خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس فرمودہ 6؍ اگست 2021ء

جلسہ سالانہ کے حوالے سے میزبانوں اور مہمانوں کی ذمہ داریوں کا بیان

حضرت مسیح موعودؑ نے مزیدفرمایا کہ تم پر میرا حسن ظن ہے اس لیے مہمانوں کی خوب خدمت کرو۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہی وہ حسن ظن ہے جو آج بھی قائم ہے۔

خلاصہ خطبہ جمعہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 6؍ اگست 2021ء بمقام حدیقۃ المہدی آلٹن، ہمپشئر یوکے

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا قافلہ ایک بجے ایم ٹی اے کی سکرین پر رونما ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک بج کر چار منٹ پر جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مولانا فیروزعالم صاحب کو ملی۔

خطبہ جمعہ سے قبل حضور انور نے فرمایا کہ سب کرسیوں پر بیٹھے ہیں ضروری نہیں کہ کرسیوں پر بیٹھا جائے۔ جائے نماز پر بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ جن کو مجبوری ہے وہ کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے تو ساتھ ہی جلسہ گاہ میں موجود کرسیوں پر بیٹھے ہوئے افراد تعمیل ارشاد میں کرسیوں کی بجائے زمین پر بیٹھ گئے۔

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج انشاء اللہ جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو رہا ہے سب سے پہلے میں کہنا چاہوں گا کہ جلسہ کے بابرکت انعقاد کے لیے بہت دعائیں کریں۔ شاملین نیکی اور تقویٰ میں زیادہ آگے بڑھیں۔ وبا کی وجہ سے شاملین کی تعداد بہت محدود ہے۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ گھروں میں اور جماعتی انتظام کے تحت جلسہ سنایا جائے گا۔ بہر حال جو بھی جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں وہ اس سوچ کے ساتھ شامل ہوں کہ گویا وہ جلسہ گاہ میں ہیں۔اور اس وقت کو دعاؤں میں گزاریں۔

حضور انور نے فرمایاکہ امسال جلسہ کی انتظامیہ کے لیے بھی اور شاملین کے لیے حالات بھی مختلف ہیں۔ بعض سہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ اس لیے شاملین ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے صرف نظر سے کام لیں۔ حضور انور نے اس حوالہ سے بھی دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔

حضور انور نے فرمایاکہ بعض کو شکایت تھی کہ شامل ہونے کے لیے جو انتخاب ہوا ہے وہ صحیح نہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ جو بھی صورت ہے اگر انتظامیہ کی غلطی بھی ہے تو یہاں بھی صرف نظر کریں اور انتظامیہ کو معاف کر دیں۔

حضور انور نے جلسہ اور مہمان نوازی کے حوالہ سے فرمایا کہ جلسہ سے ایک روز قبل میں عام طور پر مہمانوں اور ڈیوٹی دینے والوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ امسال یہ نہیں ہو سکا اس لیے آج کچھ کہوں گا۔

حضور انور نے فرمایا کہ مہمان نوازی میں کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہیے اور انتظامیہ کو کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی شکوہ نہ پیدا ہو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر طبقے کے کارکنان اپنی ڈیوٹیوں اور اپنے کام میں بہت ماہر ہو چکے ہیں اور بڑا کام سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نئے شامل ہونے والوں کو سکھا بھی سکتے ہیں۔ اس لیے اس لحاظ سے فکر نہیں کہ کام آتا نہیں۔ لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مومن کو یاددہانی کرواتے رہنا چاہیے کہ یہ اس کے لیے فائدہ مند ہے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسے کا انتظام مختصر ہے اس لیے بعض امور میں لا پروائی کی وجہ سے کمی رہ سکتی ہے۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے بعض شعبوں کو خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ مہمان کم ہیں یا زیادہ جلسے پر آنے والے مہمان حضرت مسیح موعودؑ کہ مہمان ہیں ان کی ہمیں مہمان نوازی کرنی چاہیے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مہمان نوازی ایک ایسا خلق ہے جو انبیاء کا ایک خاص وصف ہے۔ پس دینی جماعت ہونے کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہمارے اندر یہ وصف نمایاں ہوں۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی جب مہمان زیادہ آنے شروع ہوئے ہو تو آپؐ صحابہ میں مہمان بانٹ دیتے اور صحابہ بھی خوشی سے مہمان ساتھ لے جاتے۔ اور صبح جب مہمانوں سے خدمت کا حال پوچھتے تو ہر ایک کا یہی جواب ہوتا تھا کہ ہم نے ایسے میزبان نہیں دیکھے جو مہمان نوازی کا حق ادا کر تے ہوں۔ پس یہ اسوہ ہمارے سامنے ہے اور اس زمانے میں جب ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے آپ نے بھی ہمیں اس حوالے سے تلقین فرمائی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک اقتباس کے حوالے سے فرمایا کہ اگر مہمان سخت الفاظ بھی استعمال کریں تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اگر مہمان احمدی بھی ہو تب بھی سختی کا جواب سختی سے نہ دیں۔ اپنے ہوں یا غیر حضرت مسیح موعود ؑ کے مہمان نوازی کے غیر معمولی نمونے ملتے ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہی وہ اعلیٰ اخلاق قائم فرمانےتھے جس سے اسلام کی خوبصورت تصویر ہمارے سامنے آئے اور ہم دنیا کے سامنے اس کو پیش کر سکیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ بیان فرمایا جس میں حضرت مسیح موعودؑ خود اپنے ہاتھ سے ایک Tray میں آپؓ کے لیے کھاناا لائے جس سے حضرت مفتی صاحبؓ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ ہمارے رہنما اور پیشو ا ہو کر ہماری اتنی خدمت کرتے ہیں تو ہم احمدیوں کو آپس میں کس قدر محبت سے پیش آنا چاہیے۔

ایک مرتبہ بستروں کی کمی ہو گئی تو حضرت مسیح موعودؑ نے گھر کے سارے بستر مہمانوں کو دے دیے لیکن کسی کواس کا احساس نہیں ہونے دیا۔ بعض دفعہ بعض لوگ قربانی کر دیتے ہیں لیکن جتا بھی دیتے ہیں۔ایک موقع پر حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا کہ مجھے ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو۔ فرمایا مہمان کا دل مثل آئینہ ہوتا ہے اور ذرہ سے ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے حضرت مسیح موعودؑ مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ لیکن بعد ازاں کھانے میں پرہیز نیز مہمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔چنانچہ ایک مرتبہ لنگر خانے کے انچارج کو حضورؑ نے نصیحت فرمائی کہ سب کو واجب الاحترام جان کر ان کی خدمت کرو۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب کو مہمان سمجھ کر برابر خدمت کرنی چاہیے۔ ہر ایک سے عزت و احترام کا سلوک رکھنا چاہیے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے مزیدفرمایا کہ تم پر میرا حسن ظن ہے اس لیے مہمانوں کی خوب خدمت کرو۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہی وہ حسن ظن ہے جو آج بھی قائم ہے۔

حضور انور نے فرمایا:مجھے علم ہے کہ بعض شعبہ جات کے کارکنان کو بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہر حال میں مہمان سے خوش خلقی سے پیش آنا ہے اور اپنے پر فرض کر لینا ہے کہ اپنے اعلیٰ اخلاق دکھانے ہیں۔شاملین کی تعداد کم ہے،لیکن پھر بھی بعض کارکن جب مہمانوں کو کسی طرف توجہ دلائیں تو ہو سکتا ہے مہمان برا بھی منائیں۔ لیکن اگرکوئی بات نہیں بھی سنتا تو پھر بھی پیار سے مہمان کو سمجھائیں۔ اگثر مہمانوں کو بھی معلوم ہے کہ ان پابندیوں پر کاربند رہنا ہے۔ اگر کارکن کا رویہ بھی درست نہیں تو زیادہ مشکل بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

حضور انور نے فرمایاکہ آنحضرت ﷺ نے ایک مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرتا ہے۔ یہ مومنانہ خصوصیت ہر ایک میں پیدا ہونی چاہیے۔

حضور انور نے بارشوں کی وجہ سے گاڑیوں کےکیچڑ میں پھنسنے کے حوالہ سے فرمایا کہ یہاں بھی کارکنان بڑے پیار اور آرام سے سمجھائیں۔ مہمان کے تعاون سے ہی کام میں آسانی اور روانی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے دونوں طرف سے تعاون ہونا چاہیے۔ مہمانوں کو بھی قواعد کی پابندی کرنی چاہیے۔ تبھی کام روانی سے ہو سکتا ہے۔

حضور انور نے فرمایاکہ اس بات کو بھی مہمان یاد رکھیں کہ اسلام نے جہاں میزبان کو توجہ دلائی ہے وہاں مہمانوں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ میزبان کی مجبوریوں کا بھی خیال رکھیں۔ میزبان کو کہا کہ مہمان سےحسن سلوک کرو۔ مہمان سے کہا کہ اگر میزبان نہ آنے دے تو نہیں آنا چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا کہ امسال عمر کی بھی پابندی ہے اور صحت سے متعلقہ شرائط بھی ہیں۔ اس لحاظ سے جماعتوں کو بھی کہا گیا ہے کہ منتخب افراد کو جلسہ میں شامل ہونے دیں۔

حضور انور نے فرمایاکہ بعض لوگ نئے اس ملک میں آئے ہیں جو شرائط پوری نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ نظام نہیں توڑنا۔ مومن کے لیے اصولی ہدایت دے دی۔ اور حکم دے دیا کہ گھر والے کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: اور اگر تمہیں کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ تمہارے لیے یہ بات زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔

حضور انور نے فرمایاکہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا ایک مقصد اپنے آپ کو پاک کرنا ہے۔ پس بعض لوگ جنہوں نے مجھے بھی لکھا ہے انہیں نظام کی پابندی کرنی چاہیے۔ اور برا بھی نہیں ماننا چاہیے اور شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے حالات کے لیے دعا کریں اور ایسے حالات میں زیادہ تڑپ کر دعا ہوتی ہے۔

حضور انور نے فرمایا قرآن کریم پر عمل کرنے کے حوالےسے صحابہؓ کا بھی عجیب طریق ہے۔ ایک صحابی کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ایک صحابی دوسرے صحابی کے پاس جاتے اور کہتے کہ میں اس قرآنی حکم کے لیے بار بار جاتا ہوں کہ میزبان گھر میں داخل ہونے سے انکار کرے اور میں اس قرآنی حکم کی تعمیل کروں کہ گھر میں داخل نہیں ہونا۔ اور دوسرے صحابی بھی قرآن کریم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے انہیں داخل ہونے دیتے۔دونوں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے قرآن کریم پر عمل کرتے۔

حضرت مسیح موعود ؑ نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اپنے نمونے سے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ اس لیے بغیر کسی شکوے کے جو شامل نہیں ہو سکتے انہیں شامل نہیں ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جن کو دعوت نامہ اور اجازت ملی ہے وہ ضرور جلسے میں شامل ہوں ورنہ ان لوگوں کی حق تلفی ہو گی جن کو اجازت نہیں ملی۔ موسم کی خرابی کو عذر نہ بنائیں۔

ربوہ اور قادیان کے جلسوں کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہاں کھلے آسمان تلےبارش میں بھی جلسے ہوتے تھے۔ اسلام آباد، یوکے میں بھی ابتدائی جلسوں میں جلسہ گاہ کے اندر پانی آ جاتا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مثال دی کہ اسلام آباد کے ابتدائی جلسوں میں سجدہ کرتے وقت ماتھے اور گھٹنوں پر کیچڑ ا ٓجاتا لیکن ایک جذبے کے ساتھ لوگ جلسے میں شامل ہوتے۔ اس لیے دوبارہ حضور انور نے فرمایا کہ جن لوگوں کو اجازت نامے ملے ہیں وہ ضرور آئیں۔

انتظامی باتوں کو بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کھانے کی مارکی میں فاصلے کا خیال رکھیں۔کھانا کھاتے ہوئے اور کھانا لیتے ہوئے فاصلے کا خیال رکھیں۔ کھانا لیتے ہوئے ماسک پہنیں۔

ڈیوٹی والے اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ماسک پہنیں۔ اگر ڈیوٹی والے اس کا خیال نہ رکھیں تو مہمان بھی اس پر عمل نہیں کریں گے۔ اس لیے ہر جگہ ماسک پہنے رکھیں۔

اگر انتظامیہ کے زیر انتظام نعرہ لگے تو ماسک پہن کر اس کا جواب دیں۔

ناک اور منہ دونوں ڈھانپنے ضروری ہیں۔

چیک کرنے والوں کو تسلی کروائیں۔ اور کسی قسم کا اظہار نہ کریں کہ یہ بات بری لگی ہے۔

سیکیورٹی کے لحاظ سے Relaxنہ ہو جائیں۔ سب کو مکمل طور پر محتاط ہونا چاہیے۔

کھانے کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رات کا کھانا پیک کر کے دیے جانے کا پروگرام ہے۔ اگر اس پر کچھ وقت لگ جائے تو پریشان نہ ہوں۔

جو لوگ ایک لمبے عرصے بعد مل رہے ہوں ان کو دیر بعد ملنا جلسے کے پروگرام سننے یا دعائیں کرنے سے محروم نہ کر دے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود ؓکا بیان کردہ ایک نقطہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جلسے کے ایام میں ذکر الٰہی کرنے کا ایک فائدہ یہ بتایا کہ اللہ کے ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کا ذکر کرتا ہے اور اس سے زیادہ خوش قسمت کون ہو سکتا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کرے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمام احمدی جو اپنے ممالک میں یا گھروں میں جلسہ سن رہے ہیں وہ بھی ذکر الٰہی کریں۔جلسے کے ماحول سے بھر پور استفادہ کریں۔ جلسے کی کارروائی پورے اخلاص اور توجہ سے سننی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے والا ہو۔

آخر پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے موسم کی بہتری کے لیے بھی دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

خطبہ جمعہ بعد کے حضور انور یدہ اللہ تعالیٰ نے نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔اور پھر اپنی رہائش گاہ میں تشریف لے گئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button