پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (قسط دوم)

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

سکول ہوم ورک کے ذریعے ننھے اذہان کی برین واشنگ!

ڈگری گھمناں، ضلع سیالکوٹ(جولائی2020ء): ضلع سیالکوٹ میں موسمِ گرما کی تعطیلات کی وجہ سے تمام سکول بند تھے اور ’’دی ایجوکیٹرز‘‘ سکول عمر کیمپس بن باجوہ میں طلبا ءکو چھٹیوں کے لیے ہوم ورک دیا گیا تھا۔ اس ہوم ورک میں ایک متعصب استاد کی طرف سے طلباءکے لیے ختم نبوت کے موضوع پر ایک سوال نامہ دیا گیا۔اس سوال نامے میں بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف انتہائی ہتک آمیز زبان کا استعمال کیا گیا۔

ان سوالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اتنے بے ہودہ اور آزار دہ الفاظ کا بے دریغ استعمال کر کے بچوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم ان سوالات یا اُن کے الفاظ کو یہاں نقل کرنے یا بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

احمدی والدین نے اس سوال نامے کے بعد اپنے بچوں کو اس سکول میں بھجوانے سے معذرت کرلی۔ سکول پرنسپل کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے احمدی والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اس سوال نامے کو پھاڑ کر پھینک دیں حالانکہ مناسب تو یہ تھا کہ پرنسپل صاحب ایسے مفسد ’استاد‘ کو نوکری سے برخاست کردیتے۔

احمدیوں کو کرکٹ ٹورنامنٹ سے مذہبی تعصّب کی بنا پر نکال دیا گیا!

اٹک ، پنجاب ( جولائی 2020ء) : سلیم نثار، اشفاق میموریل ٹیپ بال کرکٹ ٹورنامنٹ کے منتظمین نے مذکورہ ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لیے عید کے بعد چھٹیوں کا انتخاب کیا اور انہیں تاریخوں کے لیے اس ٹورنامنٹ کو مشتہر کیا گیا۔ کرکٹ ٹورنامنٹ کی مشہوری کے لیے جو اشتہار عوامی جگہوں پہ لگایا گیا اس اشتہار کے آخر پر نمایاں الفاظ میں یہ لکھا ہوا تھا:’’ہمارے ٹورنامنٹ میں قادیانیوں کو شامل نہیں کیا جائے گا‘‘۔مندرجہ بالا اشتہار میں اس بات کا بھی خاص طور سے ذکر کیا گیا تھا کہ یہ ٹورنامنٹ سردار مظہر خان، سردار امجد خان، اور سردار حیدر علی خان کی زیر سرپرستی منعقد ہورہا تھا۔علاوہ ازیں، طاہر ملک، ڈاکٹر خالد محمود، اور ملک فیاض نامی افراد و دیگر اپنی’’خاص حمایت‘‘ کی وجہ سے مذکور تھے۔ یاد رہے کہ یہ ٹورنامنٹ اسی اٹک شہر میں منعقد ہورہا ہے جہاں چند ماہ قبل ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر جنت حسین اقلیتوں کے حق میں بیان دینے کی وجہ سے تعصب کا شکار بنی تھی۔

افسوسناک سچ تو یہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف متعصبانہ رویوں کو فروغ دینے والے اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ ایسا کرکے وہ بعض دیگر ممالک کی جانب سے کیے جانے والے اقلیتوں پہ مظالم کی تحریک کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔

انتظامیہ ایک بار پھر ’’اسلامی نظام‘‘کو ترویج دیتی رہی!

بدو ملہی، ضلع نارووال (22؍جولائی 2020ء): احمدی والدین کا 15سالہ لڑکا اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے ورغلانے پر پولیس کے پاس ’’اسلام قبول‘‘ کرنے پہنچ گیا۔ انتظامیہ واضح طور پر (غیر احمدی) رشتہ داروں کی طرف داری کرتی نظر آرہی ہے۔ منیب احمد ولد بشیر احمد اپنے والد اور دادی کے ساتھ رہ رہا ہے جبکہ اس کی والدہ کی وفات کچھ عرصہ قبل ہوئی ہے۔ بشیر احمد نے اپنے بیٹے منیب کو اپنے بھائی یعنی منیب کے چچا کی دکان پر ملازم لگوایا تھا۔ بشیر احمد کا بھائی یعنی منیب کا چچا شفیق احمد، احمدی نہیں ہے۔

اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شفیق احمد نے اپنے بھتیجے منیب احمد کو ’’اسلام کی تبلیغ‘‘کرتے ہوئے اسے اپنے والد سے دُور کردیا۔ اس پر والد بشیر احمد نے بدو ملہی پولیس کو درخواست کی کہ وہ غیر احمدی رشتہ داروں سے اس کے بیٹے کو چھڑوا کر اُسے واپس دلوا دیں۔ ملزم شفیق احمد نے جواباََ پندرہ سالہ منیب احمد سے ایک درخواست لکھوائی جس میں من گھڑت دعوے کرتے ہوئے اُس سے یہ ’’اعتراف‘‘ کروایا گیا کہ احمدی اسے ٹارچر کرتے تھےجو ایک سفید جھوٹ تھا۔

پولیس نے معاملے کو دیانت داری سے سلجھانے کی بجائے ’’اسلام کے مفاد‘‘میں واضح طور پر غیر احمدی رشتہ داروں کی طرف داری دکھائی۔اب یہ معاملہ سیشن کورٹ تک جا پہنچا ہے اور عدالت کے تمام افراد اسلامی جمہوریہ کے سرکاری ملازمین ہیں۔

احمدیوں کو یہ خطرہ بھی لاحق رہا کہ ملا اس واقعے کو بھڑکا کر کوئی اَور فرقہ وارانہ رنگ دے سکتے تھے۔

اصولی بات یہ ہے کہ منیب احمد اس وقت پندر ہ برس کا ہے اور قانونی طو پر نابالغ ہے۔ اس لیے اسے فی الفور اپنے والد بشیر احمد کی سرپرستی میں واپس لوٹانا چاہیے۔ جہاں تک اس کے مذہبی عقائد کا تعلق ہے، تو اس کا فیصلہ منیب احمد بالغ ہونے کے بعد خود کرنے کا مجاز ہوگا۔

شہری انتظامیہ متعصبین و معاندین کی برملاحمایت کرتی ہے!

میادی نانو، ضلع نارووال(جولائی 2020ء): اس علاقے میں شام کے وقت پولیس کے بعض افراد مقامی مسجد کا جائزہ لینے آئے۔ ان پولیس والوں نے بعض ’’ایجنسیوں کی رپورٹس‘‘ کا ذکر کیا جس کے مطابق احمدیوں نے مسجد کے اندر کلمہ طیبہ اور قرآن شریف کی آیات لکھ رکھی ہیں۔ مزید برآں، یہ بھی کہ احمدیوں نے مسجد کے مینارے تعمیر کیے ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ احمدی لاؤڈ سپیکر پر اذان دیتے ہیں جس پر مسجد کے پاس رہنے والی مسلمان آبادی کو اعتراض ہے۔

اس پر پولیس والوں کو بتایا گیا کہ یہ مسجد عرصہ پینسٹھ سال قبل تعمیر کی گئی تھی اوراس میں نہ اذان لاؤڈ سپیکر پر دی جاتی ہے نہ ہی خطبہ جمعہ۔ احمدیوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے اہل سنت مسلمانوں سے بہت خوشگوار مراسم ہیں۔ چنانچہ پولیس نے دونوں گروہوں کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا۔

اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اس واقعے سے پہلے بھی ضلع نارووال کی پولیس نے احمدیوں کی دیگر مساجد پر بھی اسی طرح سوالات کیے ہیں۔ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات پر احمدیوں کو تنگ کرنا انتظامیہ کا معمول بنتا جارہا ہے۔

احمدیوں کے خلاف ملکی عدالت کا متعصبانہ رویہّ!

لاہور(جولائی 2020ء): روحان احمد سمیت جماعت احمدیہ پاکستان کی سینئر قیادت کے خلاف ربوہ میں تعزیرات پاکستان 298-C,، 295-B، 120-B، 109، 34، PECA-11،کے تحت ایک FIR نمبر 29 FIA سائبر کرائم لاہور میں 26؍مئی 2020ء کو درج کی گئی۔یاد رہے کہ 298-C ایک احمدیہ مخالف تعزیری شق ہے جبکہ 298-Bتوہین مذہب کی شق ہے۔ روحان احمد کو 27؍مئی 2020ء کو گرفتار کرلیا گیا اور آپ تاوقت تحریر کوٹ لکھپت جیل، لاہور میں قید ہیں۔اگر ان پر لگا الزام ثابت ہوگیا تو روحان سمیت تمام نامزد ملزمان جو اس معاملے میں شریک تھے کو عمر قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد کی درخواست ضمانت جسٹس مصباح خان کی عدالت میں ہونا تھی مگر معزز جج صاحبہ کے 15؍ اگست تک چھٹیوں پر ہونے کی وجہ سے درخواست ایک اَور جج نعیم شیخ جو کہ سائبر کرائم عدالت میں یڈیشنل سیشن جج ہیں، کی زیر سماعت ہوئی۔ 7؍ جولائی 2020ء کو ہونے والی سماعت میں فریقِ مخالف کی طرف سے 15 سے زائد وکلاء اور کئی مُلّا ں، کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جج کے رویّہ سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ دباؤ میں ہے۔

جج فیصلہ اُسی روز سنانا چاہتا تھا لیکن احمدیوں کے وکیل نے استدعا کی کہ چونکہ FIAنے دو ملزمان عثمان ملک اور حافظ طارق شہزاد کے اس مقدمہ میں ملوث ہونے کی بابت کوئی ٹھوس شواہد یا کارروائی نہیں کی اس لیے فیصلہ کی تاریخ بعد میں مقرر کی جائے۔چنانچہ جج نے فیصلہ کے لیے 9؍ جولائی کا دن مقرر کردیا۔

8؍ جولائی 2020ء کو FIA لاہور نے ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد کو اپنے دفتر بلا کر تفتیش کی جو کہ 4گھنٹوں تک جاری رہی۔9؍جولائی 2020ء کو دونوں ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت کے اعلانیہ تعصب کے خطرے کے پیش نظر ملزمان کے وکیل نے کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی۔

16؍جولائی 2020ء کو جج نے منتقلی عدالت کی درخواست مسترد کردی۔اور اسی دن شام کو درخواست ضمانت پر فیصلہ متوقع تھا۔عدالت کے اندر اور باہر وکلاء اور ملاؤں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی اور کسی ناخوشگوار واقعے کا شدید خطرہ تھا۔ علاوہ ازیں، عدالت سے بھی ضمانت ملنے کی توقع نہیں تھی۔ ان حالات کے تناظر میں ملزمان عدالت میں پیش نہ ہوئے اور جسٹس نعیم شیخ نے عدم حاضری کی بنا پر درخواست ضمانت خارج کردی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button