کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں۔کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعائوں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔

مبارک تم جبکہ دُعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کو ٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بیتاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے۔کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بُلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جائو اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو۔ کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جائو اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبول کرلو تابڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جائو۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت د ی جائے گی۔ دُعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے۔ اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلّی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ گو یا وہ اَور خدا ہے حالانکہ اَور کوئی خدا نہیں ۔مگر نئی تجلّی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلّی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے۔

غرض دُعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرتِ احدیّت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے۔ اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے۔ اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے۔ اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے۔ اور اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے خیال بکلی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش وجود کو مٹا دیتی ہے۔ یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اورجسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔ جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے۔ ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے۔ اور جب جسم کسی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے۔ پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت احدیّت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور سجود میں مشغول ہو جائے۔ کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں۔ تو جب ہم اُن میں سے ایک چیز کو اٹھائیں گے تو اس اٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہوگی۔ لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے۔ اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت فضل پر موقوف۔

(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ222تا 224)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button