متفرق مضامین

قرآن کریم میں مقام نبوت و خلافت کے لیے ادب وتعظیم کا بیان

(ابن قدسی)

خلیفۃ الرسول کے لیے بھی وہی ادب و آداب ہیں جو رسول اور نبی کے لیے ہوتے ہیں۔

ادب کا تقاضا ہے کہ رسول کے کسی ایک عمل کو بھی ادنیٰ خیال نہ کیا جائے بلکہ من وعن پیروی کی جائے۔

ادب وتعظیم کی موجودگی کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کی علامت ہے ۔باادب بانصیب بے ادب بےنصیب۔ادب کرنے والے نصیب والا ہوتا ہے اور جو ادب نہیں کرتا وہ بے نصیب رہتا ہے۔والدین کے ادب و احترام سے شروع ہوکر معاشرے میں موجود افراد کے ساتھ تعلقا ت میں مہذبانہ انداز عزت وتوقیر میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور مجموعی طور پر معاشرے کے تہذیب وتمدن پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے ۔ایسی روایات جنم لیتی ہیں جن سے اس معاشرے کی اعلیٰ پہچان قائم ہوتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے جانشین کے طور پر نبی کا ادب

مذہب کی دنیا میں نبی کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی جانشینی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق بیان فرماتا ہے :

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً

(البقرة:31)

اور (ىاد رکھ) جب تىرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ ىقىناً مىں زمىن مىں اىک خلىفہ بنانے والا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے اس خلیفہ کا ادب واحترام اور اس کی عزت وتوقیر اس طرح قائم کی کہ فرشتوں کو حکم دیا اس کی اطاعت کرو۔فرمایا:

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔

(البقرة:35)

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کى خاطر سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ رىز ہوگئے سوائے ابلىس کے اس نے انکار کىا اور استکبار سے کام لىا اور وہ کافروں مىں سے تھا۔

دنیا میں نبی اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کرتا ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ…(الفتح :11)

ىقىناً وہ لوگ جو تىرى بىعت کرتے ہىں وہ اللہ ہى کى بىعت کرتے ہىں اللہ کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھ پر ہے ۔

ایک اور جگہ فرمایا:

فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی…

(الانفال:18)

پس تم نے انہىں قتل نہىں کىا بلکہ اللہ ہے جس نے انہىں قتل کىا ہے اور (اے محمد!) جب تُو نے (ان کى طرف کنکر) پھىنکے تو تُو نے نہىں پھىنکے بلکہ اللہ ہے جس نے پھىنکے ۔

آنحضرت ﷺ کے ظاہری فعل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ۔انبیاء اللہ تعالیٰ کی نمائندگی اور جانشینی کے بلندترین مقام پر فائز ہوتے ہیں ۔اس لیے ان کا ادب و احترام لازم ہے ۔عربی کا مقولہ الدِّیْنُ کُلُّہُ اَدَبٌکہ دین پورے کا پورا اسی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

رسول کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے

اللہ تعالیٰ نے مقام نبوت کی عزت کا اعلان اس طرح فرمایا کہ رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا،فرمایا:

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَ مَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا۔

(النساء:81)

جو اِس رسول کى پىروى کرے تو اُس نے اللہ کى پىروى کى اور جو پِھر جائے تو ہم نے تجھے ان پر محافظ بنا کر نہىں بھىجا ۔

رسول کی اطاعت کے نتائج بہت عظیم الشان ہیں ۔فرمایا :

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا۔

(النساء:65)

اور ہم نے کوئى رسول نہىں بھىجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کى اطاعت کى جائے اور اگر اس وقت جب انہوں نے اپنى جانوں پر ظلم کىا وہ تىرے پاس حاضر ہوتے اور اللہ سے بخشش طلب کرتے اور رسول بھى ان کے لئے بخشش مانگتا تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بارباررحم کرنے والا پاتے۔

بے شک اپنی جانوں پرظلم ہی کیا ہو پھر بھی رسول کی اطاعت اور اس کی دعا کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ سارے گناہ بخش دیتا ہے ۔پھر فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖ یُؤۡتِکُمۡ کِفۡلَیۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔

(الحديد:29)

اے لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کا تقوىٰ اختىار کرو اور اس کے رسول پر اىمان لاؤ وہ تمہىں اپنى رحمت مىں سے دُہرا حصہ دے گا اور تمہىں اىک نور عطا کرے گا جس کے ساتھ تم چلو گے اور تمہىں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔

رسول کی اطاعت اور اس پر ایمان کے نتیجے میں رحمت سے دوہرا حصہ دیا جائے گا ۔ایک نور عطا ہوجائے گا جس کے نتیجے میں گناہوں سے خلاصی اور بخشش کے سامان مہیا ہو جائیں گے۔

خاص طور پر رسول کریم ﷺ کی اتباع کے نتائج بہت عظیم الشان ہیں ۔فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔(آل عمران:32)

تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو مىرى پىروى کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی محبت مل جائے گی ۔ادب کا تقاضا ہے کہ رسول کے کسی ایک عمل کو بھی ادنیٰ خیال نہ کیا جائے بلکہ من وعن پیروی کی جائے۔فرمایا:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا۔(الاحزاب:22)

ىقىناً تمہارے لئے اللہ کے رسول مىں نىک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور ىومِ آخرت کى امىد رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو ىاد کرتا ہے۔

نبی کا ادب واحترام اور عزت وتوقیر قائم کرنے کا حکم

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لانے کے ساتھ اس کی عزت اور تعظیم کرنے کا حکم دیا گیاہے:

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙلِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا۔

(الفتح:9تا10)

ىقىناً ہم نے تجھے اىک گواہ اور بشارت دىنے والے اور ڈرانے والے کے طور پر بھىجا تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر اىمان لاؤ اور اس کى مدد کرو اور اس کى تعظىم کرو اور صبح وشام اس کى تسبىح کرو ۔

نبی ﷺ کا ادب واحترام اور اس کی عزت وتکریم کے بلند مقام کو اس طرح بیان فرمایا کہ

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ۔(الاحزاب:57)

ىقىناً اللہ اور اس کے فرشتے نبى پر رحمت بھىجتے ہىں اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! تم بھى اس پر درود اور خوب خوب سلام بھىجو۔

جس وجو د پر اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام مومنین درود بھیجتے ہوں وہ ادب کے کس قدر بلند مقام پر فائز ہوگا ۔

نبی روحانی باپ

والد اور باپ کا ادب اور احترام ہر مہذب معاشرہ کا حصہ ہے ۔قرآن کریم میں نبی کو روحانی باپ قرار دیا گیا ہے ۔

اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ

(الاحزاب:7)

نبى مومنوں پر اُن کى اپنى جانوں سے بھى زىادہ حق رکھتا ہے اور اُس کى بىوىاں اُن کى مائىں ہىں ۔

جس طرح انسان اپنے والد کا ادب واحترام کرتا ہے اس سے بڑھ کر روحانی باپ کا ادب واحترام لازم ہے ۔

نبی کا فیصلہ حتمی اور آخری ہوتا ہے

جھگڑے کے دوران انسان جذباتی ہوجاتا ہے اور اس دوران اپنے خلاف ہونے والے فیصلہ کو قبول کرنا ایک مشکل امر بن جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کے لیے یہ ادب واحترام بیان فرمایا کہ جھگڑے کے دوران نبی کا فیصلہ قبول کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے بلکہ مکمل فرما نبرداری اختیار کرنی چاہیے ۔فرمایا:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔

(النساء:66)

نہىں! تىرے ربّ کى قَسم! وہ کبھى اىمان نہىں لا سکتے جب تک وہ تجھے ان امور مىں منصف نہ بنا لىں جن مىں ان کے درمىان جھگڑا ہوا ہے پھر تُو جو بھى فىصلہ کرے اس کے متعلق وہ اپنے دلوں مىں کوئى تنگى نہ پائىں اور کامل فرمانبردارى اختىار کرىں۔

نبی کے ادب کا تقاضا ہے کہ کسی بات میں اس کے فیصلہ کے بعد کسی کا کوئی اختیار باقی نہ رہے ۔فرمایا :

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا۔

(الاحزاب:37)

اور کسى مومن مرد اور کسى مومن عورت کے لئے جائز نہىں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسى بات کا فىصلہ کر دىں تو اپنے معاملہ مىں اُن کو فىصلہ کا اختىار باقى رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کى نافرمانى کرے وہ بہت کھلى کھلى گمراہى مىں مبتلا ہوتا ہے۔

نبی مشورہ تو کرتا ہے لیکن مشورہ کے بعد اس مشورہ کو ماننے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے ۔خواہ وہ فیصلہ مشورہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔نبی اپنے فیصلہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی مقدم رکھتا ہے ۔

وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ۔

(آل عمران: 160)

اور (ہر) اہم معاملہ مىں ان سے مشورہ کر پس جب تُو (کوئى) فىصلہ کر لے تو پھر اللہ ہى پر توکل کرىقىناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے ۔

ادب کا تقاضا ہے کہ مومنین نبی کی پیروی کریں اور اس کے فیصلہ کو بدل وجان تسلیم کریں ۔

نبی سے گفتگو کرنے کے آداب

نبی کے حضور حاضری کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ اپنی آواز کو اس کی آواز سے بلند نہ کیا جائے ۔جس طرح ایک دوسرے کو مخاطب کر لیا جاتا ہے نبی کو اس طرح مخاطب کرنے سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ۔اس لیے نبی کے حضور،اس کو مخاطب کرتے ہوئے مکمل آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ۔اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ۔

(الحجرات:3تا4)

اے لوگو جو اىمان لائے ہو! نبى کى آواز سے اپنى آوازىں بلند نہ کىا کرو اور جس طرح تم مىں سے بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے اونچى آواز مىں باتىں کرتے ہىں اس کے سامنے اونچى بات نہ کىا کرو اىسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائىں اور تمہىں پتہ تک نہ چلے۔ ىقىناً وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے حضور اپنى آوازىں دھىمى رکھتے ہىں ىہى وہ لوگ ہىں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوى کے لئے آزما لىا ہے ان کے لئے اىک عظىم بخشش اور بڑا اجر ہے۔

ادب کی باریک راہیں یہ بھی ہیں کہ نبی نے جتنا فرمایا ہے اتنا ہی کیا جائے ۔اپنی سوچ سے کوئی نیکی بنانا بھی نبی کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرنا ہے ۔نبی سے بڑھ کر کوئی نیکی کی بات اور اس پر عمل نہیں کرسکتا ۔اس لیے نبی سے بڑھ کر نیک بننا بھی ادب کے خلاف ہے ۔

نبی کومخاطب کرنے کے آداب

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کے ادب کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔مومنوں کو ہدایت دی ہے کہ نبی کو مخاطب کرتے ہوئے مناسب طریق کے ساتھ ساتھ الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے ۔فرمایا :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔

(البقرة:105)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو (ہمارے رسول کو) ’’رَاعِنَا‘‘ نہ کہا کرو بلکہ ىہ کہا کرو کہ ہم پر نظر فرما اور غور سے سنا کرو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب (مقدر) ہے ۔

نبی کی عزت کا اس قدر خیال رکھا ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے بھی منع فرمادیا جس سے کسی لحاظ سے بھی بےادبی کا شائبہ ہوتا ہو ۔ رَاعِنَا اور انْظُرْنَا اپنے معنی کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں ۔یعنی ہماری طرف متوجہ ہوں یا ہماری طرف نظر کرم فرمائیں لیکن بعض لوگ رَاعِنَا کوبگاڑ کر رَاعِینَا کہہ دیتے تھے یعنی ہمارے چرواہے۔اللہ تعالیٰ نے نبی کے لیے ایسے لفظ کے استعمال سے منع فرما دیا جس سے بے ادبی کا پہلو نکل سکتا ہو اگرچہ مومنین بے ادبی کے مفہوم میں استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال منع فرما دیا ۔

نبی سے ملاقات کرنے کے آداب

ملاقات کے لیےآنے کے لیے آداب کا پورا خیال رکھا جائے ۔فرمایا :

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ۔ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔

(الحجرات:5تا6)

ىقىناً وہ لوگ جو تجھے گھروں کے باہر سے آوازىں دىتے ہىں اکثر ان مىں سے عقل نہىں رکھتے ۔اگر وہ صبر کرتے ىہاں تک کہ تُو خود ہى ان کى طرف باہر نکل آتا تو ىہ ضرور ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

ایسا نہیں کہ جب مرضی اور جیسے مرضی ملاقات کے لیے چلے آؤ بلکہ جب تک نبی خود نہ بلائے یا وقت نہ دے ۔اس وقت تک ملاقات کے لیے اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔

نبی کے گھروں میں جانے کے آداب

اسی طرح نبی کے گھروں میں داخل ہونے کے بھی تفصیلی آداب بیان فرمائے گئے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰٮہُ ۙ وَ لٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَ لَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ یُؤۡذِی النَّبِیَّ فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًاؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمًا۔

(الاحزاب:54)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! نبى کے گھروں مىں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہىں کھانے کى دعوت دى جائے مگر اس طرح نہىں کہ اس کے پکنے کا انتظار کر رہے ہو لىکن (کھانا تىار ہونے پر) جب تمہىں بلاىا جائے تو داخل ہو اور جب تم کھا چکو تو منتشر ہوجاؤ اور وہاں (بىٹھے) باتوں مىں نہ لگے رہو ىہ (چىز) ىقىناً نبى کے لئے تکلىف دہ ہے مگر وہ تم سے (اس کے اظہار پر) شرماتا ہے اور اللہ حق سے نہىں شرماتا اور اگر تم اُن (ازواجِ نبى) سے کوئى چىز مانگو تو پردے کے پىچھے سے مانگا کرو ىہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زىادہ پاکىزہ (طرزِ عمل) ہے اور تمہارے لئے جائز نہىں کہ تم اللہ کے رسول کو اذىت پہنچاؤ اور نہ ہى ىہ جائز ہے کہ اس کے بعد کبھى اُس کى بىوىوں (مىں سے کسى) سے شادى کرو ىقىناً اللہ کے نزدىک ىہ بہت بڑى بات ہے ۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر گہرائی میں جاکر نبی کے گھر جانے کے آداب بیان کیے اس کے ساتھ ساتھ ان باتوں کو بھی بیان فرمایا جن کے اظہار سے نبی بھی شرماتا ہے۔نبی کے لیے اللہ تعالیٰ کی کس قدر محبت اور پیار کا اظہار اس آیت کریمہ سے ہوتا ہے ۔

نبی سے مشورہ کرنے کے آداب

نبی سے مشورہ کرنے سے قبل صدقہ دینا چاہیے ۔فرمایا :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰٮکُمۡ صَدَقَۃً ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔ءَاَشۡفَقۡتُمۡ اَنۡ تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰٮکُمۡ صَدَقٰتٍ ؕ فَاِذۡ لَمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔

(المجادلة:13تا14)

اے لوگو جو اىمان لائے ہو! جب تم رسول سے (کوئى ذاتى) مشورہ کرنا چاہو تو اپنے مشورہ سے پہلے صدقہ دىا کرو ىہ بات تمہارے لئے بہتر اور زىادہ پاکىزہ ہے پس اگر تم (اپنے پاس) کچھ نہ پاؤ تو ىقىناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔کىا تم (اس بات سے) ڈر گئے ہو کہ اپنے (ذاتى) مشوروں سے پہلے صدقات دىا کرو پس جب تم اىسا نہ کرسکو جبکہ اللہ نے تمہارى توبہ قبول کرلى ہے تو نماز کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کى اطاعت کرو اوراللہ اُس سے ہمىشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو ۔

نبی سے سچی اور کھری بات کرنی چاہیے

فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا۔

(الاحزاب:72)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کا تقوىٰ اختىار کرو اور صاف سىدھى بات کىا کرو۔وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کى اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو بھى اللہ اور اس کے رسول کى اطاعت کرے تو ىقىناً اُس نے اىک بڑى کامىابى کو پالىا۔

مومنوں کو دیے گئے حکم پر عمل ضروری ہے اور نبی کے سامنے سب سے زیادہ عمل ہونا چاہیے۔

نبی کی مجالس میں بیٹھنے کے آداب

نبی کی مجالس میں کشادہ دلی کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور جب مجلس ختم ہوجائے تو چلے جانا چاہیے ۔فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ۔(المجادلة:12)

اے لوگو جو اىمان لائے ہو! جب تمہىں ىہ کہا جائے کہ مجلسوں مىں (دوسروں کے لئے) جگہ کھلى کردىا کرو تو کھلى کردىا کرو، اللہ تمہىں کشادگى عطا کرے گا اور جب کہا جائے کہ اُٹھ جاؤ تو اُٹھ جاىا کرو اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم مىں سے اىمان لائے ہىں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطا کىا گىا ہے اور اللہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمىشہ باخبر رہتا ہے۔

نبی کے ساتھ تعلق داری کے آداب

اللہ تعالیٰ کے نبی سے تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا داری کو چھوڑ دیا جائے ۔دنیاوی فوائد حاصل کرنے ہیں تو دنیا سے ہی تعلق بنانا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کی بیویوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا۔ وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا

(الاحزاب:29تا30)

اے نبى! اپنى بىوىوں سے کہہ دے کہ اگر تم دنىا کى زندگى اور اس کى زىنت چاہتى ہو تو آؤ مىں تمہىں مالى فائدہ پہنچاؤں اور عمدگى کے ساتھ تمہىں رخصت کروں۔اور اگر تم اللہ کو چاہتى ہو اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو تو ىقىناً اللہ نے تم مىں سے حُسنِ عمل کرنے والىوں کے لئے بہت بڑا اجر تىار کىا ہے۔

نبی کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا رویہ محتاط ہونا چاہیے۔فرمایا:

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا۔ وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ۔

(الاحزاب:33تا34)

اے نبى کى بىوىو! تم ہرگز عام عورتوں جىسى نہىں ہو بشرطىکہ تم تقوىٰ اختىار کرو پس بات لجا کر نہ کىا کرو ورنہ وہ شخص جس کے دل مىں مرض ہے طمع کرنے لگے گا اور اچھى بات کہا کرو۔اور اپنے گھروں مىں ہى رہا کرو اور گزرى ہوئى جاہلىت کے سنگھار جىسے سنگھار کى نمائش نہ کىا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کى اطاعت کرو اے اہلِ بىت! ىقىناً اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کى آلائش دور کردے اور تمہىں اچھى طرح پاک کر دے۔

نبی کی بیویاں مومنوں کی روحانی مائیں ہیں نبی کی بیویوں کو دی گئیں ہدایات روحانی اولاد کے لیے لائحہ عمل ہوتی ہیں۔

نبی کے راز کو راز رکھنا

نبی اگر کسی سے کوئی راز کی بات کرتا ہے تو اس کی اجازت کے بغیر وہ بات کسی کے سامنے بیان نہیں کرنی چاہیے کیونکہ نبی کے راز کی اللہ تعالیٰ خود حفاظت فرماتا ہے ۔فرمایا:

وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتۡ بِہٖ وَ اَظۡہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیۡہِ عَرَّفَ بَعۡضَہٗ وَ اَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَکَ ہٰذَا ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ۔

(التحريم:4)

اور جب نبى نے اپنى بىوىوں مىں سے کسى سے بصىغۂ راز اىک بات کہى پھر جب اس نے وہ بات (آگے) بتا دى اور اللہ نے اُس (ىعنى نبى) پر وہ (معاملہ) ظاہر کر دىا تو اُس نے کچھ حصہ سے تو اُس (بىوى) کو آگاہ کردىا اور کچھ سے چشم پوشى کى پس جب اُس نے اُس (بىوى) کو اِس کى خبر دى تو اُس نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتاىا ہے تو اس نے کہا کہ علىم و خبىر نے مجھے بتاىا ہے ۔

نبی معاشرے کے خلاف ان کی اصلاح کے لیے چلتا ہے

نبی معاشرے کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوتا ہے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے کئی ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔بعض ایسی رسوم یا خیالات ہوتے ہیں جن کی اصلاح کے لیے نبی خود عمل کرکے دکھاتا ہے۔اب بظاہر وہ عمل معاشرے کے عام رسوم و رواج اور خیالات کے خلاف ہوتا ہے لیکن ادب کا تقاضا ہے کہ نبی کے اس عمل سے اپنی اصلاح کی جائے ۔جیسا کہ قرآن میں ہے:

وَ اِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِ اَمۡسِکۡ عَلَیۡکَ زَوۡجَکَ وَ اتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللّٰہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ وَ اللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰہُ ؕ فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا ۔

(الاحزاب:38)

اور جب تُو اُسے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے انعام کىا اور تُو نے بھى اُس پر انعام کىا کہ اپنى بىوى کو روکے رکھ (ىعنى طلاق نہ دے) اور اللہ کا تقوى اختىار کر اور تُو اپنے نفس مىں وہ بات چھپا رہا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تُو لوگوں سے خائف تھا اور اللہ اس بات کا زىادہ حق رکھتا ہے کہ تُو اس سے ڈرے پس جب زىد نے اس (عورت) کے بارہ مىں اپنى خواہش پورى کر لى (اور اسے طلاق دے دى) ، ہم نے اسے تجھ سے بىاہ دىا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بىٹوں کى بىوىوں کے متعلق کوئى تنگى اور تردّد نہ رہے جب وہ (منہ بولے بىٹے) اُن سے اپنى احتىاج ختم کر چکے ہوں (ىعنى انہىں طلاق دے چکے ہوں) اور اللہ کا فىصلہ بہرحال پورا ہو کر رہنے والا ہے ۔

عرب کے معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا ہی درجہ دیا جاتا تو اس کی اصلاح کے لیے نبی کا اسوہ قائم کیا گیا۔اب تو شاید یہ بات سمجھنا بہت آسان ہو لیکن اس وقت عرب کے معاشرے میں یہ بات اتنی آسانی نہیں تھی ۔بہرحال جو بھی ہو نبی کا ادب واحترام ہر صورت قائم رہنا چاہیے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی سے ہر کام کرتا ہے ۔نبی کو ہر کام میں شرح صدر عطا کیا جاتا ہے ۔

اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ۔ وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ۔ الَّذِیۡۤ اَنۡقَضَ ظَہۡرَکَ۔

(الانشراح:2تا4)

کىا ہم نے تىرى خاطر تىرا سىنہ کھول نہىں دىا۔اور تجھ سے ہم نے تىرا بوجھ اتار نہىں دىا۔جس نے تىرى کمر توڑ رکھى تھى-

وہ اپنےنفس سے کچھ بیان نہیں کرتا

وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ ۔ وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ۔

(النجم:2تا4)

قسم ہے ستارے کى جب وہ گر جائے گا۔تمہارا ساتھى نہ تو گمراہ ہوا اور نہ ہى نامراد رہا۔اور وہ خواہشِ نفس سے کلام نہىں کرتا ۔

نبی اپنی خواہش سے کچھ نہیں کرتا اس لیے اگر نبی کے کسی فعل کی سمجھ نہ بھی لگے پھر بھی اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہے ۔اس کے ادب واحترام میں کمی نہیں آنی چاہیے ۔

نبی کا قطع تعلقی کرنا

نبی کسی وجہ سے کسی سے قطع تعلقی بھی کرتا ہے ۔فرمایا:

وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ۔

(التوبة:84)

اور تُو ان مىں سے کسى مرنے والے پر کبھى (جنازہ کى) نماز نہ پڑھ اور کبھى اس کى قبر پر (دعا کے لئے) کھڑا نہ ہو ىقىناً انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کر دىا ہے اور وہ اس حالت مىں مرے کہ وہ بدکردار تھے۔

ادب کا تقاضا ہے کہ نبی نے جس سے تعلق توڑ لیا ہو ہمیں بھی اس سے تعلق توڑ لینا چاہیے ۔اگر ہم نبی کی محبت میں کسی سے قطع تعلقی کریں گے اللہ تعالیٰ اس سے بہتر تعلق پیدا کر دے گا ۔

اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کی ازواج کے حوالے سے بیان فرماتا ہے کہ

عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبۡکَارًا ۔

(التحريم:6)

قرىب ہے کہ اگر وہ تمہىں طلاق دىدے (تو) اس کا ربّ تمہارے بدلے اُس کے لئے تم سے بہتر ازواج لے آئے، مسلمان، اىمان والىاں، فرمانبردار، توبہ کرنے والىاں، عبادت کرنے والىاں، روزے رکھنے والىاں، بىوائىں اور کنوارىاں۔

اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو چھوڑا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہترعطا فرماتا ہے ۔

بعض امور صرف نبی کے ساتھ خاص ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی کا آپس میں پیار ومحبت کا تعلق سب سے سوا ہوتا ہے ۔اس لیے اللہ تعالیٰ بعض امور خاص اپنے نبی کے لیے بیان فرماتا ہے ۔جیسے کہ فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡۤ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔

(الاحزاب:51)

اے نبى! ىقىناً ہم نے تجھ پر تىرى وہ بىوىاں حلال کر دى ہىں جن کے مہر تو اُنہىں دے چکا ہے اور وہ عورتىں بھى جو تىرے زىر نگىں ہىں ىعنى جو اللہ نے تجھے غنىمت کے طور پر عطا کى ہىں اور تىرے چچا کى بىٹىاں اور تىرى پھوپھىوں کى بىٹىاں اور تىرے ماموں کى بىٹىاں اور تىرى خالاؤں کى بىٹىاں جنہوں نے تىرے ساتھ ہجرت کى ہے اور ہر مومن عورت اگر وہ اپنے آپ کو نبى کے حضور پىش کر دے بشرطىکہ نبى ىہ پسند کرے کہ اس سے نکاح کرے (ىہ) مومنوں سے الگ خالصۃً تىرے لئے ہے ہمىں علم ہے جو ہم نے ان کى بىوىوں کے بارہ مىں اور ان کے زىر نگىں عورتوں کے بارہ مىں ان پر فرض کىا ہے (ىہ واضح کىا جا رہا ہے) تاکہ تجھ پر (اُن کے خىال سے) کوئى تنگى نہ رہے اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اختیار دیتا ہے کہ وہ پسند کرے تو وہ کام کر لے ۔اگر اسے پسند نہیں تو نہ کرے ۔اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی پسند کا بھی احترام کرتا ہے ۔

نبی کو تکلیف دینے والوں کی سزا

اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے ۔وہ گناہوں کو بخش دیتا ہے لیکن اپنے نبی کو اذیت پہنچانے والوں کو سزا بھی دیتا ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا۔وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَیۡرِ مَا اکۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا ۔

(الاحزاب:58تا59)

ىقىناً وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذىت پہنچاتے ہىں اللہ نے ان پر دنىا مىں بھى لعنت ڈالى ہے اور آخرت مىں بھى اور اس نے ان کے لئے رُسواکُن عذاب تىار کىا ہے۔اور وہ لوگ جو مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو اذىت پہنچاتے ہىں بغىر اُس (جرم) کے جو انہوں نے کماىا ہو تو انہوں نے اىک بڑے بہتان اور کھلم کھلا گناہ کا بوجھ اٹھالىا ۔

قرآن کریم میں بار بار یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کے انکار اور اس کی مخالفت کی وجہ سے قوموں پر عذاب نازل ہوا ۔جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے نبی کو تکلیف پہنچائی ان کی زمین تہ وبالا کر دی گئی ۔ان کا نام ونشان دنیا سے مٹا دیا۔اللہ کا غضب عذاب کی شکل میں ان پر نازل ہوا۔اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کرنے والے نبی کی حرمت کو قائم کرتے ہوئے مخالفین انبیاء کو سخت سے سخت سزا دی گئی ۔

یہ قرآن کریم کے چند ایک مقامات ہیں جہاں نبی کے لیے ادب وتعظیم بیان کیا گیا ہے۔ویسے قرآن کریم کا لفظ لفظ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی عظمت وتکریم کے بیان پر مشتمل ہے۔ان کے ادب واحترام کو بیان کرتا نظر آتا ہے۔نمونے کے طور پر چند ایک آیات کو لیا گیا ہے۔

اب نبوت کا دَور ہو یا نبوت کی قائمقامی اور جانشینی کرنے والی خلافت کا دَور ہو ۔ان آداب کو پیش نظر رکھیں گے تو پھر ہی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں ۔نبوت کے بعد خلافت کا دور ہوتا ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ

مَا مِنْ نُبُوَّۃٍ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔

(کنزالعمّال جلد 11صفحہ 259۔ناشر مکتبہ التراسل اسلامی بیروت۔لبنان)

یعنی ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظِلیّ طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو۔‘‘

(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 353)

خلیفۃ الرسول کے لیے بھی وہی ادب و آداب ہیں جو رسول اور نبی کے لیے ہوتے ہیں۔مہذب دنیا میں بھی کسی کی قائم مقامی کرنے والے کو وہی پروٹوکول (protocol)دیا جاتا ہے جو اصل کا ہوتا ہے ۔ہر معاشرے میں پروٹوکول کے نام سے ہر صاحبِ اقتدار شخص کے لیے اصول وضع کیے ہوئے ہیں۔ان اصولوں کا پھیلاؤ کسی جگہ زیادہ ہوتا ہے تو کسی جگہ کم لیکن اصول بنائے ہوتے ہیں جو اس کے مقام ومرتبہ کا تقاضا سمجھے جاتے ہیں ۔مدنظر ادب واحترام بھی ہوتا ہے اور حفاظت بھی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں پروٹوکول کے ان اصولوں کو اپنایا نہیں جاتا وہاں نتیجہ اچھا نہیں نکلتا ۔ملک وقوم کو نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے۔اس لیے موجودہ دَور میں جس قدر بڑی شخصیت ہوگی اسی قدر اس کے پروٹوکول کے اصول سخت ہوںگے۔معاشرے کے ایک عام شخص کے لیے ان بڑی شخصیات کے چہرے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بھی کافی تگ ودو کرنی پڑتی ہے ۔ان پروٹوکول کے اصولوں کو بنانے اور اپنانے کو کوئی بدتہذیبی نہیں کہتا بلکہ حالات کا تقاضا سمجھتا ہے ۔ادب واحترام کے ساتھ ساتھ حفاظت کو یقینی بنانا ضروری ہے ۔

قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں مقام نبوت کے لیے بیان کردہ ادب و تعظیم لازم ہے اورنبوت کی جانشینی اور قائم مقامی کی وجہ سے خلافت کا ادب واحترام بھی اسی طرح ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں خلیفہ وقت کے لیے ایسا ادب واحترام پیدا کرے جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی حفاظت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button