از افاضاتِ خلفائے احمدیتمتفرق مضامین

اطاعت اللہ، اطاعت الرسول اور خلافت

حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب ؓکی تقریر میں سے ایک انتخاب برموقع جلسہ سالانہ 27؍دسمبر1897ء

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡاؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۔وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ مَاۡوٰٮہُمُ النَّارُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ۔ (النور:55تا58)

اس آیت شریف میں اللہ جل شانہ انسان کو یہ تاکید فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور یاد رکھو کہ اگر تم اس کی اطاعت نہ کروگے تو اس کا ذمہ تو صرف اتنا ہی تھا کہ تبلیغ کردی اور یہ تمہارا ذمہ تھا کہ تم مان لو ۔کیونکہ یہ اطاعت ہی کامیابی کی راہ ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور فائزالمرام ہونے کے لئے ایک صراط مستقیم بتلائی ہے جو اطاعت اللہ اور اطاعت الرسول سے بنی ہے۔ یہ ہدایت فرماتے وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَطِیۡعُوا اللّٰہَ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ تو ایک ایسی فوق الفوق اور وراءالوراء ہستی ہے جس کی شان ہے

لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ (الانعام:104)۔

پھر اس کی اطاعت کیونکر ہوسکتی۔ اس کی سبیل اور صورت یہ ہے کہ

وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ۔

اطاعت الرسول ہی اطاعت اللہ ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ تو گویا مرضات اللہ کے دیکھنے اور معلوم کرنے کےلئے ایک آئینہ صافی ہوتا ہے اس کی زندگی اس کا چال چلن اس کی نشست برخاست۔ غرض اس کی ہر بات رضائے الٰہی اور اطاعت الٰہی کا نمونہ ہوتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے

اَطِیۡعُوا اللّٰہَ

کے بعد

اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ

کہہ کر اس مشکل کو حل کردیا جو اطاعت اللہ کے سمجھنے اور سوچنے میں پیدا ہوسکتی تھی اور اس کی صراحت اور توضیح اَور بھی ہوجاتی ہے جب ہم یہ پڑھتے ہیں

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ

اس حصہ ٔآیت میں فَاِنَّمَا عَلَیۡہِمیں ضمیر جو رسول کی طرف راجع ہے بتلا رہی ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس اطاعت کو جو ابتدائے آیت میں اللہ اور رسول کی اطاعت میں منقسم تھی یہاں صرف رسول ہی کی اطاعت سے مخصوص کردیا ہے اور پھر جب ہم

اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا

والے حصہ پر غور کرتے ہیں تو یہ راز اَور بھی کمال صفائی سے حل ہوجاتاہے غرض یہ ہے کہ اطاعت اللہ وہی ہے جو اطاعت رسول ہے۔ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر اس عقدہ کو صاف الفاظ میں حل کیا گیا ہے جیسے فرمایا

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ(آل عمران:32)۔

یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے محب اور عزیز بن جاؤ تو اس کے لئے تدبیر یہ ہے کہ میری اطاعت کرو اور دوسرے مقام پر فرمایا:

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ(النساء:81)

جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔

فی الجملہ اس آیت میں حصول کامیابی کے لئے ایک گُر بتلایا ہے جس کا نام اطاعت الرسول ہے جو اپنے اصل معنوں میں اطاعت اللہ ہی ہے کیونکہ رسول مرضات اللہ کا مظہر ہوتا ہے اور وہ خداتعالیٰ کے ہاتھ کی کَل ہوتا ہے اس کا اپنا ارادہ کچھ ہوتا ہی نہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی(النجم:4)۔

اللہ تعالیٰ یہ طریق کامیابی بتلاکر ایک پیشگوئی کے ذریعے سے اس اصول کی صداقت ظاہر کرتا ہے کیونکہ

وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا

میں تو ایک دعویٰ کیا گیا ہے کہ فائدہ اس اطاعت الرسول میں یہ ہوگا کہ تم دین اور دنیا میں فائزالمرام ہوجاؤگے۔ پس اس دعوے کو اللہ تعالیٰ ایک پیشگوئی کے رنگ میں دلیل دے کر ثابت کرتا ہے چنانچہ فرمایا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔(النور:56)

یعنی خداتعالیٰ نے ان لوگوں میں سے جو تم میں سے ایمان لائے (یعنی لوازم ایمان حقیقی ان میں پائے جاتے ہیں) اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں۔(یعنی عملی طور پر بھی ایمان کا واقعی نتیجہ اپنی زبان اور اعضاء اور اپنے اموال پر دکھاتے ہیں) ان سے اللہ تعالیٰ نے حتمی وعدہ کرلیا ہے کہ یقینا ًیقیناً ان کو ضرور اسی زمین پر خلیفہ بنادے گا جیسا کہ ان لوگوں کو بنایا جو تم سے پہلے تھے اور ان کا وہ دین جو ان کے لئے پسند کرچکا ہے۔ اس کے کردکھانے اور پھیلانے کی ان کو قوت عطا کرے گا اور خوف کے بعد ان کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ وہ مجھے ہی پوجیں گے۔ (یعنی میری ہی اطاعت اور عبادت کریں گے) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گے۔ جو (یعنی ان نشانات کو دیکھ کر) اس کے بعد کفران کریں گے وہ لوگ فاسق ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک عظیم الشان اور تسلّی بخش وعدہ رسول اللہﷺ سے فرمایا ہے جس کی تشریح اور تفسیر ابھی تھوڑی دور کرچل کر کی جاوے گی۔

…رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں منافقوں کے حق میں کہ ہم ان کو مدینہ میں نہ رہنے دیں گے بلکہ نکال دیں گے۔ غرض یہ بڑی غورطلب اور ڈرا دینے والی بات ہے۔ مَیں نے اس بات کو بحکم امام بھی خصوصاً تمہارے پاس پہنچادیا ہے میں نے مامور ہوکر کہا ہے اپنی خواہش سے نہیں۔ پھر دیکھو کہ امن کے ساتھ خوف کیوں بدلا جاوے گا؟ اسی لئے کہ وہ پرستار الٰہی ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں کسی دوسرے کا بھی حصہ ہے تو یاد رکھو کہ وعدہ الٰہی کے نیچے نہیں آسکتے۔ بالآخر خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔

یعنی باوجود ان باتوں کے بھی اگر کوئی نہیں مانتا اور انکار کرتا ہے تو وہ دشمن اسلام اور فاسق ہے۔ پس اب اس نعمت کی قدر کرو۔ خلیفۃاللہ تم میں آیا ہے اور وہ وعدے جو اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں پورے ہونے والے ہیں۔ اب وقت ہے کہ اس وعدہ سے حصہ لینے کے لئے رضائے الٰہی کے حاصل کرنے کی فکر میں لگ جاؤ۔ اپنی کمزوریوں کو یاد کرکے دعائیں مانگو۔ نمازوں کو درست کرو۔ زکوٰتیں دو اور رسول کی اطاعت کرو کیونکہ یہی کامیابی کی مینار کا زینہ ہے جو تکالیف خلیفۃاللہ کے ساتھ ہونے والوں کے لئے آتی ہیں وہ لازمی ہیں۔ اس لئے استقلال اور سکینت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو۔ نصرت دین اور اشاعت کے لئے ہمہ تن سعی کرو۔ ہر طرح سے مدد کے لئے تیار رہو۔ اب وقت ہے پھر اگر زیادہ مال آگئے تو اتنا ثواب نہ رہے گا۔ بالآخر میں پھر ایک بار کہتا ہوں کہ امام کے ساتھ تعلق پیدا کرکے اس غرض کو حاصل کرو جس کے لئے وہ امام ہوکر آیا ہے۔ خداتعالیٰ مجھے اور آپ سب لوگوں کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کی سچے توفیق عطا فرمادے! اور ہمیں توفیق دے کہ اس وعدہ الٰہیہ کو حاصل کریں جس کا ذکر آیۃ

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

میں فرمایا ہے۔ آمین!!!

وآخر دعوٰنا ان الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔

(تحفہ سالانہ یا رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 168 تا 182

بحوالہ خطابات نور صفحہ4تا18)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button