خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍جولائی2021ء

’’افسوس! افسوس! میں کیا ہی بُرا نگران ہوں گا اگر اس کا اچھا حصہ میں کھاؤں اور لوگوں کو اس کا ردّی حصہ کھلاؤں۔ یہ پیالہ اٹھا لو اور ہمارے لیے اس کے علاوہ کوئی اَور کھانا لاؤ‘‘ (حضرت عمرؓ)

حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے ماتحت جب یہودیوں اور عیسائیوں کو یمن سے نکالا تو آپؓ نے ان کی زمینیں ضبط نہیں کیں بلکہ ان کی زمینیں خریدیں

حضرت عمرؓ کے زمانے میں سترہ ہجری میں مسجد نبویؐ کی توسیع ہوئی۔ مردم شماری شروع کی گئی۔ رعایا میں راشننگ سسٹم کا آغاز ہوا۔ شوریٰ کا قیام عمل میں آیا۔ محاصل کا نظام قائم کی گیا۔ زراعت کی ترقی کے لیے اقدامات کیے گئے۔

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

قحط کے دنوں میں حضرت عمرؓ نے ایک نیا کام کیا جسے وہ نہ کیا کرتے تھے وہ یہ تھا کہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتے اور آخر شب تک مسلسل نماز پڑھتے رہتے۔ پھر آپؓ باہر نکلتے اور مدینہ کے اطراف میں چکر لگاتے رہتے

عبداللہ بن ابراہیم سے روایت ہے کہ سب سے پہلے مسجد نبویؐ میں جس نے چٹائی بچھائی وہ حضرت عمربن خطابؓ تھے

’’اسلام ہی ہے جس نے ملکی حقوق بھی قائم کیے ہیں۔ اسلام کے نزدیک ہر فرد کی خوراک، رہائش اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسلام نے ہی سب سے پہلے اس اصول کو جاری کیا ہے۔(حضرت مصلح موعودؓ)

حضرت عمرؓ نے بیس ہجری میں مقبوضہ ممالک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم فرمایا تا کہ انتظامی امور میں آسانی رہے۔ نمبر ایک مکہ، نمبر دو مدینہ، نمبر تین شام، نمبر چار جزیرہ، نمبر پانچ بصرہ، نمبر چھ کوفہ، نمبر سات مصر اور نمبر آٹھ فلسطین

حضرت عمرؓ کے دور میں جو شخص عامل مقرر ہوتا اس سے یہ عہد لیا جاتا کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا۔ باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔ چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا۔ دروازے پر دربان مقرر نہیں کرے گا۔ ضرورت مندوں کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے گا۔ ……عاملین مقرر کرنے کے بعد ان کے مال و اسباب کی جانچ کی جاتی تھی۔ اگر عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی جس کے بارے میں وہ تسلی نہ کروا سکتے تو اس کا مؤاخذہ کیاجاتا اور زائد مال بیت المال میں جمع کروا لیاجاتا۔

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا تم میری عمر کا اندازہ اس سے لگا لو کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زیدؓ کو دس ہزار صحابہ ؓکا سردار بناکر بھیجا تھا جس میں ابوبکرؓ اور عمر ؓبھی شامل تھے تو اس وقت جو عمر اسامہ بن زیدؓ کی تھی اس سے ایک سال میری عمر زیادہ ہے

مرکزی شعبہ احمدیہ آرکائیوز اور ریسرچ سینٹرکی طرف سے تیار کردہ احمدیہ انسائیکلوپیڈیا کی ویب سائٹ www.ahmadipedia.orgکے اجرا کا اعلان

یہ ویب سائٹ تمام جماعت کے تعاون سے جاری و ساری رہنے والا پراجیکٹ بنے گی اور ان شاء اللہ ہر احمدی کے لیے فائدہ مند ہو گی

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍جولائی2021ء بمطابق 02؍وفا1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج کل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا ہے۔ اسی ضمن میں آج بھی بیان کروں گا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے متعلق ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے ماتحت جب یہودیوں اور عیسائیوں کو یمن سے نکالا تو آپؓ نے ان کی زمینیں ضبط نہیں کیں بلکہ ان کی زمینیں خریدیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ یمن کی زمین جو عیسائیوں اور یہودیوں کے نیچے تھی وہ خراجی تھی لیکن جب حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ زمین یہودیوں اور عیسائیوں سے لے لی اور ان کو عرب کے جزیرے سے نکال دیا تو باوجود اِس کے کہ وہ زمین خراجی تھی اور اصولی طور پر حکومت اس کی مالک سمجھی جاتی تھی انہوں نے وہ زمین ان سے چھینی نہیں بلکہ خریدی۔ چنانچہ فتح الباری شرح بخاری میں یہ حدیث درج ہے کہ

عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيْدٍ أَنَّ عُمَرَ أَجْلٰى أَهْلَ نَجْرَانَ وَالْيَهُوْدَ وَالنَّصَارٰى وَاشْتَرٰى بَيَاضَ أَرْضِهِمْ وَكُرُوْمَهُمْ۔

یعنی یحییٰ بن سعید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے نجران کے مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کو وہاں سے جلاوطن کردیا اور ان کی زمینیں اور باغ خرید لیے۔ یہ ظاہر ہے کہ یہودیوں کی زمین عُشر ی نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر وہ عُشر ی تھی تو اس کا مالک کوئی مسلمان ہوگا۔ پس یہودیوں سے اس کے خریدنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ وہ یقیناً خراجی تھی جیسا کہ ہندوستان کی زمین کو خراجی قرار دیا جاتا ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو خراجی قرار دے کر اور حکومت کو اس کا مالک قرار دے کر اس کو ضبط نہیں کیا بلکہ اس کو خریدا۔ شاید کوئی کہے کہ یہ زمین نہ خراجی ہوگی نہ عُشری بلکہ کسی اَور قسم کی ہوگی تو یہ خیال بیہودہ ہوگا اور اسلامی شریعت سے ناواقفی کی علامت ہوگا۔ عُشری اور خراجی کے سِوا اَور کوئی زمین اسلام میں نہیں سوائے اِس کے کہ وہ بےکار پڑی ہوئی ہو اور اس کا مالک کوئی فردِ واحد نہ ہو۔ پس لازماً یہودی اور نصرانی اور مشرک اہل نجران کی زمینیں یا خراجی تھیں یا عُشری تھیں مگر دونوں صورتوں میں ان کا مالک حضرت عمرؓ نے ان کے قابضوں کو قرار دیا اور ان سے وہ زمینیں خریدی گئیں۔

(ماخوذ از اسلام اور ملکیت زمین۔ انوار العلوم جلد 21 صفحہ444، 478-479)

اسلام میں جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ’’فرماتا ہے

تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا۔

اے مسلمانو! کیا تم دوسرے لوگوں کی طرح یہ چاہتے ہو کہ تم غیر اقوام کے افراد کو پکڑ کر اپنی طاقت اور قوت کو بڑھا لو۔

وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْآخِرَۃَ۔

اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے پیچھے چلو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں ان احکام پر چلائے جو انجام کے لحاظ سے تمہارے لئے بہتر ہوں اور اگلے جہان میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کا مستحق بنانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور انجام کے خوشگوار ہونے کے لحاظ سے یہی حکم تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم سوائے جنگی قیدیوں کو جنہیں دورانِ جنگ گرفتار کیا گیا ہو اَور کسی کو قیدی مت بناؤ ۔گویا جنگی قیدیوں کے سِوا اسلام میں کسی قسم کے قیدی بنانے جائز نہیں۔ اس حکم پر شروع اسلام میں اس سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ایک دفعہ یمن کے لوگوں کا ایک وفد آپؓ کے پاس آیا اور اس نے شکایت کی کہ اسلام سے پہلے ہم کو مسیحیوں نے بلا کسی جنگ کے یونہی زو ر سے غلام بنا لیا تھا ورنہ ہم آزاد قبیلہ تھے۔ ہمیں اس غلامی سے آزاد کرایا جائے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے مگر پھر بھی مَیں اس کی تحقیقات کروں گا۔ اگر تمہاری بات درست ثابت ہوئی تو تمہیں فوراً آزاد کرا دیا جائےگا۔ لیکن اس کے برخلاف‘‘ حضرت مصلح موعودؓ مقابلہ کر رہے ہیں آج کل کے یورپ کا کہ یہ تو اسلامی تعلیم تھی جس پر حضرت عمرؓ نے عمل کروایا یا اس بارے میں ان کو تسلی کروائی لیکن اس کے برخلاف یورپ میں کیا ہوتا ہے ’’یورپ اپنی تجارتوں اور زراعتوں کے فروغ کے لئے انیسویں صدی کے شروع تک غلامی کو جاری رکھتا چلا گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تاریخ سے ایک غیراسلامی غلامی کا بھی پتہ لگتا ہے مگر پھر بھی غلاموں کے ذریعہ سے ملکی طور پرتجارتی یا صنعتی ترقی کرنے کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔‘‘ (اسلام کا اقتصادی نظام۔ انوار العلوم جلد 18 صفحہ 26-27) اسلام میں یہ کوئی تصور نہیں۔

ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بہت سخت قحط پڑ گیا مدینہ اور اس کے گردو نواح میں سخت قحط پڑا۔ جب تیز ہوا چلتی تو راکھ کی طرح مٹی اڑ آتی تھی۔ اس وجہ سے اس سال کا نام عام الرمادة، راکھ کا سال رکھ دیا گیا۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ508 سنۃ18 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

عوف بن حارث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اس سال کا نام عام الرمادة یعنی راکھ کا سال اس لیے رکھا گیا کہ ساری زمین بارش نہ ہونے کی وجہ سے سیاہ ہو کر راکھ کے مشابہ ہو گئی تھی اور یہ کیفیت نو(9) ماہ رہی۔ حزام بن ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اٹھارہ ہجری میں لوگ جب حج سے واپس ہوئے تو انہیں سخت تکلیف پہنچی۔ ملک میں خشک سالی پھیل گئی۔ مویشی ہلاک ہو گئے اور لوگ بھوک سے مرنے لگے یہاں تک کہ لوگ بوسیدہ ہڈیوں کا سفوف پیس کر اس کو پانی میں ڈال کر پینے لگے اور چوہوں وغیرہ کے بلوں کو کھودتے اور اس میں جو ہوتا اسے نکالنے لگے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطابؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کی طرف عام الرمادة میں خط لکھا:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ کے بندے عمرؓ امیر المومنین کی طرف سے عاصی بن عاصی کے نام۔ تم پر سلامتی ہو۔ اَمَّا بَعد۔ کیا تم مجھے اور ان لوگوں کو مرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو جو میرے پاس ہیں اور تم زندہ ہو اور وہ لوگ جو تمہارے پاس ہیں وہ بھی زندہ ہوں۔ کیا کوئی مدد کرنے والا ہے؟ یہ آپؓ نے تین دفعہ لکھا اس پہ۔ مدد! مدد! مدد!

اس کے جواب میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے لکھا:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کے بندے کی طرف۔ اَمَّا بَعد۔آپؓ کے پاس مدد پہنچ گئی۔ کچھ دیر انتظار فرمائیں۔ میں آپؓ کی طرف اونٹوں کا ایک قافلہ بھیج رہا ہوں جس کا پہلا اونٹ آپؓ کے پاس ہو گا اور اس کا آخری اونٹ میرے پاس ہو گا یعنی اتنا بڑا قافلہ ہو گا۔ ایک لمبی قطار ہو گی۔

والیٔ مصر حضرت عمرو بن عاصؓ نے اناج اور غلہ کے ایک ہزار اونٹ بھیجے۔ گھی اور کپڑے وغیرہ اس کے علاوہ تھے۔ والیٔ عراق حضرت سعدؓ نے دو ہزار اونٹ اناج اور غلّے کے بھیجے۔ کپڑے وغیرہ اس کے علاوہ تھے۔ والیٔ شام حضرت امیر معاویہ نے تین ہزار اونٹ غلّے کے بھیجے اور کپڑے وغیرہ اس کے علاوہ تھے۔ جب پہلا غلہ آیا تو حضرت عمربن خطابؓ نے حضرت زبیر بن عوامؓ سے فرمایا۔ تم قافلے کو روک کر اہلِ بادیہ کی طرف پھیر دو۔ یعنی جو گاؤں کے رہنے والے ہیں ان کی طرف پھیر دو۔ ان کو پہلے دو اور ان لوگوں میں تقسیم کر دو۔ بخدا ممکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے بعد اس سے افضل کوئی شَے تمہیں حاصل نہ ہوئی ہو گی۔ اس کے بوروں سے لحاف بنا دو جسے وہ لوگ پہنیں اور اونٹوں کو ان کے لیے ذبح کر دینا۔ وہ لوگ گوشت کھائیں اور اس کی چکنائی اٹھا کر لے جائیں۔ تم انتظار نہ کرنا کہ وہ کہیں کہ ہم لوگ بارش کے آنے تک انتظار کریں گے۔وہ لوگ آٹا پکائیں اور جمع کریں یہاں تک کہ اللہ ان کے لیے کشادگی کا حکم لائے۔ یعنی کچھ پکائیں ،کھائیں اور کچھ جو ہے وہ سٹور بھی کر لیں۔ حضرت عمرؓ کھانا تیار کرواتے اور ان کا منادی اعلان کرتا کہ جوشخص چاہتا ہے کہ وہ کھانے کے وقت حاضر ہو اور کھانا چاہے تو وہ ضرور ایسا کرے۔ اور جو پسند کرتا ہے کہ جو کھانا اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے کفایت کرے تو وہ آئے اور وہ لے جائے۔ حضرت عمرؓ لوگوں کو ثرید، یعنی روٹی کو توڑ کر شوربہ میں ڈال کر جو کھانا تیار ہوتا ہے وہ کھلاتے تھے۔ یہ روٹی ہوتی تھی جس کے ساتھ زیتون کا سالن ہوتا تھا جو فوراً دیگوں میں پکایا جاتا تھا۔ اونٹ ذبح کیے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ بھی سب لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے جس طرح وہ کھاتے تھے۔

عبداللہ بن زید بن اسلم اپنے دادا اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ مسلسل روزے رکھتے رہے۔ عام الرمادة کے زمانے میں شام کے وقت حضرت عمرؓ کے پاس روٹی لائی جاتی جو زیتون کے تیل کے ساتھ ملی ہوتی تھی۔ لوگوں نے ایک روز اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلائے۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کے لیے عمدہ حصہ رکھ لیا۔ جب حضرت عمرؓ کے پاس وہ حصہ لایا گیا تو اس میں کوہان اور کلیجی کے ٹکڑے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے آئے؟ تو بتایا گیا کہ اے امیر المومنین! یہ ان اونٹوں سے ہے جو آج ہم نے ذبح کیے تھے۔ آپؓ نے فرمایا افسوس! افسوس! میں کیا ہی بُرا نگران ہوں گا اگر اس کا اچھا حصہ میں کھاؤں اور لوگوں کو اس کا ردّی حصہ کھلاؤں۔ یہ پیالہ اٹھا لو اور ہمارے لیے اس کے علاوہ کوئی اَور کھانا لاؤ۔ چنانچہ روٹی اور زیتون کا تیل لایا گیا۔ آپؓ نے روٹی اپنے ہاتھ سے توڑی اور اس سے ثرید بنایا۔ پھرآپؓ نے اپنے غلام سے فرمایا۔ اےیَرْفَا! تمہارا بھلا ہو یہ پیالہ ثَمْغ میں ایک گھر والوں کے پاس لے جاؤ۔ ثَمْغ بھی مدینہ کے قریب کھجوروں کا ایک باغ تھا جس کے مالک حضرت عمرؓ تھے۔ انہوں نے اس باغ کو وقف کیا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تین دن سے مَیں نے ان کو کچھ نہیں دیا اور میرا خیال ہے کہ وہ خالی پیٹ ہوں گے۔ یہ ان کے سامنے پیش کر دو۔

حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ قحط کے دنوں میں حضرت عمرؓ نے ایک نیا کام کیا جسے وہ پہلے نہ کیا کرتے تھے اور وہ یہ تھا کہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتے اور آخر شب تک مسلسل نماز پڑھتے رہتے۔ پھر آپؓ باہر نکلتے اور مدینہ کے اطراف میں چکر لگاتے رہتے۔ ایک رات سحری کے وقت میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ

اَللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ هَلَاكَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ عَلٰى يَدَيَّ

کہ اے اللہ! میرے ہاتھوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا۔

محمد بن یحییٰ بن حبان بیان کرتے ہیں کہ قحط کے ایام میں حضرت عمرؓ کے پاس ایک دفعہ چربی میں ڈوبی ہوئی روٹی لائی گئی۔ آپؓ نے ایک بدوی کو اپنے پاس بلایا اور وہ آپؓ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ وہ جلدی جلدی پیالے کے کناروں سے چربی لینے لگا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ تم تو ایسے کھا رہے ہو جیسے کبھی چربی نہیں دیکھی۔ اس نے کہا بےشک میں نے کئی دنوں سے نہ گھی کھایا ہے اور نہ زیتون اور نہ ہی کسی کو یہ کھاتے دیکھا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ نے قَسم کھائی کہ وہ نہ تو گوشت چکھیں گے اور نہ ہی گھی یہاں تک کہ لوگ پہلے کی طرح خوشحال ہو جائیں۔

ابن طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے نہ گوشت کھایا اور نہ ہی گھی یہاں تک کہ لوگ خوشحال ہو گئے اور گھی وغیرہ نہ کھانے اور صرف تیل کھانے کی وجہ سے آپؓ کا پیٹ گڑ گڑاتا تھا۔ آپؓ کہتے یعنی اپنےپیٹ کو مخاطب کر کے کہ تم گڑگڑاتے رہو۔ اللہ کی قسم!تمہیں کچھ اَور نہیں ملے گا تاوقتیکہ لوگ خوشحال نہ ہو جائیں اور پہلے جیسا کھانا شروع نہ کر دیں۔

عِيَاض بن خلیفہ کہتے ہیں کہ میں نے قحط کے سال حضرت عمرؓ کو دیکھا۔ آپؓ کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا حالانکہ پہلے آپؓ کا رنگ سفید تھا۔ ہم کہتے یہ کیسے ہوا تو راوی نے بتایا کہ حضرت عمرؓ ایک عربی آدمی تھے۔ وہ گھی اور دودھ کا استعمال کرتے تھے۔ جب لوگوں پر قحط آیا تو انہوں نے یہ چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں یہاں تک کہ لوگ خوشحال ہو جائیں۔ حضرت عمرؓ نے تیل کے ساتھ کھانا کھایا جس سے آپؓ کا رنگ تبدیل ہو گیا اور جب فاقہ کشی کی تو یہ رنگ مزید تبدیل ہو گیا۔

اسامہ بن زید بن اسلم نے اپنے دادا سے روایت کی کہ ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ نے قحط رفع نہ کیا توحضرت عمرؓ مسلمانوں کی فکر میں مر ہی جائیں گے۔

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قحط کے زمانے میں سارے عرب سے لوگ مدینہ آئے۔ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کا انتظام کریں اور انہیں کھانا کھلائیں۔ مدینہ کے چاروں طرف حضرت عمرؓ نے مختلف اصحاب کی ڈیوٹی لگا دی تھی جو ایک ایک لمحہ کی خبر شام کو جمع ہو کر آپؓ کو دیتے تھے۔ صبح سے لے کے شام تک جو خبریں بھی ہوتی تھیں شام کو آپؓ کے پاس لائی جاتی تھیں۔ آپؓ کو وہ خبریں پہنچائی جاتی تھیں۔ مدینہ کے مختلف علاقوں میں بدوی لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک رات جب لوگ رات کا کھانا کھا چکے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جنہوں نے ہمارے ساتھ رات کا کھانا کھایا ہے ان کا شمار کرو۔ چنانچہ ان کا شمار کیا گیا تو سات ہزار کے قریب افراد تھے۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ جو نہیں آئے انہیں اور مریضوں اور بچوں کو بھی شمار کرو۔ جب گنتی کی گئی تو وہ چالیس ہزار کی تعداد تھی۔ چند دن بعد یہ تعداد بڑھ گئی۔ دوبارہ گنتی کی گئی تو جو لوگ آپؓ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ان کی تعداد دس ہزار اور دوسروں کی تعداد پچاس ہزار ہو گئی۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرما دی۔ جب بارش ہوئی تو میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ آپؓ نے اپنے عاملین کو حکم دیا کہ سب لوگوں کا ان کے اپنے اپنے علاقے میں واپسی کا انتظام کریں اور انہیں غلّہ اور سواریاں بھی مہیا کریں۔ راوی کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ بنفس نفیس ان لوگوں کو روانہ کرنے کے لیے آتے تھے۔

(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جزء 3صفحہ165تا169 ذکر ھجرۃ عمر بن الخطاب مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

(لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 234زیر لفظ ثرید۔ نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)

( فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 5 صفحہ 460-461 حدیث 2764 دار الریان للتراث القاہرہ 1986ء)

ارد گرد کے لوگ بھوک سے تنگ آ کے شہر میں آ گئے تھے۔ کھانا ان کو یہاں ملتا تھا۔ جب حالات ٹھیک ہو گئے، بارشیں ہو گئیں اور زراعت وغیرہ ہو سکتی تھی تو پھر آپؓ نے کہا واپس جاؤ اور محنت کرو اور اپنی کھیتیوں کو آباد کرو۔

تاریخ طبری میں اس قحط کے ختم ہونے کے متعلق لکھا ہے کہ ایک شخص نے خواب دیکھا جس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی طرف توجہ دلائی جس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ نماز استسقاء پڑھی جائے گی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: مصیبت اپنے انتہا کو پہنچ چکی اور اب ان شاءاللہ ختم ہونے والی ہے۔ جس قوم کو دعا کی توفیق مل گئی پس سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی مصیبت دور ہو گئی۔ آپؓ نے دیگر شہروں کے گورنروں کے نام خط تحریر فرمائے کہ تم مدینہ اور ان کے اطراف کے بندگان خدا کے لیے نماز استسقاء پڑھو کیونکہ وہ مصیبت کی انتہا کو پہنچ گئےہیں۔ حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کو نماز استسقاء کے لیے باہر میدان میں جمع کیا اور حضرت عباسؓ کو لے کر حاضر ہوئے، مختصر خطبہ پڑھا اور نماز پڑھائی پھر دوزانو ہو کر بیٹھے اور دعا شروع کی۔

اَللّٰهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا۔

اے اللہ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد کے خواہاں ہیں۔ اے اللہ!ہمیں معاف فرما! ہم پر رحم کر اور ہم سے راضی ہو جا۔ اس کے بعد آپؓ واپس لوٹے۔ ابھی گھر نہیں پہنچ پائے تھے کہ میدان میں بارش کی وجہ سے تالاب بن گیا۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ508-509 سنۃ18 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے دعا کرتے ہوئے عرض کیا کہ اے اللہ! تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ہم پر خشک سالی ہوتی تو ہم تیرے نبی کے واسطے بارش کی دعا کیا کرتے تھے تو تُو ہم پر بارش برساتا تھا۔ آج ہم تجھے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا واسطہ دے کر دعا کر رہے ہیں۔ پس تُو ہماری یہ قحط سالی ختم کر دے اور ہم پر بارش نازل فرما۔ چنانچہ لوگ ابھی اپنی جگہوں سے ہٹے نہ تھے کہ بارش برسنی شروع ہو گئی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد4 صفحہ21 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

مسجد نبوی میں چٹائیاں بچھانے کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ پہلے لوگ اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور فرش پہ یا کچی جگہ پہ نماز پڑھتے تھے۔ ماتھے پہ مٹی لگ جایا کرتی تھی۔ اس کے بعد پھر چٹائیوں کا رواج ہوا۔ اس بارے میں عبداللہ بن ابراہیم سے روایت ہے کہ سب سے پہلے مسجد نبویؐ میں جس نے چٹائی بچھائی وہ حضرت عمربن خطابؓ تھے۔ پہلے لوگ جب اپنا سر سجدے سے اٹھاتے تو اپنے ہاتھ جھاڑا کرتے تھے۔ اس پر آپؓ نے چٹائیاں بچھانے کا حکم دیا جو عَقیق سے لائی گئیں اور مسجد نبوی میں بچھائی گئیں۔ عَقیق بھی ایک وادی کا نام ہے جو مدینہ کے جنوب مغرب سے شروع ہو کر شمال مغرب تک تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر تک پھیلی ہوئی وادی ہے۔ کہتے ہیں بہت بڑی وادی ہے۔

(ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مترجم از شاہ ولی اللہ جلد 3صفحہ 236مناقب فاروق اعظم مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
(السیرت نبوی صفحہ168۔ دار السلام الریاض 1424ھ)

حضرت عمرؓ کے زمانے میں سترہ ہجری میں مسجد نبویؐ کی توسیع بھی ہوئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں مسجد کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی جس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنی ہوئی تھی اور ستون کھجور کے تنوں کے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو اسی حال میں رہنے دیا اور اس میں کوئی توسیع یا تبدیلی نہ کی۔ حضرت عمرؓ نے اس کی تعمیرِ نَو اور توسیع کروائی مگر اس کی ہیئت اور طرزِ تعمیر میں کوئی تبدیلی نہ کرائی۔ انہوں نے بھی اسے اسی طرح کے طرزِ تعمیر سے بنوایا۔ چھت پہلے کی طرح کھجور کے پتوں کی ہی رہی۔ انہوں نے صرف ستون لکڑی کے ڈلوا دیے۔ حضرت عمرؓ نے سترہ ہجری میں مسجد کی تعمیر کو اپنی زیر نگرانی مکمل کروایا۔ اس توسیع کے بعد مسجد کا رقبہ سو ضرب سو (100X100) ذرع یعنی تقریباً پچاس ضرب پچاس (50X50) میٹر سے بڑھ کر ایک سو چالیس ضرب ایک سو بیس (140X120) ذرع تقریباً ستر ضرب ساٹھ (70X60) میٹر ہو گیا۔ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بھی مسجد نبویؐ وہی رہی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھی تاہم حضرت عمرؓ کی تعمیر نو کے ساتھ اس میں کافی توسیع ہو گئی تھی۔

ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ مسجد نبوی ؐکی تعمیرِ نَو کی جائے اور لوگوں کو بارش سے بچانے کا بندوبست کیا جائے تاہم سرخ و سفید تزئین سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہی تزئین انسان کو مصائب میں دوچار کر دیتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کفایت شعاری سے کام لیا اور مسجد کو اسی طرز پر استوار کیا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَورِ مبارک میں ہوا کرتی تھی۔ مسجد کی توسیع کرتے وقت انہیں اس سے ملحقہ مکانات حاصل کرنے پڑے جو کہ شمال جنوب اور مغربی جانب تھے۔ کچھ لوگوں نے برضا و رغبت اپنی زمینیں مسجد کے لیے ہبہ کر دیں اور کچھ کے لیے حضرت عمرؓ کو افہام و تفہیم اور مالی ترغیب کا طریقہ اختیار کرنا پڑا۔ اس طرح کچھ زمین آپؓ کو خرید کر مسجد میں شامل کرنا پڑی۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 459اورینٹل پبلی کیشنز لاہور2007ء)

حضرت عمرؓ کے زمانے میں مردم شماری کا رواج بھی شروع ہوا یا آپؓ نے کروائی اور راشننگ سسٹم (rationing system) بھی خوراک کے لیے مقرر ہوا۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا نظم و نسق کس طرح چلتا تھا اور کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں۔کیا کیا نئی باتیں انتظامی معاملات میں پیدا اور شروع کی گئیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آ کر پہلا کام یہی کیا تھا کہ جائیدادوالوں کو بےجائیداد والوں کا بھائی بنادیا۔ انصار جائیدادوں کے مالک تھے اور مہاجر بے جائیداد تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اورمہاجرین دونوں میں مؤاخات قائم فرمادی اورایک ایک جائیداد والے کو ایک ایک بے جائیداد والے سے ملادیا اوراس میں بعض لوگو ں نے اتنا غلو کیا کہ دولت تو الگ رہی، بعض کی اگر دوبیویا ں تھیں توانہوں نے اپنے اپنے مہاجر بھائیوں کی خدمت میں یہ پیشکش کی کہ وہ ان کی خاطر اپنی ایک بیوی کو طلاق دینے کو تیار ہیں۔ وہ ان سے بے شک شادی کرلیں۔ یہ مساوات کی پہلی مثال تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جاتے ہی قائم فرمائی کیونکہ حکومت کی بنیاد دراصل مدینہ میں ہی پڑی تھی۔ اس زمانہ میں زیادہ دولتیں نہ تھیں۔ یہی صورت تھی کہ امیر اورغریب کو اس طرح ملا دیاجائے کہ ہرشخص کو کھانے کے لیے کوئی چیز مل سکے۔ پھر ایک جنگ کے موقع پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو استعمال فرمایا گواس کی شکل بدل دی۔ ایک جنگ کے موقع پر آپؐ کو معلوم ہواکہ بعض لوگوں کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں رہی یااگر ہے توبہت ہی کم اوربعض کے پاس کافی چیزیں ہیں۔ تویہ صورت حال دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس جس کے پاس جوکوئی چیز ہے وہ لے آئے اورایک جگہ جمع کردی جائے۔ چنانچہ سب چیزیں لائی گئیں اورآپؐ نے راشن مقرر کردیا۔ گویایہاں بھی وہی طریق آگیا کہ سب کو کھانا ملنا چاہیے۔ جب تک ممکن تھا سب لوگ الگ الگ کھاتے رہے مگر جب یہ امر ناممکن ہوگیا اورخطرہ پیداہوگیا کہ بعض لوگ بھوکے رہنے لگ جائیں گے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہیں علیحدہ کھانے کی اجازت نہیں، اب سب کوایک جگہ سے برابر کھاناملے گا۔ یہ موقع کی مناسبت کے لحاظ سے فیصلہ ہوا تھا۔ کوئی سوشلزم کا یا کمیونزم کا نظریہ نہیں قائم کیا گیا تھا۔ بہرحال صحابہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر ہم نے اس سختی سے عمل کیا کہ اگر ہمارے پاس ایک کھجور بھی ہوتی توہم اس کا کھانا سخت بددیانتی سمجھتے تھے اوراس وقت تک چین نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس کو سٹور میں داخل نہیں کردیتے تھے۔ یہ دوسرانمونہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا۔ جب تک کہ حالات خراب تھے اس وقت تک یہ اسی طرح ہوتا تھا اور یہ نمونہ آپؐ نے قائم کیا۔

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دولت بھی آئی اورخزانوں کے منہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھو ل دیے۔ مگراللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس بار ہ میں تفصیلی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری ہو تا لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی۔ کوئی اَورشخص اسے جاری نہیں کر سکتا۔ جب دولتیں آ گئیں تو پرانا نظام جاری ہو گیا لیکن بعد میں بھی اس کو اللہ تعالیٰ نے جاری کرنے کا انتظام فرمایا۔ وہ کس طرح؟ آپ لکھتے ہیں کہ چنانچہ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ایک نمونہ قائم کردیا اورادھر مدینہ پہنچتے ہی انصار نے اپنی دولتیں مہاجرین کے سامنے پیش کر دیں۔ مہاجرین نے کہا ہم یہ زمینیں مفت میں لینے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ان زمینوں پر بطور مزارع کام کریں گے اورتمہاراحصہ تمہیں دیں گے۔ لیکن یہ مہاجرین کی طرف سے اپنی ایک خواہش کا اظہار تھا۔ انصار نے اپنی جائیدادوں کے دینے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گورنمنٹ راشن دے توکوئی شخص نہ لے۔ اس سے گورنمنٹ زیرِ الزام نہیں آئے گی۔ یہی کہاجائے گا کہ گورنمنٹ نے توراشن مقرر کردیا تھا۔ اب دوسرے شخص کی مرضی تھی کہ و ہ چاہے لیتایا نہ لیتا۔ اسی طرح انصار نے سب کچھ دےدیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مہاجرین نے نہ لیا۔ غرض عملی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اپنی زندگی میں ہی شروع فرمادیا تھا۔ یہاں تک کہ جب بحرین کا بادشاہ مسلمان ہو اتوآپؐ نے اسے ہدایت فرمائی کہ تمہارے ملک میں جن لوگوں کے پاس گزارہ کے لیے کوئی زمین نہیں ہے تم ان میں سے ہرشخص کو چار درہم او رلباس گزارہ کے لیے دو تاکہ وہ بھوکے اورننگے نہ رہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کے پاس دولتیں آنی شروع ہو گئیں۔ چونکہ مسلمان کم تھے اور دولت زیادہ تھی اس لیے کسی نئے قانون کے استعمال کی اس وقت ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ کیونکہ جو غرض تھی و ہ پوری ہورہی تھی۔ اصول یہ ہے کہ جب خطرہ ہو تب قانون جاری کیا جائے اورجب نہ ہواس وقت اجازت ہے کہ حکومت اس قانون کو جاری کرے یا نہ کرے۔ پھر جو بات میں نے شروع کی تھی، جو میں بیان کرنا چاہتا تھا بیچ میں دوسری تفصیل آ گئی۔ اب وہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ نظام کس طرح جاری ہوا؟

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اورمسلمان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلنا شرو ع ہوئے تو اس وقت غیر قومیں بھی اسلام میں شامل ہو گئیں۔ عرب لوگ توایک جتھہ اورایک قوم کی شکل میں تھے اور وہ آپس میں مساوات بھی قائم رکھتے تھے۔ جب اسلام مختلف گوشوں میں پہنچا اور مختلف قومیں اسلام میں داخل ہونی شروع ہوئیں توان کے لیے روٹی کا انتظام بڑا مشکل ہو گیا۔ آخر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام لوگوں کی مرد م شماری کرائی اور راشننگ سسٹم (rationing system)قائم کر دیا جو بنو امیہ کے عہد تک جاری رہا۔ یورپین مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کروائی تھی اوروہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے یہ سب سے پہلی مردم شماری رعایا سے دولت چھیننے کے لیے نہیں بلکہ ان کی غذا کا انتظام کرنے کے لیے جاری کی تھی۔ اَورحکومتیں تواس لیے مردم شماری کراتی ہیں کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں اورفوجی خدمات بجا لائیں ۔مگر حضرت عمرؓ نے اس لیے مردم شماری نہیں کرائی کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں بلکہ اس لیے کرائی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ڈالی جائے،یہ دیکھا جائے کہ کتنے لوگ ہیں اور خوراک کا کتنا انتظام کرنا ہے؟ چنانچہ مردم شماری کے بعد تمام لوگوں کو ایک مقررہ نظام کے ماتحت غذاملتی اور جو باقی ضروریات رہ جاتیں ان کے لیے انہیں ماہوار کچھ رقم دے دی جاتی اوراس بار ہ میں اتنی احتیاط سے کام لیاجاتا تھا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب شام فتح ہوا اور وہاں سے زیتون کا بےشمار تیل آیا اور ہر ایک کو زیتون کا تیل ملنے لگ گیا۔ توآپؓ نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا کہ زیتون کے استعمال سے میرا پیٹ پھول جاتاہے۔ یعنی حضرت عمرؓ کو خود بھی ملتا تھا، اس میں سے تیل لیتے تھے تو آپؓ نے کہا کہ زیتون کا جب مَیں زیادہ استعمال کروں تو میرا پیٹ پھول جاتا ہے۔ تم مجھے اجازت دو تومیں بیت المال سے اتنی ہی قیمت کاگھی لے لیا کروں۔ اور زیتون کیونکہ میری صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے تو جتنی قیمت کا زیتون ہے اتنی قیمت کا گھی لے لیا کروں۔ غرض یہ پہلا قدم تھا جو اسلام میں لوگوں کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے اٹھا یاگیا اورظاہر ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہوجائے تواس کے بعد کسی اَورنظام کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سارے ملک کی ضروریات کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔ ان کاکھانا، ان کا پینا، ان کا پہننا، ان کی تعلیم، ان کی بیماریوں کا علاج اوران کی رہائش کے لیے مکانات کی تعمیر یہ سب کاسب اسلامی حکومت کے ذمہ ہوگا اور اگر یہ ضروریات پوری ہوتی رہیں توکسی بیمہ وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ بیمے اس لیے لوگ کرواتے ہیں ناں کہ بعد میں ہم اپنے بچوں کے لیے کچھ چھوڑ جائیں یا جب بڑھاپے میں کمائی نہیں کر سکتے تو اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ جب حکومت یہ ذمہ داری لے لے تو پھر کسی بھی بیمے کی ضرورت نہیں رہتی۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ مگر بعدمیں آنے والوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ بادشاہ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو کچھ دے اور چاہے تو نہ دے اور چونکہ اسلامی تعلیم ابھی پورے طورپر راسخ نہیں ہوئی تھی تو وہ لوگ پھر قیصرو کسریٰ کے طریق کی طرف مائل ہوگئے۔جس طرح دوسرے بادشاہ کرتے تھے وہی طریق پھر رائج ہو گیا۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 334تا 336)

اسلامی حکومت کے ہر شخص کے لیے روٹی کپڑے کے انتظام کرنے کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ مزید فرماتے ہیں کہ ’’اسلامی حکومت ……جب وہ اموال کی مالک ہوئی تو اس نے ہر ایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا چنانچہ‘‘ وہی بیان ہوا ہے کہ ’’حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فردوبشر کے لیے روٹی اور کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمہ تھا اور وہ اپنے اِس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اِس غرض کے لیے مردم شماری کا طریق جاری کیا اور رجسٹرات کھولے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج ہوا کرتا تھا۔ یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں‘‘ جیسا کہ پہلے ذکر بھی آ چکا ہے ’’کہ پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور انہوں نے ہی رجسٹرات کا طریق جاری کیا۔ اِس مردم شماری کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی کپڑا دیا جاتا تھا اور حکومت کے لیے ضروری تھا کہ وہ اِس بات کا علم رکھے کہ کتنے لوگ اِس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ سوویت رشیا نے غربا کے کھانے اور ان کے کپڑے کا انتظام کیا ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے اِس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نے جاری کیا ہے اور عملی رنگ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر گاؤں، ہر قصبہ اور ہر شہر کے لوگوں کے نام رجسٹر میں درج کیے جاتے تھے۔ ہر شخص کی بیوی، اس کے بچوں کے نام اور ان کی تعداد درج کی جاتی تھی اور پھر ہر شخص کے لیے غذا کی بھی ایک حد مقرر کر دی گئی تھی تا کہ تھوڑا کھانے والے بھی گزارہ کر سکیں اور زیادہ کھانے والے بھی اپنی خواہش کے مطابق کھا سکیں۔

تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتدا میں جو فیصلے فرمائے ان میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور ان کو اس وقت غلّہ وغیرہ کی صورت میں مدد ملنی شروع ہوتی تھی جب مائیں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دیتی تھیں۔‘‘ جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں میں نے بیان کیا تھا کہ ’’ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے گشت لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ میں سے کسی بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہر گئے۔ مگر بچہ تھا کہ روتا چلا جاتا تھا اور ماں اسے تھپکیاں دے رہی تھی تا کہ وہ سو جائے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خیمہ کے اندر گئے اور عورت سے کہا کہ تم بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی۔ یہ کتنی دیر سے رو رہا ہے؟ اس عورت نے آپؓ کو پہچانا نہیں۔ اس نے سمجھا کہ کوئی عام شخص ہے۔ چنانچہ اس نے جواب میں کہا کہ تمہیں معلوم نہیں عمرؓ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ دودھ پینے والے بچہ کو غذا نہ ملے۔ ہم غریب ہیں ہمارا گزارہ تنگی سے ہوتا ہے۔ میں نے اس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ بیت المال سے اس کا غلہ بھی مل سکے۔ اب اگر یہ روتا ہے تو روئے عمرؓ کی جان کو جس نے ایسا قانون بنایا ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اسی وقت واپس آئے اور راستہ میں نہایت غم سے کہتے جاتے تھے کہ عمر! عمر! معلوم نہیں تُو نے اس قانون سے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے۔ ان سب کا گناہ اب تیرے ذمہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپؓ سٹور میں آئے، دروازہ کھولا اور ایک بوری آٹے کی اپنی پیٹھ پر اٹھا لی۔ کسی شخص نے کہا کہ لائیے میں اس بوری کو اٹھا لیتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ نہیں! غلطی میری ہے اور اب ضروری ہے کہ اس کا خمیازہ بھی میں ہی بھگتوں۔ چنانچہ وہ بوری آٹے کی انہوں نے اس عورت کو پہنچائی اور دوسرے ہی دن حکم دیا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اسی دن سے اس کے لیے غلہ مقرر کیا جائے کیونکہ اس کی ماں جو اس کو دودھ پلاتی ہے زیادہ غذا کی محتاج ہے۔‘‘

(اسلام کا اقتصادی نظام۔ انوار العلوم جلد 18 صفحہ 61-62)

پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اسلام ہی ہے جس نے ملکی حقوق بھی قائم کیے ہیں۔ اسلام کے نزدیک ہر فرد کی خوراک، رہائش اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسلام نے ہی سب سے پہلے اس اصول کو جاری کیا ہے۔ اب دوسری حکومتیں بھی اس کی نقل کر رہی ہیں مگر پورے طور پر نہیں۔ بیمے کیے جا رہے ہیں۔ فیملی پنشنیں دی جا رہی ہیں۔ مگر یہ کہ جوانی اور بڑھاپے دونوں میں خوراک اور لباس کی ذمہ وار حکومت ہوتی ہے یہ اصول اسلام سے پہلے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔ دنیاوی حکومتوں کی مردم شماریاں اس لئے ہوتی ہیں تا ٹیکس لیے جائیں یا فوجی بھرتی کے متعلق یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت کتنے نوجوان مل سکتے ہیں۔ مگر اسلامی حکومت میں سب سے پہلی مردم شماری جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کروائی گئی تھی وہ اس لئے کروائی گئی تھی تا کہ تمام لوگوں کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے اس لئے نہیں کہ ٹیکس لگایا جائے یا یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت فوج کے لئے کتنے نوجوان مل سکیں گے بلکہ وہ مردم شماری محض اس لئے تھی کہ تا ہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مردم شماری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوئی تھی مگر اس وقت ابھی مسلمانوں کو حکومت حاصل نہیں ہوئی تھی اس لئے اس مردم شماری کا مقصد محض مسلمانوں کی تعداد معلوم کرنا تھی۔ جو مردم شماری اسلامی حکومت کے زمانہ میں سب سے پہلے ہوئی وہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی اور اس لئے ہوئی تا کہ ہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے۔ یہ کتنی بڑی اہم چیز ہے جس سے تمام دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ درخواست دے دو اس پر غور کیا جائے گا اسے ہر انسان کی غیرت برداشت نہیں کر سکتی‘‘ کہ درخواستیں منگوائی جائیں پھر غور کیا جائے۔ ’’اس لئے اسلام نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ کھانا اور کپڑا حکومت کے ذمہ ہے اور یہ ہر امیر اور غریب کو دیا جائے گا خواہ وہ کروڑ پتی ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ آگے کسی اَور کو ہی کیوں نہ دے دے تا کہ کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے ادنیٰ خیال کیا جاتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد10صفحہ308)

جو امیروں کوملے گا تو امیر بھی اگر وہ تقویٰ پر چلنے والے ہیں تو بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کے وہ پھر آگے ضرورت مندوں کو دیں گے۔

حضرت عمرؓ کے زمانے میں ممالک کو صوبہ جات میں تقسیم کیا گیا۔ بیس ہجری میں مقبوضہ ممالک کو حضرت عمرؓ نے آٹھ صوبوں میں تقسیم فرمایا تا کہ انتظامی امور میں آسانی رہے۔ نمبر ایک مکہ، نمبر دو مدینہ، نمبر تین شام، نمبر چار جزیرہ، نمبر پانچ بصرہ، نمبر چھ کوفہ، نمبر سات مصر اور نمبر آٹھ فلسطین۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ185 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

پھر شوریٰ کا قیام آپؓ کے زمانے میں ہوا۔ مجلس شوریٰ میں ہمیشہ لازمی طور پر ان دونوں گروہ یعنی مہاجرین اور انصار کے ارکان شریک ہوتے تھے۔ انصار بھی دو قبیلوں میں منقسم تھے اَوس اور خزرج۔ چنانچہ ان دونوں خاندانوں کا مجلس شوریٰ میں شریک ہونا ضروری تھا۔ اس مجلس شوریٰ میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، ؓحضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت اُبَی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ شامل ہوتے تھے۔ مجلس کے انعقاد کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ اَلصَّلوٰۃُ جَامِعَۃٌ یعنی سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ جب لوگ جمع ہو جاتے تو حضرت عمر مسجد نبویؐ میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور بحث طلب امر پیش کیا جاتا تھا۔ اس پر بحث ہوتی تھی۔ معمولی اور روزمرہ کے کاروبار میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے لیکن جب کوئی اہم امر پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پاتا تھا۔ فوج کی تنخواہ، دفتر کی ترتیب،عُمّال کا تقرر،غیر قوموں کی تجارت کی آزادی اور ان پر محصول کی تشخیص۔ غرض اس قسم کے بہت سے معاملات ہیں جو شوریٰ میں پیش ہو کر طے پاتے تھے۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس اکثر خاص خاص ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اَور مجلس تھی وہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ مجلس ہمیشہ مسجد نبویؐ میں منعقد ہوتی تھی اور صرف مہاجرین صحابہ اس میں شریک ہوتے تھے۔ صوبہ جات اور اضلاع کی روزانہ خبریں جو دربار خلافت میں پہنچتی تھیں۔ حضرت عمرؓ اس مجلس میں بیان کرتے تھے اور کوئی بحث طلب امر ہوتا تھا تو اس میں لوگوں سے رائے لی جاتی تھی۔ مجلس شوریٰ کے ارکان کے علاوہ عام رعایا کو انتظامی امور میں مداخلت حاصل تھی۔ صوبہ جات اور اضلاع کے حاکم اکثر رعایا کی مرضی سے مقرر کیے جاتے تھے بلکہ بعض اوقات بالکل انتخاب کا طریقہ عمل میں آتا تھا۔ کوفہ، بصرہ اور شام میں جب عُمال خراج مقرر کیے جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے ان تینوں صوبوں میں احکام بھیجے کہ وہاں کے لوگ اپنی اپنی پسند سے ایک ایک شخص انتخاب کر کے بھیجیں جو ان کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ دیانت دار اور قابل ہو۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ180 تا 182 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

عاملین کی تقرری اور ان کے لیے کیا ہدایات دیں؟ حضرت عمرؓ کس طرح ہدایات دیتے تھے؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ اہم خدمات کے لیے عہدیداروں کی تقرری شوریٰ کے ذریعہ کی جاتی۔ جس پر سب ارکان اتفاق کر لیتے اُس کا انتخاب کر لیا جاتا۔ بعض اوقات صوبہ یا ضلع کے حاکم کو حکم بھیجتے کہ جو شخص زیادہ قابل ہو اس کا انتخاب کر کے بھیجو۔ چنانچہ انہی منتخب لوگوں کو حضرت عمرؓ عامل مقرر فرما دیتے۔ حضرت عمرؓ نے عاملین کی زیادہ تنخواہیں مقرر فرمائی تھیں۔ یہ بھی بڑی حکمت ہے تا کہ ایمانداری سے یہ لوگ اپنے کام کر سکیں، کوئی دنیاوی لالچ نہ ہو۔ حضرت عمرؓ عہدےداروں کو یہ نصائح فرماتے کہ یاد رکھو! میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجا بلکہ امام بنا کر بھیجا ہے تاکہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنا۔ ان کو زدو کوب نہیں کرنا کہ وہ ذلیل ہوں۔ سزائیں نہیں دینی بلکہ ان کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ کسی کی بے جا تعریف نہیں کرنی کہ وہ فتنوں میں پڑیں۔ ان کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ بند نہ رکھنا کہیں طاقتور کمزوروں کو نہ کھا جائیں۔ اپنے آپ کو کسی پر ترجیح نہ دینا کہ یہ ان پر ظلم ہے۔ جو شخص عامل مقرر ہوتا اس سے یہ عہد لیا جاتا کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا۔ باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔ چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا۔ دروازے پر دربان مقرر نہیں کرے گا۔ ضرورت مندوں کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے گا۔ یہ ہدایات تمام عاملین کے لیے تھیں اور لوگوں میں پڑھ کر سنائی جاتی تھیں۔ عاملین مقرر کرنے کے بعد ان کے مال و اسباب کی جانچ کی جاتی تھی۔ اگر عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی جس کے بارے میں وہ تسلی نہ کروا سکتے تو اس کا مؤاخذہ کیاجاتا اور زائد مال بیت المال میں جمع کروا لیاجاتا۔ عاملین کو حکم تھا کہ حج کے موقع پر لازمی جمع ہوں۔ وہاں پبلک عدالت لگتی جس میں کسی شخص کو کسی عامل سے شکایت ہوتی تو فوراً اس کا ازالہ کیا جاتا۔ عاملین کی شکایات پیش ہوتیں ان کی تحقیقات کے متعلق بھی ایک عہدہ قائم تھا جس پر کبار صحابہ ہوتے جو تحقیقات کے لیے جاتے اور اگر شکایت سچ ہوتی تو عاملین کا مؤاخذہ کیا جاتا۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ189 تا 193 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

عاملین کی شکایت کے متعلق حضرت عمرؓ کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی واقعہ ہے۔ کوفے کے لوگ بڑے باغی تھے اور وہ ہمیشہ اپنے افسروں کے خلاف شکایتیں کرتے رہتے تھے کہ فلاں قاضی ایسا ہے۔ فلاں میں یہ نقص ہے اور فلاں میں وہ نقص ہے۔ حضرت عمرؓ ان کی شکایات پر حکام کو بدل دیتے اور اَور افسر مقرر کر کے بھیج دیتے اور ان افسروں کو بدل دیتے۔ دوسرے افسر مقرر کر کے بھیج دیتے۔ بعض لوگوں نے حضرت عمرؓ کو یہ بھی کہا کہ یہ طریق درست نہیں ہے۔ اس طرح بدلتے رہیں گے تو وہ شکایتیں کرتے رہیں گے، آپؓ بار بار افسر کو نہ بدلیں ۔مگر حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں افسروں کو بدلتا ہی چلا جاؤں گا یہاں تک کہ کوفے والے خود ہی تھک جائیں۔ جب اسی طرح ایک عرصہ تک ان کی طرف سے شکایتیں آتی رہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا اب میں کوفہ والوں کو ایک ایسا گورنر بھجواؤں گا جو انہیں سیدھا کر دے گا۔ یہ گورنر انیس سال کا ایک نوجوان تھا جو حضرت عمرؓ نے سیدھا کرنے کے لیے بھیجا۔ اس انیس سالہ نوجوان کا نام عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ تھا۔ جب کوفے والوں کو پتہ لگا کہ انیس سال کا ایک لڑکا ان کا گورنر مقرر ہو کر آیا ہے تو انہوں نے کہا آؤ ہم سب مل کر اس سے مذاق کریں۔ کوفہ کے لوگ شریر اور شوخ تو تھے ہی۔ انہوں نے بڑے بڑے جبہ پوش لوگوں کو جو ستّر ستّر، اسّی اسّی، نوّے نوّے سال کے تھے اکٹھا کیا اور فیصلہ کیا کہ ان سب بوڑھوں کے ساتھ شہر کے تمام لوگ مل کر عبدالرحمٰن کا استقبال کرنے کے لیے جائیں اور مذاق کے طور پر اس سے سوال کریں کہ جناب کی عمر کیا ہے؟ اس سے اس کی عمر پوچھیں۔ جب وہ جواب دے گا تو خوب ہنسی اڑائیں گے۔ اس کا مذاق اڑائیں گے کہ چھوکرا ہمارا گورنر بن گیا ہے۔ چنانچہ اسی سکیم کے مطابق وہ شہر سے دو تین میل باہر اس کا استقبال کرنے کے لیے آئے۔ ادھر سے گدھے پر سوار عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی آ نکلے۔ کوفہ کے تمام لوگ صفیں باندھ کر کھڑے تھے اور سب سے اگلی قطار بوڑھے سرداروں کی تھی۔ جب عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ قریب پہنچے تو ان لوگوں نے پوچھا کہ آپ ہی ہمارے گورنر مقرر ہو کر آئے ہیں اور عبدالرحمٰن آپ ہی کانام ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر ان میں سے ایک بہت بوڑھا آدمی آگے بڑھا اور اس نے کہا جناب کی عمر؟ عبدالرحمٰن نے کہا میری عمر!تم میری عمر کا اندازہ اس سے لگا لو کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زیدؓ کو دس ہزار صحابہ ؓکا سردار بناکر بھیجا تھا جس میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے تو جو عمر اس وقت اسامہ بن زیدؓ کی تھی اس سے ایک سال میری عمر زیادہ ہے۔ یہ سنتے ہی جیسے اوس پڑ جاتی ہے وہ سب شرمندہ ہو کے پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ جب تک یہ لڑکا یہاں رہے خبردار تم نہ بولنا ورنہ یہ کھال ادھیڑ دے گا۔ چنانچہ انہوں نے بڑے عرصہ تک گورنری کی اور کوفہ والے ان کے سامنے بول نہیں سکتے تھے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد23 صفحہ222-223)

پھر محاصل کا نظام ہے۔ حضرت عمرؓ نے عراق اور شام کی فتوحات کے بعد خراج کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی۔ جو زمینیں بادشاہوں نے مقامی باشندوں سے جبراً چھین کر درباریوں اور امرا ءکو دی تھیں وہ مقامی لوگوں کو واپس دی گئیں اور ساتھ ہی حضرت عمرؓ نے حکم جاری فرما دیا کہ اہلِ عرب جو ان ملکوں میں پھیل گئے ہیں زراعت نہیں کریں گے یعنی کہ عرب لوگ جو ہیں وہ زراعت نہیں کریں گے۔ اس کا یہ فائدہ تھا کہ جو زراعت کے متعلق تجربہ مقامی لوگوں کا تھا عرب اس سے واقف نہ تھے۔ ہر علاقے کی زراعت کا اپنا مقامی طریقہ ہے تو اس لیے یہ حکم تھا کہ باہر کے جو آئے ہوئے ہیں وہ زراعت نہیں کریں گے بلکہ زراعت مقامی لوگ ہی کریں گے۔

خراج پہلے لوگوں سے زبردستی لیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے خراج کے قواعد مرتب کرنے کے بعد خراج کی وصولی کا طریق بھی نہایت نرم کر دیا اور نئی ترامیم کیں۔ ذِمیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ خراج کی وصولی کے وقت باقاعدہ دریافت فرماتے، کسی سے زیادتی تو نہیں ہوئی؟ ذمی رعایا سے جو پارسی یا عیسائی تھے ان سے رائے طلب کرتے اور ان کی آرا کا لحاظ کیا کرتے تھے۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ198، 202، 207-208 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

زراعت کی ترقی کے لیے حضرت عمرؓ نے بے آباد زمینوں کے متعلق فرمایا کہ جو ان کو آباد کرے گا وہ اس کی ملکیت ہو گی۔ اس کے لیے تین سال کا وقت مقرر کیا گیا۔ نہریں جاری کی گئیں۔ محکمہ آبپاشی قائم کیا گیا جو تالاب وغیرہ تیار کروانے کا کام بھی کرتا تھا۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 209-210 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

تاکہ زراعت بہتر ہو۔ تو اس طرح یہ چند کام تھے جو میں نے گنوائے بھی ہیں۔ ابھی ذکر حضرت عمرؓ کا چل رہا ہے ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوں گے۔

ایک اعلان بھی مَیں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ایک احمدیہ انسائیکلو پیڈیا بنائی گئی ہے جسے آج لانچ کیا جائے گا۔ یہ مرکزی شعبہ احمدیہ آرکائیوز اور ریسرچ سینٹر نے بنائی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اس پر کام کا آغاز کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب یہ ویب سائٹ افراد جماعت کے لیے آن لائن مہیا کی جا رہی ہے۔ اس تک رسائی جو ہے وہ www.ahmadipedia.org پر ہو سکتی ہے جہاں ایک سرچ انجن کی طرز پر home page مواد تلاش کرنے کے لیے کھل جائے گا۔ اسے نہایت سادہ اور استعمال کے لیے آسان رکھا گیا ہے۔ جماعتی کتب، شخصیات، واقعات، عقائد اور عمارات کے حوالے سے بنیادی معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ ہر انٹری کے ساتھ متعلقہ ویب سائٹس ویڈیوز اور جماعتی اخبارات سے مضامین کے لنک فراہم کیے گئے ہیں تا کہ تفصیلی معلومات ان ذرائع سے حاصل کی جا سکیں۔ تفصیلات کے لیے دیے گئے ان لنکس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ جماعت احمدیہ کی دیگر ویب سائٹس تک بھی صارفین کو رسائی حاصل ہو گی اور وہ تمام اخبارات اور رسائل سے استفادہ کر سکیں گے۔ دنیا بھر میں پھیلے احباب جماعت کے پاس بہت سی مفید معلومات ہیں جو کہیں ریکارڈ شدہ نہیں۔ احمدی پیڈیا کی ویب سائٹ پر ایک آپشن ’contribute‘ کے نام سے بھی دی گئی ہے جہاں وہ کسی بھی موضوع پر اپنی معلومات یاشواہد یا دستاویزات مہیا کر سکیں گے۔ یہ نہیں کہ خود براہ راست ڈال دیں بلکہ وہ اس کی انتظامیہ کو مہیا کریں گے۔ اس مہیا کردہ مواد پر تحقیق اور تصدیق کے بعد اسے متعلقہ موضوع کی انٹری میں شامل کر دیا جائے گا۔ اس طرح یہ ویب سائٹ تمام جماعت کے تعاون سے جاری و ساری رہنے والا پراجیکٹ بنے گی اور ان شاء اللہ ہر احمدی کے لیے فائدہ مند ہو گی۔

اگر کسی کو ویب سائٹ پہ کوئی مطلوبہ مواد نہ ملے تو وہ احمدی پیڈیا سے رابطہ کر سکے گا اور پھر یہ لوگ ویب سائٹ پر مطلوبہ مواد مہیا کرنے کا انتظام کریں گے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ تمام معلومات مصدقہ ذرائع سے مہیا کی گئی ہیں تاہم اگر کسی صارف کے پاس ایسے شواہد ہوں جو کسی بھی معلومات کے برعکس ہوں تو ہمیں ایسے شواہد مہیا کریں تا کہ بعد تحقیق جماعت کی تاریخ کو مصدقہ طور پر محفوظ کرنے کا انتظام کیا جا سکے۔

اس ویب سائٹ کی تیاری کے لیے تمام ٹیکنیکل مراحل مرکزی شعبہ آئی ٹی نے بحسن و خوبی سرانجام دیے ہیں اور شعبہ آئی ٹی نے اس کے لیے بڑی محنت کی ہے جس میں ان کے مستقل عملے کے علاوہ والنٹیئرز بھی شامل ہیں۔ مواد کی تیاری کے لیے مرکزی شعبہ آرکائیو کے مربیان اور والنٹیئرز نے بڑی محنت کی ہے اور اس ویب سائٹ کے لیے ان سب نے، جو بھی یہ کام کرنےوالے ہیں، حصول مواد، اردو سے ترجمہ، مواد کی اَپ لوڈنگ غرض تمام کاموں میں انتھک محنت سے کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا بھی دے ۔ آج جمعہ کی نماز کے بعد ان شاء اللہ میں اس کو لانچ بھی کروں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 23؍جولائی 2021ء صفحہ 5تا10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button