متفرق مضامین

ارضِ بلالؓ :افریقہ کی چند یادیں

(منور خورشید۔ مربی سلسلہ یوکے)

محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو سرزمین افریقہ میں رُبع صدی سے زائد عرصہ تک خدمت دین کی توفیق ملی ہے۔ ان ممالک کے اسماءکچھ یوں ہیں۔ گیمبیا، سینیگال، گنی بساؤ، موریتانیہ، کیپورڈ اور صحارا۔ ان کے علاوہ سیرالیون، گنی کوناکری اور مالی بھی جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

میں نے ان ممالک میں پیش آمدہ واقعات ایک الگ کتاب ’’ارض بلال میری یادیں ‘‘میںقلمبند کیےہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبولیت عام ملی اور بےشمار قارئین نے اس کے مضامین کو سراہا ہے۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔

بہت سے دوستوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ اس کتاب کی جلد دوم بھی ہونی چاہیے۔ دعا کریں کہ اللہ کریم صحت اور عمر سے نوازے، تو انشاء اللہ اس پر بھی کام کیا جائے گا۔

میں نے یادوں کے دریچے، اپنے سفر حیات میں پیش آمدہ واقعات کو رقم کیا ہے۔ اس لیے ایک باب افریقہ کی چند یادیں بھی محض میدان عمل میں خدمات کے دَور کی ترتیب قائم رکھنے کے لیے شامل کرلیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا دورہ فرافینی(گیمبیا)

نوٹ: اس مضمون میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورہ گیمبیا میں سے صرف فرافینی مشن کے دورے کی کچھ تفاصیل پیش خدمت ہیں۔ باقی انشاء اللہ بشرط زندگی پھر توفیق ملی تو تحریر کی جائیں گی۔

18؍جنوری 1988ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے براعظم افریقہ کے چند ممالک کے دورہ کا آغاز فرمایا۔ ان ممالک میں گیمبیا، سیرالیون، لائبیریا اور نائیجیریا شامل ہیں۔ سب سے پہلے حضورؒ گیمبیا تشریف لائے۔

گیمبیا میں ورود مسعودکے بعددو دن بانجول میں جماعتی مصروفیات میں گزارے گئے۔ اس کے بعد بیرونی جماعتوں کے دورے کا پروگرام تھا۔ جس میں بویام جماعت کا دورہ کرنے کے بعد فرافینی مشن میں تشریف لانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ فرافینی ایک اہم مقام ہے جس کے مضافات میں گیمبیا کی بڑی بڑی جماعتیں ہیں۔

فرافینی میں آمد

ان ایام میں خاکسار گیمبیا کے قصبہ فرافینی میں بطور مربی سلسلہ خدمت سرانجام دے رہاتھا۔ یہ قصبہ سینیگال اور گیمبیا کی سرحد پر واقع ہے۔ میرے ذمہ گیمبیا کے اس حلقے کی جماعتوں کے علاوہ سینیگال میں بھی تبلیغی اور تربیتی امور کی ادائیگی کی ذمہ داری تھی۔ اس مقام سے گیمبیا کے علاوہ سینیگال کے دورہ جات کرنا بھی زیادہ آسان تھا۔

مکرم ڈاکٹر خلیل ینگاڈو صاحب

مکرم ڈاکٹرخلیل ینگاڈو صاحب اس علاقےکی سب سے بااثر شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مالی فراخی سےبھی نواز رکھا تھا۔ نیز ان کا گھر اس پورے شہر میں وسیع وعریض تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہگیمبیئناور سینیگالی مہمان ان کے گھر میں ہی جمع ہوں گے اور حضورؒ کا استقبال بھی یہیں ہوگا۔ اس کے بعد مہمان کھانا بھی یہیں کھائیں گے۔

ڈاکٹر صاحب کو صدمہ۔ خلافت سے عشق

جس دن حضورؒ نے فرافینی تشریف لانا تھا۔ صبح سویرے ڈاکٹر صاحب میرے پاس آئے۔ کہنے لگے کہ میرے بڑے بھائی کاعور میں فوت ہوگئے ہیں۔ یہ ان کے وہ بھائی تھے جنہوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد ڈاکٹر صاحب کو پالا تھا۔ اس پر میں کچھ پریشان ہوگیا۔ اب کیا ہوگا کیونکہ سارے انتظامات تو ان کے پاس تھے۔ ڈاکٹر صاحب میری کیفیت بھانپ گئے، کہنے لگے آپ فکر نہ کریں۔ میں ابھی جاکر جنازے کے جملہ انتظامات کرکے واپس آجاتا ہوں۔ یہ سفر تقریبا ًچالیس کلو میٹر کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی جیپ پر گئے پھر چند گھنٹوں میں واپس بھی آئے اور پھرمہمانوں کے لیے انتظامات میں مصروف ہوگئے۔ کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ان کے بھائی فوت ہوگئے ہیں۔

فرافینی میں استقبال

بانجول سے آتے ہوئے فرافینی سے چند کلومیٹر پہلے ایک فیری کے ذریعہ دریائے گیمبیا کراس کرنا پڑتا ہے۔ عاجز، مکرم با شیخو دیبا صاحب صدر جماعت فرافینی، محمد جونجی دیبا صاحب فرافینی، عبدالسلام صاحب جالو سینیگال، علیو سوہ صاحب سینیگال کے ہمراہ دریائے گیمبیا کے کنارے پر قبل ازوقت پہنچ گیا۔ فیری کی آمد پر حضورؒ کا استقبال کیا۔ اپنے ساتھیوں کا تعارف کرایا۔ اس وقت فیری کی آمد کی وجہ سے سینکڑوں لوگ آنے جانے والےوہاں پر موجود تھے۔ سب لوگ ہی حضورؒ کی پُرکشش روحانی شخصیت کو بڑے اشتیاق سے دیکھ رہے تھے۔

اس کے بعد ہمارا یہ مختصر سا قافلہ فرافینی کو روانہ ہوا۔ حضورؒ نے فیری سے سیدھا ڈاکٹر خلیل ینگاڈو صاحب کے گھر پر تشریف لے جانا تھا۔ کیونکہ سینیگال اور گیمبیا سے تشریف لائے ہوئے مہمان ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ہی حضورؒ کی زیارت کے لیے محو انتظار تھے۔

عجیب اتفاق

حضورؒ کی کار جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کے ہسپتال کے قریب پہنچی۔ عجیب اتفاق ہوا۔ اس وقت قریبی سیکنڈری سکول میں چھٹی ہوگئی۔ جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں طلباء و طالبات بھی ادھر آگئے۔ وہ بھی حضورؒ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اورآپ کی پُروقار اورسحر انگیز شخصیت کا نقشہ تاحیات ان کے دل ودماغ میں جاگزیں ہوگیا۔

ملاقات کا روح پرور نظارہ

حضورؒ کی آمد پر سینکڑوں لوگ لائنیں بنا کر کھڑے ہوگئے۔ حضورؒ نےاز راہ شفقت ہر ایک کے پاس جاکر اسے شرف ملاقات بخشا۔ یہ ایک عجیب نظارہ تھا۔ حضورؒ ایک لمبے اور تھکا دینے والےسفر کے بعد یہاں تشریف لائے تھے لیکن اس کے باوجود آپؒ کا چہرہ مبارک بالکل تازہ شگفتہ گلاب لگ رہاتھا۔ ہر کسی سے مسکرا کر بات فرمارہےتھے۔ ہر مہمان سے اس کا حال احوال پوچھتے۔ اپنے امام کو اتنا قریب سے دیکھنے کا ان کے لیے پہلا موقع تھا جس کی وجہ سے سب مہمان بہت ہی زیادہ خوش تھے۔

اشاروں میں ہوئیں دل کی باتیں

سینیگال کے علاقہ کولخ میں ایک گونگے دوست نے بیعت کرلی۔ جس کی تبلیغ کی وجہ سے اس کے ایک دوسرے گونگے نے بھی بیعت کرلی۔ یہ دونوں دوست بھی اس اجتماع میں شریک تھے۔ جب حضورؒ ان کے پاس تشریف لائے۔ وہ دونوں حضورؒ کو مل کر بہت خوش ہوئےاور اپنی زبان میں اپنی خوشی کااظہار کیا۔ اس پر حضورؒ نے بھی اشاروں کی زبان میں ان سے باتیں کی۔ یہ عجیب پُرلطف نظارہ تھا۔

ایم آر سی

یہ گورنمنٹ برطانیہ کا ایک ریسرچ ادارہ ہے۔ جن کی فرافینی میں بڑی اچھی بلڈنگ ہے۔ وہاں چند ایک گیسٹ ہاؤسز بھی ہیں۔ ہم نے حضورؒ کی استراحت کے لیے وہاں انتظام کیا تھا۔ خاکسار اور میری اہلیہ کو سعادت ملی کہ ہم نے ان کمروں کی صفائی اور مناسب تیاری کی۔

استقبالیہ ملاقات کے بعد حضورؒ اس ریسٹ ہاؤس میں تشریف لے آئے۔ میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے حضورؒ کواس قدر قریب سے دیکھا۔ حضورؒ نے پگڑی اتاری اور مجھے تھمادی جو میں نے ایک جانب رکھی۔ یہ بھی یادگار لمحات تھے۔

کمیونٹی ہال میں تاریخی خطاب

فرافینی شہر کے اندر بازار کے قریب ایک کمیونٹی ہال ہے۔ اس میں حضورؒ نے خطاب فرماناتھا۔ حضورؒ کی یہاں آمد سے قبل ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ حضورؒ تشریف لائے۔ کمشنر ریجن مسٹرآکی بایو، پولیس چوکی گیمبیا اور سینیگال کے انچارج صاحبان، مقامی چیف اور دیگر سیاسی اورسماجی شخصیات نے اپنےمختصر خطابات میں حضورؒ کوخوش آمدید کہا۔

بعدازاں حضورؒ نے ایک پُرمعارف خطاب فرمایا۔ یہ جلسہ ملک بھر کے جلسوں اور اجتماعات میں سب سے بڑا تھا۔ جس کی وجہ سے حضورؒ بہت ہی خوش تھے۔ جس کا کئی بار آپؒ نے ذکرفرمایا۔

روانگی برائے سالکینی…

کیڑی کے گھر نارائن

اس جلسے کے بعد حضورؒ کا سالکینی جماعت میں تشریف لے جانے کا پروگرام تھا۔ راستے میں میرا گھر پڑتا تھا۔ جب قافلہ میرے گھر کے پاس سے گزررہاتھاتومکرم داؤداحمد حنیف صاحب امیر جماعت نے حضورؒ کوبتایا کہ یہ گھر منورخورشید صاحب کا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا، گاڑی روکیں۔ ایک دم سارا قافلہ رک گیا۔ حضورؒ نے فرمایا، خورشید صاحب کے گھر چلیں۔ اس پر حضورؒ، مکرم ہادی صاحب، مولانا داؤد حنیف صاحب اور چند دیگر دوست بھی میرے غریب خانے پر تشریف لے آئے۔ تب میں گھر نہیں پہنچا تھا۔ بہرحال جلد ہی آگیا۔

حضورؒ کی ہمارے ہاں اس اچانک آمد کے واقعہ کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کہاں سے لاؤں۔ حضورؒ تشریف لائے۔ بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ فرمایا۔ میری اہلیہ بھی اس اچانک آمد پر حیران وپریشان ہوگئیں۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت فرمایا، چائے پلائیں۔ اس دوران حضورؒ کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں جو میرے خاندان کے لیے سرمایہ حیات بن گئیں۔ اس وقت میری بیٹی عزیزہ عطیہ خورشید سب سے چھوٹی تھی۔ حضورؒ نے اسے گود میں بٹھایا اور تصویر بنانے کاارشاد فرمایا۔

اس کے بعد حضورؒ سالکینی تشریف لے گئے۔ لیکن خاکسار دیگر مصروفیات کی وجہ سے قافلہ کا ہم سفر نہ بن سکا۔

انجوارا میں قیام

سالکینی کے بعد قافلہ انجوارا نامی قصبہ میں آگیا۔ یہاں جماعت احمدیہ کا ایک ہسپتال ہوتا تھا۔ جس میں ڈاکٹر منوراحمد صاحب انچارج تھے۔

حضورؒ کا قیام ڈاکٹر صاحب کے مکان کے ایک حصے میں تھا۔ رات کو ایک خادم مکرم الکالی دیبا ڈیوٹی پر کھڑے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضورؒ کے کمرے کی لائٹ صبح تین بجے کے قریب بند ہوئی تھی۔ اس سے حضورؒ کی مصروفیات کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے صحن میں کیروگیٹ شیٹس کا ایک عارضی شیڈ بنایا تھا، جس میں حضورؒ کی صدارت میں نیشنل مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ ایک بہت ہی تاریخی اجلاس تھاجس میں بعض باتیں پیشگوئی کا رنگ رکھتی تھیں جووقت آنے پر پوری ہوئیں۔

دونوں طرف ہوآگ برابر لگی ہوئی

انجوارا میں، میں نے مکرم امیر صاحب کو بتایا کہ کس طرح ڈاکٹر ینگاڈو صاحب نے خلافت سے عشق کی بنا پر اپنے بڑے بھائی کی میت کو دوسروں کے حوالے کرکے سب انتظامات کیے ہیں۔ مولانا داؤد حنیف صاحب نے یہ بات حضورؒ کے گوش گزارکردی۔ جس پر حضورؒ نے فرمایاکہ مجھے وہاں کیوں نہیں بتایا گیا۔ اب واپسی پر پہلے ان کے گھر افسوس کے لیے جائیں گے۔

صابا کی مسجد کا افتتاح اور اعلان نصرت جہاں سکیم نَو

اگلے روز جمعہ تھا۔ انجوارا سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک بہت ہی مخلص اور فدائی جماعت صابا ہے۔ جہاں نئی مسجد تعمیر ہوئی تھی۔ اس کا افتتاح ہونا تھا۔ حضورؒ نے نماز جمعہ ادا کرکے اس مسجد کا افتتاح فرمایا۔ اسی خطبہ جمعہ کے دوران حضورؒ نے نصرت جہاں سکیم نَو کا اعلان بھی فرمایا۔ یہ خطبہ انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ منڈنگا زبان میں مولانا داؤد حنیف صاحب نے کیا تھا۔

اظہار تعزیت

نماز جمعہ کے بعد ہم سیدھے فرافینی پہنچے۔ اس دوران مکرم ڈاکٹر صاحب بھی جمعہ کے بعد اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔ ہم بھی حضورؒ کی اقتدا میں ان کے ہاں پہنچ گئے۔ حضورؒ نے مکرم ڈاکٹر صاحب اوران کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ فوٹو بنوائی۔ وہ فوٹو کافی عرصہ ان کے ڈرائنگ روم کی زینت بنی رہی۔ جو ان کے گھر میں حضورؒ کے تشریف لانے والے واقعہ کی یاد تازہ کرتی رہی۔

احمدیہ ہسپتال کا سنگ بنیاد

حضورؒ نےفرافینی میں گیمبیا، سینیگال روڈ پر احمدیہ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا۔ جو اب اللہ کے فضل سے خدمت خلق میں مصروف ہے۔

روانگی برائے دیگر مقامات

اس کے بعد حضورؒ کا قافلہ کاعور، جارج ٹاؤن اور بصے کوروانہ ہوگیا۔

مانسا کونکو میں حضورؒ کی آمد

مذکورہ مقامات کے دورہ کے بعد حضورؒ کا قافلہ واپس بانجول کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں مانساکونکو (مانسا کے معنی بادشاہ اور کونکو کے معنی پہاڑی کے ہوتے ہیں )جہاں ریجنل کمشنر کی رہائش اور دفاتر کے علاوہ ایک گیسٹ ہاؤس بھی تھا۔ اس گیسٹ ہاؤس میں حضورؒ کا تھوڑی دیر کے لیےقیام کا پروگرام تھا۔

میزبانی کا فخر

خاکسار کو مکرم امیر صاحب کا حکم تھا کہ میں نے حضورؒ کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام کرنا ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ صبح ہی وہاں پہنچ گیا۔ حسب حالات چائے پانی کا انتظام کیا گیا۔

حضورؒ کی آمد

حضورؒ جب گیسٹ ہاؤس میں تشریف لائے۔ وہاں میری بیٹیاں سلطانہ خورشیداور عطیہ خورشیدبھی موجود تھیں۔ حضورؒ نے فرمایا۔ یہ کس کی بیٹیاں ہیں۔ بشریٰ صاحبہ اہلیہ مولانا داؤد احمد حنیف صاحب نے عرض کی، حضور یہ خورشید صاحب کی بیٹیاں ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا:ان کی تین بیٹیاں ہیں۔ بشریٰ صاحبہ کہنے لگیں۔ نہیں حضور دو بیٹیاں ہیں۔ اس پر پھر حضورؒ نے فرمایا۔ تین بیٹیاں ہیں۔ اس کے چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں تیسری بیٹی سے نوازا جس کانام طوبیٰ خورشید ہے۔ اس طرح حضورؒ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہوگئی۔

اہل گنی بساؤ کی بیعت اور یاد گیر مٹھائی

فرافینی میں کچھ گنی بساؤ کے دوست مزدوری کرتے تھے۔ جو ہماری مسجد کے قریب ہی رہتے تھے۔ حضورؒ کی فرافینی آمد کے موقع پر جلسے میں بھی شریک ہوئے اور وہ ہمارے ساتھ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس لیے وہ بھی مانسا کونکو پہنچ گئے۔ حضورؒ کی خدمت میں بیعت کے لیے درخواست کی گئی۔ جس پر حضورؒ نے گیسٹ ہاؤس میں بیعت لی۔ خاکسار کو مقامی زبان میں ترجمہ کرنے کی توفیق ملی جس پر حضورؒ نے بہت خوشی کااظہار فرمایا۔ بعدازاں حضورؒ نے مجھے کچھ ڈالرز دیتے ہوئے فرمایاکہ خود بھی مٹھائی کھائیں اور ان کو بھی کھلائیں۔؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

گر نہ بخشد خدائے بخشندہ

جان ومال وآبرو حاضر ہیں تیری راہ میں

گیمبیا میں فرافینی کے مقام پر ایک نہایت ہی بزرگ تقویٰ شعار، دعاگو اور پنج وقتہ نماز کے پابند ڈاکٹر صاحب رہتے تھے ان کا نام خلیل ینگاڈو صاحب تھا۔ چندسال پہلے ان کا وصال ہو گیا ہے۔

افریقہ کے جن ممالک تک میرا تعارف اور شناسائی ہے۔ خاکسار کے علم کے مطابق مالی قربانی میں ان کا کوئی مثیل نہیں تھا۔ لازمی چندہ جات، باقاعدہ نصاب کے مطابق زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے نیز بینک سے جو رقم بطور سود ملتی وہ بھی لے کر من و عن جماعت میں ادا کرتے تھے۔ فرافینی میں ہماری مسجد زیر تعمیر تھی جس میں مقامی کوشش کا زیادہ حصہ تھا۔

مسجد کا ہال وغیرہ مکمل ہو گیا۔ نمازوں کی ادائیگی شروع ہو گئی تھی لیکن احاطے کی چار دیواری فنڈز نہ ہونے کے باعث نہیں بن رہی تھی۔ ایک دن علیٰ الصبح ڈاکٹر صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگےکہ مسجد کے پلاٹ کی چار دیواری ہمیں جلدی بنوانی چاہیےکیونکہ جانور مسجد کے احاطے میں داخل ہو جاتے ہیں جس سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ میں نے فنڈز کے نہ ہونے کا بتایاتوکہنے لگے اس چار دیواری پر جتنا خرچ آئے وہ مَیں ادا کروں گا۔ لیکن کسی کو اس کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک خاصا بڑا پراجیکٹ تھاجسے آپ نے اکیلے ہی مکمل کردیا۔ یہ اخلاص، محبت اور قربانی مسیح محمدی کی برکات کا فیض ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت نعیم میں جگہ عطا فرمائے۔

کیا خوب سودا نقد ہے

فرافینی جماعتی اعتبار سے گیمبیا کا ایک خاص قصبہ ہے۔ یہی وہ قصبہ ہے جہاں پر ڈاکٹر الحاج فرمان سنگھاٹے صاحب گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے سے قبل اپنا کاروبارحیات چلایاکرتےتھے۔

خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں پرایک بہت ہی مخلص جماعت ہے۔

ڈاکٹر سنگھاٹے صاحب کا مارکیٹ کے قریب برلب سڑک ایک خاصا بڑا قطعہ زمین تھاجس میں ان کی ایک فارمیسی تھی۔ بقول راوی ایک بار مولانا غلام احمد بدو ملہی صاحب امیر جماعت گیمبیا اس علاقے میں دورے پر تشریف لا ئے۔ ان دنوں جماعت کی کوئی اپنی مسجد نہ تھی۔ مکرم بدوملہی صاحب نے مکرم سنگھاٹے صاحب کو تحریک فرمائی کہ آپ اپنے پلاٹ میں سے ایک چھوٹا حصہ جوبرلب سڑک ہے وہ جماعت کے لیے وقف کردیں، بلکہ خود ہی اپنی چھڑی کے ساتھ نشان لگا دیاکہ اس حصہ پر مسجد بنوا دیں۔

مکرم سنگھاٹے صاحب نے مولوی صاحب کی درخواست پر لبیک کہتے ہوئے وہ جگہ جماعت کو دےدی۔ بعد ازاں احباب جماعت نے وہاں پر خستہ بلاکس کے ساتھ ایک چھوٹی سی مستطیل کمرہ نما مسجد تعمیر کردی ۔

یہ وہ مسجد تھی جس میں بہت سے مخلصین جماعت نے اپنے مالک و خالق کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کی ہوں گی۔

غالباً 1990ء کی بات ہے خاکسار نے محسوس کیا کہ مرور زمانہ کے ساتھ خستہ عمارت اَور خستہ ہو گئی ہےاور بفضل تعالیٰ جماعت کی تعداد میں ترقی اور اضافے کی وجہ سے اس مسجد کا دامن پناہ تنگ ہوچکا ہے۔ اس لیے ایک کشادہ جگہ کی ضرورت ہے۔ جہاں پر مربی ہاؤس اور مسجدتعمیر کیے جاسکیں۔ اب وہاں پر ایک مسجد، مشن ہاؤس اور ایک خوبصورت گیسٹ ہاؤس تعمیر ہو چکا ہے۔

ان دنوں خاکسار فرافینی میں بطور مربی سلسلہ خدمت سرانجام دے رہا تھا۔ میں نے جماعت میں تحریک کی کہ خانۂ خدا کی تعمیر کے لیے ہر کوئی اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لے۔ اُس دَور میں مرکز سے تعمیر مسجد کے لیے کوئی خاص مدد نہ ملتی تھی۔ بلکہ احباب جماعت کی مالی قربانی سے یہ کام ہوتا تھا۔ میں نے سب احباب جماعت کو اجتماعی اور انفرادی طورپر اس کارخیر میں حصہ لینے کی درخواست کی۔

اسی شب ایک مخلص نوجوان مکرم فوڈے صابالی صاحب جو بازار میں درزی کا کام کرتے تھے اور دوران ہفتہ کپڑے سی کر ہر ہفتہ کو ایک قریبی قصبے میں ہفتہ وار مارکیٹ میں لے جایا کرتے تھے۔ میرے گھر تشریف لائےاورکہنے لگے کہ میں مسجد کے لیے کچھ رقم پیش کرنا چاہتا ہوں۔

میرا خیال تھا کہ ممکن ہے یہ نوجوان پچاس یا سو ڈلاسی(گیمبین کرنسی ) کی رقم دے گا۔ مگر اس نےپورے ایک ہزار ڈلاسی کی رقم میرے سامنے رکھ دی۔ اس شخص کی گھریلو اور مالی کیفیت دیکھ کر یقین نہ آتا تھا۔ میں نے یہ سوچتے ہوئے کہ شاید اسے غلطی لگ رہی ہےحیرانگی سے اسے پوچھا کہ ساری رقم کی رسید کاٹنی ہے۔ اس پر اس نے اثبات میں سر ہلادیااور ساتھ کہنے لگےکہ میں نے گھر میں ایک ہزار ڈلاسی کسی غرض کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ آج آپ نے مسجد کی تعمیر کے لیے چندے کی تحریک کی ہے۔ اس پر میں نے سوچا میں اللہ کا کام کرتا ہوں۔ اللہ خود میرا کام کردے گا۔

اس واقعے کے چند روز بعد مجھے شام کی نماز پر ملے۔ بڑے خوش تھے کہنے لگے اللہ تعالیٰ نے میرے سارے پیسے نفع کے ساتھ واپس کردیے ہیں۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے میرے پاس میرے تیار کردہ قابل فروخت کپڑے ایک بڑی تعداد میں کافی عرصے سے پڑے ہوئے تھے۔ کئی بار بیچنے کے لیے ساتھ لے کر گیا لیکن کوئی گاہک نہیں ملتا تھا۔ آج جب میں مارکیٹ گیا تو سب پرانے تیار شدہ کپڑے بھی ساتھ لے گیاتاکہ جیسے بھی ممکن ہو ان کو سستے داموں نکال آؤں گا۔ کہنے لگے جب میں مارکیٹ میں پہنچا توابھی سامان کو ترتیب دے رہا تھا کہ گاہک آیا اور اس نے مجھ سے ان کپڑوں کے بارے میں پوچھا۔ میں نے حسب عادت ایک بڑی قیمت بتادی۔ اس پر وہ گاہک بولا ٹھیک ہے۔ اس نے ان سب کپڑوں کی قیمت میرے ہاتھوں میں تھمائی اورسامان اٹھالیا۔ میں نے جب حساب کیا تو بفضلہ تعالیٰ بہت فائدہ ہوا اور میری کئی ماہ کی محنت کا پھل چند لمحوں میں مجھے مل گیا۔ اس سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گاڑ دی کہ یہ خدا تعالیٰ کے ساتھ سودے کا نتیجہ ہے۔

چندےکی برکت سےگمشدہ سامان مل گیا

سینیگال کے ایک بہت معزز دوست جو لمبا عرصہ ممبر آف پارلیمنٹ رہ چکے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سی قومی خدمات سرانجام دے چکے ہیں ان کا نامDiakite Kabine Kaba صاحب ہے۔ ایک دن میرے پاس تشریف لائے اورکہنے لگے میں نے کافی عرصے سے چندہ نہیں دیا۔ اس لیے میرا حساب بنا دیں تاکہ میں اپنا چندہ ادا کر سکوں۔ میں نے ان کا حساب تیار کیا اور انہوں نے رقم ادا کر دی۔ میں نے کہا جزاکم اللہ۔ کہنےلگے جزاکم اللہ تو مجھے کہنا چاہیے۔ کیونکہ اس کارخیر میں شامل ہونے کے لیے آپ نے ہی تو مجھے تحریک کی ہے۔ اس لیے مجھے آپ کا مشکور ہونا چاہیے۔ اس کے بعد وہ اپنے شہر چلے گئے جو ڈاکار سے تقریباً475کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔

اگلے روز ان کا مجھے فون آیا۔ کہنے لگے جزاکم اللہ۔ میں نے کہا جزاکم اللہ کس خوشی میں۔ کہنے لگے کل جب میں ڈاکار سے تانبا کنڈا کے لیے روانہ ہوا۔ شام کے وقت میں Gosasکے قریب پہنچا۔ وہاں جنگل میں بر لب سڑک نماز مغرب ادا کی اور کچھ کھانا وغیرہ کھایا۔ اس کے بعد ہم لوگ اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ مجھے میرا بریف کیس دیں۔ ڈرائیور نے گاڑی میں بریف کیس تلاش کیا۔ مگرنہ ملا۔ بڑے پریشان ہوئے۔ سوچا کہ جہاں نماز ادا کی تھی۔ وہاں بھول آئے ہیں۔ چنانچہ گاڑی کا رخ ادھر کیا۔ لمبے سفر کے بعد اس جگہ پہنچے تووہاں اس کا نام و نشان نہ تھاجس سے مزید پریشانی ہوئی لیکن صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

کہنے لگے کہ اگلے روزصبح مجھے کسی آدمی کا فون آیا اور کہنے لگا کہ آپ کابنے کابا صاحب بول رہے ہیں۔ میں نے کہا جی میں کابنے کابا بول رہا ہوں۔ اس نے کہا آپ کا کوئی سامان گم ہو گیا ہے میں نے کہا جی ایک بریف کیس گم گیاہے اور اس میں سعودی عرب کا ایک ایئر ٹکٹ ہے۔ اور اس کے علاوہ بعض ضروری کاغذات، پاسپورٹ اور ایک ملین سیفا (پاکستانی ڈھائی لاکھ روپیہ) ہے اس نے بتایا کہ میں ایک انجینئر ہوں اور آپ کے علاقہ میں دورہ پر آرہا تھا۔ رات کو سڑک کے قریب ایک جگہ پر مجھے بریف کیس نظر آیا۔ تو مجھے احساس ہوا کہ کوئی مسافر بھول گیا ہے۔ میں نے گاڑی روکی اور کافی آوازیں دیں۔ مگر جواب ندارد۔ پھر اس کو میں نے اٹھا لیا۔ اس کو کھولا تو اس سے آپ کی بیان کر دہ اشیاء ملیں اور آپ کا ایڈریس اور فون نمبر بھی اس میں موجود تھا۔ اس طرح اب آپ سے رابطہ کر رہا ہوں آپ فکر نہ کریں۔ میں اس وقت آپ کے شہر کے فلاں ہوٹل میں ہوں۔ آکر اپنا سامان وصول کر لیں۔

کہنے لگے مجھے یقین نہیں آرہا تھا ایک خواب لگ رہاتھا۔ یہاں تو لوگ گرے ہوئے مال کو اٹھا کے مال غنیمت سمجھ کر بےدریغ استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ کونسا فرشتہ سیرت انسان ہے جس نے از خود رابطہ قائم کیا۔ اور سامان پوری حفاظت کے ساتھ واپس کر دیا۔ پھر میں نے سوچا یہ چندے کی برکت ہے جو میں ڈاکار میں ادا کر آیا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس قدر پریشانی اور نقصان سے بچا لیا ہے۔

جماعت کو پیدل نہیں چلنا چاہیے

گیمبیا کے شہر بصے میں ایک ڈاکٹر صاحب نصرت جہاں سکیم کے تحت ایک کلینک چلا رہے تھے۔ ان کا نام ڈاکٹر لئیق احمد فرخ تھا۔ انہوں نے ایک روز مجھے یہ خوبصور ت واقعہ سنایا:

کہتے کہ گھانا کے جس شہر میں وہ بطور ڈاکٹر خدمت کررہے تھے وہاں پر ایک بزرگ احمدی تھےجن کو الحاج کہتے تھے۔ (یہ بزرگ مکرم ابراہیم بن یعقوب مبلغ سلسلہ کے والد بزرگوار ہیں )وہ کافی دنوں سےمسجد میں پیدل چل کر نماز پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے انہیں پوچھا، الحاج کار پر کیوں نہیں آتے، کہنے لگے کار خراب ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ اس کی مرمت کروالیں۔ حاجی صاحب، بولے پیسے نہیں ہیں۔

اس کے کچھ عرصے کے بعد مسجد میں ایک جماعتی میٹنگ ہوئی۔ اس میں جماعت کاتبلیغی پروگرام زیر بحث تھا۔ بہت سی باتوں کے علاوہ ایک بنیادی بات یہ بتائی گئی کہ کافی عرصے سے مشن کی گاڑی خراب ہے۔ اس لیے تبلیغ کے کام میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ میٹنگ ختم ہوگئی۔ اگلے روز حاجی صاحب نے ایک نئی گاڑی بازار سے خریدی اور لا کر مشن ہاؤس میں جماعت کو تبلیغ کے لیے تحفے کے طور پر پیش کردی۔

اس کے بعد حاجی صاحب نے پھر مسجد میں پیدل آنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں میں نے پھر ایک دفعہ انہیں کہا کہ آپ گاڑی پر کیوں مسجد نہیں آتے ؟کہنے لگے۔ گاڑی خراب ہے۔ میں نے کہا ٹھیک کروالیں۔ کہنے لگے پیسے نہیں ہیں۔ میں نے کہا پہلے بھی آپ نے یہی بتایا تھا۔ مگر بعد میں آپ نے جماعت کو ایک نئی گاڑی خرید کر دے دی تھی۔

حاجی صاحب نے بتایا۔ ان دنوں میری مالی حالت درست نہ تھی۔ پھر اچانک میرا ایک باغ فروخت ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ اب ان پیسوں سے گاڑی لے لوں گا۔ اتفاق سے انہی دنوں جماعت کی میٹنگ تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ جماعت میں گاڑی نہ ہونے کے باعث تبلیغی کا م آہستہ آہستہ چل رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ میرے پیدل چلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر خدا کے مسیح کی جماعت کو پیدل نہیں چلنا چاہیے۔

یہ بزرگ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ یوکے پر تشریف لائے۔ میں ان کو خاص طور پر جا کر ملا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی جماعت سے محبت اور اخلاص کواور بڑھائے۔ اور اس کااجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔

ایک قدیم بیعت فارم

یہ 1998ء کی بات ہے سینیگال کے علاقہ Koldaمیں خاکسار دورے پر تھا۔ Sere Yoroنامی گاؤں میں پہنچا۔ وہاں بفضلہ تعالیٰ اچھی بڑی جماعت ہے۔ مکرم Demba Mballoصاحب وہاں کے امام ہیں بہت دلیر اور نڈر قسم کے داعی الی اللہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ایک قریبی گاؤں ہے وہاں پر ایک بزرگ احمد سیڈی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میرے پاس پروگرام کے مطابق وقت کی کمی تھی۔ میں نے کہا پھر اگلے دورے پر ان سے مل لیں گے۔ مگر ڈمبا امبالو صاحب نے اصرار کیا کہ آج ضرور مل لیں۔ خیر ہم لوگ تیار ہو گئے اور مکرم احمد سیڈی صاحب کے گاؤں پہنچے۔ مکرم احمد سیڈی صاحب کی عمر 77سال کے لگ بھگ ہو گی۔ عربی زبان کے عالم اور اپنے علاقے کے امام ہیں۔

علیک سلیک ہوئی مل کر بہت خوش ہوئے۔ ان کا چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنی ایک قمیص کی جیب سے کچھ کاغذا ت نکالے۔ پھر ان میں سے ایک بہت پرانا اور بوسیدہ کاغذ جو اپنی طوالت عمری کے باعث بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ اس کو الگ کیا اور کھول کر مجھے دکھایا، یہ بیعت فارم تھا جو انہوں نے غالباً عرصہ تیس سال سے جیب میں ڈال رکھا تھا۔ اور انہوں نے بتایا جس سال اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بیٹے سے نوازا تھا یہ اس سال میں مجھے ملا تھا۔

میں نے پوچھا یہ بیعت فارم آپ کو کیسے ملا۔ انہوں نے بتایاکہ میرے ایک کزن اس زمانہ میں بیت اللہ شریف بغرض حج گئے تھے۔ وہاں پر ان سے بعض احمدی احباب کی ملاقات ہوئی تھی ان کی تبلیغ پر میرے بھائی احمدی ہو گئے تھے وہ گنی بساؤ کے رہنے والے تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بیعت فارم مجھے دیا اور کہا تھا کہ دنیا میں اگر صحیح مذہب ہے تو جماعت احمدیہ، اس لیے اس وقت سے یہ بیعت فارم بھر کر میں نے اپنی جیب میں ڈالا ہواہے۔ مگر آج تک کسی مرکز سے آنے والے احمدی سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ اور میری شدید خواہش تھی کہ جماعت کے کسی مبلغ سے ملاقات ہو جائے۔ آپ پہلے آدمی ہیں جن سے میری ملاقات ہوئی۔ اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی ہے۔ اب ماشاء اللہ بہت ہی Activeاور مخلص احمدی ہیں۔

مکرم برادرم مالک گئی صاحب

گذشتہ سال میں سینیگال کے دورہ پر گیا ہوا تھا۔ تو میرے ایک نہایت ہی پیارے عزیز نے مجھے کہا کہ میں نے ڈاکار میں ایک نئےمکان کی تعمیر شروع کی ہے۔ اس کے لیے دعا کریں۔ یادرہے کہ ڈاکار افریقہ کے مہنگے ترین شہروں میں سے ہے۔ وہاں پر ایک اچھے علاقے میں مکان تعمیر کرنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں۔ بہر حال یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربانی کرنے والوں کی تائید ونصرت کا وعدہ پورا ہونے پر اور زیادہ خوشی ہوئی۔

تعارف

سینیگال میں جماعت کے ایک لوکل معلم مکرم احمد گئی صاحب ہیں جو سینیگال کے ایک شہر کولخ کے رہنے والے ہیں۔ 1998ء کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے ایک برادر اصغر مالک گئی صاحب کو میرے پاس ڈاکار میں بھجوا یاتاکہ ان کے لیے کسی چھوٹی موٹی ملازمت کا انتظام کردوں۔ اس وقت اس نوجوان کی عمر بیس سال کے لگ بھگ تھی۔ میں نے اسے مشن ہاؤس میں بطور خادم رکھ لیا۔ اس دوران میں نے محسوس کیاکہ یہ نوجوان نہایت ایمان دار اور بہت مخلص ہونے کے ساتھ بہت محنتی اور ذہین بھی ہے۔

سفر ہے شرط

میں نے اسے ایک روز سمجھایا کہ دیکھو تم مشن میں خادم کا کام چھوڑ کراپنی عمر اور تعلیم کے مطابق کام تلاش کروتو تمہارے لیے بہت بہتر ہوگا۔ کیونکہ یہ کام تو کوئی معمولی پڑھا لکھا ور بوڑھا آدمی بھی کرسکتاہے۔ اس لیے میں نہیں چاہتا کہ تم ساری عمر اس جگہ بیٹھ کر اپنی استعدادوں کو ضائع کرو۔ اس کو میں نے کافی سمجھایا لیکن اسے ایک خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے جاکر کہیں اور کام نہ ملے۔ کیونکہ میرے پاس تو اسے کھانے کے ساتھ رہائش کی بھی سہولت میسر تھی۔ جو بڑے شہروں میں بڑی نعمت ہوتی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم جا کر کہیں بھی کام تلاش کرو۔ لیکن اس دوران تمہارے قیام وطعام کا انتظام میرے پاس رہے گا۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔ خیر اس نوجوان نے کچھ چھوٹا موٹا سامان خریدا اور مختلف گلیوں اور بازاروں میں چکر لگا کر اسے بیچنا شروع کردیا۔ اب اس نے محسوس کیا کہ میرایہ کا م پہلے کام سے تو بہت بہتر ہے۔ آزادی بھی ہے، مختلف لوگوں سے تعلقات اور دوستی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اور پھر شہر کی گلیوں کوچوں سے بھی آشنائی شروع ہوگئی ہے۔ پھرکام سے فراغت کے بعد مشن ہاؤس میں آکر ہمارے ساتھ نمازیں ادا کرتا اور اگر کوئی جماعتی خدمت ہوتی تووہ بھی بخوشی سر انجام دے دیتا۔

وصیت کی تحریک

میں نے اسے ایک روز سمجھایا کہ برخوردار اگر تم اپنے مالی حالات میں کشائش چاہتے ہو تو پھر اللہ میاں کے ساتھ سودا کرو۔ کہنے لگا وہ کیسے۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم اس کے راستے میں ایک دوگے وہ تمہیں دس سے نوازے گا۔ اور اس کے لیے بہترین طریق یہ ہے کہ تم وصیت کر لو۔ اس نوجوان نے اسی روز وصیت کر لی اور پھر بڑی ایمان داری اور اخلاص کے ساتھ اپنی آمد کا دسواں حصہ جو کہ بظاہر بہت ہی معمولی رقم تھی۔ جوصرف 500 فرانک تھی اسے ادا کرنا شروع کردیا۔ لیکن خدا تعالیٰ مال کی ظاہری قدرو قیمت تو نہیں دیکھتا وہ تومحض نیتوں کو دیکھتا ہے۔

خدائی وعدہ کے ثمرات کا آغاز

چند ماہ کے بعد اس کا ایک دوست جو ایک پریس میں سیکیورٹی کا کام کرتا تھاکو رخصت پر جانا پڑا۔ اس کی عدم موجودگی میں اس نوجوان کو عارضی ملازمت مل گئی۔ اب اس کی تنخواہ پہلے سے ڈبل ہوگئی۔ اس لیے اس نوجوان نے اسی حساب سے چندہ بھی ڈبل کردیا۔ اس دوران اس پریس کے مالک نے اس نوجوان کے اعلیٰ اخلاق اور ایمانداری اور تعلیمی قابلیت سے متأثر ہوکر اپنے پاس پریس میں ایک اچھے کام پر رکھ لیا۔ اب اس کی تنخواہ مزید بڑھ گئی۔ اس لیے اس نے پہلے چندے کے مقابل پر پانچ گنا زیادہ چندہ ادا کرنا شروع کردیا۔

ان دنوں میرے ایک غیر احمدی دوست ایک بینک کے مدارالمہام تھے۔ ایک دن میں نے ان سے اس نوجوان کے بارے میں بات کی کہ اس کو اپنے بینک میں ملازمت دلوادیں۔ انہوں نے اگلے دن ہی اس کو اپنے بینک میں حاضر ہونے کے لیے کہا۔ جب یہ نوجوان حاضر ہواتو مختصر سے انٹرویو کے بعد اسے ملازمت پر رکھ لیا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے بڑی محنت اور اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیےاور بینک کی مدد سے بینک سے متعلقہ بعض کورسز بھی کرلیے۔

آپ تصور کریں کہ اس نوجوان نے وصیت کے بعد 500 فرانک چندہ دینا شروع کیا تھا۔ اب خداتعالیٰ کے فضل سے ماہانہ 80؍ہزار فرانک چندہ وصیت ادا کرنے کی توفیق پارہا ہے۔ اللّٰہم زد فزد۔ اور بہت سے اور بھائیوں کے لیے خدائی وعدوں پر ایمان لانے کا سبب بھی ہے۔ اور جماعت احمدیہ سینیگال میں مرکزی سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کی توفیق بھی پارہے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button