حضرت مصلح موعود ؓمتفرق مضامین

عید الاضحی ایک عظیم الشان قُربانی کی یاد میں قائم کی گئی ہے!

(خطبہ عید الاضحی حضرت مصلح موعودؓ فرمودہ 26؍اگست 1920ء بمقام ڈلہوزی کوٹھی راج محل)

کلمہ شہادت۔ تعوذ اور تلاوت سورہ فاتحہ کے بعد فرمایا:

قربانی کےلئے کون پیش ہوا

یہ عید قربانی عید کہلاتی ہے کیونکہ ایک عظیم الشان قربانی کی یاد میں قائم کی گئی ہے لوگ بحث کرتے ہیں کہ یہ قربانی حضرت اسحٰق ؑکی تھی یا حضرت اسمٰعیل ؑکی۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی اس قربانی میں پیش کئے گئے تھے۔

تورات کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا تھا کہ اپنا اکلوتا بیٹا قربانی میں پیش کریں۔

’’اس نے کہا(اللہ تعالیٰ نے) تُو اپنے بیٹے ہاں اکلوتے بیٹے کو جسے تُو پیار کرتا ہے۔ اضحاق کو لے اور زمین صوریاہ میں جا اور اُسے وہاں پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو مَیں تجھےبتاؤں گا سوختنی قربانی کے لئے چڑھا۔‘‘

(پیدائش باب 22آیت 2)

مگر چونکہ حضرت اسحٰقؑ حضرت اسمٰعیلؑ سے چھوٹے تھے۔ اس وجہ سے اکلوتے بیٹے کے لفظ کا اطلاق ان پر نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن بڑے بیٹے پر اکلوتے کا لفظ عائد ہوسکتا ہے کیونکہ جب تک حضرت اسحٰقؑ پیدا نہیں ہوئے تھےحضرت اسمٰعیلؑ ہی اکلوتے تھے۔

یہود کو یا تو دھوکا لگا ہے یا انہوں نے عمداً حق پوشی کر کے لوگوں کو دھوکا دیاہے اور اس خواب میں اضحٰق کا لفظ بڑھا دیا ہے تاکہ قربانی کے فوائد اور وعدوں کا وارث اپنی قوم کو ثابت کر کے حق اپنی طرف منسوب کریں۔

حضرت ابراہیمؑ کی رؤیا

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رؤیا میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہیں۔(الصّٰفّٰت:103)یہ ایک خواب تھی جس کی تعبیر تھی اور یہ ظاہر اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا تھا۔اور یہ رؤیا کچھ معنی رکھتی تھی مگر چونکہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی قانون نازل نہ ہوا تھا کہ رؤیا پر کیونکر عمل کیا جائے اور خواب کی حقیقت اور معانی سمجھ کر کیونکر اسے عملی جامہ پہنایا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رؤیا کو اپنے ظاہر پر محمول کیا اور واقعہ میں اپنے جگر گوشہ کو خدا کے حکم کے ماتحت اور اس کی رضا کے حصول کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوگئے اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو جن کی رضابھی اس میں شامل تھی۔ زمین پر لٹا دیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام گویا اپنی طرف سے حضرت اسمٰعیلؑ کو قربان ہی کر چکے تھے۔ اس رؤیاکی حقیقت بتائی اور اس خواب کو ظاہری طور پر پورا کرنے کے لئے حکم دیا کہ اللہ کی راہ میں ایک بکرا قربان کیا جائے۔(پیدائش باب22آیت12)

دراصل یہ رؤیا ایک بنیاد تھی جس کا دامن قیامت تک کے لئے وسیع تھا اور اس رؤیا کے دونوں پہلو تھے منذر بھی اور مبشر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ رؤیا کے منذر حصہ کی تکالیف اور دکھ سے بچنے کے لئے بکرے کی قربانی ادا کرو۔

قُربانی اور صَدقہ میں فرق

چنانچہ اسی ابراہیمی سنت کے ماتحت مسلمانوں کو بھی قربانی کا حکم ہے۔اور اس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ مگر چونکہ اس رؤیا کے دونوں پہلو ہیں منذر بھی اور مبشر بھی اسی وجہ سے اس قربانی اور صدقہ میں فرق ہے۔ صدقہ کی قربانی کا گوشت انسان کو خود کھانا جائز نہیںمگر اس قربانی کا گوشت انسان خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور اپنے دوستوں اور غرباء و مساکین میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب عن اکل لحوم الاضاحی)

حضرت ابراہیمؑ کی رؤیا کا مطلب

دراصل یہ رؤیا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ہجرت کی پیشگوئی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قبل از وقت اشارةً بتائی گئی کہ اپنے ننّھے بچے کو ایک ایسے بے آب و دانہ جنگل میں جہاں سینکڑوں میل تک نہ پانی نہ کھانے کا سامان کچھ بھی میسر نہ ہو،وہاں چھوڑنا پڑے گا۔ جو دراصل ان حالات کے ماتحت ذبح کرنے سےبھی زیادہ سخت ہوگا۔ اور یہی وہ قربانی تھی جس کی طرف رؤیا میں اشارہ تھا۔ ورنہ یہ خیال کہ بچے کو ذبح کر دو اور پھر بس۔ اس کے بعد اس کا کوئی نتیجہ نہیں، یہ تو ایک تمسخر بن جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور انبیاءکی شان سے بعید ہے گو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہی سمجھا جس کے مطابق اپنے اخلاص اور علم کی بنا پر عملدآمد کیا۔ مگر دراصل منشاء الٰہی وہی تھا جو واقعات سے ثابت ہوا۔

غور کا مقام ہے کہ حضرت اسمٰعیلؑ کی عمر اس وقت گیارہ یا بارہ برس کی ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ اس کو اس لق و دق جنگل میں چھوڑ آؤ ۔جہاں سینکڑوں میل تک پانی ہے نہ دانہ۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کا یوں بیان فرماتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک تھیلے میں تھوڑی کھجوریں اور ایک مشکیزہ میں کچھ پانی لیا۔اور حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل ؑکو لے کر ایک جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت ہاجرہ پوچھتی ہیں کہ آپ کہاں جاتے ہیں اور ہمیں کدھر لے جاتے ہیں۔ مگر حضرت ابراہیمؑ نے کوئی جواب نہ دیا اور جنگل کی طرف چلتے چلے گئے۔ حضرت ہاجرہ بار بار پوچھتی تھیں مگر کوئی جواب نہ ملتا تھا۔ حتّٰی کہ اس خاص مقام پر پہنچے جہاں مکّہ مکرمہ تھا۔ اور جس جگہ ان کو پہنچانے کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا تھا۔وہاں پہنچ کر کھجور کا تھیلہ اور پانی کا مشکیزہ ماں بچےکے پاس رکھ کر آپؑ واپس روانہ ہوئے۔ حضرت ہاجرہؓ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیمؑ ان کو اس جنگل میں یکہ و تنہا چھوڑ کر خود واپس جارہے ہیں تو وہ ان کے پیچھے ہولیں اور عرض کیا کہ ہمیں اس جنگل میں چھوڑ کر آپؑ کہاں تشریف لے جاتے ہیں۔ مگر کوئی جواب حضرت ابراہیمؑ نے ان کو نہ دیا اور چپکے چلتے گئے۔ حضرت ہاجرہ نے پھر عرض کیا دوبارہ سہ بارہ پوچھا کہ حضور ہمیں اس بے گیاہ ،بے آب و دانہ خوفناک اور بھیانک جنگل میں جہاں نہ انسان ہے اور نہ کوئی مونس و غمخوار، تنہائی اور جدائی ڈراتی ہے، ایسے لق و دق سنسان بیابان میں بے سرو سامان چھوڑ کر کہاں تشریف لے جاتے ہیں؟مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے پھر بھی کوئی جواب نہ ملا۔ تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا عرض کرتی ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور کیا آپ اللہ کے حکم سے ہمیں یہاں چھوڑتے ہیں۔اس پر حضرت ابراہیمؑ نے صرف اتنا جواب دیا۔ نعم(ہاں)۔

حضرت ہاجرہؓ کا ایمان بھی کیسا کامل ایمان ہے اور کس پایہ کی مطیع و متوکلہ عورت ہیں کہ جب اللہ کا نام آیا، دل قوی ہوگیا۔ تمام خطرے جاتے رہے۔ ساری تنہائی اور بے سرو سامانی بھول گئی۔ اور نہایت انشراح صدر اور کمال اطمینان سے کہتی ہیں۔

اِذَنْ لَّا یُضَیِّعُنَا۔یہ

کہہ کر حضرت ابراہیمؑ کی طرف سے اپنے لخت جگر ، نُورِ بصر کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ اور رضاء الٰہی پر شاکر اور اس کے حکم کی بجاآوری کے لئے صابر ہیں۔

ادھر حضرت ابراہیمؑ جب راستہ کے موڑ پر پہنچے اور دیکھا کہ آپؑ اب اُن کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ منہ قبلہ کی طرف پھیر لیا اور کھڑے ہو کر اپنی پیاری بیوی اور عزیز بچے کو اللہ کے سپرد کرتے ۔ اور دعا کرتے ہیں۔

رَبَّنَاۤ اِنِّیْ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ۔(ابراھیم:38)

اس دعا کے بعد گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام مطمئن ہوگئے اور ان کو اللہ کے وعدوں پر کامل یقین اور پورا بھروسہ تھاکہ وہ ان کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ اور ایسا بڑھائے گا کہ دنیا کی ریت کے ذرّات کا گِنا جانا ممکن مگر یہ کبھی نہ گنے جاسکیں گے۔ دعا بھی کیسی کامل دعا کی ہے کہ ان کی روحانی جسمانی ضروریات کو مدّنظر رکھ کر جامع دعا کی ہے۔

حضرت ہاجرہؓ اور ان کے بچے کے پاس تھوڑی سی کھجور اور تھوڑا پانی تھا۔ جلدی ختم ہوگیا۔ بچے بھوک پیاس کی زیادہ برداشت نہیں کرسکتے۔ پیاس سے تنگ آکر حضرت اسمٰعیل ؑ نے رونا اور چلانا شروع کیا۔ ماں کی مامتا مشہور ہے ان کے بیتاب اور لوٹ پوٹ ہونے کو دیکھ نہ سکیں اور ادھر اُدھر پانی کی تلاش میں دوڑنے لگیں۔ایک طرف صفا کی پہاڑی اور دوسری جانب مَروہ کی بلندیاں تھیں۔ اُدھر سے اِدھر اور اِدھر سے اُدھر سات مرتبہ دوڑی تھیں کہ کہیں کوئی پانی کا نشان مل جائے۔ گھبراہٹ میں تھیں، بچہ جان بلب تھا۔ اس درد کا کون اندازہ کر سکتا ہے آخر ایک آواز کان میں آئی جو محض آواز ہی تھی۔ سُننے کے لئے کان لگائے۔ پھر آواز آئی اس کوامداد کے لئے پکارا۔ مگر وہ فرشتہ تھا جس نے اپنے پاؤں کی ایڑی سے یا اپنے پر سے ایک پتھر کو ٹھوکر لگائی اور وہاں سے چشمۂ صافی رواں ہوگیا۔ جس سے اس نے اپنے بچے کو پلایا اور خود بھی پیا۔ وہی چشمہ اب دنیا میں زمزم نام سے موسوم ہے۔(صحیح بخاری کتاب الانبیاء )

صفا اور مَروہ کی سعی ایام حج میں اسی عظیم الشان قربانی کی یاد میں قائم ہوئی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء )قربانی کیا پھل لائی اور کیسی بارآور ہوئی۔ دنیا جانتی ہے۔

یہ قربانی تھی جس کی طرف اشارہ تھا۔ اور یہی وہ قربانی ہے جو حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد کو بھی کرناتھی پہلی کتابوں میں یونہی لکھا تھا کہ حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی اولاد کے خلاف تمام دنیا کا ہاتھ اٹھے گا اور حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی اولاد کا ہاتھ تمام دنیا کے خلاف ہوگا۔ چنانچہ پیدائش باب 16 میں یوں بیان ہوا ہے:

’’اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے۔ اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودوباش کرے گا۔‘‘

اور جس کا یہ حال ہو کہ تمام دنیا اس کے خلاف جمع ہوجائے۔ اسے قربانی بھی بہت بڑی کرنی پڑتی ہے۔

رسول کریمؐ کی قربانی

حضرت اسمٰعیل کی اولادمیں سے آپ کے حقیقی وارث حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی سب سے بڑی قربانی کرنی پڑی۔ چنانچہ اسی مقام پر جہاں حضرت اسمٰعیل کو ہجرت کرنی پڑی تھی۔ اسی مقام پرآپؐ کا دانہ پانی روک دیا گیا۔ حضرت اسمٰعیل تو ایسے وقت میں وہاں پہنچائے گئے تھے کہ وہاں دانہ پانی تھا نہیں مگر یہاں یہ حالت ہے کہ دانہ اورپانی تو موجود ہے مگر پہرہ مقرر کر دیا جاتا ہے کہ ان کو نہ دانہ پہنچے اور نہ پانی۔ اور متواتر چھ سال (غالباً سہو کتابت ہے۔ اصل مدّت اڑھائی تین سال ہے(تاریخ طبری جلد 2صفحہ 1155)تک یہی حالت رہتی ہے۔ حتّٰی کہ فاقوں کی وجہ سے لوگوں کے چہرے پہچاننے مشکل ہوگئے اور پھر یہ وہی قربانی کے ایام ہیں جن میں آپؐ کی نہایت پیاری بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انہی مشکلات مصائب اور مشقتوں میں فوت ہوئیں۔

حضرت اسماعیلؑ کے واسطے تووہ مشکل چند روزہ تھی مگر یہاں متواتر چھ سال کا عرصہ انہی مشکلات میں بسر کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ بڑی قربانی آپ کو اس لئے کرنی پڑی کہ آپؐ ہی وہ نبی تھے کہ جن کا ہاتھ تمام دنیا کے خلاف اور جن کے خلاف تمام جہان کھڑا ہونے والا تھا۔

عیسائی کہتے ہیں کہ ان الفاظ تورات سے مراد ڈاکو ہیں۔مگر یہ ٹھیک نہیں۔ ڈاکو بھی بھلا کوئی حیثیت رکھتے ہیں جن کے خلاف تمام دنیا اور سارے جہان کو جمع ہونے کی ضرورت پیش آئے۔ بڑے بڑے ڈاکو دنیا میں پیدا ہوئے اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ آخر ان کا کیا انجام ہوا۔ تھوڑے ہی دنوں میں باندھ کر ان کو سزائیں مل گئیں۔ مگر اسمٰعیل اور اس کی اولاد کی نسبت تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ باوجود سب دنیا کی مخالفت کے وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا۔ یعنی ان کی مخالفت ان کو نقصان نہ پہنچاسکے گی۔

دراصل یہ ایک بہت بڑے انقلاب اور عظیم الشان تغیّرات کی طرف اشارہ تھا جو ہمیشہ ہمیش کے لئے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کے خلاف دنیا میں بپا ہونے والا تھا اور جسے اب دنیا آئے دن مشاہدہ کررہی ہے جس دن سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو مکہ کے پاک اور متبرک مقام پر کھڑا کیا گیا تھا اسی دن سے دنیا میں اس عظیم الشان تغیّر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آپ کو نہ مٹنےاور نہ بدلنے والے مقام پر کھڑا کیا گیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ دنیا کو اس کی اور اس کی اولاد کی طرف سے کھاجانے والا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ قاعدہ کی بات ہے کہ بدلتی رہنے والی چیز اور مٹ جانے والی ہستی کا لوگوں کو زیادہ خوف نہیں ہوتا۔ اصل خوف اور زیادہ ڈر اسی چیز کا ہوتا ہے جس کے متعلق خیال ہو کہ یہ نہ بدلے گی اور نہ مٹے گی۔ کیونکہ بدلنے اور مٹ جانے والی چیزوں کے متعلق وہ دلوں کو تسلّی دے لیتے ہیں کہ چند روز بعد بدل جائے گی یا مٹ جائے گی مگر حضرت اسمٰعیل کو جس مقام پر کھڑا کیا گیا تھا اس کے متعلق وعدہ تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیش قائم رہے گا نہ مٹے گا اور نہ بدلے گا۔ اور یہی امر دنیا کی زیادہ مخالفت کا باعث ہوا۔ غرض یہ رؤیا اس قربانی پر دلالت کرتی تھی کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد کو صداقت اور حق کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تمام دنیا کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مذہب دیا گیا وہ اس حقیقت کا پورا ثبوت اور بیّن دلیل ہے۔

اسلام کا اصل الاصول قربانی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل کو قربان کر کے آئندہ نسلوں کے لئے ترقیات اور وصول الیٰ اللہ کی سنت قائم کر دی اور کمال فرمانبرداری کا نمونہ دکھا کر اپنا مذہب کھول کر بتا دیا ہے۔ جس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان جب تک خدا کے لئے اپنے اوپر ایک موت وارد نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہر قسم کی ذلّت اور رُسوائی کو اپنے اوپر لینے کے لئے تیار نہیں ہو جاتا اور مشکلات اور مصائب کے خاردار کوہ ودشت میں نہیں پھینکا جاتا۔ اور دنیا سے بالکل منقطع ہو کر کاٹا نہیں جاتا اس وقت تک قبول بھی نہیں کیا جاتا۔

ابراہیمی سنت اور اسمٰعیلی ایثارو فرمانبرداری کا رنگ جب تک انسان اپنے اندر پیدا نہیں کرتا۔ (جس کا کامل نمونہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکّی زندگی میں کمال صبر اور کمال استقلال سے دکھا کر حقیقی قربانی کی مثال ہمیشہ ہمیش کے واسطے بطور نمونہ اور اسوۂ حسنہ قائم کر دی۔ اور جو بعد کو مدنی زندگی کے زمانہ میں رنگ لائی، بارور ہوئی اور اس قربانی کی قبولیت کا ثبوت اور منظوری کی شہادت اللہ تعالیٰ نے اپنے فعل سے دی) اس وقت تک انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور نہ قبولیت کا شرف بخشا جاتا ہے اور نہ ہی وہ منظور نظر ہو سکتا ہے۔

مگر لوگ بالعموم قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔مَیں دیکھتا ہوں طبائع میں عام طور پر کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا مادہ بہت کم پایا جاتا ہے۔ نفس کا مارنا اور خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنی تمام خواہشات اور امنگوں کو قربان کر کے گردن ڈال دینا، اپنا آپ بھلا کر تمام تر خدا کے لئے ہوجانا اور اِباءواستکبار کو ترک کر دینا نہایت ہی مشکل اور موت سے بھی سخت تر ہے۔

بہت ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰة کے پابند ہوں گے۔ مالوں کی قربانی میں دلیری اور حوصلے سے کام لیں گے۔ نفسانی خواہشات کو قربان کر کے ایثار کا ثبوت دیں گے۔ بدنی اور جسمانی خدمات کے لئے کمر بستہ ہوں گے اپنے اوقات گرامی کی قربانی کے لئے آمادہ نظر آئیں گے مگر کامل فرمانبرداری اور ترک اِباءواستکبار کے امتحان میں کچے نکلیں گے اور پیچھے رہ جائیں گےکیونکہ وہ اعمال تو ایسے نہیں کہ کرتے کرتے ان کی عادت پختہ ہوجاتی ہے۔ اور وہ انسان کے ایسے عادت ثانی ہوجاتے ہیںکہ پھر ان کا ترک کرنا انسان کے واسطے مشکل ہوجاتا ہے۔

مگر فرمانبرداری اس بات کا نام ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی روح اور اس کے قلب میں ایک ایسا احساس پیدا ہوجائے کہ وہ ان تمام احکام کی فرمانبرداری اور تعمیل کے لئے ایسا کمر بستہ ہوجائے کہ جب جب بھی کوئی حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اس کے رسولوں اور انبیاءؑ کی طرف سے، یا ان کے نواب اور خلفاء کی طرف سے صادر ہو۔ سو یہ اس کے ماننے اور فرمانبرداری کے لئے اپنے دل میں کوئی خلش نہ پائےاور تعمیل کے لئے بالکل تیار ہو۔اِباءواستکبار اور نافرمانی کا خیال و وہم تک بھی اس کے قلب میں نہ گذرے۔پس انسان ہزار نمازیں پڑھے،صدقات دے اور ظاہری قربانیاں ادا کرےمگرجب تک وہ قلب سلیم نہیں جس میں یہ یقینی عزم ہو کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ نہیں کرنا، اِباءو استکبار نہیں کرنا اور خدا کے لئے ہر موت اپنے اوپر وارد کرنا منظور ہے تب تک کچھ بھی نہیں۔

ایک شخص تھوڑی نمازیں پڑھنے والا اور کم تسبیح تحمید کرنے والا اور ظاہری احکام کی پابندی میں بظاہر دوسروں سے کم ہے۔ مگر اس کے اندر وہ سعید روح موجود ہے اور دل میں سچا جوش اور تڑپ ہے کہ جب بھی کوئی حکم خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے ملتا ہے وہ اس کی تعمیل و فرمانبرداری کے لئے حتی الوسع تیار ہوتا ہےاور اِباءو استکبار نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے اور وہ اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے کہ اسے بھی کسی حکم کی تعمیل کا موقع و توفیق ملی اور شکر کرتا ہے کہ وہ بھی اس قابل ہوا کہ اسے کوئی موقع خدمت کا دیا گیا، اور ہزار درجہ بہتر اور لاکھ درجہ افضل ہے اس انسان سے جو سارا دن نمازوں اور تسبیح و تحمید میں گذار دیتا ہے اور سارے مال کو اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیتا ہے مگر ابھی اس کے اندر وہ مادہ پیدا نہیں ہوا جس کے ذریعے سے وہ ہر ایک حکم کے لئے اپنے آپ کو بشرح صدر تیار پاتا ہے یا اس کا نفس بعض احکام پر برا مانتا اور ان کی اطاعت میں اپنی حق تلفی سمجھ لیتا ہے۔درحقیقت وہ مسلم نہیں۔ اس کے نفس نے اس کو دھوکا دے رکھا ہے اور اس میں وہ رگ باقی ہے جس کی وجہ سے ابلیس راندۂ درگاہ ہوا۔

قربانی کے معنی ہیں کہ انسان ایک مردہ کی طرح ہوجائے جو بدست زندہ ہو وہ اسے جدھر چاہے پھیر دے اور جہاں چاہے رکھ دے۔ نہ کوئی اس کی خواہش ہو اور نہ اس کا اپنا کوئی جذبہ ہو۔ وہ اپنے ارادے اور نیت کو بالکل کھو چکا ہو۔ ایسا مردہ انسان بلکہ بے حس و حرکت پتھر بھی لاکھ درجہ بہتر ہے اس انسان سے جو ظاہری اعمال سے اپنے اسلام و فرمانبرداری کا دعویٰ کرےمگر امتحان کے وقت جھوٹا ثابت ہواور اباءو استکبار کرے۔

اِبا ءکس قدر خطرناک ہے

کہتے ہیں کہ ابلیس بڑا عابد زاہد تھا۔ یہ مان لیا کوئی بعید ازقیاس بات نہیں بلکہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ ہمیشہ انبیاء و صادقین کی آمد سے پہلے ہی ایک ایسا گروہ موجود ہوتا ہےجو مدعی اسلام و فرمانبرداری ہوتا ہے۔ دور کی بات نہیں ہمارے اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے دشمن مولوی محمدحسین بٹالوی ہی کی نسبت ہم نے تحقیقات کرائی ہے۔ وہ شریعت کے ظاہری احکام کا بڑا پابند تھا تہجدگزار تھا اور سوائے خاص مجبوری کے تہجد ترک نہ کرتا تھا۔ انبیاء و راستبازوں کی آمد سے پہلے ایک گروہ ایسا بھی ہوا کرتا ہے۔ اور ایک گروہ ایسا بھی ہوا کرتا ہے۔ جیسے مولوی ثناء اللہ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ بعثت سے پہلے بھی ایک شخص زید نامی مشہور زاہد تھا اور وہ شرک کے خلاف وعظ بھی کیا کرتا تھا اور ایسی غیرت کا اظہار کیا کرتا تھا کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُسے کھانے کے لئے بلوایا تو اس نے جواب دیا کہ میں تمہارا کھانا نہیں کھا سکتا کیونکہ تم لوگ مشرک ہو۔(صحیح بخاری کتاب المناقب) مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے یقین دلایا کہ ہم لوگ ہرگز مشرک نہیں ہیں۔ مگر آخر ایسا مدعی بھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نبوت کا اعلان کیا تو شاکی ہوا اور اس نے اپنی حق تلفی سمجھی کہ خدمات تو میں نے کی ہیں اور نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مل گئی۔ اِباء کیا استکبار دکھایا۔ مَردود ہوا اورمحروم رہ گیا۔

غرض اباء و استکبار ایک ایسی آگ ہے جو ایک دم میں سالہا سال کی محنت ریاضت، زہدو تعبد کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے اور عمروں کے اعمال کو حبط کر کے خالی ہاتھ کر دیتی ہے۔

محض گناہ یا مخفی نافرمانی تو حضرت آدم علیہ السلام کی طرف بھی منسوب ہوتی ہے۔ کیونکہ نافرمانی کہتے ہیں حکم کے نہ ماننے کو۔ سو وہ تو حضرت آدمؑ سے بھی ہوئی اور ابلیس کی طرف بھی نافرمانی منسوب ہوئی۔ مگر فرق کیا ہے؟ جس سے حضرت آدمؑ تو باوجود نافرمانی کے مقرب اور محبوب رہے اور ابلیس ہمیشہ ہمیش کے لئے مردود اور متروک ہوگیا؟فرق صرف یہی ہے کہ حضرت آدمؑ سے نافرمانی سرزد ہوئی مگر نسیان سے عمداً نہیں، اباء سے نہیں، استکبار سے نہیں۔ اور ابلیس سے نافرمانی ہوئی ابا سے اور استکبار سے۔

ایک مسلمان اگر نماز نہیں پڑھتا مگر اندر ہی اندر نادم ہوتا ہے اور نماز کا انکار تو نہیں کرتا بلکہ اپنی سستی اور غفلت کا اقبال کرتا ہے اور کسی کے پوچھنے پر شرمندگی سے سر نیچا کر لیتا ہےگردن ڈال دیتا ہے اور خاموش ہوجاتا ہے تو وہ مومن ہے اور مسلمان ہے۔ لیکن اگر اباء کرتا، استکبار دکھاتا اور اپنے گناہ پر مصر ہے اور اسے مستحسن سمجھتا ہےتو وہ ایمان سے خارج ہوجائے گا۔ محض گناہ انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتا خواہ انسان اعمال ظاہری میں سست ہی کیوں نہ ہو۔لیکن بظاہر پابند شریعت ہو کر ابا و استکبار کرنے والا کبھی بھی مومن نہیں رہ سکتا۔یہ ایک نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ اکثر سوال ہوتا ہے کہ فلاں شخص تو بڑا نیک پارسا تھا۔ عابد تھا زاہد تھا۔ خادمِ دین تھا۔تبلیغ میں حصہ وافر لیتا تھا، وہ کیسے مرتد ہوگیا۔ مگر و ہ نہیں جانتے کہ ایسے بڑے کہلانے والے، ایسے قربانیاں کرنے والےلوگ لوگوں کے نفسوں کا تو محاسبہ کرتے ہیں مگر اپنے نفس کے محاسبہ کا انہیں کبھی خیال تک بھی نہیں آتا۔ وہ عبادت کرتے ہیں مگر اس لئے کہ عبادت کرتے کرتے ان کے اندر ایک ذوق پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ زہد کرتے ہیں مگر اسی ذوق کی بنا پر ان کے قلب کا انجن ٹھیک نہیں ہوتا۔ ان کے دل میں وہ ایمان اور وہ روح پیدا نہیں ہوئی ہوتی جو حقیقت رس ہو۔ اس کی مثال بعینہٖ کلاک کے پنڈولم (Pendolum) کی ہے جو موازنہ سے حرکت کرتا ہے۔ ذرا سی روک آئی اور تھم گیا۔ اس روک کے مقابلہ کرنے والی قوت ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوئی ہوتی۔

میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی شاذ ہیں جو اس نکتہ کو سمجھے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اگر وہ ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کی صفائی پربھی زور دیتے اور ان کے اندر یہ روح پیدا ہوجاتی کہ جب جب کوئی حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کی طرف سے یا ان کے نوّاب و خلفاء کی طرف سے آتا، وہ اس کے قبول کرنے اور بسرو چشم ماننے کو تیار ہوجاتے۔اگر اس نکتہ کو لوگ سمجھ لیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو بہت جلد ایک ایسی مضبوط جماعت تیار ہوسکتی ہے جو بجائے ذرا ذرا سی بات پر اڑ بیٹھنے اور معمولی باتوں کو ہتک سمجھ کر الگ ہوجانے کے ایسی مضبوط ہو کہ اگر اسے آروں سے بھی چیر دیا جائے تو بھی اس کے اندر کمزوری نہ پیدا ہو اور اسے ابتلا نہ آوے۔ بلکہ وہ بڑے بڑے ابتلاؤں کو بھی ابتلا قرار دینے سے پرہیز کرے اور پوری صادق اور صابر اور فرمانبردار ہو۔

اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس کے سمجھنے کی توفیق دے اور اباء و استکبار کا مادہ جو ابتدا سے دنیا میں چلا آیا ہےاس سے بچائے اور جس فرمانبرداری اور قربانی کی بنا حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے رکھی تھی اور جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے درجہ تکمیل تک پہنچایا تھا، اس پر کاربند ہونے کی توفیق عطا فرماوے ۔آمین ثم آمین‘‘

(الفضل 6؍ ستمبر 1920ء صفحہ 7 تا 9 بحوالہ خطبات محمود جلد 2صفحہ60تا68)

(مرسلہ: قریشی عبدالحکیم ایم اے۔ بنگلور انڈیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button