متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کس طرح اپنے بچوں کو ہستیٔ باری تعالیٰ سے متعارف فرمایا

(صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو)

ادارہ ریویو آف ریلیجنز نے 19؍ اور 20؍ جون 2021ء کو پہلے The God Summitکا کامیاب (آن لائن) انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کے دوسرے روز حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے صاحبزادے محترم مرزا وقاص احمد صاحب نے بہت خوبصورت انداز میں ناظرین و سامعین کو بتایا کہ کس طرح حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے بچوں کو اللہ تعالیٰ کی پاکیزہ اور بالا ہستی سے متعارف فرمایا۔ اس گفتگو میں سے ایک حصہ قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش ہے۔

محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کہتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ریویو آف ریلیجنز پہلی مرتبہ God summit کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں جس میں مختلف سپیکرز اور جماعت کے مختلف علماء اللہ تعالیٰ کے بارے میں مختلف تقاریر کریں گے۔ ایک انٹرویو یا کچھ باتیں وہ مجھ سے بھی حضرت صاحب کے حوالے سے پوچھ رہے تھے کہ حضور نے بچپن میں ہم لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے تصور کو کیسے شیئر کیا یا خدا تعالیٰ کا تصور ہمارے دل میں کیسے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد تو تمام نصائح جماعت کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ خلافت سے پہلے یا ہمارے بچپن میں حضرت صاحب نے کیسے اللہ کے تصور کو ہمارے سامنے پیش کیا۔ جو لوگ والدین ہیں ان کو پتہ ہے کہ بچہ جب بڑا ہو رہا ہوتا ہے اس وقت خدا تعالیٰ کا تصور اس کو سمجھانا بعض لحاظ سے ایک مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ جب بچہ بڑا ہو رہا ہوتا ہے تو وہ سوال پوچھتا ہے۔ اس کو مختلف چیزوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہاری ماما ہیں، یہ تمہارے بابا ہیں، اس کو پانی کہتے ہیں، اس کو milkکہتے ہیں، یہ کھلونا ہے… اور جب ہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو پہلا سوال جو بچے پوچھتے ہیں یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کون ہے؟ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟ اب یہ چیزیں سمجھانے کے لیے بظاہر مشکل ہیں کیونکہ بچے کو ہر چیز ہم مادی طور پر یا دکھا کر سمجھا رہے ہوتے ہیں تو اس موقع پر خداتعالیٰ کا تصور بچوں کے دل میں ڈالنا ، حضرت صاحب نے کیسے کیا۔ حضرت صاحب اور ہماری والدہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں خلافت سے پہلے خدا تعالیٰ کی توحید پر بڑی سختی کے ساتھ قائم تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جب زندگی وقف کی تو حضرت صاحب کی پہلی پوسٹنگ گھانا ہوئی اور ہم لوگ اس وقت گھانا میں بچے تھے۔ ہمارے سکول کا جو سٹارٹ ہے، آغاز وہ بھی گھانا (افریقہ) میں ہوا۔ بچپن کی باتیں بہت زیادہ تو افریقہ کی یاد نہیں لیکن ایک بات چونکہ یاد رہ گئی اس میں کچھ ہمارے ساتھ ایک واقعہ ہوا۔ ہم نے سکول شروع کیا تو اس کے کچھ عرصہ بعد کوئی پروگرام تھا۔ کرسچن سکول تھا تو پروگرام تھا جس میں سب نے یہ کہنا تھا کہ Jesus is a son of God یعنی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام جو ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور ہمیں یہ بچپن سے پتہ تھا، حضرت صاحب نے بھی اور ہماری والدہ نے بھی یہ بتایا تھا کہ شاید اس طرح کی بات ہو تو آپ نے کبھی یہ نہیں کہنا کہ Jesus is a son of God اور پھر حضرت صاحب اور ہماری والدہ دونوں بہت زیادہ اس بات پر فکر مند ہوتے تھے کہ بچے خدا تعالیٰ کے ایک ہونے اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوں تو ہمیں بچپن سے ایک سورت قرآن کریم کی بھی ہماری والدہ نے سکھائی، بلکہ ابھی کچھ عرصہ پہلے حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمارے بچوں کو بھی، جو اگلی جنریشن ہے چھوٹے بچے ہیں ان کو ابھی تک سورۂ اخلاص سکھائی ہے کہ نہیں کیونکہ آج کل وقف نَو سلیبس میں سورۂ کوثر سے، اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ سب سے چھوٹی سورت ہے وہ اس سے شاید سٹارٹ کرتے ہیں یا اتفاق ہوا کہ سورۃ الکوثر سکھاتے ہیں تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں بچوں کو سب سے پہلے سورۂ اخلاص سکھانی چاہیے کہ سورۂ اخلاص میں خدا تعالیٰ کے توحید کا، خدا تعالیٰ کے ایک ہونے کا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت،unity of God کا جو تصور ہے وہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے اور آج کل کے زمانے اور حالات کے حساب سے یہ سورت بچوں کو فوراً پہلے سکھائیں تا کہ ان کے دل میں خدا تعالیٰ کی واحد ہونے کا اور لاشریک ہونے کا تصور پیدا ہو۔ سورۂ اخلاص جو ہے وہ ہے ۔

قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۲﴾ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۳﴾ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۴﴾ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۵﴾

اس کا مطلب یہ ہے کہ تو کہہ دے اللہ ایک ہے۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ اللہ بے احتیاج ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا اور اس کی صفات میں اس کا کوئی ہمسر نہیں۔

تو یہ سورہ بچپن سے حضور، ہماری والدہ ہمیں سکھاتے رہے ہیں بلکہ ہماری اگلی نسل کو بھی حضور پوچھتے ہیں کہ یہ سورہ ان کو سکھانے کے بعد اس کا مطلب بھی سمجھائیں۔ تو یہ ایک پریکٹیکل کوشش تھی جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچے کے کان میں سب سے پہلے اذان دیں تا کہ خدا تعالیٰ کے نام اور اس کے الفاظ اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی اس کے دماغ میں سب سے پہلے جائے۔ ایک تو یہ طریقہ تھا جو حضرت صاحب اور ہماری والدہ بتاتے تھے کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور اس کی صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ باقی دعاؤں کے ساتھ سورۂ اخلاص کا سکھانا ایک پریکٹیکل کوشش تھی جس سے خدا تعالیٰ کے ایک ہونے کا تصور بچوں میں قائم ہونا تھا۔

دوسرا یہ کہ احتیاط بھی تھی کہ ہم ایک کرسچن ملک میں رہتے تھے، وہاں پہ مسلمان بھی ہیں لیکن عیسائی بہت زیادہ ہیں اور عیسائی جو پادری ہیں ان کا بھی افریقہ میں، خاص طور پر گھانا میں کافی زور ہوتا تھا تو ہمیں سکول جاتے ہوئے یہ پتہ تھاکہ Jesus is a son of God نہیں ہے بلکہ ہمیں بتایا گیا تھاکہ Jesus is a Prophet of Allah یہ کہنا ہے۔اب ہوا یہ کہ سکول میں جب ہم نے Jesus is a son of God نہیں کہا تو جو ٹیچر تھیں ،وہ کافی سخت قسم کی ٹیچر تھیں ،انہوں نے اس پر ہمیں physical punishment دی۔ تو ہم نے گھر آ کے کہا کہ جب ہم Jesus is a son of God نہیں کہتے تو اس پہ ٹیچر ہمیں punishment دیتی ہیں، phyisically ہماری پٹائی بھی ہوتی ہے۔ تو حضرت صاحب نے کہا کہ ٹھیک۔ یہ بات تو آپ نے بہرحال نہیں کہنی۔تو انشاء اللہ ہم ٹیچر سے مل کے اس کو یہ بات explainکریں گے۔ اگلے دن یہ واقعہ دوبارہ ہوا۔ ٹیچر پھر ناراض ہوئی اس نے پھر مارا۔ پھر حضرت صاحب ہیڈ ٹیچر کو ملنے گئے اور ان کو بتایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ کی توحید جو ہے اور اس کا ایک ہونا ہمارے fundamental beliefs میں سے ایک ہے اور ہم خدا تعالیٰ کی unity کے قائل ہیں، ہم عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ کے مقدس اور پاک نبی مانتے ہیں لیکن ہم ان کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ پھر جب حضور واپس تشریف لائے تو مجھے یاد ہے رات کو حضور نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بیان کیا کہ عرب کی سوسائٹی میں بے شمار idol worshipers تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کا تصور نہیں تھا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خدا تعالیٰ کے ایک ہونے کا تصوّر بیان کیا اور اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو شروع میں غریب لوگوں نے کثرت سے قبول کیا، کثرت سے تو نہیں لیکن یہ کہ ابتدائی قبول کرنے والے لوگوں میں بہت سادہ اور غریب غلام شامل تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ بھی ان میں سے ایک تھے۔ تو حضور یہ واقعہ کئی دفعہ ہمیں سناتے تھے کہ حضرت بلالؓ جب مسلمان ہوئے تو ان پر بہت ظلم ہوا اور ان کا جو مالک تھا ان کا masterتھا وہ ان کو مکہ کی شدید گرمی میں زمین پر زبردستی گرم پتھریلی ریت کے اوپر لٹاتا تھا پھر ان کے سینے پہ گرم سخت پتھر رکھ دیتا تھا اور ان کو مارتا تھا کہ تم کہو کہ جو دو famous بت ہیں لات اور عزیٰ، ان کے دو بت تھے ان کے نام لے کر کہ ان کی بڑائی بیان کرو۔ تو حضرت بلالؓ کو چونکہ عربی نہیں آتی تھی حضرت بلال بار بار یہ لفظ دہراتے تھے کہ ’اَحد‘ ،’اَحد‘ اور خدا تعالیٰ ایک ہے اور اللہ ایک ہے۔ اور اس کے بعد جب وہ مار مار کے تھک جاتا تھا تو حضرت بلالؓ کو گلے میں رسی ڈال کے عرب کے غنڈے اور بدمعاش ٹائپ شرارتی لڑکوں کو دے دیتا تھا کہ ان کی باڈی کو گھسیٹیں۔ حضرت بلالؓ زخمی ہو جاتے تھے اور اس کے باوجود حضرت بلال مستقل احد احد کے الفاظ بیان کرتے تھے۔ تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کی خاطر تھوڑی سی مار پڑ بھی جائے یا قربانی دینی پڑ جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کبھی یہ نہیں کہنا کہ اللہ کے ساتھ کوئی شریک ہے یا اس بات پر compromiseکبھی نہیں کرنا۔ آج کل بھی ویسٹ میں بعض اوقات بچے پریشر میں آجاتے ہیں، peer pressureیا بعض اوقات ٹیچرز کے پریشر میں یا ساتھی بچوں کے پریشر میں اور جو سپیشل کرسچنز کے سکولز ہیں یا چرچ سکولز ہیں ان میں کرسمس کے دنوں میں خاص طور پہ یہ بات ہو جاتی ہے، لوگ نارمل لیتے ہیں کوئی بات نہیں مسجد میں آ کے ’اللہ ایک ہے‘ کا تصور دوبارہ آ جائے گا سکول میں اگر کہہ بھی دیا تو کوئی بات نہیں۔

اس کے علاوہ حضرت صاحب بھی اور ہماری والدہ بھی کیونکہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور عبادت میں حقوق اللہ کے معاملے میں سنجیدہ اور ڈسپلینڈ (disciplined)لوگ تھے تو اس وجہ سے بھی ایک غیر محسوس طریقے سے خدا تعالیٰ کا تصور پیدا ہوتا چلا گیا۔

حضرت صاحب کاایک طریق یہ بھی تھا کہ زبانی نصیحت کے علاوہ حضور کا جو اپنا عمل ہے وہ بہت زیادہ سامنے آتا تھا کہ کس طرح حضرت صاحب دعا کر رہے ہیں کیونکہ حضور کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر، والدہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہ بات بچپن میں بھی سمجھ آ گئی تھی کہ کوئی اَور قوت ہے جس سے کچھ مانگا جا رہا ہے۔ اور اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کے بعض فضل ہوتے تھے تو ان کا ذکر بھی گھر میں ہوتا تھا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس کے نتیجے میں اللہ میاں نے مشکل حل کر دی اور یہ مسئلہ اللہ نے حل کر دیا تو خود ہی ایک تصور خدا کا ذہن میں پیدا ہو گیا۔

اور اس بات کا تصور کہ خدا تعالیٰ سے تعلق دو طرفہ ہوتا ہے، یہ بات بھی حضرت صاحب، ہماری والدہ نے ہمیں سمجھائی کہ دعا کے نتیجےمیں خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیےکونکہ مانگنے کے نتیجےمیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کی قبولیت ہو گی اور خداتعالیٰ دے گا اس کے نتیجےمیں خود سے ہی ایک تعلق(bond)خدا تعالیٰ کے ساتھ استوار (develop)ہوتا چلا جائے گا تو یہ بعض باتیں تھیں جو خدا کے تصور کے لحاظ سے ہمارے بچپن میں ہمیں سمجھ آئیں اور ہمیں پتہ لگیں۔…

ایک اَور بات جو پچھلے دنوں میں نے ایک جگہ پڑھا کہ ایک صاحب کسی بزرگ کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اس کے بارے میں دنیا میں جا کر بتانا چاہتا ہوں، یعنی تبلیغ کرنا چاہتا ہوں، تو مجھے کوئی نصیحت کریں۔ تو اُن بزرگ نے اس کو کہا کہ دیکھو کوشش کرنا کہ تمہیں تبلیغ کرنے کے لیے زیادہ بولنا نہ پڑے۔ مطلب یہ کہ تمہارا عمل ہی تمہاری تبلیغ ہو جائے اور لوگوں کو پتہ لگ جائے۔

گھریلو ماحول میں خاص طور پہ ماں باپ کے عمل سے ہی بچوں کو خدا تعالیٰ کے وجود کی سمجھ آتی ہے اور اس پر وہ یقین کرنا شروع کرتے ہیں کیونکہ فزیکلی (physically)تو شروع میں بچے کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ خدا کون ہے، کہاں پہ ہے، کیوں نظر نہیں آ رہا، کیا وجہ ہے، کیا بات ہے۔ لیکن یہ ایک تعلق ہے خدا کا کہ جس سے خدا تعالیٰ خود بھی لوگوں کے دل میں اپنی محبت ڈال کر اپنے ہونے کا پتہ دیتا ہے اور پھر انسان کو بھی کہتا ہے کہ تم کوشش کرو لیکن خدا تعالیٰ انسان کے اوپر ایک دفعہ بہرحال ظاہر کر دیتا ہے کہ خدا ہے۔ اس کے بعد آگے انسان کے اوپر ہے کہ وہ کس حد تک کوشش کرتا ہے کہ اس سے تعلق میں ترقی کرے اور بڑھے۔ تو یہ ایک دو طرفہ تعلق ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بندے اور خدا کا تعلق ایک دو طرفہ تعلق ہے ایک کوشش بندے کو بہرحال کرنی پڑتی ہے خدا تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے اور اس سے تعلق میں ترقی کرنے کے لیے۔

دوسرا سوال جو ریویو آف ریلیجنز کا ہے کہ حضرت صاحب کے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ سے تعلق کے حوالے سے وہ پریکٹیکل examples [بیان کیے جائیں]جو لوگوں کے لیے ازدیاد ایمان کا باعث ہوں اور انسپائریشن ہوں۔ تو میں کہوں گا کہ ایم ٹی اے کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ حضور کے پہلے دن، انتخاب خلافت سے لے کر آج تک کا almostسارا ریکارڈ ایم ٹی اے پر دیکھ سکتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے حضرت صاحب کا کوئی جماعتی event ایسا نہیں ہے جو تاریخی لحاظ سے ایم ٹی اے پر کَور نہیں ہوا۔ حضرت صاحب کی (انتخابِ)خلافت کے بعد سے اَب تک مستقل جماعت کو جو نصیحت ہے، پہلی نصیحت تو یہ تھی کہ جماعت دعائیں کرے، دعاؤں سے سب کچھ ہونا ہے، احمدیت کا قافلہ سب سے آگے بڑھنا ہے۔

پھر خلافت کے بعد بندے میں ایک جو سب سے اہم چینج یا تبدیلی آتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے جو اس کا اللہ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے وہ ایک خاموش یا چھپا ہوا تعلق ہوتا ہے اب وہ تعلق ساروں پر ظاہر ہو چکا ہوا ہے۔ اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانشینی کی وجہ سے ایک نیا رنگ جو ہے نئے طریقے سے لوگ اس تعلق کو دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے مقرب وجود اس وقت دنیا میں ایمان کے لحاظ سے ہمارے خلیفۃ المسیح ہیں جو نبی کی جانشینی کا فرض ادا کر رہے ہیں اور نبی کے کاموں میں سے ایک کام، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے کاموں میں سے ایک کام یہ فرمایا کہ میں اس لیے بھی آیا ہوں کہ بندے اور خدا کے درمیان جو کدورت واقع ہو چکی ہے اس کو دور کروں یعنی کہ جو دوری اور distance اور آپس میں جو تعلق خراب ہو چکا ہے اس کو دوبارہ سے ٹھیک کرنا اور یہی کام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہمیشہ priority رہا ہے۔خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اب ساری جماعت کے لیے دعائیں کرنی تھیں اور لوگوں نے بھی دعاؤں کے لیے خط لکھنا تھا۔ اپنی مشکلیں بتانی تھیں۔ یعنی کہ لوگ ایک بندے کی طرف مستقل دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ حضور کو دعا کے لیے کہہ دیا ہے، یہ پریشانی ہے، دعا کے لیے کہہ دیا ہے۔ میرا امتحان ہونے والا ہے ہم نے حضور کو دعا کا خط لکھا ہے۔ اب یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو خلیفۂ وقت کے اوپر ہوتی ہے۔ اب حضور نے جیسے فرمایا ہے کئی خطبات میں کہ خلیفۂ وقت ہر ایک کے لیے ہر وقت دعائیں کرتا ہے اور اس کے اوپر جماعت کے ہر ممبر کا کسی بھی پریشانی میں، کسی بھی مشکل میں، جماعتی آزمائش میں، ذاتی پریشانی میں حضور کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا یا حضرت صاحب کو دعا اورراہنمائی کے لیےلکھ دینا ۔ خلیفہ وقت نے لوگوں کی راہنمائی بھی جب کرنی ہوتی ہے، جماعتی گائیڈنس ہو یا انفرادی راہنمائی ہو تو یہ بھی بڑا سنجیدہ اور سیریس معاملہ ہے۔ دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور اس پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ بلکہ چونکہ آجکل کورونا کے حالات ہیں چھوٹی سی مثال یوں ہے کہ کئی موقعوں پر مجھے بھی موقع ملا دیکھنے کا کہ لوگ اس حد تک جا کے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ حضور سے پوچھیں ventilatorپہ ڈال دیں، ventilatorاتار لیں، ڈاکٹر کہتا ہے ventilatorپہ رکھیں یا نہ رکھیں اور حضرت صاحب ہر ایک کے حساب سے جواب بھی دیتے تھے۔ کئی موقعوں پر حضور نے فرمایا کہ ان سے کہیں لگا رہنے دیں جب تک مکمل طور پر وفات نہیں ہوتی۔ بعضوں کو حضور نے مختلف جواب دیے۔ بعضوں کو جو دعا کے لیے کہا گیا تھا حضرت صاحب نے فرمایا اللہ فضل کرے کچھ نہیں ہوتا۔ بعضوں پہ حضرت صاحب نے فرمایا اللہ رحم کرے لگتا ہے مشکل حالات ہیں۔ اس طرح کے حضرت صاحب کے ریسپانسز رہے ہیں۔ تو خلافت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے بہت زیادہ دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھے۔ اور بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ بعض اوقات دعائیں اگر نہیں بھی قبول ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کسی اَور رنگ میں قبول ہو جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسے فرمایا کہ بندے کا خدا سے جو حقیقی تعلق ہوتا ہے اس میں کبھی خدا بندے کی مانتا ہے کبھی اپنی منواتا ہے۔ تو اللہ کے فضل سے معاملات ہم نے دیکھے۔ کئی معجزے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے، کئی جگہوں پر آزمائشیں بھی ہوئیں اور تکلیف میں بھی لوگ آئے لیکن بہرحال ہر ایک چیز کا جو یہ نتیجہ نکلا کہ خلیفۂ وقت کو اللہ تعالیٰ کے قرب میں اور اس کی محبت میں ہمیشہ آگے سے آگے بڑھتا ہوا ہی دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ اس کانفرنس میں کئی واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ایک ہمارے نبیل بھٹی صاحب ہیں ان کا تو میں ذاتی طور پر گواہ بھی ہوں کہ نبیل بھٹی صاحب جب بیمار ہوئے تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ ڈاکٹر شبیر بھٹی صاحب سے پوچھیں کیا کہتے ہیں ڈاکٹر؟ تو مَیں نے پوچھا ڈاکٹر شبیر بھٹی صاحب سے، عشاء کی نماز کا وقت تھا تو وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ صبح فجر تک شاید زندہ نہ رہیں، فجر کی نماز تک۔ یہ ہے شاید maximum ٹائم۔ تو میں نے حضور کو بتایا کہ ڈاکٹر یہ کہتے ہیں تو حضرت صاحب نے فرمایا اچھا، ڈاکٹر یہ کہتے ہیں! کہہ کہ حضور چپ ہو گئے۔ جو کوئی کام کر رہے تھے حضرت صاحب اس کام میں دوبارہ busy ہو گئے تو اس سے مجھے بھی اندازہ ہو گیا کہ حضرت صاحب نے ڈاکٹروں کی بات کو اتنا serious نہیں لیا مطلب consider نہیں کیا۔ حضرت صاحب نے بظاہر اپنے ایکشن سے یہ ظاہر کیا ہے کہ ڈاکٹر خدا نہیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو کافی criticalحالت کے بعد معجزانہ شفا ہوئی کہتے ہیں وہ بار بار موت کے منہ سے، جا کے بچ کے نکل آئے۔

اسی طرح ابراہیم اخلف صاحب بھی جب بیمار ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا، پریشانی کی بات نہیں ہے تو ان پہ بھی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔اور بعض اَور موقعوں پر بھی ایسا ہوا۔ لیکن بعض اوقات لوگ اس بات سے یہ غلط نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا شاید نعوذ باللہ، نعوذ باللہ فرض ہے کہ ہر بات مانے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسے فرمایا ہے کہ یہ ایک تعلق ہے جس میں خدا کبھی بندے کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے۔ اگر صرف ایک طرف کا ہی تعلق ہو تو بظاہر ایک بات یہ سمجھ آتی ہے کہ جب تک اپنی مرضی کی بات ہوتی رہے گی اور اپنی مرضی کے مطابق کام ہوتا رہے گا تب تک اللہ کو مانیں گے اور ذرا سا بھی خدا نے اپنی مرضی ظاہر کی تو ہم اللہ کو چھوڑ کے چلے جائیں گے۔ تو یہ تصوّر خدا کے تصوّر کے خلاف ہے۔ خدا تعالیٰ مالک ہے۔ وہ سب حالات جانتا ہے۔ اس نے دعا قبول کرنی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے حد سے بڑھ کے محبت اور رحم کرنے والا ہے لیکن اللہ نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ دعا کرو اور فیصلہ اللہ تعالیٰ کی ذات پہ چھوڑو۔ خلافت کے بعد یہ چیز جو میں نے دیکھی کہ حضرت صاحب نے کسی بھی وقت، کسی بھی معاملے میں مایوسی کا، پریشانی کا اظہار… اس طرح پریشانی کا اظہار تو ہوتا ہے لیکن مایوسی کا اظہار نہیں کیا کہ کیا ہو گا۔ حضور کو یقین تھا کہ خد اہے اور اللہ تعالیٰ سے ہم دعا کر کے کسی مسئلے کے حل کو پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ظاہر ہو جائے تو پھر اس کو حضور نے اللہ کے فضل سےبڑے اچھے طریقے سے تسلیم بھی کیا ہے۔ لیکن ایک بڑی واضح تبدیلی یہ تھی کہ خلافت کے بعد اب حضرت صاحب کا صرف اپنا تعلق خدا سے نہیں تھا بلکہ ایک دنیا کا تعلق خدا تعالیٰ سے بنانا بھی حضور کے کاموں میں سے ایک کام تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی پیس کانفرنس ہوئی توحضور کو ایسے مشورہ دیا گیاکہ حضور یہ کانفرنس ہو رہی ہے تو ہم انٹرنیشنل افیئرز کے اوپر یا پالیٹکس کے اوپر بات کریں۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ آج کی پیس کانفرنس کی جو تقریر ہے، میرے ذہن میں صرف یہ بات رہی کہ میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیوں کیا ہے۔ اور پہلی پیس کانفرنس جو تھی اس میں حضور نے majority حصہ اسی بات پہ لیا کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے اور اللہ کے حقوق ادا کرنا ہے۔ اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنا ہےبھی ایک portion تھا جو حضور نے تھوڑا ٹچ کیا تھا لیکن تقریر کے غالب حصے میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا کام تھا جو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حضور کے سپرد ہوا اور آج تک حضور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے وہ کام کر رہے ہیں۔

ایک اَور سوال جو ریویو آف ریلیجنز کی ٹیم کا ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کا موقع ملا ہے، یہاں کی جو یوکے کی youthہے ان کا خلافت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حوالے سے جو تعلق ہے اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں اور اس کو establishکرنے میں انتظامیہ کیا کوشش کرتی ہے اور کیا آپ لوگوں نے کوشش کی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو میرا تجربہ ہے کہ یورپ میں یا یوکے میں رہنے والے جو بچے ہیں ان میں کافی حد تک خدا تعالیٰ کا تصوّر موجود ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصد میں موجود ہے لیکن موجود ہے۔ اور جن ماں باپ نے کوشش کی ہے ان کے بچوں میں خدا کا تصور، concept ہے اور بعض لوگ ویسٹرن فلاسفی یا آئیڈیالوجی سے متاثر بھی ہوئے ہیں لیکن بہرحال جماعتی نظام کی کوششیں اور خلیفۂ وقت کی دعاؤںنے دوبارہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لے آئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خدام الاحمدیہ کو فرمایا تھا کہ خداموں سے ملاقات اور especially جو young خدام ہیں ان سے حضرت صاحب کی ملاقات۔ ہم لوگ گروپس کی صورت میں [ملاقات]کرواتے تھے اور حضور ان سے ملتے تھے، ان سے بات چیت کرتے تھے۔ اور خلیفۂ وقت کی جو قوت قدسی اور اس کی صحبت ایک بہت مثبت اثر کرتی ہے۔ اور حضور کی ایک نصیحت یہ ہوتی تھی کہ کوشش کریں کہ لڑکے اچھی صحبت اختیار کریں اور اچھی صحبت میں رہیں۔ حضور یہ بھی فرماتے تھے کہ ان سے کہیں کہ انٹرنیٹ پہ اور آن لائن اور چیٹس پہ اور ویب سائٹس پہ فضول پروگرامز یا فضولیات یا ایسے لوگ جو فضول حرکتیں کرتے ہیں ان سے بچیں۔ وہ بھی بری صحبت میں آتے ہیں۔

حضرت صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ ایک سٹوڈنٹ حضرت خلیفہ اولؓ کے پاس آیا اور کہا کہ میرے دماغ میں دہریت کے خیالات بہت زیادہ آ رہے ہیں۔ لگتا ہے میں atheistہو رہا ہوں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ آپ جس جگہ پہ اپنی کلاس میں بیٹھتے ہیں، آپ کے ساتھ جو لڑکا ہے، اپنی سیٹ چینج کر لیں۔ تو کچھ عرصہ بعد ملے تو ان صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو کہا کہ حضور اب مَیں بہتر ہوں۔ اب میرے تصورات بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ بات یہ تھی کہ جس سٹوڈنٹ کے ساتھ وہ بیٹھتے تھے وہ atheistتھے اور بڑے ایکٹو atheist تھے۔ ان کے دل کے خیالات، اُن کی سوچ ان کے اندر ٹرانسفر ہو رہی تھی تو حضرت صاحب فرماتے تھے کہ صحبت کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے تو کوشش کریں کہ بچے اچھی مجلس اور اچھی صحبت میں رہیں۔

اور پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پوری دنیا کے بچوں سے، خداموں سے، خدام الاحمدیہ کی تنظیموں سے اور especiallyینگ (young)بچوں کے ساتھ ورچوئل ملاقاتیں فرما رہے ہیں۔ حضرت صاحب کی ملاقات اور حضرت صاحب کے ان کے ساتھ سوال و جواب اور صحبت میں بیٹھنے کا جو اثر ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اور جو personal experienceمجھے ہوا ہے کئی بچوں نے حضرت صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد شیئر بھی کیا کہ وہ ذاتی تعلق محسوس کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق بھی مضبوط ہوا ہے اس کے نتیجے میں۔

ایک اور بہت important بات حضور نے فرمائی کہ ایسے لوگوں سے جا کے ملیں جو جماعت سے کسی بھی لحاظ سے دور ہیں اور جن کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں، جماعت کے بارے میں یا خلافت کے بارے میں یا انبیاء کے بارے میں درست تصورات نہیں ہیں ان سے جا کے بات چیت کریں، ان کو وَن ٹو وَن لیول پہ جا کے سمجھانے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجےمیں بھی کافی فائدہ ہوا اور individually بھی لوگوں سے جب مختلف situations میں لوگوں کو کہا کہ جائیں خلیفۂ وقت کو دعا کے لیے کہیں، ان کو خط لکھیں تو لوگوں نے اپنی ذاتی پریشانیوںمیں، کسی کی نوکری نہیں تھی کسی کے examsتھے، بعض لوگوں کے کیسز پاس ہونے کے مسائل تھے یہاں پہ جب آئے تھے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگوں نے جب فرسٹ ہینڈ دعاؤں کی قبولیت کا experience کر لیا تو کئی لوگوں کا تعلق خدا تعالیٰ سے بڑھا۔

پھر حضرت صاحب کی ہدایت پہ ہم نے اجتماع پر تعلق باللہ پہ ایک پروگرام رکھا۔ ابھی بھی میرا خیال ہے کہ یہ پروگرام چل رہا ہے۔اس میں پھر پورے ملک کے خدام سے، ان کے ینگ (young)بچوں سے ان کے خدا سے تعلق کے حوالے سے بھی ذاتی واقعات پوچھے گئے تو کافی بڑی تعداد کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کسی نہ کسی رنگ میں تھا اور خدا کے ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے پر لوگوں کو یقین تھا۔ لوگوں نے اس کو experienceکیا ہوا تھا۔ تو یہ کافی ساری چیزیں تھیں۔

پھر حضرت صاحب کی ہدایت پر مختلف atheist سوسائٹیز کے ساتھ debateکرنے کا موقع ملا۔ حضرت صاحب ہماری ٹیمز کو individuallyملتے تھے اور ان کو نصائح فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ کسی طرح کا complex نہیں ہونا چاہیے۔کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کہیں پہ کوئی چیلنج کسی atheist کو دینا ہو تو وہ بھی آپ دے دیں کہ دعا اور تدبیر کے ذریعہ سے ہم اللہ تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کرتے ہیں۔ آپ کو اگرکوئی ڈیٹا یا سائنٹیفک طریقے سے اس کو پروف کروانے کے لیے کچھ چاہیےتو اس طرح بھی ہم کرنے کو تیار ہیں کیونکہ ویسٹرن سوسائٹی ہر بات پہ دلیل مانگتی ہے تو حضرت صاحب نے فرمایا ٹھیک ہے تدبیر تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس کے بعد دعا بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ کوئی ہمیں ڈیٹا دیں ہم ان دونوںذریعوں کو استعمال کر کے اس حساب سے آپ کو رزلٹ بتا سکتے ہیں، دکھا سکتے ہیں۔

پھر حضرت صاحب نے کئی نصائح کیں جن میں یہ بھی تھی کہ ان کے سوشل سائنٹسٹ بتاتے ہیں ناں کہ ہم نے یہ سروے کیا لوگوں نے یہ رسپانس دیا تو اگرآپ نے evidence اور ڈیٹاکو دیکھنا ہے تو اتنے لاکھوں کروڑوں لوگ جو ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں ان کا خدا سے تعلق ہے، صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور دعا کی قبولیت پہ، اللہ تعالیٰ کے ہونے پہ کئی لوگوںکے بیانات ہیں تو ان کو آپ کیوں نہیں مانتے۔ تو کافی confidentتھے ہمارے سٹوڈنٹس بھی اور ہمارے بچے بھی۔ اللہ کے فضل سے بڑی بڑی سوسائٹیز میں انہوں نے جا کر debatesکیں۔یہ تو نہیں ہم کہہ سکتے کہ وہ atheistخدا کو ماننے لگے لیکن بہرحال حضرت صاحب کی دعا اور راہنمائی سے الحمد للہ وہ چپ ضرور ہو گئے۔ اگر نہ بھی چپ ہوئے ہوں تو یہ بحث تو ختم نہیں ہو سکتی۔ لیکن بہرحال ان کو پتہ تھا کہ ایک strong community، جماعت احمدیہ ایک strong argument کے ساتھ، practical experienceکے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو تصور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے پیش کرتی ہے وہ کوئی اور لوگ پیش نہیں کر سکتے تو یہ confidence تھا جو حضرت صاحب نے یہاں کے بچوں کو دیا۔

ایک اور بات جو حضور کی نصائح میں سے مجھے یاد رہی ہے وہ حضور نے ایک مربی صاحب کو کی جنہوں نے فیلڈ میں جانا تھا اور خدا تعالیٰ کے تصور کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا۔ حضور نے ان سے کہا کہ دیکھیں جماعتی عہدیدار اور مربی سلسلہ کے طور پہ ایک بات آپ نے ہمیشہ یاد رکھنی ہے کہ دنیا میں آپ کی حکومت قائم نہیں ہونی، اللہ کی حکومت قائم ہونی ہے۔ بتانے کا سمجھانے کا ان کا مقصد یہ تھا کہ بعض اوقات ہم جو عہدیدار ہیں وہ زیادہ اس بات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ہمیں کیا عزت مل رہی ہے تو حضور نے فرمایا تھا کہ eventually حکومت اللہ ہی کی دنیا میں قائم ہونی ہے باقی آپ لوگوں نے صرف کوشش کرنی ہے کہ خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے اور یہ ایک بڑا اچھا پوائنٹ تھا جو ہم اپنے عہدیداروںکو بھی، تنظیموں میں بھی اور لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ جماعتی نظام کا کام یہ ہے کہ خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہو۔

ایک اَور سوال یہ ہے کہ youthکے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے تو آپ کیا ایڈوائس کر سکتے ہیں ایسوں کو جو immoral acts میں involve ہیں یا اللہ تعالیٰ سے دور ہیں۔ اس حوالے سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے ایک دفعہ ایک معاملہ پیش کرنے کا موقع ملا کہ اخلاقی لحاظ سے کچھ خدام بعض برائیوں میں ایسے involve تھے کہ ان کے لیے ان برائیوں میں سے نکلنابہت مشکل ہو رہا تھا۔ بظاہر وہ جماعتی طور پر involve بھی تھے، اللہ رسول پہ ایمان بھی لاتے تھے اور بعض ایسے تھے جو نہیں بھی لاتے تھے لیکن چاہتے تھے کہ وہ کوشش کریں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ سب سے پہلے ان کو یہ بتائیں جن کی خواہش ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں یا خدا تعالیٰ سے تعلق بن جائے یا اپنی برائیوں کو چھوڑ دیں کہ اپنے اندر سب سے پہلے strong will پیدا کریں، قوت ارادی مضبوط کریں، پہلے ارادہ کریں، strong ارادہ کریں کہ میں نے یہ کام نہیں کرنا۔ پہلے اپنے دل میں یہ نیت strongکریں پھر اپنی will powerکو strongکریں کہ خدا نخواستہ ایسے موقعے، ایسی situationsآئیں جن میں برائیوں میں جانے کا موقع ہو تو ان برائیوں سے رکیں اور اس کے ساتھ ساتھ بہت کثرت کے ساتھ استغفار پڑھیں اور استغفار پڑھنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور سپورٹ مانگیں ۔ لیکن اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ آپ برائی میں گریں پھر استغفار پڑھیں پھر کہہ دیں کہ ٹھیک ہے میں نے برائی کی تو معافی مانگ لی، دوبارہ برائی میں مَیں گر جاتا ہوں برائی سے آپ نہیں نکل سکیں گے۔ برائی سے نکلنے کے لیے استغفار پڑھنے کے ساتھ ساتھ دل میں ایک مضبوط قوت ارادی کے ساتھ آپ نے دوبارہ وہ کام نہیںکرنا۔ وہ ایک بہت بڑا factor ہو گا اگر آپ سنجیدہ ہیں اور وہ کام کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کوئی بھی چیز effort کے بغیر نہیں ملتی۔ اگر کسی نے پڑھائی کرنی ہے، exam دینے ہیں، جو بھی بننا ہے پڑھنا پڑے گا ، جو بھی دنیا میں کرنا ہے، سپورٹس کرنی ہیں، effort ہے، کوشش ہے، محنت ہے اس کے بغیر نہیں ہوتی۔ تو اللہ تعالیٰ کے حوالے سے اس چیز کو بہت زیادہ easy نہیں لینا چاہیےکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہمیں بغیر کسی کوشش کے ہو جائے گا، کوئی بات نہیں۔ اس میں بھی بہرحال ایک کوشش کرنی پڑے گی اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم تھوڑی کوشش کرو میں تمہاری کوشش میں برکت ڈال دوں گا۔ تم ایک step آگے آؤ گے میں دو steps آگے آؤں گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بار بار فرمایا ہے کہ تم تھوڑا سا آگے آؤ گے مَیں اس سے بڑھ کر تمہارے پاس آؤں گا تو حضور نے فرمایا تھا effortتوبہرحال کرنی پڑے گی، will power دکھانی پڑے گی، برائی سے رکنا پڑے گا۔ اگر یہ نہیں کریں گے تو پھر اس طرح تو انسان کی اصلاح کبھی بھی نہیں ہو سکتی۔

دوسری بات یہ کہ یہ کیسےہو سکتا ہےکہ خدا تعالیٰ سے لوگوں کا تعلق اچانک قائم ہو جائے؟تو اس کے لیے سب سے پہلے تو یہ ہے کہ بعض اوقات میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ ان کے ساتھ زندگی میں کوئی ایسی باتیں یا ایسے واقعات ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف آ گئے۔ تو اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے یا خدا تعالیٰ چاہے جس کے ساتھ وہ تعلق قائم کرنا چاہےاس کو سنبھالنا اور سمجھاناچاہے۔ بعض کے ساتھ ایسے حالات اور واقعات پیش آ جاتے ہیں کہ وہ اپنی پرانی زندگی اور برائی کی زندگی سے نکل جاتے ہیں لیکن جو بدنصیب ہوتے ہیں، جنہوں نے نہیں نکلنا وہ پھر نہیں نکلتے۔ اس کا تو انسان کے پاس کوئی حل نہیں، کوئی کوشش ان کا کچھ کر نہیں سکتی لیکن بہرحال حضور کی نصیحت یہ تھی کہ نئے نئے طریقے ڈھونڈیں، راستے ڈھونڈیں اور جن سے آپ ایسے لوگوں تک approachکریں اور ان کو نئے طریقوں سے approachکریں کہ وہ اب جماعت کے قریب ہو جائیں۔

ایک نصیحت جو حضور نے ہمیں جماعتی لحاظ سے، انتظامی لحاظ سے فرمائی کہ نئے طریقے کرتے رہیں، سوچتے رہیں جن کے ذریعہ سے ہم ایسے دور ہٹے ہوئے لوگوں کا جن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں ہے یا جو خدا پہ یقین نہیں رکھتے اور جماعتی نظام سے دور ہیں ان کو جماعت کے قریب لے کے آئیں۔ تو اس کے لیے حضرت صاحب کی نصیحت یہ تھی کہ ایسے مضبوط احمدی جو اُن کے ہم عمر بھی ہوں اور کچھ کامن انٹرسٹ (common interest)ان کے ہوں جیسے سپورٹس ہے یا بعض ایسی activities ہیں، outdoor activities ہیں ان کے ذریعہ سے ان کو قریب لانے کی جماعتی کوشش کریں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ صحبت کا اثر ہوتا ہے تو وہ بھی اللہ کے فضل سے بعض کوششیں کی ہیں ۔ابھی بھی ہو رہی ہیں وہ کوششیں جن کے ذریعہ سے ایسے دور ہٹے ہوئے خدام قریب بھی آئے ہیں اور اس کے بعد مزید جماعت میں involve ہوئے ہیں، کاموں میں آگے بڑھے ہیں اور انہوں نے ترقی بھی کی ہے۔ بعض تھوڑی دیر کے لیے قریب آئے پھردوبارہ پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ تو ایک مستقل effort ہے جو خلیفۂ وقت کی نگرانی میں اور اُن کی ہدایات کی روشنی میں جماعت مستقل کرتی رہتی ہے۔ جزاک اللہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button