یادِ رفتگاں

چودھری محمد علی صاحب

حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ نے پڑھے لکھے احمدی نوجوانوں کو زندگی وقف کرنے کی تحریک کی۔ ابتداءً تو چودھری صاحب متذبذب رہےلیکن پھر آپ نے بشاشتِ قلب کے ساتھ زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا

(گذشتہ سے پیوستہ)جب ہم ہوسٹل پہنچے تو لڑکے ہمارے منتظر تھے۔ بیدی نے اس مسئلے پر حضورؓ کی رائے بیان کرنے کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ مرزاصاحب مُلّانہیں ہیں، ان کا علم بےحد وسیع ہے اور وہ بڑے عالم ہیں۔ اسے ملک خدابخش کی باتیں بھی یاد تھیں چنانچہ وہ کہنے لگا: آخری بات! ان کے مرید تو ان سے عشق کرتے ہیں۔

میں نے تو اپنی بیعت گھر والوں سے خفیہ رکھنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن انہیں پتا چل ہی گیا۔ کیسے؟ یہ ایک طویل کہانی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میرے دوستوں اکبر اور افضل جن کا تھوڑی دیر پہلے ذکر ہو چکا ہے نے اپنے گھر میں میری احمدیت کا ذکر کر دیا۔ بعد میں ان کے والدین نے میرے والدین کے سامنے یہ بات بیان کردی جس کے نتیجے میں میری احمدیت کی خبر ہر جگہ پھیل گئی۔ گو بہت بعد میں لیکن میری والدہ تو احمدی ہوگئیں مگر اکبر اور افضل کی والدہ نے میری یہ ’’غلطی‘‘مرتے دم تک معاف نہیں کی۔

اگرچہ مجھے بی اے کے نتیجےکی بنیاد پر وظیفہ ملتا تھا مگر صرف اس رقم سے تعلیمی اخراجات پورے نہ ہوتے تھے اور گھر سے کچھ نہ کچھ پیسے منگوانا ہی پڑتے تھے۔ جب میرے والدین کو میری قبولِ احمدیت کا پتا چلا تو وہ سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے مجھے پیسے بھجوانا بند کردیے۔ یوں مجھے اپنے اخراجات پورا کرنے میں بے حد مشکل پیش آنے لگی چنانچہ میں نیو ہوسٹل چھوڑ کر احمدیہ ہوسٹل منتقل ہوگیا جہاں میرا گزارا تو ہونے لگا تاہم پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنا ایم اے کا داخلہ نہ بھجوا سکا۔ اگرمیں قاضی محمد اسلم کو بتا دیتا کہ میرے پاس داخلے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو وہ بلاشبہ کوئی انتظام کر دیتے اور میرا سال ضائع ہونے سے بچ جاتا لیکن میں اس طرح پیسے مانگنا کسی طور پر مناسب نہ سمجھتا تھا۔ مقصد اپنا کوئی کمال بتانا نہیں، صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کوئی احمدی بھی اس طرح نہیں کرسکتا کیونکہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مانگنے والا صرف پیسے بٹورنے کے لیے احمدی ہوا ہے۔ ان دنوں مرزا منور احمدصاحب، مرزا منیر احمد صاحب، مرزا مجید احمد صاحب، مرزا حمید احمد صاحب، میر داؤد احمدصاحب اور مولوی رحمت علی صاحب مجاہدِ انڈونیشیاکے بیٹے میاں طالو… سبھی احمدیہ ہوسٹل میں مقیم تھے۔ مرزا منور احمد صاحب کی طبیعت میں شروع ہی سے بہت حجاب تھا۔ اگر ان سے بات کریں تو ان کا رنگ سرخ ہو جاتا تھا۔ میں نے ایک روز کھانا نہیں کھایا ہوا تھا اور پریشانی کے عالم میں لیٹا تھا۔ میرا خیال ہے انہوں نے یہ بات نوٹ کرلی ہوگی۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں لیکن حجاب مانع ہے۔ چنانچہ پہلے وہ دور سے گزرے، پھر قریب سے گزرگئے، پھر اور قریب سے گزرے اور آخر میں بالکل قریب سے گزرے۔ پھر کھڑے ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ تمہاری طبیعت خراب ہے؟ انہوں نے میری نبض دیکھی اور کہنے لگے: بات کیا ہے؟ میں نے کہا: میاں صاحب! اصل بات یہ ہے کہ میں نے کالج چھوڑ دیا ہے اور اب ملازمت کرنا چاہتا ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام اسسٹنٹ کی ایک خالی اسامی کا اشتہار آیا ہوا ہے لیکن درخواست مکمل کرنے کے لیے مجھے کسی فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی تصدیق چاہیے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ کوئی مجسٹریٹ میرا واقف نہیں جس سے میں یہ تصدیق کراسکوں۔ یاد رہے مجسٹریٹ یہ تصدیق کرتا تھا کہ درخواست دہندہ کا تعلق معزز خاندان سے ہے، یہ خاندان حکومت کے مخالفین میں سے نہیں اور درخواست دہندہ کا اپنا کردار بھی تسلی بخش ہے۔ انہوں نے کہا: یہ تو پریشانی والی کوئی بات نہیں ! میں آپ کو خط دے دیتا ہوں۔ آپ بھائی جان مرزا عزیز احمدصاحب کے پاس چلے جائیں۔ وہ ضروری تصدیق کردیں گے۔

میں موصوف سے کیا ملا، میں تو دوبارہ احمدی ہوا۔ میں آپ کو کیسے بتائوں کہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب انسان نہیں فرشتہ تھے۔ آپ اس کی تفصیل سنیں گے تو میری اس بات کے ساتھ ضرور اتفاق کریں گے۔

یاد رہے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اُن دنوں فیروزپور میں اے ڈی ایم تھے۔ فیروزپور سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بعد میں مجھ سے بھی بہت پیار کرنے لگے۔ آخری دم تک بہت محبت کی۔ ان کے بیٹے بھی بڑا تعلق رکھتے ہیں، بہت ہی پیار کرتے ہیں، بڑا احسان کرتے ہیں۔

میں صبح ہی صبح ان کے دفتر جاپہنچا اور خط انہیں پیش کردیا۔ ان کا اخلاق دیکھئے، انہوں نے مجھے عدالت میں اپنی کرسی کے پاس ہی بٹھا لیا۔ اب ایک گھنٹہ گزرا، دو گھنٹے گزرے حتی کہ دوپہر کے بارہ بج گئے۔ میں نے عرض کر دی تھی کہ مجھے جلدی ہے، درخواست جمع کرانے کی آخری تاریخ گزرنے والی ہے اور مجھے دہلی جانا ہے لیکن نہ معلوم کیوں وہ مجھے سرٹیفیکیٹ پر دستخط کرکے نہیں دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں دوپہر کا وقفہ ہوگیا۔ انہوں نے مجھے نماز پڑھائی اور کھانا بھی کھلایا لیکن میرا کام کرنے کی بجائے پھر عدالت میں بیٹھ گئے اور بیٹھے رہے حتّٰی کہ عدالت کا وقت ختم ہوگیا۔ اب سب لوگ جاچکے تھے اور صرف ایک سٹینو بیٹھا رہ گیاتھا۔ چار بج گئے۔ پھر خود ہی کہنے لگے: دیر توہو گئی ہے اور آپ پریشان بھی ہوں گے تاہم آپ ذرا یہ پڑھیں۔ اس سرٹیفیکیٹ میں ایک سوال یہ ہے کہ میں درخواست دہندہ کو کتنے عرصے سے جانتا ہوں؟ میں آپ کو نہیں جانتا تھا لیکن اب میں پچھلے کچھ وقت سے آپ کو جاننے لگا ہوں اور اس کی تصدیق بھی کرسکتا ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس سرٹیفیکیٹ پر دستخط کردیے۔ میں تو ان کی یہ بات سن کر قربان ہی ہو گیا۔ یوں سمجھ لیں اس روز میں دوبارہ احمدی ہوا۔

احمدیت قبول کرنے سے پہلے میں فلم دیکھ لیا کرتا تھا۔ ہمارے سبھی دوست دیکھتے تھے۔ ان کے ساتھ میں بھی چلا جایا کرتا تھا۔ اب آپ سے کیا پردہ، ہمارے سارے دوست بارسوخ افسران کے بیٹے تھے اور انہیں اکثراوقات فلم کے پاسز بھی مل جاتے تھے۔ پاس نہ ہوتے توہم پیسے اکٹھے کرکے سنیما دیکھ آتے۔ یہ سلسلہ احمدیہ ہوسٹل میں منتقل ہونے کے بعد تک جاری رہا چنانچہ ایک بار جب میں نے مرزا منور احمد صاحب کو بتایا کہ میں فلم دیکھ کر آرہا ہوں تو وہ حیران سے ہوئے لیکن ان کی وسیع القلبی تھی کہ انہوں نے میری یہ بات کسی ردعمل کے بغیر سن لی اور مجھے نہیں جتلایا کہ جماعت میں فلم بینی ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ بعد میں مجھے پتا چلا تو اپنی جہالت پر افسوس ہوا اور میں نے فلم بینی ترک کردی۔ یہ واقعہ سننے والا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل میرے کلاس فیلو اور پرانے دوست تھے۔ تھے تو وہ ایک احمدی کے بیٹے مگر خود احمدی نہ تھے۔ دراصل ان کے والدین کی آپس میں علیحدگی ہوگئی تھی اور ان کی پرورش ان کی والدہ کے ہاں ہوئی جو احمدی نہ تھیں۔ ان سب باتوں کے باوجود وہ حضرت صاحبؓ کا بڑا ادب کرتے تھے۔ ایک بار وہ گورنمنٹ کالج سے پیدل چل کر ڈیوس روڈ پر واقع احمدیہ ہوسٹل میں آئے اور کہنے لگے: ’’بلڈ اینڈ سَینڈ‘‘نامی ایک فلم لگی ہوئی ہے، چلو دیکھتے ہیں۔ میں ساتھ چل پڑا لیکن جب ہم ریگل چوک کے قریب پہنچے تو مجھے خیال آیا کہ اگراحمدیوں کو فلم بِینی سے روکا گیا ہے تو اس کی ضرور کوئی حکمت ہوگی لہٰذا میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ میں آج سے فلم نہیں دیکھوں گا اور اجمل سے کہا: اجمل! تو کلّے جاکے فلم ویکھ لے۔ انہوں نے پوچھا: کی ہویا اے؟ میں نے کہا: بس توں جا۔ میں فلم نہیں ویکھنی۔ اجمل کہنے لگے: تم پاگل ہو گئے ہو؟ میں نے ٹکٹوں پر اتنے پیسے برباد کردیے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ تم فلم نہیں دیکھو گے۔ یہ کیا بکواس ہے؟ میں نے کہا: یہ بکواس نہیں ہے۔ بس میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں نے آج سے فلم نہیں دیکھنی۔ کہنے لگے: تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ میں نے کہا: تم جو مرضی کہتے رہو۔ میں نے فلم دیکھنی ہی نہیں۔ پوچھنے لگے: بات کیا ہے؟ میں نے انہیں کچھ بتایا تو نہیں لیکن یہ ضرور کہا کہ میں فلم نہیں دیکھوں گا۔ اس کے بعد آج تک میں نے کوئی فلم نہیں دیکھی۔

احمدیہ ہوسٹل میں کچھ لڑکے نظامِ سلسلہ کے خلاف گفتگو کرتے رہتے تھے اور خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ کے بعض افراد کی ذات پر کیچڑ اچھالنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ میں نے حضورؓ کی خدمت میں خط لکھا کہ ہوسٹل میں اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں جو کم از کم میرے لیے بے حد حیران کن ہیں۔ حضورؓ نے میرے اس خط کا فوری نوٹس لیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحب کو انکوائری کے لیے بھجوایا تاہم لڑکوں میں سے کسی نے بھی میرے الزامات کے حق میں گواہی نہیں دی۔ آپؓ واپس تشریف لے گئے لیکن حضورؓ نے آپؓ کو دوبارہ بھجوایا اور کہا کہ جن لوگوں نے نظامِ سلسلہ کے خلاف باتیں کی تھیں منافق ہیں لیکن جن لوگوں نے سچی گواہی دینے سے انکار کیا ہے وہ بھی منافقت میں کسی طرح ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ اس پر بعض لڑکے آگے آئے اور انہوں نے حقیقتِ حال واضح کی۔ معترضین میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جو بعد میں پیغامیوں کے ساتھ جاشامل ہوا اور ان کے اخبار ’’دی لائٹ‘‘ کا ایڈیٹر رہا۔

میں جب سے احمدی ہو ا تھا ہر ہفتے لاہور سے قادیان جاتا تھا لیکن بعض اوقات ہفتے ہیں دو باربھی چلا جاتا۔ ایک دفعہ جب ہم احمدیہ انٹرکالجیئٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے گئے ہوئے تھے تو حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ کے صاحبزادے، مرزا مجید احمد صاحب غالباً ہمارے زعیم تھے۔ اس روز نمازعصر کے بعد ہمارا واٹر پولو کا میچ تھا۔ اب ذرا سوچئے کہ ہم سب نوجوان ہیں اور لاہور سے آئے ہوئے ہیں لیکن میچ کو بُھلا کر حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کا درس سننے کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میچ کا وقت ہوچکا ہے اور مرزا مجید احمد صاحب مسجد کے باہر کھڑے ہو کر اشارے کررہے ہیں کہ آجائو لیکن ہم ہیں کہ وہیں بیٹھے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ بھلے واک اوور مل جائے ہم یہ درس نہیں چھوڑیں گے اور نہیں چھوڑا۔

شام کو تقریریں تھیں۔ ایک مقرر نے کوئی شعر پڑھا تو کسی نے اونچی آواز میں واہ! واہ! کہہ دیا۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ صدارت فرما رہے تھے۔ وہ کھڑے ہوگئے اور ڈانٹنا شروع کردیا۔ فرمانے لگے: جائو جا کرمحمد اسحاق کی طرف سے امورِعامہ میں کہہ دو کہ ہم اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرسکے۔ تمہیں احساس ہے کہ تم کس شہر میں بیٹھے ہو؟ تم کس مسجد میں بیٹھے ہو؟ کیا تمہیں زیب دیتا ہے کہ تم اس طرح کی حرکات کرو؟ افسوس ! تم نے سب کچھ بھلا دیا۔ آپ نے اتنی ڈانٹ پلائی کہ محفل پر سنّاٹا چھا گیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔

قبولِ احمدیت اور اس کے نتیجے میں گھر سے ماہ بماہ ملنے والی رقم کی بندش کے نتیجہ میں میرا تعلیمی سلسلہ وقتی طور پر منقطع ہوگیا۔ بعد میں یہ سلسلہ دوبارہ کیسے شروع ہوا؟ اس حوالے سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جب میں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر آگیا تو قاضی محمد اسلم کو میری تلاش ہوئی۔ وہ پریشان تھے کہ اس نے تو داخلہ بھی نہیں بھیجا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تک بھی پہنچ گئی۔ میں جوبلی سکالرشپ کا حقدار تھا لیکن میں اس بات سے بے خبر تھا۔ مجھے بلایا گیا تو میں قادیان حاضر ہوا۔ حضورؓ سے ملاقات ہوئی۔ وہ فقرہ میں بھول نہیں سکتا، اس میں جو پیار تھا، محبت تھی، اپنائیت تھی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا؟ میں کیا عرض کرتا۔ بہرحال حضورؓ نے مجھے یکمشت کچھ رقم عنایت فرمائی۔ یاد نہیں کتنی تھی لیکن میں نے اس رقم سے دوبارہ داخلہ جمع کرایا۔ ایک سال تو میرا اس طرح ضائع ہوگیالیکن پھر نے پھرانے میں مجموعی طور پر میرے دو سال ضائع ہوگئے۔ میں نے 1944ء میں ایم اے کا امتحان دیااور اس کے فوراً بعد، اسی سال کی دوسری یا تیسری سہ ماہی میں مستقل طور پر قادیان آگیا۔ اُس وقت میں احمدی ہو چکا تھا اور گھر والوں کی میرے ساتھ ناراضگی چل رہی تھی چنانچہ میں دارالضیافت میں ٹھہرا ہوا تھا۔

قادیان میں قیام کے دوران بہت سے بزرگان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، ؓ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحبؒ تو تھے ہی، ان کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ کے بے شمار صحابہؓ کو بھی دیکھا اور حسبِ توفیق ان سے اکتسابِ فیض کیا لیکن میں یہاں صرف تین بزرگوں کا ذکر کروں گا یعنی حضرت حافظ مختار احمد شاہجہانپوریؓ، مرزا عبدالحق صاحب اور میاں عطاء اللہ صاحب کا۔

حضرت حافظ مختار احمد شاہجہانپوری صاحبؓ مستقل طور پر دارالضیافت ہی میں مقیم تھے۔ ان کے کمرے میں خوب مجلسیں لگا کرتی تھیں۔ مجلسیں کیا، کھلا دربار تھا جس میں ہر کوئی بلاروک ٹوک آ جا سکتا تھا۔ میں بھی وہاں جاتا رہتا تھا تاہم گفتگو میں حصہ لینے کی بجائے صرف بزرگوں کی باتیں سنتا۔ دراصل میں خود میں اتنی استعداد ہی نہ پاتا تھا کہ اس مجلس کے معیار کی کوئی بات کرسکتا۔ ان کو تبلیغ کا بہت شوق تھا لیکن جب وہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے قدموں کی چاپ سن لیتے فوراً خاموش ہو جاتے۔ دراصل میرصاحبؓ نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ آپ کا وجود جماعت کے لیے بے حد قیمتی ہے لہٰذا آپ صرف اتنا ہی بولا کریں جس سے آپ کی صحت پر برا اثر نہ پڑے لیکن حافظ صاحبؓ کو تو کتابوں کی کتابیں حفظ تھیں۔ وہ بھلا کہاں چپ رہ سکتے تھے۔ قادیان سے ہجرت کے بعد لاہور میں تھے جب ان کو یہ الہام ہوا تھا:

بیڑیاں توڑ کے چلتے بنے اربابِ وفا

اب اسی دُھن میں قریبِ درِ زنداں ہوں میں

پھر ربوہ تشریف لے آئے۔ سید عبدالباسط، نائب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ آپ کے عزیز تھے اور ربوہ منتقل ہونے کے بعد ابتداءً آپ ان ہی کے پاس ٹھہرے تھے۔ بہت لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ان کا دروازہ ہر کس و ناکس کے لیے کھلا رہتا تھا۔ بعض دفعہ غیرازجماعت دوست بھی آجاتے تھے۔ جب کسی حوالے کی ضرورت پڑتی تو کہتے: میاں فلاں کتاب تو اٹھانا، اس کا فلاں صفحہ نکالنا اور پڑھنا اس کی فلاں سطر۔ حوالہ ان کی بتائی ہوئی جگہ پر ہی ملتا۔

مجھے یاد ہے میرے زمانۂ قادیان کی ابتدا میں ہر ہفتہ وہاں آنے والوں میں ایک تو مرزا عبدالحق تھے اور دوسرے میاں عطاء اللہ۔ مرزا عبدالحق گورداسپور سے آتے تھے اور میاں عطاء اللہ امرتسر سے۔ مرزا عبدالحق اس وقت بھی اسی طرح دُبلے پتلے تھے جس طرح آپ لوگ انہیں تازندگی دیکھتے رہے۔ میاں عطاء اللہ بائیسکل پر آیا کرتے تھے۔

میں قاضی محمد اسلم کو دیکھ کر احمدی ہوا تھا۔ قادیان میں ان بزرگان کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ سبھی لوگ کھرے، سچے اور مخلص احمدی ہیں۔ ان میں دنیا کی ملونی اور چالاکی نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا مقام تھا لیکن میں یہاں خاص طور پر حضرت میرمحمداسحاق صاحبؓ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے ان کا درس نہیں سنا تھا۔ مجھے قادیان کے ایک رہائشی نے کہا کہ ان کا درس سننا ہو تو آج عصر کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرنا۔ میں مسجد اقصیٰ جا پہنچا۔ جب نماز ختم ہوئی تو جیسے بٹیرے اڑتے ہیں لوگ اُڑ کر ایک حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور تسبیح و تحمید کرنے لگے لیکن ایک آدمی ان سب سے الگ اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ ایک ٹوپی جو بالکل نئی بھی نہیں تھی اور اتنی پرانی بھی نہیں تھی اس کے سر پر تھی اور لباس بھی معمولی سا تھا۔ وہ اکیلا بیٹھا تسبیح و تحمید کررہا تھا۔ میرے لیے یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ یہ لوگ دائرہ بنا کر کیوں بیٹھ گئے ہیں اور کس کا انتظار کررہے ہیں؟ وہاں ایک روسٹرم پڑا تھا۔ میں صورت حال کے بغور جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ جو دائرہ میں بیٹھے ہیں دراصل منتظر ہیں اس شخص کے جو اکیلا بیٹھا ہے۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ یہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ تھے۔ وہ روسٹرم پر آگئے اور وہ جو دائرہ بناکر بیٹھے تھے دراصل ان ہی کے منتظر تھے۔ میں نے ان کو سنا۔

حضرت عائشہؓ کے اِفک کے واقعہ پر میں نے حضرت میر صاحبؓ کا درس اس روز اور اس کے بعد بھی دو تین د فعہ سنا۔ انہوں نے ہر بار مختلف انداز سے اپنی بات سمجھائی۔ میں نے شیعہ حضرات کو روتے دیکھا ہے اور میں نے کسی اورکو اس طرح روتے نہیں دیکھا لیکن جب میر صاحبؓ نے درس شروع کیا: قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ تورونا شروع کردیا اور پھر درس دیا کہ اے ہماری ماں ! اے ہماری ماں ! اے ہماری معصوم ماں! تیری عفّت اور سچائی کی تصدیق کے لیے خدا خود آسمان سے نیچے اترا۔ یہ درس سن کر مجھے احساس ہوا کہ جماعت احمدیہ باقی مسلمانوں سے کس لحاظ سے مختلف و منفرد ہے۔

یہ تھا اس زمانے کا قادیان!‘‘

تم بھی مُضطر اٹھو کہ یار نے آج

جسم مانگا ہے، جاں طلب کی ہے

چودھری محمد علی صاحب بہت غوروفکر کے بعد سلسلۂ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور وہ دل و جان سے اس کی خدمت بجالانا چاہتے تھے۔ اتفاق سے اُن ہی دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ نے پڑھے لکھے احمدی نوجوانوں کو زندگی وقف کرنے کی تحریک کی۔ ابتداءً تو چودھری صاحب متذبذب رہے لیکن پھر آپ نے بشاشتِ قلب کے ساتھ زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا اور 9؍اپریل 1944ء کو حضورؓ کے نام ایک عریضہ کے ذریعے قبولیتِ وقف کی درخواست لکھ بھیجی۔ یہ درخواست متعلقہ دفتر میں اب تک محفوظ ہے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور ذیل میں نقل کی جا رہی ہے:

’’پیارے آقا!

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضور کے حسبِ ارشاد یہ گناہگار اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے نام پر بطور وقف حضور کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ امید ہے حضور یہ ہدیۂ حقیر منظور فرمائیں گے اور نیز دعا فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی بارگاہِ عالیہ میں اسے شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین۔ خاکسار کی عمر اس وقت پچیس سال سے کچھ اوپر ہے۔

خاکسار کے تعلیمی کوائف یہی ہیں کہ خاکسار کو تمام یونیورسٹی امتحانوں سے وظیفہ ملتا رہا ہے سوائے انٹرمیڈیٹ کے جب کہ خاکسار نے بوجہ علالتِ طبع امتحان سپلیمنٹری دیا۔ بی اے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرسٹ کلاس تھی۔ مضامین انگریزی، فارسی اور فلسفہ تھے۔ آخرُالذکر میں اللہ تعالیٰ نے یونیورسٹی میں اول پوزیشن عطا فرمائی اور اس مضمون میں وظیفہ بھی ملا۔ اس وقت خاکسار ایم اے کا امتحان دے رہا ہے۔ پہلا پرچہ بہت خراب ہوگیا ہے۔ حضور کی خدمت میں درخواستِ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کمی پوری فرمائے اور اچھے ڈویژن میں کامیاب کرے اور بابرکت کرے۔

خاکسار کے خاندان میں حتٰی کہ تمام گائوں میں کوئی شخص احمدی نہیں ہے۔ خاکسار کے والدین خداتعالیٰ کے فضل سے زندہ سلامت موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زندہ سلامت رکھے اور احمدیت پر وفات دے۔ ایک چھوٹا بھائی عمر تقریباً بارہ تیرہ سال اور دو بہنیں ہیں۔ عمر تقریباً پندرہ سولہ کے قریب قریب۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ ان کی شادی ایسی جگہ پر ہو جو خاکسار کے لیے موجبِ تکلیف نہ ہو۔ خاکسار کی شادی ہو چکی ہے اور خاکسار کی بیوی احمدی ہے۔

حضور نے جب پچھلی دفعہ زندگیاں وقف کرنے کا اعلان فرمایا تو اس سے پہلے ہی خصوصاً حضور کے عید والے دن کے خطبۂ جمعہ سے خاکسار کے دل میں اس بات کی تڑپ تھی لیکن بہت سی غلط یا صحیح وجوہات ابھی تک مانع رہیں اور سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ خاکسار کے والدین قبولِ احمدیت سے لے کر اب تک یہ طعنہ دیتے چلے آئے ہیں کہ پالا پوسا، تعلیم دلائی، اب اس بڑھاپے میں لات مار کر اس لیے احمدی ہوگیا ہے تا ان کی خدمت نہ کرنی پڑے اور بھائی بہنوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے اور نیز کہا کرتے ہیں کہ کُل جگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ خاکسار کو ان باتوں سے شدید تکلیف ہوتی ہے خصوصاً جب کہ خاکسار اپنے طور پر ان کی خدمت کرنے سے معذور ہے اور محبت کے اظہار کا سوائے منہ سے یقین دلانے کے اور کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ دیگر اور بہت سی باتیں بھی جن کا خاکسار پر کوئی اثر نہیں تھا البتہ خاکسار والدین کے احسانات اور ان کی حالت کو دیکھ کر ڈگمگاتا رہا۔ اب حضور کے خطبۂ جمعہ کو دیکھ کر خاکسار کو یقین ہوگیا ہے کہ یہ صرف دماغی کاوشیں اور نفس کا دھوکہ تھا۔ اگر میرے جیسے بیس لڑکے اور بھی ہوتے جب بھی والدین کی خدمت کرنے کی انہیں توفیق نہ ملتی اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہتا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بغیر اولاد کے ذریعے سے ان کی مدد فرما سکتا ہے۔ بلکہ یہ سخت شرک ہوگا کہ اگر خاکسار کے دل میں یہ زعم ہو کہ میری کوششیں والدین کو آرام پہنچانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں یا میں اتنے عرصے تک ضرور زندہ رہوں گا تاکہ والدین اور بھائی بہنوں کی خدمت کرسکوں۔ رزاق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انسان رزاق نہیں۔ اگر وہ نہ چاہے تو میری کوششیں عبث ہیں۔

پس پیارے آقا! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ خاکسار کے والدین کو احمدیت کی توفیق عطا فرمائیں۔ اس طرح ان (کے…ناقل) دل سے یہ خیال نکل جائے گا کہ خاکسار ان کی خدمت نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، خاکسار کے بھائیوں اور بہنوں کا خود حافظ و ناصر ہو، خاکسار کے گناہوں کو اپنی رحمت اور مغفرت کے پردوں میں ڈھانپ لے، خاکسار کی کمزوریاں اپنے خاص فضل سے دور فرمائے، اس ناچیز ہدیہ کو شرفِ قبولیت بخشیں اور اگر کوئی ظاہرداری یا ہوس دل کے کسی کونے میں چھپی بیٹھی ہواسے دور فرمائے اور خدمتِ دین کی بہتر سے بہتر توفیق عطا فرمائے اور قیامت کے دن محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جگہ عطا فرمائے۔

والسلام

خاکسار

محمد علی (ایم اے سٹوڈنٹ گورنمنٹ کالج)

مورخہ44-4-9

احمدیہ ہوسٹل، 32ڈیوس روڈ، لاہور۔

چودھری محمد علی صاحب کی طرف سے اپنی زندگی خدمتِ دین کے لیے وقف کیے جانے کا اعلان چند ہی روز بعد 11؍مئی 1944ء کے الفضل میں ہوگیا۔ ہوا دراصل یوں کہ الفضل نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر خدمتِ دین کے لیے زندگی وقف کرنے والوں کی دوسری فہرست شائع کی۔ اس فہرست میں جو نمبرشمار 200سے شروع ہوتی ہے چودھری محمد علی صاحب کا نام آٹھواں ہے۔ اُن سے پہلے سات ناموں میں جماعت کے کئی نامی افراد شامل ہیں لہٰذا برسبیلِ تذکرہ وہ نام ذیل میں نقل کیے جا رہے ہیں:

1۔ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ابن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ (جو بعد میں لمبا عرصہ وکیل التبشیر اور وکیلِ اعلیٰ تحریک جدید انجمن احمدیہ رہے)۔

2۔ سلطان محمود شاہد صاحب(جو بعد میں ڈاکٹر سلطان محمود شاہد کے طور پر مشہور ہوئے اور جنہیں لمبا عرصہ تعلیم الاسلام کالج میں تدریس کا موقع ملا)۔

3۔ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ (جو ایم اے کرنے کے بعد تعلیم الاسلام کالج میں تاریخ کے پروفیسر رہے اور بطور واقفِ زندگی غانا میں بھی خدمت کی توفیق پائی)۔

4۔ چودھری محمد انور حسین صاحب(جو پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے اور برسوں امیر جماعت شیخوپورہ رہے)

5۔ ڈاکٹر محمد طفیل صاحب

6۔ شیخ عبدالباری صاحب بی اے آنرز، لاہور۔

7۔ نذیر احمد صاحب بی ایس سی

اس کے بعد آٹھویں نمبر پر چودھری محمد علی صاحب کانامِ نامی درج ہے۔

حضورؓ نے چودھری محمد علی صاحب کی یہ درخواست قبول کرتے ہوئے آپ کا تقرر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں فلسفہ کے لیکچرر کے طور پر کردیا چنانچہ فارم معاہدہ واقفِ زندگی میں جو وکالتِ دیوان میں محفوظ ہے اور جس پر کوئی تاریخ درج نہیں چودھری محمد علی صاحب نے اپنے کوائف میں اپنے گزارہ کی صورت بیان کرتے ہوئے اپنے آپ کو تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرر ظاہر کیا ہے اور اپنی ماہوار آمد 139روپیہ بتائی ہے۔ اس فارم میں درج دیگر کوائف بھی چودھری محمد علی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں لہٰذا انہیں ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے:

1۔ عمر: سرٹیفیکیٹ کے لحاظ سے 27سال۔ اصل عمر24سال

2۔ تعلیم دُنیوی: ایم اے (فلاسفی)

3۔ کیا شادی ہوچکی ہے؟: ہو چکی ہے

4۔ کتنے بچے ہیں؟

ان کی عمریں کیا ہیں؟

5۔ دینی معلومات کس قدر ہیں؟

قرآن کو باترجمہ مطالعہ کیا ہے لیکن عربی زبان سے واقفیت نہیں۔ اب پڑھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مذہب کے مسائل کا اصولی طورپر معقولی رنگ میں مطالعہ کیا ہے۔ احادیث اور تاریخِ اسلام کاعام طور پر تراجم کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔

6۔ آباء و اجداد کا وطن؟

مسِیتاں تحصیل زِیرہ ضلع فیروزپور

7۔ اب کس جگہ رہائش ہے؟

مسِیتاں تحصیل زِیرہ ضلع فیروزپور

8۔ والد یا سرپرست کا پتہ

چودھری غلام محمد صاحب نمبردار پتّی عارف، مسِیتاں تحصیل زِیرہ ضلع فیروزپور

9۔ قوم کیا ہے؟ گیلن

10۔ والد صاحب کی اپنی ملکیت زرعی زمین کس قدر ہے؟ 50گھمائوں کے قریب

11۔ گزارہ کی اس وقت کیا صورت ہے؟

لیکچرر تعلیم الاسلام کالج

12۔ آمد ماہوار کیا ہے؟

139روپے ماہوار

13۔ کس قسم کے کام کا تجربہ ہے؟

مفصّل سرٹیفیکیٹ لف ھٰذا ہے

14۔ کیا فارم معاہدہ کو خوب اچھی طرح سے پڑھ یاسن لیا ہے اور اس کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے؟

جی ہاں

15۔ مجلس خدام الاحمدیہ یامجلس انصاراللہ میں جو کام کیا ہو اس کی مختصر کیفیت:

نائب مہتمم اطفال ایک سال

قائم مقام مہتمم اطفال چارماہ

مہتمم اطفال فی الحال

قائم مقام نائب صدر خدام الاحمدیہ تین ماہ

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button