تعارف کتاب

عسل مصفیٰ

(مصنفہ حضرت مرزا خدا بخش صاحبؓ)

مکتوبات احمدکی جلد چہارم میں مرزا خدا بخش صاحب کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات کے متن سے قبل صفحہ 143 پران کے تعارف کے طور پر درج ہے کہ

’’مرزا خدا بخش جھنگ شہر میں مرزا مراد بخش صاحب کے گھر 1859ء میں پیدا ہوئے۔ محلہ باغوالہ جھنگ سے آپ کا تعلق تھا۔ بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ہائی کورٹ لاہور میں بطور مترجم ملازمت مل گئی…رجسٹر بیعت کے مطابق 64پر آپ کی بیعت درج ہے۔ جو 24 مارچ 1889ء کی ہے۔ آپ نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اخلاق کریمہ سے متاثر ہوکر سرکاری ملازمت چھوڑ دی۔ حضرت اقدس نے مکان کے ایک حصہ میں آپ کو جگہ دی۔ حضرت مسیح موعوؑد کے فیض روحانی کے پھیلانے کے لئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں جا کر آپ نے علماء سے مباحثے کئے۔ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی کتاب ’’عسل مصفیٰ‘‘ کی تصنیف ہے۔ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین ماہ تک مغرب سے عشاء تک سنا اور اظہار خوشنودی فرمایا۔ یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔ اور چودہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔

ازالہ اوہام میں آپ کاذکر صاف باطن اور ہمدردی اسلام کا جوش رکھنے والوں میں ہے۔ آسمانی فیصلہ میں پہلے جلسہ میں شامل ہونے والوں، آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ سالانہ 1892ءاور چندہ دہندگان، تحفہ قیصریہ میں ڈائمنڈ جوبلی میں شرکت کرنے والوں اور سراج منیر اور کتاب البریہ میں پرامن جماعت میں آپ کاذکرکیاہے۔ کتاب منن الرحمن میں حضرت اقدس نے اشتراک السنۃ میں جاں فشانی کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مبائعین خلافت سے وابستہ نہ رہے اور انجمن احمدیہ اشاعت اسلام، لاہور کے ساتھ شامل ہوگئے۔ 4 اپریل 1938ءکو بعمر 78 سال وفات پائی۔ ‘‘

مرزا خدا بخش صاحب نے گورنمنٹ کالج سے بی اے کرنے کے علاوہ اوریئنٹل کالج لاہور سے مولوی فاضل، منشی فاضل، بی اوایل کے امتحانات نمایاں اعزاز کے ساتھ پاس کیے تھے۔ مرزا خدا بخش صاحب کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی قربت اور آپ کے وسیع دسترخوان سے خوب مستفید ہونے کا موقع ملا، یہاں تک کہ مرزا خدا بخش صاحب کے دو بیٹے مرزا عطاء الرحمٰن اور مرزا حبیب الرحمٰن تو گویا حضرت اماں جانؓ کی گود میں پلتے رہے۔

17؍دسمبر1983ء کو مرزا خدا بخش صاحب کے بیٹے مرزا حمید الرحمٰن صاحب نے کتاب عسل مصفیٰ کاجدید ایڈیشن شائع کیاتواس کا افتتاحیہ بھی لکھا تھاجس میں اپنے والد کے مزید خاندانی حالات و واقعات درج کیے۔

یاد رہے کہ کتاب عسل مصفیٰ کا پہلا ایڈیشن اپریل 1901ء میں سامنے آیا، اور دوسرا ایڈیشن 1913ءاور1914ء میں طبع ہواتھا، حصہ اوّل کے ٹائٹل کے مطابق کتاب عسل مصفی ٰکا دوسرا ایڈیشن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں ماہ اگست 1913ءبمطابق رمضان المبارک 1331ہجری، وزیر ہند پریس امرتسر سے شائع کیا گیاجو ساڑھے چھ سو صفحات سے زیادہ ضخیم تھا، اور حصہ دوم کے سرورق کے مطابق عسل مصفیٰ کے اس دوسرے حصے کا ایڈیشن دوم 1332 ہجری بمطابق 1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں الٰہ بخش سٹیم پریس قادیان سے طبع کروایا گیا جس کی ضخامت ساڑھے سات سو صفحات تھی۔

چونکہ اس ضخیم کتاب میں حضرت عیسیٰ مسیح ناصریؑ کی وفات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور آپ کے دعاوی کا ثبوت بدلائل عقلیہ و نقلیہ بوضاحت تام کیا گیا تھا، اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از راہ شفقت اس کتاب کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھاتھا۔ جیسا کہ روایت کیا جاتا ہے کہ جب حضور علیہ السلام کی خدمت میں کتاب عسل مصفیٰ کا ایڈیشن اول پیش کیا گیا تو حضور علیہ السلام کتاب دیکھ کر مسکرائے، اور از راہ شفقت روزانہ نماز مغرب کے بعد کتاب کا ایک حصہ سنانے کا ارشادفرمایا۔ ملفوظات جلد اول صفحہ 565 اور صفحہ 568 پر عسل مصفیٰ سنانے کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح مصنف نے روایت کیا ہے کہ حضور علیہ السلام نے اندرون خانہ بھی مستورات کے سامنے بھی عسل مصفی ٰکی تعریف فرمائی تھی۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے کتاب عسل مصفیٰ کے ایڈیشن دوم میں ضروری اصلاح اور جدیداضافوں کو شامل کرنے کا ارشاد فرمایاتھااورقبل ازیں اپنے 30؍مارچ 1901ء کے خطبہ عیدالاضحی میں بھی مرزا خدا بخش صاحب کا نام لےکر تذکرہ کیاتھا۔

مرزا خدا بخش صاحب نے اپنی کتاب کے متعلق معاصر صحابہ اوراحباب کے تبصرے بڑی تفصیل کے ساتھ کتاب کے شروع میں درج کیے ہیں۔ دراصل مصنف نے اس کتاب میں مواد اور مضامین کی ترتیب اور تقسیم پر غیر معمولی محنت کی ہےاور منقولی مباحث میں تلاش اور پیشکش مواد میں خوب جانفشانی کی ہےاور درج ذیل عناوین پر قابل قدر مواد پیش کیا ہے:

قرآن کریم، کتب تفاسیر کی گواہیوں کی اہمیت اور بلند مرتبہ، قرآنی پیش گوئیاں، صحف سابقہ کی اہمیت و مرتبہ، مجددین امت کی تاریخ اور تفصیل، مُحدَث کا مقام اور مرتبہ، لفظ مسیح کی بحث، عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر متفرق قوی دلائل از قرآن و حدیث، لفظ توفی، رفع کی مکمل بحث، وفات مسیح پر بیرونی شہادتیں، آخری زمانہ کی نشانیاں، مماثلت و مشابہت تامہ کی مثالیں، فرق مابین تناسخ، بروزوغیرہ۔

اسی طرح کتاب کے حصہ دوم میں صداقت مسیح موعودعلیہ السلام کے ضروری مباحث کا تفصیلی بیان ہے نیز آپ علیہ السلام کی پیش گوئیوں، آپ کے حق میں ظاہر ہونے والے زمینی و آسمانی نشانوں، آپ کے حق میں اہل کشف بزرگان کی گواہیاں، حضرت مسیح موعودؑ کے مذہب اور عقائد کی تفصیل اور آپ کی تعلیمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آپ علیہ السلام کے اخلاق و عادات، اوصاف حمیدہ، آپ کی وفات اور اس کے بعد معاصر اخبارات و رسائل کی خبروں اور تبصروں کا ریکارڈ، وغیرہ بتا کر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی کا اندراج کیا گیا ہے۔ نیز حضرت خلیفہ اوّلؓ کے بارے میں ملہمین کی گواہیاں درج کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر 16 اخبارات کی آراءاور تبصروں کا ریکارڈ درج کیا گیا ہے۔

الغرض اس کتاب کے دونوں حصوں میں مناظروں اور مباحثوں کے ضروری مواد یکجا کر دیا گیا ہےیوں یہ اپنے متعلقہ موضوع کے اعتبار سے کسی انسائیکلو پیڈیا سے کم نہیں ہے۔

٭…٭…٭

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button