اداریہ

اللہ اور رسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے…

’’نبی جو کہے گا معروف ہی کہے گا ۔اس کے علاوہ سوال ہی نہیں کہ کچھ کہے ۔
اس لئے قرآن شریف میں کئی مقامات پر یہ حکم ہے کہ اللہ اوررسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے…‘‘

خلافت کے زیرِ سایہ ترقی محض زبانی جمع خرچ نہیں۔ جس طرح قرآنِ کریم ہر ضروری امر سے متعلق ہدایت کا سرچشمہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا خلیفہ فی زمانہ ہر ضروری معاملے میں اپنے پیروکاروں کی راہنمائی کا منبع ہے۔ ہر دو کی اطاعت انسان کی اجتماعی و انفرادی، روحانی و مادی ہر قسم کی ترقی کی ضامن ٹھہرائی گئی ہے۔ بعض لوگ خلیفۂ وقت کی بیعت کرتے ہیں، یعنی اپنا آپ اس کو بیچ دیتے ہیں، اسے سونپ دینے کا دم بھرتے ہیں اور پھر بزعمِ خود اپنا حق کچھ ’محفوظ‘ بھی رکھتے ہیں کہ ہم حکمِ خداوندی کے تحت صرف ‘معروف’ میں ہی خلیفۂ وقت کی اطاعت کریں گے، گویا خدا کا انتخاب غیرمعروف حکم بھی دے سکتا ہے(نعوذباللہ)۔ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتاہے کیا وہ بھی ایسے احکامات دے سکتاہے جو غیر معروف ہوں۔ اور اگر نبی کرسکتا ہے تو ظاہر ہے پھر خلفاء کے لئے بھی یہی ہوگا کہ وہ بھی ایسے احکامات دے سکتے ہیں جو غیر معروف ہوں۔ اس بارہ میں واضح ہو کہ نبی کبھی ایسے ا حکامات دے ہی نہیں سکتا۔ نبی جو کہے گا معروف ہی کہے گا۔اس کے علاوہ سوال ہی نہیں کہ کچھ کہے۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی مقامات پر یہ حکم ہے کہ اللہ اوررسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے، انہیں بجا لاناہے۔ کہیں نہیں لکھاکہ جو معروف حکم ہوں اس کی اطاعت کرنی ہے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ دو مختلف حکم کیوں ہیں۔ یہ اصل میں دو مختلف حکم نہیں ہیں، سمجھنے میں غلطی ہے۔جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ نبی کا جو بھی حکم ہوگا معروف ہی ہوگا۔اور نبی کبھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف،شریعت کے احکامات کے خلاف کرہی نہیں سکتا۔ وہ تو اسی کام پر مامور کیاگیاہے۔توجس کام کے لئے مامور کیاگیاہے، اس کے خلاف کیسے چل سکتاہے۔یہ تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ تم نے نبی کو مان کر،مامور کو مان کر،اس کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیاہے، تم محفوظ ہو گئے ہو۔کہ تمہارے لئے اب کو ئی غیر معروف حکم ہے ہی نہیں۔جو بھی حکم ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہے۔‘‘

فرمایا ’’جب نبی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتاہے، وہی احکامات دیتاہے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے۔بری باتوں سے روکتا ہے، نیک باتوں کا حکم دیتاہے اور ان سے پرے ہٹ ہی نہیں سکتا۔ تو خلیفہ بھی جو نبی کے بعد اس کے مشن کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ایک جماعت کے ذریعہ مقرر کردہ ہوتاہے وہ بھی اس تعلیم کے انہی احکاما ت کو آگے چلاتاہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کے ذریعہ ہم تک پہنچائے۔ اوراس زمانہ میں آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت کرکے ہمیں بتائے تو اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضرتﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہوچکاہے اورانشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک قائم رہے گا ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں۔اگر کسی وقت خلیفۂ وقت کی غلطی سے یا غلط فہمی کی وجہ سے کوئی ایسا فیصلہ ہو جاتاہے جس سے نقصان پہنچنے کااحتمال ہو تو اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان پیدا فرما دیتاہے کہ اس کے بدنتائج کبھی بھی نہیں نکلتے اور نہ انشاء اللہ نکلیں گے۔……

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تفسیر میں لکھاہے کہ دعوے تو منافق بھی بہت کرتے ہیں۔اور اصل چیز تو یہ ہے کہ عملاً اطاعت کی جائے اورمنافقوں کی طرح بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کی جائیں۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے فرمارہاہے کہ جو معروف طریقہ ہے اطاعت کا،جو دستورکے مطابق اطاعت ہے، وہ ا طاعت کرو۔نبی نے تمہیں کو ئی خلاف شریعت اور خلاف عقل حکم تو نہیں دینا جس کے بارہ میں تم سوال کر رہے ہو۔ اس کی مثال مَیں دیتاہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میری بیعت میں شامل ہوئے ہو اور مجھے مانا ہے تو پنج وقتہ نماز کے عاد ی بن جائو،جھوٹ چھوڑ دو، کبر چھوڑ دو، لوگوں کے حق مارنا چھوڑ دو،آپس میں پیار ومحبت سے رہو، تویہ سب طاعت در معروف میں ہی آتاہے۔ یہ کام کوئی کرے نہ اور کہتے پھرو کہ ہم قسم کھاتے ہیں کہ آپ جو حکم ہمیں دیں گے ہم اس کو بجا لائیں گے اور اسے تسلیم کریں گے۔اسی طرح خلفاء کی طرف سے مختلف وقتوں میں مختلف تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں۔روحانی ترقی کے لئے بھی جیساکہ مساجد کو آباد کرنے کے بارہ میں ہے، نمازوں کے قیام کے بارہ میں ہے،اولاد کی تربیت کے بارہ میں ہے، اپنے اندر اخلاقی قدریںبلند کرنے کے بارہ میں، وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارہ میں، دعوت الی اللہ کے بارہ میں،یا متفرق مالی تحریکات ہیں۔ تو یہی باتیں ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں طاعت در معروف کے زمرے میں یہی باتیں آتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ ستمبر 2003ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 21؍ نومبر 2003ء صفحہ 5، 6)

اللہ تعالیٰ ہمیں بشاشتِ قلبی کے ساتھ اپنے پیارے کی کامل اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button