خطاب حضور انور

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات کے اجلاس سے بصیرت افروز خطاب

آنحضرتﷺ کے عملی اظہار سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح آپؐ نے عورت کی عزت قائم فرمائی

اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنی لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم دے اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا قافلہ 12 بج کر 30منٹ پر ایم ٹی اے کی سکرین پر نمودار ہوا۔ حضور انور 12 بج کر 37 منٹ پر جلسہ گاہ مستورات میں رونق افروز ہوئے۔ حضور انور نے سب کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور صدر لجنہ اماء اللہ یوکے سے لجنہ کی حاضری کے بارہ میں استفسار فرمایا۔ بعد ازاں اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرمہ نور عودہ صاحبہ نے سورۃ الحدیدکی آیات 21 تا 24 کی تلاوت کرنے اور مکرمہ شرمین بٹ صاحبہ کو ان آیات کا ترجمہ از تفسیر صغیر پڑھنے کی سعادت ملی۔ مکرمہ ماریہ ثاقب صاحبہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے منظوم کلام

؎ حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی

میں سے منتخب اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنے کی سعادت ملی۔

بعد ازاں 12بجکر 57منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منبر پر تشریف لائے اور احباب جماعت کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ پیش فرمایا۔

تشہد، تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ آج کل روشن خیالی کے نام پر آزادیٔ اظہارو عمل کا ایک ایسا تصور پیدا ہو گیا ہے جو روشن خیالی کم اور اندھیروں کی طرف زیادہ لے جانے والا ہے۔حضور انور نے فرمایا کہ اس آزادی کے فوائد کی بجائے نقصان زیادہ ہیں جس سے آئندہ نسل بھی تباہ ہو رہی ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا دار جب ایک برائی سے نکلنا چاہتے ہیں تو دوسری برائی میں پھنس جاتے ہیں۔

اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ایسی تعلیم دیتا ہے جو ہر ایک کے حقوق بتاتا ہے۔ آزادیٔ اظہار و عمل بھی بتا دیتا ہے اور ہر ایک کے حدود و قیود بھی بتا دیتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ2019ء کے جلسہ سالانہ کی آخری تقریر میں مختلف طبقوں کے حقوق کا ذکر ہوا تھا۔ اس وقت عورتوں کے حوالے سے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عموماً اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کوحقوق نہیں دیے جاتے۔اسلام کا بنیادی تصور یہ ہے کہ صرف حقوق لینے پر زور نہ دو بلکہ ہر ایک کے ذمہ جو فرائض ہیں ان کو بھی ادا کرنے کی طرف توجہ دو تبھی امن پیدا ہو سکتا ہے۔ اسلام عورت کو صرف یہ نہیں کہتا کہ اپنے حقوق لو بلکہ برائیوں سے بچنے کی بھی تلقین کرتا ہے۔

اس تعلیم کا نہ کوئی اور دینی تعلیم مقابلہ کر سکتی ہے نہ ہی کوئی دنیاوی قانون اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کے عملی اظہار سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح آپؐ نے عورت کی عزت قائم فرمائی اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نےاس کی وضاحت فرمائی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے سورت الکوثر کی تفسیر میں عورتوں کے وہ حقوق بیان فرمائے ہیں جو اسلام نے عورت کو دیے ہیں۔ قرآن کریم صرف عورتوں کے حق تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کے ذریعہ علوم کا دروازہ کھل گیا ہے جس سے نئی نئی باتیں پتہ لگتی ہیں۔

نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت 2بیان فرمائی کہ

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءًۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ۔

(ترجمہ) اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا کہ مرد اور عورت ایک ہی جنس ہیں۔ دونوں ایک ہی قسم کے جذبات اور احساسات رکھتے ہیں۔ نکاح کے شروع میں ہی بتا دیا کہ عورت کیا اہمیت ہے۔ عورت جذبات بھی رکھتی ہے، اس کے احساسات اور دماغ بھی ہے۔

پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بعض اہم امو ر میں عورتوں سے مشورہ بھی لے لینا چاہیے۔ اور آپؐ خود بھی مشورہ لیتے اور اس حوالے سے حضرت حفصؓہ کی مثال بیان فرمائی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت عمرؓ کے دور کےبعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں اسلام نے عورت کو اظہار رائے کا حق دیا ہوا ہے۔

اُس زمانے کی عورتوں کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ دینی علم سیکھنے کا شوق بھی رکھتی تھیں جس سے احمدی عورتوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے اور دین کا علم حاصل کرنا چاہیے۔ اور اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم اور دین کا علم ہی ہے جو آپ لوگوں کو اسلام پر اعتراضوں کا جواب دینے کے قابل بنائے گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دجال کی ایک چال ہے اور ہمیشہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ دین سے دور لے جانے والے لوگ ہمیشہ ہمدرد بن کر ہی آتے ہیں

حضور انور نے فرمایا کہ احمدی عورت خوش قسمت ہے کہ اس نے اس زمانہ کے امام کو مانا ہے جس نے ہمارے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کونکھار کر دکھا دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔

وَلَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ (البقرہ: 229)

کہ جیسے مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں، بعض لوگوں کا حال سنا جاتاہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں گالیاں دیتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سےبرتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔

چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ121 ایڈیشن 2016ء)

پس بڑی وضاحت سے اس ارشاد میں فرما دیا کہ دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں۔حضور انور نے فرمایاکہ ایک حقیقی مومن کو ہمیشہ خوفزدہ رہنا چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا کہ حقوق تلفی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی خوشنودی بھی حاصل نہیں ہوتی۔

حضور انور نے پسند کی شادی کے حوالہ سے فرمایا کہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ یہ شادیاں بھی ٹوٹ رہی ہیں۔ نیز فرمایا کہ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں پسند کی شادی کے علاوہ والدین زبردستی کی شادی بھی کرواتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا زبردستی نہیں کرنی ہے۔ والدین کو دعا کر نی چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا کہ بیوی خاوند کی سب سے پہلی رازدار ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہی ہے جو اپنے اہل سے بہتر ہے۔

ہندوستانی اور پاکستانی معاشرے کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ سوائے اشد مجبوری کے بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ علیحدہ گھر کا مطالبہ کرے اور سسرال سے الگ گھر میں رہے۔

پھر مہر کا حق بھی اسلام نےعورت کو دیا۔اسلام نے ۱۴۰۰سال قبل یہ حق عورت کو دیا ہے۔حق مہر کی ادائیگی اور عورت سے تحفہ وصول کرنے کے حوالہ سے حضور انور نے صحابہ کا حوالہ دیتے ہوئے بعض واقعات کا ذکر فرمایا۔

اس کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دے اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ایسے مرد کے لیے جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلواتا ہے جنت واجب ہو جاتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس قوم کی عورتیں نیکی میں آگے ہوں تعلیم یافتہ ہوں پھر اگلی نسلیں ایسی نکلیں گی جو تقویٰ میں آگے بڑھنے والی ہوں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عورتوں کو اسلام نے خلع کی صورت میں اس بات کا حق دیا کہ وہ شادی کو توڑ سکیں۔ قرآن کریم میں سورت البقرۃ کی آیت 228کا ذکر فرمایاکہ

وَ اِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ

یعنی اور اگر وہ طلاق کا قطعی فیصلہ کر لیں تو یقیناً اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک نقطہ بیان فرمایا کہ اس آیت میں یہ بیان ہے کہ اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بد دعا کرے تو خدا اس کی بد دعا سن لے گا۔

اسلام پر اعتراض کیا جا تاہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے۔ اس حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ایک اجازت ہے، حکم نہیں جو فحشا کو روکنے والی ہے۔ بعض شرائط کے ساتھ اجازت ہے۔ اگر وہ شرائط پوری نہیں ہو رہیں پھر اجازت نہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارشاد کے حوالے سے بیان فرمایا کہ شادی کے بعد بیوی کے حقوق ادا نہ کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر انسان کو اس کا علم ہو تو وہ اکیلا رہنا پسند کرے۔ اسی طرح فرمایا کہ اگر کوئی اشد مجبوری نہیں تو پہلی بیوی کا دل رکھنے کے لیے دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ شادی سے قبل عورت مرد سے یہ عہد لے سکتی ہے کہ آئندہ جو بھی حالات ہوں وہ دوسری شادی نہیں کرے گا جس کے بعد وہ اس کا پابند ہو گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردکا فرض ہے کہ وہ عورت کی ضروریات کا خیال رکھےاور گھر کے خرچ پورے کرے۔ عورت اگر کماتی ہے تو اس کی کمائی پر نظر نہ رکھے۔ خود اپنی ذمہ داری ادا کرے۔اورمرد کو جو جسمانی فوقیت دی گئی ہے اس کے نتیجے میں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ عورت کو جذباتی یا جسمانی تکلیف نہ پہنچے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےحدیث میں مذکور ایک واقعہ کے حوالے سے فرمایا کہ عورتیں دین کے معاملے میں بڑی عقل اور حکمت کی بات کہہ سکتی ہیں۔

مردوں کو بعض فرائض کی وجہ سے فضیلت ہے نہ عقل اور جذبات کے لحاظ سے اور اگر وہ یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو وہ گناہ گار بھی ہیں۔

حضور انور نے خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی تعلیم کو کسی احساس کمتری کی وجہ سے اپنے لیے کسی قسم کی شرمندگی کا باعث نہ سمجھیں۔

پردے کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ایسا نہیں جس کو ہم اپنے نفس کے دھوکے میں آ کر وقت کی ضرورت یا عدم ضرورت کا درجہ رکھ دیں۔ اسلام نے پہلے مرد کو غض بصر کا حکم دیا ہے۔ تب بھی عورت کو پردے کا حکم ہے۔ آنحضرت ﷺ نے مردوں کو بازاروں میں بیٹھنے کی صورت میں غض بصر کا حکم دیا ہے۔

پردے کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہیے۔ اس حوالہ سے حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں پردہ کرنے کی تلقین کی۔

حضور انور نے فرمایا کہ اسلام گناہ سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر بتاتا ہے۔ اسلام کا ہر حکم اعتدال کا ہے۔ اور بے جا سختی کو بھی دور فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے پردہ کی بھی وضاحت فرمائی کہ کس طرح پردہ کرنا چاہیے۔اس کے بعد حضور انور نے آپؑ کے ارشادات کی روشنی میں پردہ کی وضاحت فرمائی۔

حضور انور نے فرمایا کہ اسلام تقویٰ سکھانے کے واسطے دنیا میں آیا ہے چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے۔حضور انور نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر پر حضور انور نے کسی بھی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونے کا اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کا ارشاد فرمایا۔

دعا کے بعد مستورات نے مختلف زبانوں میں اپنے پیارے امام کی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ترانے پڑھے۔ حضور انور کے ارشاد کے مطابق تمام ترانے ماسک پہن کر پڑھے گئے۔

دو بجے اس اجلاس کی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button