متفرق مضامین

چودھری محمد علی صاحب (نمبر 7)

(‘ابن طاہر’)

تعلیم الاسلام کالج قادیان میں تقرر اور کالج کے ابتدائی ایام

پچھلے باب میں ذکر ہوچکا ہے کہ تعلیم الاسلام کالج قادیان کے قیام پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے چودھری محمد علی صاحب کو فلسفہ کا لیکچرر مقرر کردیا تاہم کیا آپ کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ فلسفہ کے استاد کے طور پر فی الاصل ایک اور احمدی دوست کا تقرر ہوچکا تھا جو علی گڑھ کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ بقضائے الٰہی اچانک وفات پاگئے جس کی وجہ سے یہ پوسٹ خالی ہوگئی۔ کالج کمیٹی نے صورتِ حال پر غور کے بعد مرحوم کی جگہ چودھری محمد علی صاحب کے تقرر کا فیصلہ کرکے انہیں الفضل میں ایک اشتہار کے ذریعہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحبؒ، پرنسپل سے رابطہ کی ہدایت کی اگرچہ یہ اشتہار فوری طور پر چودھری محمد علی صاحب کی نظر سے نہ گزر سکا۔

ملاحظہ ہو تفصیل اس اجمال کی چودھری محمد علی صاحب ہی کی زبانی:

’’جب میں نے حضور کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کی درخواست پیش کی تو اس وقت میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرا تقرر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں ہوجائے گا کیونکہ وہاں پر فلسفہ کے لئے عبدالعزیز حقّانی کا تقرّر بھی ہو چکا تھا تاہم ان کی اچانک وفات کی وجہ سے جگہ خالی ہوگئی۔ کالج کے لیے فلسفہ کے لیکچرر کی ضرورت تھی اور میں نے اس مضمون میں ایم اے کا امتحان دے رکھا تھا۔ کالج کمیٹی نے میری موزُونیت کے بارے میں غور کیا ہوگا چنانچہ کسی نے مجھے بتایا کہ میرے متعلق سیکرٹری کالج کمیٹی کی طرف سے الفضل میں ایک اعلان شائع ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجھے کالج میں فلاسفی کا لیکچرر مقرر کردیاہے لہٰذا مجھے فوری طور پر کالج کمیٹی سے رابطہ کرنا چاہیے۔

یاد رہے کہ جب قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کے احیا کا فیصلہ ہوا تو جملہ معاملات کی نگرانی کے لیے حضورؓ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے سربراہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تھے اور جس کے اراکین میں استادِ محترم، قاضی محمد اسلم کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحبؒ، حضرت مولوی محمد دین صاحب اور حضرت ملک غلام فریدصاحبؓ شامل تھے۔ یہ کمیٹی کالج کے معاملات کی حد تک خودمختار تھی اور صدرانجمن احمدیہ سے الگ اپنے تمام معاملات خود ہی طے کرتی تھی۔

میں اس سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے صرف ایک بار ملا تھا اور یہ ملاقات آپ کے کسی صاحبزادے کے توسط سے ہوئی تھی۔مجھے اس ملاقات کی تفصیلات تو یاد نہیں ہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ میں کچھ دیر آپ کے ساتھ ٹہلتا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے مجھے اس ملاقات میں آپ کے ساتھ گفتگو کا موقع کم ملا ہو کیونکہ بعد میں آپ نے کسی سے میرے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے منہ میں تو زبان ہی نہیں ہے۔

یہ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ سے میری دوسری ملاقات تھی لیکن میں آپ سے کیا ملا ،ساری عمر کے لیے آپ کا غلام ہوگیا۔ آپ نے مجھے اتنی محبت اور اپنائیت سے نوازا کہ ہمارے درمیان کوئی فاصلہ ہی نہیں رہا حتیٰ کہ آہستہ آہستہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ میں جب چاہوں آپ سے مل سکتا ہوں اور آپؓ کا کمال یہ تھا کہ میری ذرا ذرا سی بات بھی بڑی توجہ سے سنتے تھے۔ ہوسٹل کا بجٹ علیحدہ ہوتا تھا اور آپ ہی اسے پاس کرتے تھے لہٰذا بعد میں آپ سے بکثرت ملاقات رہنے لگی۔ الغرض جب میں آپؓ سے ملا تو آپ نے مجھے تقرری کا خط دے دیا۔ فیصلے تو حضورؓ کے ہوتے تھے۔ حضور ؓسے میرا پہلے ہی تعارف تھا۔ اب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے بھی ہوگیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں فوری طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ جنہیں اس کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیاتھا سے مل لوں۔

جب میں نے جاننا چاہا کہ موصوف کا دفتر کہاں ہے تو مجھے بتایا گیا کہ فی الحال ان کا باقاعدہ دفتر کوئی نہیں ہے، وہ مغرب کی نماز مسجد مبارک میں ادا کرتے ہیں اور اگر میں چاہوں تو وہیں ان سے ملاقات کر سکتا ہوں۔ میں ان سے ملا۔ میرا کسی کالج کے پرنسپل کے بارے میں تصور ہی کچھ اور تھا۔ میرے خیال میں تو انہیں سُوٹڈ بُوٹڈ ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ مجھے آپ سے اپنی یہ ملاقات آج بھی یاد ہے۔ آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس زمانے میں میاں صاحبؒ مردانہ وجاہت کا کیسا حسین نمونہ تھے۔ آپ کی ڈاڑھی سیاہ نہیں، سنہری تھی۔ سر کے بال بھی سنہری تھے اور آپ نے کالر کے بغیر کرتہ پہنا ہوا تھا۔ بعض باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔ اس کرتہ میں باریک لکیریں بھی تھیں۔

خیر میں نے جاکر اپنا نام بتایا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خط آپ کو دیا تو فرمانے لگے :اچھا! آپ آگئے ہیں۔ کچھ رسمی باتیں ہوئیں لیکن چونکہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے اور نماز کھڑی ہونے والی تھی لہٰذا زیادہ بات چیت نہیں ہوئی۔ ہاں! مجھے یہ ضرور بتا دیا گیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجھے ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ بھی مقرر کیا ہے لہٰذا میں فوری طور پر گیسٹ ہائوس جسے اس وقت تک ہوسٹل کا درجہ دیا جا چکاتھا منتقل ہوجائوں۔

حسبِ ہدایت میں دارالضیافت سے گیسٹ ہائوس منتقل ہوگیا جو اس وقت بالکل خالی پڑا ہوا تھا۔اس کے پچھلے حصہ میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی رہائش ہوا کرتی تھی۔اس میں ایک غسل خانہ تھا جو اَب غسل خانہ کے طور پر استعمال نہیں ہو رہا تھا۔ یہی غسل خانہ میرا بیڈروم قرار پایا۔ میرے پاس ایک چادر تھی۔ میں اسے فرش پر بچھا کر لیٹ جاتا تھا۔ جوانی تھی اس لیے تکیے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی تھی۔ پھر لڑکے آنے شروع ہوگئے۔ ان میں سے بعض چھ چھ فٹ کے جوان تھے جو مختلف دیہات سے آئے تھے اور عمر کے بھی کچھ زیادہ معلوم ہوتے تھے۔ دیہات میں تعلیم کا باقاعدہ آغاز ذرا دیر سے ہوتا ہے اور ان کی عمریں زیادہ ہونے کی بظاہر وجہ یہی تھی۔

تعلیم الاسلام کالج کا ہوسٹل قائم ہوا تو سوچا جانے لگا کہ اس کا نام کیا رکھا جائے۔طے ہوا کہ اس کا نام فضل عمر ہوسٹل ہو لیکن اس کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی منظوری ضروری تھی۔ہم نے حضورؓ سے پوچھا تو آپ نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمادی۔ کچھ ہی عرصہ جب قادیان میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر عبدالاحدچاہتے تھے کہ ہم انہیں اس کا نام فضلِ عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ رکھنے دیں اور ہوسٹل کے لیے کوئی او رنام چن لیں تاہم ہم بھی ایسی کچی گولیاں نہ کھیلے ہوئے تھے کہ ان کا کہا مان جاتے۔ میرے انکار پر انہوں نے حضور ؓکو خط لکھا تو جواب آیا کہ ہوسٹل والوں نے اپنا نام پہلے رکھ لیا ہے لہٰذا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا البتہ اس انسٹیٹیوٹ کا نام بھی فضلِ عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ رکھ لیا جائے۔

ہوسٹل نیا نیا کھلا تھا اس لیے کھانا پکانے کا کوئی انتظام نہ تھا چنانچہ کھانا حسبِ ضرورت لنگرخانہ سے آیا کرتا تھا۔ان دنوں حضرت اماں جانؓ اپنی خادمات کی معیت میں روزانہ گیسٹ ہائوس کے سامنے سے گزر کر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی کوٹھی جو’’بیت النصرت‘‘کہلاتی تھی تشریف لے جایا کرتی تھیں۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو سلام پیش کیا جائے چنانچہ ایک روز ہم بڑے مؤدب ہوکر سڑک پر قطار بنا کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت اماں جانؓ وہاں سے گزریں تو ہم نے سلام کیا۔ آپ رک گئیں۔ بہتوں کا تو چہرہ دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا کہ وہ فلاں کے بیٹے ہیںاور تعارف کرانے پر باقیوں کو بھی پہچان لیا۔ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ تمہاری والدہ کا کیا نام ہے۔ میں نے بتایا آپ ان سے واقف نہیں کیونکہ وہ غیراحمدی ہیں۔آپؓ نے پوچھا تمہارے کھانے کا کیا بندوبست ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کھانا لنگرخانہ سے آتاہے۔ابھی ہم نے اپنے برتن نہیں خریدے۔ اگلے روز ہم کیا دیکھتے ہیں کہ برتن آرہے ہیں بڑے دیگچے، چھوٹے دیگچے، ان سے چھوٹے دیگچے،پراتیں، پلیٹیں، جگ اور گلاس۔ اس وقت تک میں نے پریشر ککّر دیکھا بھی نہیں ہوا تھا لیکن ان برتنوں میں ایک پریشر ککّر بھی تھا جس میں تین خانے تھے گویا اس میں بیک وقت تین کھانے پک سکتے تھے۔سب برتنوں پر آپ کا نام یعنی ’’نصرت جہاں بیگم‘‘کندہ تھا۔ہم نے لمبا عرصہ ان برتنوں میں کھانا پکایا اور کھایا۔جب ان برتنوں کی واپسی کا وقت آیا تو ہماری نیت خراب ہوگئی۔ سوچا کہ ہم تبرک کے طور پر ایک ایک برتن رکھ لیتے ہیں چنانچہ میں نے میاں صاحب سے عرض کی میاں صاحب! جی تو چاہتا ہے کہ یہ برتن ہم رکھ لیں لیکن مجبوراً واپس کر رہے ہیں۔ آپ نے مسکرا کر میری جانب دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا۔

ابتداءً ہوسٹل میں زیادہ لڑکے نہیں تھے چنانچہ ترجمۃالقران کا دفتر بھی یہیں ہوا کرتاتھا۔اس دفتر میں روزانہ آنے جانے والوں میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کے علاوہ مولانا محمد احمد جلیل صاحب شامل تھے۔ یوں ہی یاد آگیا ہے کہ مولانا کا قد زیادہ لمبا نہ تھا جب کہ پرویز پروازی صاحب کے والدِبزرگوار، احمد خان نسیم صاحب ماشاء اللہ بہت دراز قد تھے۔ یہ دونوں آپس میں بھی دوست ہوں گے لیکن وہ پیر صلاح الدین صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ مولانا محمد احمد جلیل صاحب نے یہ بات مجھے خود سنائی کہ ایک بار وہ پیر صلاح الدین صاحب سے ملنے ان کی کوٹھی پر گئے تو ان کے آدمی نے انہیں اپنا تعارف کرانے کو کہا۔ انہوں نے کہا:پیر صاحب کو بتا دیں مولوی صاحب آئے ہیں۔ پیرصلاح الدین سمجھ نہ پائے کہ کون سے مولوی صاحب آئے ہیں چنانچہ انہوں نے دریافت کیا:کون سے مولوی صاحب؟ لمبے یا چھوٹے۔ مولانا کہتے ہیں: میں نے جواباً کہا: چھوٹے نہیں بلکہ بہت ہی چھوٹے۔ پیرصلاح الدین صاحب سمجھ گئے کہ محمد احمد جلیل صاحب آئے ہیں چنانچہ وہ باہر نکلے اور انہیں اپنے ہمراہ اندر لے گئے۔

بعد میں یہ دفتر حضور کی کوٹھی دارالحمدمیں شفٹ ہوگیا جو قریباً سامنے تھی۔ وہاں بھی ان اصحاب سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے بارہا دیکھا کہ حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ ترجمہ میں پھنس کر نفل پڑھنے کی تیاری کررہے ہیں۔ مسح کرچکے ہیں اور پائوں دھونے لگے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوٹا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے اٹھا لیا ہے اور ان کے پائوں دھلانے کی کوشش میں ہیں۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓان کے شاگرد تھے۔ مولوی صاحب ان کے لیے ادب کے مقام پر تھے۔ عجیب لوگ تھے! میں نے خود دیکھا ہے کہ مولوی صاحبؓ احمدیہ بازار میں جار ہے ہیں۔ پگڑی کھل گئی ہے اور بچے پیچھے پیچھے اسے اٹھائے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔قادیان میں ایک ڈاکٹر گوربخش سنگھ ہوا کرتے تھے۔ وہ سمال ٹائون کمیٹی، قادیان کے ممبر لیکن بے حد بدزبان تھے۔ ہماری جماعت کے خلاف بڑا بولتے تھے۔ ان کی دکان افضل برادرز سے ذرا آگے تھی۔ میں ان ہی افضل برادرز کا ذکرکررہا ہوں جن کی اب گول بازار، ربوہ میں دکان ہے۔ میں نے خو د دیکھا کہ ایک بار مولوی صاحبؓ گزر رہے تھے اور گوربخش سنگھ کھڑا ہوکر انہیں سلام کررہا تھا۔ اتنا احترام تھا ان کا اس معاشرے میں۔

جن دنوں ہمارا ہوسٹل گیسٹ ہائوس میں تھا ایک بار میرے والدین مجھے ملنے کے لیے قادیان آگئے۔ جب انہوں نے قادیان آنے کے لیے امرتسر سے بٹالے والی گاڑی پکڑی تو ان ہی افضل برادرز والے قریشی محمد اکمل اس گاڑی میں بیٹھے تھے۔ والد صاحب کومعلوم ہوا کہ وہ بھی قادیان جا رہے ہیں تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وہ انہیں قادیان کے کسی معزز مسلمان گھرانے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ قریشی صاحب کہنے لگے:آپ فرمائیں! بات کیا ہے؟ والد صاحب نے کہا کہ وہ ان کے پاس ٹھہرنا چاہتے ہیں۔ قریشی صاحب نے تجویز کیا کہ آپ دارالضیافت میں ٹھہر جائیں لیکن والد صاحب نے کہانہیں۔ ہم وہاں نہیں ٹھہرنا چاہتے۔ قریشی صاحب نے ان سے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو سمجھ لیں کہ قادیان میں کوئی معزز مسلمان گھرانہ نہیں ہے چنانچہ وہ اُنہیں زبردستی اپنے گھر لے گئے اور مجھے اطلاع کردی۔ اگلی صبح جب میں ان کے گھر پہنچا تو دونوں چارپائی پر بیٹھے خربوزے کھا رہے تھے۔ میں انہیں ہوسٹل میں لے گیا۔جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں میرے کمرے میں چارپائی تک نہیں تھی۔ میں نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی اور اسی پر سوتا تھا۔ میری والدہ نے یہ حالت دیکھی تو رو پڑیں اور دیر تک روتی رہیں۔میرے والدین ایک دو روز قادیان رُک کر واپس چلے گئے۔

فضلِ عمر ہوسٹل کے قیام کے حوالے سے تو کچھ باتیں ہوگئیں۔ اب میں تعلیم الاسلام کالج کے ابتدائی سٹاف کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کالج کے بانی اساتذہ میں سب سے پہلا اور اہم ترین نام تو اس کے پرنسپل، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ؒہی کا ہے۔ باقی اساتذہ میں سے چند ایک وہ تھے جو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پہلے سے پڑھا رہے تھے لیکن اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر کالج میں تقرری کے مستحق ٹھہرے۔ ان میں سے دو نام اہم ہیں۔ اخوند عبدالقادر صاحب جو انگریزی پڑھانے پر متعیّن ہوئے اور صوفی بشارت الرحمٰن صاحب جو عربی کے لیکچرر مقرر ہوئے۔

میاں صاحبؒ تھے تو پرنسپل لیکن اکنامکس اور فلسفہ کی کلاسز بھی لیتے تھے۔ پھر اکنامکس پڑھانے کے لیے فیض الرحمٰن فیضی صاحب آگئے۔ مجھے بغیر کسی خاص ترتیب کے جو نام یاد آرہے ہیں ان میں سے ایک نام عطاء الرحمٰن غنی صاحب کا بھی ہے جو فزکس پڑھاتے تھے لیکن انہیں انگریزی زبان پر بھی خاصی دسترس حاصل تھی۔ جب پارٹیشن ہوئی اور اردگرد کے دیہات سے ہزاروں مہاجرین قادیان میں جمع ہوگئے تو ہم ہندوئوں اور سکھوں کے ظلم و ستم کی خبریں اکٹھی کر کے شام کو ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے تھے۔ مترجم حضرات میں سے ایک عطاء الرحمن غنی صاحب بھی تھے۔ وہ اتنے شرمیلے تھے کہ کلاس میں جانے سے جھجکتے اور کہا کرتے تھے کہ میں طلباءکا سامنا نہیں کرسکتا چنانچہ ہم اُنہیں پکڑ کر کلاس روم میں پہنچایا کرتے تھے۔ بعد میں جب اُن کی خدمات فضلِ عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو منتقل ہوگئیںتو میاں عطاء الرحمٰن صاحب کیمسٹری پڑھانے پر مامور ہوئے۔ وہ پہلے سرکاری ملازمت میں تھے اور مستعفی ہوکر قادیان آئے تھے۔ اُس زمانے میں خصوصاً کسی مسلمان کے لیے سرکاری ملازمت کا حصول جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا اس لیے لوگ اُن کی اس قربانی پر بہت حیران ہوتے تھے۔

کیمسٹری کے لیے یحییٰ بن عیسیٰ بہاری صاحب کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ وہ بعد میں ڈیفنس سائنس کے شعبہ میں چلے گئے تھے اور انہوں نے وہاں خاصی ترقی کی۔

ریاضی لاہور کے رانا عبدالرحمن ناصر صاحب پڑھاتے تھے۔ بہت دلچسپ انسان تھے اور ان کے بہت سے مزیدار واقعات مجھے یاد ہیں جو زندگی رہی تو پھر کسی وقت سنائوں گا۔

شروع میں اردو کس نے پڑھایا؟ اب بالکل یاد نہیں۔ محبوب عالم خالدصاحب کچھ عرصہ بعد آئے تھے۔

فارسی کے استاد کا نام بھی بھول گیا ہے لیکن وہ یو پی کے رہنے والے تھے۔

شروع میں ڈاکٹر عبدالاحد صاحب بھی ہمارے سٹاف پر رہے۔ وہ لائلپور کے ایگریکلچر کالج سے مستعفی ہوکر آئے تھے اور پی ایچ ڈی تھے لہٰذا کالج میں ان کی حیثیت وائس پرنسپل کی تھی۔ وہ امیر جماعت احمدیہ اسلام آباد، منیر احمد فرخ صاحب کے والد اور سرینگر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’اصلاح‘‘کے ایڈیٹر، چودھری عبدالواحدصاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔

تاریخ کا مضمون عباس بن عبدالقادر صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ بھاگلپور کے رہنے والے تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے لاہور میں سکونت اختیار کی لیکن جلد ہی حیدر آباد سندھ چلے گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ وہ پروفیسرسید عبدالقادر صاحبؓ، صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند تھے۔ ستمبر 1974ء میں ایک رات اپنے کسی دوست کے گھر سے واپس آ رہے تھے کہ کسی شخص نے آپ پر پستول سے فائر کیا اور آپ راہِ مولا میں شہید ہوگئے۔بہت اچھے انسان تھے۔ حلقۂ احباب نہایت وسیع تھا اور ہر ایک کو احمدیت سے متعارف کرانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے تھے۔ ظاہراً آپ پر قاتلانہ حملہ کی وجہ بھی یہی بنی۔

جہاں تک دینیات کا تعلق ہے قادیان کے زمانہ میں قاضی محمد نذیر لائلپوری صاحب یہ مضمون پڑھایا کرتے تھے۔ لاہور میں اس مقصد کے لیے خان ارجمند خان صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ کیا خوب انسان تھے۔ انہیں یاد کر کے میرا دل پگھل جاتا ہے۔ مولانا غلام احمد بدوملہوی صاحب بھی زمانۂ لاہور سے کالج سٹاف میں شامل ہوئے جب کہ مولانا ابوالعطا جالندھری صاحب زمانہ ربوہ میں کالج میں آئے۔

کالج کے کلیریکل سٹاف میں سے ایک صاحب کا نام تو یاد نہیں آرہا لیکن لڑکے ان کو پیار سے ’’مولوی فٹافٹ‘‘ کہا کرتے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے اور اپنی ڈاڑھی مہندی سے رنگتے تھے۔ وہ کالج میں کلرک تھے۔ اُن کا یہ نام اس لیے پڑا کہ وہ کسی کام میں تاخیر برداشت نہیں کرسکتے تھے مثلاً اگر پیریڈ کا وقت ختم ہوگیا ہے لیکن گھنٹی بجانے والا گھنٹی کی طرف قدرے آہستہ جا رہا ہے تو وہ بھاگ کر خود ہی گھنٹی بجا دیا کرتے تھے۔

منشی حمیدالدین صاحب ہیڈ کلرک تھے۔ان کے ذکر سے یاد آگیا ہے کہ ایک دفعہ غالباً جلسہ سالانہ کے دنوں میں ایک مجسٹریٹ قادیان آیا ہوا تھا۔اس نے کالج دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ میاں صاحبؒ بھی ساتھ تھے۔ مجسٹریٹ کہنے لگا کہ اسے یونیورسٹی کیلنڈر دکھایا جائے۔پتا نہیں میں نے یا کسی اور نے کہا:منشی صاحب! ذرا کیلنڈر تو لے آئیں۔ وہ بھاگ کر گئے اور دیوار سے کیلنڈر اتار کرلے آئے۔

تعلیم الاسلام کالج میں طلباءکو بلاامتیازِ مذہب و ملت داخلہ دیا گیا۔چنانچہ ان میں بعض غیراحمدی طلباءبھی تھے لیکن میں نے ان بچوں کو کبھی غیراحمدی نہیں کہا تاکہ وہ برا محسوس نہ کریں۔ویسے بھی اس قسم کی باتیں طبیعت پر گراں گزرتی ہیں۔بچے سب ایک جیسے ہوتے ہیں خواہ وہ احمدی ہوں، غیراحمدی ہوں، ہندو ہوں یا سکھ ہوں۔ خدا کا احسان ہے ہم نے کبھی مذہب کی بنا پر طلباء میں تفریق نہیں کی۔

کالج کاافتتاح4؍جون1944ءکوہوا۔ابھی کالج شروع ہوئے دو چار دن ہی ہوئے تھے کہ ایک رات شدید بارش ہوگئی جو اگلی صبح تک جاری رہی۔ ہمارا ہوسٹل دارالانوار میں تھا جب کہ کالج دارالعلوم میں تھا۔یہ راستہ کچا تھا، درمیان میں ریتی چھلّہ بھی پڑتا تھا اور خیال تھا کہ وہاں پانی ہوگا چنانچہ ہم نے میاں صاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ آج کی چھٹی کر دی جائے۔میاں صاحب کی طرف سے ہماری درخواست کا فوراً جواب آگیا۔ آپ نے لکھا تھا: اگر کل بھی بارش ہوگئی تو؟ہم بہت شرمندہ ہوئے۔ ہم نے کہاایسے ہے تو ایسے ہی سہی۔ جوتے ہاتھوں میں پکڑو،شلواروں کے پائنچے چڑھالو اور چلو۔ چھتریاں وتریاں تو ہمارے پاس تھیں نہیں۔ بارش زوروں پر تھی۔ ہم نکل ہی رہے تھے کہ غیرمتوقع طور پر میاں صاحب اپنی سیکنڈ ہینڈ وِلیز(Willys) جیپ پر ہوسٹل آگئے۔ اور تو بیٹھنے کو کوئی جگہ نہیں تھی چنانچہ میاں صاحب بھی ہمارے ساتھ ہی ایک چارپائی پر بیٹھ گئے اور بے تکلفانہ باتیں ہونے لگیں۔

ان ہی دنوں میں نے ایک نظم لکھی تھی لیکن اس وقت تک الفضل میں شائع نہ ہوئی تھی۔ اب اس کا ایک ہی شعر یاد آ رہا ہے:

اے خطیبِ خوش بیاں آ دیکھ شانِ امتیاز

میرا آقا محرمِ حق اور تو محرومِ راز

اور ہاں! یہ شعر بھی اسی نظم سے ہے

ساقیا کچھ روز سے تیری نگاہوں کے طفیل

بادۂ مغرب کا عادی پی رہا ہے خانہ ساز

میاں صاحب فرمانے لگے:چھٹی میں دے دوں گا لیکن ایک شرط ہے۔ لڑکوں نے شرط پوچھی تو آپ نے کہا: پہلے چودھری صاحب اپنی یہ نظم سنائیں گے۔ میں بہت حیران تھا کہ نظم تو ابھی چھپی بھی نہیں، آپ کو اس کا کیسے پتا چل گیا لیکن اس بحث کا موقع نہ تھا۔ وہ نظم سنانے کے بعد ہی ہمیں چھٹی ملی۔

میرا خیال ہے کالج کھلے چند روز ہوئے ہوں گے کہ ہم نے حضورؓ کو کھانے کی دعوت دی۔ اس کا انتظام گیسٹ ہائوس کے پچھلے صحن میں تھا۔ فرنیچر تو کوئی تھا نہیں چنانچہ زمین پر دریاں اور سفید چادریں بچھا کر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔اب یاد نہیں کس لڑکے نے تلاوت کی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے اس قراءت نے حضور ؓکو متاثر کیاچنانچہ حضور ؓتلاوت کے بعد دو تین منٹ سرجھکائے بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آپ نے اپنا سر اوپر اٹھایا اورفرمایا:جس لڑکے نے تلاوت کی ہے اسے بلایا جائے۔وہ آیا تو حضورؓ پوچھنے لگے:بیٹے! تم نے قراءت کہاں سے سیکھی ہے۔ اس کی کچھ تعریف کی اور پھر باقی کارروائی شروع ہوئی۔

کالج کے افتتاح پر ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ گرمیوں کی تعطیلات ہوگئیں۔میرے والدین نے سوچ رکھا تھا کہ ان چھٹیوں میں میری شادی کردی جائے گی۔اس وقت میری تنخواہ سوروپے ماہوار تھی اور میرا خیال تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ اکٹھی ملے گی تو شادی کے اخراجات پورے ہو جائیں گے لیکن صدرانجمن احمدیہ نے یہ کہہ کر کہ میرا تقرر حال ہی میں ہوا ہے مجھے چھٹیوں کی تنخواہ دینے سے انکار کردیا۔ میں بہت پریشان ہوا اور حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ سے بات کی جو اُن دنوں حضورؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ وہ مجھ سے بہت بے تکلف تھے۔ کہنے لگے:تم بڑے بےوقوف ہو۔ حضرت صاحب کو کیوں نہیں لکھتے؟ اب میں سوچ میں پڑگیا۔باہر کے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے ساتھ نہ جانے کیا کیا مالی منفعتیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن سچ پوچھیں توجماعت میں داخل ہونے کے بعد جماعت سے پیسہ مانگنا ازحد مشکل ہوجاتاہے۔ بہرحال درد صاحبؓ کے مشورے کے مطابق میں نے حضور ؓکو ایک خط لکھا کہ میں گائوں جا رہا ہوں، میرا یہ پروگرام تھا لیکن انجمن نے مجھے میری توقع کے برعکس تنخواہ کی ادائیگی سے معذوری کا اظہار کیا ہے لہٰذا میری ضرورت کے پیش نظر مجھے اتنی رقم بطور قرضۂ حسنہ عطا فرمائی جائے۔

اس خط کا فوری طور پر کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ اگلے روز نمازِجمعہ کے بعد میری روانگی تھی۔چنانچہ میں مایوسی کے عالم میں سٹیشن کی طرف جا رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی۔ یہ حضرت مرزا محمد شفیع صاحب،محاسب تھے۔انہوں نے مجھ سے بہ آوازِ بلند پوچھا:محمد علی آپ ہی ہیں؟ اور میری تصدیق پر کہنے لگے:آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ حضور سے میری شکایت نہیں کریں گے۔ میں نے کہا: میں کیوں کروں گا لیکن مجھے بات تو بتائیں۔ کہنے لگےشاید آپ نے حضور کو کوئی خط لکھا تھا۔ حضور کا جواب کل ہی آگیا تھا جس میں مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ اسی وقت خزانہ کھول کر اتنی رقم آپ کو ادا کردوں لیکن میں نماز پڑھنے کے لیے گیا ہوا تھا لہٰذا یہ خط میری بیوی نے وصول کیا اور تکیہ کے نیچے رکھ کر بھول گئی۔ آج جمعہ کے بعد میں نے یہ خط کھولا ہے اور میں فوراً آپ کو رقم پہنچانے کے لیے آگیا ہوں۔ میں نے اس غیبی امداد پر خدا کا شکر ادا کیا۔ رقم وصول کرلی، اپنا صندوقچہ سنبھالا اور سفر پر روانہ ہوگیا۔

جیسا کہ مجھے بعد میں علم ہوا حضورؓ اس روز عصر کے بعد اپنے خدام کی معیت میں اچانک فضل عمر ہوسٹل پہنچ گئے۔ حضورؓ کی آمد کا سن کر لڑکے باہر نکل آئے۔ حضورؓ نے پوچھا:آج پروفیسر محمد علی کی بارات تھی؟ لڑکوں کو تو اس بات کاکچھ پتہ نہ تھا وہ کیا جواب دیتے۔ وہ صرف اتنا ہی کہہ پائے کہ چودھری صاحب تو گائوں چلے گئے ہیں۔ تب حضور ؓنے فرمایا: آئیں پھر دعا کرلیں۔ آپ نے وہیں کھڑے ہوکر میری شادی کے بابرکت ہونے کے لیے دعا کروائی اور واپس تشریف لے گئے۔

میں چند دنوں کے بعد اپنی بیوی سمیت قادیان واپس آگیا۔میں نے کسی کو اپنی آمد کی اطلاع نہیں دی تھی نہ میں نے اس کی کوئی ضرورت سمجھی تھی لیکن کیا دیکھتا ہوں کہ سٹیشن پر کچھ لوگ ہار لیے کھڑے ہیں۔ اب ان کے نام یا شکلیں تو مجھے یاد نہیں ہیں لیکن ممکن ہے ان میں سے کوئی آدمی اب تک زندہ ہو اور وہ اس بات کی تصدیق کرسکے۔ ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا:شکر ہے آپ آگئے ہیں اور یہ کہتے ہوئے پھولوں کے ہار میرے گلے میں ڈال دیے۔ میرا قیاس یہ کہتا ہے کہ حضورؓ کے حکم پر روزانہ کچھ لوگ گاڑی کے وقت سٹیشن پر آتے رہے ہوں گے۔ وہ ہمیں ڈاکٹر حاجی خان کی کوٹھی جو ’’بیتُ الحکمت‘‘ کے نام سے معروف تھی پر لے گئے۔ اس کی بالائی منزل پر ہماری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ کوٹھی بے حد پُرآسائش تھی۔ اس کے اندر دیدہ زیب اور آرام دہ فرنیچر پڑا تھا۔ ہمارے کھانے کا معقول بندوبست بھی تھا۔ ہم بہت دن وہاں رہے تاوقتیکہ ہم اس حد درجہ مہمان نوازی پر دل میں شرمندگی سی محسوس کرنے لگے چنانچہ میں نے حضورؓ کو لکھا کہ ہماری بہت خاطر مدارت ہوچکی ہے، ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم اپنے انتظام کے تحت کسی اور جگہ منتقل ہوجائیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button