈیا سیکشن کا انٹرویو بھی نشر کیا گیا جس میں انہوں نے ایمان افروز انداز میں ناظرین و سامعین کو بتایا کہ کس طرح دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے احمدی خلافتِ احمدیہ کے بابرکت فیض سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا زندہ جاوید ثبوت پاتے ہیں۔ اس انٹرویو سے ماخوذ ایک تحریر قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش ہے۔ ]

شہزاد احمد(انٹرویوور): مکرم عابد خان صاحب آپ کو کئی سال سے خلافت احمدیہ کے قرب میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے اور آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں دنیا کے متعدد ممالک کے سفر کیے ہیں جن کے دوران آپ کی احمدیوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ کیا آپ اس حوالہ سے اپنے کچھ تجربات اور مشاہدات ہمارے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں؟

مکرم عابد خان صاحب: جی ہاں، کئی قسم کے ایسے ایمان افروز واقعات ہیں جو آپ کو خلافت کے مقام، فہم وادراک اور علم سے آگاہی دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ جات کے دوران جو غیر معمولی محبت کا رشتہ دونوں اطراف [خلافت اور احبابِ جماعت] سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس (محبت کے رشتہ) کے بارے میں ہم بات تو کرتے ہیں مگر درحقیقت اس کا مظاہرہ احباب جماعت سے ملاقات کے دوران ہوتا ہے۔ ہر سطح پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاس باریکی سے احباب جماعت کا خیال رکھتے ہیں کہ واقعۃًان کے ماں باپ سے بڑھ کر محبت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔کسی غیر کے لیے شاید یہ محض لفاظی ہو مگر جب آپ خود قریب سے ان امور کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کو محسوس کرتے ہیں،آپ مختلف اقوام کے لوگوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہوتے دیکھتے ہیں اور یہ کہ کس طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف ممالک کا دورہ فرماتے ہوئے اسلام کی تعلیمات کا پرچار کرتے ہیں اور احبابِ جماعت میں بھائی چارہ ، اخوت اور اتحاد کی روح پیدا فرماتے ہیں۔ کس طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (احباب جماعت) کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے لیے بلاتفریق نسل، رنگ اور قومیت کے مسیحائی کا مظہر بنتے ہیں، یہ ایک نہایت غیر معمولی بات ہے۔

شہزاد احمد: ہم اکثر احمدیوں سے سنتے ہیں اور ہر احمدی اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ کبھی وہ کسی پریشانی سے گزر رہے ہوتے ہیں(یا طویل عرصہ سے کوئی) بیماری ہوتی ہے اور انہوں نے ان مشکلات سے نجات پانے کے لیے کئی کوششیں بھی کی ہوتی ہیں۔ لیکن جس لمحہ وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملنے کی سعادت پاتے ہیں (یا حضور کی خدمت میں خط لکھتے ہیں) تو معجزانہ طور پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی دعاؤں کی برکت سے وہ مصائب دور ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ ایسے چند واقعات ہمیں بتا سکتے ہیں؟

مکرم عابد خان صاحب:یہ ایسی بات ہے جس کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں۔ مجھے یقین ہے اور میں بہت سے ایسے احمدیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے براہ راست اس کو محسوس کیا ہے اور اس کا مشاہد ہ کیا ہے۔ جنہوں نے اپنے خطوط سے یا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ملاقات سے فیض پایا ہے۔

’’اللہ فضل کرے گا‘‘

مجھے یاد ہے آسٹریلیا میں2013ء میں جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دورہ فرمایا تو اکثر دن کے پہلے حصہ میں اور شام کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ ہوتا تھا۔ میں اکثر کوشش کرتا تھا کہ ملاقات کے بعد لوگوں کو ملوں اور ان سے ان کی ملاقات کے تجربہ کے بارہ میں تاثرات حاصل کروں۔ایک دوست ایسے تھے جن کو میں مل نہیں سکا اور ان سے بات نہیں کر سکا۔ لیکن اگلے دن انہوں نے خود مجھے تلاش کیا اور ملے۔ وہ ایک پاکستانی خادم تھے اور کچھ سال پہلے آسٹریلیا شفٹ ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو اپنی (اور اپنی فیملی کی) ملاقات کا تجربہ بتانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا اور ان کی اہلیہ کا ایک بچہ دو سال کا ہے اور جب سے اس کی پیدائش ہوئی ہے وہ دودھ کو صحت افزا طریق پر ہضم نہیں کر پاتا اور آپ کو پتہ ہے کہ اس عمر میں صرف دودھ ہی بچوں کی افزائش کا اہم ترین جزو ہے۔ اس لیے ایسے والدین کا سخت پریشانی سے دوچار ہونا ایک فطرتی بات ہے۔ وہ کئی ڈاکٹر ز کومل چکے تھے۔ اس بچے کی والدہ خود بھی ڈاکٹر تھیں۔ وہ بچے کا ہاضمہ ٹھیک کرنے کے لیے کئی جتن کر چکے تھے اور وہ بچہ بھی نسبتاً کمزور تھا اور آگے چل کر مزید بڑھوتی کی پیچیدگیاں سامنے آنے کا خطرہ تھا۔ اس لیے وہ بہت پریشان اور غمگین تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ہرطرح کے ذرائع اور دوائیاں استعمال کر چکے تھے۔ بچہ کچھ بھی ہضم نہیں کر پا رہا تھا۔ جب وہ ملاقات کے لیے گئے تو اپنے ساتھ شہد بھی لے گئے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بچے کی ساری کیفیت بتائی اور دعا کی درخواست کی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنی انگلی سے شہد میں سے کچھ لیکر بچے کے منہ میں ڈالا اور فرمایا ’’اللہ فضل کرے گا۔‘‘ اس وقت ان الفاظ کی برکت سے ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پریشانی جاتی رہی۔ خاص طور پر اس لیے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بہت پُراعتماد لہجے میں فرمایا تھا کہ اللہ فضل کرے گا۔اور ملاقات کے فوراًبعد جب بچے کی والدہ نے اس کو دودھ پلایا تو ہم ہمیشہ کی طرح اس انتظار میں تھے کہ بچہ ابھی دودھ باہر نکال دے گا۔اور پھر دو منٹ، پانچ منٹ اور دس منٹ گزر گئے۔ ہم حیران رہ گئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دو سال سے جب بھی اس بچے کو دودھ پلاتے ہیں تو یہ باہر نکال دیتا ہے۔ اصل میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے دعا کی درخواست کے بعد وہ اس قدر جلدی قبولیت کی توقع نہیں رکھ رہے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ یہ کچھ وقت لے گا۔ اس دوست کا کہنا تھا کہ یہ ایک معجزہ تھا اور اگلے 24گھنٹوں میں تین سے چار مرتبہ اس بچے کو خوراک دی گئی اور کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا۔ یہ بتاتے ہوئے اس خادم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جیسا کہ اس کیفیت سے گزر نے کے بعد ہر ماں باپ اپنے بچے کا ایک روشن اور بابرکت مستقبل دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھی میرا ان سے رابطہ رہا اور وہ بتاتے رہے کہ بچہ الحمدللہ بالکل ٹھیک ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے، اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔

’’فکر نہ کرو، بالکل ٹھیک ہو گی‘‘

ایک دوسرا واقعہ یوں ہے کہ کچھ سال قبل میں، مسجد فضل میں تھا اور اس وقت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رہائش وہیں تھی۔ وہاں ایک بڑی عمر کے بزرگ تھے۔ میں انہیں روزانہ دیکھتا تھا کہ وہ نما ز کے اوقات سے قبل جھاڑو دے رہے ہوتے تھے۔ میرا ان سے کوئی (براہ راست) تعلق نہ تھا اور نہ ہی میں ان کو جانتا تھا۔ ایک دفعہ جلسہ کے دنوں میں ، میں حسب معمول بعض احباب جماعت کا انٹریو کر رہا تھا جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملاقات کا شرف پاچکے تھے۔ ایک دن وہ تیزی سے دوڑ کر میرے پاس آئے۔ وہ پنجابی میں بات کر رہے تھے۔ میں پنجابی بہت اچھی طرح نہیں بول سکتا مگر کچھ کچھ سمجھ آجاتی ہے۔ وہ بزرگ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے مگر چند لمحات کی ملاقات کے بعد ہی مجھے یقین تھا کہ وہ بزرگ خلافت احمدیہ کے شیدائی اور حضور سے گہری محبت رکھنے والے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے اپنا ایک ذاتی واقعہ بتانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جانتے ہیں کہ خلافت سچی ہے اور برحق ہے۔ اور اللہ تعالیٰ خلیفۃ المسیح کی دعائیں سنتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ سال پہلے ان کو اور ان کی اہلیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ مگر پیدائش کے وقت بچی کا ہاتھ (معذوری کی وجہ سے) مڑا ہوا اور بندتھا۔ پھر ڈاکٹروں سے جب رائے لی گئی تو انہوں نے بتایا کہ بچی کا ہاتھ بعض خلیوں کی خرابی کی وجہ سے کھل نہیں سکتا اور یہ کہ اب یہ بچی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتی۔ بچی کو پڑھنے اور سمجھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہو گا اور ان کی رپورٹس کے مطابق بچی بڑی ہو کر بول بھی نہ سکے گی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی درخواست کی اور جب وہ بچی نو ماہ کی ہو گئی تو وہ اس بچی کو اور اس کی والدہ کو لےکرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ ساری کیفیت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بیان کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بہت پریشان تھے مگرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بہت پر سکون تھے اور فرمایا ’’فکر نہ کرو، بالکل ٹھیک ہو گی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ مجھے اسی وقت تسلی ہو گئی تھی کہ ڈاکٹر جو مرضی کہتے رہیں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ مزید نو ماہ بعد جب بچی اندازاًڈیڑھ سال کی ہو گئی تو ایک دن اچانک بچی کا ہاتھ کھلا اور انہوں نے بتایا کہ اگرچہ یہ بہت خوشی کا موقع تھا مگر مجھے پتہ تھا کہ ایسا ضرور ہو گا کیونکہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایسا فرمایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب میری بیٹی دس، گیارہ سال کی ہے اور مکمل طور پر صحت مند ہے۔ وہ اچھی طرح بول سکتی ہے، پڑھائی میں اچھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ پڑھی لکھی ہے۔

شہزاد احمد: ہم میں سے اکثر لوگ جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے پاس اپنی پریشانیاں لے کر جاتے ہیں تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنہایت پُرسکون ہوتے ہیں اور خدا پر یقین حضور کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔اور پھر حضور کی دعائیں معجزانہ طور پر قبول ہوتی ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج کل غزوۂ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ کا ذکر فرمارہے ہیں اور ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے حالات پر بھی جب نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات حضورؑ نے کسی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا یا کسی کو ہاتھ لگا کرمَس کیا تو وہ شخص اپنی کسی بیماری سے شفاپا گیا۔ اور آج بھی خلافت احمدیہ کی برکت سے ہم ایسے نظارے دیکھ رہے ہیں۔

مکرم عابد خان صاحب: آپ کی بات کے دوران مجھے ایک اَور واقعہ یاد آگیا جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین کو ظاہر کرتا ہے۔

’’اگر آپ اس کو رکھیں گے تو یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 2018ء میں امریکہ کا دورہ فرمایا۔ دورانِ دورہ ایک درمیانی عمر کے گیمبین (Gambian)دوست، اندازاً ان کی عمر پچاس سال ہو گی جو پندرہ بیس سال پہلے امریکہ شفٹ ہو گئے تھے انہوں نے مجھے ایک بہت دلچسپ واقعہ سنایا کہ چند سال قبل جب ان کی اہلیہ امید سے تھیں تو ڈاکٹروں نے کچھ ٹیسٹ کیے اور ان کو بتایا کہ رپورٹس نہایت مایوس کن ہیں اور ان کا بچہ معذور پیدا ہوگا اور اب آپ کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک ہفتہ کا وقت ہے کہ آپ اس بچے کو رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ کیونکہ یہ بچہ نارمل زندگی نہیں گزار سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب پریشان تھے اور گھر گئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہم یہ فیصلہ نہیں کریں گے۔ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے راہنمائی لیں گے۔ کچھ دنوں کے بعد جب ڈاکٹر کے پاس گئے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ ہمارے خلیفہ جو بھی فیصلہ کریں گے وہی ہمارا فیصلہ ہو گا۔ کیونکہ خلیفۃ المسیح ہمارے روحانی لیڈر اور راہنما ہیں اور جب تک وہ کوئی فیصلہ نہیں فرماتے میں انتظار کروں گا۔ بالآخر وہ دن آگیا جب بہرحال ان کو کوئی حتمی فیصلہ کرنا تھا۔ چنانچہ اس سے ایک دن پہلے شام کو انہیں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے کال موصول ہوئی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرما یا ہے کہ اگر آپ ایک مخلص احمدی ہیں تو اس بچے کو ضائع نہ کریں۔ اگر آپ اس کو رکھیں گے تو یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ان الفاظ کے ساتھ ہی ساری پریشانیاں ہَوا ہو گئیں۔اور حتمی فیصلہ کے بارہ میں سب خیالات صاف ہو گئے۔ اگلے دن جب وہ ڈاکٹر کو یہ بتانے کے لیے گئے کہ ہم اس بچے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر نے آکر ان کو مبارکباد دی اور کہا کہ گذشتہ ٹیسٹ کے بعد آج کچھ مزید ٹیسٹ کیے ہیں اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہماری پہلی رپورٹس بالکل غلط تھیں اور بچہ بالکل ٹھیک ہے اور ہم ایک نارمل اور صحت مند بچے کی پیدائش کی توقع رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر کو کہا کہ جو تم مجھے بتا رہے ہو وہ میرے لیے حیرت کا باعث نہیں ہے مجھے اس بات کا گذشتہ روز سے پتہ ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کیا مطلب ہے آپ کا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بڑے فخر سے ان کو بتایا کہ میرے خلیفہ کی طرف سے مجھے کل ہی ایک پیغام موصول ہوا ہے کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں۔ اس پر اس ڈاکٹر کا رویہ بہت اچھا ہو گیا اور وہ اسلام اور خلیفۃ المسیح کے بارے میں پوچھتے رہے اور بعد میں ان کی بیٹی کی پیدائش بالکل نارمل ہوئی اور وہ بالکل ٹھیک ہے اور بہت اچھی پڑھائی کر رہی ہے۔

وہاں زخم کا نشان تک نہ تھا

پھرمجھے ایک واقعہ یاد آیا ہے کہ 2016ء میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسویڈن کا دورہ فرما رہے تھے اور حسب معمول بہت سا وقت فیملی ملاقاتوں میں صرف ہو رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملاقات کرنے والوں میں ایک دوست اس وقت صدر مجلس خدام الاحمدیہ فن لینڈ جماعت تھے جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملنے سویڈن آئے تھے۔ ملاقات کے بعد جب وہ مجھے ملے تو وہ بہت جذباتی کیفیت میں تھے اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ چند روز پہلے گھر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے ان کی انگلی پر کافی گہرا زخم آیا تھا اور گذشتہ دنوں میں وہ انگلی مزید خراب ہو تی گئی اور انفیکشن بہت بڑھ گیا اور انہیں خوف پیدا ہوا کہ کہیں ملاقات رہ نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ملاقات سے قبل اپنی انگلی پر اچھی طرح پٹی کی اوردوران ملاقات میں نے اپنے زخم کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو نہیں بتایا اور جماعتی امور کے متعلق راہنمائی حاصل کرتا رہا۔ ملاقات کے اختتام پر جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ تصویر بنانے کا وقت آیا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے میرا ہاتھ پکڑا ور زخم والی انگلی کو اس زور سے دبایا کہ میری درد کی انتہانہ رہی اور جب تصویر بن چکی تو میری درد بالکل ختم ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان لمحات میں کچھ ایسا ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے فوراًبعد الگ ہو کر انہوں نے اپنی پٹی کھولی تو اس انگلی میں زخم یا انفیکشن کا نشان تک باقی نہ رہا تھا اور انہوں نے مجھے اپنے موبائل فون پر اس زخم کی اسی دن صبح کے وقت لی جانے والی تصویر دکھائی تو وہ ایک گہرا زخم تھا اور اس وقت جب میں ان کا ہاتھ دیکھ رہا تھا وہاں زخم کا نشان تک نہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے بچوں کو بتاؤں گا اور وہ اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ یہ ایسا واقعہ ہے جو ہمارے خاندان میں احمدیت کو نسلوں تک قائم رکھے گا ۔ انشاء اللہ ۔کیونکہ آج ہم نے خلافت احمدیت کی برکت اپنی ذات میں محسوس کی ہے۔ اگرچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو اس زخم کا علم نہ تھا مگر کچھ ایسا ہوا کہ میں نے خلافت کی سچائی کا ایک رنگ دیکھا ہے۔

’’ایک دو Rodلگائیں گے اور سب ٹھیک ہو گا‘‘

ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ یہ واقعہ ہالینڈ کا ہے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز2019ء میں وہاں کا دورہ فرمارہے تھے۔ میری ملاقات ایک احمدی دوست سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے گذشتہ دورہ 2015ء میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو ملنے کے لیے گئے تھے اور بیٹے کی عمر پانچ یا چھ سال تھی۔ اس بچے کی پیدائش کے وقت کچھ موروثی بیماریاں(Genetic illnesses) لاحق تھیں جس کی وجہ سے اس کی جسمانی بڑھوتری اثر انداز ہوئی تھی۔ اس کو ہڈیوں کے مسائل تھے اور کمر بھی جھکی ہوئی تھی۔ ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ یہ ایسا مرض ہے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بگڑتا جائے گا اور یہ بچہ بالآخر مفلوج ہو جائے گا۔ بلاشبہ یہ کیفیت کسی بھی بچے کے والدین کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم 2015ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملنے کے لیے گئے اور اپنے بچے کی ساری کیفیت بیان کر کے اس کے لیے دعا کی دردمندانہ درخواست کی۔ اس پر حیران کن طور پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا ’’کچھ نہیں ہوتا۔ ایک دو Rodلگائیں گے اور سب ٹھیک ہو گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ ہم اتنے عرصے سے ڈاکٹرز سے مل رہے ہیں اور کبھی کسی نے Rodsکا ذکر نہیں کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے الفاظ میں اس قدر اعتماد اور سکو ن تھا کہ سب ٹھیک ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ چند ہفتے کے بعد جب ہم ڈاکٹر کو ملنے گئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے آپ کے بچے کا کیس دوبارہ دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر اس کی کمر کے ساتھ دو Rodsلگائے جائیں تو اس کی زندگی نارمل ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جونہی انہوں نے Rodsکا لفظ بولا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے الفاظ ہیں جو پورے ہونے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ بالکل یہی سرجری ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ پھر دوران گفتگو (2019ء میں ، چار سال بعد) انہوں نے اپنے بیٹے کو آواز دے کر بلایا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ وہ بالکل ٹھیک تھا، صحت مند تھا اور بالکل سیدھا کھڑا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کو اس آپریشن کی کامیابی کی امید تھی مگر اس قدر اچھے نتائج ان کے لیے بھی حیران کن تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح کی دعائیں اور راہ نمائی ہے۔

شہزاد احمد: آپ نے جن بچوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ خوش قسمت بچے اپنے والدین اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے خدا کے فضلوں اور خلافتِ احمدیہ کی سچائی کے زندہ نشان کے طور پر رہیں گے۔ آپ نے بجا طور پر فرمایا کہ یہ صرف چند ایمان افرز واقعات ہیں جو بیان کیے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے لاکھوں احمدی ایسے ہیں جنہوں نے ذاتی طور پر خلافتِ احمدیہ سے جڑے ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا مشاہدہ کیا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے ایک نبی کی سچائی زندہ نشانوں کے ذریعہ تجربہ کی جو اس کے بعد جاری شدہ خلافت احمدیہ کے ذریعہ ظہور پذیر ہوئے۔

مکرم عابد خان صاحب: میں نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے دورہ جات اور دیگر مصروفیات کی کئی ڈائریز لکھی ہیں اور لوگ مجھے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کس طرح اتنا زیادہ مواد مل جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ میرا مسئلہ تو یہ ہوتا ہے کہ کیا بات چھوڑوں کیونکہ لوگوں کو سینکڑوں یا ہزاروں صفحات پڑھنے پڑیں گے۔ بہت سے واقعات ہیں ، لوگوں کے ذاتی تجربات ہیں اور جتنے واقعات میں ڈائری میں شامل کر لیتا ہوں کم و بیش اتنے ہی لکھنے سے رہ جاتے ہوں گے۔ جیسا کہ آپ نے بھی کہا کہ ہر احمدی کا خلافت سے ایک ذاتی تعلق ہے اور ذاتی تجربات ہیں۔

شہزاد احمد: گذشتہ چند سالوں میں ہم نے دیکھا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو پارلیمنٹس میں جو عالمی ادارہ جات ہیں مدعو کیا جاتا ہےتاکہ حضور خطاب فرمائیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ بعض ایسے لوگ جو احمدی بھی نہیں ہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی فراست، علم اور حکمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس طرح کے کسی بھی موقع یا دورہ کے کامیاب انعقادکے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاحباب جماعت کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح مبذول کرواتے ہیں کہ یہ سب اُس کے فضلوں کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ آپ کو باقاعدہ نمائندہ وفد کے طور پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ دورہ جات پر جانے کا موقع ملا ہے۔ کیا آپ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی ان دورہ جات میں تقاریر وغیرہ کی تیاری اور اس دوران خداتعالیٰ کی مدد اور راہ نمائی کے حوالے سے کچھ بتا سکتے ہیں جو ان مواقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے خطابات سے نظر آتی ہے۔

ہمQuebecنہیںجائیں گے

مکرم عابد خان صاحب:اس حوالے سے میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے میں بہت متاثر ہوا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی راہ نمائی فرماتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو کئی مواقع اور تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے جیسے کہ پارلیمنٹس میں خطاب، مختلف ممالک میں کئی پروگراموں وغیرہ میں شرکت کی درخواست کی جاتی ہے۔ یقینا ًجس قدر ممکن ہوتا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزشرکت فرماتے ہیں۔ مگر بسااوقات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو معذرت کرنی پڑتی ہے۔بسااوقات ہم نے دیکھا ہے کہ ایسی تقریبات جن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمدعو تھے مگر شرکت نہیں فرما سکے وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی افضال دیکھنے کو ملے جو خلافت احمدیہ کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر معمولی تعلق کی دلیل ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2016ء میں جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھ ہفتوں کے لیے کینیڈا کا دورہ فرما رہے تھے۔ اس کے دوران حضور انور کی مصروفیت بہت زیادہ تھی۔ کئی یونیورسٹیز اور پارلیمنٹس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے خطابات تھے۔ایک پروگرام جو کینیڈا کی جماعت نے ترتیب دیا تھا وہ حضورِ انور کا دورۂ Quebecتھا جو کینیڈا کا فرنچ حصہ ہے اور یہ کہ آپ وہاں کی صوبائی پارلیمنٹ میں خطاب فرمائیں جس کو Quebec legislative Assemblyکہتے ہیں۔ جس جماعت کے ذمہ اس پروگرام کا انعقاد تھا وہ بےحد خوش تھے کیونکہ یہ کینیڈا کا وہ حصہ ہے جہاں جماعت کا بہت کم تعارف ہے اور یہاں احمدیوں کی تعداد کینیڈ ا کے دوسرے حصوں کی نسبت کافی کم ہےیعنی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں۔ویسے بھی گذشتہ دورے کے دوران حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےQuebec دورہ فرمانے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے بہت محنت سے یہ دورہ ترتیب دیا تھا۔ ایسے روابط پیدا کیے گئے تھے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کوQuebecپارلیمنٹ میں خطاب کے لیے مدعو کیا جائے۔ جب چھ ہفتوں پر مشتمل دورۂ کینیڈا کا مجوزہ تفصیلی پروگرام بغرض منظوری لندن بھجوایا گیا تو یہ سارا پروگرام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے منظور فرمالیا سوائے ان دو سے تین دنوں کے جو Quebecمیں گزارنے تھے۔ ان پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کراس (x)لگا دیا تھا۔ اور فرمایا کہ ہمQuebecنہیںجائیں گے۔باقی پروگرام کی منظوری ہو گئی۔ جب یہ پیغام کینیڈا کی جماعت کو پہنچا تو ان کے نیشنل سیکرٹری امورخارجہ نے میرے سے رابطہ کیا اورہو کچھ پریشان تھے۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے Quebecکے حوالے سے محنت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر حال میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی ہدایات کی مکمل پیروی کریں گے۔ مگر الفاظ یہ تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک بہت اچھا موقع یہاں جماعت کے تعارف کا گنوا دیں گے۔ بہرحال محنت تو انہوں نے کی ہوئی تھی۔ میں نے ان کو بتایا کہ دیکھیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاور خلیفہ وقت کے ہر فیصلے میں برکت اور حکمت ہوتی ہے اور بسا اوقات ہم فوری طور پر اس کو نہیں سمجھ سکتے مگر بعد میں سمجھ آجاتی ہے۔ اس دورہ کا آغاز ہوا اور الحمد للہ ہر چیز بہت بہتر رنگ میں چل رہی تھی کہ وہی دوست جو سیکرٹری امورخارجہ تھے میرے کمرے میں تشریف لائے اور بہت پُرجوش تھے اور کہنے لگے عابد میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ میں نے کہا ہاں بتائیں تو کہنے لگے شکر ہے کہ ہمQuebecنہیں گئے۔ میں نےکہا کیا مطلب۔تو وہ کہنے لگے کہ کل اور آج ہر جگہ خبروں میں ہے کہ Quebecکی پارلیمنٹ کے ایک ممبر کسی criminal activityمیں ملوث پائے گئے ہیں۔ جس کی تفصیل میں مَیں جانا نہیں چاہتا اور انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہی وہ Member of Parliament تھا جس سے ہم رابطے میں تھے اور اس نے ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو مدعو کیاہوا تھا۔ اور اگر چند روز قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزوہاں کا دورہ فرماچکے ہوتے اور سارے میڈیا نے اس کی تشہیر کی ہوتی تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی چند تصاویر اس کے ساتھ پورے ملک میں نشر ہوچکی ہوتیں کہ جماعت اس سیاسی لیڈر کے ساتھ منسلک ہے تو اس کا بہرحال کوئی اچھا اثر نہ پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمQuebecنہیں گئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے اس واقعہ کا ضرور ذکر کروں اور یہ بھی کہ پہلے میں متذبذب تھا کہ ہمیں ضرور Quebec جانا چاہیے لیکن اب میں نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے فیصلے کے بعد حقیقت اور سچائی کو دیکھ لیا ہے جو یقینا ًخلافت کی برکت ہے۔ بعد ازاں میں نے یہ واقعہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت میں بیان کیا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ خلافت کی عزت اور مقام کی حفاظت فرماتا ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے علم میںQuebecکے سیاسی لیڈر ز کی تفصیل نہ تھی اور جو پروگرام پیش ہوا تھا اس میںQuebecکے کسی ممبر آف پارلیمنٹ کا نام بطور میزبان موجود نہ تھا۔ مگر کوئی بات تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے دل میں ڈالی اور حضور نے یہ پروگرام منسوخ کر دیا اور جماعت ایک بڑی آزمائش سے محفوظ رہی۔

شہزاداحمد: ہم دیکھتے ہیں خلافت احمدیہ کے 113سالوں کا ہر دن اس بات پر گواہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خلیفۃ المسیح کی عزت ، مقام اور مرتبہ کی حفاظت فرماتا ہے۔ آپ نے بیان کیا کہ آپ نے دنیا بھر کے کئی احمدیوں سے ملاقات کی ہے۔ان دنوں ہم دیکھتے ہیں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی احباب جماعت سے آن لائن ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ تاہم دنیا بھر کے لاکھوں احمدیوں کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے براہ راست ملیں، مصافحہ کریں اور حضور کی دعاؤں کی صورت میں زندگی بھر کی متاع حاصل کریں۔ کیا اس حوالے سے آپ کوئی واقعہ بیان کر سکتے ہیں جب کوئی احمدی پہلی بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملا ہو جس کی مزید دلی خواہش ہو کہ وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو ملے، باتیں کرے، مصافحہ کرے۔

’’کیا یہ درست ہے کہ آپ انصار میں جا رہے ہیں‘‘

مکرم عابد خان صاحب: جیسا کہ آپ نے دلی خواہش کاذکر کیا ہے تو میرے ذہن میں ایک واقعہ آیا ہے۔ ایک دوست ہیں جو Scotlandمیں رہتے ہیں، احمد کوناڈو صاحب جو کافی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے WhatsApp statusپر ایک فوٹو تھی جس میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نہایت شفقت کے ساتھ ان کا بازو پکڑا ہوا ہے۔ کئی دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ فوٹو کب کی ہے تو ایک دن انہوں نے بتایا کہ عابد صاحب، بہت سے لوگوں نے میرے سے اس تصویر کے بارے میں پوچھا ہے اور میں نے کسی کو حقیقت نہیں بتائی مگر میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور اگر آپ کسی کو بتانا چاہیں تو آپ کی مرضی۔ تو ان کی اجازت سے میں بیان کر دیتا ہوں۔ وہ کئی سال تک Scotland میں مجلس خدام الاحمدیہ کے ریجنل قائد کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ اور ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ مثالی طور پر اپنا نمونہ پیش کریں۔ اس لیے بڑی باقاعدگی سے وہ فجر اور عشاء پر اپنے بچوں کے ساتھ مسجد نماز کے لیے جاتے تھے اور ہر جماعتی پروگرام میں شرکت کرتے تھے تاکہ دوسرے خدام کے لیے اچھا نمونہ بن سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ خدام الاحمدیہ کے حوالے سے ان کی جماعت اچھی تھی مگر اس درجہ تک پہلے نہیںپہنچی تھی کہ عَلَم انعامی حاصل کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ 2015ء میں بطور خادم یہ ان کا آخری اجتماع تھا کیونکہ اگلے سال وہ مجلس انصاراللہ میں جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کافی افسردہ تھے کہ انہیں اس سے قبل کبھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے مصافحہ کا موقع نہ مل سکا تھا۔ خاص طور پر سٹیج پر، کوئی ایوارڈ وصول کرتے ہوئے، بطور ریجنل قائد۔ انہوں نے بتایا کہ اجتماع کے دو سے تین دن وہ ہر روز تہجد کے لیے اٹھتے اور روتے اور دعا کرتے کہ اے خدا! اگر تیری رضا کے حصول کے لیے گذشتہ سات آٹھ سالوں میں مَیں نے کوئی کام کیا ہو تو مجھے میرے خلیفہ سے مصافحہ کرنے کا موقع عطا فرما۔ ایک موقع مل جائے انصار میں جانے سے پہلے۔ مگر اس خواہش کا اظہار میں نے کبھی کسی کے سامنے نہیں کیا۔ میری فیملی میں سے کوئی بھی میری اس شدید خواہش کے بارے میں نہ جانتا تھا۔اجتماع کے تین دن آئے اورگزر گئے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا اختتامی خطاب، دعا، سب مکمل ہو چکا تھا۔ واپسی کی تیاری ہو رہی تھی اور وہ اپنا سامان گاڑی میں رکھ رہے تھے کہ کسی نے دُور سے اونچی آواز میں کہا کہ حضور دورہ فرما رہے ہیں سب آجائیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت بڑا ہجوم تھا اور میں اس کی طرف دوڑا۔ کیونکہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ بہت سے لوگ تھے۔ اس لیے میں زیادہ قریب نہ جا سکا۔ اچانک کسی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزآپ کو بلا رہے ہیں۔ تو میں دوڑا اور راستہ بنا کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزتک پہنچا توحضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کوناڈو صاحب کیا یہ درست ہے کہ آپ انصار میں جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر میں بالکل بے خود سا ہو گیا۔ کیونکہ انہوں نے انہیں الفاظ میں دعا کی تھی کہ میں انصار میں جا رہا ہوں اور اس سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے مصافحہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو اس بات کا علم کیسے ہوا۔ پھر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ازراہِ تفنن ان سے فرمایا کہ گھانین (Ghanian)اور افریقن لوگ انصار میں جانا پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ جس قدر ہو سکے تاخیر سے انصار میں شامل ہوں۔ اس پر وہ ہنس پڑے اور حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بھی تبسم فرمایا اور حاضرین بھی محظوظ ہوئے۔ پھر اگلے ہی لمحے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنا دست مبارک ان کی طرف بڑھایا اور فرمایا کہ آئیں مصافحہ کر لیں اور پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نہ صرف یہ کہ مصافحہ کا شرف بخشا بلکہ بہت محبت سے ان کا بازو بھی پکڑ لیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کچھ دیر تک ان کا بازو پکڑ کر رکھا اور اسی دوران کسی نے ان کی تصویر بنا لی۔ انہوں نے بتایا کہ عابد صاحب یہ وہ فوٹو ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہیں جو ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں قبول فرمائیں۔ یہ ایک خوبصورت واقعہ تھا اور خاص طور پر جس طرح انہوں نے بیان کیا تو یہ اور بھی زیادہ ایمان افروز بن گیا۔

شہزاداحمد: جن دوستوں کے پاس ان کا WhatsAppنمبر ہے اب اگر وہ اس تصویر کو دیکھیں تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس تصویر کی کیا اہمیت ہے اور یہ بھی کہ وہ کس قدر خوش قسمتی کے لمحات تھے۔ پھر یہ خدا کاایک نشان ہے کہ وہ کس طرح ہماری دعاؤں کو سنتا ہے اور یہ خلافت احمدیہ سے جماعت کا ایک غیرمعمولی تعلق ہے اور یقیناً ایک روحانی تعلق ہے۔

بطور احمدی مسلمان ہمارا پختہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے غلاموں سے کلام کرتا ہے خواہ دعاؤں کی قبولیت کی شکل میں ہو جیسا کہ آپ نے ابھی ایک ایمان افروز واقعہ بیان کیا ہے یا پھر خوابوں کے ذریعہ یا کشف کے ذریعہ سے ہو۔ مجھے یاد ہے کہ آپ نے اپنی ایک ڈائری میں ایک واقعہ لکھا تھا جو غالباََ ایک ایسے شخص کا تھا جو احمدی نہیں تھا اور خلافت احمدیہ سے متعلق تھا۔ اگر وہ واقعہ آپ ہمارے ناظرین کے ساتھ شیئر کر دیں۔

’’آپ ہی وہ شخص ہیں جو دوسال پہلے میری خواب میں آئے تھے‘‘

مکرم عابد خان صاحب:کچھ سال قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمنی کے دورے پر تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اکثر دورہ جات کے دوران مساجد کا افتتاح ہوتا ہے کیونکہ مساجد کی تعمیر کے حوالے سے جرمن جماعت ایک بہت فعال جماعت ہے۔اسی طرح ایک مسجد کے افتتاح کا موقع تھا توحسبِ معمول مقامی جماعت نے نہ صرف بڑی بڑی سرکردہ شخصیات کو مدعو کیا ہوا تھا بلکہ مسجد کے ہمسایوں کو بھی دعوت دی ہوئی تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف لائے اور خطاب فرمایا۔ تقریب کے اختتام پر کھانا تناول فرمایا اورواپسی پر سیڑھیوں کے قریب ایک مربی صاحب (جو جامعہ یوکے سے فارغ التحصیل ہیں اور جرمنی میں خدمات بجا لا رہے ہیں)ایک خاتون کے ساتھ کھڑے تھے جو احمدی نہیں تھیں۔ وہ ایک Polishخاتون تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت جذباتی کیفیت میں تھیں اور گھبرائی ہوئی تھیں۔ پھر وہ مربی صاحب بھی گھبرائے ہوئے تھے کیونکہ وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے غیر متوقع طور پر مل رہے تھے۔ اس دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کو دیکھا اور فرمایا کیا بات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یہ خاتون آپ کو ملنے کے لیے بے چین ہیں۔یہ یہاں ہماری ہمسائی ہیں اور آپ کی تقریب میں مدعو تھیں۔ جس لمحہ انہوں نے آپ کو دیکھا انہوں نے کہا کہ یہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس خاتون کے پاس تشریف لے گئے اور ان کا حال احوال پوچھا۔ اس خاتون نے فوراََ یہ واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا کہ انہوں نے دو یا اڑھائی سال پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک بہت باوقار اور اچھی شخصیت کا مالک آدمی ہے جو سفید پگڑی میں ہے اور داڑھی بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اس آدمی کو زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن مجھے اس آدمی میں کچھ بہت اچھا اور نیک محسوس ہوا اور جب میں بیدار ہوئی تو میں بہت خوش تھی۔ اس وقت سے میں سوچ و بچار میں تھی اورانتظار میں تھی کہ کیا کبھی میں اس شخص کو دیکھ سکوں گی اور مل سکوں گی۔ آج جب میں ایک عام مہمان کی حیثیت سے تقریب میں آئی جبکہ مجھے پہلے جماعت کا کوئی تعارف نہ تھا۔ جب آپ تشریف لائے تو میں حیران رہ گئی کہ آپ ہی وہ شخص ہیں جو دوسال پہلے میری خواب میں آئے تھے۔ اس لیے میں آپ سے ملنا چاہتی تھی اور بات کرنا چاہتی تھی اور دعا کی درخواست کرنا چاہتی تھی۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیشہ کی طرح نہایت عاجزی سے فرمایا میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین کی طرف ہدایت دے اور خوشی ہے کہ آپ نے ایسی خواب دیکھی۔ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے راستے کی طرف ہدایت دے اور درست عقائد اور مضبوط ایمان نصیب کرے۔ یوں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کو دعائیں دیں اور چند نصائح فرمائیں اور تشریف لے گئے۔ ہم سب کے لیے جو وہاں موجود تھے یہ ایک غیر معمولی اور خاص موقع تھا کہ کس طرح ایک خاتون کو جنہیں احمدیت کے بارے میں کوئی علم نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کی طرف ایک خواب کے ذریعہ راہنمائی فرمائی۔

شہزاداحمد: میرے لیے یہ واقعہ نہ صرف ہستی باری تعالیٰ کی واضح اور روشن دلیل ہے بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کی سچائی کی بھی دلیل ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور ان کے دلوں میں خلافت اور احمدیت کی محبت بھر دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے لیے محبت پیدا کرے۔

محترم عابد صاحب اس ایمان افروز نشست کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے آپ سے درخواست ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی فراست کے حوالے سے اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ساتھ جو قدم قدم پر حضور کو حاصل ہے اس ناخوشگوار واقعہ پر بھی روشنی ڈالیں جو George Floydکے ساتھ پیش آیا تھا جس کے بعد امریکہ میں بہت انتشار پھیلا اور اس کے اثرات پوری دنیا میں دیکھے گئے۔اس واقعے کے بعد خاص طور پر جوCivil Warکے الفاظ استعمال ہوئے تھے۔ اس حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کئی سال پہلے جو پیشگوئی کی تھی وہ بیان فرمائیں۔

’’اس لمحہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ الفاظ استعمال کرنے چاہئیں ‘‘

مکرم عابد خان صاحب:مجھے یقین ہے کہ ناظرین نے کینیڈا میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا وہ کلپ دیکھا ہو گا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے امریکہ میںCivil Warکا ذکر فرمایا تھا۔ 2016ء میں جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکینیڈا کا دورہ فرما رہے تھے اور میڈیا بہت کثرت سے اس کی تشہیر کر رہا تھا۔ کینیڈا کی پریس ٹیم کی خواہش تھی کہ Peter Mansbridgeحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا ایک انٹرویو کریں کیونکہ وہ کینیڈا کی صحافت میں ایک بہت بڑا نام ہیں اور کئی نہایت اہم مواقع پر وہ میزبانی کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں اور دنیا کے کئی مشہور راہ نما ؤں کے انٹرویو کر چکے ہیں۔ جب پریس ٹیم نے ان کو بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکینیڈا تشریف لائے ہوئے ہیں تو انہوں نے بہت خوشی کے ساتھ حضورِ انور کا انٹرویو کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔چنانچہ انٹرویوکے انتظامات کیے گئے جو مسجد بیت الاسلام (Peace Village)میں ہوا۔ اس انٹرویو کے اختتام پر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے امریکہ میں ہونے والے صدارتی الیکشن کے بارے میں دریافت کیا جن میں Donald TrumpنےHillary Clintonسے مدمقابل ہونا تھا اور Donald Trumpنے الیکشن سے قبل مسلمانوں کے بارے میں اور دیگر اقوام و نسل کے لوگوں کے بارے میں کافی اشتعال انگیز بیانات دیے تھے۔ تو اس پر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی رائے طلب کی کہ Donald Trumpکے صدر منتخب ہونے کی صورت میں کیا حالات ہوں گے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ اگر وہ اس طرح کی پالیسیزپر عمل درآمد کرے گا۔ اس طرح لوگوں میں اشتعال پیدا کرتا رہا اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے تقسیم کر دے گا تو مجھے تو ایک Civil Warہوتی نظر آرہی ہے۔ ان الفاظ کے سنتے ہی اس سینئر صحافی نے حیرانی سے پوچھا ’Civil War‘؟ یعنی شاید حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو لفظ کے چناؤ میں کوئی غلطی لگ گئی ہو۔ تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نہایت اطمینان سے فرمایا کہ ہاں ، اگر ایسی پالیسیز پر عملدرآمد ہو تو وہ Civil Warپر ہی منتج ہوتی ہیں۔اس صحافی نے پوری احتیاط سے اس کلپ کو نشر کیا کہ یہ کہیں نشر ہونے سے رہ نہ جائے۔اور مجھے خوشی ہے کہ اس کلپ کو نشر کیا گیا۔کئی احمدیوں نے بھی مجھ سے رابطہ کیا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی Civil Warسے کیا مراد تھی۔کیا واقعی یا محض حالات کی خرابی کی طرف اشارہ ہے۔

پھر جب Donald Trumpصدر بن گئے اور اگلے چار سالوں میں بظاہر ایسی پالیسیز بنتی رہیں جو امن عامہ کے حق میں تھیں اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے تھیں۔ یہاں تک کہ George Floyd والا واقعہ رونما ہوا اور اس کی وجہ نسلی فسادات ہوئے اور خطرات نے جنم لیا اور اس دَور کا اختتام 6؍جنوری2021ءکو ہوا۔جب اگلا الیکشن ہارنے کے بعد Donald Trumpنے دعویٰ کیا کہ وہ اصل میں الیکشن جیت گیا ہے۔اور اس کے ہزاروں حامیوں نے Capitol Hillکو یرغمال بنا لیا جیسا کہ 150سال قبلCivil Warکی صورت میں ہوا تھا۔ ان گذشتہ چار سالوں میں اس قدر بد امنی، اشتعال انگیز تقسیم کو ہوا دی گئی تھی کہ اب میڈیا میں کثرت سے امریکہ میںCivil Warکے خطرات کے بارے میں خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اب حیرت کی بجائے یقین سے Civil Warکے خطرات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ دو سے تین سال بعد جب میں نےCivil Warکی خبروں کے متعلق حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بتایا کہ کس طرح دوسرے لوگوں نے بھی Civil Warکے خطرات کی گھنٹی بجا دی ہے تو میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے جواب سے حیران رہ گیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ میں نے یہ لفظCivil Warبولا تھا تو میں خود بھی حیران ر ہ گیا تھا کیونکہ یہ ایسی چیز نہیں تھی جس کے بارے میں مَیں نے کبھی سوچا ہو کہ امریکہ میں کبھیCivil Warہوگی۔ اس لمحہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ الفاظ استعمال کرنے چاہئیں اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ اب میڈیا اور دوسرے لوگ بھی اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

شہزاداحمد: وقت کیونکہ ختم ہو رہا ہے اس لیے آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ ایک سبق ہے جو میں نےسیکھا ہے اور جو خاص طور پر احمدیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر خلیفۃ المسیح کی کسی بات کو آپ فوری طور نہ بھی سمجھ سکیں یا ان حکمتوں کو کہ کیوں حضور کوئی حکم یا ہدایت دے رہے ہیں پھر بھی وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو سمجھ آجائے گی کہ حقیقت کیا ہے اور کس طرح آپ کا وجود مومنوں کے لیے ڈھال ہے۔ اور اگر ہم آپ کے پیچھے کھڑے رہیں، آپ کے مطیع اور فرمانبردار بنیں تو ہم انشاء اللہ محفوظ رہیں گے لیکن وہ لوگ جو خدانخواستہ دوسرے رستے پر چل پڑتے ہیں تو اس کا بد انجام بھگتنا پڑے گا۔

عابد صاحب ہم آپ کے بے حد ممنون ہیں کہ آپ نے اس قدر دلکش اندا زمیں ایسے ایمان افروز واقعات بیان کیے ہیں کہ کس طرح ہم خداکا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور دنیا بھر کے احمدی کس طرح خلافت احمدیہ سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔مَیں نے آج کی اس مجلس میں جو سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے ہیں، اگر آپ اخلاص اور وفا کے ساتھ خلافت احمدیہ سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو ہر کوئی ان برکات سے مستفیض ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان معجزات کا خلافت احمدیہ کے ذریعہ مشاہدہ کر سکتا ہے۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ خود کو پوری اطاعت اور فرمانبرداری سے خلافت کے ساتھ وابستہ کر لیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button