کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے

اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیزہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تودل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آ تی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اوریہی ایک مشکل امر ہے اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتاہےبدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیزہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پرکیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرماں برداری کے اصول کو اختیار نہ کرے۔ اوراگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں۔ مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اوراندرونی تنازعات بھی ہیں پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اورایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا ا للہ تعالیٰ نے حکم دیاہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سرّہے اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتاہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھےخدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالاہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتاہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اُس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا۔ ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے اور آپ کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے اگر ان میں یہ اطاعت ،یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتااورپھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے۔ میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لیے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ،ہاں باہم کسی قسم کی پھوٹ اورعداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پردلالت کررہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوارکے زور سے پھیلایا گیا مگرمَیں کہتاہوں یہ صحیح نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریزہوکربہ نکلی تھیں یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا۔میرا تو یہ مذہب ہے کہ وہ تلوار جو ان کو اٹھانی پڑی وہ صرف اپنی حفاظت کے لیے تھی ورنہ اگر وہ تلوار نہ بھی اٹھاتے تو یقیناً وہ زبان ہی سے دنیا کو فتح کر لیتے۔

سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل

انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا اس میں کوئی تکلف اور نمائش نہ تھی ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھیرا۔ یہ سچی بات ہے کہ صادق اپنے صدق کی تلوار ہی سے کام لیتا ہے۔ آپ( پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم) کی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھاہواتھااورجو جلالی اور جمالی رنگوں کو لیے ہوئے تھی اس میں ہی ایک کشش اورقوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچے لیتے تھےاور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کران کی طرف چلا آتاتھا۔ غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعو د کے ہاتھ سے طیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لیے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلاکر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو۔باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔

(الحکم جلد 5نمبر 5 مورخہ 10؍فروری 1901ء صفحہ 2،1 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ317تا319۔زیر سورۃ النساء آیت 60)

اطاعت ایک بڑا مشکل امر ہے۔ صحابہ کرامؓ کی اطاعت، اطاعت تھی کہ جب ایک دفعہ مال کی ضرورت پڑی تو حضرت عمرؓ  اپنے مال کا نصف لے آئے اور ابو بکرؓ اپنے گھر کا مال و متاع فروخت کر کے جس قدر رقم ہو سکی لے آئے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر سے سوال کیا کہ تم گھر میں کیا چھوڑ آئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نصف۔ پھر ابو بکرؓ سے دریافت کیا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول گھر چھوڑ آیا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس قدر تمہارے مالوں میں فرق ہے اسی قدر تمہارے اعمال میں فرق ہے۔

کیا اطاعت ایک سہل امر ہے؟ [الحکم میں ہے: اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں۔ یہ بھی ایک موت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔(الحکم جلد 6 نمبر 39صفحہ 10مورخہ 31؍اکتوبر 1902ء)] جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔ حکم ایک نہیں ہوتا بلکہ حکم تو بہت ہیں جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو۔

(ملفوظات جلد 2صفحہ 410تا411۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button