فقہی مسائلمتفرق مضامین

حج بیت اللہ اور عید الاضحی کے مسائل اور طریقہ کار

(‘ابن مبارک’)

اللہ نے لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اس گھر کا حج کریں (یعنی) جو (بھی) اس تک جانے کی توفیق پائے۔ (آل عمران: 98)

ذوالحجہ کا مہینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے گھر میں حاضر ہونے، مناسکِ حج ادا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی جستجو میں حقیقی قربانیاں پیش کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ہر خطۂ ارض سے مسلمان بلا تمیز رنگ ونسل اس فریضے کی ادائیگی کے لیے اپنے دلوں میں تڑپ اور جوش رکھتے ہیں اور رسم ورواج، عادات واَطوار، لسان ومسلک کے فرق کو مٹا کر اللہ عزوجل واحد لاشریک کے حضور متحد ہوکر

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ

کی صدا بلند کرتے ہوئے اخلاص اور وفا کے اُس واقعہ کو تازہ کرتے ہیں جوحضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہ نے پیش کیا تھا کہ بے آب وگیاہ، وادئ غیر ذی زرع میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر فنا ہوجانا قبول کرلیا۔ اسی قربانی کے اقرار میں حجاج اپنے گھر بار، عزیزواقارب، کاروبار ومشاغل غرض دنیا کے ہر قسم کے تعلقات سے منقطع ہوکرحج بیت اللہ کے لیے حاضر ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کا قُرب چاہتے ہوئے اُس کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔

فرضیتِ حج

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا (آل عمران: 98)

اور اللہ نے لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اس گھر کا حج کریں (یعنی) جو (بھی) اس تک جانے کی توفیق پائے۔

یعنی حجِ بیت اللہ صرف انہی لوگوں پر فرض ہے جو زادِ راہ کی استطاعت بھی رکھتے ہوں اور صحت اور راستے کا امن بھی انہیں نصیب ہو۔

حج کی اَقسام

حج کی ادائیگی کی تین صورتیں ہیں:

(1) حج مفرد یا اِفراد:

یعنی صرف حج کرنا اور اس کے ساتھ عمرہ نہ کرنا۔

(2) حج تَمَتُّع:

حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کرکے احرام کھول دینا لیکن مکہ مکرمہ میں ہی رہنا اور پھر نئے احرام کے ساتھ حج کرنا۔

(3) حج قِران:

ایک ہی احرام میں رہتے ہوئے حج اور عمرہ دونوں ادا کرنا۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے حج کا احرام باندھا اور سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت طلحہؓ کے کسی کےساتھ بھی قربانی کا جانور نہ تھا۔ حضرت علیؓ یمن سے (مکہ) پہنچے تھے اور ان کے ساتھ بھی قربانی کا جانور تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے ساتھ قربانی کا جانور تھا، باقی اصحابؓ سے فرمایا: اپنے حج کو عمرہ کردیں۔ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرکے اپنے بال کٹوا لیں اور احرام کھول دیں۔ پھر اسی طرح بغیر احرام ٹھہرے رہیں۔ یہاں تک کہ آٹھ ذوالحجہ ہوجائے تو حج کا احرام باندھ لیں اور جو پہلے کیا تھا اس کو تمتع کردیں۔ انہوں نے کہا: ہم اسے تمتع کیسے کردیں جبکہ ہم نے حج کی نیت کی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں جو حکم دیا ہے اسے کرو۔ اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جیسا میں نے تم کو حکم دیا ہے۔ لیکن اب جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے یہ کام حرام ہے، مجھ پر حلال نہیں ہوسکتا۔ پس ان صحابہؓ نے (عمرہ ادا کرکے) احرام کھول دیے۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب التمتع والاقران والافراد بالحج، روایت نمبر1568)

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب تقضی الحائض المناسک کلھا الّا الطواف بالبیت، روایت نمبر1651)

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر صحابہ کرامؓ نے حج تمتع کیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حج’’حجِ قران‘‘ تھا۔

حج کا ابتدائی مرحلہ…احرام باندھنا

حجاج کرام اپنے اپنے راستے میں آنے والے میقات سے احرام باندھ کر حرم میں داخل ہوتے ہیں۔ میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ پر جانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُس سے آگے کا سفر حالتِ احرام میں کریں۔ حضرت عبد الله بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لیے جُحفہ، اہل نجد کے لیے قرن المنازل اور اہل یمن کے لیے یلملم احرام باندھنے کے مقامات مقرر کیے۔ یہ اُن کے لیے بھی ہیں جو وہاں رہتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو عمرہ اور حج کے ارادہ سے دوسرے ملکوں سے آتے ہوئے وہاں سے گزرتے ہیں۔ اور جو اِن مقامات سے ورے رہتے ہیں تو وہ جہاں سے (سفر) شروع کریں، وہیں سے احرام باندھ لیں۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب مھل أھل مکۃ للحج والعمرۃ، روایت نمبر1524)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ارشاد کے مطابق مکہ مکرمہ سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے حدودِ حرمِ مکہ سے باہر مقامِ تنعیم سے احرام باندھتے ہیں۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الحج علی الرحل، روایت نمبر1516)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ انہوں نے کہا: جب عراق کے شہر فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمرکے پاس آئے اور انہوں نے کہا: امیرالمومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے قرن المنازل مقرر فرمایا ہے اور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف ہے۔ وہاں سے ہوکر گزرنا ہمارے لیے مشکل اور تکلیف کا موجب ہے۔ حضرت عمرؓنے فرمایا: تم اپنے راستہ میں اس کے مقابل پر کوئی اَور مقام دیکھ لو۔ پھر آپؓ نے ان کے لیے ذاتِ عرق مقرر فرمادیا۔

احرام کا طریق یہ ہے کہ حجامت بنوانے اور جسم کی اچھی طرح صفائی اور پاکیزگی کا اہتمام کرتے ہوئے غسل کرنے کے بعد اگر میسر ہو تو خوشبو لگائے۔ مرد دو سفید چادریں جو سلی ہوئی نہ ہوں، لے کر ایک چادر بصورتِ تہ بند اور دوسری اوپر اوڑھ لے اور اپنے سر کو ننگا رکھے۔ عورت سادہ سلے ہوئے سفید کپڑے پہنے۔ پھر مرد و عورت ہر کوئی دو رکعت نفل ادا کرکے حج کے ارداہ سے تلبیہ کہتے ہوئے سفر کا آغاز کرے۔

حضرت عبد الله بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ (حج کے موقع پر) رسول اللہﷺ نے اپنے سر کے بالوں کو (مٹی اور گرد سے بچانے کے لیے) جمایا ہوا تھا۔ جب آپؐ کی اونٹنی مسجدِ ذی الحلیفہ کے پاس سے آپؐ کو لے کر کھڑی ہوئی تو آپؐ کہہ رہے تھے:

لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ۔

یعنی میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا تلبیہ یہی الفاظ ہوا کرتے تھے۔

(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب التلبية وصفتھا ووقتھا)

حضرت زید بن خالد جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

جبریل میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے: تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آوازوں کو بلند کیا کرو، کیونکہ یہ بھی حج کے شعار میں سے ہے۔

(تخریج الاحادیث المرفوعۃ المسندۃ فی کتاب التاریخ الکبیر، روایت نمبر657)

احرام باندھنا گویا حج کی نیت کرکے اسے شروع کرلینا ہے۔ حالتِ احرام صرف یہ نہیں کہ دو چادریں اوڑھ لی جائیں بلکہ محرم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی بُرائی، فسق وفجور اور لڑائی جھگڑے سے مجتنب رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔

(البقرة: 198)

حج چند معلوم مہینوں میں ہوتا ہے۔ پس جس نے ان (مہینوں ) میں حج کا عزم کرلیا تو حج کے دوران کسی قسم کی شہوانی بات اور بدکرداری اور جھگڑا (جائز) نہیں ہوگا۔ اور جو نیکی بھی تم کرو اللہ اسے جان لے گا۔ اور زادِسفر جمع کرتے رہو۔ پس یقیناً سب سے اچھا زادِ سفر تقویٰ ہی ہے۔ اور مجھ ہی سے ڈرو اے عقل والو۔

احرام باندھ لینے سے محرم پر بعض جائز اور حلال چيزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں۔ سلے ہوئے کپڑے یعنی قمیص، شلوار، پاجامہ، کوٹ وغیرہ پہننا، ٹوپی یا عمامہ لینا، جرابیں یا بوٹ پہننا، خوشبو لگانا یا خوشبو سے رنگے ہوئے کپڑے پہننا، بال کٹوانا، ناخن کاٹنا، خشکی کا شکار کرنا یا کروانایا کرنے میں کسی قسم کی مدد دینا، ازدواجی تعلقات یا اس کے مقدمات کا ارتکاب منع ہے۔ محرم عورت کے لیے سلے ہوئے کپڑے قمیص اور پاجامہ پہننا نیز سرڈھانپنے کے لیے دوپٹہ یا چادر لینادرست ہے، لیکن اسے برقعہ پہننا یا منہ ڈھانپ کر رکھنا منع ہے۔

بعض امور استثنائی صورت میں جائز بھی ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں كہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں تھیں۔ جب لوگ ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی اوڑھنی اپنے سر سے اپنے چہرے پر کھینچ لیتی تھی اور جب وہ گزر جاتے تو چہرے کو کھول لیتی تھی۔

(سنن ابی داؤد، کتاب المناسک، باب فی المحرمۃتغطی وجھھا، روایت نمبر1833)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس کو جوتی نہ ملے وہ موزے پہن لے لیکن انہیں ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ لے اور جسے تہ بند نہ ملے وہ شلوار پہن سکتا ہے۔

ان چند مستثنیات کے علاوه مندرجہ بالا امور کی پابندی انتہائی ضروری ہے، وگرنہ کفارہ ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔

حضرت کعب بن عجرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حدیبیہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھےاور احرام باندھے ہوئے تھے۔ میرے گھنے بال تھے اور جوئیں میرےچہرے پر گِر رہی تھیں۔ آنحضورﷺ نے پوچھا: کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: اپنا سر منڈوا لو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ (اس بارے میں ) یہ آیت نازل ہوئی:

فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍٍ

(البقرة: 197)

یعنی جو تم میں سے بیمار ہو، یا اُس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں فدیہ دے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

تین روزے رکھو، یا چھ محتاجوں میں ایک فَرَق (یعنی تقریباً 9 کلوگرام اناج) صدقہ تقسیم کرو، یا قربانی کرو۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، روایت نمبر1815)

اسی طرح جان بوجھ کر شکار کرنے والے کی سزا یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ایسی قربانی کعبہ تک پہنچائے جودو عادل انسانوں کے نزدیک اُس شکار کے برابر ہو۔ یا پھر کفارہ کے طور پر چند مساکین کو کھانا کھلائے یا اس کے برابر روزے رکھے۔ (المائدۃ: 96) احرام کے نتیجے میں حرام ہونے والی یہ باتیں ایسی نہیں کہ انہیں معمولی سمجھا جائے۔ ان میں سے بعض تو ایسی سخت ہیں کہ ان کے ارتکاب سے حج ہی فاسد ٹھہرتا ہے اور ادا نہیں ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حرمت کو قائم رکھنا ازبس ضروری ہے۔

مناسکِ حج و عمرہ

محرم پر لازم ہے کہ وہ بکثرت تلبیہ پڑھے۔ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، بلندی پر چڑھتے اور اُترتے اُس کی زبان تلبیہ سے تر رہنی چاہیے۔ اسی طرح چاہیے کہ نمازوں کی ادائیگی کے بعد اس کے اوقات تلاوتِ قرآن کریم، ذکر الٰہی اور درود شریف سے معمور رہیں۔ یہ دن قبولیت کے خاص دن ہیں، ان میں مقبول دعاؤں کی توفیق پانا ہی حج مبرور کی علامت ہے۔

مکہ پہنچ کر وضو یا غسل کرنے کے بعد تکبیرات اور تلبیہ کہتے ہوئے مسجدِ حرام میں داخل ہوتے ہیں۔

حضرت ابو امامہ باہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

جب خانہ کعبہ پر نظر پڑے تو یہ قبوليتِ دعا کا موقع ہے۔

(المعجم الكبير للطبراني، جزء8صفحہ169، روایت نمبر7713)

حضرت حذیفہ بن اسیدؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ کو دیکھا تو یہ دعا کی:

اللّٰهُمَّ زِدْ بَيْتَكَ هَذَا تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيمًا، وَبِرًّا وَمَهَابَةً، وَزِدْ مَنْ شَرَّفَهُ وَعَظَّمَهُ مِمَّنْ حَجَّهُ وَاعْتَمَرَهُ تَعْظِيمًا وَتَشْرِيفًا وَبِرًّا وَمَهَابَةً

(الدعاء للطبرانی، باب الدعاء عند رؤية الكعبة، روايت نمبر854)

اے الله! اپنے اس گھر کی عزت، عظمت، بزرگی، بھلائی اور رُعب میں مزید اضافہ فرمادے اور حج اور عمرہ کرنے والوں میں سے جو بھی اسے عزت وعظمت دے، تو بھی اُسے عزت وعظمت، نیکی اور وقار میں بڑھا دے۔

حجرِ اسوَد کو بوسہ دینا سنت ہے اگر اسے چوم نہ سکیں تو ہاتھ سے چھو کر یا اشارہ کرکے اسے چومتے ہیں۔ حجر اسوَد کو اس طرح بوسہ دینا ’’استلام‘‘کہلاتا ہے۔ استلام سے ہی طواف شروع ہوتا ہے۔ یعنی حجرِ اسوَد سے خانہ کعبہ کے دروازے کی طرف چلتے ہوئے خانہ کعبہ کے گرد (counter clockwise) سات چکر لگائے جاتے ہیں اور ہر چکر پر حجرِ اسوَد کا استلام کرتے ہیں۔ بیت اللہ کا یہ پہلا طواف ’’طواف القدوم‘‘کہلاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اورآپ حجر اسود کوچومنے کے لیے چھڑی سے اشارہ کرتےتھے۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب استلام الرکن بالمجن، روایت نمبر1607)

رکنِ یمانی کو استلام کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے حجر اسود اور رکن یمانی کو بوسہ دیتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، میں نے انہیں بوسہ دینا نہ کبھی تکلیف میں چھوڑا ہے اور نہ آرام میں۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الرمل فی الحج والعمرۃ، روایت نمبر1606)

طواف میں پہلے تین چکر چستی کے ساتھ تیز تیزاور باقی چار چکر عام رفتار سے لگائے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الرمل فی الحج والعمرۃ) ساتواں چکر حجرِ اسوَد کے سامنے ختم کرنے کے بعد مقامِ ابراہیم کے پاس دو رکعت نفل پڑھنا سنت ہے۔ زُہری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جب بھی طواف کیا، آپؐ نے یہ دو رکعتیں پڑھی ہیں۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب صلی النبی لسبوعہ رکعتین)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب مکہ میں آئے تو آپ مسجدِ حرام میں داخل ہوئے آپؐ نے حجرِ اسوَد کو بوسہ دیا پھر آپؐ اپنے دائیں طرف چلے اور کعبہ کے گرد تین چکر دوڑنے کے انداز میں، اور چار چکر چلتے ہوئے لگائے۔ پھر آپؐ مقامِ ابراہیم کے پاس آئے اور ایسی جگہ کھڑے ہوکر دو رکعتیں پڑھیں کہ مقامِ ابراہیم آپؐ کے اور خانہ کعبہ کے درمیان میں تھا اور آپؐ نے ان رکعتوں میں سورت الکافرون اور سورت الاخلاص پڑھی۔ ان دو رکعتوں سے فارغ ہوکر آپ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دینے کے بعد ’’صفا‘‘کی طرف چل پڑے۔

(سنن الترمذی، ابواب الحج، باب ما جاء کیف الطواف، باب ما جاء ما یقرأ فی رکعتی الطواف)

طواف کے بعد اگلا عمل صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا ہے۔ سعی کے بنیادی معنی کوشش کرنے کے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام کا تعامل یہی تھا کہ طواف کی طرح سعی کا بھی ایک حصہ دوڑنے کے انداز میں طَے کیا کرتے تھے۔ لیکن جو ايسا نہ کرسکے اُس کے لیے چلنا بھی جائز ہے۔

(سنن الترمذی، ابواب الحج، باب ما جاء فی السعی بین الصفا والمروۃ)

عبید اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی میں دوڑنے کا حکم عورتوں کے لیے نہیں ہے۔

(مسند الشافعی، کتاب الحج، باب لیس علی النساء سعی)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو آپؐ نے آیت کریمہ

اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ (البقرۃ: 159)

پڑھی (یقیناً صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ ) اور آپؐ نے فرمایا: میں بھی اس سے ابتداکرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے ابتدا کی ہے۔ اور آپؐ نے (سعی کرنا) صفا سے شروع کیا۔ آپؐ اُس پر چڑھے اور قبلہ رُخ ہوکر بیت اللہ کی طرف دیکھا۔ پھر آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور کبریائی بیان کی اور کہا:

ا الٰه إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ۔

یعنی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اُسی کی ہےاور سب تعریفوں كا حقدار بھی وہی ہےاور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے، اُس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اکیلے ہی پسپا کردیا۔

پھر آپؐ نے دعا کی اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ پھر آپؐ مروہ کی طرف اُترے اور جب وادی کے نشیب میں پہنچے تو دوڑنے لگے یہاں تک کہ جب آپ کے قدم چڑھائی پر پڑنے لگے تو آپؐ چلنے لگ گئے یہاں تک کہ مروہ پر چڑھے اور آپؐ نے مروہ پر بھی اسی طرح کیا جس طرح صفا پر کیا تھا۔ (صفا سے مروہ تک ایک چکر اور مروہ سے صفا تک دوسرا چکر، اس طریق پرآپؐ نے سات چکر مکمل کیے) یہاں تک کہ جب مروہ پر آپؐ کا آخری چکر تھا تو آپؐ نے فرمایا:

اگر میں وہ کرسکتا جو میں نے نہیں کیا تو میں بھی اپنی قربانی اپنے ساتھ نہ لاتا۔ پس تم میں سے جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے وہ احرام کھول دے اور اسے عمرہ بنا دے اور آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں ڈالیں اور فرمایا:

عمرہ حج میں داخل ہوگیا اور یہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے۔…لوگوں نے احرام کھول دیے اور بال کٹوا لیے، سوائے نبیﷺ کے اور اُن کے جن کے پاس قربانی تھی۔ پھر جب 8؍ذو الحجہ ہوئی تو جنہوں نے احرام کھول دیے تھے انہوں نے حج کا احرام باندھ لیا اور سب نے ہی منیٰ کا رُخ کیا۔

(مسلم، کتاب الحج، باب حجة النبي)

8؍ذو الحجہ

اس دن منیٰ پہنچ کر رہائش اختیار کی جاتی ہے۔ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور اگلے دن یعنی 9 ذو الحجہ کی فجر بھی یہیں ادا کی جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے منیٰ میں (ظہر، عصر اور عشاء کی) نمازیں قصر کرکے دو دو رکعت پڑھائیں۔

(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الصلاۃ بِمِنًی، روایت نمبر1657)

9؍ذو الحجہ

اس دن ظہر سے قبل میدانِ عرفات پہنچنا اور وقوفِ عرفات یعنی میدانِ عرفات میں ٹھہرنا حج کا ایک اہم رُکن ہے۔ ظہر وعصر کی نمازیں یہیں جمع کرکے پڑھی جاتی ہیں۔ عرفات میں بھی اپنے اوقات تلبیہ، تکبیرات، ذکر الٰہی، درود شریف، استغفار اور دعاؤں میں مشغول رہتے ہوئے گزارے جاتے ہیں۔ جب سورج غروب ہوجائے تو عرفات سے چل کر مزدلفہ آجاتے ہیں۔ یہاں عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کرکے ادا کی جاتی ہیں اور اس رات مزدلفہ میں ہی قیام کیا جاتا ہے۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (8؍ذو الحجہ کو منیٰ میں ) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور(9؍ذو الحجہ کی) فجر پڑھی۔ پھر آپؐ کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوگئے۔ عرفات پہنچے تو آپؐ نے (یہاں ) اپنا خیمہ نمرہ (مقام) میں لگا ہوا پایا۔ (آج اس مقام پر مسجدِ نمرہ ہے۔) آپؐ وہاں اُترے۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپؐ قصواء (اونٹنی) پر سوار ہوکر وادی کے درمیان میں تشریف لائےاور لوگوں سے خطاب فرمایا۔ پھر آپؐ نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں اور ان دونوں كے درميان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ پھر آپؐ سوار ہوئے اور قبلہ کی طرف رُخ کیے(عرفات میں ) ٹھہرے رہے۔ جب سورج غروب ہوگیاتو آپؐ روانہ ہوئے۔ مزدلفہ پہنچ کر آپؐ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں۔ پھر رسول اللہﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی۔

(مسلم، کتاب الحج، باب حجة النبي)

سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ ہم حج کے ایک موقع پر مزدلفہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے ساتھ پہنچے۔ آپؓ نے ہمیں مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت(قصر کرکے) پڑھائی۔ پھر آپؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے اس جگہ ہمیں اسی طرح نماز پڑھائی تھی۔

(سنن ابی داؤد، کتاب المناسک، باب الصلاۃ بجمع، روایت نمبر1931)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button