قرآن کریممضامین

اخلاقِ عالیہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام

(جاذب محمود، جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيْمَ (الممتحنۃ:5) یقیناً تمہارے لئے ابراہیم میں ایک اسوۂ حسنہ ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت آنحضرت ﷺ سے تقریباً 2,500 سال قبل اور آج سے تقریباً 4,000سال پہلے ہوئی۔ آپ عراق میں قیام پذیر رہے مگر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت بھی کی۔ متعدد بار مکہ بھی تشریف لے گئے جہاں آپ نے حضرت اسماعیلؑ کو

وَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ

میں چھوڑا جن کی ذریت سے آنحضرت ﷺ کی پیدائش ہوئی۔آپ کو ابو الانبیاء کہا جاتا ہے اور خلیل اللہ بھی یعنی اللہ کا دوست۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ

إِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا

(البقرۃ:125)

میں یقیناً تجھے لوگوں کے لئے ایک عظیم امام بنانے والا ہوں۔

اسی وعدہ کے موافق دنیا کے کثیر حصہ میں آپؑ امام اور مقتدیٰ سمجھے جاتے ہیں اور بڑے ادب و احترام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک ایسا وجود بنا دیا کہ آج تک لوگ ان کے افعال و اقوال کی اقتدا کر رہے ہیں جس کا مثالی اور دائمی نمونہ مسلمان ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتا ہے کہ

اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا

(النحل:124)

ابراہیمِ حنیف کی ملت کی پیروی کر۔

وہ ملت ابراہیم کیا ہے جس کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کی اعلیٰ صفات ہیں۔ آپؑ کے اوصاف کریمہ ہیں۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کو قابل آفریں پیش کیا ہے اور عمداً حکم بھی دیا ہے کہ ان صفات عالیہ کو اپنانے کی کوشش کرو۔ قرآن کریم نے اسی کی وضاحت ایک اور جگہ بھی کی ہے۔ آپ کے روحانی مقام و مرتبہ کی شناخت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ صرف آپؑ کے بارے میں فرمایا کہ

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيْمَ

(الممتحنۃ:5)

یقیناً تمہارے لئے ابراہیم میں ایک اسوۂ حسنہ ہے۔

آپؑ کے قابل تقلید اخلاق اور اسوۂ حسنہ کا ذکر قرآن کریم نے بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اس مضمون میں آپ کی چند صفات کا ذکر از روئے قرآن کریم پیش خدمت ہے۔

طرز کلام، تبلیغی مساعی اور قیام توحید کی تڑپ

ابراہیم کا لفظ أَبْرَمَ سے ہے یعنی بات کو پکا کرنے والا۔ لغت سے معلوم ہوتا ہے کہ أَبْرَامَ کے معنی ایسی عمدہ بات کرنے والے اور ایسی اچھی بحث کرنے والے کے ہیں جو دوسرے کو اپنا ما فی الضمیر اچھی طرح سمجھا دے اور اسے ساکت کر دے۔ یہ لفظ عبرانی زبان میں آتا ہے اور بائبل میں بھی استعمال ہوا ہے۔

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں یہ بحث کی ہے کہ حضرت ابراہیم کا نام اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ سے ابراہیم رکھوایا جس میں ایک پیشگوئی مخفی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بڑی اچھی بحث کرنے کی توفیق دے گا اور صداقت کے اظہار کے لیے یہ اپنے مد مقابل کے سامنے اس عمدگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرے گا کہ وہ ساکت اور لا جواب رہ جائے گا۔

(تفسیر کبیر جلد 5صفحہ 264تا 265)

قرآن کریم نے کئی مقامات پر حضرت ابراہیمؑ کی توحید کے قیام کے حوالے سے مساعی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ آپؑ کی بعثت کا مقصد فی ذاتہٖ توحید کا قیام ہی تھا۔ اس لیے آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ

رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا …

(الشعراء:84)

اے میرے رب! مجھے حکمت عطا کر۔

پس قرآن کریم میں جو حضرت ابراہیمؑ کا طرز کلام بیان ہوا ہے وہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو یہ خاص صفت عطا کی تھی کہ لوگ آپ کے سامنے مبہوت رہ جاتے تھے۔ اس کی سب سے صریح مثال سورۃ البقرۃ میں بیان کی گئی ہے۔ فرمایا:

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰٮہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ۔

(البقرۃ:259)

کیا تُو نے اس شخص پر غور کیا جس نے ابراہیم سے اس کے ربّ کے بارہ میں اس بِرتے پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے بادشاہت عطا کی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ اس نے کہا میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا یقیناً اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تُو اسے مغرب سے لے آ، تو وہ جس نے کفر کیا تھا مبہوت ہو گیا۔ اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

پس آپؑ نے بادشاہِ وقت کے سامنے بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان بیان کرنے سے گریز نہ کیا۔ آپؑ کی تبلیغ کے ذریعہ سے ہی حضرت لوطؑ نہ صرف ایمان لائے بلکہ نبی کا مقام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ آپؑ کے بیٹے حضرت اسماعیل اور اسحاق اور پوتے یعقوب علیہم السلام بھی مختلف علاقوں میں مقیم تھے جہاں وہ پیغام توحید کے لیے کوششوں میں لگے رہتے تھے۔آپؑ تبلیغ میں نہایت دور اندیش تھے۔ حضرت اسحاقؑ کو آپ نے ایک آباد ملک میں بھیجا کہ وہاں تبلیغ کریں اور حضرت اسماعیلؑ کو آپ نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ جب وہ جگہ آباد ہو تو وہاں اُس وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کو آپؑ کی لانگ ٹرم پالیسی قرار دیا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 193)

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے چچا کی قوم کو حد درجہ تبلیغ کی اور ان کو توحید الٰہی پر گام زن کرنے کی پوری کوشش کی۔ قرآن کریم جہاں آپؑ کے طرز کلام کا خاص ذکر کرتا ہے وہاں آپ کے عقلی و علمی دلائل بھی پیش کرتا ہے۔ مثلاً جب اپنی قوم کو تبلیغ کرتے تو وہ اعراض کیا کرتے۔ تو ایک بار آپؑ نے ان سے کہا کہ میں تمہارے بتوں کے ساتھ کچھ تدبیر کروں گا۔ پھر آپؑ اپنے چچا کے بت کدہ گئے اور سارے بت توڑ دیے سوائے سب سے بڑے بت کے جس کو آپ نے بڑی حکمت سے چھوڑ دیا۔ جب لوگوں کو پتہ چلا تو ان کا ذہن فوراً حضرت ابراہیمؑ کی طرف گیا ۔ چنانچہ فرمایا:

قَالُوْا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيْمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيْرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوْهُمْ إِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ

(الانبیاء:63تا64)

انہوں نے کہا کیا تو نے ہمارے معبودوں سے یہ کچھ کیا ہے؟ اے ابراہیم! حضرت ابراہیمؑ نے کہا بلکہ ان کے اس سردار نے یہ کام کیا ہے۔ پس ان سے پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہیں۔

یہاں آپ کا طرز استدلال خاص تعریف کے لائق ہے۔ معترضین آپ کو یہاں جھوٹ کا مرتکب سمجھتے ہیں مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ آپ نے پہلے بتصریح اعلان کر دیا تھا کہ میں تمہارے بتوں سے کچھ کروں گا(الانبیاء:52)۔پس مضمون کے سیاق و سباق سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بات کو ایک نہایت اعلیٰ منطقی دلیل کے طور پر استعمال کیا۔

آپؑ کی بات اس لیے بھی بہت مؤثر تھی کہ آپ جو بھی دعویٰ کرتے اسے اپنے عملی نمونہ سے ثابت کرتے۔ چنانچہ آپؑ نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لَکُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ …

(العنکبوت: 18)

(حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ) وہ لوگ جن کی تم اللہ کی بجائے عبادت کرتے ہو تمہارے لئے کسی رزق کی ملکیت نہیں رکھتے۔ پس اللہ کے حضور ہی رزق چاہو۔

اس کا عملی نمونہ آپ نے خود دکھایا جب آپؑ نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک ایسی جگہ چھوڑا جہاں کھانے پینے کا سامان مہیا نہ تھا۔ آپؑ نے صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ تو ہی ان کو رزق دے۔ اس طرح آپ نے خود اللہ تعالیٰ کو رزق کا مالک ثابت کر دیا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ الانعام آیت 75تا80 میں حضرت ابراہیم کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جس میں آپ نے باقاعدہ بیٹھ کر ہستی باری تعالیٰ کے حق میں دلائل سوچے۔ پہلے فرمایا:

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰٮکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۔

(الانعام: 75)

اور یاد کر جب ابراہیم نے اپنے با پ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو بطور معبود پکڑ بیٹھا ہے؟ یقیناً میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ۔

(الانعام:76)

اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت (کی حقیقت) دکھاتے رہے تا کہ وہ (مزید) یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔

یہاں بھی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عرفان کی بارش کی، ان کو آفاقی حکمتیں سکھائیں۔ چنانچہ فرمایا کہ ان کی آفاقی حکمتوں کو پانے کا انداز یہ تھا کہ ابراہیمؑ بسا اوقات اپنے رب کی ذات میں مگن ہو کر دشمن کے دلائل پر غور کیا کرتے تھے اور سوچا کرتے تھے کہ منکرین توحید کو ہدایت کیسے دی جائے اور کون سے دلائل پیش کیے جائیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍جون 1983ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 2 صفحہ 308 تا 309)

پھر آپؑ نے مضبوط دلائل سوچے اور ستاروں، چاند، سورج کو معبودان باطلہ ثابت کیا۔ پھر آپ نے اس دلیل کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے فرمایا:

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ۔

(الانعام: 80)

میں تو یقیناً اپنی توجّہ کو اس کی طرف ہمیشہ مائل رہتے ہوئے پھیر چکا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

توکل علی اللہ اور استقامت کی اعلیٰ مثالیں

قرآن کریم نے آپؑ کی آزمائشوں کا اور ان آزمائشوں میں آپؑ کی ثابت قدمی کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔ بلکہ آپؑ کی ثابت قدمی کی بنا پر ہی آج مسلمان حج کرتے ہیں اور آپ کی قربانی نہ صرف یاد کی جاتی ہے بلکہ آپؑ کی اتباع میں اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ہمیشہ کے لیے صاحب استطاعت مسلمانوں کو عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔

آپ کے ابتلاؤں کا قرآن کریم ایسے ذکر کرتا ہے:

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ۔

(البقرۃ:125)

جب ابراہیم کو اس کے رب نے بعض کلمات سے آزمایا اور اس نے ان سب کو پورا کر دیا ۔

قرآن کریم نے جگہ جگہ ان ابتلاؤں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، آپؑ کو تبلیغی مساعی کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کی قوم جب آپ سے بحث کر رہی تھی کہ آپ نے ان کے بتوں کو معبودان باطلہ ثابت کر دیا۔ تو آپ کی قوم نے کہا کہ اسے بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دو۔(الصّٰفّٰت:98)۔پس آپ کے لیے آگ جلائی گئی اور آپ کو اس میں پھینک دیا گیا۔ مگر آپؑ ہر ابتلا کے وقت اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھتے۔جب آپؑ کو آگ میں پھینکا گیا تو بشری تقاضا یہ تھا کہ آپ منت سماجت کرتے مگر آپ کے لب پر یہ الفاظ تھے کہ

حَسْبِيَ اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۔اللہ

تعالیٰ میرے لیے کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔

(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب13 حدیث نمبر 4564)

حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اولاد کے حصول کے لیے یہ دعا کی کہ

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔

(الصّٰفّٰت:101)

اے اللہ! مجھے ایک پاک بیٹا عطا کر۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک حلیم بیٹا عطا کیا۔ مگر وہ پیدا ہوا تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے اذن اور الٰہی اشاروں کے مطابق اپنی اہلیہ اور بیٹے کو ایک بے آب و دانہ ریگستان میں چھوڑ دیا۔ آپ نے بغیر کسی احتجاج کے اس حکم کی تعمیل کی ۔ اور بڑی استقامت دکھاتے ہوئے دعا کی کہ

اے ہمارے ربّ! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے۔اے ہمارے رب! تا کہ وہ نماز قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کر تا کہ وہ شکر کریں۔(ابراہیم:38)

یہ دعا در اصل آپ کے کامل توکل کا ہی نتیجہ تھا۔ کیونکہ یہ بظاہر خلاف عقل ہے کہ ایسی بنجر زمین میں غذا مہیا ہو۔ مگر آپ نیر الہام تھے۔ آپؑ نے ان کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کیا اور یہ کامل توکل دکھایا کہ وہ آپ کی دعا سن لے گا۔

پھر جب آپ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو آپ نے کہا:

يَا بُنَيَّ إِنِّيْ أَرَى فِيْ الْمَنَامِ أَنِّيْ أَذْبَحُكَ

(الصّٰفّٰت:103)

اے میرے پیارے بیٹے میں نے ایک خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔

حضرت ابراہیمؑ کا ایک ہی بیٹا تھا جو معجزانہ حالات میں پیدا ہوا مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی مکمل پیروی کرنے کو تیار ہو گئے۔ بچہ راضی ہو گیا تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ

…اور اس نے اسے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ تب ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم! یقیناً تو اپنی رؤیا پوری کر چکا ہے (جب تو نے اپنے بچہ کو بیابان زمین میں چھوڑا تھا)۔ یقیناً اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلا کھلا ابتلا تھا۔

(الصّٰفّٰت:104تا107)

آپ پر ابتلاؤں کا ایک دَور آیا۔ مگر آپ نے استقامت کی اعلیٰ مثالیں دکھائیں ۔آپؑ کے انہی امتحانوں میں سے نہایت عمدگی سے گزرنے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’اے ابراہیم! تو اپنی قوم کے لئے نبی تھا مگر چونکہ تو آزمائشوں میں ثابت قدم نکلا ہے اور تُو نے بڑی دلیری سے میرے حکم کو مانتے ہوئے اپنی بیوی اور بچے کو ایک ایسے جنگل میں جا کر بسا دیا ہے جہاں پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کی ایک پتی تک نہ تھی اور تُو نے اپنی اور اپنے خاندان کی موت قبول کر لی ہے اس لئے میں بھی تجھے یہ انعام بخشوں گا کہ تیرا یہ واقعہ ساری دنیا کے لوگوں کے لئے قیامت تک بطور نمونہ قائم رہے گا۔ اور جب بھی دنیا کو آزمائشوں اور امتحانوں میں ثابت قدم رہنے کا درس دیا جائے گا تو اس وقت تیرے اس واقعہ کو نمونہ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 160)

مذکورہ بالا ابتلاؤں میں ثابت قدمی دکھانے کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’دیکھو حضرت ابراہیم پر کیسا بڑا ابتلا آیا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں چُھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے اور اس چُھری کو اپنے بیٹے کی گردن پر اپنی طرف سے پھیر دیا مگر آگے بکرا تھا۔ ابراہیم امتحان میں پاس ہوا۔ اور خدا تعالیٰ نے بیٹے کو بھی بچا لیا۔ تب خدا تعالیٰ ابراہیم پر خوش ہوا کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی فرق نہ رکھا۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ بیٹا بچ گیا ورنہ ابراہیم نے اس کو ذبح کر دیا تھا۔ اس واسطے اس کو صادق کا خطاب ملا۔ اور توریت میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم تو آسمان کے ستاروں کی طرف نظر کر کیا تو ان کو گن سکتا ہے۔ اسی طرح تیری اولاد بھی نہ گنی جائے گی۔ تھوڑے سے وقت کی تکلیف تھی وہ تو گزر گئی۔ اس کے نتیجہ میں کس قدر انعام ملا۔ آج تمام سادات اور قریش اور یہود اور دیگر اقوام اپنے آپ کو ابراہیم کا فرزند کہتے ہیں۔ گھڑی دو گھڑی کی بات تھی وہ تو ختم ہو گئی اور اتنا بڑا انعام ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 416تا417 ایڈیشن 1988ء)

نصرت الٰہی

اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر گز بے یار و مدد گار نہ چھوڑا۔ اسی نصرت الٰہی کا ثبوت ہمیں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے بیشتر مواقع پر نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ مخالفین نے آپؑ کو آگ میں ڈال دیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس وقت ہم نے کہا کہ

قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ۔

(الانبیاء:70)

ہم نے کہا اے آگ! تُو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔

اس آگ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک واقعہ بیان فرمایا:

’’جب دھرم پال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کے لئے کیوں نہ ہوئی اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا جواب سنایا گیا کہ اس جگہ ’نار‘ سے ظاہری آگ مراد نہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا اس تاویل کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے۔ اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں؟‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍جنوری 1959ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 39صفحہ 318تا 319)

پھر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:

’’يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا کے ایک یہ بھی معنی ہیں کہ ابراہیم ایسے مقام پر کھڑا ہوا تھا کہ ہم نے فیصلہ کر دیا تھا کہ ہماری راہ میں اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔اس کا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ جو بھی تکلیف کوئی مخالف پہنچائے گا اسے خوشی سے قبول کرے گا اور خوش ہو گا کہ اسے خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنے کا ایک اَور موقع میسر آ گیا۔ ایسے لوگوں کے لئے دوزخ ناممکن ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جس کو تکلیف میں راحت محسوس ہونے لگ جائے اُس کو دشمن کیا تکلیف پہنچائیں گے۔ اگر خدا تعالیٰ جنت میں ڈالے گا تو وہ اس کے لئے جنت ہو گی اور اگر دشمن اسے دوزخ میں ڈالیں گے تو وہ بھی اس کے لئے جنت ہو گی۔ اگر وہ اسے کوئی دکھ دیں گے تو وہ اس کے لئے راحت کا موجب ہو گا۔ ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے جب آئے گی جنت ہی آئے گی اور لوگوں کی طرف سے جو دکھ ہوں گے وہ جنت ہی پیدا کریں گے۔یہی لوگ ہیں جن کے ماتھوں پر فتح سوار ہوتی ہے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍ستمبر1945ءمطبوعہ خطبات محمود جلد26 صفحہ388تا 389)

آپؑ کی زندگی میں نصرت الٰہی کے نظارے بھی آپ کے قرب الٰہی کا کامل ثبوت ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ انہی نظاروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کا وفا دار بندہ تھا اس لئے ہر ایک ابتلا کے وقت خدا نے اس کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا خدا نے آگ کو اس کے لئے سرد کر دیا۔ اور جب ایک بد کردار بادشاہ ان کی بیوی سے بدارادہ رکھتا تھا تو خدا نے اس کے ان ہاتھوں پر بلا نازل کی جن کے ذریعہ سے وہ اپنے پلید ارادہ کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ پھر جبکہ ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے کو جو اسماعیل تھا ایسی پہاڑیوں میں ڈال دیا جن میں نہ پانی نہ دانہ تھا تو خدا نے غیب سے اس کے لئے پانی اور سامانِ خوراک پیدا کر دیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 52)

اوصاف کریمہ

حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ النحل آیت 121کی روشنی میں حضرت ابراہیمؑ کی چھ صفات کا ذکر فرمایاہے:

1.حضرت ابراہیم ؑ معلم الخیر تھے۔ یعنی دنیا کو نیکی کی تعلیم دیتے تھے۔

2.وہ جامع الخیر تھے۔ آپؑ کو امّت کا لقب دے کر بتا دیا کہ سب قسم کے اخلاق فاضلہ آپ میں پائے جاتے تھے۔

3.نہایت اعلیٰ فطرت رکھتے تھے جو زبردست نمو کی قوتیں پوشیدہ رکھتی تھی جس سے امتوں کا پیدا ہونا ممکن تھا۔

4.وہ قانت تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے اور دعائیں کرنے والے تھے۔

5.وہ حنیف تھے۔ یعنی زبردست قوۃ مقادمت رکھتے تھے اور کبھی حق کے راستہ سے دوسری طرف مائل نہ ہوتے تھے۔

6.وہ مشرک نہ تھے اور توحید پر کامل طور پر قائم تھے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 267)

کامل فرمانبرداری

قرآن کریم نے حضرت ابراہیم کی سچی اور کامل فرمانبرداری کی بھی تعریف کی ہے۔قرآن کریم فرماتا ہے:

اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔

(البقرۃ:132)

(یاد کرو) جب اللہ نے اُس سے کہا کہ فرمانبردار بن جا۔ تو (بے ساختہ) اس نے کہا میں تو تمام جہانوں کے ربّ کے لئے فرمانبردار ہو چکا ہوں۔

حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت ابراہیمؑ کی فرمانبرداری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ابراہیم علیہ الصلوٰۃ السلام کی اولاد بھی دیکھو کس قدر کثرت سے ہوئی کہ کوئی گن نہیں سکتا۔ مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا خیال اَور طرف تھا؟ بلکہ ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع تھا۔ اصل اسلام اسی کا نام ہے جو ابراہیم کو بھی کہا کہ أَسْلِمْ جب ایسے رنگ میں ہو جاوے تو وہ شیطان اور جذباتِ نفس سے الگ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا کی راہ میں جان تک کے دینے میں بھی دریغ نہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ601،ایڈیشن 1988ء)

کامل وفا داری

اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ کی وفاداری کی بھی خاص تعریف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی

(النجم:38)

اور ابراہیم جس نے عہد کو پورا کیا۔

حضرت ابراہیمؑ کی یہ تعریف ہر واقف زندگی کے لیے بھی مشعل راہ ہے ۔ اسی وقف کی روح کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنے پیغام میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی بھی خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہ کریں بلکہ ہمیشہ اپنے پروردگار کے وفا دار رہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اسی لئے خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قرآن کریم میں درج ذیل الفاظ میں تعریف فرمائی ہے:

وَإِبْرَاهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓى(النجم:38)

اور ابراہیم جس نے عہد کو پورا کیا۔

یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمیشہ اپنے خدا کے وفا دار رہے اور ہمیشہ اپنے عہد کی پاسداری کی۔ پس آپ نے بھی وقف کا عہد باندھا ہے اور اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اس لیے آپ کو بھی اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سخت تکالیف برداشت کیں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کیا کیونکہ آپ کامل طور پر خدا کی محبت میں مخمور تھے۔ آپ کی کوئی ذاتی خواہش نہیں تھی اور یہی وقف کی حقیقت ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 28؍جون 2019ء صفحہ 12)

قبولیتِ دعا کے عظیم الشان نظارے

قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کے قبولیت دعا کے نظارے بھی پیش کیے ہیں۔ یہاں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

٭…آپؑ نے جب حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں چھوڑا تو آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر کے یہ دعا مانگی:

اے ہمارے ربّ! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے۔ اے ہمارے ربّ! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کر تا کہ وہ شکر کریں۔

(ابراھیم:38)

اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم الشان ذرائع سے قبول فرمایا۔ آج مکہ میں اسلام اور آنحضور ﷺ کی بدولت دنیا کے ہر خطے سے لوگ آتے ہیں،لوگ روز اسلام کی طرف مائل ہوتے چلے جا رہے ہیںاور مکہ توحید کا ایک عظیم مرکز بن گیا ہے۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری طور پر بھی اس دعا کو قبول فرمایا اور مکہ جو ایک بےآب و دانہ شہر تھا آج ہر قسم کے پھلوں سے بھراہوا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ، جن کو 1912ء میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، فرماتے ہیں کہ آپؓ نے وہاں ایسے پھل کھائے جو نہ ہندوستان میں کھائے نہ شام میں نہ اٹلی میں اور نہ فرانس میں۔

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 486)

٭…آپ کی دعائیں بھی کسی خود غرضی پر مبنی نہ تھیں۔ آپؑ کو انسانیت کی ہدایت کے لیے ہی فکر تھی۔ آپؑ نے یہ دعا کی کہ

اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کر دے۔یقیناً تُو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔ (البقرۃ:130)

قرآن کریم نے سورۃ الجمعۃ آیت 3 میں اس دعا کی قبولیت کی شہادت خود دی ۔آنحضرت ﷺ خود فرمایا کرتے تھے کہ

أَنَا دَعْوَةٌ أَبِيْ إِبْرَاهِيْمَ

(المستدرک علی صحیحین الحاکم جلد 2 صفحہ 453تفسیر سورۃ الاحزاب:47 حدیث نمبر 3566)

یعنی میں وہ شخص ہوں جو اپنے باپ ابراہیمؑ کی دعاؤں کے مطابق دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا کیا گیا ہوں۔

پس یہ ایک زبردست دعا تھی جس کے مصداق آنحضرت ﷺ ٹھہرے اور آپ کی شریعت اسی دعا کے سبب نازل ہوئی۔ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو جاری کیا اور اس کے بعد محمدی سلسلہ جاری کیا جس کی آخری کڑی حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے پوری ہوئی۔اسی دعا کی قبولیت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا بھی ایک زبردست نشان دنیا کو دیا کہ ایک شخص کی دعا کے نتائج کس شان سے 2,500سال بعد ظہور میں آئے۔

٭…پھر حضرت ابراہیمؑ نے مکہ شہر کے لیے خاص دعا بھی کی کہ

اے میرے رب! اس جگہ (یعنی مکہ) کو ایک پُر امن اور امن دینے والا شہر بنا دے اور اس کے بسنے والوں کو جو ان میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہر قسم کے پھلوں میں سے رزق عطا کر۔(البقرۃ:127)

آج تک کوئی بیرونی دشمن مکہ پر حملہ نہیں کر پایا اور گو بہت سے لوگوں نے کوشش کی مگر یہ حرمت والا شہر ہمیشہ کے لیے مفسدوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس کی ایک مثال اصحاب الفیل کا واقعہ ہے۔

٭…پھر آپؑ کی ایک اور دعا کا ذکر قرآن کریم میں درج ہے۔ آپ نے دعا کی:

وَاجْعَل لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِيْنَ

(الشعراء:85)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس دعا کا یوں ترجمہ کیا ہے:

’’اے میرے خدا! تو آخری زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں میرے لئے دعا کی تحریک پیدا کر دے۔ لیکن وہ دعا عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہو۔ اور پھر وہ تعریف صرف لوگوں کی زبانوں پر ہی نہ ہو بلکہ واقعہ میں میرے نیک کام دنیا میں قائم رہیں اور اس طرح مجھے ظاہری اور باطنی طور پر اچھی تعریف حاصل ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 188)

آج مسلمان ہی ہیں جو آپ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہتے اور لکھتے ہیںاورہر روز، ہر نماز میں، آپؑ پر درود بھیج رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:

’’دنیا کے لوگ عزت چاہتے ہیں۔ اولاد چاہتے ہیں۔ کامیابی چاہتے ہیں۔ذکر خیر چاہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں سے ابراہیم کو متمتع کیا۔ ان کو دیکھو کہ کوئی حساب نہیں۔ عظمت کا یہ حال ہے کہ مسلمان، یہودی، صابی، پارسی، عیسائی باوجود بہت سے اختلاف کے ان کو یکساں معزز و مکرم مانتے ہیں ‘‘

(حقائق الفرقان جلد 1 صفحہ 235)

مہمان نوازی

قرآن کریم نے دو مقامات پر آپؑ کی مہمان نوازی کا ذکر کیا ہے۔ایک جگہ ذکر ہے کہ بعض لوگ آپ کے گھر آئے جو حضرت لوطؑ کی قوم کی طرف ان کے غلط کاموں کے سبب ان کو عذاب الٰہی کے آنے کے وقت کی خبر دینے جا رہے تھے۔(الذاریات:25تا27)۔ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ آپؑ کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے:

اور یقیناً ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوش خبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کہا۔ حضرت ابراہیمؑ نے بھی سلام کہا اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اُس (کھانے) کی طرف بڑھ نہیں رہے تو اس نے انہیں غیر سمجھا اور ان سے ایک خوف سا محسوس کیا۔ (ہود:70)

حضرت مصلح موعودؓ اسی مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’لوگ اکرام تو کرتے ہیں مگر اکرامِ ضیف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے مگر حضرت ابراہیم نے یہ نہیں کیا بلکہ ان کو بٹھایا اور خاموشی اور خفیہ طریق سے اپنے اہل کی طرف گئے۔ رَاغَ کے معنی ہوتے ہیں خفیہ جانا اور یہ لفظ شکاریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے ان اصل معنوں کو چھوڑ کر اور معنی کیے ہیں مگر میرے نزدیک اصل معنوں سے شان بڑھتی ہے۔ پس جس طرح شکاری شکار پر جاتا ہے کہ کہیں شکار کو خبر نہ ہو جائے اسی طرح ابراہیم بھی چپکے سے کھسک گئے اور فوراً ایک موٹا تازہ عجل (بچھڑا) ذبح کر کے اور کھانے کے لئے تیار کر کے لے آئے ……

حضرت ابراہیم ؑنے کھانا لا کر رکھا مگر اُنہوں نے نہیں کھایا۔ ان کے کھانا نہ کھانے پر حضرت ابراہیم ؑنے بُرا نہیں منایا جیسا کہ ایسے موقع پر بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے تو ان کے لئے یہ کچھ تیاری کی پر اُنہوں نے قدر نہ کی مگر ابراہیم ؑ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُنہوں نے مہمانوں کے اس فعل سے بُرا نہیں منایا کہ اُنہوں نے کھانا کیوں نہ کھایا بلکہ فرماتا ہے

فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً۔

اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ ابراہیم اپنے دل میں ڈر گئے کہ کہیں یہ ڈاکو نہ ہوں مگر میں کہتا ہوں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو خوف اس بات کا ہوا کہ کہیں مجھ سے مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ ابراہیم ؑ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ مہمانوں کو ڈاکو سمجھ کر ڈر گئے غلطی ہے کیونکہ ابراہیم ؑ تو وہ ہیں جو اکیلے بادشاہ کے جھگڑے سلجھانے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ وہ ڈاکوؤں سے کیا ڈرتے۔ ان کو جو خوف ہوا وہ یہی تھا کہ کہیں مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ مہمانوں پر ناراض نہیں ہوئے نفس کو الزام دیا کہ تجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی…۔

ابراہیم ابو الانبیاء ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جدّامجد ہیں اگر وہ مہمان فرشتہ بھی تھے تاہم ابراہیم خدا کے نبی تھے اور اگر وہ انسان تھے تو بھی حضرت ابراہیم سے نیچے تھے مگر وہ مہمان ہو کر ابراہیم کے لئے مکرم ہو گئے اس لئے کوئی مہمان ہو فطرت کے اقتضاء، شریعت کے منشاء کے ماتحت مہمان کی عزت ہی کرنا چاہیے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍ دسمبر 1919ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 6 صفحہ 349تا351)

اسلام میں مہمان نوازی کو بہت قدر دی جاتی ہے اور حضرت ابراہیمؑ میں بھی یہ اعلیٰ وصف پایا جاتا تھا۔

اہل و عیال کے حقوق کی ادائیگی

حضرت ابراہیمؑ نے اپنی فیملی کی دیکھ بال کا بھی حق ادا کیا۔ جہاں آپ خود حق ادا نہ کر پاتے اور ان کی دیکھ بال نہ کر پاتے وہاں آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسی سے دعائیں کیں کہ وہ ان کی دیکھ بال کرے۔

اس کے علاوہ آپ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت بھی کی۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ

وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔

(البقرہ:133)

اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو تاکیدی نصیحت کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے پیارے بچو! یقیناً اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چن لیا ہے۔ پس ہر گز مرنا نہیں مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔

پس آپؑ نے اپنی وفات سے پہلے اپنی ذریت کی تربیت کرتے ہوئے ان کو توحید پر قائم رہنے کی وصیت کی۔صرف ان کو نصائح نہ کیں بلکہ ان کے لیے دعائیں بھی کرتے رہے۔چنانچہ فرمایا:

وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ

(البقرہ:129)

ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے۔

وَاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ

(ابراہیم:36)

مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔

پس آپؑ کی اولاد میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے۔ صرف بنی اسرائیل میں تقریباً 400انبیاء مبعوث ہوئے۔ آپؑ کی وفات کے بعد آپ کی قبولیت دعا کے ثمرات آپؑ کی اولاد میں بھی ظاہر ہوتے رہے اور آج تک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

تذلل اور عاجزی

حضرت مصلح موعوؓد حضرت ابراہیمؑ کی عاجزی کا ذکرکرتے ہوئےفرماتے ہیں:

’’یہ انبیاء ہی کی شان ہے کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔…حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھو کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ بڑا ہوتا ہے۔ تو اسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کھانے کا کوئی سامان تھا نہ پینے کا۔ … بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ وہ خانہ کعبہ کے ساتھ باندھ دیئے گئے گویا خانہ کعبہ کی ہر اینٹ حضرت اسماعیل علیہ السلام سےبزبان حال کہہ رہی تھی کہ تم نے اب اسی جنگل میں اپنی تمام عمر گزارنا ہے۔ یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ مگر اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں کہ

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔

اے اللہ! ہم ایک حقیر ہدیہ تیرے حضور لائے ہیں تو اپنے فضل سے چشم پوشی فرما۔ اسے قبول فرما لے۔ …پس وہ کہتے ہیں کہ تو خود ہی رحم کر کے اس قربانی کو قبول فرما لے حالانکہ یہ اتنی بڑی قربانی تھی کہ اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قربان کر رہا تھا اور خانہ کعبہ کی ہر اینٹ ان کو بے آب و گیاہ جنگل کے ساتھ مقید کر رہی تھی۔ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی ایک ایک اینٹ کے ساتھ ان کے جذبات و احساسات کو دفن کر رہے تھے۔ مگر دعا یہ کرتے ہیں کہ الٰہی یہ چیز تیرے حضور پیش کرنے کے قابل تو نہیں مگر تو ہی اسے قبول فرما لے۔ یہ کتنا بڑا تذلل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار فرمایا۔ اور در حقیقت قلب کی یہی کیفیت ہے جو انسان کو اونچا کرتی ہے۔ ورنہ اینٹیں تو ہر شخص لگا سکتا ہے مگر ابراہیمی دل ہو تب وہ نعمت میسر آتی ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ

کہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 179 تا 180)

اسی طرح جب حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کر رہے تھے تو گو آپ اس وقت دنیا میں اللہ تعالیٰ کے چنیدہ نبی تھے، مگر آپ میں ایک ذرہ تکبر نہ تھا۔نبی اور اللہ تعالیٰ کا دوست ہونے کے باوجود آپ کو صرف امید تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ معاف کر دے۔(الشعراء: 83)

آنحضرت ﷺ سے مماثلت

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺکی روحانی مشابہت حضرت ابراہیمؑ سے بھی تھی۔چنانچہ معراج کے حوالے سے آنحضورؐ نےفرمایا کہ میرا چہرہ حضرت ابراہیمؑ کے چہرہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب35 حدیث نمبر 3394)اسی طرح دونوں ساتویں آسمان پر ہیں۔(صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق باب6 حدیث نمبر 3207)۔

حضرت مسیح موعودؑ دونوں انبیاء کی مماثلت کا ذکر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ محقق امر ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خُو اور طبیعت پر آئے تھے مثلاً جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید سے محبت کر کے اپنے تئیں آگ میں ڈال لیا اور پھر

قُلْنَا يَا نَارُ كُوْنِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيْمَ

کی آواز سے صاف بچ گئے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تئیں توحید کے پیار سے اس فتنہ کی آگ میں ڈال لیا جو آنجناب کے بعث کے بعد تمام قوموں میں گویا تمام دنیا میں بھڑک اُٹھی تھی اور پھر آواز

وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ

سے جو خدا کی آواز تھی اس آگ سے صاف بچائے گئے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان بتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا جو خانہ کعبہ میں رکھے گئے تھے۔ جس طرح حضرت ابراہیم نے بھی بتوں کو توڑا اور جس طرح حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کے بانی تھے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ کی طرف تمام دنیا کو جھکانے والے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی طرف جھکنے کی بنیاد ڈالی تھی لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بنیاد کو پورا کیا۔ آپ نے خدا کے فضل اور کرم پر ایسا توکل کیا کہ ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ خدا پر بھروسہ کرنا آنجناب سے سیکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس قوم میں پیدا ہوئے تھے جن میں توحید کا نام و نشان نہ تھا اور کوئی کتاب نہ تھی۔ اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس قوم میں پیدا ہوئے جو جاہلیت میں غرق تھی اور کوئی ربانی کتاب ان کو نہیں پہنچی تھی۔ اور ایک یہ مشابہت ہے کہ خدا نے ابراہیم کے دل کو خوب دھویا اور صاف کیا تھا یہاں تک کہ وہ خویشوں اور اقارب سے بھی خدا کے لئے بیزار ہو گیا اور دنیا میں بجز خدا کے اس کا کوئی بھی نہ رہا ۔ ایسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واقعات گذرے اور باوجودیکہ مکہ میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی شعبہ قرابت نہ تھا۔ مگر خالص خدا کی طرف بلانے سے سب کے سب دشمن ہو گئے اور بجز خدا کے ایک بھی ساتھ نہ رہا ۔ پھر خدا نے جس طرح ابراہیم کو اکیلا پا کر اس قدر اولاد دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار ہو گئی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اکیلا پا کر بے شمار عنایت کی اور وہ صحابہ آپ کی رفاقت میں دیئے جو نجوم السماء کی طرح نہ صرف کثیر تھے بلکہ ان کے دل توحید کی روشنی سے چمک اٹھے تھے۔ غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دوریہ ہیں اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خُو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبد اللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکار ا گیا صلی اللہ علیہ و سلم ۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ476 تا 477)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہیے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمۂ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیرت کا چولہ اُتار کر آستانۂ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیمؑ بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ابراہیم بنو۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 518،ایڈیشن 2016ء)

الغرض حضرت ابراہیمؑ ہی وہ عظیم الشان شخصیت ہیں جن پر خدا کا نور گھٹائیں باندھ کر اترا۔ جن کی خاطر رسول اللہؐ کو حکم ہوا کہ ملت ابراہیمی کی پیروی کرو۔ آج سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے امت مسلمہ آپؑ کی قربانی کی یاد تازہ رکھنے کی خاطر ہر سال عید الاضحی مناتی ہے۔آج آسمان کے ستارے تو شاید گنے جا سکتے ہوں لیکن خدائی وعدوں کے مطابق ابراہیم کی جسمانی اور روحانی اولاد کا شمار ناممکن ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button